تغیر پذیر دنیا اور مسلم ثقافت کی داخلی نفسیات

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے جون ۲۰۰۵ کے شمارے میں جناب لوئ ایم صافی کا نہایت فکر انگیز مضمون نظر سے گزرا۔ فاضل مضمون نگار نے معروضیت کے تقاضے نبھاتے ہوئے مسلم ثقافت کی داخلی نفسیات کی مختلف پرتوں کو بہت تدبر، بصیرت اور گہرائی سے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ پوسٹ ماڈرن کلچر سے مسلم ثقافت کی اثر پذیری کے حوالے سے دو متضاد رویوں کے حامل گروہوں یعنی روایت پسندوں اور ترقی پسندوں کے نقطہ ہائے نظر اور پھر ان کی تحلیل بھی لوئ ایم صافی نے کمال غیر جانب داری سے کی ہے۔ ہماری رائے میں عالمگیریت کی موجودہ فضا میں ان دو متضاد رویوں کا تجزیہ وتنقیح ایک اور زاویے سے بھی ہو سکتی ہے۔ 

کسی بھی معاشرت کی تشکیل میں فرد اور گروہ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ فرد اور گروہ کے انفرادی رویے، ان کا باہم اختلاط اور اتفاق واختلاف معاشرت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس کے صحت مند ارتقا کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ فرد اور گروہ کے باہمی تعلق سے فرد اور گروہ کے مختلف النوع رویے ظاہر ہوتے ہیں اور یہی متنوع رویے فرد اور گروہ کی شناخت کے حوالے سے ان کی حساسیت سمیت دیگر کئی مظاہر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک فرد جس رویے کا اظہار بطور فرد کر رہا ہوتا ہے اور جو معاشرے میں اس کی مخصوص شناخت کا سبب ہوتا ہے، کسی گروہ میں شامل ہونے کے بعد وہ بعینہ اس رویے کا اظہار نہیں کرتا۔ چنانچہ بہت سے شرمیلی طبیعت کے افراد گروہ میں شامل ہو کر بہت بے باک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بے باک مزاج کے افراد گروہ میں شامل ہونے کے بعد شرمیلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے افراد کا رویہ یہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے کہ وہ گروہ کی نفسیات کے سحر کا شکار ہو گئے ہیں اور اس کے ہاتھوں اپنی بعض انفرادی خصوصیات کھو بیٹھے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔

دوسری طرف بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کہیں بھی چلے جائیں اور کسی بھی گروہ میں شامل ہو جائیں، ان کے ان رویوں میں جن کا اظہار وہ بطور فرد کر رہے ہوتے ہیں، ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ ایسے افراد کی بابت ایک بات تو بآسانی کہی جا سکتی ہے کہ وہ گروہی نفسیات کا شکار نہیں ہوتے کہ ان کی انفرادی شخصیت ہی اتنی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے، لیکن ان کی بابت ایک دوسری بات بھی اتنی ہی آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ ایسے افراد طبعاً ضدی اور اڑیل ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں مطابقت پزیری اور وسعت پزیری کے عناصر مفقود ہوتے ہیں۔

اب ہم اصل نکتے کی طرف آتے ہیں۔ اگر دنیا میں موجود مسلم کمیونٹی کو بطور فرد لیا جائے اور خارجی مظاہر کے اثرات (گلوبلائزیشن، انفرمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ) کو بطور گروہ تو مترشح ہوگا کہ مذکورہ بالا تصویر کے دو رخوں میں سے پہلا رخ ترقی پسند افراد کی نشان دہی کرتا ہے اور دوسرا رخ روایت پسند افراد کی نمائندگی کرتا ہے۔ اب اگر روایت پسندوں کو ترقی پسندوں کی حد سے بڑھی ہوئی مطابقت پزیری چبھتی ہے یا ترقی پسندوں کو روایت پسندوں کے استقلال میں بوسیدگی کی بو آتی ہے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ دونوں گروہوں کی افتاد طبع ہی ایک دوسرے یکسر مختلف ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں گروہوں کے ہاں یہ رویے کیونکر ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟ پہلے نکتے پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ترقی پسندوں کی بے جا مطابقت پزیری درحقیقت ان کے تربیتی نظام کی ناپختگی کی علامت ہے۔ روایت پسندوں کے اڑیل پن کے رد عمل میں اختیار کی گئی بے جا مطابقت پزیری اور نام نہاد وسعت پزیری کسی بھی اعتبار سے صاحبان فہم کے ہاں قابل قبول نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گروہ اپنی امتیازی خصوصیات سے دست بردار ہو کر پوسٹ ماڈرن کلچر کے خارجی مظاہر کو بطور معیار تسلیم کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر کوئی فرد کسی گروہ میں شامل ہو کر اپنی بعض خصوصیات سے دست بردار ہو کر اپنی بنیادی انفرادیت سے محروم نہیں ہوتا تو اس کے طرز عمل کو عموماً صحت مندانہ قرار دیا جاتا ہے کہ اس فرد نے توازن کا مظاہرہ کیا ہے۔ البتہ اس کے برعکس رویہ قابل مذمت ٹھہرتا ہے۔ ہماری رائے میں مسلم کمیونٹی کا ترقی پسند گروہ بھی اگر تغیر پذیر دنیا کے خارجی اثرات کو معیار تسلیم کرنے کے بجائے اپنی منفرد بنیاد تلاش کر کے پوسٹ ماڈرن کلچر کے خارجی اثرات سے مطابقت پزیری اختیار کرے تو اس کا طرز عمل لائق تحسین اور صحت مند قرار پائے گا۔

اب روایت پسندوں کے اس استحکام اور استقلال کو دیکھیے جو حد سے بڑھ کر ہٹ دھرمی اور اڑیل پن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ اگر کوئی فرد کسی گروہ میں شامل ہو کر اس کے کسی بھی نوعیت کے اثرات کو قبول کرنے سے انکاری ہوتا ہے تو ایسا فرد لازماً ابنارمل سمجھا جاتا ہے۔ اپنی منفرد خصوصیات پر اصرار جو امتیازی اور بنیادی نوعیت کی ہوں، اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ثانوی نوعیت کے کرداری مظاہر کو تج دینا بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے۔ روایت پسندوں کے ہاں ایسا استقلال جو ہر شخص کے کرداری اور قدری مظہر پر چھا کر ہٹ دھرمی کو جنم دیتا ہے، درحقیقت کسی ایسے تربیتی نظام کی نام نہاد پختگی سے پھوٹتا ہے جس میں معاصر تقاضوں سے بے رغبتی کو ایمان واخلاق کی نیو سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ ایسے افراد کا علاج ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ضرور ہوتا ہے، کیونکہ ایسے افراد یا گروہ دنیا بھر کے ہر معاملے کو ’’طے شدہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ طے شدگی کی یہ نفسیات لچک اور مطابقت پزیری کے ہر لمحے میں ہر پل حائل ہو جاتی ہے۔

یہاں اس نکتے کا بیان شاید موزوں اور برمحل ہوگا کہ اگر روایت پسند افراد یا گروہ اپنی افتاد طبع کو ہٹ دھرمی کے دائرے سے نکال کر ’’استقلال‘‘ کے دائر ے میں لے آئیں تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنی استقلالی نفسیات کے بل بوتے پر بطور فرد، گروہ کی نفسیات پر اور بطور گروہ، پوسٹ ماڈرن کلچر کی حامل تغیر پزیر دنیا کے خارجی اثرات پر گہرے اور ان مٹ نقوش ثبت کر دیں۔ اگر فرد کے لیے مطابقت پذیری اہم ہے تو گروہ کے لیے بھی کسی مضبوط فرد کے منفرد اثرات سے بچنا محال اور غیر ضروری ہے۔ چنانچہ روایت پسندوں کے اثرات اگر ہٹ دھرمی پر مبنی ہونے کے بجائے استقلالی نوعیت کے ہوں تو ان سے بچنا تغیر پذیر دنیا کے پوسٹ ماڈرن کلچر کے لیے ناممکن ہوگا۔

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter