تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت

یوسف خان جذاب

جولائی ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں شاہ نواز فاروقی صاحب کی تحریر، جو انھوں نے پروفیسر شاہدہ قاضی کے مضمون ’’تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت‘‘ کے جواب میں لکھی ہے، نظر سے گزری۔ پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ نے اپنے مذکورہ مضمون میں جو کچھ لکھا، اس سے کلی اتفاق تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن انگریزی کے اس فقرے کے مصداق کہ: Allegations are not facts, but they are based on facts، (الزامات حقائق تو نہیں ہوتے، لیکن حقائق پر مبنی ضرور ہوتے ہیں) ان کے مضمون کے سمندر میں حقائق کے موتی تہہ نشیں تھے جس سے ان کی حب الوطنی، اسلام سے ان کے لگاؤ اور حقیقت پسندی پر ان کے غیر متزلزل ایمان کا اندازہ ہوا۔ شاہ نواز صاحب نے اس کے جواب میں جو کچھ لکھا ہے، میرے خیال میں کوئی سنجیدہ قاری اس کی داد نہیں دے گا۔ ان کا مضمون استدلالی کم اور جذباتی زیادہ ہے اور اس کے بعد دعویٰ، جواب دعویٰ سے زیادہ مضبوط دکھائی دینے لگا ہے۔ تاہم اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ جب امت مرحومہ کی مجموعی حالت تحت الثریٰ کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچی ہوئی ہو، اس وقت ان جیسے مضامین کا ملی نغمے ثابت ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ایسے وقت میں حقائق کی نقاب کشائی اپنے آپ کو قعر مذلت میں پھینکنا ہے۔ پروفیسر صاحبہ شاید یہ سب کچھ قصداً کر رہی ہیں، اسی لیے میں نے ان کے نام کے ساتھ چند صفتی نام لگا دیے ہیں، ورنہ فاروقی صاحب نے تو انھیں انگریز پرست، تاریخ سے ناآشنا اور مسلم واسلام دشمن جیسے القابات سے نوازا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، فاروقی صاحب کا جوابی مضمون جذباتی زیادہ اور مدلل کم تھا۔ اس کی پہلی مثال لیجیے۔ لفظ Myth کے بارے میں پروفیسر صاحبہ نے لکھا تھا کہ یہ خیالی پلاؤ، افسانہ ماضی، یا بلند پرواز ی تخیل انسان کا دوسرا نام ہے۔ یہی اس لفظ کی مشہور ومعروف تعریف ہے۔ Oxford Adnvanced Learner's Dictionary میں متھ کی تعریف یوں کی گئی ہے:

(1) A story from ancient times. (2) Something that many people believe but that does not exist or is false. 

متھالوجی کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے:

Ideas or facts that many people think are true but that do not exist or are false. 

ہر جگہ متھ کی اس معروف تعریف کو مد نظر رکھا جاتا ہے، لیکن فاروقی صاحب نے اس کو آنند کمار سوامی کی اس تعریف کی بنیاد پر مسترد کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’ایک ایسی حقیقت جس کی حقیقی معنویت وتعریف گم ہو گئی ہو۔‘‘ یہ علم کی دنیا ہے جس میں جیت ہمیشہ استدلال کی ہوتی ہے۔ قارئین خود سوچیں کہ ’’متھ‘‘ جھوٹ کے معنی میں معروف ہے یا کسی ایسی حقیقت کے معنی میں جس کی معنویت پنہاں ہو چکی ہو؟ خود فاروقی صاحب نے پروفیسر شاہدہ صاحبہ کی جن باتوں کو غلط ٹھہرایا ہے، انھیں متھ قرار دیا ہے۔ اس طرح انھوں نے لاشعوری طور پر آنند کمار سوامی کے بجائے پروفیسر صاحب کی پیش کردہ تعریف کو درست مان لیا ہے۔

فاروقی صاحب نے آنند کمار سوامی کے حوالے سے مزید لکھا ہے کہ متھ کی حقیقی معنویت کی بحالی کے ذریعے اسے زندہ حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ میں بڑے احترام سے درخواست کروں گا کہ فاروقی صاحب ہندو متھالوجی یا یونانی متھالوجی کے کسی کردار کو حقیقی معنویت کی بحالی کے ذریعے زندہ حقیقت میں تبدیل کر کے اپنے اصول کی کوئی ایک مثال پیش فرما دیں۔

شاہ نواز صاحب نے پروفیسر صاحبہ کی اس بات کے جواب میں کہ ہمارے پاس Proper Myth نہیں ہے، لکھا ہے : ’’پہلا متھ تو یہ ہے کہ ہمارے پاس مناسب اساطیری سرمایہ نہیں ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس غیر مناسب اساطیری سرمایہ بھی نہیں ہے، بلکہ ہماری تاریخ میں Myth لفظ کا سایہ تلاش کرنا بھی محال ہے۔ یعنی ہماری تاریخ میں متھ لفظ نہ غلط معنوں میں موجود ہے نہ صحیح معنوں میں۔‘‘

متھ کے لفظ کی عدم موجودگی اس حقیقت کو رد کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں Myth کا تصور بھی پہلے سے موجود نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں لفظ Myth انگریزی زبان سے آیا ہے، تاہم متھ کا جو تصور ہے، وہ ہم پہلے سے اپنے مذہبی، ملی، قومی اور صوفیانہ کرداروں کے گرد بمثل ’’ہالہ‘‘ موجود پاتے ہیں۔ ہمارا صوفیانہ ادب ہماری بہترین متھالوجی ہے۔ صوفیاء کرام سے متعلق قصے کہانیاں Myths نہیں تو اور کیا ہیں؟ آخر اس بات کا کون یقین کرے گا کہ ایک صوفی صاحب کی کرامت نے چالیس سال بعد سمندر میں غرق ہونے والی ایک کشتی کے سواروں کی جانیں انھیں لوٹا دیں، یا ایک صوفی کے لیے گوشت نہ بھوننے پر اہل ملتان پر عذاب الٰہی کے نتیجے میں سورج کو نیچے آنا پڑا، یا سمندر کو اس کی سرکشی کی بنا پر کچکول میں بند کر دیا گیا؟ 

اس سے فاروقی صاحب کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ متھالوجی معروف معنوں میں ماقبل تاریخ کی کوئی چیز ہے۔ اگر مسلمان زیور تعلیم سے آراستہ وپیراستہ نہیں ہوتے تو بائیسویں صدی عیسوی میں بھی ان کے ہاں بہترین متھالوجی ملے گی۔ مسلم تاریخ واقعی شاندار شخصیتوں اور ان کے کارناموں سے بھری پڑی ہے، لیکن یہ بھی ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب کوئی قوم تنزل وانحطاط کے راستے پر گام زن ہو جاتی ہے تو وہ ماضی میں جینے کی کوشش کرتی ہے اور بات بات پر عظمت رفتہ کا حوالہ دیتی ہے، کیونکہ ان کی اپنی زندگیاں عمل سے تہی دامن ہوتی ہیں۔ اسلام ایک پرکشش مذہب ہے اور اس نے مختلف تہذیبوں پر اپنے اثرات ثبت کیے ہیں، لیکن یہاں Give and take کا اصول کارفرما ہے۔ اگر ہندو معاشرت پر اسلام نے اثرات مرتب کیے ہیں تو کیا برصغیر کی مسلم معاشرت میں ہندو روایات کی آمیزش فاروقی صاحب کو دکھائی نہیں دیتی؟ کیا طریقت، اسلام کے ساتھ ویدانت اور نوفلاطونیت کی پیوند کاری نہیں ہے؟ مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کے بیج کس نے بوئے ہیں اور ان میں توہمات کی شب تاریک کس نے بسائی ہے؟

پروفیسر صاحبہ نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ہم اپنے سپر ہیروز کی شخصیت اور کارناموں کو اوائل عمر ہی سے اپنے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلنے لگتے ہیں۔ اس کے جواب میں فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ بھارت اور امریکہ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر میرا سوال بس یہ ہے کہ کیا اغیار کا کوئی ناجائز کام ہمیں سند جواز عطا کر سکتا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو فاروقی صاحب ذرا ’’امت وسط‘‘ کی تشریح فرما دیں۔

پروفیسر شاہدہ صاحبہ کا ذکر کردہ پہلا افسانہ یہ تھا کہ ’’ہماری تاریخ ۷۱۲ء سے اس وقت شروع ہوئی جب محمد بن قاسم نے برصغیر میں قدم رکھا اور دیبل کا ایک حصہ فتح کر لیا۔‘‘ انھوں نے لکھا تھا کہ یہ محض ایک افسانہ ہے اور یہ علاقہ مذکورہ حملے سے پہلے شاندار تہذیبوں کا مرکز تھا۔ اس کے جواب میں فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ موئنجو داڑو اور ٹیکسلا کی تاریخ مردہ ہے اور ہماری تاریخ زندہ۔ تاریخ کی یہ تقسیم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس تقسیم کی رو سے ہماری سلطنت اور اندلس کی اسلامی سلطنت بھی ’’مردہ تاریخ‘‘ کے کھاتے میں چلی جاتی ہیں۔ فاروقی صاحب نے مذکورہ علاقوں کی چھ ہزار سالہ تاریخ کو اس وجہ سے بے معنی ٹھہرایا ہے کہ وہاں بڑے پیمانے پر لوگوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام کی جاذبیت نے وہاں کے لوگوں کو متاثر کیا، لیکن فقط تبدیلی مذہب کی بنیاد پر کسی تہذیب کو بے معنی نہیں قرار دیا جا سکتا، ورنہ تاریخ شاہد ہے کہ عیسائیوں نے جب اندلس کو فتح کیا تو وہاں بھی تبدیلی مذہب کا عمل بہت پڑے پیمانے پر ہوا۔ کیا فاروقی صاحب کی خود ساختہ تقسیم کے مطابق اب وہاں کی مسلم تاریخ مردہ قرار پائے گی؟

فاروقی صاحب نے اسی افسانے کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’محمد بن قاسم ۷۱۲ء میں آئے۔ اس وقت اس علاقے میں چند ہزار مسلمان تھے۔ آج ۲۰۰۵ء ہے اور علاقے میں مسلمانوں کی آبادی پچاس کروڑ سے زائد ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے؟‘‘ اس دعوے کے جواب میں فقط اتنا کہنا کافی ہوگا کہ فاروقی صاحب اس عرصے میں اس علاقے کی ہندو، سکھ اور عیسائی آبادی میں ہونے والے اضافے کو بھی پیش نظر رکھیں۔

فاروقی صاحب نے لکھا ہے: ’’میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ راجہ داہر بھی ظالم ہو سکتا ہے۔‘‘ یہاں فاروقی صاحب نے پروفیسر صاحبہ کے فقروں سے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے۔ پروفیسر صاحبہ نے فقط اتنا لکھا تھا کہ ’’معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس کا آغاز محمد بن قاسم سے ہوگا۔ ان کی آمد سے پہلے یہاں کیا تھا؟ جی ہاں، ظالم اور جابر ہندو راجے مثلاً راجہ داہر اور مظلوم اور اجڈ عوام جو بے چینی سے کسی آزاد کنندہ کے منتظر تھے۔‘‘

ان فقروں سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ راجہ داہر کے ظالم قرار پانے سے میڈم کو تکلیف ہوتی ہے؟ انھوں نے ایک عمومی بات لکھی ہے اور پھر ایک مثال راجہ داہر کی پیش کر دی ہے۔ فاروقی صاحب بھی تو ان لوگوں کے مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور ہندووں کی تاریخ سے رام کا زمانہ بطور عبرت پیش کرتے ہیں کہ یہ ظلم اور بربریت کا دور تھا۔ 

پروفیسر شاہدہ صاحبہ نے اس مشہور ومعروف تصور کو ایک افسانہ قرار دیا تھا کہ ’’محمد بن قاسم مظلوم بیواؤں اور یتیم لڑکیوں کی مدد کے لیے انڈیا آئے تھے۔‘‘ جواب میں فاروقی صاحب نے میڈم کے اس تبصرے کو تسلیم کیا ہے کہ یہ زمانہ اسلامی سلطنت کی توسیع کا زمانہ تھا اور پھر لکھا ہے کہ ’’مسلمان اس دور کی واحد عالمی طاقت تھے۔ دوسری جانب میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ وقت کی عالمی طاقت اپنی ہم عقیدہ مظلوم عورتوں اور بچیوں کی مدد کے لیے نہیں آ سکتی تھی۔‘‘ جب ہم کسی سلطنت کے لیے ’’توسیع‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سلطنت کے حکمران اپنی سلطنت کے پھیلاؤ کے لیے ہر جائز وناجائز طریقہ استعمال کریں گے۔ یہ لفظ Negative sense میں استعمال ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں حکومت توسیع پسندانہ عزائم رکھتی ہے تو یہ ایک منفی اور ناقدانہ تبصرہ ہوتا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ اس وقت مسلمان واحد عالمی طاقت تھے، لیکن کیا عالمی طاقت اور اخلاقیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے؟ مسلمانوں کے عالمی طاقت ہونے سے یہ بات کیسے لازم آتی ہے کہ وہ کسی ملک پر فقط اس صورت میں چڑھائی کریں گے جب وہاں ان کے ہم عقیدہ لوگوں سے زیادتی ہی ہو رہی ہو؟ مسلمانوں کا توسیعی عزائم کے تحت ہندوستان پر حملہ آور ہونا کوئی استثنائی واقعہ نہیں ہے۔ انسانی جبلت کے تحت دنیا کی دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں نے اقتدار کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا ہے؟

فاروقی صاحب نے اسی تناظر میں آگے لکھا ہے کہ ’’انھیں (مسلمانوں کو) قرآن مجید کا حکم ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی مظلوم ہوں، ان کی مدد کرو۔‘‘ فاروقی صاحب کو اسلام اور مسلمانوں میں فرق کرنا چاہیے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں مسلمانوں نے اطاعت شیطان کا شیوہ نہیں اپنایا ہے؟ میں جب بھی سورۃ البقرۃ پڑھتا ہوں تو جو خامیاں اس وقت کے بنی اسرائیل میں موجود تھیں، وہی مجھے عصر حاضر کے مسلمانوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ہر دور میں قرآنی تعلیمات ہی کو مشعل راہ بنایا ہے تو سلطنت خوارزم کا شیرازہ بکھرنے پر التمش کی مضبوط حکومت ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے کیوں نہ اٹھ کھڑی ہوئی؟

فاروقی صاحب غیر ضروری طور پر ان مبہم واقعات کو اسلام اور اخلاقیات کا لبادہ پہنانا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول صحابہ کرام نے اپنے وقت کی دو عالمی طاقتوں قیصر وکسریٰ پر حملے کے لیے بہانہ نہیں تراشا۔ یہاں پھر فاروقی صاحب نے ٹھوکر کھائی ہے۔ جہاں تک صحابہ کرام کی جماعت کا تعلق ہے تو وہ توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے بجائے اتمام حجت کی بنیاد پر ان طاقتوں پر حملہ آور ہوئے تھے اور اس طرح عالمی سطح پر دینونت خداوندی کا ایک نمونہ پیش کیا تھا ۔ بعد کے مسلم حکمران اس کے مکلف نہیں تھے۔ ان کی جنگی مہمات کے حقیقی محرکات فاروقی صاحب کے اس جملے سے سمجھے جا سکتے ہیں: ’’اگر راجہ داہر مسلمان عورتوں اور بچیوں کو اغوا نہ کرتا تو ہو سکتا ہے مسلمان کچھ عرصہ اور سندھ کا رخ نہ کرتے۔‘‘ اس جملے میں ’’کچھ عرصہ‘‘ کے کوزے میں ایک سمندر مقید ہے۔

تیسرے افسانے میں فاروقی صاحب کو پروفیسر صاحبہ کی یہ بات ناگوار گزری ہے کہ محمود غزنوی نے سومنات پر دولت کی خاطر حملے کیے تھے۔ جہاں پروفیسر صاحبہ کے پاس اپنے دعوے کو موکد کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں، وہاں فاروقی صاحب کے پاس بھی اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں کہ محمود غزنوی نے اسلام کی اشاعت کو مدنظر رکھ کر سومنات پر حملے کیے۔ محمود بلاشبہ بت شکن تھا جس پر فاروقی صاحب کو ناز ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا یہ عمل قرآن وسنت کی رو سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟

فاروقی صاحب نے آریاؤں کے Invader ہونے کو محمود کے حملوں کے لیے وجہ جواز بنایا ہے۔ میں اپنا یہ سوال پھر دہراؤں گا کہ کیا آریاؤں کا غلط طرز عمل محمود غزنوی کے لیے جواز کی بنیاد بن سکتا ہے؟ شاہ نواز صاحب ہمیں ایک عجیب وغریب کلیے سے نواز رہے ہیں۔ اگر ’’جواز برائے جواز‘‘ کا یہ کلیہ درست ہے تو آخر انگریزوں کو استعماری قوتیں کہہ کر ان پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟

پروفیسر صاحبہ اور فاروقی صاحب کے مابین اس بات پر اختلاف ہے کہ اسلام، صوفیا کی محبت اور رواداری کی وجہ سے پھیلا یا صوفیا وعلما کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ تلوار کے سایے میں پروان چڑھا۔ گو کہ مختلف علاقوں میں اسلام صوفیا، علما اور حکمرانوں کی مجموعی کوششوں سے پھیلا، تاہم متوازن رائے یہ ہے کہ اسلام کو ہمیشہ محبت، رواداری اور درگزر جیسی صفات کی وجہ سے قبول عام حاصل ہوا۔ اس کی مثال موجودہ دور میں امریکہ میں اسلام کی اشاعت ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً ایک لاکھ لوگ مشرف باسلام ہوتے ہیں۔ کیا وہاں تبدیلی مذہب کا یہ عمل کسی سیاسی قوت کا مرہون منت ہے؟

متھ نمبر ۴ میں اورنگ زیب کے متقی ہونے، ٹوپیاں سینے اور قرآن مجید کے قلمی نسخے فروخت کرنے کی بات ہوئی ہے۔ پروفیسر صاحبہ نے اورنگ زیب کے متقی ہونے کو ان اعمال کی بنیاد پر چیلنج کیا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا اور اپنے بھائیوں کو قتل کرا دیا۔ فاروقی صاحب نے ان حقائق پر اورنگ زیب عالمگیر کی جانب سے معذرت کی ہے۔ کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ ان ذاتی اعمال کے سلسلے میں اورنگ زیب کی طرف سے ایک دوسرا شخص کیسے معذرت کر سکتا ہے؟ تلک امۃ قد خلت۔ 

متقی کا مفہوم سمجھاتے ہوئے انھوں نے پروفیسر صاحبہ کو مشورہ دیا ہے کہ ’’میڈم کو ایسا کرنے سے پہلے کسی لغت میں تقویٰ کے معنی دیکھ لینے تھے۔ انھوں نے یہ زحمت کر لی ہوتی تو انھیں اورنگ زیب عالمگیر کے تقویٰ اور عمل میں تضاد نظر نہ آتا۔‘‘ میرے خیال میں اس مشورے کے مستحق خود فاروقی صاحب زیادہ ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو جیل میں ڈالنے اور اپنے بھائیوں کو قتل کرانے کے بعد بھی متقی رہ سکتا ہے تو تقویٰ کا یہ مفہوم کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

باقی رہی ٹوپیوں اور خطاطی کے بارے میں پروفیسر صاحبہ کے Would سے شروع ہونے والے فقروں کی بات تو یہ اعتراضات Common Sense کی بنیاد پر اٹھائے گئے ہیں، اس لیے ان کو ایسے ہی الفاظ سے شروع ہونا چاہیے۔ اورنگ زیب کا سارا وقت جنگ وجدل میں گزرا۔ اسے ان کاموں کی فرصت کب ملی؟ کیا وہ حکمران بننے سے پہلے یہ کام کر چکا تھا یا تخت نشینی کے بعد اس کا مزاج بدل گیا تھا؟ پشتو کے عظیم صوفی شاعر رحمان بابا، جن پر سماجی حالات سے چشم پوشی کا الزام ہے اور جن کے کلام میں اورنگ زیب کے سوا کسی کی مذمت نہیں ہے، کہتے ہیں: ’’اورنگ زیب فقیر منش آدمی تھا جو عاجزی کی وجہ سے ٹوپی پہنا کرتا تھا، لیکن جب تاج سر پر سجایا تو ٹوپی کو بالائے طاق رکھ دیا۔‘‘

اورنگ زیب کی تخت نشینی کے سلسلے میں پانڈو اور کورو کے واقعات کو وجہ جواز بنانا اور انھیں اسلامی رنگ میں رنگنا فاروقی صاحب ہی کی ذہانت کا کمال ہے۔

پانچویں متھ میں ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے سلسلے میں پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ اور فاروقی صاحب ، دونوں نے سرسید کے حوالے سے ایک ایسی بات کہی ہے جسے بہرصورت غیر ذمہ دارانہ اور غیر علمی قرار دیا جائے گا۔ سرسید اپنے زمانے کے مہدی تھے۔ انھوں نے حالات کے تقاضوں کو سمجھا اور جو کچھ بھی کیا، مسلمانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ ان کے کٹڑ مخالفوں نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خیر خواہ تھے۔ سرسید کی علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی خدمات سے چشم پوشی کرنا اپنی نادانی پر مہر ثبت کرنا ہے۔ ان کی علمی وادبی خدمات پر تو سب متفق ہیں۔ مذہبی لحاظ سے وہ آج بھی روشن خیالوں کے امام ہیں۔ جو لوگ ان کی سیاسی پالیسی کے مخالف ہیں، انھیں وطن عزیز پاکستان سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ انھوں نے صحیح معنوں میں پاکستان کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے جنھوں نے حالات کا غیر متعصبانہ جائزہ لیا اور مسلمانوں کے لیے درست سمت کی نشان دہی کی۔ ان کا موقف تھا کہ انگریزوں کا مقابلہ ان ہی کے متعارف کردہ ہتھیار یعنی جدید تعلیم سے کیا جا سکتا ہے۔ سرسید سے پہلے تعلیم کے حوالے سے برصغیر کے لوگ دو دھڑوں میں تقسیم تھے۔ جدید لوگ اپنے مذہب وثقافت سے بے گانہ اور قدامت پسند، عصری محاورے اور علوم سے ناآشنا تھے۔ سرسید نے حقیقی معنوں میں دار العمل کو دار العمل بنایا۔ انھوں نے چرچ اور اسٹیٹ کے جدا ہونے کے عمل کو یہاں دہرانے نہ دیا۔ اس لیے فاروقی صاحب کی یہ بات کہ ’’سرسید بلاشبہ انگریزوں کے وفادار تھے بلکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہو چکا ہے کہ مجاہدین آزادی کی مخبری کرتے رہے‘‘ سراسر ظلم اور نا انصافی پر مبنی ہے۔

آگے چل کر مضمون نگار نے قائد اعظم کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اس لیے جیل نہیں گئے کہ وہ ایک وکیل تھے اور آئینی وقانونی جدوجہد ان کے مزاج کا حصہ تھی اور انھوں نے پاکستان کا مقدمہ ایک وکیل کی طرح لڑا۔ نیز یہ کہ انھوں نے اپنے دو حریفوں یعنی ہندووں اور انگریزوں کو سمجھا اور طاقت کے طریقے کو Avoid کیا۔ انھیں احساس تھا کہ اگر وہ جیل چلے گئے تو اقلیتی گروہ کی جدوجہد کسی بھی سمت میں جا سکتی ہے۔ یہ سب باتیں درست ہیں، لیکن فاروقی صاحب کو قائد اعظم اور سرسید میں یہ عظیم مشابہت کیوں نہ دکھائی دی؟ کیا سرسید نے بھی طاقت کے استعمال کو Avoid نہیں کیا؟ کیا انھوں نے بھی قائد اعظم کی طرح مسلمانوں کا دفاع ایک وکیل کی طرح نہیں کیا؟ کیا سرسید کو قائد اعظم سے زیادہ سخت حالات کا سامنا نہیں تھا، جبکہ ایک طرف ہندو اور انگریز ان کے مخالف تھے تو دوسری طرف مسلمان ان کو تکفیر کے ہار پہنا رہے تھے؟ لیکن اس مشابہت کے باوجود کمال کی بات یہ ہے کہ فاروقی صاحب کی نظر میں ایک ہیرو اور دوسرا زیرو ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص تعصب کی عینک اتار کر تاریخ کا معروضی مطالعہ کرے تو اس پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگی کہ سرسید نے ایک کڑے وقت میں مسلمانوں کی خاطر جو کچھ کیا، اسی کی وجہ سے ان کا شمار ہمیشہ مسلمانان ہند کے اکابر میں کیا جاتا رہے گا۔ 

فاروقی صاحب کے مضمون سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مسلح کارروائی کے حق میں ہیں اور حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کے بجائے طاقت سے ٹکرا جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے اکثر دانش ور اب بھی مسلح مزاحمت کو ہر مسئلے کا واحد حل سمجھتے ہیں، جبکہ تاریخ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ گزشتہ دو سو سال میں مسلمانوں کو ہر جنگی میدان میں پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ ۱۸۵۷ء، کشمیر، فلسطین، چیچنیا، عراق اور افغانستان، ہر جگہ ہمیں شکست ہوئی ہے، لیکن یہ دانش ور اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کر سکے۔ فاروقی صاحب کا شمار بھی انھی دانش وروں میں ہوتا ہے، اس لیے وہ اگر سرسید احمد خان کی غیر مسلح جدوجہد کی مذمت کرتے ہیں تو یہ ان کا فکری حق ہے، لیکن باعث تعجب بات یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کی غیر مسلح حکمت عملی کی تائید کرتے ہیں اور ان کا طرز جدوجہد انھیں بدلتے ہوئے حالات کے عین مطابق دکھائی دیتا ہے۔

فاروقی صاحب نے عراقیوں کو مسلح جدوجہد کا مشورہ دیا ہے، لیکن میں انھیں یہ مشورہ دوں گا کہ وہ حالات کو سمجھیں، مسلح کارروائی کو ترک کر کے صبر کا طریقہ اختیار کریں جو مکی دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا تھا اور یہ امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے ضرور کوئی راہ نکالے گا۔ وہ بے فائدہ طور پر اپنی توانائیاں جہادی سرگرمیوں میں ضائع نہ کریں، خصوصاً ایسی حالت میں کہ ساری مسلم دنیا مل کر بھی امریکہ سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ جذبات کی باتیں نہیں ہیں۔ خدا کی نصرت کچھ شرائط کے پورا ہونے کے بعد ہی آتی ہے۔ جب تک ہم ان شرائط کو پورا نہیں کرتے، خدا کی مدد کبھی شامل حال نہیں ہو سکتی۔ اس وقت مسلمانوں پر جو بھی گزر رہی ہے، وہ سنت الٰہی کے عین مطابق ہے اور اس پر اللہ کو اپنا وعدہ پورا نہ کرنے کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔

فاروقی صاحب نے اپنے مضمون میں پہلے سرسید کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ وہ لوگوں کو انگریزی تعلیم کے حصول پر ابھارتے رہے، پھر پروفیسر شاہدہ صاحبہ کو انگریز پرست قرار دیا ہے کیونکہ انھیں انگریزی آتی ہے۔ انگریزوں سے نفرت کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن انگریزی سے بطور ایک زبان کے نفرت ناقابل فہم ہے۔ زبانیں تو وسیلہ اظہار ہوتی ہیں۔ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان بن چکی ہے۔ دنیا کے سارے علوم وفنون اس زبان میں ہیں۔ اب اگر کوئی رہبانی طرز عمل کا داعی نہیں ہے، مسلمانوں کے لیے کاروبار حیات میں بھرپور شرکت کا خواہاں ہے اور مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسلحہ سے لیس دیکھنا چاہتا ہے تو وہ مسلمانوں کو کبھی بھی انگریزی سے نفرت کا مشورہ نہیں دے گا۔ اب تو مدارس والے بھی اس زبان کی اہمیت وافادیت سے واقف ہو چکے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاست نے ہمارے دوسرے قومی شعبوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ ہمارا اسلام بھی Politicize ہو چکا ہے۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے ہر مسئلے کو باقاعدہ ایشو بنا دیا ہے۔ انگریزی سے نفرت سکھانا بھی ان لوگوں کا تحفہ ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے نہیں تھکتے، لیکن موقع ملتے ہی اپنے اعزہ واقربا کو وہاں بسا دیتے ہیں اور اپنی اولاد کے لیے تعلیم کا بندوبست بھی وہیں کرتے ہیں۔ شاہ نواز صاحب ایک طرف انگریزی سے نفرت ظاہر کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ان کے مضمون میں اس بات کے اظہار کی خواہش بھی جابجا جھلک رہی ہے کہ انھیں انگریزی آتی ہے۔

مملکت پاکستان کے حوالے سے پروفیسر صاحبہ کا موقف یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کے لیے سیاسی بندوبست انڈین یونین کے زیر سایہ کرنا چاہتے تھے، جبکہ فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ پروفیسر صاحبہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ خطبہ الٰہ آباد کے بعد اقبال نے الگ ریاست کی غلط فہمی کی تردید کی تھی۔ اس کے جواب میں فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ اقبال کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کچھ Claim ہی نہیں کرتے۔ وہ عظیم شاعر تھے، مگر انھیں عظیم شاعر کیا، شاعر ہونے کا دعویٰ بھی نہیں ہے۔ فاروقی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ مملکت کے جداگانہ تصور اور اقبال کے شاعر ہونے کو مماثل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ مملکت کے جداگانہ تصور کی وہ صریح الفاظ میں مخالفت کر چکے ہیں اور انھوں نے اخبار کو بتا دیا تھا کہ انھوں نے جداگانہ مسلم ریاست کی نہیں، بلکہ محض انڈین فیڈریشن کی بات کی تھی۔ اس طرح انھوں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ اور ایک غلط بیان کی تصحیح کی۔ ویسے بھی اقبال ایک وسیع النظر انسان تھے۔ یہ بعد کے لوگوں کاکارنامہ ہے جنھوں نے ان کا ناتا ملت اسلامیہ سے کاٹ کر الگ وطن سے جوڑ دیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ اپنے آپ کو شاعر نہیں کہتے تھے تو یہاں وہ کسی غلط بیان کی تصحیح نہیں کرنا چاہتے، بلکہ نفسیاتی لحاظ سے موثر انداز میں اپنی شاعری کا اثبات چاہتے ہیں۔ دیکھیے، میر تقی میر اسی طریقے سے اپنی شاعری کا اثبات کر رہے ہیں:

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter