(مسلم افکار وتحریکات پر مثبت اور بامقصد تنقید خود ان تحریکات کی بہتری، ترقی اور اصلاح کے لیے ناگزیر ہے۔ تنقیدی عمل کے اس رجحان کو فروغ دینے کی غرض سے ’الشریعہ‘ میں اس نوعیت کی تحریریں وقتاً فوقتاً شائع کی جاتی رہتی ہیں۔ زیر نظر تحریر میں، جو دراصل جناب الطاف احمد اعظمی کی کتاب ’’احیاے امت اور دینی تحریکیں‘‘ کا مقدمہ ہے، مصنف نے برصغیر کی بعض اہم فکری تحریکات اور شخصیات پر اپنی تنقید کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ ان کے نتائج فکر اور اسلوب تنقید سے اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
قوموں کے زوال کے مختلف اسباب ہیں۔ان میں سے دو سبب ایسے ہیں جو تقریباََ ہر قوم کے زوال میں کارفرما ملتے ہیں۔ ایک سبب تو عقلی قوت کا اضمحلال ہے جس کے نتیجے میں وہ قوم نہ صرف حکومت کرنے کی اہلیت سے عاری ہو جاتی ہے بلکہ اس میں با صلاحیت افراد کی پیدائش کا سلسلہ بھی بتدریج بند ہو جاتا ہے۔ اس قحط الرجال کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کی زمام اختیار نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو قومی معاملات کو رفتہ رفتہ اس حد تک خراب کر دیتے ہیں کہ ان کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے۔
زوال کا دوسرا اہم سبب اخلاقی قوت کا ضعف ہے۔ جب کسی قوم میں عقلی انحطاط کے ساتھ اخلاقی ضعف بھی آجاتا ہے تو اس کے اصحاب اقتدار میں بہت سے اخلاقی معائب رونما ہوتے ہیں۔ مثلاََ وہ سخت کوشی اور جاں فروشی کے مقابلے میں تعیّش کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں، اور اسراف، نمودونمائش اور بے جا فخروغرور کا مظاہرہ ان کی زندگی کے معمولات میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ہی بھائی بندوں پر ظلم کرتے ہیں لیکن دشمن کے مقابلے میں بزدلی دکھاتے ہیں۔ خیانت، عہدشکنی، وعدہ خلانی، خوشامد، دروغ گوئی، خودستائی اور حبِّ جاہ ومال میں ان کا ہر فرد دوسرے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ عجلت و بے صبری اور یاوہ گوئی ان کا قومی مزاج بن جاتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کے درپے آزار ہوتے ہیں۔ قوم کے اربابِ حل و عقد کی اقتدا کی وجہ سے یہ سب خرابیاں امتداد زمانہ کے ساتھ عوام کے اندر بھی سرایت کر جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پوری قوم اخلاقی اعتبار سے مکمل طور پر مفلوج ہو جاتی ہے۔
جب کوئی قوم عقلی اور اخلاقی زوال کے اس مقام تک پہنچ جاتی ہے تو پھر خدا کا عالم گیر قانونِ عدل حرکت میں آتا ہے اور اس ناکارہ قوم کے ہاتھ سے ملک و اقتدار لے کر کسی دوسری با صلاحیت اور آزمودہ قوم کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی دو سورتوں میں اس قانون تغیر کا ذکر آیا ہے۔ سورہ انفال آیت ۵۲ میں فرمایا گیا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مَغَیِّرًا نِعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْ ا مَا بِاَنْفُسِہِمْ وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعُٗ عَلِیْمُٗ۔
’’ یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ اس انعام کو جو وہ کسی قوم پر کرتا ہے، اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اس چیز کو نہ بدل ڈالے جس کا تعلق خود اس سے ہے۔ اور بے شک اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
سورہ رعد آیت ۱۱ میں ارشاد ہوا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُمَابِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔
’’اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کرے۔‘‘
ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی زوال خدا کے اس قانون عدل کے مطابق وقوع میں آیا۔ آخری دور کے مغل حکمرانوں کے حالات زندگی اور ان کے طرزِ حکومت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قوم عقلی اور اخلاقی اعتبار سے پستی کی آخری حد تک پہنچ چکی تھی اور اس کا زوال یقینی تھا۔ چنانچہ ۱۸۰۶ء میں انگریزوں نے دلی کا تخت اقتدار مسلمانوں سے چھین لیا اور وہ مکمل طور پر مغلوب و محکوم بن گئے۔
اس سیاسی مغلوبیت نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو، جو پہلے ہی مائل بہ انتشار تھی، مزید پراگندہ کیا اور مسلمانوں میں من حیث القوم شکست خوردگی کا احساس قوی ہو گیا۔ اس نازک صورت حال کے پیش نظر قومی رہنماؤں اور مذہبی علما نے اصلاح احوال کے لیے غوروفکر شروع کیا۔ کسی نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کا انتظام نہایت ضروری ہے ورنہ مغربی تہذیب کی یلغار سے مسلم نوجوانوں کے ایمان و اخلاق کی حفاظت مشکل ہو گی۔ کسی نے کہا کہ مسلمان جب تک جدید علوم و فنون کی تحصیل کی طرف مائل نہ ہوں گے، ان کی دنیوی ترقی اور قومی عروج ممکن نہیں ہے۔ مذہبی علما کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ساری خرابیوں کی وجہ جو ان کے سیاسی زوال کا پیش خیمہ بنیں، دراصل صحیح اسلامی فکروعمل کا فقدان ہے۔ مسلمان جب تک قرآن کی تعلیم اور نبی ﷺ کی سنّت کو مشعلِ راہ نہیں بنائیں گے، احیاے اُمّت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو گا۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ہمہ گیر اسلامی تحریک اٹھے جس کی زیر قیادت تمام مسلمان مجتمع ہوں۔ اس آخری خیال کے زیر اثر مسلمانوں میں یکے بعد دیگرے تین جماعتیں، جمعیۃ العلما، تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی وجود میںآئیں۔
جماعت اسلامی
مسلمانوں میں علمی سطح پر جو جماعت سب سے زیادہ فعال ہے، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ہر تحریک خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، اپنی فطرت کے لحاظ سے انقلاب انگیز ہوتی ہے۔ اس سے انسانی معاشرہ میں حرکت و ہلچل کا پیدا ہونا لازمی ہے،اس لیے کہ وہ معاشرے کی ہیئت ترکیبی کو بدلنے کا عزم لے کر کھڑی ہوتی ہے اور اس میں مروّج افکار وخیالات پر تنقید کر کے اس کی اصلاح و تہذیب کو اپنا لازمی فرض خیال کرتی ہے ۔ مختصر یہ کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تقریباََ ہرگوشہ اس کی نظری اور عملی ترک تازی کی زد میں ہوتا ہے۔
جو لوگ معاشرے میں کسی تبدیلی کے خلاف ہوتے ہیں اور اپنے مزعومہ افکار و اعمال کو درست سمجھتے ہیں اور ان میں کسی نوع کی تبدیلی کو خلافِ دین و ایمان جانتے ہیں، وہ پوری قوت سے تحریک کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر طرح اس کی مزاحمت کرتے ہیں۔ بایں طور سماج کے ان دو مختلف الخیال طبقات کے درمیان کشمکش اور محاذ آرائی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر تحریک مثبت اور تعمیری عناصر پر مشتمل ہوتی ہے تو وہ بہت جلد مخالفین پر غالب آ کر کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے اور اگر اس میں تعمیری عناصر کی جگہ منفی اور تخریبی عناصر زیادہ طاقتور ہوتے ہیں تو تمام شورانگیزی اور نعرہ بازی کے باوجود آخرالامر اس کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے یعنی تحریک کا وجود کسی نہ کسی درجے میں باقی رہتا ہے لیکن اس کے اندر سے حرکت و عمل کی صلاحیت مسلوب ہو جاتی ہے اور وہ ایک جسد بے روح بن جاتی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت پیش آتا ہے جب تحریک کے مثبت اور منفی پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو اتنا قوی نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے پہلو پر غالب آجائے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں ’’خلطوا عملاً صالحاً وآخرسیئاً‘‘ جیسا معاملہ ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے جماعت اسلامی کے ساتھ یہی دوسری صورت پیش آئی۔ جماعت اب بھی قائم ہے اور ہندوستان کے علاوہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض مذہبی جماعتیں اس نام سے کام کر رہی ہیں لیکن اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جماعت اسلامی بحیثیت ایک مثبت تحریک کے تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اس کے پاس نظری سطح پر اب صرف ’’حکومتِ الٰہیہ ‘‘ کا وہ نظریہ رہ گیا ہے جو مولانا سیّد ابو الا علیٰ مودودیؒ کے مذہبی لٹریچر کا جزو غالب ہے۔ اس کو مختصراََ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات خلقت کا حاکم و آمر ہے اور اسی کے حکم و فرمان کے مطابق ارض و سما کا تکوینی نظام چل رہا ہے، اسی طرح وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی اور تمدنی زندگی کا بھی حاکم علی الاطلاق ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کی ہر ممکن سعی کریں تاکہ یہاں اس کا قانون شرعی نافذ ہو۔ اس نظریہ کا نام مولانا مودودیؒ کی مخصوص اصطلاح میں ’حکومت الٰہیہ‘ ہے چنانچہ مولانا کے نزدیک ’’ اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (Social order) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق تعمیر کرنا چاہتا ہے۔‘‘
اس نظریے میں دو بڑی خرابیاں ہیں جو اوپر کی عبارت سے بالکل واضح ہیں۔ ایک خرابی تو یہ خیال ہے کہ حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا مسلمانوں کا دینی فرض ہے اور دوسری خرابی اسلام کے خارجی پہلو کا اس کے داخلی پہلو پر غلبہ ہے یعنی تعلق مع اللہ اور تزکیہ نفس کے مرحلے سے گزرے بغیر اسلام کے اجتماعی نظام کے قیام کی دعوت دینا۔
اسلام کا آغاز کس طرح ہوا اور وہ کن مراحل سے گزر کر کامیابی کی منزل تک پہنچا، یہ محض کوئی نظری داستان نہیں بلکہ تاریخ عالم کا ایک منضبط عملی واقعہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی، کیا انفرادی اور کیا اجتماعی، اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ کیا آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز اسلام کے سیاسی و عمرانی تصوّرات کی تبلیغ سے کیا؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہو گا۔ آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز توحید کی تعلیم سے کیا جو دین اسلام کی روح اور اس کا مغز ہے۔اس کا اوّل بھی توحید اور آخر بھی توحید ہے۔ باقی چیزیں اسی شجرہ طیّبہ کے برگ و بار ہیں۔
اسلامی نظام میں توحید کی وہ حیثیت ہے جو عمارت میں بنیاد کو اور جسم میں روح کو حاصل ہے۔ اسلامی نظام کے سارے اجزا اس مرکز کے گرد ٹھیک اس طرح گھومتے اور اس سے کسب فیض کرتے ہیں جس طرح نظام شمسی میں تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے اور اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اسلام کے سیاسی و عمرانی نظریات کی حیثیت توحید کے توابع کی ہے، اس سے علیٰحدہ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کسی معاشرہ میں ان نظریات کا ظہوروشیوع اسی وقت ممکن ہے جب نظریہ توحید کو سماج پر فکری اور عملی بالادستی حاصل ہو۔ اس لیے توحید کی اقامت سے پہلے ان نظریات کی اقامت کی سعی ریت پر محل بنانے کے مترادف ہے۔
جماعت اسلامی نے اپنے نصب العین میں ملک و اقتدار کے حصول کو جو بنیادی حیثیت دی ہے، وہ اس کی ایک بڑی فکری خطا ہے۔ اس باب میں قرآن مجید کی تعلیم بالکل واضح ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں ہے، قصورفہم کی بات دوسری ہے۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق اہل ایمان کو زمینی غلبہ و اقتدار اس وقت عطاکیا جاتا ہے جب وہ بحیثیت مجموعی ایمان اور عمل صالح کے اوصاف سے متصّف ہوں۔ (سورہ نور۔۵۵) گویا حکومت و اقتدار ایمان اور عمل صالح کے نتائج و ثمرات ہیں نہ کہ مقصود و مطلوب جیسا کہ جماعت اسلامی کا خیال ہے۔
اس نقطۂ نظر کے مطابق مسلمانوں کا دینی و ملّت نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ وہ پہلے اپنے آپ کو ایمان اور عمل صالح کے قالب میں ڈھالیں اور پھر دوسروں کو اس کی دعوت دیں۔ اس راہ میں ہر طرح کی جدوجہد مطلوب ہے اور اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہو گا جب تک کہ اہل ایمان کی ایک ایسی جماعت تیار نہ ہو جائے جس کا ایک ایک فرد اپنے اخلاق و کردار اور اہلیت کے اعتبار سے مثالی ہو ۔ اس معیار مطلوب تک پہنچ جانے کے بعد اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو تمکّن فی الارض عطا کرے گا اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صالحین کی موجودگی میں زمام حکومت غیر صالحین کے ہاتھ میں نہیں دی جاتی ہے بشرطیکہ صالحین فی الواقع صالحین ہوں، محض شکل و صورت کے صالحین نہ ہوں۔ غیر صالحین کے غلبہ کے معنی یہ ہیں کہ صالحین کی کوئی جماعت موجود نہیں ہے۔
اگر بالفرض عدم صالحیت کے باوجود مسلمانوں کو کہیں حکومت مل بھی جائے تو وہ صرف نام کی اسلامی حکومت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام جس نوع کا نظام عدل اجتماعی قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے قائم کرنے والے لوگ خود اپنی زندگی میں عدل و قسط پر قائم ہوں اور حبّ جاہ و مال سے بے نیاز ہو چکے ہوں۔ ظاہر ہے کہ افراد معاشرہ میں یہ اوصاف محض تقریر و تحریر سے ہرگز پیدا نہ ہوں گے۔ اس کے لیے تعلیم و تربیت کے ایک طویل مرحلہ سے گزرنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مدت نصف صدی ہو یا اس سے بھی زیادہ۔
تعلیم و تربیت کے اس مرحلہ میں جس نکتہ پر سب سے زیادہ توجہ مطلوب ہو گی، وہ ایمان باللہ اور اس کے تقاضے ہیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق قائم نہ ہو گا اور اس کی سچی معرفت حاصل نہ ہو گی، اس وقت تک ایک مسلمان کے اندر وہ اوصاف و کمالات پیدا نہیں ہو سکتے جو عدل اجتماعی کے اسلامی نظام کے قیام کے لیے لازمی ہیں۔ حکومت تو بڑی چیز ہے، معمولی ادارے بھی بے کردار اور نا اہل افراد کے ذریعہ نہیں چلائے جا سکتے ہیں۔ذرا سوچیں، اللہ تعالیٰ اپنی زمین پر ایسے لوگوں کو اقتدار کا مالک کس طرح بنا سکتا ہے جو بے کردار ہوں اور ذہنی اعتبار سے ناکارہ بھی۔ یہی وجہ کہ جب دنیا کے کسی خطّے میں حقیقی اہل ایمان کا کوئی گروہ موجود نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ زمین پر اس قوم یا جماعت کو اقتدار عطاکرتا ہے جس میں حکومت کرنے کی اہلیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے اصل چیز جس پر مسلمانوں کو من حیث القوم زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ تعمیر سیرت اور تکمیل لیاقت ہے نہ کہ مجرد اسلام کا نظری تعارف جس پر ا ب تک جماعت اسلامی کی ساری توجہ مرکوز رہی ہے۔
اگر ارباب جماعت نے اسلام کو علمی و نظری سطح پر ایک عمدہ نظریہ حیات کی حیثیت سے نہایت مدلل طور پر ثابت بھی کر دیاتو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ کچھ لوگ اسلام کی علمی فضیلت کے قائل ہو جائیں لیکن ان کا حلقہ بگوش اسلام ہونا ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی نظریہ ہو، جب تک وہ عمل کے قالب میں ڈھل کر دنیا کے سامنے نہیں آتا، اس کو قبول عام حاصل نہیں ہوتا ۔اسلام کی ابتدائی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔ جزیرۃالعرب میں اسلام کو جو بے مثال کامیابی ملی، اس کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا پختہ ایمان اور حسن کردار تھا نہ کہ زور خطابت اور حسن تحریر۔
جماعت اسلامی سے وابستہ اہل علم کا جو طبقہ ہے، اس کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کو محض ایک علمی مشغلہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ ان کا اسلام کتابوں، سیمیناروں اور مجالس مذاکرہ سے باہر کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ ایک طرح کی ذہنی تفریح ہے جس کے یہ لوگ عادی ہوچکے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے فکر کے ساتھ ذکر بھی ضروری ہے (آل عمران ۱۹۱) اور ذہن کی تابناکی کے ساتھ قلب وروح کی تابندگی بھی ناگزیر ہے۔ دنیا کے سامنے اسلامی نظام حیات کی بات کرنے سے زیادہ مقدم امر یہ ہے کہ خود افراد جماعت کی زندگیوں، ان کے گھروں میں اسلامی تعلیمات کا چراغ روشن ہو۔ ان کے کردار واعمال کو دیکھ کر اہل جہاں کو معلوم ہو کہ اسلام ایک فرد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بایں طور سنوارتا اور نکھارتا ہے۔ آپ علوم وفنون کو ضرور مسلمان بنائیں لیکن اس سے پہلے زندگی کی تاریک راہوں میں حسن عمل کی ایک شمع تو روشن کر دیں۔
تبلیغی جماعت
دین کی ایک تعبیروہ ہے جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا یعنی جماعت اسلامی کی تعبیر دین، اور دوسری تعبیر وہ ہے جسے تبلیغی جماعت نے پیش کیا ہے۔ یہ تعبیر دین ہر اعتبار سے اول الذکر تعبیر سے مختلف ہے، ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کا تعلق علما کے اس گروہ سے تھا جو خانقاہی نظام سے منسلک تھے چنانچہ ابتدا میں وہ بھی اسی گروہ سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سہارنپور کے معروف عربی مدرسہ میں کچھ دنوں تک درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا۔ لیکن انہوں نے بہت جلد محسوس کر لیا کہ خدمت اسلام کے یہ دونوں طریقے گو کہ بعض اعتبار سے مفید ہیں لیکن اس سے عام مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور مسلم سماج کی اصلاح ان کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ اس خیال کے تحت انہوں نے تبلیغی جماعت قائم کی۔
چونکہ اس کا مقصد عام مسلمانوں کی اصلاح تھا، اس لیے اس کی دعوت کو دین کے چند بنیادی امور مثلاً کلمہ کی اصلاح اور قیام نماز وغیرہ تک محدود رکھا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس کو کل اسلام سمجھتے تھے۔ انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ یہ امور دین کی الف ،ب، ت ہیں اور ان سے گزر کر اسلام کے دوسرے اصول واعمال تک تدریجاً پہنچنا ہے اور اس جدوجہد کی آخری منزل ’’سیاست نامہ‘‘ ہے۔ انہوں نے مولانا مودودی کے برخلاف طاقت وحکومت کے حصول کو اصل مطلوب ومندوب کی حیثیت نہیں دی بلکہ اس کو ایمان اور عمل صالح کا خدائی انعام قرار دیا۔
راقم کے نزدیک مولانا محمد الیاس کی دعوت بعض نقائص کے باوجود اصولی اعتبار سے بالکل درست اور قرآن وسنت کے مطابق تھی لیکن اس مرد مومن کے انتقال کے بعد تبلیغی جماعت مولانا محمد زکریا صاحب کے زیر اثر آگئی اور یہیں سے اس جماعت میں فکری اور عملی انحراف شروع ہوا۔ جس دعوت کو بانی جماعت نے دین کی الف ،ب،ت کہا تھا، اس کو کل دین قرار دے دیا گیااور آج تبلیغی جماعت اسی راہ میں گامزن ہے۔
اس سے بڑا ستم یہ ہوا کہ دین کے بعض بنیادی امور میں افراط وتفریط کے رجحان کو جس کا آغاز بانی جماعت کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا، فروغ ملا اور وہ کافی پختہ ہوگیا مثلاً ایمان وعمل میں تفریق اور نماز اور زکوٰۃ میں تفریق وغیرہ ۔ پہلی تفریق نے انہیں کردار سازی سے غافل کیا اور دوسری تفریق نے بندگان خدا کی خدمت کے تصور سے بے گانہ بنایا۔ اس کے علاوہ تو کل کے غیرقرآنی تصور کا بھی اس جماعت میں رواج ہے۔ اور اس سے بڑھ کر پیر پرستی کی بیماری ہے جس میں اس جماعت کے خاص وعام سب مبتلا ہیں۔
اس جماعت کی فکری رہنما تبلیغی نصاب (فضائل اعمال ) نامی کتاب ہے جس میں بے شمار موضوع اور ضعیف روایتیں اور بے سروپا حکایتیں بھری ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کتاب کو اہل تبلیغ میں وہ ہردلعزیزی حاصل ہے کہ اس کی کوئی دوسری نظیر تاریخ امت میں کم از کم مجھے نہیں ملی۔ اس مقبولیت کی وجہ مولف کتاب سے اہل تبلیغ کی اندھی عقیدت ہے جو پیری مریدی کا لازمی نتیجہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب امت مسلمہ کے حق میں ایک بہت بڑا فتنہ ہے لیکن افسوس کہ مسلمان اس حقیقت کے ادراک سے اب تک قاصر ہیں ۔
تبلیغی جماعت کو عوام میں جو مقبولیت حاصل ہے، اس دیکھ کر بہت سے لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ بالکلیہ حق پر ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عوام میں تبلیغی جماعت کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی جو ذہنی اور فکری سطح ہے، وہ جماعت کی ذہنی اور فکری سطح سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کے چند اعمال ورسوم کی ظاہری پیروی کو کل دین کی حیثیت دے دی گئی ہے جس کی وجہ سے عام مسلمان بآسانی اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اعمال واخلاق کی جن خرابیوں میں غیر تبلیغی مسلمان مبتلا ہیں، انہی خرابیوں میں تبلیغی جماعت کے افراد بھی مستثنیات سے قطع نظر ملوث نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔ جب ذکرلسانی، درود شریف، تبلیغی گشت، نصاب خوانی اور نوافل کا اہتمام کرنے والوں کے لیے جنت میں ہزاروں محل کی تعمیر کا مژدہ سنایا جا رہا ہو تو پھر کسی مسلمان کو کیا پڑی کہ وہ اعمال صالحہ کی گھاٹی عبور کرنے کی مشقت اٹھائے؟ تعمیر سیرت سے مکمل طور پر بے اعتنائی کی وجہ سے تبلیغی جماعت کی افادیت اس کے وسیع حلقہ اثر کے باوجود بہت تھوڑی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مضرت کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تبلیغی جماعت نے ظاہری مذہبیت اوراس میں غلو اور شخصیت پرستی کے علاوہ مسلمانوں کو اور کچھ نہیں دیا اور نہ آیندہ وہ کچھ دے سکتی ہے۔ جس جماعت کی فکری رہنما تبلیغی نصاب (فضائل اعمال ) جیسی کتاب ہو، اس میں خیروصلاح کی توقع زمین شور سے روئیدگی کی توقع کے ہم معنی ہے۔
جمعیۃ العلما
جمعیۃ العلما کا وجود ملک کے مخصوص سیاسی حالات کا مرہون منت ہے۔ اس کا سیاسی نصب العین ملک کی مکمل آزادی اور مذہبی نصب العین اسلام کے انفرادی واجتماعی احکام کی تنفیذ تھا۔ ملک کی آزادی کے بعد اس کا سیاسی نصب العین خود بخود ختم ہوگیا اور مذہبی نصب العین بھی تبدیل ہوگیا۔اب یہ ایک نیم سیاسی نیم مذہبی جماعت ہے اور مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ کی نمایندگی کرتی ہے۔ ابتدا میں اس جماعت کی قیادت بلند قامت علما کے ہاتھ میں تھی۔ مولانا مفتی محمد کفایت اللہ ،مولانا حسین احمد مدنی، اور مولانا حفظ الرحمن جیسے صاحب نظر اور معاملہ فہم علما اس جماعت کے قائد رہ چکے ہیں۔ ان علما کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ ذاتی اغراض ومفاد رکھنے والوں نے اس جماعت پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس وقت یہ جماعت خود غرضوں کے ہجوم میں تین حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اس کے سب سے بڑے حصے پر جو جمعیۃ العلما ہند کے نام سے موسوم ہے، ایک فرد واحد کا تسلّط ہے۔
دوسری جماعتوں کی طرح جمعیۃ العلما کے لوگ بھی اکابر پرستی کے روگ میں مبتلا ہیں۔ مریدوں کا ایک حلقہ جو ہندوستان کے ایک بڑے عالم دین اور شیخ طریقت نے قائم کیا تھا، اب بھی اس جماعت کی ہم نوائی کے لیے موجود ہے۔ بہت سے مکاتب و مدارس اس کے علاوہ ہیں جن کے اکثر فارغین اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی وجہ، تلخ نوائی معاف، محض اکابر پرستی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جماعت کے پاس حقیقی معنی میں اب نہ کوئی دینی لائحہ عمل ہے اور نہ کوئی مثبت اصلاحی و سماجی پروگرام۔ گاہے گاہے کانفرنسوں کا انعقاد اور ان میں تجاویز کی منظوری، یہی اس کا کل جماعتی سرمایہ ہے۔
نظری طور پر اب یہ سیاسی جماعت نہیں ہے لیکن عملاً کاروبار سیاست جاری ہے۔ آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھنؤ میں مسلمانوں کے اصحاب الرائے کی جو کانفرنس منعقد کی، اس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی طے پایا کہ مسلمانوں کی تمام سیاسی جماعتیں تحلیل کر دی جائیں۔ اس فیصلہ کے مطابق جمعیۃ العلما کا سیاسی وجود ختم ہو گیا۔ اس کے ذمہ داروں نے اعلان کیا کہ اب جمعیۃ العلما کا دائرہ کار مسلمانوں کے مذہبی اور تعلیمی امور تک محدود رہے گا۔ لیکن عملاًاس نے اس فیصلے کی پابندی نہیں کی اور برابر الیکشن کے موقع پر کانگریس کی حمایت میں سرگرمی دکھائی اور اب تک یہ سلسلہ حمایت جاری ہے۔ حد یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھی ارباب جمعیۃ نے نظر ثانی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ان دنوں حمایت کی لے کچھ مدھم ضرور ہوئی ہے لیکن اس کی وجہ خود کانگریس کی بے التفاتی ہے۔
جمعیۃ العلما کا تعارف نامکمل رہے گا اگر یہاں مولانا آزاد کا ذکر نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیۃ العلما کی مذہبی اور سیاسی فکر کی تشکیل میں مولانا آزاد کی فکر کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ متحدہ قومیت کا مسئلہ ہو یا جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شرکت اور کانگریس کی حمایت کا معاملہ، جمعیۃ العلما نے مولانا کے نقوش قدم کی پیروی کی ہے اور انہی کے چشمہ فکر سے اپنے جام و ساغر بھرے ہیں۔ آج بھی ایسے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جو مولانا آزاد کی جادو بیانی و قلم نگاری کے طلسم کے اسیر ہیں۔ ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کو آج بھی بہت سے لوگ شوق سے پڑھتے اور ان سے گرمی فکر حاصل کرتے ہیں۔ اس سے ہمارے قومی مزاج کا اظہار ہوتا ہے جو بڑی حد تک جذباتی اور شاعرانہ ہے ۔
جہاں تک مولانا آزاد کی شخصیت اور ان کے علم وفضل کا معاملہ ہے، وہ قابل احترام ہے
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کی فکر اور ان کے اسلوب نگارش نے ملت اسلامیہ کو بے اندازہ نقصان پہنچایا ہے۔ ادنیٰ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال جس طرح گاندھی جی نے کیا، اسی طرح مولانا آزاد نے بھی کیا۔ گاندھی جی تو خیر سے ایک دنیوی سیاست دان تھے اور انہوں نے فقیری کا لباس بھی اسی غرض سے پہنا تھا لیکن مولانا آزاد سیاست دان کے ساتھ ایک بڑے عالم بھی تھے ۔ ان کو زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ کاروبار سیاست کی گرمیِ بازار کے لیے مذہب اسلام کا جاو بے جا استعمال کریں۔ہندوؤں میں ایک سے ایک بڑا سیاسی لیڈر گزرا ہے اور ان میں مذہبی لوگ بھی شامل تھے، مثلاََ ونو با بھاوے، راج گوپال آچاریہ، آچاریہ کرپلانی اور ڈاکٹر رادھا کرشنن وغیرہ، لیکن ان میں سے ایک لیڈر نے بھی سیاسی مقاصد کے لیے اپنے مذہبی لٹریچر کا استعمال نہیں کیا۔ کسی نے کیا تو اسلام کے اس بطل جلیل نے۔
مولانا آزاد نے اپنی تحریروں میں جس کثرت سے قرآنی آیات اوراحادیث نبویہ کو اپنے سیاسی افکار کے اثبات میں بطور دلیل و ثبوت پیش کیا ہے، اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے عالم کے یہاں نہیں ملے گا۔ متحدہ قومیت کی تائید میں سیرت نبوی سے مولانا کا استشہاد نہایت درجہ مغالطہ انگیز ہے۔ تفصیل آپ کو کتاب میں ملے گی۔ ترکی خلافت، مسلم یونیورسٹی اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شرکت جیسے مسائل میں بھی مولانا آزاد نے غیر محتاط روش اختیار کی ہے اور قرآن کی آیات کو بلالحاظِ موقع و محل اپنے خیالات کی تائید میں پیش کیا ہے۔
مولانا آزاد کی تحریروں سے مسلمانوں کو دوسرا بڑا نقصان یہ پہنچا کہ ان کی جذباتیت اور اشتعال پذیری میں، جو متعدد اسباب سے ان کا ملّی مزاج بن چکا ہے، اضافہ ہوا اور اس کی لے آگے چل کر بہت تیز ہو گئی۔ عہدِ فرنگی میں مسلمانوں کے اس قومی مزاج کو برانگیختہ کرنے میں ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ ‘‘ کا حصّہ سب سے زیادہ ہے۔ صفحات کے صفحات الٹ جائیں، ہر جگہ مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والا خطابی اسلوب ملے گا۔ بعد کے بہت سے اہل قلم نے جذبات نگاری میں انہی کا اتباع کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں نے، جو دراصل مولانا آزاد کے مذہبی افکار کی صدائے بازگشت ہے، جذباتی اور خطابی طرز نگارش کو مزید مستحکم بنایا۔ اگرچہ انہوں نے مولاناآزاد کے برخلاف عربی اور فارسی کے ثقیل اور نامانوس الفاظ کے استعمال سے احتراز کیا ہے اور زبان بھی نسبتاََ سلیس اور شستہ ہے لیکن افکار و خیالات کی جو تندی، گرمی اورتلاطم خیزی مولانا آزاد کی تحریروں میں ہے، وہی گرمی اور تموّج مولانا مودودی کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔
مولانا آزاد سے جو فکری خطائیں سرزد ہوئیں، اس کا ایک بڑا سبب ان کا جذبہ انانیت تھا۔ اردوکے انانیتی ادب میں مولانا کی تحریروں کو نمایاں مقام حاصل ہے اور وہ اس بزم خود آرائی کے صدر نشین ہیں۔ ان کی انفرادیت پسندی اور اناپرستی نے ہر جگہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایک نئی راہ نکالے اور ایک نیا طرز رفتار وگفتار وضع کرے۔ اس غیر معتدل روش نے ان کو کبھی اس بات کا موقع نہیں دیا کہ وہ اپنی فکر کی کجی سے باخبر ہوتے۔قرآن مجید کی تفسیر میں بھی خودنمائی کے اثرات پورے طور پر موجود ہیں۔ تفسیری جدت طرازی کے شوق میں انہوں نے بعض فکری اعتزالات ( وحدت ادیان وغیرہ ) کی داغ بیل ڈالی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطا ؤں سے درگزر فرمائے۔
علامہ محمد اقبالؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا مودودیؒ کے بعد جس بڑی شخصیت کے خیالات نے برّصغیر کے مسلمانوں کے ذہن و فکر کو کافی متاثر کیا، وہ علامہ اقبال ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسلامی شاعر ہیں اور ان کا کلام خالص اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔ بعض اصحاب علم کا خیال ہے کہ ان کی شاعری قرآنی بصائر و معارف کا گنجینہ ہے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجھدار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا، اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی تہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔‘‘
یہ ایک سطحی رائے ہے اور اس میں صریح مبالغہ ہے۔ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ اقبال ایک بڑے شاعر تھے اور غالب کے علاوہ کوئی دوسرا اردو شاعر ان سے لگّا نہیں کھاتا ، اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ مسلم قوم کے حدی خواں تھے لیکن یہ کہنا کہ ان کے کلام میں قرآنی فکر سموئی ہوئی ہے، صحیح نہیں۔ ان کے کلام میں اسلامی فکر کے ساتھ دوسرے افکار کی آمیزش بالکل واضح ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ اقبال شروع سے تصوف کے دلدادہ تھے۔ ’’اسرار خودی‘‘ کے زمانہ تصنیف میں انہوں نے تصوف کے بعض پہلوؤں مثلاََترک عمل اور نفی خودی وغیرہ پر تنقید کی لیکن بہت جلد وہ دوبارہ تصوف بالخصوص اس کے بنیادی خیال ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے حامی ہو گئے اور اخیر تک اس حمایت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس معاملے میں دوسرے صوفی شعرا کی طرح اقبال نے بھی حد درجہ بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا ہے یہاں تک کہ بعض اشعار میں اس غیر محتاط روش کا ڈانڈا کفروشرک سے مل گیا ہے۔ اس قسم کے اشعار ان کی اکثر شعری تخلیقات بالخصوص ان کے فارسی کلام مثلاََ گلشنِ راز جدید، پیام مشرق، جاوید نامہ اور ارمغان حجاز میں بکثرت موجود ہیں۔ اقبال نے اپنی مشہور نثری تالیف ’’اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید‘‘ میں بھی اسلامی افکار و عقاید کا جائزہ وجودی نقطہ نظرسے لیا ہے اور منصور حلاج کے دعوائے اناالحق کی تائید و حمایت کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات کا مفہوم بھی انہوں نے اسی غیر قرآنی فکر کی روشنی میں متعین کیا ہے اور متعدد فاش غلطیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں۔جو قارئین اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں، وہ راقم کا رسالہ ’علامہ اقبال اور وحدۃ الوجود‘ ملا حظہ فرمائیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مزاج کو جذباتی اور شاعرانہ یا دوسرے لفظوں میں فلک پیما اور آفاقی بنانے میں مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی تحریروں کے ساتھ اقبال کا کلام بھی برابر کا شریک و سہیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام تحریر و تقریر دونوں میں کثرت سے نقل کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ مسلمانوں کی جذباتی آسودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
اصلاح امت کا صحیح منہج
گذشتہ صفحات میں ہم نے تین اہم جماعتوں اور بعض معروف اکابر شخصیات کا جو فکری تعارف کرایا ہے، اس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ ان علما اور مفکرین نے دین اسلام کی جو تشریح و تعبیر کی ہے، اس میں قرآنی فکر کا حصّہ بہت کم ہے اور افراط و تفریط کا رجحان اس میں غالب ہے۔
دین کی تشریح و توضیح کی بنیاد دو چیزوں پر ہے، ایک قرآن مجید اور دوسرے اسوۂ رسول یعنی سنّت۔ قرآن کی بنیادی فکر توحید ہے اور اسی مستحکم بنیاد پر عبادات، اخلاق اور معاملات کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ اس بنیاد کی کمزوری کا مطلب پوری عمارت کی کمزوری ہے۔ توحید کی روح جیسا کہ پہلے بیان ہوا، غیر اللہ کی طاقت کی مکمل نفی اور دل سے اس بات پر یقین رکھنا ہے کہ ہر طرح کا نفع و ضرر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے برخلاف خیال کرنا شرک ہے۔ تینوں جماعتوں کے لٹریچر میں توحید کے اس اساسی پہلو کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
توحید کے بعد نماز اور زکوٰۃجیسے دو بڑے ارکان دین کا درجہ ہے۔ یہ دراصل توحید کی عملی صورتیں ہیں۔ یہ دونوں عبادتیں اپنا اپنا ایک علیحدہ نظام رکھتی ہیں۔ ان نظامات کی صحیح تشکیل و تکمیل پر مسلم قوم کے انفرادی اور اجتماعی معاملات کی درستی کا مدار ہے۔ بدقسمتی سے زیر بحث تینوں جماعتوں نے ان عبادات کو مسلمانوں کے نظم و اجتماع کی بنیاد قرار نہیں دیا ہے۔ صلوٰۃ کا نظام کسی نہ کسی شکل میں ضرور قائم ہے لیکن اس کی روح و غایت سے مقتدی اور امام دونوں کے ذہن خالی ہیں۔ نماز مسلمانوں کی دینی اور دنیوی اجتماعیت کی ضامن ہے۔ اس کے نظام کے ایک ایک جز سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ دراصل یہ امامت صغریٰ ہے جو امامت کبریٰ یعنی خلافت و امارت تک پہنچنے کا زینہ ہے۔ یہاں میں مولانا قاری محمد طیّب صاحب کے الفاظ مستعار لوں گا۔ لکھتے ہیں:
’’سب سے بڑی نظیر نماز کی جماعت ہے جس کا نام امامت صغریٰ ہے جو کلیۃً امامت کبریٰ یعنی امارت و خلافت پر منطبق ہے۔ وہاں اگر امام اور امیر ہے تو یہاں بھی امام ہے۔ وہاں اگر جہاد میں ہر نقل و حرکت پر نعرۂ تکبیر ہے تو یہاں بھی ہے۔ وہاں اگر امام کے حق میں سمع و طاعت فرض ہے تو یہاں بھی ہے۔ وہاں اگر مجاہدین کی صفیں مرتب اور سیدھی ہونی ضروری ہیں، تو یہاں بھی یہی ہے۔ وہاں اگر میمنہ اور میسرہ ہے تو یہاں بھی ہے۔ وہاں اگر صفوں میں شگاف آجانا ناکامی کی علامت ہے تو یہاں بھی ہے۔‘‘
غور کریں کہ کتنے نمازیوں کی نظر امامت صغریٰ اور امامت کبریٰ کے اس تعلق پر ہے؟ نمازیوں کو جانے دیں، علما اور اماموں سے استفسار کر لیں کہ ان میں سے کتنے لوگ نماز کے اس حکیمانہ پہلو سے واقف ہیں؟
یہ حال تو نظام صلوٰۃ کا ہے ۔ نظام زکوٰۃ کا حال اس سے کہیں زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ نظام جو مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا ایک بڑا ذریعہ تھا، سرے سے موجود نہیں ہے۔ اس بے نظمی کا نتیجہ ہے کہ اربوں کی رقم جو مسلمان اپنے تمام تر دینی انحطاط اور معاشی ابتری کے باوجود ہر سال مختلف شکلوں میں مہیا کرتا ہے، ضائع ہو جاتی ہے اور اس ضیاع میں عربی مدارس کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
مذکورہ دونوں نظاموں کا تزکیہ نفس یعنی اخلاق و معاملات کی تہذیب و تزئین سے گہرا تعلق ہے۔ ان نظاموں کی خستہ حالی اور پراگندگی سے مسلمانوں کے اخلاق اور معاملات بھی حد درجہ خراب و خستہ ہیں۔ ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اسلامی عبادات کا رشتہ اعتصام باللہ، تعمیر اخلاق، تطہیر نفس اور تشکیل اجتماعیت سے جوڑنے کے بجائے محض ثواب کے تصور سے جوڑ دیا گیا ہے اور انجام کار نمازیں پڑھنے اور کسی درجہ میں مال خرچ کرنے کے باوجود نہ تو مسلمانوں کے اخلاق بلند ہوتے ہیں اور نہ ان کے نفس کے عیوب دور ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں اجتماعی شعور پیدا ہوتا ہے۔ تصور عبادت کی اس خامی نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ اسوۂ رسول اور سیرت صحابہ کی موجودگی میں عبادت کے اس سطحی تصور نے مسلمانوں میں قبول عام حاصل کر لیا ہے۔ ہر مسلمان اپنے ہادی برحق ﷺ اور آپ کے سچے اصحاب کی زندگیوں کو جو حدیث و سیر کے صفحات میں محفوظ ہیں، دیکھ کر بآسانی معلوم کر سکتا ہے کہ ان کے اخلاق و معاملات کیا تھے اور ان کی عبادات نے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو کس طرح سنوارا کہ وہ خیر امت بن گئے۔ ان میں کسی طرح کا کوئی مذہبی اختلاف نہ تھا۔ نظری اور عملی ،دونوں اعتبار سے وہ امت واحدہ تھے، سب مل اللہ کی رسّی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے تھے۔ لیکن آج مسلمانوں کی مذہبی اور ملّی زندگی اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان میں مذہبی اختلافات کی وجہ سے اتحاد عمل کا فقدان ہے، اور مختلف جماعتوں میں بٹ جانے کی وجہ سے قومی شیرازہ منتشر ہے۔
اس سے بڑا ستم یہ ہے کہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں فرقہ بندی کی ذہنیت اور عصبیت پیدا ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے مسلکی اورفقہی عصبیت نے مسلمانوں کے قومی نظم و اجتماع کو درہم برہم کیا تھا اور اب جماعت سازی کی مصیبت نے ان کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مجھے یہاں یہ کہنے کی اجازت دیں کہ مسلمانوں کی مختلف مذہبی جماعتیں دراصل ان کے مذہبی فرقے ہیں، اور ان کا سواد اعظم انہی فرقوں میں بٹا ہوا ہے اور ایک دوسرے کی تنقیص و تکذیب میں مصروف ہے۔ یہ بات کہ یہ جماعتیں مذہبی فرقے ہیں، حدیث ذیل سے ثابت ہے:
’’ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں، اس ڈر سے کہ کہیں یہ شر میرے اندر نہ آ جائے۔ چنانچہ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، ہم لوگ جاہلیت اور شر کی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ یہ خیر ہمارے پاس لایا۔ کیا اس خیر کے بعد دوبارہ شر کا ظہور ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا، ہاں دوبارہ شرآئے گا۔ میں نے کہا اس شر کے بعد دوبارہ خیر آئے گا؟ فرمایا، ہاں آئے گا مگر اس میں گدلاپن ہو گا۔ میں نے پوچھا یہ گدلا پن کیا ہے؟ فرمایا، ایسے لوگ آئیں گے جو میری سنّت کے خلاف قوم کی رہنمائی کریں گے۔ تم ان میں اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے کام بھی۔ میں نے کہا، اس نوع کے خیر کے بعد پھر شر آئے گا؟ فرمایا، ہاں۔ ایسا شر آئے گا کہ جہنّم کے دروازوں پر بلانے والے بیٹھے ہوں گے اور جو لوگ ان کی دعوت قبول کریں گے، وہ ان کو جہنّم میں پھینک دیں گے۔ میں نے کہا، ان کی کچھ صفات بیان فرمائیں۔ فرمایا، وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان بولیں گے۔ میں نے کہا ، اگر یہ زمانہ میں نے پا لیا تو آپ اس بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا، مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ وابستہ رہو۔ میں نے کہا ، اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور ان کا کوئی امام بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں کیا کروں؟ فرمایا، ان سارے فرقوں سے الگ ہو جاؤ اگرچہ تم کو کسی درخت کی جڑ کو دانتوں سے پکڑنا پڑے اور اسی حالت میں تم کو موت آ جائے۔‘‘ ( دیکھیں بخاری ، کتاب الفتن ۔ مسلم، کتاب الامارہ )
مذکورہ حدیث میں جماعۃ المسلمین اور امام المسلمین کے نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی ختم ہو جائے، یعنی ان کی حکومت باقی نہ رہے۔ اس صورت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فرقہ بندی اور جماعت سازی سے بچیں۔ اس ہدایت کی حکمت بالکل واضح ہے۔ اگر ایک بار ملّت اسلامیہ مختلف فرقوں اور جماعتوں میں تقسیم ہو گئی تو پھر اس کی دوبارہ قومی شیرازہ بندی نہایت مشکل ہو گی کیونکہ ہر فرقہ اور ہر جماعت اپنے علیحدہ مذہبی تشخص اور اپنی مخصوص تعبیر دین پر مصر ہو گی جیسا کہ موجودہ صورت حال سے بالکل واضح ہے۔ آج کوئی دینی جماعت بھی امت واحدہ بننے کی غرض سے اپنے وجود کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دین میں اختلاف اور فرقہ بندی کبھی یہود و نصاریٰ کی خصوصیات تھیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو خبردار کیا گیاہے کہ وہ یہو دو نصاریٰ کی پیروی میں دین کے اندر اختلاف و تفرقہ سے گریز کریں۔ فرمایا گیا ہے:
ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات۔ ( آل عمران: ۱۰۵)
’’ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے روشن اور واضح دلائل آنے کے بعد (دین میں) تفرقہ و اختلاف پیدا کیا۔‘‘
یہودیوں اور عیسائیوں دونوں کے علما اور درویشوں نے دین کے نام پر متعدد فرقے اور جماعتیں بنا لی تھیں اور ہر جماعت کا خیال تھا کہ حق پر صرف اس کا فرقہ ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیئ انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بماکانوا یفعلون۔ (انعام: ۱۵۹)
’’بے شک جنہوں (یہودی اور عیسائی ) نے اپنے دین میں تفریق کی اور فرقہ فرقہ ہو گئے ( اے نبی) ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ اللہ کے پاس ہے، وہ ان کو بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے :
الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا کل حزب بما لدیھم فرحون۔ (سورہ روم: ۳۲)
’’ ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور فرقہ فرقہ ہو گئے ( اور اب ان کا حال یہ ہے کہ)ہر جماعت کے پاس جو کچھ ہے، وہ اسی میں مگن ہے۔‘‘
قرآن حکیم کی ان واضح ہدایات کے باوجود مقام گریہ و ماتم ہے کہ ملت اسلامیہ کے علما اور دینی رہنماؤں نے کسی اندیشہ سودو زیاں کے بغیر دین میں تفرقہ و اختلاف کی صورتیں نکالیں اور پوری ملّت کو متعدد فرقوں اور جماعتوں میں بانٹ دیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فہم دین میں علما کے درمیان کبھی اختلاف واقع نہ ہو گا۔ انسانوں میں فہم و استعداد کا اختلاف ایک فطری امر ہے، اس لیے تفاصیل دین میں اختلاف کا ہونا مستبعد نہیں ہے۔ جزئیات میں اختلاف پہلے بھی ہوا ہے اور آیندہ بھی ہو گا، لیکن مہمات دین میں اختلاف جائز نہیں ہے۔ اور اگر قصور فہم سے اختلاف ہو جائے تو اس صورت میں ہم کو تعلیم دی گئی ہے کہ ہم معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لے جائیں۔ فرمایا گیا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واُولی الامر منکم فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاٰخر ذلک خیر و احسن تاویلا۔ (النساء: ۵۹)
’’ اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں جو لوگ صاحب امر ہیں ان کی بھی، پھر اگر کسی معاملے میں تم میں اور صاحب امر میں اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دیا کرو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ ایک اچھا طریقہ ہے اور صحیح فیصلہ تک پہنچنے میں نہایت عمدہ بھی۔‘‘
لیکن ہمارا عمل اس آیت کے خلاف ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زیر بحث جماعتوں کے قائدین نے کبھی کوئی ایسی مجلس اس غرض کے لیے تشکیل دی ہو کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی روشنی میں ان کے باہمی اختلافات کا تصفیہ کرے؟ وہ کبھی ایسی کوئی مجلس تشکیل نہیں دیں گے کیونکہ ملّت کے تفرقہ میں ان کا مفاد مضمر ہے۔
اس حقیقت کو جس قدر جلد تسلیم کر لیا جائے، اتنا ہی ملّت کے حق میں مفید ہے کہ مذکورہ تینوں جماعتیں مسلمانوں کی صحیح راہنمائی سے قاصر ہیں۔ آج اُمّت جن فکری اور عملی امراض میں مبتلا ہے، اس کا نسخہ شفا ان کے پاس موجود نہیں ہے بلکہ یہ جماعتیں غیر شعوری طور پر مسلمانوں کے امراض کہنہ کو مستحکم بنا رہی ہیں۔ شخصیت پرستی میں برابر اضافہ ہو رہا ہے، جزئیات دین میں بحث و اختلاف ہمارا محبوب ملّی و دینی مشغلہ ہے، کردار سازی کی طرف مطلق توجہ نہیں ہے۔ قومیں قول سے نہیں، کردار اور ذہنی علو سے بنتی اور ترقی کرتی ہیں۔ جماعتی عصبیت کا ہر طرف چلن ہے، انسانی تصانیف سے حبّ و شغف اس درجہ بڑھ گیا ہے کہ اللہ کی کتاب مہجور ہو چکی ہے اور ایک نبی کی زبان سے فریاد کناں ہے:
یا ربّ انَ قومی اتّخذوا ھذا القرآن مھجوراََ۔ (فرقان: ۲۰)
’’ اے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی تلاوت موقوف ہو گئی ہے اور مجالس و مدارس میں قرآن کی آیات نہیں پڑھی جاتی ہیں۔ تلاوت قرآن کا سلسلہ بھی چل رہا ہے اور درس و تلقین کی مجلسیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن قرآن کی دعوت سے عملاً منہ موڑ لیا گیا ہے۔ اس کا انقلاب آفریں پیغام تاویل و تحریف کے انبار کے نیچے دب کر نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے۔ نہ کہیں توحید خالص ہے اور نہ کہیں حسن عمل۔ اسلام کے نام پر ہر طرف صرف تقریرو تحریر کی گرم بازاری ہے۔ ہمارا اصلی مرض تضاد قول و فعل ہے۔
یاد رکھیں، اس ملک میں نہ مال و زر کی کمی ہے اور نہ علم کی۔ اگر کسی چیز کی فی الواقع قلّت ہے تو وہ حسن کردار اور اخلاص ہے۔ مسلمانوں کے اندر اس جوہر گراں مایہ کی سب قوموں سے زیا دہ کمی ہے۔ مستقبل کا ہندوستان ایک صاحب کردار قوم کا منتظر ہے۔ اگر یہ جماعتیں خواب گراں سے نہ جاگیں اور نظری مباحث اور قولی وعظ و تلقین سے آگے بڑھ کر حسن عمل کا نمونہ نہ بنیں تو قرعہ فال کسی اور قوم کے حق میں نکلے گا۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