شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو

علامہ سید فخر الحسن کراروی

اللہ کو ایک ماننے والو! اسلام نے تمھیں مومن اور مسلم کہا، تم نے اپنے آپ کو شیعہ اور سنی کہنا شروع کر دیا۔ اسلام نے اقرار توحید اور اقرار رسالت کو مدار اسلام قرار دیا، تم نے قبول اسلام کے لیے شرائط میں اپنی طرف سے نئے نئے اضافے کر لیے۔ اسلام نے تمھیں بنیان مرصوص، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا تھا، لیکن تم نے افتراق پسندی کے باعث اس دیوار آہنی کو تار عنکبوت بنا دیا۔ اسلام نے مرد مومن کی تعریف کی تھی، ’اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘ ، آپس میں رحیم، کفار کے مقابلے میں سخت۔ تم نے کافروں سے نرم خوئی اختیار کی اور مسلمانوں سے سختی ودرشتی کا برتاؤ رکھا۔ اسلام نے پوری معنویت کے ساتھ تم میں اخوت کا رشتہ پیدا کیا اور تمھیں بھائی بھائی بنایا، لیکن تم نے ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کا نجس فعل انجام دینے کا عہد کر لیا۔ اسلام نے تمھیں خیر امت کا خطاب دیا تھا، مگر تم نے اس کی قدر نہ کی اور خیر کے مقابلے میں شر کو اپنا لیا۔ بتاؤ، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ 

شیعو اور سنیو! تم اتنے قدیم ہو جتنا کہ اسلام۔ تمہاری ابتدا تقریباً اسی روز شروع ہو جاتی ہے جب خلافت راشدہ کا دور ختم ہو رہا تھا اور حکومت وقیصریت اپنی نمود کے لیے پر تول رہی تھیں۔ اسلام کی عمر بھی قریب سوا چودہ سو سال ہے اور تم نے بھی زندگی کی اتنی ہی بہاریں دیکھ لی ہیں۔ اس سوا چودہ سو برس کی طویل مدت میں تم ایک دوسرے کے لیے رحمت نہیں بن سکے بلکہ زحمت ہی رہے۔ تم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا عدو بنے، ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے، ایک دوسرے کے لیے پنجہ شکنجہ ثابت ہوتے رہے۔ تم نے تلواریں بھی نکالیں اور تیر بھی پھینکے، سینے بھی چھیدے اور گردنیں بھی کاٹیں اور پھر ’’تحفہ افغان‘‘ کلاشنکوف بھی سینے کے ساتھ قرآن کی جگہ لٹکائے پھرے۔ نہ تو خانہ خدا کا سوچا اور نہ ہی امام بارگاہ کی حفاظت کر سکے، لیکن یہ بتاؤ کہ کیا تم ایک دوسرے کو ختم کر سکے؟

کیا عالم اسلام کا کوئی گوشہ ایسا ہے کہ جہاں تم موجود نہ ہو؟ کیا تم میں سے کوئی اپنا وجود قائم رکھنے اور دوسرے کے وجود کو مٹا دینے میں کامیاب ہوا؟ جو کام تم سوا چودہ سو سال میں نہیں کر سکے، کیا اب وہ کر سکو گے؟ دلی پر مغلوں کی حکومت تھی۔ وہ سنی تھے۔ لکھنو پر نوابان اودھ حکمران تھے۔ وہ شیعہ تھے۔ بے جا پور گولکنڈہ وغیرہ کی حکومتیں شیعہ تھیں۔ حیدر آباد کی راج دھانی پر سنی حاکم تھے۔ یہ ساری حکومتیں شخصی اور مطلق العنان تھیں، مگر کیا ان حکومتوں میں صرف وہی لوگ بستے تھے جو حکمران کے ہم مذہب ہوں؟ کیا مغلوں کے وزیر شیعہ نہیں تھے؟ کیا شیعوں کے دربار میں وزارت اور منصب سنیوں کو تفویض نہیں تھے؟ کتنی عجیب بات ہے، مطلق العنانی کے دور میں تم ایک دوسرے کو ختم نہیں کر سکے اور اب اینٹیں اور پھر سوڈے کی بوتلیں ایک دوسرے کے سر پر پھینک کر یہ توقع کرتے ہو کہ فریق مخالف کا وجود مٹا دو گے!

مسجد اقصیٰ اور مصر پر کئی سو برس تک اور شام، حجاز، عراق اور یمن پر عرصہ دراز تک شیعوں نے حکو مت کی اور بڑے جاہ وجلال سے کی۔ تاریخ کے اوراق ان کے دبدبے کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن کیا آج ان مقامات پر سنیوں کی اکثریت نہیں؟ بغداد پر پانچ سو سال سے زیادہ عباسیوں کا پرچم اقبال بلند رہا اور بعض خلفا وقتاً فوقتاً شیعوں سے الجھتے رہے، لیکن کیا وہ حدود مملکت سے شیعوں کو نکال سکے؟ اور پھر انھی عباسیوں کا پرچم اقبال جب گہن میں آیا اور ایک شیعہ خاندان دیامہ ان کا متولی بنا تو کیا اس نے بغداد کو شیعہ کر لیا؟

تاریخ نہ تو افسانہ ہے اور نہ ہی افسانے کا حصہ، لیکن اس کی دلچسپی انتہائی دلچسپ ہوتی ہے اور سبق آموز۔ اس طلسم ہوش ربا کے اوراق نکالو اور دیکھو کہ کیا بد ترین دشمنی کے باوجود تم ایک دوسرے کو ختم کرنے میں کام یاب ہو سکے؟ کیا تمھاری خانہ جنگی اور باہم کشت وخون نے تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا؟ تم تب بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہو، پھر بھی موجود رہو گے، لیکن کیا تمھاری اس حرب وپیکارِ باہمی نے کئی حکومتوں کا چراغ گل نہیں کردیا؟ کیا تمہاری قابل رشک تہذیب وتمدن کے نقوش فنا نہیں ہوئے؟ کیا تمھارے غلبہ وسطوت کو داستان ماضی نہیں بنا دیا گیا؟ تم سلامت رہے، مگر تم نے اسلام کو فنا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ تمھارے زخم مندمل ہو گئے، لیکن جو زخم جسد مطہر اسلام پر لگے تھے، وہ آج تک رس رہے ہیں۔ تمھاری زندگی کا رشتہ قائم رہا، مگر اسلام کے مقدس حلقوم پر کند چھری چلتی رہی۔ کاش تم مٹ گئے ہوتے مگر اسلام کی شان وتجمل میں کمی نہ آنے پاتی۔ کاش تم اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔ تم ہزار بار مرتے، مگر اسلام کو سلامت رکھنے کے لیے۔ 

شیعو اور سنیو! تم نے یہ نہ سوچا، یہ بھی نہ دیکھا کہ تم ایک جسم کی دو آنکھیں ہو، ایک گاڑی کے دوپہیے ہو، ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو۔ اسلام نے دنیا کو تہذیب وحضارت کی صورت میں، تمدن کی صورت میں، علم وفن کی صورت میں جو کچھ دیا ہے، اسے اگر آپس میں تقسیم کر لو تو کیا باقی رہ جائے گا؟ ہر چیز ناقص، ناممکن، بے سرمایہ اور بے مایہ۔ تم نے دنیا کو بڑی اچھی عمارتیں دیں، لیکن کیا وہ صرف شیعوں نے تخلیق کی تھیں؟ الحمرا سے لے کر تاج محل تک فقط ایک جائزہ لے کر دیکھو۔ تم نے علم کا چراغ ظلمت کدہ فرنگ میں روشن کیا اور حکمت کی جامع الازہر شیعوں کی ناقابل فراموش یادگار نہیں؟ کیا بغداد کا مدرسہ نظامیہ سنیوں کا کارنامہ نہیں تھا؟ کیا ان علمی کارناموں کو تقسیم کر کے تم فخر سے اپنا سر اونچا کر سکتے ہو؟ کیا یہ کارنامے مسلمانوں کے نہ تھے، شیعوں اور سنیوں کے تھے؟ صرف شیعوں کے یا صرف سنیوں کے؟

تمھیں فخر ہے کہ دنیا کو تاریخ کے فن سے تم نے آشنا کیا ہے اور یہ فخر بھی بے جا نہیں، امر واقع اور عین حقیقت ہے۔ مگر کیا تاریخ کی بہترین کتابیں یعقوبی اور مسعودی وغیرہ شیعوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں؟ تمھارا دعویٰ ہے اور بجا دعویٰ ہے کہ منطق اور فلسفے کا فن تم نے زندہ کیا۔ تم نے یونانی اور ہندی زبانوں کی کتابوں کے ترجمے کیے اور ان میں اتنا اضافہ کیا، اتنی اصلاح کی کہ اسے ایک نیا فن بنا دیا جس کے خالق صرف تم تھے۔ جغرافیہ، حساب، ہیئت، طب، سرجری، تصوف اور روحانیت، ادب اور شاعری، غرض کہ معقول ومنقول میں تمہارے لازوال اور غیر فانی کارنامے مشترک نہیں ہیں؟ کیا ان پر صرف شیعیت اور سنیت کا لیبل لگایا جا سکتا ہے؟

کاش صرف ایک اللہ ہی کے نام پر صرف ایک مرتبہ ہی سوچ سکو کہ آخر یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں تمہاری سیاست ملی، تاریخ کا حصہ ہے۔ حصول مملکت سے قبل تمھاری سیاست ملی کا طوفان بدوش، ہنگامہ خیز اور انتشار انگیز دور کیا بھلایا جا سکتا ہے؟ نہ انگریزوں کی بارگاہ میں تمہاری کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی کوئی پہونچ اور نہ ہی پوچھ تھی، نہ ہندو تمہارا وجود برداشت کرتے تھے۔ پھر بھی وہاں تم نے جداگانہ انتخاب کا فن حاصل کیا۔ مجالس آئین ساز میں اپنی نشستیں متعین کیں، پبلک سروس کمیشن سے اپنے حقوق منوائے۔ اس جدوجہد میں کیا محسن الملک کے ساتھ ساتھ سنیوں سے زیادہ شیعہ نہ تھے؟ کیا ان کے یہ تمام احسانات فراموش کیے جا سکتے ہیں؟ مشہد مقدس پر جب بمباری ہوئی تھی، ایران پر جب روس کے دندان تیز ہو رہے تھے اور فرنگی حکومتوں کو صرف اس بات کا خیال تھا کہ اسے کس طرح اپنی نوآبادی بنایا جائے، کیا وہ محمد علی نہیں تھا جو شیعوں کی حمایت میں ڈٹ گیا؟ کیا وہ ابو الکلام نہ تھا جس کے ’’الہلال‘‘ سے اس سلسلہ میں گراں بہا ضمانت طلب ہوئی تھی؟ کیا وہ سلیمان ندوی نہ تھا کہ جس نے مشہد مقدس کے حوالے سے ایک لرزہ خیز مقالہ لکھ کر مسلم ہند میں تہلکہ مچا دیا تھا؟ کیا یہ سب سنی نہ تھے؟ کیا تمھاری سیاست ملی کی تاریخ بھی شیعہ سنی میں منقسم ہو سکتی ہے؟ کیا وہ مشترک اور ناقابل تقسیم اور قابل فخر میراث نہیں؟

پھر ہندوؤں کی چیرہ دستی، تنگ دلی اور ہوس استعمار سے تنگ آ کر جب تم نے اپنا ایک جداگانہ وطن بنانے کا فیصلہ کیا تو کیا قائد اعظم بنانے کے لیے تمہارے اقبال، تمہارے شوکت علی اور تمہارے شبیر احمد عثمانی کی نگاہ محمد علی جناح پر نہیں پڑی جو شیعہ تھے؟ کیا جناح کے سوا کوئی اور بھی حصول پاکستان کی جنگ لڑ کر کامیاب ہو سکتا تھا؟ کیا تمھارے سواد اعظم نے ان کے سر پر قیادت کا تاج نہیں رکھا تھا؟ کیا اسے صرف سنی، قائد اعظم بنا سکتے تھے؟ کیا صرف شیعہ یہ منصب انھیں سونپ سکتے تھے؟ کیا تمھاری عظیم ترین اکثریت نے، جن میں غالب اکثریت سنیوں کی تھی، یہ منصب انھیں نہیں سونپا تھا؟ راجہ صاحب محمود آباد، راجہ غضنفر علی خان، ایم ایچ اصفہانی اور دوسرے شیعہ اکابرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تھا؟

کشمیر تمھارے لیے نصف صدی سے زندگی وموت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور دوسرے ممالک کو چھوڑ کر بتاؤ کن اسلامی ممالک نے اس بات پر تمھارا ساتھ دیا، تمہاری حمایت کی؟ کیا مصر نے؟ عراق نے؟ یمن نے؟ سعودی عرب نے؟ افغانستان نے؟ لیبیا نے؟ شام نے؟ انڈونیشیا نے؟ اردن نے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر تمھیں ماضی سے ذرا بھی واقفیت ہے تو تمھارا جواب ہوگا کہ نہیں، لیکن تمام سنی ممالک کے مقابلے میں صرف ایران کا نام لیا جا سکتا ہے جو ایک شیعہ ملک ہے۔ کیا تم پھر بھی ان کے سفارت کاروں کو موت کی وادی میں ڈالنے کی رسم کو جاری رکھو گے؟ کیا قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک ایران مسلسل اور غیر منقطع طور پر ہر معاملے میں تمھارا ساتھ نہیں دے رہا؟ جس ’’احسان‘‘ کا جواب تم نے لاہور میں دیا، ملتان میں دیا، کراچی میں دیا اور کس طرح کہ ان کی لاشوں کے تحفے پاکستانی جہاز لے کر تہران میں اترے۔

شیعو اور سنیو! تم ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو، ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو۔ ہرگز اور کبھی بھی ایک دوسرے کو فنا نہیں کر سکتے ہو، لہٰذا بھائی بن کر رہو، بھائی بن کر لڑو، لیکن بھائی بن کر گلے لگ جاؤ۔ جو زخمی ہوئے، خواہ شیعہ تھے خواہ سنی تھے، مسلمان ضرور تھے۔ ان کے زخم کی کسک تم اپنے دل میں محسوس کرو۔ جو ہلاک ہوئے، خواہ ان کامسلک شیعہ تھا یا سنی، بہرحال وہ مسلمان تھے، لہٰذا ان کی ہلاکت کو اپنے بھائی کی ہلاکت سمجھو اور اس کے داغ کو اپنا داغ سمجھتے ہوئے اپنے آنسوؤں سے دھو ڈالو۔ اللہ پاکستان اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

آراء و افکار

(جنوری ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter