(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
- محنت قابل داد ہے، ماشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہم زد فزد۔ چشم بد دور
- زبان بعض مقامات پر تلخ اور مناظرانہ رنگ اختیار کر گئی ہے۔ اس حوالے سے پورے مقالہ پر نظر ثانی ضروری ہے۔
- ملل واقوام کے باہمی معاملات صرف اصولی اور نظری حوالے سے نہیں طے پاتے بلکہ تاریخی تعامل اور معروضی حقائق کا بھی ان میں خاصا دخل ہوتا ہے۔ دونوں کو سامنے رکھ کر موقف طے کرنا چاہیے۔
۱۔ مدینہ منورہ اور خیبر میں یہود کی بستیوں پر قبضہ اور انہیں جلاوطن کرنے کے بعد ان کی تمام عبادت گاہیں ختم ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ مسلمانوں کے مکانات اور عبادت گاہیں تعمیر ہوئی ہیں۔ اسی طرح نجران سے عیسائیوں کی جلاوطنی کے بعد ان کی عبادت گاہیں بھی باقی نہیں رہیں۔ پھر اندلس پر مسلمانوں کا قبضہ ختم ہو جانے کے بعد ان کی ہزاروں عبادت گاہوں کی ہیئت بلکہ ملکیت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد بھارت میں ہزاروں مساجد ہندوؤں اور سکھوں نے قبضہ کر کے اپنے مکانات اور عبادت گاہوں میں انہیں تبدیل کر لیا ہے اور پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کے سینکڑوں مندر مسلمانوں کے مکانات اور عبادت گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگر اس مضمون میں اختیار کیے گئے موقف کو بطور اصول تسلیم کر لیا جائے کہ ہیئت کی تبدیلی اور قبضہ وملک کی تحویل کے بعد بھی اور عرصہ دراز گزر جانے کے باوجود سابقہ انتظام وتولیت کا حق قائم رہتا ہے تو مذکورہ بالا تمام مساجد اور عبادت گاہوں کے لیے یہی موقف اختیار کرنا پڑے گا اور یہ دنیا کے کسی بھی قانونی نظام میں قابل قبول بات نہیں ہوگی۔
۲۔ ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی جو عبادت گاہیں موجود ہیں یا جن کی ہیئت تبدیل نہیں ہوئی، ان کے بارے میں مضمون میں مذکور فقہی جزئیات واحکام بالکل درست ہیں لیکن جن عبادت گاہوں کی ہیئت اور قبضہ وملک دونوں عملاً تبدیل ہو چکے ہیں، ان پر میرے خیال میں مذکورہ فقہی احکام کا اطلاق درست نہیں ہے اور اس صورت کے بارے میں فقہی ابواب وجزئیات کا دوبارہ مطالعہ ضروری ہے۔ آج کے قانون میں بھی ایسے معاملات میں قبضہ وملک کے تسلسل کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
۳۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے یا موقف اختیار کرنے سے قبل اس سے پیدا ہونے والے پبلک تاثرات کا جائزہ لینا اور ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ جناب نبی اکرم ﷺ نے بیت اللہ کی تعمیر کو ابراہیمی بنیادوں پر واپس لے جانے کی خواہش کے باوجود اس سے عملاً گریز کیا تھا اور قرآن کریم میں مدینہ منورہ کے منافقین کو صراحتاً کافر اور سازشی قرار دیے جانے کے باوجود ان کے خلاف قتال نہیں کیا تھا۔ ان دونوں فیصلوں کی وجہ خود جناب نبی اکرم ﷺ نے ’’منفی پبلک تاثر‘‘ بتائی ہے۔
۴۔ ظالم ومظلوم کی کشمکش میں اگر مظلوم کی طرف سے رد عمل کے طور پر اپنے دفاع میں کوئی ناروا بات بھی سامنے آجائے تو قرآن کریم نے اسے برداشت کرنے کی تلقین کی ہے، جیسا کہ چھٹے پارے کی پہلی آیت میں اس کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)
(۲)
بسم اللہ
لندن۔ ۲۴ جون ۲۰۰۳ء
مکرمی ومحترمی مولانا راشدی صاحب زید لطفہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الشریعہ کے دو شمارے اور عزیزم عمار صاحب کا مضمون پرسوں ملا۔ الشریعہ میں اپنے خطوط تو پھر سامنے آ گئے مگر جواب اب بھی نہ ملا۔ مضمون کے بارے میں فرمائش پڑھ کر پہلا سوال ذہن میں یہ آیا کہ اس بار ’’امانت‘‘ کے لیے میرا انتخاب عمار صاحب نے کیوں کر کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جواب فوراً نہیں پا سکتا تھا۔ پس تعمیل ارشاد میں مضمون اٹھایا۔ سرخی پرنظر پڑھی تو بڑی پریشانی ہوئی کہ پوری کتاب کی کتاب مضمون اور وہی ’’بیت المقدس، یہود اور مسلمان‘‘ کا پامال موضوع۔ یا اللہ! اس کو کیسے پڑھوں؟ مگر چند ہی سطروں کے بعد دماغ سے یہ بوجھ ہٹا۔ شکر ہے، عنوان پائمال سہی، مضمون پائمال نہیں ہے۔ اور پھر جب پڑھنے کے لیے بیٹھا تو خواہش یہ تھی کہ ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالوں۔
مولانا، مجھے اس موضوع کی بری طرح پائمالی نے کبھی اس سے دلچسپی نہ ہونے دی۔ اس لیے نہ میرا مطالعہ نہ غور وفکر، مگر جتنی کچھ سمجھ اللہ نے دی ہے، اس کے حساب سے آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اس کے انداز تحقیق پر۔ اللہ عمار صاحب کی زندگی میں برکت کرے اور وہ اپنے موضوعات کا ہمیشہ اسی طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس کی اشاعت کے بارے میں یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اسرائیل میں اقامہ کا انتظام کر لیں۔ اور تو اور، خود آپ کا قبیلہ علما ہی آپ لوگوں کو نہ چھوڑے گا۔ اور اشاعت بھی کریں تو میری رائے میں یہ ہر لحاظ سے مناسب ہے کہ دوسری (علمی یاجذباتی) رایوں کی تردید کا لہجہ بدلا جائے۔ اہانت اور استخفاف کا عنصر بالکل نکال دیں۔ اس معاملہ میں عمار صاحب آپ کے بالمقابل بالکل دوسرے سرے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ لہجہ لوگوں کے لیے ایک علمی تحقیق کا وزن محسوس کرنے اور غور کرنے میں بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔
حسب حکم مضمون ان شاء اللہ مولانا یعقوب قاسمی کو بھی بھیج دوں گا۔ اور ہاں، برصغیر میں مطالعہ حدیث پر آپ کے مقالے کی ایک کاپی بھی ادھر آ سکے تو خوشی ہوگی۔ نیز اس مئی جون کے شمارے میں ڈاکٹر خالد علوی صاحب کے مقالہ ’’اسلام اور بنیادی حقوق‘‘ کا ذکر ہے۔ نیز شش ماہی مجلہ ’’تعارف اسلامی‘‘ اگر ہو سکے تو یہ بتائیے کہ ان دونوں کے حصول کی کیا صورت ہے؟
ایک اور ضروری بات بھول گیا۔ فلسطین کا مسئلہ آج کل جس مرحلے میں ہے، اس کے پیش نظر اس وقت اس مضمون کی اشاعت کیا مناسب ہوگی؟
والسلام
عتیق الرحمن
بسم اللہ
لندن۔ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۳ء
برادر عزیز عمار خان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مرسلہ پیکٹ موصول ہوا۔ آپ کی تحقیقی صلاحیت کے تو قائل ہو ہی گئے تھے۔ اب جرات کی بھی داد دینی پڑے گی۔ اللہ حفاظت فرمائے۔
مولانا عیسیٰ صاحب کے لیے مرسلہ ’الشریعہ‘ ان کو ڈاک سے بھیج دیا گیا۔ مولانا قاسمی کی کتاب بھی ان شاء اللہ چلی جائے گی۔
والد ماجد مدظلہ سے رابطہ ہو تو میرا بھی سلام کہیے۔ پتہ نہیں واپسی میں لندن بھی آ رہے ہیں یا نہیں؟
الشریعہ کا یہ شمارہ (ایک کاپی) اور بھیج دیں تو ایک صاحب کو دوں۔
والسلام
خیر اندیش
عتیق الرحمن
(۳)
06/8/03
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا عمار ناصر صاحب، مدیر الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ مسجد اقصیٰ کی شرعی حیثیت کے بارے میں آپ کا فاضلانہ مقالہ بروقت مل گیا تھا۔ میرے لیے اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا تو دشوار ہے، اس لیے کہ میں نے مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ مطالعہ کیا تھا، اس پر خاصی مدت گزر چکی ہے۔ اب ازسرنو مطالعہ تازہ کرنے کے لیے کتابوں کی ورق گردانی ناگزیر ہے جس کی سردست فرصت نہیں۔ تاہم اگر آپ چاہیں تو علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب احکام اہل الذمہ کا مطالعہ فرمائیں جس میں انہوں نے شروط عمریہ پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ میری ناچیز رائے میں شروط عمریہ ہی اس معاملہ میں مسلمانوں کے موقف کی فقہی اور آئینی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
تاہم یہ غور ضرور کر لیں کہ کیا موجودہ حالات میں یہ بحث اٹھانا مفید ہوگا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اور بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ اس صورت حال میں ایک نئی اختلافی بحث کھڑی کر دینا مناسب نہیں۔ علم اور خاص طور پر علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاں ایک بڑا اعزاز ہے، وہاں ایک مقدس امانت بھی ہے۔ اس کو استعمال کرنے میں انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔ اگر ہم میں سے کسی کے علم کا استعمال اس انداز سے ہو کہ امت مسلمہ کو اس کا نقصان یا پاداش برداشت کرنا پڑے تو شاید یہ علم کا بہتر استعمال نہیں۔ مزید مشورہ برادر مکرم جناب مولانا زاہد الراشدی اور اپنے جد محترم سے فرما لیں۔
والسلام
ڈاکٹر محمود احمد غازی
نائب رئیس الجامعہ
(۴)
محترم جناب حافظ محمد عمار خان صاحب وہم نوا
السلام علیکم
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا ماہنامہ الشریعہ موصول ہوا۔ مضامین پڑھ کر مسجد اقصیٰ کے متعلق جمہور علما اور مسلمانوں سے ہٹ کر آپ اور آپ کی ٹیم کی یہود نوازی اور ان کے ساتھ ہمدردی، قرآنی فیصلہ ’’سبحان الذی .... المسجد الاقصیٰ....‘‘ تاریخی اور واقعاتی دلائل اور قبضے ودیگر تمام دلائل کو آپ بیان کر کے بودا قرار دیتے ہیں، لیکن جہاں کہیں یہود کے لیے ادنیٰ سا بہانہ یا دلیل مل جائے یا محرف توراۃ سے کوئی ایک آدھ سطر مل جائے تو آپ کا قلم تند وتیز ہو جاتا ہے۔ ماشاء اللہ مسلمانوں پر آئے دن بڑھنے والے مصائب میں یہ بھی ایک نیا باب ہوگا اور یہودیوں کے لیے آپ جیسے بندے خوب کام آئیں گے اور مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے ممد ومعاون ثابت ہوں گے۔ بہرحال نہیں معلوم، ہوشیار اور بعض قابل مسلمانوں کو ایک نئی چیز کا شوشہ چھوڑنے میں کیا لذت آتی ہے؟ اور کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ واللہ المستعان
عبد الرحیم
بلتستان، شمالی علاقہ جات
(۵)
گرامی قدر مولانا صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ کرے آپ بصحت وعافیت ہوں اور آپ کا رمضان اچھا گزر رہا ہو۔
۱۔ کچھ عرصہ پہلے شبیر میواتی صاحب نے بتایا کہ آپ شریعہ اکیڈیمی میں میرا لیکچر رکھنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ کچھ تفصیل کا تو پتہ چلے کہ موضوع کیا ہے؟ دورانیہ کتنا ہوگا؟ سامعین کون ہوں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ وہ کچھ تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو میں نے کہا کہ مولانا یا ناصر صاحب سے کہیے کہ مجھ سے رابطہ کریں۔ اس کے بعد آپ کے ہاں سے کچھ سننے میں نہیں آیا۔
۲۔ عزیزم عمار ناصر نے مسجد اقصیٰ والا مضمون چھپنے سے پہلے مجھے تبصرے کے لیے بھجوایا تھا۔ میں اس سے پہلے عزیزم کو دو مواقع پر تنقیدی خط لکھ چکا تھا اس لیے بار بار تنقید کو غیرمناسب سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ پھر وہ مضمون الشریعہ اور اشراق میں آ گیا تو اب محدث وغیرہ میں اس پر جرح ونقد کا سلسلہ شروع ہے۔
بحث وتحقیق میں اختلاف رائے نہ کوئی بری بات ہے اور نہ ناقابل برداشت لیکن سوال یہ ہے کہ تحقیق کی غایت کیا ہے؟ غامدی صاحب کے حلقہ فکر کی تحقیق کے نتائج سے آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ علانیہ یا شعوری موقف خواہ کچھ ہو، عملاً یہی نظر آتا ہے کہ مغرب کی خواہشات وضروریات کے مطابق اسلام اور مسلم فکر کا حلیہ درست کیا جائے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جہاں بھی مغرب سے فکری مرعوبیت ہوگی، انجام یہی ہوگا۔ سرسید سے لے کر قادیانیت اور پرویزیت تک یہی صورت حال نظر آتی ہے اور اسے مہمیز کرتی ہیں قائدین کی نفسیاتی اور مالی ضرورتیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں آپ کو یہ مضمون الشریعہ میں نہیں دینا چاہیے تھا۔ الا یہ کہ آپ کو اس کے مندرجات سے اتفاق ہو۔ اگر ایسا نہیں تو آپ خود اس پر نقد کیجیے جیسے پہلے ان لوگوں کے کمزور/ غلط موقف پر کرتے رہے ہیں۔
۳۔ تازہ الشریعہ سے پتہ چلا کہ آپ اگلے ماہ دینی مدارس کے حوالے سے ’’مشاورت‘‘ رکھنا چاہ رہے ہیں۔ اس کے فریم ورک کی سمجھ نہیں آئی۔ دو تین روزہ ورکشاپ/ سیمینار کی جس شکل سے ہم مانوس ہیں، وہ یہ ہے کہ اہل علم سے رابطہ کیا جائے، انہیں موضوعات دیے جائیں، موضوعات کے گروپ بنائے جائیں، ان کے الگ الگ سیشن رکھے جائیں، ہر سیشن سے سفارشات تیار کروائی جائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ آپ کے اعلان سے پتہ نہیں چلتا کہ کون لوگ آئیں گے اور کن موضوعات پر گفتگو ہوگی اور کس حد تک منضبط ہوگی؟ اگر سنجیدہ استفادے کی کوئی صورت ہو تو آدمی آنے کی ہمت کرے۔
والسلام
مخلص
محمد امین
(سینئر ایڈیٹر اردو دائرہ معارف اسلامیہ لاہور)
(۶)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا نام ’’اشراق‘‘ میں آپ کے مضمون ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ کے حوالے سے سامنے آیا۔ آپ نے جو محنت اس مضمون کی ترتیب میں صرف کی ہے، وہ معمولی نہیں ہے۔ اتنے حوالے تاریخ، احادیث اور فقہ سے جمع کرنا بہت وقت طلب کام ہے۔ آپ کے اس مضمون نے بہت سارے مسائل پیدا کر دیے ہیں، دل ودماغ کی دنیا میں ایک ہلچل پیدا کر دی ہے۔ مسئلہ بہت نازک ہے، بہت طویل ۱۳ صدیوں پر مشتمل ہے، اس لیے آپ اس قضیے میں ہم کو شامل کرنا چاہیں تو بات آگے بڑھائیں۔ اگر اپنی رائے جو آپ اخذ کر چکے ہیں، اس پر غور اور نظر ثانی کرنا چاہیں تو۔ ورنہ شاید وقت کا ٹھیک استعمال نہ ہوگا کہ وقت بہت قیمتی ہے۔
اگر ہم کچھ اصولی باتوں کو طے کر لیں تو ہو سکتا ہے کہ بہت دور جانے کی ضرورت نہ پڑے۔
- قرآن وسنت میں اس مقام کو مسجد اقصیٰ کا نام دیا گیا ہے، ہیکل کا نہیں۔ یہ مسجد ، مسجد حرام کے ۴۰ سال بعد بنائی گئی۔ ۴۰ سال کا زمانہ ابراہیم اور اسحاق علیہم السلام کا بنتا ہے جبکہ یہود بعد کی پیداوار ہیں۔ ما کان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا۔ لہٰذا اصل یہ ہے کہ یہ مسجد ہی تھی اور یہ بنی اسرائیل کے لیے تھی جب وہ مسلمان تھے۔ جب وہ مسلمان نہ رہے اور یہودی ہو گئے تو نہ یہ ان کی رہی نہ ان کا اس پر دعویٰ رہا۔ انہوں نے خود اس اعزاز سے دستبرداری اختیار کر لی اور تب سے آج تک انہوں نے دوبارہ اس کی بازیابی کی درخواست اللہ کو نہیں دی۔ قرآن اس پر گواہ ہے۔
مسجد سجدہ گاہ ہے، قیام نماز کا مقام ہے اور مسلمانوں کے علاوہ کسی کے ہاں نماز ہی نہیں۔ فخلف من بعدہم خلف اضاعوا الصلوۃ واتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیا (مریم ۵۹) انہوں نے یعنی بنی اسرائیل نے تو نماز کو ضائع کر دیا۔
مسجد پر صرف مسلمانوں کا حق ہے، لہٰذا اگر یہودی مسلمان ہو جائیں تو پھر مسجد اقصیٰ پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہوگا جتنا کہ باقی مسلمانوں کا ہے۔ یہی مطلب ہے عسیٰ ربکم ان یرحمکم کا ، یعنی یہ کہ اگر تم دوبارہ مسلمان ہو جاؤ تو۔ صاف ظاہر ہے کہ مسجد سجدہ کرنے والوں کی ہے، مسلمانوں کی ہے، چاہے وہ بنی اسرائیل سے ہوں، بنی اسماعیل سے یا کسی بھی نسل سے۔ ورنہ غیر مسلم رہتے ہوئے یہودی مسجد اقصیٰ پر کوئی حق نہیں جتلا سکتے۔ اور اگر آپ کا نقطہ نظر مان لیا جائے تو پھر یہ صریحاً قرآن سے منہ پھیرنے والی بات ہوگی اور اس کا انجام بڑا ہی بھیانک ہوگا۔ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور متاع ایمان بھی لٹ جائے گی۔ اللہ آپ کو اور ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین
- آپ نے اپنی تحریر میں صلیبیوں کے پہلے، دوسرے اور تیسرے حملے اور مظالم کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس ان کے زائرین کے ساتھ مسلمانوں کے ناروا سلوک کا ذکر کیا جو کہ خلاف واقعہ ہے یعنی یہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ مسلمانوں اور مجاہدین کا مفتوحین کے ساتھ حسن سلوک خاص کر یہود کے نمائندوں نصاریٰ کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے برعکس ایک خلاف واقعہ بات لکھ ڈالی۔
- کیا آپ کے خیال میں ’’اخلاق‘‘ شریعت سے الگ کوئی چیز ہے جس کی آپ نے امت مسلمہ کو نصیحت کی ہے؟
- انہوں نے خود کبھی مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا دعویٰ نہیں کیا۔ البتہ وہ مسجد اقصیٰ اور صخرہ کو گرا کر ہیکل بنانے کی بات ضرور کرتے ہیں اور آپ پوری امت کے ڈیڑھ ہزار سالہ موقف ہی نہیں بلکہ اللہ کے فرمان وان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا، رسول کی امامت انبیا کے مقام، حضرت عمر اور کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے موقف اور اس کے وقت کے ذمہ دار بنی اسرائیل (صفرنیوس) کے فیصلہ بلکہ رضامندانہ فیصلہ اور اس کے بعد سے آج تک پوری دنیا کے فیصلہ اور موقف سے انحراف کر رہے ہیں جبکہ ایلیا (بیت المقدس) خلافت عمر کے زمانے میں فتح ہوا، ہاں یہ صلحاً ہی فتح ہوا تھا اور یہ معاہدہ صلح آج تک تحریری صورت میں موجود ہے۔ آپ نے اپنے موقف میں جان ڈالنے کے لیے اس معاہدے کے ان الفاظ کو اپنی تحقیق میں جگہ نہ دی جن میں یہود کا ذکر ہے ’’ولا یسکن بایلیاء معہم احد من الیہود‘‘ تو انحراف کس نے کیا؟ امت مسلمہ نے، یہود نے یا آپ نے؟ یہود نے وہ بات کبھی نہ کہی بلکہ کسی نے نہ کہی جو آپ نے کہی۔ یہود تو اس کے برعکس یہ کہتے ہیں یہ ہماری ارض موعود ہے (مسجد موعود نہیں) بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں ہمارا دعویٰ خیبر پر ہے، مدینہ پر ہے بلکہ وہ کہتے ہیں، عظیم اسرائیل نہر نیل سے فرات تک ہے بلکہ آگے ترکی کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔
کاش کہ آپ قرآن ہی کو پڑھ لیتے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھیے کہ وہ یہ کہتے ہیں: نحن ابناؤ اللہ واحباؤہ (المائدہ) بلکہ اس سے آگے آپ یہ بھی پڑھ لیتے: ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء (آل عمران) آج کے یہود اخوان القردۃ والخنازیر ہیں۔ کچھ خیال کریں، آپ کن کو مسجد کی تولیت دلانا چاہتے ہیں۔ اللہ کا غضب لے کر لوٹنے والوں سے آپ ’’اخلاق‘‘ سے پیش آنے کو کہتے ہیں؟ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ آپ کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے۔ آپ نے اپنے ایمان کو بڑے خطرے سے دوچار تو نہیں کر دیا؟ آپ نے غور بھی کیا کہ ایسے ظالموں کو مسجد دے کر آپ کس مقام پر کھڑے ہو گئے اور آپ ان کو مسجد دے کر بھی بہرحال راضی نہ کر سکیں گے۔ یہ خطاب اللہ کے رسول سے ہے۔ آپ ان کی اہوا کی حمایت کر کے کیا پائیں گے اور کیا کھوئیں گے؟ ذرا آیت کا آخری حصہ غور سے پڑھیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خیر اندیش
محمد صابر اعوان/ حق نواز تنولی
معراج علی/ ذو الفقار علی