اسلامی حکومت سرحد: پس چہ باید کرد

کے ایم اعظم

(درج ذیل مقالہ ۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا۔ مقالے کا ابتدائی حصہ موضوع سے براہ راست متعلق نہ ہونے کی بنا پر شامل اشاعت نہیں کیا جا رہا۔ مدیر)


ملک کے پژمردہ پس منظر میں حالیہ انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی غیر معمولی کام یابی امید کی ایک کرن لے کر آئی ہے مگر کئی ایک زعمانے اس شک کا بھی اظہار کیاہے کہ یہ کا میابی اسلامی نقطہ نگاہ سے شاید خاطر خواہ نتائج پر منتج نہ ہوگی۔ معاشرتی طور پر پاکستان کے مسائل نہایت گھمبیرہیں۔ان کا کوئی حل بنیادی اور سٹرکچرل تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بہرحال اس یاد داشت کا مقصد ایک ایسے قابل عمل پروگرام کی تشکیل ہے جس پر فوری طور پر عمل پذیر ہوکر اسلامی حکومت سرحد سرخرو ہوسکتی ہے۔ مجھے تو اس میں بھی مشیت الٰہی نظر آرہی ہے کہ ایک مکمل اسلامی حکومت صرف صوبہ سرحد میں ہی تشکیل پذیر ہوئی ہے ،کیونکہ صوبہ سرحد میں اسلامی نظام کے قیام میں دوسرے صوبوں کی نسبت کم مشکلات پیش آئیں گی۔ اس کی بڑی وجہ وہاں کا قبائلی نظام اخلاق ومعاشرت ہے۔ حکومت سرحد کو میرامشورہ یہ ہے کہ فی الحال صرف چارمحاذوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور وہ ہیں: عدل وانصاف ،تعلیم، احتساب اور معیشت۔

۱۔ نظام تعلیم 

ہمارامرکزی مسئلہ انسان سازی کا ہے اور یہ دقت طلب اور صبرآزما کام ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی منزل کا غیر مبہم شعور ہونا چاہیے تاکہ اس کے حصول کے لیے جس قسم کے انسان ہمیں درکارہوں ،اسی قسم کا نظام تعلیم ہم تشکیل دے سکیں۔ پاکستان کو اس وقت ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو توحیداور اتباع رسولﷺمیں اولوالعزم ہوں اور جن کا جذبہ ایمانی اقداراورافکار کی حدودسے گزرکر کر دارکا حصہ بن گیاہو۔ وہ ایسے رجال ہوں جو دنیاکی دونو ں بڑی طاقتوں، خوف اور طمع پر توحید الٰہی کی ضرب کا ری لگاچکے ہوں اوران کی تیغ برہنہ کے پیچھے جذبہ ایمانی، فراست دینی، تعلق باللہ، حب رسولﷺ، بلندی فکراور جوش عمل کا ایک حسین امتزاج ہو۔ مزید براں ان کے دلوں میں یہ یقین کامل گھر کر چکا ہوکہ سب سے بڑی حکمت اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس سے سچی محبت ہے۔ ہر پاکستانی کو بھی اس کا شعور ہوناچاہیے کہ پاکستان کواسلام کا مضبوط قلعہ تبھی بنایاجاسکتاہے جبکہ ہم میں سے ہر ایک بجائے خود اس کا ایک چھوٹا ساقلعہ بن جائے۔جب تک ہمارانظام تعلیم باکردار ،حق گو اور انسان دوست افراد پیدا نہیں کرے گا،جمہوریت کی روایت ہمارے معاشر ہ میں جڑنہ پکڑسکے گی۔ہمارابنیادی مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی، معاشرتی اور دینی ادارے ایسے روشن ضمیر،درخشاں جبیں اور دلکش مسلما ن پیدانہیں کر پارہے جن کو دیکھنے کی آرزواور تمناہم میں سے ہر کو ئی اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مدارس ،مساجد اور خانقاہیں تو موجود ہیں مگران میں فکر ودانش اور وجدان کی شمعیں گل ہوچکی ہیں۔انسان سازی میں ہماراالمیہ یہ ہے کہ جو منکسر مزاج ہے ، وہ کمزور ہے اور جو طاقتور ہے، وہ ظالم ہے ۔ جو صاحب علم ہے، وہ صاحب کردار نہیں اورجو صاحب کردار ہے، وہ صاحب حکمت نہیں۔جو صاحب ایمان ہے ،وہ صاحب عمل نہیں اور جو صاحب عمل ہے ،وہ بے ایمان ہے۔موجودہ نا قص نظام تعلیم کے تحت سوفیصد خواندگی سے بھی ہمارے ہاں جمہوری روایت قائم نہ ہوگی بلکہ وہ ایسے لوگ ہی پیداکر ے گاجن کا مطمح حیات دولت کمانے کے لیے سیاسی قوت حاصل کر نا ہوگایاپھر سیاسی قوت حاصل کر کے دولت کمانا۔

