(دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون ’’اسلام اور تجدد پسندی‘‘ کے جواب میں ہمیں ’المورد‘ کے ایسوسی ایٹ فیلو جناب طالب محسن اور ’دانش سرا‘ گکھڑ منڈی کے رفیق محمد عثمان صاحب کی طرف سے تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ اس موضوع پر مزید بحث مباحثے کے لیے یہ صفحات حاضر ہیں۔ مدیر)
(۱)
استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی کے افکار وآرا پر بہت سی تنقیدیں لکھی گئی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جائیں گی۔ عام طور پر یہ تنقیدیں محض دشنام طرازی، طعن وتشنیع اور تضحیک واستہزا پر مبنی ہوتی ہیں۔ کچھ اندیشوں اور خدشات کو بنیاد بنا جاتا ہے۔ کچھ اندازے قائم کیے جاتے ہیں جو سراسر سوء ظن پر مبنی ہوتے ہیں۔ کچھ مقاصد طے کیے جاتے ہیں جن کا کوئی ثبوت کسی قول وتحریر میں نہیں ہوتا۔ اور اس طرح صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جواز فراہم کرتااور نوک قلم سے اپنے ہی علم وتقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے۔
’المورد‘ میں، چھپنے والی ان تنقیدوں کو غور سے پڑھا جاتا ہے اور اگر کوئی صحیح تنقید ہو تواسے شکر کے جذبے کے ساتھ قبول بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی تنقیدوں کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چنانچہ ہم بالعموم ان تنقیدوں کے جواب میں خاموش رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تنقیدوں میں کوئی قابل جواب نکتہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ہماری اصولی پالیسی یہ ہے کہ اگر کوئی علمی تنقید ہو تو اس کا نوٹس لینا چاہیے، اس لیے کہ یہ تنقید علمی نکات کی تنقیح میں معاون ہوتی اور بہت سی باتیں سمجھنے اور سمجھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ میں استاد محترم کو برس ہا برس سے جانتا ہوں، وہ اپنی غلطی کو مان لینے میں پس وپیش نہیں کرتے اور ان کی طرف سے اس طرح کا ردعمل بھی کبھی سامنے نہیں آیا کہ انھوں نے جو کچھ کہہ دیا ہے، وہ حرف آخر ہے اور ان کے افکار وآرا میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی یا اس میں اصلاح کی گنجایش نہیں ہے۔چنانچہ ہم نے انھیں سچی تنقید کا خیر مقدم کرتے ہی دیکھا ہے۔باقی رہیں سوء ظن اور الزام تراشی پر مبنی تحریریں تو ان کے بارے میں وہ خاموشی ہی کو اولیٰ سمجھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تنقیدیں اس سے بہتر کسی سلوک کی مستحق نہیں ہوتیں۔
ہمارے ہاں، بالعموم مختلف رائے رکھنے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ بالعموم اسی کے حق میں نکلتا ہے، اس لیے کہ اس طرح کی تنقیدیں تنقید کرنے والوں کی علمی بے مایگی کا ثبوت ہوتی ہیں اوراپنے اندر موجود صحیح نکات کو بھی اکارت کر دیتی ہیں۔میں جب یہ سوچتا ہوں کہ ممکن ہے یہ تنقید کرنے والے اپنے تعصب کی وجہ سے قلم زن نہ ہوئے ہوں، بلکہ حق ہی کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہوں تو میرے دل میں ان کے لیے ایک ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سطور ایسے ہی ناقدین کے لیے لکھ رہا ہوں۔ میرے پیش نظر یہ ہے کہ ایسے ناقدین کو تجویز کروں کہ حقیقی علمی تنقید کیا ہوتی ہے اور اس کے مشمولات کیا ہوتے ہیں۔
ہمارا موضوع دین ہے۔ دین میں حق وناحق کا فیصلہ نصوص کے فہم سے ہوتا ہے۔ نصوص کے فہم میں غلطی دو سبب سے ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ اصول غلط ہو جس کی روشنی میں نص کے معنی طے کیے جا رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اصول تو ٹھیک ہو، لیکن اس کے اطلاق میں غلطی ہو رہی ہو۔ چنانچہ دین سے متعلق موضوعات میں تنقید واصلاح کا دائرہ بہت معین ہو جاتا ہے۔ امت میں رائج علمی مکاتب فکر کے اصولوں کے تحت کسی رائے پر تنقید کا دائرہ اور بھی محدود ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بحث صرف کسی نحوی، کلامی، تفسیری یا فقہی اصول کے اطلاق کی غلطی واضح کرنے پر موقوف ہوتی ہے۔ استاد محترم غامدی صاحب کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ استاد محترم نے اصول میں بھی تحقیقی کام کیا ہے اور مولانا فراہی علیہ الرحمۃ کے منہج استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے مآخذ کے فہم کے قواعد کو نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ اب ناقدین کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ اگر انھیں استاد محترم کے کسی نقطہ نظر میں غلطی محسوس ہوتی ہے تو وہ یہ دیکھیں کہ جس نص پر یہ رائے مبنی ہے، اس کے سمجھنے میں کیا غلطی ہوئی ہے اور اگر انھیں محسوس ہوکہ یہ نتیجہ کسی غلط اصول کے سبب سے ہے تو انھیں چاہیے کہ اس اصول کی غلطی متعین کریں اور اسے واضح کرنے کے لیے قلم اٹھائیں۔
استاد محترم کے ناقدین اگر یہ رویہ اختیار کریں تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ اپنے اور ہمارے لیے خیروفلاح کا باعث بنیں گے اور آخرت میں بھی بہتر اجر کے حق دار قرار پائیں گے۔
طالب محسن
’المورد‘۔ 51-K
ماڈل ٹاؤن ۔لاہور