یکم اکتوبر ۲۰۰۴ کو وزیرِ اعظم ملائشیا جناب عبد اللہ احمد بداوی نے میگڈیلن کالج آکسفرڈ یونیورسٹی (برطانیہ ) کے آکسفرڈ مرکز برائے مطالعہ اسلامیات میں خطاب کیا ۔ اس خطاب میں پیش کیے گئے نکات کی عمومی نوعیت شاید ہمارے لیے اس اعتبار سے اہم نہ ہو کہ یہ معمول کی باتیں ہیں اورہمارے ہاں زیرِ بحث آتی رہتی ہیں، لیکن جناب عبداللہ احمد بداوی کی فکر کا اظہار چونکہ ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہو رہا تھا جو نہ صرف علومِ حاضرہ کے ایک مستند ادارے کی شاخِ زریں ہے بلکہ اس کی بین الاقوامی اہمیت بھی مسلّم ہے، اس لیے اس خطاب کی نوعیت، عمومیت کے دائرے سے باہر آجاتی ہے۔
خطاب کے آغاز میں وزیرِ اعظم ملائشیا اپنی تین حیثیتوں (۱۔ راسخ العقیدہ مسلمان، ۲۔ کثیر المذاہب قوم کا وزیرِ اعظم اور ۳۔ او آئی سی کا چےئر مین) کا ذکر کر کے خطاب کے متوازن اور کثیر الجہات ہونے کا اشارہ کر دیتے ہیں۔ پھر وہ اختصار سے اسلام کے عروج و زوال کی داستان بیان کرتے ہیں ۔ ہماری رائے میں مسلم تاریخ کے درخشندہ پہلوؤں کے بیان میں جناب عبداللہ احمد بداوی نے توازن کا دامن تھامتے ہوئے بھی حالیہ مسلم نفسیات کی نمائندگی کرتے ہوئے ’’عدمِ توازن‘‘ سے کام لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آٹھویں صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک مسلم تہذیب و ثقافت بلندیوں تک پہنچ گئی اور شرح خواندگی قرونِ وسطیٰ کے یورپ سے ’’مقابلتاً ‘‘ زیادہ تھی۔ جناب عبداللہ نے یورپ کو ’’جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا‘‘ کہنے سے گریز کر کے توازن قائم رکھا ہے، لیکن شرح خواندگی کے مقابلتاً زیادہ ہونے کو ’’قابلِ فخر ‘‘ انداز سے پیش کر کے عدمِ توازن کی سرحدوں کوبھی چھو لیا ہے۔ ہمارے ایک نہایت محترم بزرگ جناب سید عماد الدین قادری نے چند دن پیشتر ہی اپنے ایک خط میں یہ ذکر کر کے ہماری معلومات میں اضافہ کیا تھا کہ ۳۵۰ ہجری کے لگ بھگ سلطنتِ عباسیہ میں شرح خواندگی صرف ۵فیصد تھی۔ ہماری رائے میں جس تہذیب کا نقطہ آغاز ہی ’’اقرا ‘‘ ہو، کم از کم اس کے دور عروج میں شرح خواندگی دوسری تہذیبوں سے ’’مقابلتاً‘‘ زیادہ ہونے کے بجائے ۱۰۰ فیصد ہونی چاہیے تھی۔ (خیال رہے کہ اس وقت امریکی اور یورپی تہذیب میں شرح خواندگی مسلم تہذیب سے مقابلتاً زیادہ نہیں، بلکہ تقریباً ۱۰۰ فیصد ہے ) ۔
جناب عبداللہ احمد بداوی کا یہ کہنا بجا ہے کہ مسلمانوں کی داخلی خامیوں اور کوتاہیوں پر خود تنقیدی اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت بھی منہ پھاڑے کھڑی ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط و زوال کا ایک سبب وہ خارجی پالیسیاں بھی ہیں جن کے ذریعے سے دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تفصیل سے بچتے ہوئے فلسطین، عراق اور ایران کو بطور کیس سٹڈی لینے پر اکتفا کیا۔ جناب عبداللہ کے مطابق اسرائیل ’’ریاستی دہشت گردی ‘‘ کا مرتکب ہو رہا ہے اور دنیا ہے کہ دہشت گردی کو محض غیر ریاستی یا نیم ریاستی سیاق و سباق میں دیکھنے پر مصر ہے جس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے کا جو جواز گھڑا گیا تھا، وہ جھوٹ کا پلندا ثابت ہوا ہے ۔ وزیرِ اعظم ملائشیا نے یہ نکتہ بھی درست اٹھایا ہے کہ اگر صدام ظالم تھا تو اقدامی جنگ بھی اتنی ہی ظالمانہ ہے کہ اس کا کوئی معروضی معیار نہیں اور مسلم دنیا خوامخواہ اقدامیوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ یہاں برطانوی وزیرِ اعظم جناب ٹونی بلےئر کے ۲۴ ؍اکتوبر ۲۰۰۴ کو لیبر پارٹی سے کیے جانے والے خطاب کا تذکرہ بر محل ہو گا جس میں انھوں نے گوہر افشانی کی ہے کہ عراق، اس سے متصل خطے اور پوری اسلامی دنیا میں جمہوریت، انسانی حقوق کی علمبرداری، آزادانہ معیشت اور امن و امان وغیرہ کے لیے مداخلت اور اقدامی کارروائیاں ضروری ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم سمیت مغربی دنیا کے دیگر لیڈروں کے ان ’’معقول اور نیک محرکات ‘‘ کا تیا پانچہ جناب عبداللہ احمد بداوی نے یکم اکتوبر کی زیرِ بحث تقریر میں یہ کہہ کر، کر دیا ہے کہ End cannot justify the means ۔ سیاست کی ابجد سے واقف شخص بھی اس فقرے کے پس منظر سے پوری طرح آگاہ ہے کہ یہ ’’میکاولی فکر‘‘ کے محور End justifies the means میں مضمر غیر اخلاقی اور غیر انسانی روش کی مکمل نفی اور ضدپر مبنی ہے۔ بڑی موٹی سی بات ہے ، بھلا اچھے مقاصد برے ذرائع سے کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ صرف الہٰیاتی اخلاقیات ہی نہیں بلکہ الحادی اخلاقیات بھی اچھے مقاصد کے لیے ’’برے ذرائع‘‘ اپنانے کا درس نہیں دیتی۔ ہماری رائے میں پوری مغربی دنیا کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس وقت اخلاقی اعتبار سے کہاں کھڑی ہے ؟ جبر کے راستے سے جمہوریت کا نفاذ؟ کتنا بڑا تضاد ہے!کیا جمہوریت کی ترویج کے لیے ہی کم از کم ایک لاکھ عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتار ا گیا ہے؟
جناب عبداللہ بداوی نے یہ بھی درست نشاندہی کی ہے کہ اسلام کی غلط تصویر کشی گیارہ ستمبر کے بعد کے دور کا مظہر نہیں بلکہ اس ’’روشن خیالی‘‘ کا اظہار تو والٹےئر، بیکن اور رینان وغیرہ نے بہت پہلے کرنا شروع کر دیا تھا ۔ ایسے تاریخی پس منظر اور مغربی میڈیا کے موجودہ یک رخے جذباتی پن سے اصلاحِ احوال کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی ، خاص طور پر اس تناظر میں کہ مسلم دنیا کے داخلی تنوع اور ترقی پسندرجحانات کو مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔
وزیرِ اعظم ملائشیا نے ’’عمدہ طرز حکمرانی ‘‘ کے تذکرے میں قرآنِ مجید کے آفاقی اصول ، نبی پاکﷺ اور خلفاء راشدین کے طرزِ عمل کی مثالیں دینے کے ساتھ ساتھ فقہا کے استدلالات کا ذکر بھی بر محل اور بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ عمدہ حکومت کے اسلامی تصور پر بحث کے ضمن میں احتساب اور عدلیہ کی آزادی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب احمد بداوی نے مسلم دنیا کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔
اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کی ضرورت کے حوالے سے جناب عبداللہ بداوی نے کہا کہ روایتی فکر اور رائے کی اندھا دھند تقلید سے اسلام کو غیر متحرک اور جامد نہیں بنا دینا چاہیے ۔ اس سلسلے میں اعتدال اور عقل پسندی پر مبنی نئی آوازوں کو خوش آمدید کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ موجودہ دنیا میں فاصلے سمٹنے اور باہم مربوط نئے سیاسی اور معاشی اداروں کے جنم لینے سے عصری مسلم معاشروں کو درپیش مسائل چھٹی صدی کے مسائل سے کافی مختلف ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے عصری اجتہاد کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے احمد بداوی نے شریعت کے ساتھ ساتھ ’’مقاصدِ شریعت ‘‘ کی طرف بھر پور توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اور بجا طور پر امام غزالی ؒ اور شاطبی ؒ جیسے مسلم مفکرین کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے کام کی نوعیت کو پھیلانے کی بات کی ہے۔ ہم جناب عبداللہ بداوی سے متفق ہیں کہ آج کی دنیا میں بھی مقاصدِ شریعت پر فوکس کرنے کی اشد ضرورت ہے ، لہٰذا عصری اجتہاد کی بنیاد ’’مقاصدِ شریعت ‘‘ ہو نے چاہئیں، کچھ اس طرح کہ عصری اجتہاد :
(۱) مقاصد کی پیداوار معلوم ہو ۔
(۲) مقاصد کی طرف گامزن کرنے والا ہو ۔
(۳) مقاصد کی حفاظت کرنے والا ہو ۔
ہماری رائے میں تو اس حوالے سے ایک ’’خاص رویے ‘‘ کی آبیاری کی ضرورت ہے جو قانون اور اصول و ضوابط کو خود مقصد سمجھنے کے بجائے انھیں مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھے ۔ اس وقت ہمارے ہاں علما کے ہاتھ میں ’’فقہی ڈنڈا‘‘ ہے تو بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ’’سرخ فیتہ‘‘ اور بے چاری عوام چکی کے ان دو پاٹوں کے درمیان۔ (خیال رہے کہ سرخ فیتہ بھی اسی طرزِ عمل کا نام ہے کہ قانون کی منشا کی بجائے قانونی موشگافیوں اور قواعد و ضوابط کی گتھیوں میں ہی معاملے کو الجھا کر رکھا جائے) شاید اسی لیے ہمیں اونٹ نگلنے اور مچھر چھاننے کے مناظر معاشرے میں کثرت سے نظر آتے ہیں۔ اس سے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔
وزیرِ اعظم ملائشیا نے سورۃ بقرہ کی آیت ۱۴۳ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اس یقین کا اعادہ کیا ہے کہ یہ آیت درحقیقت مسلمانوں کے لیے ’’الٰہیاتی یاددہانی‘‘ ہے کہ وہ ہمیشہ اعتدال کی راہ اپنائیں اور انتہا پسندی سے گریز کرتے رہیں۔ جناب احمد بداوی نے مسلم تحریکوں کی موجودہ تیز لہر پر تند و تیز تبصرہ کیا ہے کہ ان میں سے بعض مشنری، متشدد اور غیر سیاسی ہیں، لیکن جو تحریکیں سیاسی ہیں، وہ بھی اقتدار میں آکر ایسے عزائم کی تکمیل چاہتی ہیں جو موجودہ سیاسی نظام سے متصادم ہیں۔ جناب احمد بداوی نے اسلامی تحریکوں کی بابت ہمدردی کے دو بول بھی شاید اس لیے نہیں بولے کہ وہ خود سیاست میں ہیں اور ان کی سیاست ’’انتہاپسندی کی مخالفت ‘‘ سے ہی چمکتی ہے کہ انتہاپسند ان کے سیاسی حریف ہیں۔ ہم خود بھی Holier-than-thou (ہم تم سے زیادہ دین دار ہیں) جیسے غیر اسلامی اور غیر انسانی نعرے کے قائل نہیں ہیں۔ ہماری رائے میں اکثر اسلامی تحریکوں کی انتہاپسندی کا محرک بھی یہ نعرہ نہیں بلکہ داخلی سطح پر مسلم حکمرانوں کا طرزِ عمل اور خارجی سطح پر مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں ہیں۔اگر نفسیاتی اعتبار سے دیکھیں تو انتہا پسندی ، مسلم دنیا کا ’’المیہ کردار ‘‘ ہے اور المیہ کردار وہ ہوتا ہے جو اپنی عزت، عصمت اور وقار کے تحفظ کے لیے ضرورت پڑنے پر جان پر بھی کھیل جاتا ہے۔ ایسا کرنا ایک انسانی حق ہے اور یہ حق انسانی زندگی کی بنیادی شرط ہے (حیوانی سطح پر اس کے بغیر بھی جیا جا سکتا ہے ) مشہور فلسفی سپائی نوزا نے کہا تھا کہ’’ انسان کو ہمیشہ ابدیت کے پس منظر میں کام کرنا چاہیے اور ابدیت سے میری مراد وجودِ انسانی ہی ہے ‘‘۔ ہماری رائے یہی ہے کہ موت کے دروازے پر کھڑا انسان درحقیقت ابدیت کے پس منظر کاحامل ہوتا ہے، کیونکہ اگر اسے بہت جلد موت کا منہ دیکھنا ہے تو وہ آخر کیونکر ظاہری سانچوں، روڈمیپوں اور فارمولوں پر اپنی جان کھپائے گا؟ خود کش حملہ آور کبھی بھی اتنا خود غرض اور ذہنی مفعولیت کا شکار نہیں ہو سکتا کہ وہ خارجی جبرکی بنا پر یا محض دنیاوی شہرت کے لیے اپنی جان پر کھیل جائے ۔ وہ یہ انتہائی قدم صرف اس وقت اٹھاتا ہے جب اسے ’’بہت اندر سے ‘‘ چھیڑا گیا ہو۔ ہماری رائے میں یہی وہ صورتِ حال ہے جس سے مسلم دنیا کا ایک بہت بڑا گروہ ’’چھڑ‘‘ گیا ہے ۔ اسی عمل سے مسلم دنیا کی شناخت بار آور ہو رہی ہے اور وہ اپنے اندر چھپے امکانات کو حقیقت کے سانچے میں ڈھال رہی ہے ۔ امر واقعہ یہی ہے کہ انتہا پسندوں کے طفیل ہی :
(۱)مسلم دنیا میں عوامی سطح پر ہلچل برپا ہے۔
(۲)مسلم دنیا کے دانشور طبقے میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے جس سے اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے امکانات جنم لے رہے ہیں۔
(۳) داخلی محاذ پر مسلم حکمرانوں اور خارجی محاذ پر مغربی طاقتوں کو ’’نہیں ‘‘ کہنے کی انتہاپسندانہ روش نے ہی درحقیقت اعتدال پسندوں کو ہر دو محاذوں پر ’’سندِ قبولیت ‘‘ بخشی ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں مسلم حکمران اور مغربی طاقتیں اعتدال پسندوں کو ٹکنے نہ دیتیں اور وہ یوں سہولت سے ’’روشن خیالی ‘‘ کے موتی نہ بکھیر رہے ہوتے ۔
(۴) فکرِ اسلامی کا تعلق اپنی تاریخ سے قائم و دائم ہے۔ اگر انتہا پسند نہ ہوتے تو اعتدال پسند ، تاریخ سے تخلیقی رشتہ کٹ جانے کے باعث اسلام کی صحیح تعبیر و تشریح کے بجائے یا تومعذرت خواہانہ تعبیر کر رہے ہوتے یا پھر خود انتہا پسند ہوتے۔ ہماری رائے میں اسلام کی سیکولرائزیشن کی موجودہ کوششیں بھی اس لیے ثمر آور نہیں ہو سکیں کہ اسلام مخالف طاقتیں موجودہ مسلم بیداری کی لہر کا مسلم تاریخ سے ’’نامیاتی تعلق ‘‘ منقطع نہیں کر سکیں۔ اگر ہم اس نامیاتی تعلق میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو گوئٹے کے یہ شعر اس حوالے سے بہترین راہنمائی کرتے ہیں :
’’تم نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ میراث میں پایا ہے
اسے اپنانے کے لیے اسے خود حاصل کرو ‘‘
(۵) یہ بنیادی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہم اس روایت کے ساتھ جو ہمیں ورثے میں ملی ہے، کس طرح ایسا تعلق قائم کر سکتے ہیں جس سے ہمیں ’’حریتِ فکر‘ ‘ کی قربانی نہ دینی پڑے۔ آج مسلم دنیا اسی سوال سے نبردآزما ہے ۔ ہماری رائے میں مسلم نشاۃِ ثانیہ بہت حد تک اسی سوال کے جواب سے مشروط ہے۔
مسلم دنیا میں انتہا پسندی کی لہر کے مذکورہ بالا مثبت پہلوؤں کے باوجود، بہر حال کچھ تحفظات بھی جنم لیتے ہیں۔ ان تحفظات کی نوعیت جناب عبداللہ احمد بداوی کے بیان کردہ نکات سے کافی مختلف ہے کیونکہ جناب بداوی تو انتہا پسندوں کو سیاسی حریف کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ہماری رائے میں اگر کوئی جاندار شے اپنے امکانات کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے تو وہ بیمار پڑ جاتی ہے، جیسے کوئی شخص چلنے پھرنے سے ہاتھ اٹھا لے تو اس کی ٹانگیں اور دیگر جسمانی اعضا کمزور ہو جاتے ہیں اور یہ کمزوری بڑھ کر حرکتِ قلب اور دورانِ خون وغیرہ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص یا گروہ اپنی ذات کے امکانات کو بروئے کار نہ لائے تو وہ نفسیاتی طور پر محبوس ہو جاتا ہے ، پھر یہی غیر استعمال شدہ قوتیں اور امکانات جنھیں بادِ مخالف یا اس شخص کی پوشیدہ اندورنی کشمکش نے مفلوج کردیا ہو، جب داخلی دنیا کے نہاں خانوں میں منہ چھپا لیتے ہیں تو وہ شخص یا گروہ ذہنی طور پر بیمار ہو جا تا ہے اور خارجی سطح پر معقول رویہ اختیار کرنے کے بجائے غیر صحت مند ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اگر انتہا پسندوں کی صورتِ حال اسی نوعیت کی ہے تو ان کی کامیابی کی صورت میں اسلام کا ایسا ایڈیشن منظرِ عام پر آ سکتا ہے جس کی عمر (ردِ عملی ہونے کے باعث) بہت کم ہوگی۔ اس ایڈیشن کی ناکامی ، اسلام کی ناکامی سمجھی جائے گی اور بے چارے اعتدال پسند وضاحتیں ہی کرتے رہ جائیں گے۔ اس طرح احیائے ملت اور غلبہ اسلام کا ایک موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر نجانے اور کتنا عرصہ ، مزید انتظار کرنا پڑے ۔ ہوسکتا ہے بعض احباب یہ نکتہ اٹھائیں کہ انتہا پسندی محض وقتی مظہر ہے ، بعد کی صورتِ حال میں یہی لوگ بہتر اور مطلوب طرزِ عمل کا مظاہر ہ کریں گے، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک جاری و ساری رویے میں ’’یک دم تبدیلی‘‘ کیسے اور کیونکر ممکن ہے؟ بفرضِ محال یہ نکتہ ابھی سے انتہا پسند قائدین کے پیشِ نظر ہے اور وہ ذہنی طور پر اس تبدیلی کے لیے تیار ہیں تو بھی ان کے ’’پیروکاروں ‘‘ کی بابت یہ سوال موجود رہتا ہے ۔ ان کے پیروکار اس تبدیلی کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوں گے۔ ہماری رائے میں آئیڈیل صورت یہی ہو سکتی ہے کہ انتہاپسند باقاعدہ اقتدار میں آنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے اپنے عوامی پریشر اور روایتی فکری وزن سے اعتدال پسندوں کے لیے’’تحفظات ‘‘ کا باعث بنتے رہیں تاکہ اعتدال پسند، مغربی دباؤ اور جدیدیت کے طلسم کا شکار نہ ہو سکیں اور صحیح ڈگر پر چلتے ہوئے عصری اجتہاد کے ذریعے مقاصدِ شریعت کو پورا کر سکیں۔ ہماری رائے میں ملائشیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر جناب عبداللہ احمد بداوی کی حکومت اعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے مقاصدِ شریعت کے حصول کی طرف گامزن ہے تو اس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ملائشیا کے انتہاپسندوں کا پریشر اور دباؤ بھی ہے۔ جناب بداوی کے زیرِ بحث خطاب کے بین السطور بھی یہ نکتہ جھلملا رہا ہے ۔
اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی تشکیلِ نو سے لے کر تہذیبی اسلام اور قدامت پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان مکالمے کی اہمیت تک، اس خطاب کے اور بھی بہت سے وقیع نکات ہیں جن پر بحث ہو سکتی ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم نے محض اچٹتی ہوئی نظر ڈالی ہے۔ پورے خطاب کے شامل اشاعت ہونے کے باعث ہم مزید بحث قارئینِ الشریعہ پر چھوڑتے ہوئے یہ کہنے پر اکتفا کریں گے کہ بحیثیت مجموعی جناب عبداللہ احمد بداوی کے خطاب میں ’’غبارِ خاطر ‘‘ کی نمناکیوں کے ساتھ ساتھ ’’مستقبلِ دیدہ ‘‘ کے مناظر کے نشیب و فراز بھی موجود ہیں جو پڑھنے والے کو یقیناً دعوتِ فکر دیتے ہیں۔