انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

قرآن پاک کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ارتقا سنتِ الٰہی ہے اور کارخانہ قدرت میں ہر سو اسی کی کارفرمائی ہے ۔اللہ اپنی ربوبیت سے مختلف انواع کو پیدا کرتا ،انہیں تاریخی مراحل سے گزارتا اور اکملیت کی جانب گامزن رکھتا ہے ۔اللہ اگر چاہے تو کسی بھی چیز کو فوراً مکمل حالت میں نیست سے ہست میں لے آئے لیکن ایسا کرنا اس کی شانِ ربوبیت کے خلاف ہے ۔خلیفہ نصیرالدین صدیقی اپنی کتاب "The Quran And the World Today" میں لفظ ’’ِرب‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : 

"The quality of being "Rabb" implies a process of nourishment, providing from moment to moment and from age to age all that creation needs to attain the fullest possible development. The analogy of a mother , rearing her child , however , imperfect , illustrates the solicitous characteristic of Allah's attribute of Rabubiyya" 1 

فلسفیوں اور حکیموں کے لیے یہ سوال نہایت اہمیت کے رہے ہیں کہ آخر حیات کیا ہے ؟ انسان کیا ہے؟ اور یہ کہ انسان کیسے وجود میں آیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ حیات کی ابتدا اور ارتقا کے متعلق فلسفی ،حکیم اور سائنسدان کوئی حتمی اور قطعی بات کر ہی نہیں سکتے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظر صرف مادی دنیا پر ہے ۔مادی دنیا کے خالق اور اس میں تدریجی تبدیلیاں لانے والے اُس رب ذوالجلال پر نہیں جو مادے کو حیات میں اور حیات کو مختلف انواع میں بدلتا اور پھیلاتا ہے ۔اس لحاظ سے حکیم اور فلسفی ایک ایسی اندھی گلی میں ہیں جس میں وہ دیواروں سے سر تو ٹکرا سکتے ہیں لیکن راستہ نہیں پاسکتے ۔

قرآنِ پاک خدا کی طرف سے انسان کے نام ایک کھلا خط ہے جس میں خدا نے انسان کو مخاطب کرکے براہِ راست مکالمہ کیا ہے۔اپنا تعارف کرایا ہے ،حیات و کائنات کے رموز سے آگاہ کیا ہے اور انسان کو اُس کی ابتدا و ارتقا سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں ۔قرآنِ پاک میں اصولِ ارتقا کو قانونِ اِلٰہی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ ارشادِ ربُّ العزت ہے :

’’یُدَبّرُ الامرَ مِنَ السَماءِ اِلَی الاَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ اِلیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدارُہٓ اَلفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ذٰلِکَ عٰلِمُ الغَیبِ والشَّھادَۃِ العَزِیزُ الرَّحِیم (۲)

سید قطب شہید نے اپنی تفسیر ’’فی ظلال القرآن ‘‘ میں درج بالا آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

’’ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ایک ہزار سال ہے ۔وہی ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، زبردست اور حکیم‘‘ (۳)

پھر ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے سید قطب شہید لکھتے ہیں :

’’اللہ نے ہر چیز کو موجودہ شکل تک پہنچایا مختلف مراحل ،ادوار سے گزار کر‘‘ (۴)

مولانا جعفر شاہ پھلواروی اپنی کتاب ’’ اسلام اور فطرت‘‘ میں سورۃ السجدہ کی انہی دو آیات(۳۲:۵،۶) کے حوالے سے رقم طراز ہیں :

’’ اِن آیات کا مطلب دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ اس کائنات کی ہر شے خواہ وہ کثیف ہو یا لطیف وجود میں آنے کے بعد منازلِ ارتقا کی طرف رجوع و صعود کرتی رہی اور ایک منزل سے دوسری منزل میں آنے تک اُسے ہزاروں سال لگے ۔یہ ہزاروں سال کی میعاد ہمارے پیمانہء وقت کے مطابق ہے ورنہ اللہ جو زمان و مکاں کے انسانی پیمانوں سے بالا تر ہے ،کے نزدیک ایک یوم ہے‘‘ ۔ (۵)

ارتقا ایک ایسا قانونِ قدرت اور اصولی نظام ہے جس کا اطلاق ہر چیز پر ہوتا ہے ۔کوئی شے ارتقائی مراحل کے بڑے بڑے وقفوں سے گزرے بغیر حیات کے اگلے مراحل میں داخل نہیں ہوتی ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ارتقا شعبدہ بازی نہیں بلکہ تدریجی ترقی کا نام ہے۔

زندگی کے اس ارتقائی تصور پر نظر رکھتے ہوئے حیات کی نچلی سطحوں (Lower orders of life) کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر نچلی سطح سے نچلی سطح پر زندگی تنوع ،بوقلمونی اور رنگارنگی سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتداءً حیاتیاتی ارتقا کا مقصدِ اوّل حیات کا تحفظ اور بقا تھا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ حیات کی اس سطح پر دوئی (Reproduction) کا فقدان تھا۔دوئی تو موجود تھی اور حیات کی بقا دوئی کے وجود سے ہی ممکن تھی لیکن اس دوئی میں وہ نیا پن ،جدت اور تازگی نہ تھی جو زندگی میں نکھار ،ترقی اور نوعیتی تبدیلی (Variety) پیدا کرسکتی ۔دراصل حیات کا تخلیقی عمل ارتقا کے کئی مراحل سے گزر کر موجودہ حالت تک پہنچا اور ہر سطح پر ارتقا کا دھارا اور شعوری شدت اختیار کرتا گیا ،تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ حیات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کہاں سے ہوئی ؟ اور کن کن مراحل سے گزر کر ہوئی ؟ یہ بے چین کردینے والے سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب تلاش کرنا ایک متجسّس ذہن کی تحقیقی جستجو کے لئے چیلنج ہے ۔ڈاکٹر رفیع الدین لکھتے ہیں :

"There could have been no organic life without matter and its laws. It is on account of the operation of the physical law that the sun shines, the winds blow, the clouds rain , the rivers flow, the seasons change, and the days and nights alternate. The laws of matter seem to have been designed consciously or unconsciously in order to make possible the appearance and the evolution of life on earth." 6

مادہ کی طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد کائنات میں اس پہلے جانور نے جنم لیا جسے امیبا کہتے ہیں ۔ (۷)

"The universe evolved itself into what it did in order to prepare the way for the appearance of this thin cell." 8 

کیا مادے کی اس تخلیقی کارکردگی کے حیاتیاتی اظہار سے حیات و کائنات کے متعلق بنیادی استفسارات کا غیر مشتبہ اور یقینی جواب مِل جاتا ہے ؟یقیناًنہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جواب تبھی قابلِ قبول ہوسکتا ہے جب اس کا سرچشمہ ایک ایسی اتھارٹی ہو جس پر کوئی ایک فرد یا گروہ نہیں بلکہ اجتماع یقین اور اعتماد رکھتا ہو۔گویا کسی بات کا محض درست ہونا ہی کافی نہیں ،درست اور صحیح نظریہ کے قبولِ عام کیلئے اس کا پُراعتماد اور غیر متشکک ہونا بھی ضروری ہے ،چنانچہ نمودِ حیات اور ارتقا کے متعلق حقیقی اور حتمی معلومات کیلئے کتابِ الٰہی کے علاوہ اور کوئی وسیلہ اتنا موثر اور با اعتماد نہیں ہوسکتا ۔ ارشادِ ربّ العزت ہے:

’’ وَ نَزّلنَا عَلیکَ الکِتٰبَ تِبیَاناً لِّکُلِّ شَیءٍ ‘‘ (۹) 
ترجمہ:’’ اور ہم نے تم پر وہ کتاب اتاری ہے جو ہر چیز کی خوب وضاحت کرنے والی ہے‘‘ ۔

چنانچہ حیات کی ابتدا اور ارتقا کے مباحث بھی قرآنِ پاک میں بالتفصیل موجود ہیں۔ارشاد ہوتا ہے :

’’وَجَعَلنَا مِنَ المآءِ کُلَّ شَیٍ حَیّیٍ اَفَلَا یُؤ مِنُونَ‘‘ (۱۰)
ترجمہ: ’’ ہم نے ہر جاندار شے کو پانی سے بنایا تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لاتے‘‘۔

مولانا شہاب الدین اس حوالے سے لکھتے ہیں : 

’’یہاں پر قابلِ غور بات یہ ہے کہ زمین کے ساتھ ساتھ اجرامِ سماوی کی تخلیق کا تذکرہ بھی موجود ہے جس کے معاً بعد صاف صاف تصریح کردی کہ ’’ زندگی‘‘ یا ’’ زندہ شے‘‘ (ہر قسم کا پروٹوپلازم خواہ وہ حیوانات کا ہو یا نباتات کا جس کا اکثر حصہ پانی پر ہی مشتمل ہوتا ہے )محض پانی ہی کی بدولت ظہورپذیر ہوتی ہے ۔اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہماری زمین کی طرح دیگر اجرامِ فلکی کے تمام جانداروں کی افرینش میں پانی ایک بنیادی عنصر اور لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘ ۔ (اا)

سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے:

’’ وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دِآبَّۃٍ مّن مَّاءٍ‘‘ (۱۲) 
ترجمہ:’’ اور اللہ نے ہر جاندار پانی سے پیدا کیا‘‘۔

اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا محمد شہاب الدین رقمطراز ہیں :

’’ اس آیت کریمہ میں اصولی حیثیت سے ’’ دابَّہ‘‘ کی فلسفیانہ تقسیم کی گئی ہے یعنی ’’ دابَّہ ‘‘ کا اطلاق انسانوں کے علاوہ چرندوں ،پرندوں،درندوں اور ہر قسم کے حشرات پر ہوتا ہے ۔یہ ایک کلیہ ہوا اور دوسرا کلیہ یہ بیان کیاگیا کہ ان تمام ’’ انواعِ حیات‘‘ کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے یعنی آغازِ حیات کی رو سے بھی ، نطفہ کے وجود میں آنے کے لحاظ سے بھی ،نخرمایہ(Protoplasm) کا بنیادی جزو ہونے کی حیثیت سے بھی اور خود پوری زندگی کا دارومدار پانی پر ہونے کی رعایت سے بھی ۔غرض جس حیثیت سے بھی نظر ڈالی جائے یہ ایک سائینٹیفک اور صداقت سے بھرپور کلمہ نظر آتا ہے ۔اس لحاظ سے پانی ’’ دابّہ‘‘ کی زندگی اور اس کے وجود کیلئے جزوِ لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔ (۱۳)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’ وَکاَنَ عَرشُہُ عَلَی المَآءِ ‘‘ (۱۴)
ترجمہ:’’ اور اس کا عرش پانی پر تھا‘‘ ۔

پانی زندگی کا سرچشمہ ہے ۔اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو زندگی کے اس سرچشمہ پر پورا پورا کنٹرول حاصل ہے۔قرآنِ پاک کی آیتِ مبارکہ ایک جامع بیان ہے تاہم قرآنِ مجید میں اُن ارتقائی مراحل کا ذکر بھی ملتا ہے جن سے گزر کر مادہ ارتقا کی اُس منزل پر آ پہنچا جہاں سے حیات کا آغاز ہوا ۔ارشاد ہوتا ہے : 

’’ وَ بَدَاَ خَلقَ الاِ نسانِ مِن طِینٍ‘‘ (۱۵)
ترجمہ: اور انسان کی پیدائش کی ابتدا مٹی سے ہوئی‘‘۔

اس مفہوم کو قرآنِ پاک میں دو اور مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے:۔

’’ ھُوَ الّذِی خَلَقَکُم مِّنْ طِینٍ‘‘ (۱۶)
ترجمہ:’’وہی ہے جس نے پیدا کیا تم کو مٹی سے ‘‘ 
’’ اِذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلٰئِکَۃِ اِنِّی خَالِق بَشَرًا مِّنْ طِینٍ‘‘ (۱۷)
ترجمہ:’’ جس وقت تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تحقیق میں پیدا کرنے والا ہوں انسان کو مٹی سے‘‘۔

قرآنِ پاک میں تخلیقِ آدم کے حوالے سے ’’ طین‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ تراب‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے مثلاً:

’’ خَلَقَکَ مِن تُرابٍ‘‘ (۱۸)
ترجمہ:’’پیدا کیا ہے تجھ کو مٹی سے‘‘۔
’’ خَلَقَکُم مِن تُرابٍ‘‘ (۱۹)
ترجمہ: ’’ پیدا کیا تم کو مٹی سے ‘‘ ۔

تخلیقِ انسان کے اگلے مرحلے کیلئے ’’ طینِ لاذب‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔’’طینِ لاذب ‘‘ سے مراد ایسا گارا (Mud) ہے جس میں دیر تک پڑے رہنے سے لیس پیدا ہوجائے ۔ارشاد ہوتا ہے :

’’ اِنَّا خَلَقنٰہُم مِّن طِینٍ لّاَزِب‘‘ (۲۰) 
ترجمہ: ’’ بیشک ہم نے انہیں چپکتی ہوئی مٹی (گارے) سے پیدا کیا‘‘۔

ابھی تک تخلیقِ آدم کے حوالے سے تین ارتقائی مراحل، طین،تراب اور طینِ لاذب کا ذکر ہوا ہے۔یہ ارتقائی مراحل کتنے بڑے بڑے وقفوں پر مشتمل تھے اس کا صحیح علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں ۔ڈاکٹر عبدالمجید نے قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمے میں تراب،طین اور طینِ لاذب کیلئے تین مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں مثلاً: 

تراب Dust ۔ (۲۱)

طین Clay ۔  (۲۲)

طینِ لاذب Cohesive Black Clay  ۔(۲۳)

تراب سے مراد ایسی مٹی ہے جو خاک کی صورت ہوتی ہے۔اِدھر اُدھر اُڑتی پھرتی ہے اور جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔طین سے مراد گیلی مٹی اور طینِ لاذب سے مراد گوندھی ہوئی کالی گندی مٹی ہے ۔اس کے بعد قرآنِ پاک میں حیات کے اگلے ارتقائی مرحلے کا ذکر ہوتا ہے ۔ سورۃ الحجر میں بتایا جاتا ہے کہ :

’’وَلَقَد خَلَقنَا الانسانَ مِن صلصالٍ مِّن حَمَاٍ مَّسنُونٍ‘‘ (۲۴)
ترجمہ:’’اور تحقیق ہم نے انسانوں کو پیدا کیا ایک کھنکھناتے ہوئے،سیاہ سڑے ہوئے گارے سے‘‘۔

ڈاکٹر عبدالمجید نے ’’ صلصال ‘‘ اور’’ حماٍ مَسنُون ‘‘کا ترجمہ بالترتیب "Dried Ringing Clay" (۲۵) اور "Black Smelling Mud" (۲۶) سے کیا ہے۔گویا صلصال سے مراد سڑا ہوا اور سوکھا ہوا گارا اور حماٍمسنون سے مراد وہ گارا جس سے سڑنے اور سوکھنے کے بعد بُو پیدا ہوجائے ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ یہ سڑی ہوئی اور سوکھی ہوئی مٹی ایک طرف تو بدبودار تھی اور پھر ارتقا کے اگلے مرحلے پر اس میں خمیر پیدا ہوگیا ۔ارشاد ہوتا ہے:

’’ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ ‘‘ (۲۷)
ترجمہ: ’’(اُس نے) انسان کو ٹھیکری کی مانند بجنے والی مٹی سے پیدا کیا‘‘۔

اس کے بعد قرآنِ پاک میں مادی ارتقا کے اس آخری مرحلے کا ذکر ہے جس کے طے پانے پر مادہ کے اندر حیات کی ایک نئی شکل نے جنم لیا۔ ارشاد ہوتا ہے:

’’ وَلَقَد خَلَقنَا الانسانَ مِن سُلٰلَۃٍ مِّن طِین‘‘ (۲۸)
ترجمہ:’’اور تحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا ‘‘ 

اس آیت کے حوالے سے غلام احمد پرویز رقمطراز ہیں :

ٍٍ’’ مٹی کے خلاصہ کے الفاظ بڑے غور طلب ہیں ۔ہم جب کوئی بیج زمین میں بوتے ہیں تو وہ اُن اجزا کو جن پر اِس کی نشونما کا مدار ہوتا ہے کھینچ کر اپنے اندر جذب کرلیتا ہے ۔انہی اجزا (نمکیات ،معدنیات) وغیرہ کو سُلٰلۃٍ مِّن طِین 23/12یعنی مٹی کا خلاصہ کہا جائے گا۔اس قسم کے مٹی کے خلاصہ سے حیات کا پہلا خلیہ (Cell) وجود میں آیا‘‘ (۲۹)

اِس یک خلیائی جاندار (One Celled Creature) کے متعلق قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

’’ وَھُوَ الَّذِیٓ اَنشَا کُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ‘‘ (۳۰)
ترجمہ:’’ اور وہی ہے جس نے پیدا کیا تم کو جان ایک سے‘‘

اس آیت کے حوالے سے علامہ عنایت اللہ مشرقی فرماتے ہیں کہ:

’’ نفس کا لفظ نہایت معنی خیز ہے جس کے معنی مطلق جان کے ہیں قرآن حکیم میں انسان کی پیدائش کے متعلق نفسِ وّاحدَۃٍ کا ذکر ہے، بشرِ واحد کا کہیں ذکر نہیں ‘‘ (۳۱)

مادہ سے حیات (نفس واحدہ) کا ظہور ایک بہت اہم واقعہ تھا جس نے کائنات کی مادی زندگی میں بہت بڑا انقلاب برپا کردیا ۔زندگی لاکھوں برس مادہ (Matter) کی شکل میں کائنات میں سر پٹختی رہی ۔مادی دنیا کے اندر کئی تبدیلیاں آئیں لیکن یہ تبدیلیاں مادے کی حیاتیاتی نوعیت میں تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں ، تاہم مادے میں زندگی کا ارتقا جاری رہا اور حیات کا مادّہ کی سطح پر شعورِ ارتقا مسلسل آگے قدم بڑھاتا رہا۔ اس ارتقا سے دمبدم یک رنگ مادے کی تخلیق ایک طویل دور ہے ۔آخر کار امیبا کی پیدائش مادے کی حیاتیاتی نوعیت سے مختلف ایک نئی نوعِ حیات کی تخلیق تھی۔دراصل امیبا مادی قوانین کی قید میں گرفتار مادی زندگی کی حامل کائنات میں زندگی کی ایک نئی اور بلند تر سطح کا آغاز تھا جِسے مادے کے اٹل قوانین (Fixed Laws) نے جنم تو ضرور دیا تاہم اب یہ حیاتیاتی وجود مادی قوانین سے آزاد ایک خود آشنا ہستی تھا۔ یہ حیات کا ایک نیا رخ تھا ۔پہلے سے بالکل مختلف اور جدا ۔حیات کی اس سطح کی تخلیق میں کائنات کی ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی مسلسل جدوجہد صرف ہوئی ،تب کہیں جاکر کائنات نے حیاتیاتی ارتقا کے اس مرحلے میں قدم رکھا کہ اس کی کوکھ سے ایک نئی ،مختلف ،پہلے سے بلند تر اور اعلیٰ تر نوعِ حیات نے جنم لیا ۔ارتقائی مراحل کے نتیجے میں زندگی کی ایک سطح سے دوسری بلند تر سطح پر جست فجائی ارتقا (Emergent Evolution) کہلاتی ہے ۔قرآنِ پاک کی سورۃ المومنین میں اس کی ایک مثال اس طرح ملتی ہے کہ اس سورت کی آیت نمبر۱۱۴،میں اللہ فرماتا ہے کہ رحمِ مادر میں نطفہ ٹھہرنے کے بعد ،ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے اورپھر اس پر گوشت کی تہہ چڑھ جاتی ہے ۔آیت مذکورہ کے آخری الفاظ نہایت اہم ہیں:

’’ ثُمَّ اَنشَانٰہُ خَلْقاً اٰخَرَ فَتَبٰرَکَ اللّٰہ اَحْسَنُ الخٰلِقِینَ‘‘ (۳۲) 
ترجمہ: پھر ہم نے انسان کو ایک بالکل نئی اور دوسری قسم کی مخلوق کی شکل میں نمودار کردیا ۔پس اللہ بڑا ہی بابرکت ہے۔ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر‘‘۔ 

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی فرماتے ہیں کہ:

’’ فتبارک اللہ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجہء دلیل بھی ہے ۔اس میں گویا یہ کہا جارہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے ‘‘ (۳۳)

سوال یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو دوسری قسم کی مخلوق بنانے کا دعوےٰ کس بنا پر کیا ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ رحمِ مادر میں جنین پر جو ارتقائی مراحل گزرتے ہیں ان کی یکسانیت کی بنا پر تو انسان اور حیوان برابر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت اور شعور کے اعتبار سے انسان کو ایک منفرد ماہئیت اور مرتبہ عطا فرمایا ہے اور اسی بنا پر وہ حیوانات سے ممیز اور ممتاز ہے بلکہ اللہ اس کے لئے احسن الخالقین کے الفاظ استعمال کرتا ہے :

’’ لَقَد خَلَقنَا الانسانَ فِی اَحسَنِ تَقوِیم‘‘ (۳۴)

ارتقائی مراحل کی بہت سی مماثلتوں کے باوجود نتیجہء تخلیق کے لحاظ سے انسان اور حیوان میں شکل و صورت اور عقل و شعور کے اعتبار سے واضح فرق اور انسان کا خدا کی جانب سے ’’ احسن تقویم‘‘ کے مرتبے پر فائز ہونا ،حیات کی ادنیٰ سے اعلیٰ مرتبے پر جست اور فجائی ارتقا ہے ۔انسان کے حیاتیاتی ارتقا کے حوالے سے ارشادِ ربّ العزّت ہے :

’’ وَاللّٰہ انْبَتَکُم مِّنَ الَارضِ نَبَاتاً‘‘ (۳۵)
ترجمہ:’’ اور اللہ نے تم کو (انسانوں کو) زمین سے درخت کی طرح اُگایا‘‘۔

علامہ عنایت اللہ مشرقی اس آیت کے حوالے سے ’’ تذکرہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ گویا جب انسان کے زمین سے درخت کی مانند اگنے کی ظاہری صورت کوئی نہیں تو اِن الفاظِ وحی کے لامحالہ کوئی اور عظیم الشان معانی ہیں جن کی تعلیم دینے کے لئے ربِّ بے مثال نے ایک مستقل آیت بھیجنے کی تکلیف گوارا کی‘‘۔ (۳۶)

ان معانی کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد رفیع الدین رقمطراز ہیں :

’’خدا کے نزدیک انسان کی پیدائش ایک تدریجی حیاتیاتی عمل ہے جو ایک درخت کی نشوونما سے مشابہت رکھتا ہے۔ امیبا سے جو شجرِ زندگی پھوٹا ،اُس کی مختلف شاخیں ہوگئیں ۔ ہر شاخ اپنی ترقی کے ایک خاص نکتہ پر جاکر رُک گئی لیکن صرف ایک شاخ برابر ترقی کرتی رہی۔اس شاخ کی انتہا پر جسمِ انسانی نمودار ہوا ۔اس شاخ پر جسمِ انسانی سے پہلے حیوانات کی جس قدر انواع وجود میں آئیں اُن کے اجسام جسمِ انسانی کی سابقہ صورتیں تھیں جو پے در پے بہتر سے بہتر ہوتی رہیں اور جسمِ انسانی کی آخری ساخت اور شکل کے قریب آتی رہیں ۔یہاں تک کہ اس کی آخری شکل یعنی مکمل جسمِ انسانی وجود میں آگیا ‘‘ ۔ (۳۷) 

ارشادِ رب العزت ہے:

’’وَ قَد خَلَقَکُم اطواراً‘‘ (۳۸) 
ترجمہ:’’ اور تحقیق پیدا کیا ہے تم کو طرح طرح سے ‘‘ ۔

قرآنِ پاک کے فرمودات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حیات کا آغاز تو یک خلیائی جاندار سے ہوا ، پھر اس سے کائنات کے اندر حیات کی حامل مختلف شاخیں نمودار ہوئیں ۔جمادات،نباتات بھی،چرند پرند بھی اور حیوانات بھی ۔گویا زندگی کا بنیادی سرچشمہ ایک ہی تھا جیسے درخت کا بیج اور تنا ایک ہی ہوتا ہے اور پھر اس پر مختلف شاخیں نمودار ہوتی ہیں۔ حیات کی انہی مختلف شاخوں میں سے ایک سب سے زیادہ ترقی والی اور ارتقائی مراحل سے گزرنے والی شاخ کے آخری سرے پر انسان پیدا ہوا جو ہئیتی اور شعوری لحاظ سے تمام سابقہ مراحلِ حیات کے حامل جانداروں سے ممتاز اور افضل ہے۔ انسان حیات کی اعلیٰ ترین صورت کا نمائندہ ہے ۔

جس طرح مادہ اپنے ابتدائی ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد آخر اس مرحلے میں پہنچ گیا کہ جہاں مادہ سے ایک بالکل مختلف نوع پیدا ہوئی جو فجائی ارتقا کا نتیجہ تھی،اس طرح پھر حیات نے مختلف قسموں ،شکلوں اور صورتوں میں اپنے ارتقائی سفر کو جاری رکھا اور مختلف مراحلِ ارتقا پر فجائی ارتقا (Emergent Evolution) اپنا کام دکھاتا رہا۔حیوانی سطح سے انسانی سطح کا ظہور بھی فجائی ارتقا کا ثمر ہے ۔فجائی ارتقا ایک طرح سے ایک نئی نوع حیات کی براہِ راست تخلیق کا نام ہے۔ قرآن پاک کے الفاظ ’’ کن فیکون‘‘ کا مفہوم بھی اس میں مضمر ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی طالب علم کو یونیورسٹی ایم،۔اے کی ڈگری جاری کرنے کا حکم صادرکرے اور فوراًاُسے وہ ڈگری عطا بھی کردی جائے ،لیکن کیا یہ سب آناً فاناً ہوگیا ۔دراصل اس سے پہلے کہ طالب علم کو یونیورسٹی اس مرتبے کا مستحق ٹھہراتی اور وہ مرتبہ اُسے عطا کیا جاتا ،طالب علم نے اس منزل تک پہنچنے کیلئے بہت سے ارتقائی مراحل طے کئے تھے اور اس میں اسکا بہت سا وقت صرف ہوا تھا ۔مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب رقمطراز ہیں:

’’ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا تو پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے ‘‘۔ (۳۹)

ارتقا اور تخلیقی عمل زندگی کی علامت ہے ۔زندگی ارتقا سے قائم رہتی ہے اور ارتقا ثباتِ زندگی سے آگے قدم بڑھاتا ہے ۔گویا ارتقا کے دو مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں حیات اپنے وجود کا تحفط کرتی ہے اور پھر اس کے اندر کسی نوعی تبدیل کیلئے جستجو کرتی ہے ۔وجود کو برقرار رکھنے کیلئے ایک سے زیادہ حیاتیاتی اجسام کی تخلیق ضروری ہے،لیکن محض تخلیق ارتقا نہیں۔ تخلیق میں جدت اور نیا پن ارتقا کہلاتا ہے ۔وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’ حیاتیاتی سطح پر زندگی ابتداً محض بقائے نسل کے مقصد کے تابع تھی ،لیکن جیسے جیسے وہ ارتقا پذیر ہوئی تو انفرادیت کے اظہار کا عمل زیادہ فعال ہوتا چلا گیا‘‘۔ (۴۰)

مادے سے امیبا کی تخلیق میں جتنی مدت صرف ہوئی ،امیبا نے اس سے کم مدت کی ارتقائی جدوجہد سے حیات کی نئی منزلوں میں قدم رکھنا شروع کیا تاہم یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی مسلسل ارتقائی جدوجہد کے بعد حیات کی اگلی اور بہتر سطح جنم لیتی ہے ۔اس بہتر حیاتیاتی سطح کے حصول کیلئے زندگی کو کس قدر خراج ادا کرنا پڑتا ہے اور کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ،اس ضمن میں ڈاکٹر رفیع الدین لکھتے ہیں :

"Much waste for the sake of a precious gain seems to be a characteristic of the process of evolution" 41. 

تاہم : 

" The very slow pace of the process, the waste and the suffering need not blind us to what has been achieved. The contrast between primitive protoplasm and man, beggars description" 42.

دراصل عملِ ارتقا کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ جو انواع ماحول کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتیں اور وقت اور حالات کے سیلِ رواں کے مقابل کمزور پڑ جاتی ہین ، جن کا وجود عصرِ رواں کے لئے مفید اور نفع بخش نہیں رہتا ،ایسی انواع وقت کے بہتے ہوئے دریا کے طوفانوں کی نذر ہوجاتی ہیں اور ان کی جگہ وہ انواع لے لیتی ہیں جو بہتر ہوں اور جن کا وجود زمانے کے لئے مفید اور نفع بخش ہو۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں :

’’ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ بقائے اصلح کا راز سب سے پہلے ڈارون پر منکشف ہوا تھا ،یہ ایک عالمگیر غلط فہمی ہے ۔قرآنِ پاک نے چودہ سو سال پہلے اعلان فرمایا تھا :
’’ صرف وہی چیز دنیا میں باقی رہتی ہے جو لوگوں کیلئے مفید ہو ‘‘ ۔ (۴۳)

قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اَنزَلَ مِنَ السَّمآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَودِیۃ بِقَدَرِھا فَاحتَمَالَ السَّبِیلُ زَبَداً رَّابِیاً ط وَمِمَّا یُوقِدونَ عَلیہِ فیِ النَّارِ ابْتِغَآ ءَ حِلْیَۃٍ اَو مَتَاع زَبَد مِّثلَہُ ط کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللہُ الحَقَّ وَالباطِلَ ط فَامَّا الزَّ بَدُ فَیَذھَبُ جُفآءً ج وَامَّا ما یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمکُت فِی الارضِ ط کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللہُ الامْثَال‘‘ (۴۴)
ترجمہ:’’اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے تو نالے اپنے انداز کے مطابق بہنے لگتے ہیں پھر سیلاب اوپر کی جھاگ اور خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے اور جن دھاتوں کو لوگ آگ میں ڈال کر تپا تے ہیں زیور یا دیگر سامان تیار کرنے کے لیے ،ان میں بھی اسی طرح کا جھاگ اور میل کچیل ہوتا ہے ۔اللہ حق اور باطل کی مثال یوں ہی دیتا ہے ۔ غرض میل کچیل یا خس و خاشاک تو یوں ہی رائیگاں جاتا ہے لیکن جو چیز انسانوں کے لیے نفع بخش ہوتی ہے اس کو زمین میں بقا حاصل ہوتی ہے ۔اللہ اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے ‘‘۔

یہ آیت اس کائناتی اصول کو بیان کرتی ہے کہ بقا و قیام کا حق صرف اُسے ہے جو زمانے کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنے وجود کی افادیت برقرار رکھتے ہوئے زندہ رہتا ہے ۔بے فائدہ اور عبث چیزوں کا دنیا میں کوئی مقام نہیں ۔قدرت صرف انہی چیزوں کو قائم رکھتی ہے جو مفید اور نفع بخش ہوتی ہیں اور جب کسی شے میں نافعیت نہیں رہتی تو وہ اپنا وجود کھودیتی ہے۔آسمانی ستاروں سے لیکر زمینی مخلوق تک ساری کائنات میں یہی قانونِ فطرت کار فرماہے ۔قرآنِ پاک کی رو سے عملِ ارتقا میں بقائے انفع (Survival of the most useful) کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو حیات اور کائنات خوب سے خوبتر کے سفر پر رواں دواں ہے اور جو وجود اس سفرمیں کاروانِ حیات کا ساتھ نہیں دیتے ، وہ معدوم ہوجاتے ہیں ۔اسے فطرت کا ظلم نہیں سزا قرار دیا جاسکتا ہے ۔

انواعِ حیات میں انسان سب سے ارفع مقام پر متعین ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کے وجود کے ظہور کے بعد عملِ ارتقا ختم ہوگیا ؟کیا سفرِ ارتقا کی آخری منزل انسان کی موجودہ ہستی اور شعوری ساخت ہی ہے اور بس ۔مولانا جعفر شاہ پھلواری لکھتے ہیں کہ:

’’موجودہ درجے تک کے ارتقا کو تو سائنس نے پالیا ہے لیکن اب تک یہ نہیں معلوم کہ اس ارتقا کا رخ کدھر ہے اور اس کی منزل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب صرف قرآنِ پاک کے پاس ہے‘‘۔ (۴۵) 

خلیفہ نصیرالدین لکھتے ہیں :

"And further , if man has been evolving , attaining more and more perfection , why should we not believe that the present form of human life , both in its physical and mental characteristics, will disappear only to assume still higher forms" 46. 

قرآنِ پاک کی درج ذیل آیت میں انسان کے حیاتیاتی ارتقا کی اگلی منزلوں کی طرف واضح اشارات ملتے ہیں :

’’ ثُمَّ اِنَّکُم بَعدَ ذٰلِکَ لَمیتُونَ ط ثُمَّ اِنَّکُم یَومَ القِیٰمَۃِ تُبعَثُوْنَ‘‘۔ (۴۷)
ترجمہ: ’’ پھر بیشک اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو ۔پھر بلاشبہ تم روزِ قیامت اُٹھائے جاؤ گے‘‘۔
’’وَاِلَی اللہِ تُرجِعُ الاُمُورَ‘‘۔ (۴۸)
ترجمہ:اور تمام کام اللہ کی طرف لوٹیں گے‘‘۔
’’ وَکَذٰلِکَ تُخرَجُونَ‘‘۔ (۴۹)
ترجمہ: ’’ اور اسی طرح تم (قبروں سے) نکالے جاؤ گے‘‘ ۔
’’ وَاِلیہِ تُرجَعُونَ‘‘۔ (۵۰)
ترجمہ: ’’ اور اُسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ 

مندرجہ بالا مباحث سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام عملِ ارتقا کو ایک ایسی کائناتی حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں کہیں ٹھہراؤ نہیں ہے ۔قانونِ ارتقا ہر لحظہ حیات کی نئی اور تازہ صورتیں پیدا کر رہا ہے ۔انسان کی موجودہ شکل و ہئیت اور شعوری سطح بھی اس سے مبرا نہیں بلکہ اسے بھی ایک نئی ماہیت (Form) اختیار کرنے اور نئے شعوری نظام میں ڈھلنے کے لئے ارتقا کے عمل سے گزرتے ہوئے ایک ایسے ماحول میں داخل ہونا ہوگا جس میں داخل ہونے کیلئے اُسے مادی دنیا ہی نہیں بلکہ اپنے مادّی جسم کو بھی چھوڑنا پڑے گا تب ہی حیات کی ایک نئی ارتقائی منزل اُس کا استقبال کرے گی۔ 


حواشی و حوالہ جات

۱۔ 

Nasir-ud-Din Siddiqi, "The Quran and the world today"  Izhar Sons,Lahore :1971,P.49 

۲۔ القرآن ۳۲:۵،۶

۳۔ قطب شہید،سید، ’’ فی ظلال القرآن‘‘،ترجمہ:سید معروف شاہ ،ادارہ منشوراتِ اسلامی ،لاہور :۱۹۹۷،ص۔۲۹۳،۲۹۴۔

۴۔ ایضاً،ص۔۲۹۴۔

۵۔ جعفر شاہ پھلواری ،’’ اسلام اور فطرت‘‘،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ،لاہور :۱۹۴۹،ص:۶۷

۶۔ 

Muhammad Rafi-ud-Din ,"Ideology of The Future " ,Mangotra Printing Press,Jammu:1946,P.23. 

۷۔ 

Microscopic One Celled Creature.

۸۔ 

Muhammad Rafi-ud-Din ,"Ideology of The Future" P.24.

۹۔ القرآن ، ۱۶:۸۹۔

۱۰۔ القرآن،۲۱:۳۰۔

۱۱۔ محمد شہاب الدین ،مولانا ندوی ،’’ اسلام اور جدید سائنس‘‘ مکتبہ تعمیرِ انسانیت ،لاہور:۱۹۸۸،ص:۱۰۷۔

۱۲۔ القرآن ، ۲۴:۴۵۔

۱۳۔ محمد شہاب الدین ،مولانا ندوی ،’’ اسلام اور جدید سائنس‘‘ ص:۱۰۵۔

۱۴۔ القرآن ، (۱۱:۷)

۱۵۔ القرآن ، (۳۲:۷)

۱۶۔ القرآن ، (۶:۲)

۱۷۔ القرآن ، (۳۸:۷۱)

۱۸۔ القرآن ، (۱۸:۳۸)

۱۹۔ القرآن ، (۳۰:۲۰)

۲۰۔ القرآن ، (۳۷:۳۱)

۲۱۔ 

The Holy Qruan , Translated by Dr.,Abdul Majeed. Awais Company:year not mentioned,P.31

۲۲۔ 

Ibid, P.601.

۲۳۔

Ibid, P.645.

۲۴۔ القرآن ، (۱۵:۲۶)

۲۵۔

The Holy Quran Translated by Dr.Abdul Majeed ,P.776.

۲۶۔ 

Ibid, P.382.

۲۷۔ القرآن ، (۵۵:۱۴)

۲۸۔ القرآن ، (۲۳:۱۲)

۲۹۔ غلام احمد پرویز،’’مطالب الفرقان(جلد دوم)‘‘،ص:۷

۳۰۔ القرآن ، (۶:۹۸)

۳۱۔ محمد عنایت اللہ خان ،المشرقی،علامہ،’’ تذکرہ(جلد دوم)‘‘ التذکرہ پبلی کیشنز،لاہور:۱۹۹۷،ص:۱۶۔

۳۲۔ القرآن ، (۳۲:۱۴)

۳۳۔ مودودی،مولانا سید ابولاعلیٰ ،’’تفہیم القرآن(جلد سوم)‘‘م ص:۲۷۰۔

۳۴۔ القرآن ، (۹۵:۴)

۳۵۔ القرآن ، (۷۱:۱۷)

۳۶۔ محمد عنایت اللہ خان ،المشرقی،علامہ،’’ تذکرہ(جلد دوم)‘‘ ،ص:۱۷۔

۳۷۔ محمد رفیع الدین ،ڈاکٹر،’’ قرآن اور علمِ جدید‘‘،ص،۱۵۵:۱۵۶ ۔

۳۸۔ القرآن،(۷۱:۱۴)

۳۹۔ مودودی،مولانا سید ابولاعلیٰ ،’’تفہیم القرآن(جلد پنجم)‘‘ص:

۴۰۔ وزیر آغا،’’تخلیقی عمل‘‘ ،مکتبہ اردو زبان ،سرگودھا :۱۹۷۰،ص:۷۰۔

۴۱۔

Muhammad Rafi-ud-Din ,"Ideology of the Future ", P.35.

۴۲۔

Shah Nawaz , Riaz A. ,"Avolution And Human Behaviour," Feroz Sons, L.T.D.,lahore :1963, P.33.

۴۳۔ غلام جیلانی برق،ڈاکٹر،’’رمزِ ایمان‘‘،شیخ غلام علی اینڈ سنز ،کراچی :۱۹۴۹ء ص:۱۱۸۔

۴۴۔ القرآن،(۱۳:۱۷)

۴۵۔ جعفر شاہ پھلواری،’’اسلام اور فطرت‘‘،ص:۶۸۔

۴۶۔ 

Nasir-ud-Din, Khalifa,"The Quran And The world Today," P.62.

۴۷۔ القرآن،(۲۳:۱۵،۱۶)

۴۸۔ القرآن،(۲:۲۱۰)

۴۹۔ القرآن،(۳۰:۱۹)

۵۰۔ القرآن،(۲:۲۴۵)


آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter