تعلیمی اداروں، سماجی اداروں اور اسلام کے نظریاتی اداروں سے وابستہ وہ باصلاحیت افراد جو سیاست میں دینی جدوجہد کے ذریعہ بہت بڑی تبدیلی کی توقع پر معاشرہ کی سطح پر اپنے حصہ کے کام کو معطل کیے ہوئے ہیں یا اس کام کی افادیت کے قائل نہیں، انہیں اس نکتہ پر ضرور غور وفکر کرنا چاہیے کہ اول تو معاشرہ کی سطح پر تبدیلی کے لیے اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے بغیر صحت مند سیاسی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اگر اس طرح کی تبدیلی واقع بھی ہو جائے تو اس تبدیلی میں ان کا کردار نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود تو اس عظیم کام کی سعادت سے محروم ہی رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ قوموں کے لیے اصل اور فیصلہ کن چیز ثقافتی انقلاب ہوتا ہے۔ ثقافتی انقلاب ذہن، فکر ونظر، دل، وجدان اور شخصیت میں تبدیلی کا نام ہوتا ہے۔ جب قومیں ثقافتی تبدیلی سے گزرتی ہیں تو ملک کے ہر شعبہ زندگی میں انہیں ایسی قیادت میسر ہو جاتی ہے جو قومی اور ملی مقاصد سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور جو سراپا ملی جذبات واحساسات کی حامل ہوتی ہے۔ اس طرح کی قیادت قوم وملت کے مفادات کے منافی اقدامات کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہوتی۔ نیز ثقافتی عمل قوموں میں احتساب کے عمل کو اتنا سخت اور ہمہ جہتی بنا دیتا ہے کہ سیاسی، انتظامی اور تعلیمی قیادت بے ایمانی، ملت فروشی اور دشمن کے مفادات کی سرانجامی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ مغرب میں ڈیڑھ دو سو برس پہلے جو ثقافتی انقلاب برپا ہوا، اس نے معاشرہ کو قومی مفادات سے ہم آہنگ قیادت فراہم کی جس کی وجہ سے مغربی معاشرے اخلاقی نصب العین اور ثقافتی تبدیلی کے ناقص تصورات کے باوجود اب بھی مسلم معاشروں سے زیادہ مستحکم ہیں۔
معاشرے میں ثقافتی انقلاب برپا کرنے میں تعلیمی، سماجی، تہذیبی اور تربیتی ادارے ہی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاست سے معجزہ نما انقلاب کی توقع رکھ کر جو وقت ضائع ہوا ہے، کاش ملک کے دردمند دینی عناصر میں اس کا شعور اور احساس پیدا ہو جائے اور معاشرہ کی سطح پر صحیح سمت میں بڑے پیمانہ پر کام کی صورت پیدا ہو جائے۔ اسی کام سے ہی معاشرے میں بڑھتے ہوئے اخلاقی زوال، بے ایمانی، غیر ذمہ داری وغیرہ کو روکا جا سکتا ہے۔