ہمارے نظام تعلیم کا مقصد ایسے انسان پیدا کر نا ہوناچاہیے جو ماضی سے پر جو ش تعلق کو قائم رکھتے ہوئے معاشر ہ کو مستقبل کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔یقیناًوہ ایسے افراد نہیں ہونے چاہییں جن کا مستقبل ان کے ماضی میں ہو۔ مزید وہ ایسے انسان ہوں جن میں اپنے زمینی حالات کا صحیح ادراک کرکے کارگرحکمت عملی بنانے کی صلاحیت ہو۔ ہماری دینی تعلیم کا مقصد ان مذہبی رسم ورواج سے آزادی ہوناچاہیے جنہوں نے انسان کے فکروعمل کو اپناقیدی بنایا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم کے خدوخال کی نشاندہی اللہ جل جلالہ نے رسول اکرم ﷺکو تفویض کیے گئے چار فرائض کے ذریعے کر دی ہے اور یہ ہیں: تلاوت، تزکیہ نفس، کتاب کی تعلیم اور حکمت کا سکھانا۔ (البقرہ)

ہمارے نظام تعلیم کا ہدف کر دار سازی کے علاوہ اپنے تلامذہ میں صلاحیت اور حوصلہ پیداکر کے استعماری تہذیب اور اس کی عریاں ثقافت کے سامنے بند باندھنا ہونا چاہیے۔ ہمارے موجو دہ تعلیمی ادارے انسان سازی میں ناکا م رہ گئے ہیں۔ تاریخ عالم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تاریخ سازی میں صرف صاحب کردارلوگوں ہی نے رول اداکیاہے ۔منافقوں کا اس میں کوئی رول نہیں ہے ۔اگر پاکستان کو اس کے انحطاط سے نکالناچاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ایک مثبت پروگرام (تعلیم وتربیت اور میڈیا)کے تحت پاکستانیوں کو منافقت کی دلدل سے نکالیں ۔ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ منافقت سے نجات حاصل کیے بغیر ہماری کوئی بھی جدوجہد کا میابی سے ہمکنارنہ ہوگی ۔

منافقت کانصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بڑاکٹھن ہے خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھنا 

۲۔ عدل وانصاف

اقتصادی اورمعاشرتی سرگرمیاں صرف قانونی، اقتصادی اور معاشرتی عدل وانصاف کے ڈھانچے میں جاری وساری رہ سکتی ہیں۔ جب تک کسی معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، اس وقت تک معاشر ے کے ارکا ن کو یہ اطمینان نصیب نہیں ہوتاکہ ان کی محنت اور مشقت کا صلہ انہیں کسی رکا ٹ اوردشواری کے بغیرملتارہے گا۔ایسی یقین دہانی اور اطمینان کے بغیر معاشرے کا کو ئی شخص بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ تاریخ عالم اس امرکی واضح طور پر شہادت دیتی ہے کہ دو نظام دنیامیں کبھی نہیں چل سکتے ۔ایک وہ اقتصادی نظام جس میں سرمایہ کا ری کی صلاحیت اور گنجائش موجودنہ ہو اور دوسرا وہ سیاسی نظام جس میں جبر وتشد اور ظلم وستم کا رفرما ہو، اور جس کا رخ عوام کی فلاح وبہود اور مسرت وخوش حالی کی طرف نہ ہو۔

۳۔ احتساب

ہر وہ معاشر ہ اور سیاسی نظام جو انقلابی خصوصیات کا حامل ہواور جامدنہ ہو، اس میں اصلاح اور تنزل کے ہر دو رجحانات بیک وقت موجود ہوتے ہیں ۔ ان رجحانات کی اصلی وجہ اندرونی اور بیرونی یاباطنی اور خارجی دونوں ہوسکتی ہیں ۔ایک کمزور نظام ،جیساکہ ہماراموجودہ نظام ہے ،اورجس کی بنیاد نوآبادیاتی ورثے پررکھی گئی ہے گزشتہ نصف صدی سے تنزل اور تباہی وبربادی کے اثرات تیزی سے قبول کررہاہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ یہ نظام فرسودہ ہونے کی وجہ سے جان کنی کے عالم میں ہے ۔

انقلابی اورحر کی نظام ہر آنے والے چیلنج کاموثرمقابلہ کرتاہے اوراس احتساب کی بدولت مزید طاقت حاصل کر کے زندہ وقائم رہتا ہے لیکن اس کے برعکس پیش آنے والے ہر چیلنج کا متحد ،منظم اور مستحکم ہوکرمقابلہ کر نے کی بجائے ہماری قوم کا ردعمل ہمیشہ منقسم ،منتشر اور کمزور رہا ہے۔ ہماری قوم کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ہم مشکل اور خرابی کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈال کر خود بچ نکلنے کی کوشش کر تے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ہم میں دوسری قوموں کے مقابلے میں برے افراد کی تعداد زیادہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اچھے لوگ،اتنے اچھے نہیں جتنا انہیں ہوناچاہیے تھا اور درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو بحران اور پیش آنے والے چیلنج کے موقع پر کھڑے ہوکر اور ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر تے۔ حکومت سرحد کو چاہیے کہ مثبت اورقومی نظام احتساب قائم کر کے لوگوں پر یہ عیاں کر دے کہ اب ظلم اور برائی کر کے ان کے لیے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہ ہوگی ۔ نیز حکومت سرحد کو چاہیے کہ تمام اموال فاضلہ بحق سرکارضبط کر کے اپنی مالی پوزیشن مضبوط کر لے ۔

۴۔ معیشت 

پاکستان میں اب تک اسلامی نظام معیشت پر اتناکام ہوچکاہے کہ اسلامی اقتصادی ماڈل کے خدوخال پوری طرح عیاں ہوگئے ہیں۔حکومت سرحدکو چاہیے کہ وفاقی حکومت (وزارت مالیات اور وزارت مذہبی امور)اور اسٹیٹ بنک کی ساری رپورٹیں اور یادد اشتیں حاصل کر لے۔بہر حال ان کو میرا مشورہ یہ ہے کہ چونکہ موجودہ معاشی اور معاشرتی حالات میں اسلامی اقتصادی ماڈل کی تمام شرائط پوری نہ ہوسکیں گی، اس لیے وہ ابھی غیر سودی نظام کے قیام کی دلدل میں نہ پھنسے بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے اقدام کرے تاکہ عوام کو ان کی اصلاحات سے براہ راست فائدہ پہنچ سکے۔

کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی

اس اسلامی فلاحی نظام کے قیام کے سلسلہ میں میری تدابیر اور تجویزات یہ ہیں:

۱۔ ماضی اور مستقبل کے ان تمام قرضوں پر جو غریب طبقات نے بنیادی ضروریات زندگی کے لیے حاصل کیے ہوں یا لیے جائیں مثلاً مکان ،صحت اور تعلیم ،سودمعاف کر دیاجائے۔

۲۔ دیانت داری پر مبنی کا روبار کی تشہیر کی جائے اور سٹہ بازی کی روک تھام کے ذریعے سرمایہ کا ری مارکیٹ کو مستحکم کیاجائے ۔

۳۔ سادہ زندگی بسر کر نے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ٹھاٹھ باٹھ پر مبنی شاہانہ اخراجات کا خاتمہ کیاجائے ۔

۴۔ رشوت ستانی اور بدعنوانی کا خاتمہ کر کے ہمارے تعلیمی نظام کو بین الاقومی معیار کے مطابق لایاجائے۔

۵۔ مسکین اور بے کس لوگوں کے لیے انصاف کو یقینی بنایاجائے کیونکہ عدل وانصاف کے بغیر کوئی معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔

۶۔ اعلیٰ سطح پر جاری کر پشن، رشوت اور بدعنوانی کا فوری طور پر خاتمہ کیاجائے ۔ہمیں یہ جان لیناچاہیے کہ کرپشن کا مطلب صرف رشوت نہیں ہوتابلکہ سرکا ری عہدہ پر فائزہوتے ہوئے اپنے عہدہ کا ناجائزاستعمال نیز خود غر ضی پر مبنی طاقت کا استعمال اور ہر قسم کے نامناسب اور ناموزوں طریقے کرپشن کی ذیل میں آتے ہیں ۔

۷۔ تمام سرکا ری اداروں سے سیاست کااثر ورسوخ اور عمل دخل یکسر ختم کیاجائے اور انہیں اس قابل بنایاجائے کہ وہ تمام بھرتیاں، تبادلے اور تعیناتیاں صرف قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر کر یں ۔

۸ ۔ تمام افرادکے لیے روزگار کا انتظام کیاجا ئے اور اس سلسلے میں روزگار کے لیے دس لاکھ تک مالیت کے قرضے بغیر سود ائمہ مساجد کی اخلاقی ضمانت پر دیے جائیں ۔

۹۔ سب لوگوں کو رہائش فراہم کی جا ئے،کم آمدنی والے لوگوں کو رہائش دی جائے جبکہ درمیانے درجہ کی آمدنی والے لوگوں کو آسان قسطوں پرمکانات خرید نے کی سہولیات دی جائیں ۔

۱۰۔ سب لوگوں کو صاف، تازہ اور مصفا پانی پینے کے لیے فراہم کیا جائے۔ نیز نکاسی آب کا بہترین بندوبست کیاجائے۔

۱۱۔ تمام افراد کے لیے مناسب اور موزوں لیکن مفت صحت کی خدمات مہیاکی جائیں۔

۱۲ ۔ میٹرک کی سطح تک مفت لازمی تعلیم فراہم کی جائے اورمیٹرک سے اوپرکے درجوں میں قابلیت کی بنیاد پر مفت اور رضاکا رانہ تعلیم کا انتظام کیاجائے ۔

۱۳۔ تمام غریبوں اور مفلسوں کے لیے سوشل سکیورٹی کی خدمات کا اجرا کیا جائے۔ مزید براں بے روزگاروں اور معذور افراد کو بھی یہ سہولتیں مہیاکی جا ئیں۔

۱۴۔ مناسب مزدوری، معاوضوں ،تنخواہوں اور پنشن کا بندوبست کیاجا ئے ۔

۱۵۔ دولت کے غیر قانونی ارتکا زاور پیداواری وسائل پر ناجائز ملکیتوں کا بالکل خاتمہ کر دیاجائے ۔اس طرح پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے اللہ تعالی کی جانب سے عطا کیے گئے رزق پر تمام غیر قانونی قبضے ختم ہو جا ئیں گے۔

۱۶۔ معاشر ے سے ہر قسم کے ظلم وجبر ،جو رواستبداد اور زیادتی واستحصال کا خاتمہ کر دیاجائے اور اسلام کے عطاکیے گئے اصولوں یعنی عدل واحسان کے ذریعے معاشرتی توازن قائم کیاجائے ۔

آراء و افکار

(اپریل ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter