’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ انھوں نے اپنے خط میں ایک بڑی اچھی بات کہی ہے کہ غامدی صاحب پر کی جانے والی تنقیدیں عام طور پر طعن وتشنیع اور تضحیک و استہزا پر مبنی ہوتی ہیں اور صاحب تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جوازفراہم کرتے ہوئے نوک قلم سے اپنے ہی علم و تقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے ۔لیکن کاش کہ طالب محسن صاحب جناب غامدی صاحب کو بھی یہ نصیحت کر سکتے کیونکہ ان کی کتاب ’برہان‘ میں اسی نوع کی تنقیدیں جا بجا موجود ہیں ،خصوصا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور پروفیسر طاہر القادری صاحب پر تنقید کے ضمن میں دلیل و تحقیق کی بجائے زبان و ادب کے جوہر زیادہ دکھائے گئے ہیں جسے علمی تنقید و تحقیق کی بجائے ادبی تنقید کا نام دیا جائے تونامناسب نہ ہوگا ۔اگر طالب محسن صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب کے ساتھ اس قسم کی تحریروں سے زیادتی ہوئی ہے تو خود غامدی صاحب نے بھی دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے طعن و تشنیع اور تضحیک و استہزا سے کم پر اکتفا نہیں کیا ۔ اصولی طور پر طالب محسن صاحب کی بات سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بحث ومباحثے کے دوران کسی مسئلے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے ادبی و ذاتی تنقید کی بجائے علم و تحقیق کی روشنی میں متعین دلائل کو مثبت تنقیدکی بنیاد بنایا جائے ،لیکن دوسروں کو حق بات کی نصیحت کرنے سے پہلے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہو۔ اس لیے میرا طالب محسن صاحب اور ان کے ممدوح غامدی صاحب کو عاجزانہ مشورہ یہی ہے کہ وہ دوسروں پر برہان قائم کرنے کے لیے تضحیک و استہزا پر مبنی ادبی و اخباری کالموں کو ’برہان ‘نہ بنائیں بلکہ مسلمہ اصول تحقیق و دلائل کی روشنی میں مثبت تنقید کرتے ہوئے لوگوں کے لیے ایک نمونہ قائم کریں تا کہ ان کے فکر و فلسفہ کی مخالفت کرنے والوں کے لیے قولی حجت کے ساتھ ساتھ فعلی حجت بھی قائم ہو جائے ۔غامدی صاحب کی ’برہان‘جس قسم کی تنقیدوں سے بھری پڑی ہے، کیا یہ اصولی تنقیدیں ہیں؟قرآن کی کسی ایک آیت کے ترجمے کوبنیاد بناکریا ’مسئلہ بیعت‘ پرتنقید کرکے اگر غامدی صاحب کے متبعین یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اصولی تنقید کا حق ادا کر دیا ہے تو یہ ان کا زعم باطل ہے۔ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسی تنقید انہوں نے دوسروں پر کی ہے، ویسی ہی تنقید ان پر ہو رہی ہے۔ غامدی صاحب کی موجودہ ’برہان ‘جب تک موجو د رہے گی ان کے مخالفین کو اس قسم کی ادبی، جذباتی اور بقول ان کے جزوی تنقید کا جواز فراہم کرتی رہے گی ۔
غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصولی اختلافات
جہاں تک طالب محسن صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ غامدی صاحب پر کوئی علمی یا اصولی تنقید نہیں ہوئی تو ان کایہ کہنا قطعاً درست نہیں ہے ۔اصل مسئلہ غامدی صاحب پرعلمی و اصولی تنقیدکے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصول تنقید کا ہے ۔اگر غامدی صاحب علمائے اہل سنت کے ان ا صولوں ہی کو نہیں مانتے جن کی بنیاد پر تنقید ہوئی ہے توظاہرہے کہ ان کے نزدیک واقعی ابھی تک ان پر تنقید ہوئی ہی نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جن اصولوں کی روشنی میں علما نے ان پر تنقید کی ہے، وہ ان اصولوں ہی کے قائل نہیں۔غامدی صاحب اہل سنت سے الگ ہیں، ان کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں :
۱) اہل سنت کے ہاں اعتزال (قرآن سنت کے نصوص سے استدلا ل کرتے وقت اہل علم کے ہاں معروف طریق کار کو نظر انداز کرنا اور اس کے برعکس کسی انداز کو اختیار کرنا)ایک طرح کی گالی ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک یہی نادر انداز فخر کا باعث ہے۔اس اصول کے تحت وہ آئے روز نت نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں ۔
۲) اہل سنت اجماع کو حجت سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف رائے دینے کو ’اتباع غیر سبیل المؤمنین‘ شمار کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اجماع دلیل ہے لیکن حجت نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ پوری امت گمراہی پر اکٹھی ہو سکتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کوئی شرعی مسئلہ کسی عالم یا فقیہ کی سمجھ میں نہ آیا ہو اور پہلی دفعہ ان پر یا ان کے امام صاحب پرمنکشف ہوا ہو ۔اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سے اجماعی مواقف کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
۳) اگر کسی مسئلہ میں اہل سنت کے علما کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل حدیث ہے تو غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا، یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔جبکہ علمائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کی طرح حدیث سے بھی دین ثابت ہوتا ہے ۔اس اصول کے تحت انہوں نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے۔
۴) اہل سنت کہتے ہیں کہ قرآن کی طرح حدیث بھی دین اور اللہ کی شریعت کو ثابت کرنے والی ہے کیونکہ یہ وحی خفی ہے۔ جس طرح قرآن وحی جلی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی کی ایک قسم ہے اور اسے وحی خفی کہتے ہیں ۔لیکن غامدی صاحب حدیث کو وحی کی حیثیت دینے سے انکاری ہیں۔ غامدی صاحب کہتے ہیں حدیث وحی نہیں، ہاں حجت ہو سکتی ہے۔اس اصول کے تحت انہوں نے استخفاف حدیث کے فتنے کی بنیاد رکھی۔
۵) اہل سنت کے موقف کے مطابق اسلام کے بنیادی مآخذ کتاب اللہ ( قرآن مجید) اور سنت رسول ﷺ ہیں جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ کتاب الٰہی ہے یعنی تورات ، انجیل ،اور صحف ابراہیم بھی اس میں شامل ہیں ۔ جہاں تک سنت کا معاملہ ہے تو غامدی صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ سنت رسولﷺ کی نہیں ہوتی بلکہ سنت سے مراد سنت ابراہیمی ہے یعنی دین کی وہ روایت جو حضرت ابراہیم سے جاری ہوئی۔
راقم نے سطوربالا میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک غامدی صاحب پرکتاب و سنت اور حدیث واجماع کے اصولوں کی روشنی میں علما نے جو تنقید کی ہے، اس کو غامدی صاحب کے پیروکار علمی تنقید شما ر کیوں نہیں کرتے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ اہل سنت اور ان کے مابین اصولی اختلاف ہے اس سے بھی آگے بڑھ کران کے مآخذ دین علیحدہ ہیں ،ان کے نصوص علیحدہ ہیں ۔ اہل سنت کے ہاں کتاب و سنت حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہو جاتی ہے یعنی اہل سنت کے نزدیک کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جو آپ پر نازل ہو ا اور سنت سے ان کی مراد آپؐ کی سنت ہوتی ہے ، جبکہ غامدی صاحب کی کتاب وسنت حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوتی ہے اور(ان کے بعد کے تمام اسرائیلی انبیاء کو شامل کرکے)محمد ﷺ پر ختم ہوتی ہے ۔
اہل سنت کے علما حضرت ابراہیم سے لے کر رسول ﷺ تک آنے والے تمام انبیا و رسل کو مانتے ہیں اور ان پر نازل ہونے والی اصل کتب مثلاً تورات ، انجیل اور صحف ابراہیم کو بھی کلام الٰہی مانتے ہیں لیکن جب وہ کتاب و سنت کو اپنی کتب میں بطور مآخذ شریعت بیان کرتے ہیں تو کتاب سے ان کی مراد ’قرآن مجید ‘اور سنت سے مراد ’سنت رسولﷺ‘ ہوتی ہے ۔لہٰذا اہل سنت اور فرقہ غامدیہ کا اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کا،کیونکہ دونوں کی کتاب و سنت علیحدہ ہے۔
یہاں تک ہم نے طالب محسن صاحب کی خدمت میں یہ بات پیش کی ہے کہ انہیں علما کی طرف سے غامدی صاحب پر ہونے والی تنقید ،تنقید کیوں نہیں نظر آتی۔ غامدی صاحب کے فہم دین کے اصولوں پر جامع بحث ان شاء اللہ کسی اور موقع پر کی جائے گی ۔ فی الحال ہم قدرے تفصیل کے ساتھ ان کے صرف ایک اصول پربحث کرنا چاہتے ہیں ، اور وہ ہے ان کا تصور کتاب۔
غامدی صاحب کا فلسفہ کتاب
جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے، غامدی صاحب کے وضع کردہ اصول اہل سنت کے اصولوں سے بالکل مختلف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے مسائل میں غامدی صاحب نے خود اپنے وضع کردہ اصولوں سے بھی کلیتاً انحراف کیا ہے ۔اس کی بعض مثالیں ذیل کی بحثوں میں سامنے آئیں گی ۔غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں لفظ کتاب سے مراد کلام الٰہی ہے، چاہے یہ تورات و انجیل کی شکل میں ہو یاقرآن و زبور کی صورت میں۔ان کے مآخذ دین میں منسوخ شدہ آسمانی کتابیں تورات و انجیل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اسی لیے فکر غامدی کی روشنی میں خود ان کی طرف سے یا ان کے مریدین کی طرف سے جب بھی کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے اس میں اکثر و بیشتر کتب سابقہ سے استدلال کیا جاتاہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک سابقہ کتب سماویہ پر عمل کرنے کی علت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی نبوت میں اللہ کے بندوں کے لیے بھیجی گئی شریعت کے احکامات بہت حد تک ایک واضح سنت کی شکل اختیار کرگئے تھے اور حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت محمد تک جتنی بھی شریعتیں آئیں، ان میں نسخ بہت کم ہے، اس لیے امت محمدیہ اللہ کے رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے ساتھ ساتھ ان تمام شرائع سابقہ کی مخاطب و متعبد ہے، بشرطیکہ کتاب مقدس کی تعلیمات محفوظ ثابت ہو جائیں۔ان کے نزدیک سابقہ شرائع کے اکثر و بیشتر احکامات اب بھی دین اسلام میں قانون سازی کا ایک بہت بڑا ماخذ ہیںَ، اگرچہ سابقہ شرائع کے بعض احکامات میں نسخ کے وہ قائل ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
ْ’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں،بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ نے روز اول سے انسا ن کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات ، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد نبی ﷺ کی بعثت ہوئی اور قرآن مجید نازل ہوا ۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔‘‘
اسی لیے سابقہ کتب سماویہ کی تعلیمات جب ان کے خودمعین کردہ معیار صدق و کذب پر پوری اترتی ہوں تو وہ ان کتابوں کی آیات سے قرآنی آیات کی طرح کثرت سے استدلال کرتے ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل میں غامدی صاحب نے علت متعین کرنے میں غلطی کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت کے بعد اور قرآن کے نزول کے بعد امت محمدیہؐ سابقہ شرائع کی متعبد نہیں ہے اللہ کے رسول ﷺ کا لایا ہوا دین اور شریعت جامع اورکامل و اکمل ہے۔ بالفرض اگر پچھلی شریعتیں محفوظ بھی ثابت ہو جائیں پھر بھی ان پر عمل نہیں ہو گا الاّ یہ کہ کوئی حکم پچھلی شریعتوں میں موجودہونے کے ساتھ ساتھ ہماری شریعت میں بھی ثابت رکھا گیا ہو یا اس کی تصدیق مذکور ہو ، یعنی اس پر عمل اس وجہ سے کیا جائے گا کہ وہ ہماری شریعت میں ثابت یا مذکو رہے نہ کہ اس پر عمل پچھلی شریعت کی بنا پر ہو گا ۔ غامدی صاحب کے نزدیک حضرت ابراہیم کے بعد آنے والی تمام شریعتیں تقریباًً کامل تھیں اور ہر دور کی تہذیب و تمدن کے لیے رہنمائی کی صلاحیت رکھتی تھیں ،جبکہ ہم صرف اس پہلو سے تمام سابقہ شرائع کو کامل مانتے ہیں کہ وہ خاص ادوار کے لیے کامل ہدایت تھیں جبکہ زمان و مکان کی تخصیص کے بغیر رہتی دنیا تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے علاوہ باقی تمام شریعتیں ناقص ہیں۔ پچھلی آسمانی کتابیں اپنے مخصوص دور کے لیے تھیں اور قرآن کے آنے کے بعد ان کی تشریعی نقطہ نظر سے ضرورت بھی باقی نہیں رہی ۔
اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت اور قرآن مجید کے نزول کے بعد امت مسلمہ کے لیے اصل مآخذ و مصادرقرآن و سنت ہی ہیں ۔سابقہ کتب سماویہ اپنے اپنے ادوار میں اپنی قوموں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ تھیں ۔کتاب مقدس قانون سازی میں ہمارے لیے ماخذ ومصدر کی حیثیت نہیں رکھتی۔ہاں اس حد تک کہنا ٹھیک ہے کہ ’ حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ‘ جیسی تعلیمات کے مصداق کے طور پر قوم بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی واقعات اخبار و قصص کی تفہیم کے لیے ہم کتاب مقدس کی عبارات سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن کسی قرآنی واقعے کی تفہیم کے لیے کتاب مقدس سے کیے جانے والے اس استفادے کی بنا پر کوئی حتمی رائے قائم کر لینا ’لاتصدقوا اہل الکتاب و لا تکذبوھم ‘ کے منافی ہے۔ جہاں تک عقائد و احکام میں کتاب مقدس سے استدلال کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی کوئی دلیل نقل و عقل میں نہیں ملتی ۔
غامدی صاحب اور سابقہ شرائع سے استدلال
سابقہ شرائع سے استدلال کے لیے غامدی صاحب کا اصل اصول ان کی تحریروں میں اس طرح مذکور ہے:
’’بائبل تورات ،زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی کا مجموعہ ہے ۔ اپنی اصل کے لحاظ سے یہ اللہ ہی کی شریعت اور حکمت کا بیان ہے ۔ اس کے مختلف حاملین نے اپنے اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر اگرچہ اس کے بعض اجزا کو ضائع کر دیا اور بعض میں تحریف کر دی ، تا ہم اس کے باوجود اس کے اندر پروردگار کی رشد و ہدایت کے بے بہا خزانے موجود ہیں ۔اس کے مندرجات کو اگر اللہ کی آخری اور محفوظ کتاب قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو فلاح انسانی کے لیے اس سے بہت کچھ اخذ و استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کتاب مقدس میں موسیقی اور آلات موسیقی کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے ۔ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔‘‘
غامدی صاحب کے مذکورہ استدلال کا تجزیہ کیا جائے تو ان کا اصول تین نکات کی صورت میں سامنے آتا ہے:
۱) اگر کسی مسئلے کے بارے میں قرآن میں صریح راہنمائی موجود نہ ہو لیکن اشارات موجود ہوں توقرآن میں وارد شدہ ان اشارات کو بنیاد بنا کر اسی مسئلے کے بارے میں کتب سماویہ کی تفصیلات کی تصدیق کی جاسکتی ہے ۔اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے مسئلہ موسیقی کو ثابت کیاہے ۔
غامدی صاحب کے بقول کتا ب مقدس سے موسیقی اور آلات موسیقی کا جواز معلوم ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے زبور کا حسب ذیل اقتباس نقل کیا ہے :
’’اے خداوندمیں تیرے لیے نیا گیت گاؤں گا۔دس تار والی بربط پر میں تیری مدح سرائی کروں گا۔‘‘
کتاب مقدس کا ایک اور اقتباس انھوں نے یوں نقل کیا ہے:
’’تو ایسا ہوا کہ جب نرسنگے پھونکنے والے اور گانے والے مل گئے تا کہ خداوند کی حمد اور شکر گزاری میں ان سب کی آواز سنائی دے اور جب نرسنگوں اور جھانجھوں اور موسیقی کے سب سازوں کے ساتھ انھوں نے اپنی آواز بلند کر کے خداوند کی ستایش کی کہ وہ بھلا ہے۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں یا منسوخ نہیں ہیں تو غامدی صاحب یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی کے جواز کے بارے میں اشارات موجود ہیں اور قرآن میں موجود یہ اشارات کتاب مقدس کی مذکورہ آیات کی اس پہلو تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ آیات نہ تو منسوخ ہیں اور نہ ہی غیر محفوظ، بلکہ ہمارے لیے شریعت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں قرآن مجید اصلاً خاموش ہے۔ اس کے اندر کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے جو موسیقی کی حلت و حرمت کے حوالے سے کسی حکم کو بیان کر رہی ہو ۔البتہ، اس میں بعض ایسے اشارات موجود ہیں جن سے موسیقی کے جواز کی تائید ہوتی ہے ۔ان کی بنا پر قرآن سے موسیقی کے جواز کا یقینی حکم اخذ کرنا تو بلاشبہ کلام کے اصل مدعا سے تجاوز ہو گا۔‘‘
گویا غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں ،ان کے بقول ،موسیقی کے حوالے سے وارد شدہ اشارات اس بات کی دلیل ہیں کہ موسیقی کے حوالے سے کتاب مقدس کی آیات محفوظ ہیں ۔
۲) اگر کسی مسئلہ کے بارے میں قرآن کے الفاظ میں سابقہ شرائع کے حوالے سے کوئی رہنمائی موجود ہو اور یہ الفاظ مجمل ہوں تو ان الفاظ قرآنیہ کی تفصیل کتاب مقدس کی آیات سے کی جا سکتی ہے۔ اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے قرآن میں موجود لفظ ’تماثیل‘ کی بائبل کی آیات کی روشنی میں تفصیل کی ہے اور شیر ،بیل اور ملائکہ کی تصاویر کو بھی کتاب مقدس کی روشنی میں صحیح قرار دیا ہے۔بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:
’’اور ان حاشیوں پر جو پڑوں کے درمیان تھے ،شیر اور بیل اور کروبی(فرشتے) بنے ہوئے تھے۔‘‘
ایک اور جگہ ہیکل کی تعمیر کے ضمن میں لکھا ہے:
’’اور الہام گاہ میں اس نے زیتون کی لکڑی کے دو کروبی(فرشتے)دس دس ہاتھ اونچے بنائے۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ توارت کی ان آیات کے محفوظ ہونے کی کیا دلیل ہے تو وہ جواب میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں حضرت سلیمان کے حوالے سے تماثیل کا ذکر موجود ہے۔ گویا قرآن کے اجمالی الفاظ تورات کی ان تفصیلات کی تائید کر رہے ہیں ۔
۳) قرآن کے مبہمات کی وضاحت کے لیے بھی غامدی صاحب کتاب مقدس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس اصول کے تحت انہوں نے قرآن میں موجود یاجوج و ماجوج کا مصداق مغربی اقوام کو قرار دیا ہے۔ یاجوج ماجوج سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یاجوج ماجوج کی اولاد ، یہ مغربی اقوام ، عظیم فریب پر مبنی فکر و فلسفہ کی علم بردار ہیں اور اسی سبب سے نبی ﷺ نے انھیں دجال (عظیم فریب کار) قرار دیا ہے۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ قرآن میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جن یاجوج ماجوج کاذکر کیا ہے، اس سے مراد مغربی اقوام ہیں ،تو جواب میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ تورات سے اس بات کی تعیین ہوتی ہے کہ یاجوج ماجوج سے مراد مغربی اقوام ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے بائبل کا حسب ذیل اقتباس نقل کیا ہے:
’’اور خداوندکا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجو ج کی سرزمین کا ہے اور روش (روس) مسک (ماسکو) اور توبل(توبالسک)کا فرماں روا ہے ،متو جہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر۔‘‘
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اپنے اس علاقے سے قدیم زمانوں میں یہی لوگ یورپ میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں سے پھر صدیوں کے بعد تاریخ کی روشنی میں امریکہ اور آسٹریلیا پہنچے، اور اب دنیا کے سارے پھاٹک انھی کے قبضے میں ہیں۔‘‘
جب ہم غامدی صاحب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ تورات کی یہ آیات محفوظ ہیں تو وہ جواب میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں موجود یاجوج ماجوج کا ذکر تورات کی ان آیات کی تصدیق کر رہا ہے۔
مذکورہ اصول کا تنقیدی جائزہ
قدیم صحائف سے استدلال کا جو اصول غامدی صاحب نے وضع کیا ہے، وہ بوجوہ غلط ہے۔
۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بقول اشارات قرآنی سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے غامدی صاحب کی بات مان بھی لیں تو پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ فلاں مسئلے کے بارے میں قرآن میں اشارات موجود ہیں؟ کیونکہ اشارات ایک ایسی غیر واضح اصطلاح ہے کہ جو چاہے جب چاہے قرآن سے کوئی بھی مسئلہ’ اشارات ‘کی شکل میں نکال سکتا ہے۔ مثال کے طور پرصوفیا کی تفسیر اشاری دیکھی جاسکتی ہے جس میں انھوں نے ’اشارات ‘ کے نام پر قرآن سے عجیب و غریب قسم کے مسائل نکالے ہیں۔
غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں موسیقی کے جواز کے بارے میں اشارات موجود ہیں جبکہ ہمارے نزدیک یہ بات غلط ہے۔ قرآن میں مروجہ موسیقی کے جواز کے بارے میں کسی قسم کے اشارات موجود نہیں۔ ہیں جس قسم کے اشارات سے غامدی صاحب نے مسئلہ موسیقی میں استدلال کیاہے، اس قسم کے اشارات سے توہر مسئلہ قرآن سے نکالا جاسکتا ہے۔ غامدی صاحب کے بقول قرآن مجید کی آیات کا صوتی آہنگ اور قرآن کی آیت مبارکہ ’وسخرنا مع داود الجبال یسبحن والطیر‘ میں یہ اشارات موجود ہیں کہ موسیقی جائز ہے۔ یہ ایک نادرطرز استدلال ہے اور عقل عام بھی فیصلہ کرسکتی ہے کہ یہ نادر استدلال کس قدر بودا ہے۔کہاں قرآن کا صوتی آہنگ اور کہاں بینڈ باجے، ڈھول بانسریاں ،گٹار اور پیانو جیسے آلات موسیقی! کہاں حضرت داؤد کا خوبصورت آواز میں اللہ کی تسبیح بیان کرنا ،جس کا ذکر مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں ہو رہا ہے، اور کہاں کسی عورت کا رقص وسرود کی محفلوں میں محبو ب سے متعلق جذبات کا اظہار کرنا! اگر قرآن کا صوتی آہنگ اور حضرت داؤد کاخوبصورت آواز میں اللہ کی تسبیح بیان کرنا موسیقی ہے تو ہم بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ قرآن میں موسیقی موجود ہے لیکن قرآن سے جو موسیقی غامدی صاحب ثابت کرنے چلے ہیں یا قرآن کے ان اشارات کی تطبیق میں غامدی صاحب ہمارے معاشروں میں موجود رقص وسرود کی جن محفلوں کی تائید کرنا چاہتے ہیں، ان کی تائید کسی طرح سے بھی ان اشارات قرآنی سے ثابت نہیں ہو تی ۔ان اشارات قرآنی سے یہ بھی ثابت نہیں ہو رہا کہ حضرت داؤد کے پاس ’’دس تاروں والی بربط‘‘ تھی جس پر وہ اللہ کی حمد و ثنا کیا کرتے تھے۔ قرآن نے صرف حمد و ثنا کا تذکرہ کیا ہے ،دس تاروں والی بربط کا بیان صرف کتاب مقدس کا ہے جس کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ بیان محفوظ ہے یا نہیں ۔
۲) دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب نے قرآن میں وارد شدہ لفظ ’تماثیل‘ کو بنیاد بنا کرکتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کی ہے ۔حالانکہ قرآن نے تو صرف اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں اللہ کے حکم سے جنات ان کے لیے ’تماثیل‘ بنایا کرتے تھے۔ اب یہ ’تماثیل‘ کیا تھیں؟ اس کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔قرآن نے تماثیل کی تصدیق کی ہے، نہ کہ شیر ، بیلوں اور فرشتوں کی تصاویر کی۔ قرآن کے الفاظ میں اجمال ہے اور قرآن کتاب مقدس کی اس حد تک تو تصدیق کر رہا ہے کہ حضرت سلیمان کے دور میں تماثیل تھیں لیکن قرآن قطعاً ان تفصیلات کی تصدیق نہیں کررہا جو کہ کتاب مقدس میں موجود ہیں۔ اس لیے قرآن کے اجمالی بیان سے کتاب مقدس کے اجمال کی تو تصدیق ہوتی ہے لیکن قرآن کے مجمل الفاظ کتاب مقدس کی تفصیلی آیات کی تصدیق نہیں کر رہے۔ اس لیے قرآن سے یہ بالکل بھی واضح نہیں ہوتاکہ کتاب مقدس کا یہ تفصیلی بیان محفوظ ہے یا اس میں بھی کمی بیشی ہو چکی ہے۔یہ بات تو واضح ہے کہ قرآن کے اجمال سے کتاب مقدس کا اجمال اور قرآن کی تفصیل سے کتاب مقدس کی تفصیل محفوظ ثابت ہوتی ہے لیکن قرآن کے اجمال سے کتاب مقدس کے تفصیلی بیان کو محفوظ ثابت کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے۔ قرآن میں واردشدہ لفظ ’تماثیل ‘کسی طرح بھی کتاب مقدس کے لفظ ’کروبی‘ کی تصدیق نہیں کر رہا اور نہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں جنات فرشتوں کی بھی تصاویر بناتے تھے ۔ غامدی صاحب کے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی نے صاف طور پر بائبل کے مذکورہ بیان کو تحریف پر مبنی قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’جاندار چیزوں، بالخصوص فرشتوں کی مورتوں کا معاملہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو کس طرح جائز سمجھا۔ ..... یہ چیزیں پہلے بھی ناجائز تھیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے تورات کے کسی حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس وجہ سے ہمارا خیال یہ ہے کہ انھوں نے اسی قسم کی تماثیل بنوائی ہوں گی جن کا تعلق مجرد آرٹ سے ہے اور مذہبی تقدس کا جن کے اندر کوئی شائبہ نہیں تھا۔ لیکن جب یہود میں مورت پرستی کا رواج ہوا ہوگا تو اس قسم کی چیزیں ان کے بادشاہوں نے بنوائی ہوں گی اور ان کو سند جواز دینے کے لیے ان کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیا گیا ہوگا۔‘‘
۳) تیسری بات یہ کہ قرآن میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے لیکن قرآن نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ یاجوج ماجوج کا مصداق کون سی اقوام ہیں۔ البتہ کتاب مقدس نے یاجوج ماجوج کا تذکرہ بھی کیا ہے اور ان کا تعین بھی کیا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ کتاب مقدس میں یاجوج ماجوج کا جو تذکرہ ہے، وہ صحیح ہے لیکن قرآن ہر گز بھی کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق نہیں کر رہا جو یاجوج ماجوج کی تعیین کر رہی ہیں، اس لیے اس سے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں یانہیں یا یہ آیات کلام الٰہی ہیںیا نہیں۔ بہرحال قرآن کسی طور بھی کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق نہیں کر رہا جو کہ یاجوج ماجوج کی تعیین سے متعلق ہیں ۔
۴) چوتھی بات یہ کہ غامدی صاحب کتاب مقدس سے استدلال کا اپنا شوق ضرور پورا کریں لیکن ہم ان سے اتنی گزارش کرتے ہیں کہ پہلے کتاب مقدس کی ان آیات کو محفوظ تو ثابت کریں جن سے استدلال کر رہے ہیں۔ چند موہوم اشارات قرآنیہ کو بنیا دبنا کرکتاب مقدس کی آیات کومحفوظ ثابت کرنا اور ان سے کسی شرعی مسئلے میں استدلال کرنا،کسی محقق کے شایان شان نہیں ہے۔غامدی صاحب کے بقول:
’ ’پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع نہیں قرار دیا گیا۔بیش تر مقامات پر اللہ کی حمد و ثنا کے لیے موسیقی کے استعمال کا ذکر آیا ہے۔ ‘‘
ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اس بات کی دلیل کیا ہے اور وہ جواب میں دلیل کے طور پر کتاب مقدس کی آیات پیش کر دیتے ہیں ۔جب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ہیں تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن سے کتاب مقدس کی ان آیات کی تائید ہو رہی ہے۔ جب قرآن کتاب مقدس کی ان آیات کی تائید نہیں کر رہا تو کتاب مقدس کی یہ آیات بھی محفوظ ثابت نہیں ہوئیں ۔جب کتاب مقدس کی یہ آیات محفوظ ثابت نہیں ہوئیں تویہ بھی ثابت نہ ہوا کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی جائز رہی ہے لہذا غامدی صاحب کا دعویٰ باطل ہوا ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے مذکورہ اصول کے حوالے سے ان کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے بھی یہاں نقل کر دی جائے۔ سجدہ تعظیمی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا اصلاحی لکھتے ہیں :
’’سوال یہ ہے کہ قرآن میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں یا بعض جگہ پچھلی شریعتوں کے جو حوالے آ گئے ہیں ، کیا وہ مجرد اتنی بات سے کہ وہ قرآن میں مذکور ہیں ، اس امت کے لیے شریعت کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں ، یا اس امت کے لیے ان کے شریعت بننے کے لیے کچھ اور شرطیں بھی ہیں ۔میرا نقطہ نظر اس طرح کے تمام واقعات اور حوالوں سے متعلق یہ ہے کہ یہ مجرد قرآن میں مذکور ہو جانے کی وجہ سے امت محمدیہ کے لیے شریعت نہیں بن سکتے ...قرآن میں حضرت آدم کے ایک بیٹے کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ جب ان کو ان کے بھائی نے قتل کرنے کی دھمکی دی تو انھوں نے کہا کہ میں تو تم پر قتل کے ارادے سے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ، خواہ تم مجھے قتل ہی کر ڈالو ، ،میں تو اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں ۔حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محض اس خدمت کے معاوضے میں کر دیا کہ وہ ایک خاص مدت تک ان کی بکریاں چرائیں ۔حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ ان کی قوم کے غنڈوں نے جب ان کے مہمان کی فضیحت کرنی چاہی تو انھوں نے ان کو مخاطب کر کے کہا اگر تمھیں کچھ کرنا ہے تو میری لڑکیوں کے ساتھ کرو، خدا را میرے مہمانوں کے بارے میں8 مجھے رسوا نہ کرو ۔حضرت سلیمان کے بارے میں ہے کہ ایک مرتبہ فوج کی پریڈ کے موقع پر ان کی نماز عصر قضا ہو گئی تو انھوں نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر گھوڑوں ہی کو قتل کرنا شروع کر دیا ۔سورہ کہف میں ایک نیک بندے کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اس بنا پرایک بچے کو قتل کر دیا تھا کہ انھیں یہ علم ہو گیا تھا کہ وہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو گا، اور ایک کشتی میں اس بنا پر سوراخ کر دیا کہ انھیں اندیشہ ہوا کہ اس دیا ر کا بادشاہ کہیں اس کشتی کو قبضے میں نہ کر لے ۔یہ اور اس طرح کے جو واقعات قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور بطریق مذمت نہیں بیان ہوئے بلکہ بطریق مدح بیان ہوئے ہیں،اب بتائیے کہ کیا مجرد اس بنا پر کہ یہ واقعات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، یہ اس امت کے لیے قانون اور شریعت بن جائیں گے اور ایک شخص کے لیے یہ بات جائز ہو جائے گی کہ اگر وہ اپنے کشفی علم سے کسی بچے کے بارے میں یہ معلوم کر لے کہ یہ نافرمان اٹھے گا تو اسے قتل کر ڈالے یا کوئی شخص اس پر حملہ آور ہو تو اپنے آپ کو بے چون و چرا اس کے حوالے کر دے؟...ان ضمنی طور پر بیان شدہ واقعات سے اگر کوئی تعلیم نکلتی ہے تووہ اس امت کے لیے اس صورت میں ہدایت اور شریعت کا درجہ اختیار کرسکتی ہے،جب کتاب وسنت کی دوسری تصریحات سے بھی اس بات کی تائید ہو جائے کہ اس تعلیم کو اس امت کے اندر بھی باقی رکھنا شارع کو مطلوب ہے ، یا کم ازکم یہ کہ کوئی بات اس کے خلاف نہ پائی جائے لیکن اگر دوسری تصریحات اس کے خلاف ہوں تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ اس امت میں اس تعلیم کوباقی رکھنا شارع کو مطلوب نہیں ہے۔ اگر اس قسم کی کوئی تصریح خود قرآن میں ہو تو وہ تصریح اس اشارہ پر مقدم ہو گی ... اور اگر یہ تصریح قرآن کے بجائے حدیث میں ہو تو بھی اس کو تقدم حاصل ہو گا ... جو کچھ موجود ہے اس کی حیثیت محض ایک واقعہ کی ہے جو پچھلی امتوں میں سے کسی امت میں یا سابق انبیا میں سے کسی نبی کی زندگی میں پیش آیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس امت میں یہ بات بعینہ اس شکل میں مطلوب ہے یا نہیں ، تو اس کی وضاحت قرآن بھی کر سکتا ہے اور حدیث بھی کر سکتی ہے ۔قرآن کے کسی واضح حکم کو منسوخ کرنے کے لیے تو بلاشبہ حدیث ناکافی ہے لیکن پچھلی امتوں یا سابق انبیاء میں سے کسی کی تعلیم کو یا کسی روایت کو منسوخ کرنے کے لیے تو حدیث بالکل کافی ہے۔ بے شمار معاملات ہیں جن میں ہم جانتے ہیں کہ سابق انبیا کی تعلیم کچھ او ر تھی اور ہمارے نبی نے ہمیں اس کی جگہ کوئی اورہدایت فرمائی اور ہم بے چون و چرا اس کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ عذر نہیں پیش کرتے کہ کسی سابق نبی کی تعلیم کو حدیث کس طرح منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘
مولانا اصلاحی کی اس عبارت سے درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :
۱) کتاب مقدس کی وہ تعلیمات جو قرآن میں اشارتاً، اجمالاً یا تفصیلاً بیان ہوئی ہیں، اس وقت تک ہمارے لیے دلیل نہیں بن سکتیں جب تک کہ خود قرآن یا حدیث سے ان تعلیمات کا اثبات نہ ہو۔گویا کہ اصل دلیل قرآن و سنت ہے نہ کہ سابقہ شرائع،جبکہ غامدی صاحب سابقہ شرائع کو مستقل طور پر مآخذ دین میں سے شمار کرتے ہیں اور ان سے بھی مسائل کا اثبات کرتے ہیں ۔
۲) قرآن کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث بھی کتب سابقہ کی تعلیمات کی منسوخی کے لیے کافی ہیں ، یعنی قرآن کی کسی آیت کی تفسیریا اس کے علاوہ کسی مسئلے میں اگر کتاب مقدس اور احادیث میں اختلاف ہو جائے تو حجت احادیث ہوں گی ۔جبکہ غامدی صاحب قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں احادیث کے بالمقابل کتاب مقدس کی آیات کو ترجیح دیتے ہیں ، جیسا کہ بہت سارے معاملات میں ان کی آرا سے ظاہر ہے ۔
۳) بہت سے احکامات جو پچھلی شریعتوں میں جائز تھے، ہمارے لیے ان پر عمل کرنایا ان سے اپنے عمل پر دلیل پکڑنا جائز نہیں ۔جبکہ غامدی صاحب اس کے قائل نہیں ہیں کہ ایک فعل کسی شریعت میں جائز رہا ہو اور بعد میں اسے کسی دوسری شریعت میں شارع کی طرف سے ناجائز قرار دے دیا گیا ہو۔
غامدی صاحب نے جس طرح موسیقی، یاجوج ماجوج اور تصویر وغیرہ کے مسئلے میں کتاب مقدس سے استدلال کیا ہے، و ہ خود ان کے اپنے اس اصول کے خلاف ہے جو انھوں نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں بیان کیا ہے۔ غامدی صاحب’ میزان‘ میں ایک جگہ تدبر قرآن کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ،یہود و نصاری کی تاریخ، انبیائے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب و اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے ۔‘‘
اس عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قدیم صحائف کویہود و نصاریٰ کے اخبار و واقعات اور قصص وتاریخ سے متعلقہ قرآنی آیات کو سمجھنے کے لیے ماخذ بنایا جائے گا نہ کہ احکام و عقائد کے لیے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ غامدی صاحب اس مسئلے پر اصولی بحث کرتے ہوئے اپنی اس عبارت میں احکام اور عقائد کا بھی تذکرہ کر دیتے لیکن ان کا یہاں پر احکام و عقائد کا تذکرہ نہ کرنا لیکن اپنی تحقیقات میں احکام اور عقائد سے متعلق مسائل کے لیے قدیم صحائف کو بنیاد بنانا ذہن میں کچھ سوالات ضرورپیدا کرتا ہے ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ موسیقی اور تصویر کا تعلق احکام سے ہے اور یاجوج ماجوج کا تعین عقیدے کا مسئلہ ہے ۔ عقیدے اور احکام کے بارے میں غامدی صاحب کے ہاں ایک انتہاتو یہ ہے کہ حدیث سے کسی بھی حکم اور عقیدے کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، لیکن دوسری طرف تحریف شدہ کتاب مقدس سے وہ کس سہولت و آسانی سے احکام و عقائد کا اثبات کر رہے ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث سے کوئی نیا حکم یا عقیدہ توثابت نہیں ہو سکتا، البتہ وہ قرآن میں موجود کسی حکم یا عقیدے کی تفہیم و تبیین میں دلیل بن سکتی ہے۔ جبکہ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ غامدی صاحب کتاب مقدس سے ایک نئے حکم (موسیقی کا جواز) کو ثابت کر رہے ہیں کیونکہ بقول ان کے، قرآن کے الفاظ میں اس مسئلہ کی حلت و حرمت کے بارے میں کوئی یقینی حکم نہیں ہے۔ گویا کہ غامدی صاحب کے نزدیک کتاب مقدس صرف قرآنی آیات و احکام کی تفہیم و تبیین ہی نہیں کرتی بلکہ اس سے نئے احکام کا اثبات بھی کیا جا سکتا ہے ۔
غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف
ہم نے شروع میں واضح کیا تھا کہ غامدی صاحب کے اصول بھی غلط ہیں اور ان سے ان اصولوں کے اطلاق میں بھی غلطی ہوئی ہے ۔یہاں ہم ان کے اصول کے اطلاق کی غلطی واضح کریں گے اور ان مسائل کا تذکرہ کریں گے جو کہ ہماری شریعت میں بھی ثابت ہیں اور پچھلی شریعتوں میں بھی ان کا تذکرہ ملتا ہے، لیکن غامدی صاحب یا تو ان کو ماننے میں متامل ہیں یا انکاری ہیں اور اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ قرآن میں ا ن کا ذکر واضح طور پر نہیں ملتا ۔ان مثالوں کے بیان کرنے سے مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ محترم غامدی صاحب کتاب مقدس کو دلیل صرف ان مسائل میں بناتے ہیں جو ان کے متجددانہ نظریات کے موافق ہوں ۔
۱۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا تذکرہ قرآن میں بھی موجود ہے اور بکثرت احادیث مبارکہ میں بھی ملتا ہے۔ امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ اس دنیامیں اللہ کے رسول ﷺ کے ایک امتی کی حیثیت سے واپس آئیں گے۔ دوسری طرف کتاب مقدس بھی اس بات کی تائید کرتی نظر آتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے ۔لیکن غامدی صاحب اس عقیدے کو ماننے میں اس لیے متامل ہیں کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت عیسیٰ ؑ کی آمدثانی کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قرآن مجید بالکل خاموش ہے ،بلکہ اس سے جو قرائن سامنے آتے ہیں، وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ آمد کے بارے میں کچھ سوالات ضرور ذہن میں پیدا کرتے ہیں۔مثلاً یہ کہ قران نے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے اٹھا لیے جانے کا تذکرہ کیا ہے ، وہاں حضرت عیسیٰ ؑ کے متبعین کے قیامت تک یہودپر غلبے کی پیشین گوئی بھی کی ہے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ آپ کی آمدثانی کا تذکرہ کر دیا جاتااور اس غلبے کی پیشین گوئی بھی کر دی جاتی جس کا ذکر حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ آمد کے حوالے سے روایات میں ہوا ہے...پھر حدیث کی سب سے پہلے مرتب ہونے والی کتاب ’’موطا امام مالک‘‘ میں حضرت مسیح کی آمدثانی سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں۔یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے۔حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ امام مالکؒ کا اس سے عدم تعرض سمجھ میں نہیں آتا۔ایک روایت میں ،البتہ نبی ﷺکا خواب بیان ہوا ہے جس میں آ پ نے حضرت مسیح کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیں یہ خیال ہوتا ہے کہ کہیں یہی مضمون بڑھتے بڑھتے حضرت مسیح کی آمدثانی میں تو نہیں بدل گیا؟ یہ قرائن اس بات کاتقاضا کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی سے متعلق احادیث کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے اور بطور خاص، قرآن کے محولہ بالا مقامات سے سامنے آنے والے عقدے کو حل کیا جائے۔جب تک ان سوالات کا قابل اطمینان جواب نہیں ملتا،اس باب میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ۔‘‘
جس عقیدے کی صرف امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ پوری عیسائی دنیا بھی قائل ہے، غامدی صاحب ابھی تک اس میں سوچ بچار کر رہے ہیں ۔یہ غامدی صاحب کی دس سال پہلے کی تحریر ہے میرے خیال میں اب تک تو ان کی طرف سے ہا ں یا ناں میں کوئی واضح موقف سامنے آجانا چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے ۔قرآن میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا تذکرہ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیْناًo بَل رَّفَعَہُ اللّہُ إِلَیْْہِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً o وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً o (النساء ۱۵۷۔۱۵۹)
’’اور ان یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا، حالانکہ انھوں نے نہ تو حضرت عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی چڑھایالیکن معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیااور جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیاوہ بھی البتہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ،ان کے پاس اس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے سوائے گمان کی پیروی کے ، اور انھوں نے حضرت عیسیٰ کو یقیناًقتل نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیااور اللہ تعالی غالب ہے حکمت والا ہے ۔اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ رہے گاجو حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دیں گے ۔‘‘
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس ،اما م المفسرین علامہ ابن جریر طبری ، امام المتکلمین امام رازی ،امام الفقہا علامہ قرطبی اورامام اللغۃ علامہ زمخشری کے نزدیک اس آیت میں ’لیومنن بہ‘ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ ؑ ہیں جبکہ ’موتہ ‘ کی ضمیر کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف لوٹ رہی ہے یا ’کتابی‘کی طرف۔بہرحال یہ اختلاف تنوع کا اختلاف ہے۔ ’موتہ ‘کی ضمیر جس طرف بھی لوٹائی جائے، اس آیت سے حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ قرآن فعل مضارع میں لام تاکید با نون ثقیلہ کے ساتھ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ ہر کتابی حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات سے پہلے یا اپنی وفات سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لے کر آئے گا۔ اور ہر کتابی کا مستقبل میں حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ حضرت عیسیٰ ؑ اس دنیا میں دوبارہ تشریف نہ لے آئیں ۔
کتاب مقدس کی درج ذیل آیات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے علاوہ خود حضرت مسیح نے بھی اپنی آمد ثانی کے بارے میں اپنے اصحاب کو بتلایا۔کتاب مقدس کے الفاظ ہیں :
’’اورجب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہاہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟یسوع ؑ نے جواب میں ان سے کہا خبردار!کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘
ایک جگہ کتاب مقدس میں ہے :
’’انہوں نے اس سے پوچھاکہ اے استاد ! پھر یہ باتیں کب ہوں گی؟اور جب وہ ہونے کو ہوں اس وقت کا نشان کیا ہے ؟۔اس نے کہا خبردار!گمراہ نہ ہوناکیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور وہ کہیں گے کہ وہ میں ہی ہوں اور یہ بھی کہ وقت نزدیک آ پہنچا ہے ۔‘‘
ایک اور جگہ ہے :
’’میں تیرے پاس جلد آنے کی امید کرنے پر بھی یہ باتیں تجھے اس لیے لکھتا ہوں ۔کہ اگر مجھے آنے میں دیر ہو تو تجھے معلوم ہو جائے کہ خدا کے گھر یعنی زندہ خدا کی کلیسامیں جوحق کا ستون اور بنیاد ہے کیونکر برتاؤ کرنا چاہیے۔‘‘
غامدی صاحب نے جس طرح مسئلہ موسیقی میں قرآن میں موجود موہوم اشارات کو بنیاد بنا کر کتاب مقدس کی آیات کی صحت کی تصدیق کی اور ان سے موسیقی کے جواز پر استدلال کیا کاش کہ وہ قرآن کے حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کے بارے میں واضح بیان کو کم از کم اشارات کا درجہ تودے دیتے اور اس آیت کی تفسیرمیں جلیل القدر مفسرین سے نہ سہی کتاب مقدس سے ہی استفادہ کر لیتے یا صاحب قرآن کی احادیث کو بنیاد بناکرکتاب مقدس کی ان آیات کی صحت کی تصدیق کرتے ،اور حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی پر اور کہیں سے نہ سہی، انہی آیات کتاب مقدس سے استدلال کر لیتے اور ایک غلط اصول کو ہی استعمال کرتے ہوئے ایک صحیح عقیدے تک پہنچ جاتے۔ غامدی صاحب سے ہمارا سوال یہ ہے کہ اگرقرآن کے اشارات سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہو سکتی ہے تو قرآن میں تو حضرت عیسیؑ ٰ کی آمد کے بارے میں ان اشارات سے کہیں زیادہ قوی اشارات موجود ہیں جو کہ غامدی صاحب موسیقی کے جواز کے حق میں قرآن سے پیش کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر قرآن کے بیان سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہو جاتی ہے توکیا صاحب قرآن کے بیان سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی؟ اگر صاحب قرآن کے فرامین سے بھی کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق ہوتی ہے تو غامدی صاحب کو چاہیے کہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے بارے میں مروی روایات کو بنیاد بنا کر وہ کتاب مقدس کی ان آیات کی تصدیق کریں جو حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کے بارے ہیں اور کتاب الہٰی سے حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی کو ثابت مانیں۔اگر ان کے نزدیک صاحب قرآن کے فرامین سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی تو انہیں اپنے اس اصول کے بارے میں کوئی شرعی دلیل پیش کرنی چاہیے کہ قرآن کے بیان سے تو کتاب مقدس کے محفوظ اور کلام الہٰی ہونے کی تصدیق ہو جاتی لیکن صاحب قرآن کے فرامین سے کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق نہیں ہوتی ۔
۲۔ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رجم بھی زنا کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے ۔شریعت محمدیہ میں بھی شریعت موسوی کی طرح زناکی مختلف صورتوں کے اعتبار سے مختلف سزائیں مقرر کی گئیں ہیں شریعت محمدیہ میں زنا کی تین سزائیں ہیں: سو کوڑے ،تغریب عام (ایک سال کی جلاوطنی) اور رجم کی سزا۔واقعے کی نوعیت اورصورت حال کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف احوال میں مختلف سزائیں بیان کی گئیں ہیں اور بعض اوقات زناکے کسی واقعے میں جبر اکراہ،ظلم وزیادتی ،قباحت اور شناعت کے بڑھ جانے کی وجہ سے دو سزاؤں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ بعض احادیث میں زناکی حد کے طور پر دو سزاؤں کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فقہ الواقع کا اختلاف ہے ۔ زنا کی سزا کے حوالے سے یہی وہ اختلاف ہے جو کہ ہمیں مختلف روایات میں ملتا ہے اور شریعت موسوی سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ زنا کی سزا کے حوالے سے فقہ الواقع کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور مختلف احوال میں واقعے کی قباحت اور شناعت کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ شریعت محمدیہ اور شریعت موسوی دونوں میں زنا کی ایک مخصوص صورت کی سزا رجم بیان ہوئی ہے اور و ہ صورت یہ ہے کہ زنا کا ارتکاب کرنے والا مرد یا عورت شادی شدہ ہو۔ لیکن غامدی صاحب نے شادی شدہ زانی مرد وعورت کے لیے رجم کی سزا کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ قرآن سے ثابت نہیں ہے، حالانکہ شادی شدہ زانی کے لیے یہ سزا قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث سے بھی ثابت ہے اورفطر ت صحیحہ وعقل سلیم سے بھی ثابت ہے۔ کتاب مقدس سے بھی شادی شدہ کے لیے رجم کی سزاثابت ہوتی ہے اوریہ حکم اب بھی کتاب مقدس میں موجود ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے :
’’پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے گئے تو وہ اس لڑکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اس کے شہر کے لوگ اسے سنگسار کریں کہ وہ مر جائے کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحشہ پن کیا۔یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی ، یوں تو اسرائیل سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کواس شہر کے پھاٹک پر باہرنکال لانااور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں‘لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہیں چلائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسایہ کی بیوی کو بے حرمت کیا ، یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا...اگر کسی آدمی کو کوئی کنواری لڑکی مل جائے جس کی نسبت نہ ہوئی ہو اور وہ اسے پکڑ کر اس سے صحبت کرے اور دونوں پکڑے جائیں تو وہ مرد جس نے اس سے صحبت کی ہو لڑکی کے باپ کو چاندی کی پچاس مثقال دے اور وہ لڑکی اس کی بیوی بنے کیونکہ اس نے اسے بے حرمت کیا اور وہ اسے اپنی زندگی بھر طلاق نہ دینے پائے۔‘‘
زنا کی سزاؤں میں سے رجم بھی ایک سزا ہے اس پر آسمانی کتابوں کا اجماع ہے ،چونکہ فطرت صحیحہ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ زناکی بعض صورتوں میں بد ترین بے حیائی اور انسانیت سے خروج پایا جاتاہے۔ ا س لیے تما م مذاہب میں زنا کی سزاوں میں سے ایک سزا شدید ترین رہی ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے :
عن البراء بن عازب قال مر علی النبی ﷺ بیھودی محمما مجلودا فدعا ہم فقال ھکذا تجدون حد الزانی فی کتابکم؟ فقالوا نعم، فدعا رجلا من علماءھم فقال انشدک باللہ الذی انزل التوراۃعلی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اھکذا تجدون حد الزانی فی کتابکم؟ قال لا ولولا انشدتنی بھذا لم اخبرک، نجدہ الرجم و لکنہ کثر فی اشرافنا فکنا اذا اخذنا الشریف ترکناہ و اذا اخذنا الضعیف اقمنا علیہ الحد قلنا تعالوا فلنجتمع علی شیء نقیمہ علی الشریف و الوضیع فجعلنا التحمیم و الجلد مکان الرجم فقال رسول اللہ ﷺاللہم انی اول من احیی امرک اذ اماتوہ فامر بہ فرجم فانزل اللہ عز وجل یا ایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر الی قولہ تعالی ان اوتیتم ھذا فخذوہ وان افتاکم بالرجم فاحذروا فانزل اللہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون فی الکفار کلھا ۔
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے سے ایک یہودی کو گزارا گیاجو کوئلے سے کالا کیا گیااور کوڑے کھائے ہوئے تھاتو آپؐ نے یہودیوں کو بلا بھیجااور کہا کہ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو۔تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر آپؐ نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کوبلایااور اس سے کہا میں تمھیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تورات کو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل کیا،کیا تم اس طرح زانی کی حد اپنی کتاب تورات میں پاتے ہو؟اس یہودی عالم نے جواب دیا نہیں ،اور اگر آ پؐ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو اس کی خبر نہ دیتا،ہماری کتاب میں تو رجم کی سزا ہے، لیکن جب زنا ہمارے عزت دار آدمیوں میں پھیل گیاتو جب ہم کسی امیر آدمی کو اس جرم میں پکڑلیتے توچھوڑ دیتے تھے اور جب کسی کمزور آدمی کو اس جرم میں پکڑ لیتے تو اس پر رجم کی حد جاری کر دیتے ۔تو اس وقت ہم نے کہا کہ ہم سب جمع ہو جائیں اورایک سزا ایسی مقرر کر لیں جو کہ ہم امیر کو بھی دیں اور غریب کو بھی ،تو ہم نے منہ کو کالا کرنا اور کوڑوں کی سزا رجم کے مقابلے میں مقرر کی۔تو اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا، اے اللہ! میں سب سے پہلے تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جس کو انھوں نے ختم کر دیا تھا۔ پھر آپؐ نے اس یہودی کے بارے میں حکم دیا اور اس کو رجم کیا گیا۔ اس موقعے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ’یا ایھا الرسول لا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر‘ سے لے کر ’ان اوتیتم ھذا فخذوہ‘ تک۔یہود یہ کہتے تھے کہ کہ تم محمد ﷺ کے پاس آو اگر وہ تمہیں منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کا حکم دیں تو ان کی بات مان لینااور اگر وہ تمہیں زانی کے بارے میں رجم کا فتویٰ دیں تو قبول نہ کرنا۔پھر اللہ تعالی نے یہ آیات اتاریں ’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون، ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون، ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون‘ یہ سب آیات کافروں کے بارے میں اتریں۔
اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں :
۱) قرآن نے ’ومن لم یحکم بما انزل اللہ‘ کی آیات نازل کرکے تورات کے حکم رجم کی تصدیق فرمائی ہے کہ تورات میں یہ حکم موجود ہے اور یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
۲) حکم رجم کو ’ما انزل اللہ‘ کہہ کرقرآن نے خود بھی حکم رجم کا اثبات کیا۔
ہم غامدی صاحب سے عرض کریں گے کہ ان کے بقول اگرچہ قرآن میں محصن زانی کے لیے رجم کی سزا نہیں ہے لیکن اس حدیث کو سامنے رکھیں تو کم از کم اتنا ضرور واضح ہوتا ہے کہ موسیقی کے جواز کے اشارات سے زیادہ قوی اور یقینی اشارات قرآن میں رجم کی سزا کے لیے موجود ہیں۔کاش کہ غامدی صاحب اپنے اصول ہی کا اطلاق کرتے ہوئے ان اشارات قرآنی کی روشنی میں تورات میں موجود زنا کی مختلف سزاؤں میں سے ایک سزا، حد رجم کا بھی اثبات کرتے ۔جس کتاب اللہ کے غامدی صاحب قائل ہیں، اس میں اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں بھی اور آج بھی رجم کی سزا کو زنا کی حدودمیں سے ایک حد کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔اوراللہ کے رسول ﷺ کی حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تورات کی یہ آیات اس اعتبار سے محفوظ ہیں کہ زنا کی سزاؤں میں سے ایک سزا ر جم بھی ہے۔ لیکن غامدی صاحب کے نزدیک زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ،دونوں صورتوں میں اس کی سزاسو کوڑے ہے۔ یہ موقف قرآن ، کتاب مقدس ، احادیث ، اجماع امت ،فطرت صحیحہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت کسی غیر شادی شدہ مرد کے ساتھ زناکی مرتکب ہوتی ہے تو اللہ کی نافرنی اور معصیت کی وجہ سے ان کی ایک سزامقرر کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی شادی شدہ عور ت یا مرد زنا کا مرتکب ہوتا ہے تواب ایک طرف تو اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے، دوسرااپنی خواہش پورا کرنے کے لیے جائز راستہ ہونے کے باوجود ناجائز راستہ اختیار کیا گیا ہے، تیسراخاوند یا بیوی کے حقوق تلف ہوئے اور جذبات مجروح ہوئے، چوتھا خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔ ان مفسدات کی وجہ سے جرم زنا پہلی صورت سے کہیں زیادہ شنیع ہو جاتا ہے، اسی لیے دوسری صورت کی سزا مختلف رکھی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک کے قوانین میں بھی، جن کی بنیاد سراسر انسانی عقل و مشاہدہ وتجربات پر ہے، زنا کی سزا کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں فرق کیا گیا ہے ۔
۳۔ تیسرا مسئلہ جو کہ غامدی کے اصولوں کے مطابق درست ہے لیکن انہوں نے اس کا انکار کیا ہے ، دجال کی تعیین کا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دجال کوئی شخص نہیں ہے بلکہ ایک اسم صفت ہے اور اس کا مصداق یاجوج ماجوج یعنی موجودہ مغربی اقوام ہیں۔ دجال سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ نبی ﷺ نے قیامت کے قریب ، یاجوج ماجوج ہی کے خروج کو دجال کے خروج سے تعبیر کیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج ماجوج کی اولاد، یہ مغربی اقوام،عظیم فریب پر مبنی فکرو فلسفہ کی علمبردار ہیں اور اسی سبب سے نبی ﷺ نے انھیں دجال(عظیم فریب کار ) قرار دیا۔‘‘
غامدی صاحب نے دجال کے شخص ہونے کا انکار کیا حالانکہ دجال کا ایک شخص ہونا اور حضرت عیسیٰ ؑ کا اس کوہلاک کرنا واضح طور پر احادیث اور کتاب مقدس میں موجود ہے ۔کتاب مقدس میں ہے :
’’کسی طرح کسی کے فریب میں نہ آنا کیونکہ وہ دن نہیں آئے گا جب تک کہ پہلے برگشتگی نہ ہو اور وہ گناہ کا شخص یعنی ہلاکت کا فرزند ظاہر نہ ہوجو مخالفت کرتا ہے اور ہر ایک سے جو خدا یا معبود کہلاتا ہے، اپنے آپ کو بڑا ٹھہراتا ہے،یہاں تک کہ وہ خدا کے مقدس میں بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا ظاہر کرتا ہے ۔کیا تمھیں یاد نہیں کہ جب میں تمھارے پاس تھا توتم سے یہ باتیں کہا کرتا تھا ؟اب جو چیزاسے روک رہی ہے تا کہ وہ اپنے خاص وقت پر ظاہر ہو، اس کو تم جانتے ہو ۔کیونکہ بے دینی کا بھید تو اب بھی تاثیر کرتا جاتا ہے مگر اب ایک روکنے والا ہے اور جب تک کہ وہ دور نہ کیا جائے گا روکے رہے گا ۔اس وقت وہ بے دین ظاہر ہو گا جسے خداوند یسوع اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی سے نیست کرے گا۔اور جس کی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کارناموں کے ساتھاور ہلاک ہونے والوں کے لیے ناراستی کے ہر طرح کے دھوکے کے ساتھ ہوگی۔‘‘
اگر ہم ذیل میں دی گئی دو احادیث پر غور کریں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی دجال کے بارے میں اسی قسم کی تعلیمات دی ہیں جو کہ کتاب مقدس میں موجود ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صحابہ کرام کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی جیسے کہ وہ اس کے لائق ہے پھر آپ نے دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا :
انی انذرکموہ و ما من نبی الا انذر قومہ لقد انذرہ نوح قومہ و لکن سا قول لکم فیہ قولا لم یقل نبی لقومہ تعلمون انہ اعور و ان اللہ لیس باعور۔
’’میں تمہیں اس (دجال)سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔یقیناًحضرت نوح نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا تھا لیکن میں تمھیں دجال کے بارے میں ایک ایسی بات بتا رہا ہوں جو کہ کسی بھی نبی نے اس سے پہلے اپنی قوم کو نہیں بتائی،تم جان لو کہ دجال کانا ہے اور(معاذاللہ) اللہ سبحانہ وتعالیٰ کانا نہیں ہے ۔‘‘
یہ حدیث دجال کے بارے میں کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کر رہی ہے کیونکہ حدیث میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایااور حضرت عیسیٰ ؑ بھی اس میں شامل ہیں ۔ایک دوسری حدیث کے، جو حضرت مجمع بن جاریہ سے مروی ہے، الفاظ یہ ہیں :
سمعت رسول اللہ ﷺ یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لد ۔
’’میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم مسیح الدجال کو مقام ’لد ‘ پر قتل کریں گے۔‘‘
یہ حدیث بھی کتاب مقدس کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم دجال کو قتل کریں گے ۔ کتاب مقدس کی مذکورہ بالاآیات اور احادیث مبارکہ سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دجال ایک شخص معین کا نام ہے جو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے ہمیں ایک دن دجال کے بارے میں ایک لمبی حدیث بیان فرمائی ۔اس میں آپ نے فرمایا کہ دجال ایک دن مدینہ کا رخ کرے گا لیکن اس کے لیے شہر مدینہ میں داخلہ ممکن نہ ہوگا اور وہ مدینہ کے باہر قیام کرے گا تو ایک دن اہل مدینہ میں سے ایک انتہائی نیک آدمی اس کے پاس آئے گااور وہ آدمی دجال سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو دجال ہے‘تو اس وقت دجال لوگوں سے کہے گا :
ارایتم ان قتلت ھذا ثم احییتہ اتشکون فی الامر فیقولون لا فیقتلہ فیقول حین یحییہ واللہ ما کنت فیک قط اشد بصیرۃ منی الآن قال فیرید الدجال ان یقتلہ فلا یسلط علیہ
’’بھلاتم دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم پھر بھی میرے بارے میں شک کرو گے تو وہ لوگ کہیں گے نہیں ،تو اس وقت دجال اس نیک آدمی کو قتل کر دے گا اور جب دجال اس نیک آدمی کودوبارہ زندہ کرے گاتو وہ نیک آدمی اس سے کہے گااللہ کی قسم اب تو مجھے تیرے بارے میں حد درجے یقین ہو گیا ہے کہ توو ہی مسیح الدجال ہے۔ پس دجال اس آدمی کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا لیکن کامیاب نہ ہو گا ۔ ‘‘
یہ حدیث بھی کتاب مقدس کی درج بالاآیت کی تصدیق کر رہی ہے کہ دجال ایک بہت بڑا شعبدہ باز ہو گا۔ بہرحال احادیث ،دجال کے بارے میں کتاب مقدس کی آیات کی تصدیق کرتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے علاوہ عیسائی دنیا بھی جس دجال کو اپنی کتابوں کے حوالے سے جانتی ہے وہ ایک معین شخص ہے نہ کہ ایک ’اسم صفت ‘یا ’یاجوج ماجوج ‘یا امریکہ۔ ہمارے خیال میں صاحب قرآن کی کتاب مقدس کی آیات کی اس تصدیق کے بعد غامدی صاحب کو شخص دجال کی آمد کا اقرار کر لینا چاہیے ....احادیث کی بنیاد پر نہ سہی ،کتاب مقدس کی آیات کی بنیاد پر ہی سہی۔