کشمیر کی سیاسی بیداری میں علمائے دیوبند کا کردار

پروفیسر محمد یونس میو

برصغیر پاک وہند میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جو فکری، علمی، اصلاحی، عملی اور سیاسی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، ان کے پس منظر میں کسی نہ کسی طرح حضرت مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا احمد رضا خان، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور علامہ محمد اقبال کی فکر کارفرما رہی۔ ہر مذہب کے پیروکار اپنا اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن جو جامعیت دیوبند کے اہل علم میں ہے، وہ کسی دوسری جگہ نہیں۔ قرآن وحدیث، فقہ وتصوف، سیرت وتاریخ، تقلید واجتہاد، فکر ونظر، نقل واقتباس، معرفت وحکمت، درس وتدریس، تعلیم وتعلم، دعوت وجہاد، جاں بازی وسر فروشی، حسن خلق اور ایک خاص نقش حریت اور آزادی کی جو تڑپ علماے دیوبند میں نظر آتی ہے، اس پر گزشتہ صدی کی تاریخ شہادت دے رہی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر بھی اس تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔

کشمیر میں مسلمانوں نے پانچ سو سال حکومت کی جن میں مقامی حکمرانوں سلطان صدر الدین (رنچن)، سلطان شمس الدین (شاہ میر)، سلطان زین العابدین (بڈ شاہ)، مرزا حیدر کے علاوہ مغلوں کا ۱۶۷ سالہ دور (۱۵۸۶۔۱۷۵۲) اور افغانوں کا ۶۷ سالہ دور (۱۷۵۲۔۱۸۱۹) بھی شامل ہے۔ ۱۸۱۹ء میں رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ سکھوں نے کشمیر میں تقریباً تیس سال حکومت کی۔ یہ دور ظلم وتشدد اور جبر واستبداد کا تاریک ترین دور تھا۔ سکھوں نے مغلوں کے ہاتھوں جو شکستیں کھائی تھیں، ان کا بدلہ انہوں نے بے بس اور مجبور مسلمان کشمیریوں سے لیا۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی اہمیت جانوروں سے زیادہ نہ تھی حتیٰ کہ ایک مسلمان کو قتل کرنے کی سزا کسی سکھ کو صرف ۲۰ روپے جرمانہ تھی۔ معاشی استحصال عام تھا، مذہبی آزادی سلب کر لی گئی تھی اور مسلمان نماز باجماعت بھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں جموں کے ایک ڈوگرا خاندان کے تین بھائیوں دھیان سنگھ، گلاب سنگھ اور سچیت سنگھ نے خالصہ دربار کی ملازمت حاصل کی۔ یاد رہے یہ ڈوگرے سکھ نہیں بلکہ سخت متعصب ہندو تھے۔ یہ وادی کشمیر کے باشندے بھی نہیں بلکہ کشمیر کی ملحقہ پہاڑیوں کی ایک راجپوت قوم ہیں۔ ان تینوں بھائیوں نے بڑی وفاداری سے خدمات سرانجام دیں جس پر گلاب سنگھ کو جموں، دھیان سنگھ کو بھمبر اور پونچھ اور سچیت سنگھ کو رام نگر کی سرداری عطا ہوئی۔ بعد ازاں گلاب سنگھ کو ’راجہ‘ کا خطاب دے کر جموں کا صوبیدار بنا دیا گیا۔ رنجیت سنگھ کی موت (۱۸۳۹ء) کے بعد گلاب سنگھ نے انگریزوں سے سازباز کی جس کی وجہ سے سبراؤں کی لڑائی میں سکھوں کو شکست فاش ہوئی اور فروری ۱۸۴۶ء میں لاہور پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ ۹ مارچ ۱۸۴۶ء کو معاہدۂ لاہور پر دستخط ہوئے جس کی رو سے سکھوں پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ تاوان جنگ عائد کیا گیا۔ پچاس لاکھ نقد ادا کیے گئے اور بقیہ ایک کروڑ کے عوض انگریزوں نے بیاس، سندھ، ہزارہ اور کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ء کو انگریزوں اور گلاب سنگھ کے درمیان معاہدۂ امرتسر طے پایا جس کے نتیجے میں گلاب سنگھ اور اس کی نرینہ اولاد پچھتر لاکھ روپیہ نانک شاہی (موجودہ پچاس لاکھ روپے) کے عوض کشمیر جنت نظیر کے مالک بن گئے۔ اسی بدنام زمانہ بیع نامہ کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:

دہقاں وکشت وجوے وخیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند

ڈوگروں نے کشمیر میں ۱۰۱ سال (۱۸۴۶۔۱۹۴۷ء) حکومت کی۔ گلاب سنگھ کے بعد اس کے بیٹے اور پوتوں رنبیر سنگھ، پرتاب سنگھ، امر سنگھ اور ہری سنگھ وغیرہ نے حکومت کی۔ اس دور کے بارے میں معروف صحافی، دانش ور پنڈت پریم ناتھ ہزاز کہتے ہیں کہ’’کشمیر میں ڈوگرا حکومت سے مراد ہے ہندوؤں کا راج۔ مسلمانوں سے ہمیشہ نا انصافی ہوئی۔ ان کو ذبیحہ کی اجازت نہ تھی۔یہ کسی قسم کا اسلحہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ یہ باغی تھے اور ان کے سروں کی قیمت پانچ روپے مقرر تھی۔ ان کی کھالیں کھینچ کر ان میں بھوسہ بھر دیا جاتا۔ سینکڑوں دیہاتیوں میں کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا جو اپنا نام لکھ سکے یا ایک درجن بھیڑوں کو گن سکے۔ مسلمان کاشت کار ایک بھوکا ننگا فقیر نظر آتا تھا نہ کہ وہ شخص جس کی محنت سے حکمرانوں کا خزانہ بھرا رہتا ہے۔‘‘ آخر برسوں کی غلامی کے بعد گراں خواب کشمیری مسلمانوں نے انگڑائی لی اور جنگ عظیم اول کے بعد ظلم وستم کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ ۱۸۷۵ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں دار العلوم دیوبند جیسی ہمہ جہت درس گاہیں قائم ہوئیں تو کشمیر کے بہت سے نوجوان دیوبند آئے۔ یہاں انہوں نے تعلیم کے ساتھ تحریک خلافت، تحریک ترک موالات، تحریک ہجرت جیسی تحریکوں سے سیاسی شعور اور تربیت حاصل کی۔ بعد ازاں انہی لوگوں نے کشمیر میں تعلیمی اور سیاسی تحریکیں برپا کیں۔ 

میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ پہلے قابل ذکر دینی وسیاسی رہنما تھے جو مولانا سید میرک شاہ اندرابی کے ہمراہ ۱۹۱۳ء میں دیوبند آئے۔ یہاں آپ کو مولانا محمود الحسن بانی تحریک ریشمی رومال، مولانا سید انور شاہ کشمیری، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اعزاز علی جیسے اکابرین سے استفادہ کا موقع ملا۔ دار العلوم سے فراغت (۱۹۲۱ء) اور واپسی پر آپ میر واعظ مقرر ہوئے۔ اسی حیثیت سے آپ ’’انجمن نصرت الاسلام سری نگر‘‘ کے صدر بھی بنے۔ آپ کو سرسید کشمیر بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ نے سری نگر میں اورئنٹل کالج کے نام سے ایک دینی درس گاہ قائم کی۔ کشمیر کے پس ماندہ مسلمانوں کی آواز کو موثر بنانے کے لیے ’’الاسلام‘‘ اور ’’رہنما‘‘ نامی اخبار نکالے۔ ۱۹۲۵ء میں خلافت کمیٹی قائم کی۔ یہ تحریک آزادی کشمیر کی پہلی باقاعدہ سیاسی تنظیم تھی۔ جولائی ۱۹۳۱ء کے ہنگاموں میں آپ نے رہنما کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۴ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح کشمیر تشریف لائے تو آپ نے درگجن کے مقام پر ان کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا اور ان کے اعزاز میں اپنی قیام گاہ پر دعوت دی جو تحریک آزادی کشمیر کا ایک باب ہے۔ آپ ہی کی صدارت میں آزاد کشمیر کا ابتدائی خاکہ مرتب کیا گیا جو ۲۷ جون ۱۹۴۶ء کو باقاعدہ منظور کر لیا گیا۔ آپ نے ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء کو مسلم پارک سری نگر میں ایک لاکھ کشمیریوں کی موجودگی میں اپنے صدارتی خطبہ میں پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا اور مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست کا الحاق کشمیری مسلمانوں کی خواہشات کے مطابق پاکستان کے ساتھ کرے۔ 

آپ کے بعد آپ کے ساتھیوں نے تحریک کو جاری رکھا جن میں ایک بڑا نام مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی کا ہے۔ آپ نے مولانا عالم دین فاضل دیوبند سے تعلیم حاصل کی۔ کشمیر میں سیاسی بیداری کے لیے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ آپ نے ڈوگرا حکومت کے ظلم واستبداد کے خلاف ایک رضا کار تنظیم بنائی اور اس کو مسلح تربیت دی جس کی وجہ سے کشمیر کے حریت پسند عوام جہاد بالسیف کی طرف مائل ہوئے۔ دسمبر ۱۹۳۵ء میں جب ہاڑی گہل (باغ) میں سکھوں نے ایک مسجد کو شہید کیا تو آپ نے زبردست احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ مسجد دوبارہ تعمیر کی جائے اور حکومت اس بے حرمتی کے لیے معافی مانگے۔ مولانا کے دونوں مطالبے منظور کیے گئے۔ ۱۹۳۷ء میں ڈوگروں نے خالصہ اراضیات کی حد بندی کے بہانے مسلمانوں کی اراضی پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو آپ نے باغ سے ایک عظیم الشان جلوس کی قیادت کی۔ آخر کار حکومت کو یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا۔

۱۹۳۷ء میں ڈاکٹر رام سنگھ نے پونچھ میں قرآن کی بے حرمتی کی تو مولانا عبد اللہ کفل گڑھی بیس ہزار کا جلوس لے کر پیدل پونچھ پہنچے۔ پلندری سے آپ کے چھوٹے بھائی مفتی امیر عالم بھی ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پونچھ آئے۔ آخر کار حکومت نے شیخ عبد اللہ، بخشی غلام محمد وغیرہ کے ذریعے مولانا سے مذاکرات کیے اور ڈاکٹر رام سنگھ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ آپ کی سیاسی سرگرمیوں سے پریشان ہو گیا اور اس نے آپ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ آپ کو گرفتار کر لیا گیا لیکن عوامی دباؤ کے پیش نظر رہا کر دیا گیا۔

آپ کے بعد آپ کے بھائی مفتی امیر عالم نے تحریک کو آگے بڑھایا۔ آپ نے اکابر علماے دیوبند سے تعلیم حاصل کی۔ آپ ۱۹۳۵ء میں وطن واپس آئے اور آتے ہی دار العلوم پلندری کا اہتمام سنبھال لیا۔ ڈاکٹر رام سنگھ کے خلاف تحریک میں آپ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ کشمیری حقوق کے لیے آپ نے خان عبد القیوم خان اور وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقاتیں کیں۔ آپ نے جہاد پر بہت زور دیا اور مجاہدین کے اسلحہ جمع کرنے کے لیے پورے کشمیر کا دورہ کیا۔ اگست ۱۹۴۷ء کے جہاد میں حصہ لیا۔ معرکہ ہاڑی گہل میں آپ کے بھائی نور عالم خان اور آپ کے قریبی عزیز محمد عظیم خان شہید ہوئے۔ جب جمعیۃ علماے اسلام کشمیر قائم ہوئی تو آپ کو اس کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔

تحریک آزادی کشمیر کے بانیوں میں ایک نام مولانا محمد یوسف خان کا بھی ہے۔ آپ ۱۹۲۰ء میں قصبہ منگ (پلندری) میں پیدا ہوئے۔ یہ قصبہ اپنی مجاہدانہ روایات اور دینی امتیازات کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے جموں وکشمیر میں دار العلوم دیوبند کی علمی، دینی اور تحریکی روایت کو آگے بڑھایا۔ دیوبند میں آپ نے مولانا محمود الحسن دیوبندی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی کا زمانہ پایا۔ آپ کے ساتھیوں میں مفتی عبد المتین، مفتی عبد المجید قاسمی اور مولانا سرفراز خان صفدر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا یوسف خان ۱۹۴۳ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوئے اور آپ نے قصبہ منگ سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ آپ نے قصبہ کے نمبردار زمان علی کی شہادت کے خلاف عدالت کے فیصلے کے خلاف تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

’’چشم فلک نے اس ظلم کی کبھی مثال نہ دیکھی ہوگی کہ گائے ذبح کرنے پر سات سال قید با مشقت کی سزا دی جائے اور ایک انسان کو دن دہاڑے قتل کرنے پر صرف تین سال سزا دی جائے۔ ہمیں اس ڈوگرا راج سے عدل وانصاف کی قطعاً کوئی توقع نہیں ہو سکتی جو گائے کا پیشاب پی کر جوان ہوا ہے لہٰذا آپ لوگ سر پر کفن باندھ کر اٹھ کھڑے ہوں۔ اب ہم اس غلامی کا جوا اتار کر ہی دم لیں گے۔ اس کے سوا اب ہمارے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘

اس تقریر کے جرم میں آپ کو تین ماہ قید بامشقت سنا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں آپ نے بھرپور حصہ لیا اور منگ سے چڑی کوٹ تک کے محاذوں پر داد شجاعت دیتے رہے۔ جنگ کے بعد متاثرین کے لیے بیت المال قائم کیا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لا کمیشن کے ممبر رہے۔ کشمیر میں قانون سازی میں مرکزی کردار ادا کیا اور آپ کا تیار کردہ مسودہ قانون من وعن تسلیم کر لیا گیا۔ آپ پلندری کے مقبول ترین رہنما اور عوامی لیڈر تھے۔ آپ نے ۱۹۷۵ء کے انتخاب میں سندھن قوم کے معروف رہنما اور باباے پونچھ کرنل محمد خان کے فرزند کرنل نقی خان کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔ آپ جمعیۃ العلما آزاد کشمیر کے ناظم اعلیٰ اور صدر بھی رہے۔ آپ دار العلوم پلندری کے مہتمم اور شیخ الحدیث بھی ہیں۔ آپ کو ستمبر ۱۹۸۲ء میں ایک ہزار علما کی موجودگی میں ’’امیر شریعت‘‘ کا خطاب دیا گیا۔

یہاں صرف چار علماے کشمیر کا ذکر ممکن ہو سکا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ موضوع ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے۔ تاہم یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں ان علماکے اسماے گرامی بیان کر دیے جائیں جنہوں نے کشمیر کی تحریک آزادی میں فکری اور عملی حصہ لیا اور اب بھی لے رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک نام یہ ہیں:

  • مولانا محمد امیر الزمان خان کشمیری (بانڈیاں، باغ)
  • مفتی عبد الحمید قاسمی (پونچھ)
  • مولانا سید ثناء اللہ شاہ صاحب (سرسیداں، باغ)
  • مولانا عبد الغنی (گاؤں جھڑ، تحصیل باغ)
  • مولانا غلام مصطفی شاہ مسعودی (لوات، اٹھمقام) آپ مولانا سید انور شاہ کشمیری کے خواہر زاد تھے۔ آپ نے دار العلوم دیوبند کے بعد قاہرہ یونیورسٹی مصر سے بھی سند فراغت حاصل کی۔
  • مولانا خاقان صاحب مظفر آبادی (کیاں شریف، اٹھمقام) اور محمد شریف کشمیری پاکستان کے معروف دار العلوم خیر المدارس ملتان میں صدر مدرس بھی رہے۔
  • مولانا محمد اسماعیل مسعودی۔ آپ نے مولانا سید انور شاہ کشمیری، مولانا قاری محمد طیب قاسمی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع اور مولانا شمس الحق افغانی جیسے اکابر علما سے استفادہ کیا۔
  • مولانا حافظ عبد اللہ (پنیالی، باغ) آپ مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا عبد اللہ درخواستی سے متعلق رہے۔
  • مفتی عبد الکریم (کوٹ قندو خان، باغ) تحریک ختم نبوت میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کشمیر آئے تو آپ نے بھی ان کے ساتھ تقریریں کیں۔ آپ نے مہاراجہ کے ظلم وستم کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا۔
  • مولانا محمد قاسم خان (راولا کوٹ) نے مسلمانان پونچھ کی سیاسی بیداری، سماجی بہبود اور دینی قدروں کی ترویج میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ ان کی معروف کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ کو ہر گھر کا زیور قرار دیتے تھے۔
  • مولانا غلام حیدر (پھلیاں، پلندری) شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد اور علامہ شبیر احمد عثمانی کے ہم جماعت تھے۔ پونچھ کی سیاسی بیداری کے علاوہ آپ کی دینی، سماجی خدمات بے مثال ہیں۔
  • مولانا عبد الرحمن (ٹاٹ، تحصیل حویلی) آپ نے علامہ انور شاہ کشمیری سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ ریاضی کے ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ مولانا غلام اللہ خان کی تحریک سے متاثر تھے۔ مولانا مرزائیوں کے خلاف ایک خاص مزاج رکھتے تھے۔
  • مولانا عبد الحمید خان (نیپالی، باغ) آپ نے دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارن پور سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں اوڑی محاذ پر مجاہدین کے ساتھ جہاد کیا۔ رفاہی اسکیموں اور مفاد عامہ کے منصوبوں میں آپ خاص طور پر دلچسپی لیتے تھے۔
  • مولانا محمد زمان خان صاحب نیپالی باغ میں پیدا ہوئے۔ آپ کو علم وعمل اور زہد واتقا کی بنا پر علمی قیادت کی فضیلت اور روحانی سیادت کی عظمت حاصل رہی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی کے قریبی معاون رہے۔
  • مولانا قاضی عبد الرحمن (ڈھل قاضیاں، باغ) آپ نے برصغیر کی عظیم درس گاہ مظاہر العلوم سہارنپور میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا (مصنف فضائل اعمال وصدقات وغیرہ) اور مولانا عبد الرحمن سے فیض حاصل کیا۔ قرآن کی تفسیر مولانا غلام اللہ خان صاحب سے پڑھی۔ تحریک آزادی میں دیگر رفقا کی طرح فکری وعملی کام کیا۔ اپنے دور کی ملی، دینی اور سیاسی تحریک میں بھی حصہ لیتے تھے۔
  • مولانا عبد العزیز تھوراڑوی ۱۹۴۱ء میں دیوبند گئے اور ۱۹۴۴ء میں سند فراغت حاصل کی۔ دینی، تبلیغی اور اصلاحی کاموں سے آغاز کیا۔ ۱۹۴۷ء میں پونچھ کی جامع مسجد میں وزیر اعظم پونچھ ’’بھیم سین‘‘ کی موجودگی میں سیرت النبی کے موضوع پر تقریر کی۔ بھیم سین نے آپ کو دفتر میں بلا کر کہا کہ ’’مولانا آپ کا اسٹیج اس قدر آزاد ہے جس قدر کسی کمیونسٹ ملک میں بھی نہیں ہوتا۔‘‘ اس پر مولانا نے جواب دیا: ’’ہماری ماؤں نے ہمیں آزاد جنا ہے، غلام نہیں۔‘‘ قصبہ منگ میں جولائی ۱۹۴۷ء میں آپ نے ہزاروں لوگوں کو قرآن کے نیچے سے گزار کر جہاد کی بیعت لی۔ آپ کا شمار تحریک آزادی کشمیر کے بانیوں میں ہوتا ہے۔
  • مولانا محمد بخش ۱۹۰۵ء موضع جولی چیڑ تحصیل باغ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے قصبہ میں ایک مسجد اور مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ آپ قرآن کی تعلیم دیتے اور رسوم وبدعات سے بچنے کی تلقین کرتے۔ یہ مولانا محمد بخش ہی تھے جنہوں نے اگست ۱۹۴۷ء کے معرکہ میں دشمن پر پہلی گولی چلائی اور ’مجاہد اول‘ کا خطاب پایا۔
  • مولانا عالم دین کشمیری کفل گڑھی تحصیل باغ میں پیدا ہوئے۔ شیخ الہند سے دورۂ حدیث کی سند لی۔ مولانا سید انور شاہ کشمیری نے آپ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’عالم دین میرا علمی ساتھی تھا۔ وہ علم کا پہاڑ تھا۔ شاید لوگوں نے ان کی قدر ومنزلت کو نہ پہچانا ہو۔‘‘
  • مولانا میر عالم کا تعلق راولا کوٹ سے تھا۔ آپ سردار محمد ابراہیم خان کے برادر اکبر تھے۔ راولا کوٹ کے کالج میں پروفیسر رہے۔ تحریر وتقریر کے ذریعے لوگوں میں دینی اور سیاسی شعور پیدا کیا۔ آپ نے ’’تاریخ آزادی کشمیر‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جو تحریک آزادی کشمیر کے بارے میں ایک جامع دستاویز تصور کی جاتی ہے۔
  • مولانا محمد اسماعیل ۱۹۰۴ء میں کفل گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ مولانا عبد اللہ اور مفتی امیر عالم کے بھائی تھے۔ مظاہر العلوم سہارنپور سے ۱۹۲۷ء میں سند فراغت حاصل کی۔ آپ نے ایک خطیب کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اردو اور پنجابی کے شاعر بھی تھے۔
  • مولانا عبد العزیز کا شمار دیوبند کے قدیم فضلا میں ہوتا ہے۔ آپ مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا غلام غوث ہزاروی سے متاثر تھے۔ آپ کچھ عرصہ بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب بھی رہے۔ تحریک آزادی میں آپ نے بھی حصہ لیا اور لوگوں کو جذبہ جہاد سے سرشار کرتے رہے۔
  • مولانا مفتی عبد المتین ۲۰ اپریل ۱۹۲۰ء کو تھب باغ میں پیدا ہوئے۔ دیوبند اور گوجرانوالہ میں اکابر علماے دیوبند سے تعلیم حاصل کی۔ لا کمیشن آزاد کشمیر کے ممبر رہے اور تحصیل باغ کے مفتی بھی۔ آپ نے تحریک آزادی کشمیر کے علاوہ مذہبی معاملات میں بھی رہنمائی کی۔ آپ نے وطن کی آزادی اور لوگوں میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے، ان پر پوری قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
  • مولانا فضل کریم مظفر آبادی نے خیر المدارس ملتان سے تعلیم حاصل کی۔ آپ نے تحریر وتقریر کے ذریعے تحریک آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا۔
  • مولانا نور حسین (تھب، باغ) نے ۱۹۴۴ء میں دار العلوم دیوبند سے سند فراغ حاصل کی۔ آپ مولانا سید حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی سے متاثر ہیں۔ آپ نے دعوت وتبلیغ کے ذریعے لوگوں میں جذبہ جہاد پیدا کیا۔
  • مولانا محمد الیاس موضع سنیاں (ہٹیاں) میں ۱۹۲۹ء میں پیدا ہوئے۔ دورۂ حدیث جامعہ اشرفیہ لاہور سے کیا۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں آپ کی عمر ۱۷ سال تھی۔ آپ نے مکمل فوجی ٹریننگ حاصل کی۔ اس کے بعد باضابطہ طور پر اوڑی کے محاذ پر جہاد میں چودہ رفقا کی قیادت کرتے ہوئے شریک جہاد ہوئے۔
  • مولانا محمد اسحاق مدنی تاریخ ساز خطہ منگ سے متعلق ہیں۔ دار العلوم پلندری، خیر المدارس ملتان، جامعۃ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور بعد ازاں مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ نے درس قرآن کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ آپ نے آل جموں وکشمیر جمعیۃ العلماء اسلام کے مرکزی رہنما کی حیثیت سے تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونک دی۔ مولانا محمد طیب ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا محمد اسحاق خان سے جو واقف ہیں، وہ شہادت دیں گے کہ مولانا عزم واستقلال، اخلاص وایثار، تقویٰ وطہارت، عبادت وریاضت، سخاوت ومروت، خدا پرستی ومردم شناسی، خود داری اور علم دوستی کے پیکر متحرک تھے۔‘‘
  • مولانا حیات علی حسینی ۱۸۸۸ء میں رٹہ ڈڈیال میں پیدا ہوئے۔ سہارنپور اور پھر دیوبند میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن جیسے علما کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ تحریک آزادی میں آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ آپ کے ولولہ انگیز خطبات نے جذبہ آزادی کو مہمیز دی۔ پوٹھ کے مقام پر ساٹھ ہزار کے مجمع میں تاریخ ساز تقریر کی۔ حالات خراب ہوئے تو گرفتار کر لیے گئے۔ تحریر وتقریر کے علاوہ طب میں مہارت حاصل کی۔
  • مولانا عبد الرحمن کوٹ قندو خان سے متعلق تھے۔ فاضل دیوبند تھے۔ تحریک آزادی میں اپنے علاقہ میر پور اور کھوئی رٹہ میں ڈوگرا سامراج کے خلاف بڑا کام کیا جس سے لوگ جہاد پر آمادہ ہوئے۔
  • مولانا غلام حیدر جنڈالوی موضع جنڈالی، راولاکوٹ کے رہنے والے تھے اور سدھن قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈوگرا حکومت کے خلاف عمر بھر نبرد آزما رہے۔ مولانا عبد اللہ کفل گڑھی کی رفاقت میں پونچھ میں توہین قرآن مجید کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں خدمات سرانجام دیں۔ گرفتار ہوئے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔ ۱۹۴۰ء میں عدالت راولا کوٹ سے ڈھائی سال قید بامشقت پائی۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور قرارداد پاکستان کی حمایت اور تائید میں تقریر کی۔ تحریک آزادی کشمیر میں فکری وعملی ہر دو طرح سے حصہ لیا۔ راولا کوٹ کے محاذ پر شرکت، پونچھ محاذ پر آپ نے راشن ذخیرہ کرنے اور آزاد فوج کی رسدی امداد کرنے میں بڑا کام کیا۔ آپ کی کارکردگی سے متاثر ہو کر آزاد کشمیر حکومت نے آپ کو کیپٹن کے عہدے پر تعینات کیا اور آپ باضابطہ کیپٹن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
  • مولانا عبد الرحمن مظفر آبادی کا شمار آزاد کشمیر کے ممتاز اور مجاہد علما میں ہوتا ہے۔ آپ نے درس نظامی کی کتب مولانا عبد المتین سے پڑھیں اور ۱۹۳۱ء کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔
  • مولانا محمد سعید مظفر آبادی امروٹی لیپہ (کرناہ، ضلع مظفر آباد) سے تعلق رکھتے تھے۔ ہزارہ اور دیوبند کے مدارس سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں اپنے علاقہ کے لوگوں کی قیادت کی۔ عوام میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کے لیے موثر انداز میں تبلیغ کی جس کی وجہ سے علاقے میں آپ کا احترام پایا جاتا ہے۔
  • مفتی محمد اسرائیل کابل سے مظفر آباد آئے۔ ہزارہ اور دیوبند کے مدارس سے تعلیم حاصل کی۔ مولانا انور شاہ کشمیری سے ملاقات رہی۔ آپ کے رفقا میں مولانا محمد یوسف بنوری بہت بڑا نام ہے۔ سند فراغت کے بعد وطن واپس آئے اور عمر بھر تبلیغ دین کا سلسلہ جاری رکھا۔

علاوہ ازیں مولانا شمس الدین، مولانا محمد رفیق، مولانا غلام ربانی، مولانا حافظ عبد الرؤف، مولانا عطاء اللہ، مولانا سرفراز خان، مولانا مفتی نذیر حسین، مولانا خلیل الرحمن، مولانا ہدایت اللہ مظفر آبادی، مولانا محمد عالم، مولانا محمد حسین، مولانا خیر محمد، مولانا محمد یاسین، مولانا عزیز الرحمن، مولانا رحمت اللہ، مولانا عبد الغفور، مولانا محمد دین، مولانا محمد یوسف، مولانا بدر الدین ایسے علماے کرام ہیں جنہوں نے دار العلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ اشرفیہ لاہور، خیر المدارس ملتان، انوار الاسلام مظفر آباد، دار العلوم پلندری اور ضلع ہزارہ کے مدارس سے تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے وطن پہنچ کر کشمیر کی سیاسی بیداری، سکھ اور ڈوگرا حکومتوں کے ظلم واستبداد کے خلاف آواز بلند کرنے، عوام کو ان کے مقابل منظم کرنے، ان میں جذبہ جہاد بیدار کرنے کے علاوہ کشمیر کے لوگوں کی علمی ودینی اور مذہبی معاملات میں راہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ تحریک آزادی کشمیر میں ان علماے کرام کو بنیاد کے پتھر کی حیثیت بھی حاصل ہے۔


آراء و افکار

(اگست ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter