میڈم شاہدہ قاضی کے افسانے اور حقیقت

شاہ نواز فاروقی

(’الشریعہ‘ کے مئی ۲۰۰۵ کے شمارے میں پروفیسر شاہدہ قاضی کی تحریر ’’تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت‘‘ شائع ہوئی تھی۔ روزنامہ جسارت کراچی کے کالم نگار شاہ نواز فاروقی صاحب نے اس کے بعض مندرجات پر تنقید کی ہے جسے یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر بحث ومباحثہ کی وسیع گنجایش موجود ہے اور اگر کوئی صاحب علم زیادہ پختگی اور معروضیت کے ساتھ زیر بحث نکات پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو ’الشریعہ‘ کے صفحات اس کے لیے حاضر ہیں۔ مدیر)


ان دنوں پاکستان میں اسلام، اسلامی تاریخ اور تاریخ پاکستان کے ’’مزے‘‘ آئے ہوئے ہیں۔ کوئی اسلام کو مشرف بہ اعتدال کرنے پر لگا ہوا ہے، کسی نے اسلامی تاریخ کو مشرف بہ حقیقت کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور کوئی تاریخ پاکستان کی چولیں درست بٹھانے کے لیے کوشاں ہے۔ نتیجہ یہ کہ ریڈیو اسٹیشنز ہوں یا ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات ہوں یا رسائل وجرائد، ہر طرف علم، تحقیق اور فکر کے دریا بہہ رہے ہیں اور ہم جیسوں کا حال Alice in wonder land کی ایلس جیسا ہے۔ کبھی حیران ہو رہے ہیں اور کبھی پریشان۔

جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر شاہدہ قاضی نے ڈان کراچی کی ۲۷ ؍مارچ کی اشاعت میں علم وتحقیق کا ایک ایسا ہی دریا بہایا ہے۔ یہاں ہماری مشکل یہ ہے کہ پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ ہماری استاد رہی ہیں اور ہم انھیں آج بھی میڈم کہتے ہیں اور وہ بھی ایک استاد کی طرح شفقت فرماتی ہیں۔ اس صورت میں گفتگو کی دشواری عیاں ہے، لیکن یہاں تین باتوں سے ہماری حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ ایک بات تو یہ کہ ہم دور طالب علمی میں بھی میڈم کو پریشان کرتے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میڈم نے مسائل دلچسپ چھیڑے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ ہمیں کون سا میڈم کی طرح علم وتحقیق کی گنگا بہانی ہے؟ یہ کام ہم جیسے بنیاد پرستوں کو کبھی آیا ہی نہیں۔

میڈم کے مضمون کا عنوان ہے "The myth of History"، یعنی تاریخ کا اسطور یا تاریخ کا افسانہ۔ میڈم کے مضمون کے ابتدائی حصے کا لب لباب یہ ہے کہ تاریخ اور Myth کے درمیان باریک فرق ہے اور انسان ہمیشہ سے ان Legends کے لیے ٹھوس جواز تلاش کرتا رہا ہے جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ایک تحریک چلی جس میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ قدیم اساطیر کے دیوتا حقیقت میں وجود رکھتے ہیں، لیکن پاکستانیوں کی بات ہی اور ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کوئی مناسب Mythology نہیں ہے، چنانچہ ہم نے سپر ہیروز کی اچھی خاصی کہکشاں تخلیق کر ڈالی ہے اور نہ صرف یہ، بلکہ ہم نے ان ہیروز کے گرد اساطیری تانا بانا بھی بن ڈالا ہے۔ یہ تمام چیزیں ہم ابتدا میں ہی اپنے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلتے رہتے ہیں، چنانچہ پھر ان کے لیے حقیقت کا اظہار بھی گناہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد میڈم نے دس Myths پیش کیے ہیں اور ایک ایک کا الگ الگ تجزیہ کیا ہے، لیکن ان کا ذکر بعد میں ہوگا۔ پہلے ہم ان امور کاجائزہ لے لیں جن کی نشان دہی مذکورہ بالا سطورمیں کی گئی ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ لفظ Myth کے معنی کیا ہیں؟ یہاں ہم کسی مسلمان دانش ور کا حوالہ دیں گے تو میڈم کہیں گی کہ مسلمان کا حوالہ تو جانب داری ہے، چنانچہ ہم آنند کمار سوامی کے پاس چلتے ہیں۔ کون آنند کمار سوامی؟ آنند کمار سوامی ۲۰ ویں صدی میں ہندو ازم پر سب سے بڑی اتھارٹی سمجھے گئے ہیں۔ قدیم اور روایتی آرٹ اور مختلف تہذیبوں میں Mythology کی روایت ان کا خاص موضوع تھا اور وہ کم وبیش پچاس سال تک انھی موضوعات پر لکھتے رہے۔ وہ سنسکرت، یونانی، لاطینی، اطالوی، فرانسیسی، عربی، فارسی، عبرانی، سریانی اور انگریزی سے واقف ہی نہیں، ان کے ’’ماہر‘‘ تھے۔ ان کی تحریروں میں ان زبانوں سے براہ راست استفادے کی ہزاروں شہادتیں موجود ہیں۔ ان آنند کمار سوامی کا کہنا ہے کہ Myth کے جو معنی جدید لغات میں بیان کیے گئے ہیں، وہ سرسری، سطحی، محدود، چنانچہ غلط ہیں۔ Myth خیالی پلاؤ، ماضی کا افسانہ یا انسانی تخیل کی پرواز نہیں۔ ان کے نزدیک Myth کی تعریف یہ ہے:

’’ایک ایسی حقیقت جس کی حقیقی معنویت گم ہو گئی ہو۔‘‘ (Figure of Speech or Figure of Thought, p. 212)

چنانچہ آنند کمار سوامی کا خیال ہے کہ Myth کی حقیقی معنویت کی بحالی کے ذریعے اسے زندہ حقیقت میں تبدیلی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ میڈم کے لیے آنند کمار سوامی کا پہلا مشورہ یہ ہے کہ وہ Myth کی غلط تعریف پر نظر ثانی کریں۔ وہ ایسا کر لیں گی تو ان کے مضمون میں موجود کئی تبصروں، مشاہدوں اور آرا کی معنویت ہی بدل کر رہ جائے گی، بلکہ انھیں پھر اپنے مضمون کا عنوان ہی بدلنا پڑ جائے گا۔ ہمیں لفظوں، اصطلاحوں اور تصورات کو ان کے حقیقی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔ دانش وری، علم اور تحقیق ہی کا نہیں، ایمان داری کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اب دیکھیے نا میڈم نے Myth کے لفظ کو غلط معنوں میں استعمال کر کے بجائے خود ایک اسطور یا ایک افسانہ اور ایک فینٹیسی تخلیق کر ڈالی، حالانکہ انھوں نے اپنے مضمون میں اسی شے کے خلاف جہاد کیا ہے، لیکن یہ تو محض میڈم کا تخلیق کردہ پہلا Myth ہے۔ 

میڈم شاہد ہ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس Proper Mythology نہیں ہے، اس لیے ہم نے گویا اس کی ’’کمی‘‘ سپر ہیروز تخلیق کر کے پوری کی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو میڈم نے ایک جملے میں ایک نہیں، دو Myth تخلیق کر ڈالے ہیں۔ پہلا Myth تو یہ ہے کہ ہمارے پاس ’’مناسب‘‘ اساطیری سرمایہ نہیں ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس غیر مناسب اساطیری سرمایہ بھی نہیں ہے، بلکہ ہماری تاریخ میں Myth لفظ کا سایہ تلاش کرنا بھی محال ہے، یعنی ہماری تاریخ میں Myth لفظ نہ غلط معنوں میں موجود ہے نہ صحیح معنوں میں، چنانچہ جو چیز موجود نہیں اور کبھی اہم نہیں سمجھی گئی، اس کی ’’کمی‘‘ کا مسئلہ لاحق ہونا بعید از قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ صرف پاکستانی قوم کا نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کا بحیثیت مجموعی یہی معاملہ ہے، لیکن ہمارے یہاں Myth کیوں نہیں ہے؟

اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو اسلام ہزاروں سالہ تاریخ کے تناظر میں کل کی بات ہے اور Mythology معروف معنوں میں ماقبل تاریخ کی چیز ہے، چنانچہ ہمارے پاس Mythology آتی تو کہاں سے آتی؟ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ اتنی شاندار، اتنی جاندار، اتنی پراسرار، اتنی معجزانہ، اتنی دلکش اور اتنی معنی خیز ہے کہ مسلمانوں کو کسی Mythology کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک ایسا دین جس نے اپنے ظہور سے حضرت عمر فاروق کے زمانے تک اپنے لاکھوں پیروکار پیدا کر لیے ہوں، جس نے صرف تین دہائیوں میں اپنے وقت کی دو سپر پاورز کو شکست دے دی ہو، جس نے ۳۰، ۳۵ سال میں دو کروڑ مربع کلو میٹر رقبہ فتح کر لیا ہو، اس کے ماننے والوں کو نہ کسی اسطور کی حاجت ہو سکتی ہے اور نہ انھیں سپر ہیروز کی تخلیق کی نفسیاتی ضرورت کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔

خود جنوبی ایشیا میں بھی مسلمانوں کے کارنامے کم نہیں۔ انھوں نے یہاں ہزار سال تک حکومت کی ہے۔ انھوں نے یہاں ایک نئی زبان اردو تخلیق کی۔ میر خسرو، میر، غالب، اقبال جیسے شاعر پیدا کیے۔ اٹھارہویں، انیسویں، اور بیسویں صدی میں ایسے علما پیدا کیے جن کی مثال پورے عالم اسلام میں کہیں موجود نہیں۔ مسلمانوں نے تاج محل، دہلی کی جامع مسجد اور لاہور کی شاہی مسجد تعمیر کی۔ شیر شاہ سوری نے زرعی اراضی کی پیمایش اور سڑکوں کی تعمیر کے شعبے میں انقلاب آفریں مثالیں قائم کیں۔ ہندو معاشرت کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہوگا جس پر مسلمانوں نے اثرات نہ مرتب کیے ہوں۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے ڈاکٹر تارا چند کی مشہور زمانہ تصنیف "Influence of Islam on Indian Culture"۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی ملت کے پاس حقیقی ہیروز کی کیا کمی ہو سکتی ہے؟ گویا یہ میڈم کا تخلیق کردہ دوسرا Myth تھا۔

چلیے تھوڑی دیر کے لیے مانے لیتے ہیں کہ ہم نے ہیروز گھوڑے ہوں گے، لیکن کیا اس مرض میں صرف ہم ہی مبتلا ہیں؟ یہ دنیا کی تمام اقوام کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اگر یہ مرض صرف ہمیں لاحق ہے تو پھر ہم یقیناًسزا اور اس سلوک کے مستحق ہیں کہ ہمیں اقوام عالم کی برادری سے نکال کر الگ کھڑا کر دیا جائے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناًایسا نہیں ہے تو پھر مذکورہ تبصرہ بجائے خود ایک Myth ہے۔

میڈم نے لکھا ہے کہ ہم اپنے سپر ہیروز کی شخصیت اور کارناموں کو اوائل عمر ہی سے اپنے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلنے لگتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ میڈم کا ایک اور خود ساختہ Myth ہے۔ میڈم کے دانش میں ڈوبے ہوئے تبصرے سے لگ رہا ہے جیسے مذکورہ کام صرف ہم ہی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا کی باقی اقوام کا وتیرہ یہ ہے کہ جب ان کے بچے پچیس تیس سال کے ہو جاتے ہیں تب وہ اپنے ہیروز اور ان کے کارناموں سے انھیں آگاہ کرتی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ باقی اقوام کی تاریخ ہماری تاریخ کی طرح افسانہ اور ان کے ہیروز ہمارے ہیروز کی طرح متنازعہ نہیں ہوتے۔ کیا میڈم کا دعویٰ یہ ہے؟ تو سوچیے پونے دو سو اقوام کی عالمی برادری میں سے کس قوم اور کس ملک کی تاریخ اور ہیروز ملاحظہ کریں۔ غالباً اس سلسلے میں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کو اس کا آئین دینے والے ڈاکٹر امبیدکر نے اپنی خود نوشت میں بھارت کے یوم آزادی یعنی ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ کی تعبیر یہ کی ہے:

’’آج ہم برطانوی سامراج سے آزاد ہو کر دوسرے (یعنی برہمن) سامراج کی غلامی میں چلے گئے۔‘‘

تو کیا بھارت کے اسکولوں میں یہ ’’تعبیر‘‘ بھی پڑھائی جاتی ہے؟ کیا گاندھی جی کو مہاتما نہیں کہا جاتا؟ اب کہاں سامراج اور کہاں مہاتما؟

چلیے امریکا چلتے ہیں۔ امریکا کے بانیان کے بارے میں وہاں کے بچوں کے ذہنوں میں کیا انڈیلا جاتا ہے؟ کیا یہ کہ وہ عظیم لوگ تھے؟ یا یہ کہ امریکا کے بانیوں نے ریڈ انڈینز کے آبائی ملک پر قبضہ کیا اور دو سو سال میں دو کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کر کے عظیم امریکا کی بنیاد رکھی؟ لیجیے معلوم ہوا میڈم نے ایک اور متھ کو گرانے کی کوشش میں خود ایک اور متھ تخلیق کر دیا۔ یہاں تک آتے آتے ہم سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ میڈم نے متھ توڑنے کے لیے مضمون لکھا ہے یا نئے متھ تخلیق کرنے کے لیے؟

میڈم شاہدہ قاضی کے دس Myths کی سیریز کا پہلا Myth کیا ہے؟ انھی کے الفاظ میں سنیے: ’’ہماری تاریخ ۷۱۲ عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی جب محمد بن قاسم نے برصغیر میں قدم رکھا اور دیبل کا ایک حصہ فتح کر لیا۔‘‘

میڈم سوال اٹھاتی ہیں: مگر اس سے قبل کیا تھا؟ بقول ان کے ہمارے درسی کتب کے مطابق اس سے پہلے راجہ داہر جیسے ظالم حکمرانوں کی حکمرانی تھی جن کے ظلم سے ان کی پرجا عاجز آئی ہوئی تھی۔ محمد بن قاسم آئے اور انھوں نے مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائی۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بڑے پیمانے پر مشرف بہ اسلام ہونے لگے۔ میڈم کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ یہ علاقہ چھ ہزار سال پرانی اور شان دار تہذیبوں کا مرکز تھا۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیاں یہاں تھیں۔ لوگ انتہائی مہذب اور تعلیم یافتہ تھے، لیکن میڈم کے بقول ہم اپنے بچوں کو یہ سب نہیں بتاتے۔

متھ نمبر ۱ کا جواب: جنوبی ایشیا میں ہماری تاریخ یقیناً۷۱۲ء سے شروع ہوئی۔ یہاں ’’ہماری‘‘ سے مراد ’’مسلمانوں‘‘ کی تاریخ ہے۔ بلاشبہ اس علاقے کی منضبط تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے، لیکن تاریخ دو طرح کی ہوتی ہے، مردہ تاریخ اور زندہ تاریخ۔ مردہ تاریخ مردہ ہو کر میوزیم میں پہنچ جاتی ہے، جیسے موئن جودوڑو اور ٹیکسلا کی تاریخ۔ اس تاریخ سے ہمارا تعلق تجسس کا ہو سکتا ہے، لیکن اس سے ہمارا تعلق تخلیقی، متحرک اور زندہ نہیں ہو سکتا۔ بندروں کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ مر جاتا ہے تو بندریا کئی کئی دنوں تک مردہ بچے کی لاش کو سینے سے لگائے گھومتی رہتی ہے، مگر کچھ دنوں بعد اسے یاد بھی نہیں رہتا اور نئے بچے کی پیدایش کے بعد تو اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ مردہ تہذیب کو بھی سینے سے لگا کر گھوما جا سکتا ہے، مگر اس کا کوئی حاصل نہیں۔ وہ اب ہماری رگوں میں خون بن کر نہیں دوڑ رہی۔ چنانچہ محمد بن قاسم کی آمد کے بعد جو لوگ مسلمان ہوئے، ان کے لیے چھ ہزار سال کی تاریخ میں کوئی معنی نہیں رہ گئے۔ کیا تبدیلی مذہب معمولی بات ہے؟ اور کیا مذہب کی تبدیلی سے کچھ بھی نہیں بدلتا؟ ایسا نہیں ہے۔ مذہب بدل گیا تو سب کچھ بدل گیا۔ مثلاً پہلے اس علاقے کے لوگ مشرک تھے، اسلام لا کر وہ توحید پرست ہو گئے۔ ہزاروں جھوٹے خداؤں کے بجائے ایک خدا کو ماننے لگے۔ پہلے وہ یقین رکھتے تھے کہ ہزاروں جنم ممکن ہیں، اب وہ اس بات پر ایمان لے آئے کہ دنیا میں انسان صرف ایک بار آتا ہے۔ پہلے وہ کرشن اور رام کو دیوتا سمجھتے تھے، اب وہ محمد عربی ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں۔ ان کی عبادات تبدیل ہو گئیں۔ ان کے ہیروز بدل گئے۔ کتابیں تبدیل ہو گئیں۔ تہوار کچھ سے کچھ ہو گئے۔ شادی بیاہ کے طریقے اور سماجی رسوم بدل گئیں۔ سنسکرت یا پالی کی جگہ عربی اور فارسی نے لے لی۔ سندھی کا رسم الخط تبدیل ہو گیا۔ اس کی لغت کے زمین آسمان بدل گئے۔ تو پھر باقی ہی کیا رہا؟ اور جب کچھ باقی ہی نہیں رہا تو اسے اپنی تاریخ کیسے کہا جائے؟ میڈم اس تاریخ کا اتنا ذکر کرتی ہے مگر ان کی شخصیت اور رہن سہن پر موئن جودڑو اور ٹیکسلا کی تہذیب کا کیا، اسلامی تہذیب کا بھی کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، بلکہ وہ تو جدید مذہب سے زیادہ متاثر ہیں۔ البتہ ان کے گھر میں ہم نے موئن جودڑو اور ٹیکسلا سے برآمد ہونے والی مورتیوں اور اشیا کے نمونے ’’شو پیس‘‘ کے طو رپر رکھے ہوئے ضرور دیکھے ہیں۔ کاش وہ انگریزی کے بجائے سنسکرت اور پالی سیکھتیں۔ اس طرح وہ اس تہذیب کے ایک جزو کو اپنے وجود کا حصہ بنا لیتیں جس کو وہ بہت یاد کرتی ہیں اور جس پر کسی جواز اور معنویت کے بغیر انھیں بہت فخر ہے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ کیا خود اس بات سے بھی یہی ثابت نہیں ہوتا کہ موئن جودڑو ہو یا ہڑپہ اور ٹیکسلا، یہ مردہ تہذیبیں ہیں اور اب انھیں یا تو میوزیم میں رکھا جا سکتا ہے یا ان کے نمونوں کو ’’شو پیس‘‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیجیے میڈم نے ایک اور متھ کو رد کرتے کرتے ایک اور متھ تخلیق کر دیا۔

بلاشبہ مسلمان جس جنوبی ایشیا میں آئے، وہ تہذیبی اعتبار سے ’’بنجر سرزمین‘‘ نہیں تھی، لیکن میڈم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ بات بھی اسلام کے حق میں جاتی ہے۔ اسلام کی قوت اور کشش ہی ایسی ہے کہ وہ جس خطے میں گیا ہے، اس نے معجزے دکھائے ہیں۔ محمد بن قاسم ۷۱۲ء میں آئے۔ اس وقت علاقہ میں چند ہزار مسلمان تھے۔ آج سن ۲۰۰۵ ہے اور علاقے میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰ کروڑ سے زائد ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے؟ لیکن میڈم کو یہ سامنے کا معجزہ اہم نہیں لگتا، البتہ انھیں چھ ہزار سال پہلے کی کہانیاں رہ رہ کر یاد آتی ہیں اور ان کے دل پر اثر کرتی ہیں۔ اس طرح کہ ان کے دل سے آہ نکلتی ہے۔ ہائے موئن جودڑو، ہائے ہڑپہ، ہائے ٹیکسلا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ نصاب میں ’’واہ محمد بن قاسم‘‘ پڑھتی ہیں تو انھیں یہ ’’واہ‘‘ اور خود محمد بن قاسم ایک Myth نظر آتا ہے۔

میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ راجہ داہر بھی ظالم ہو سکتا تھا، کیونکہ بقول ان کے اس زمانے کے لوگ تو بڑے مہذب اور تعلیم یافتہ تھے، لیکن ہندووں کی تاریخ میں رام کا زمانہ تو گولڈن پیریڈ تھا، لیکن رام اور اس کی بیوی سیتا کو رام کی سوتیلی ماں کیکئی نے سازش کر کے چودہ سا ل کا بن باس دلا دیا۔ مہا بھارت کا دور بھی ایسا ہی ہے، لیکن پانچ پانڈوں اور سو کوروں کے درمیان، جو ایک ہی باپ کی اولاد تھے، مہا بھارت یعنی جنگ عظیم برپا ہوئی جس میں مہا بھارت کے اپنے بیان کے مطابق لاکھوں لوگ مارے گئے اور کوروں کے بادشاہ در پداہن کے اشارے پر پانڈوں کی بیوی درویدی کو بھرے دربار میں بے لباس کیا گیا۔ تو بے چارہ راجہ داہر کس کھیت کی مولی ہے؟ مگر چونکہ راجہ داہر کے مقابلے پر مسلم سپہ سالار محمد بن قاسم ہے، اس لیے میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ راجہ داہر ظالم تھا۔ حالانکہ اس کا عیاش طبع ہونا تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے اور عیاش طبع لوگوں کا ظلم پر مائل ہونا قابل قیاس ہے۔

بلاشبہ ہمیں اپنی نئی نسل کو بتانا چاہیے کہ ہندو تہذیب گئی گزری نہیں تھی۔ اس کے پاس بہت کچھ بلکہ سبھی کچھ تھا۔ لیکن اسلام کا حسن اور جاذبیت ایسی تھی کہ ہر تہذیبی سانچے کو نگل جانے والی ہندو تہذیب خود اسلام سے متاثر ہو گئی۔ ایسا نہ ہوتا تو آج جنوبی ایشیا میں دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ مسلمان نہ ہوتے۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمارا نصاب مرتب کرنے والے اکثر لوگ احمق ہوتے ہیں اور انھیں خود اسلام کے بے پناہ حسن وجمال اور قوت کا اندازہ نہیں ہوتا۔

میڈم شاہدہ قاضی کی نظرمیں دوسرا Myth یہ ہے: ’’محمد بن قاسم مظلوم بیواؤں اور ییتم لڑکوں کی مدد کے لیے انڈیا آئے تھے۔‘‘

میڈم کے بقول ہم یہ Myth پیش کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ اسلامی سلطنت کی توسیع کا زمانہ تھا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں مسلمانوں نے بھارت کے سلسلے میں ’’مہم جوئی‘‘ کی مگر کام یاب نہ ہوئے، البتہ محمد بن قاسم کو کام یابی ملی، لیکن عربوں کی باہمی چپقلشوں کی وجہ سے مرکز سندھ پر زیادہ توجہ نہ دے سکا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد سندھ مقامی راجاؤں کی گود میں چلا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب تو میڈم تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ’’مسلم ایمپائر‘‘ کی توسیع کا زمانہ تھا۔ پورا مشرق وسطی، ایران، شمالی افریقہ اور اسپین کا بڑا حصہ مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا تھا۔اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اس دور کی واحد عالمی طاقت تھے، لیکن دوسری جانب میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ وقت کی عالمی طاقت اپنی ہم عقیدہ مظلوم عورتوں اور بچیوں کی مدد کے لیے نہیں آ سکتی تھی۔ کیا میڈم کو نہیں معلوم کہ ہمارے دور کی بڑی طاقتیں اپنے شہریوں یا ہم عقیدہ افراد کے تحفظ کے لیے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ تو کیا اسلامی سلطنت اپنے مظلوم ہم عقیدہ انسانوں کے لیے راجہ داہر جیسے معمولی شخص کے خلاف بھی کارروائی نہیں کر سکتی تھی؟ میڈم تھوڑا سا دل بڑا کریں۔ وہ مسلمانوں کو ’’اخلاقی‘‘ Advantage نہیں دینا چاہتیں تو نہ دیں، واحد عالمی طاقت ہونے کا Advantage تو دیں۔ انھیں کم از کم اتنا تو سمجھنا ہی چاہیے کہ عالمی طاقت، عالمی طاقت ہوتی ہے۔ ویسے میڈم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں ثابت کیا ہے کہ وہ محض اخلاقی محرکات کے زیر اثر بھی بڑے بڑے اقدامات کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی مسلمانوں کی ’’ذاتی خوبی‘‘ نہیں، انھیں قرآن مجید کا حکم ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی مظلوم ہوں، ان کی مدد کرو۔

دیکھا جائے تو میڈم نے ملفوف انداز میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ مظلوم عورتوں اور بچیوں کا قصہ تو محض بہانہ تھا۔ عرب سندھ پر حملہ کی منصوبہ بندی کیے ہوئے تھے۔ ہم پھر میڈم کو یاد دلائیں گے کہ مسلمان واحد عالمی طاقت تھے اور ایک عالمی طاقت کو راجہ داہر جیسے معمولی اور حقیر شخص کے خلاف کارروائی کے لیے بہانہ تراشنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس وقت کی دو عالمی طاقتوں قیصر وکسریٰ پر حملہ کے لیے بہانہ نہیں بنایا۔ انھوں نے صاف کہا، اسلام لاؤ، جزیہ دو یا جنگ کے لیے تیار رہو۔ میڈم کے نزدیک یہ روش بھی قابل اعتراض ہوگی، مگر وہ کم از کم یہ تو تسلیم کریں کہ مسلمانوں کو گھٹیا بہانہ بازی کی ضرورت نہ تھی۔ راجہ داہر ایک حقیر شخص تھا۔ اس نے مسلمان خواتین اور بچیوں پر واقعتا ظلم کیا تھا اور محمد بن قاسم کی کارروائی کی اصل وجہ یہی تھی۔

کیا میڈم کو نہیں معلوم کہ تاریخ میں بسا اوقات بہت چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے بڑے واقعات کا سبب بنے ہیں۔ انگریز جنوبی ایشیا میں تاجر بن کر آئے، جہانگیر کی بیٹی بیمار پڑی اور ایک انگریز طبیب کے علاج سے صحت یاب ہو گئی۔ بادشاہ خوش ہوا اور انگریزوں نے کاروباری ٹھکانوں کے لیے تھوڑی سی زمین انعام کے طور پر مانگ لی اور یوں انگریزوں کے قدم جم گئے۔ مطلب یہ کہ اگر راجہ داہر مسلمان عورتوں اور بچیوں کو اغوا نہ کرتا تو ہو سکتا ہے مسلمان کچھ عرصہ اور سندھ کا رخ نہ کرتے۔

میڈم کے بقول تیسرا Myth یہ ہے کہ محمود غزنوی بت شکن تھا۔ میڈم نے لکھا ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ محمود نے بھارت پر ۱۷ حملے کیے، لیکن اس نے پنجاب کو فتح کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کی دل چسپی صرف مندروں سے تھی جہاں سونے اور قیمتی پتھروں کا خزانہ موجود تھا۔ میڈم کے بقول یہ مسلم بادشاہ اور سلطان نہیں تھے جنھوں نے جنوبی ایشیا میں اسلام پھیلایا، بلکہ یہ کام ان صوفیا نے کیا جو مسلم دنیا کے مختلف ملکوں میں ’’بنیاد پرستوں‘‘ کے ظلم سے تنگ آ کر بھارت آ گئے تھے۔ انھی صوفیا نے اپنی بلند خیالی، محبت، رواداری، درگزر اور سادہ طرز زندگی سے مقامی لوگوں کے دل جیت لیے۔

محمود غزنوی کی شخصیت کے بارے میں ہمارے اپنے ’’تحفظات‘‘ ہیں، لیکن ان تحفظات کا تعلق اسلام کے بعض تصورات اور اعلیٰ ترین اقدار سے ہے اور ان کی روشنی میں محمود غزنوی کا دفاع قدرے دشوار ہے، مگر بھارت کی تاریخ کے مقابلے پر محمود کا دفاع سہل ترین کام ہے۔ میڈم نے محمود غزنوی کو Invader قرار دیا ہے، لیکن محمود نے جس ہندوستان پر حملہ کیا، وہ آریوں کا ہندوستان تھا اور آریہ خود Invader تھے۔ چنانچہ ان میں اور محمود میں فرق یہ ہے کہ محمود ایک نیا Invader تھا اور آریہ قدیم Invader، بلکہ لسانیات کے دائرے میں ہونے والی حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آریوں سے پہلے ہندوستان میں جو دراوڑ موجود تھے، وہ بھی Invader تھے اور ان سے قبل ہندوستان میں قبائل آباد تھے۔ تفصیلات کے لیے میڈم کو دیکھنا چاہیے جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف کے ترجمان ’’جریدہ‘‘ کا وہ شمارہ جس میں اس حوالے سے خالد حسن کا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے۔ چنانچہ میڈم محمود غزنوی کو ڈی گریڈ کرنا چاہتی ہیں تو انھیں آریوں اور دراوڑیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنا ہوگا جو شاید ان کے لیے تکلیف دہ عمل ہو۔ مگر یہ سوال کہ محمود نے پنجاب کو کیوں فتح نہیں کیا؟ میڈم، فوجی حکمت عملی کا پہلا اصول ہے کہ جہاں مزاحمت نہ ہو، وہاں اپنی توانائی ضائع نہ کرو۔ پنجاب میں مزاحمت تھی ہی نہیں تو بے چارہ محمود کس کے خلاف تلوار اٹھاتا؟ یہاں اتفاق سے بت شکنی کے مواقع بھی دست یاب نہ تھے۔

میڈم تاریخی ریکارڈ درست کریں۔ محمود غزنوی نے بھارت پر نہیں، سومناتھ پر ۱۷ حملے کیے۔ کیوں کیے؟ میڈم کا خیال ہے کہ اس کا اصل مسئلہ مال تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ سومناتھ علاقہ کا مرکز تھا۔ مزاحمت سومناتھ اور اس کے آس پاس ہی تھی اور سومناتھ کے مندر میں کیا تھا؟ ایک شعبدہ۔ ایک بہت بڑا بت مندر میں اس طرح معلق تھا جیسے اس کا معلق ہونا کوئی معجزہ ہو، لیکن یہ شعبدہ اور مال کمانے کا ایک طریقہ تھا۔ محمود نے بت گرا دیا اور شعبدہ کا شعبدہ ہونا ثابت ہو گیا۔ یہاں مال غنیمت بھی ہے مگر بت شکنی سے بھی صر ف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ محمود بلاشبہ بت شکن بھی تھا۔

میڈم کی ذرہ نوازی ہے کہ انھوں نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلتا نہیں دیکھا، بلکہ اسے صوفیا سے منسوب کر دیا۔ میڈم کا شکریہ، مگر یہاں انھوں نے ایک اور Myth تخلیق کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو صوفیا مختلف علاقوں سے بھارت آئے، وہ اپنے وقت کے بنیاد پرستوں کے ظلم سے عاجز آئے ہوئے تھے اور اس لیے وہ یہاں آ گئے۔ بھارت میں آنے والے صوفیا کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں ہے، میڈم ذرا تین ایسے صوفیوں کے نام بتائیں جو بنیاد پرستوں کے خوف سے یہاں آئے ہوں۔ Fantasy اچھی چیز ہے، مگر ایسی بھی کیا ٰFantasy؟

میڈم نے درست کہا ہے کہ اسلام مغل بادشاہوں اور سلطانوں نے نہیں پھیلایا، بلکہ یہ کام صوفیا نے کیا ہے۔ میڈم کو لفظ علما شاید پسند نہیں، ورنہ وہ کہتیں کہ اسلام صوفیا اور علما نے پھیلایا۔ ہم خود صوفیاے کرام کے بہت قائل ہیں، مگر یہاں ایک ایسا نکتہ ہے جس پر لبرل دانش وروں کی کیا، مذہب پرستوں کی بھی نظر نہیں جاتی۔ وہ نکتہ کیا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام صوفیا اور (میڈم سے معذرت کے ساتھ) علما نے پھیلایا، مگر صوفیا اور علما بادشاہوں اور سلطانوں کے بغیر اتنا اسلام نہیں پھیلا سکتے تھے جتنا انھوں نے پھیلایا۔ اس کی دلیل؟ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بدھ ازم، ہندو ازم ہی کا شاخسانہ تھا، لیکن برہمنوں اور دوسری اعلیٰ ذات کے ہندووں نے گوتم بدھ اور ان کے نظریے کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ انھوں نے گوتم کو ’’اوتار‘‘ تو مانا مگر ملیچھ اوتار یعنی ’’ناپاک اوتار‘‘ ۔ اور اشوک کے بعد انھوں نے بدھ ازم کے پیروکاروں کو مار مار کر بھگا دیا، چنانچہ بدھ ازم کے اثرات بھارت سے باہر تو پھیلے مگر Heart Land میں نہیں، چنانچہ اگر بادشاہ اور سلطان نہ ہوتے تو ہندو ازم کے ترجمان محبت اور رواداری میں ڈوبے ہوئے صوفیا کا وہ حشر کرتے کہ دنیا دیکھتی۔ چنانچہ بادشاہت اسلام تو نہ پھیلا سکی، لیکن وہ صوفیاے کرام اور علما کو غیر محسوس انداز میں تحفظ فراہم کرتی رہی۔ میڈم کو یاد رکھنا چاہیے کہ گوتم بدھ کے زمانے اور اس سے متصل ادوار کے بدھسٹ بھی محبت، امن، رواداری، اور درگز ر کا مرقع تھے، مگر یہ تمام صفات ان کے زیادہ کام نہ آ سکیں۔

میڈم کی نوازش کہ انھوں نے مان لیا کہ اسلام صوفیا کی محبت آمیز روش، رواداری اور درگزر جیسی صفات سے پھیلا۔ اس سے پہلے مضمون کی ابتدا میں وہ فرما چکی ہیں کہ سندھ کی سرزمین قدیم تہذیبوں کا مرکز تھی۔ یہاں کے لوگ انتہائی مہذب، تعلیم یافتہ، خوش حال اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ایسا تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ اسلام کیونکر تیزی کے ساتھ پھیل گیا؟ کیا صرف محبت کے زور سے؟ ظاہر ہے کہ مجرد محبت کچھ نہیں ہوتی، اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے تصورات اور اسلامی تہذیب بھی مقامی مذہب کے تصورات اور مقامی تہذیب سے بدرجہا بہتر تھی اور یہ علاقہ اتنا تہذیب یافتہ نہیں تھا جتنا کہ میڈم نے باور کرایا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کروڑوں شودر اور اچھوت اعلیٰ ذات کے ہندووں کے چنگل میں پھنسے صدیوں سے حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہندو معاشرے میں عورت کا مقام انتہائی پست تھا۔ شرک کے مقابلے پر توحید کے تصور میں بڑی کشش اور نیا پن تھا۔ آواگون کے تصور کے مقابلے پر دنیا میں انسان کی ایک بار آمد کا تصور سہل اور زیادہ قابل فہم تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلام کی پیش قدمی شاید سست ہوتی۔

میڈم کو اس بات سے بھی بڑی تکلیف ہے کہ لوگ یہ کیوں کہتے اور سمجھتے ہیں کہ اورنگ زیب بڑا متقی اور پرہیز گار تھا اور وہ ٹوپیاں سی کر اور قرآن مجید کے قلمی نسخے فروخت کر کے گزر اوقات کرتا تھا۔ میڈم نے اپنے مضمون میں اسے Myth نمبر ۴ قرار دیا ہے۔ میڈم نے کہا ہے کہ اورنگ زیب بادشاہ تھا، وہ ٹوپیاں سیتا ہوگا تو اس کی ٹوپیاں عام قیمت پر تھوڑی فروخت ہوتی ہوں گی۔ بقول میڈم کے اورنگ زیب تو یوں بھی خطرات میں گھرا ہوا تھا، اس کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا ہوگا کہ وہ آرام سے بیٹھ کر ٹوپیاں سیے۔ میڈم کے مطابق اورنگ زیب کو ’’متقی‘‘ کہا جاتا ہے، مگر یہ وہی ’’متقی‘‘ ہے جس نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا اور اپنے بھائیوں کو قتل کرا دیا۔

میڈم کو اورنگ زیب اور اس سے وابستہ حقائق کے حوالے سے جو ’’تکلیف‘‘ ہے، اس پر ہم اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے معذرت خواہ ہیں، مگر یہاں پہنچتے پہنچتے میڈم کے دلائل کی حالت قابل رحم حد تک کمزور ہو چکی ہے۔ پہلے انھوں نے فرمایا کہ اورنگ زیب کو ٹوپیوں کی معمولی قیمت تھوڑی ملتی ہوگی بلکہ لوگ انھیں بھاری داموں خریدتے ہوں گے۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ ویسے اورنگ زیب کے پاس ٹوپیاں سینے کا وقت ہی کہاں ہوتا ہوگا۔ اب یہاں میڈم پہلے طے کر لیں کہ اورنگ زیب عالمگیر ٹوپیاں سیتے تھے یا نہیں؟ دوسری بات یہ کہ تاریخ میں ’’کیا ہوگا، ہوا ہوگا‘‘ جیسے الفاظ کے کوئی معنی نہیں ہوتے اور جب کوئی تاریخ کے سلسلے میں اس طرح کی زبان استعمال کرتا ہے تو وہ لاعلم ہی نہیں، بد دیانت بھی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈم نے اورنگ زیب عالمگیر کے سلسلے میں یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ انھیں اورنگ زیب سے متعلق Myth توڑنے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ تخیل کے گھوڑے اور تذبذب کے تانگے دوڑانے کے بجائے ’’یقینی معلومات‘‘ پیش کریں اور کہیں کہ جی نہیں، اس ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اورنگ زیب ٹوپیاں نہیں سیتا تھا، یا سیتا تھا تو اس شہادت سے ثابت ہے کہ وہ بہت مہنگی فروخت ہوتی تھیں۔ ٹوپیوں کے سلسلے میں "Would they not pay exorbitant price"، اورنگ زیب کے سلسلے میں "Would a king have the time" جیسے فقرے اور الفاظ Myth توڑتے نہیں، نئے اور شرم ناک Myth تخلیق کرتے ہیں۔

میڈم نے اپنے طور پر یہ کہہ کر اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت پر کلہاڑا چلا دیا ہے کہ وہ ایسے متقی تھے کہ انھوں نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا اور بھائیوں کو قتل کرا دیا۔ میڈم کو ایسا کرنے سے پہلے کسی لغت میں تقوے کے معانی دیکھ لینے تھے۔ انھوں نے یہ زحمت کر لی ہوتی تو انھیں اورنگ زیب عالمگیرؒ کے تقوے اور عمل میں تضاد نظر نہ آتا۔

میڈم کو قدیم ہندو تہذیب پر بڑا فخر ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس تہذیب کے مردہ حصوں کو بھی یاد کرتی ہیں اور اپنی تاریخ قرار دیتی ہیں، لیکن اسی شاندار تاریخ میں مہا بھارت ہے۔ مہا بھارت میں پانڈو اور کورو ہیں۔ پانڈو ۵ ہیں اور کورو ۱۰۰، لیکن یہ تمام آپس میں بھائی ہیں، ایک باپ اور دو ماؤں کی اولاد۔ پھر ان دونوں کے درمیان کروا کشیتر میں ’’جنگ عظیم‘‘ ہوتی ہے اور پانڈو اپنے ۱۰۰ بھائیوں کو نہیں، سینکڑوں عزیزوں کو بھی تہ تیغ کر دیتے ہیں۔ ان عزیزوں میں ماموں، چاچا، بھانجے، بھتیجے اور استاد بھی شامل ہیں، یہاں تک کہ بھیم ایک کورو کے خون سے اپنی بیوی دروپدی کے بال دھوتا ہے۔ اور میڈم کو معلوم ہے کہ اس سب کا جواز کیا دیا گیا ہے؟ یہ کہ پانڈو خیر ہیں اور کورو شر۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے اقدامات کا جواز بھی یہی ہے۔ یہ اقتدار کا مسئلہ تھا ہی نہیں۔ اورنگ زیبؒ کے سامنے صرف اسلام اور اس کے تقاضے تھے، لیکن میڈم اورنگ زیب پر طنز کرتی ہیں اور مہا بھارت کی تہذیب پر انھیں فخر ہے۔

میڈم نے پانچویں Myth کے ذیل میں ۱۸۷۵ کی جنگ آزادی پر حملہ کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کے مطابق جنگ آزادی مسلمانوں نے شروع کی اور اس کے اختتام پر اس کا خمیازہ بھی صرف مسلمانوں کو بھگتنا پڑا جبکہ ہندو انگریزوں کے فطری اتحادی تھے۔ میڈم کے مطابق ایسا نہیں تھا۔بے شک ا نگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والی اکثر رجمنٹس مسلمانوں کی تھیں، مگر ہندو بھی جنگ آزادی میں شریک تھے۔ جھانسی کی رانی کی جدوجہد اس کا ثبوت ہے۔ مزید برآں مسلمانوں کی اکثریت آخر وقت تک انگریزوں کی وفادار رہی، سرسید اس کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مسلم ایمپائر ۱۸۵۷ میں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز بہت پہلے ہندوستان کے بیشتر علاقے پر قابض ہو چکے تھے اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت دلی تک محدود تھی۔ ۱۷۸۵ کے بعد ہندو اس لیے کامیاب اور خوش حال ہوئے کیونکہ انھوں نے جدید تعلیم حاصل کی، انگریزی سیکھی، تجارت شروع کی، جبکہ مسلمان ماضی کی عظمت میں کھوئے رہے۔ وہ دینی مدارس کی تعلیم اور فارسی سے آگے نہ بڑھے اور یہ دونوں چیزیں اس ’’انقلاب آفریں‘‘ وقت میں ان کے راستے کا پتھر بن گئیں۔

میڈم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تاریخی حقائق کا ذکر ضرور کرتی ہیں مگر ذاتی پسند وناپسند میں الجھ کر رہ جانے کا ثبوت بھی فوراً فراہم کر دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے بیانات بجائے خود ایک Myth بن جاتے ہیں۔ اب مثلاً ایک جانب انھوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں ہندو بھی برابر کے شریک تھے اور دوسری جانب انھوں نے کہا ہے کہ ہندووں کی ترقی اور خوش حالی کا راز یہ تھا کہ انھوں نے ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد جدید تعلیم حاصل کی، انگریزی سیکھی اور کاروبار پر توجہ مرکوز کی، مگر وہ اس سوال پر غور نہیں کرتیں کہ جو قوم ایک جنگ آزادی لڑ رہی تھی، وہ پلک جھپکتے ہی دشمن کی لائی ہوئی تعلیم اور اس کی زبان سیکھنے پر کیسے اور کیونکر چل پڑی اور اسے کاروبار کے لیے وہ حالات کیسے فراہم ہو گئے جن کے بغیر بڑے پیمانے پر کاروباری تجربہ خلق نہیں ہو سکتا؟ اس الجھن، پیچیدگی اور تضاد کاجواب واضح ہے۔ ہندووں کی عظیم اکثریت جنگ آزادی سے بے نیاز رہی۔ بلاشبہ جھانسی کی رانی نے انگریزوں کے خلاف بے مثال جدوجہد کی اور مسلمانوں نے ہمیشہ اس کا اعتراف کیا۔ علامہ اقبال تک نے اس کی تعریف کی ہے اور جھانسی کی رانی کیا، نانا صاحب بھی جدوجہد میں شریک تھے، مگر جنگ آزادی کی مجموعی فضا پر مسلمانوں ہی کی چھاپ تھی اور اس کی نفسیاتی، جذباتی، تاریخی اور سیاسی وجہ ظاہر تھی۔ گزشتہ ایک ہزار سال سے بھارت ہندووں کا بھارت نہیں تھا، مسلمانوں کا ہندوستان تھا۔ اس کے ہونے کے بیشتر فوائد اور اس کے نہ ہونے کے بیشتر نقصانات مسلمانوں ہی کے حصے میں آنا تھے، چنانچہ بغاوت کی جو تڑپ مسلمانوں میں ہو سکتی تھی، وہ ہندووں میں ممکن ہی نہیں تھی۔

بے شک جنگ آزادی سپاہیوں کی بغاوت سے شروع ہوئی، لیکن جلد ہی اس نے عوامی رنگ اختیار کر لیا۔ چنانچہ اس بات کے کوئی معنی ہی نہیں کہ برٹش فوج میں موجود کتنے مسلم فوجیوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا اور کتنے مسلمان آخری وقت تک انگریزوں کے وفادار رہے۔ میڈم کا خیال ہے کہ جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کے زیادہ نقصان کی بات بھی افسانہ ہے۔ سرسید بلاشبہ انگریزوں کے وفادار تھے بلکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مجاہدین آزادی کی مخبری کرتے رہے۔ مگر سرسید نے بھی اسباب بغاوت ہند میں تسلیم کیا کہ بغاوت کا بہت زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا۔

میڈم اس سلسلے میں یہ تک دیکھنے کی روادار نہیں ہوئیں کہ بے چارے ہندووں کی بڑی تعداد کیونکر جنگ آزادی میں شریک ہو سکتی تھی۔ ہندو صدیوں سے لڑنے کی اسپرٹ سے محروم تھے، ا ن میں فوجی تنظیم اور فوجی تربیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ انھیں لڑنے کا تجربہ بھی تھا تو صرف مسلمانوں یا انگریزوں کی فوج میں شامل ہو کر لڑنے کا تجربہ تھا۔ کیا یہ ایک تاریخی حقیقت نہیں ہے؟ میڈم نے سرسید کو انگریزوں کا وفادار کہا ہے اور بالکل ٹھیک کہا ہے، حالانکہ انگریزوں کا یہ وفادار بھی مسلمانوں سے کہہ رہا تھا کہ جدید تعلیم حاصل کرو، انگریزی سیکھو، لیکن راجہ موہن رائے کے مشوروں پر، جو دراصل ہندووں کے سرسید تھے، ہندووں نے جدید تعلیم حاصل کی اور انگریزی سیکھی تو میڈم نے اسے ہندووں کی وفاداری کے بجائے اسے ہندووں کی ’’ذہانت‘‘ قرار دیا۔ اس کے لیے انھوں نے "They were clever enough" کا فقرہ استعمال کیا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ ایمان داری ہے؟

میڈم کا یہ خیال درست ہے کہ ہندوستان ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی سے قبل ہی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت دلی تک محدود تھی، لیکن اس سلسلے میں بے چارے مسلمانو ں نے کون سا Myth تخلیق کر ڈالا۔ پوری انسانی تاریخ میں سیاسی مرکز کی علامتی اہمیت بنیادی رہی ہے۔ سقوط بغداد تو بہت بعد میں ہوا۔ امریکا اور برطانیہ کے فوجی عراق کے دیگر علاقوں پر پہلے ہی قابض ہو چکے تھے، لیکن سقوط بغداد کے ساتھ ہی تسلیم کر لیا گیا کہ اب پورے عراق پر جارح فوجوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھارتی فوج سقوط ڈھاکہ کے وقت پورے مشرق پاکستان پر قابض نہیں تھی، لیکن ڈھاکہ کے سقوط کے ساتھ ہی پورا مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ ۱۸۵۷ کی جنگ آزای میں بھی یہی ہوا۔ جب تک دار الحکومت پر بہادر شاہ ظفر کی حکومت تھی، بادشاہ کی علامتی اہمیت برقرار تھی۔ بخت خان نے قلعے میں بادشاہ کے ساتھ جو ملاقاتیں کیں، ان میں اس نے بادشاہ کے ذہن میں یہ با ت بٹھانے کی کوشش کی کہ آپ قلعے سے نکلیں، ہندوستان کے عوام آج بھی آپ کو حاکم تسلیم کرتے ہیں۔ آپ قلعے سے باہر نکلیں گے تو جدوجہد آزادی کا دائرہ وسیع ہو جائے گا، مگر جو بات ساری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے، ہماری میڈم نے اسے بھی Myth بنا کر مسلمانوں کے منہ پر دے مارا ہے۔ آدمی اپنی تاریخ اور تہذیب سے متعلق نہ ہو تو ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

میڈم نے ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد کی صورت حال کو Changing time قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہندووں نے بدلتے ہوئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کیا، لیکن مسلمان دینی مدارس کی تعلیم اور فارسی سے چمٹ کر رہ گئے جو ان کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈم نے جس چیز کو بدلتے ہوئے حالات قرار دیا ہے، وہ سامراج کا قبضہ اور اس کا پھیلاؤ تھا اور اس کے خلاف مسلمانوں کا طرز عمل فطری، برجستہ اور انسانی تھا۔ اور ہندو جو کچھ کر رہے تھے، وہ ذہانت یا Cleverness نہیں، کھلی موقع پرستی تھی۔ اور اگر نہیں تھی تو ویت نام کے لوگوں کی ذہانت یہ ہوتی کہ وہ امریکی فوجیوں کے قبضے کو محض بدلتے ہوئے حالات سمجھتے، انگریزی سیکھتے، امریکی فوج سے تعاون کرتے، جمہوریت کی پریکٹس کرتے، اور آج عراق کے لوگوں کو بھی دراصل مزاحمت کے بجائے امریکا اور اس کے ایجنٹوں کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے امریکا کا لایا ہوا نصاب قبول کر لینا چاہیے۔ انگریزی سیکھنی چاہیے اور خود کو بدلتے ہوئے حالات سے پوری طرح ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

میڈم کے بقول چھٹی Myth یہ ہے کہ مسلمان انگریزوں کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے صف اول میں تھے اور انگریزوں نے بعد ازاں ان کے ساتھ برا سلوک کر کے انھیں نشان زد کر دیا۔ میڈم کے مطابق ایسا نہیں تھا، بلکہ اس کے برعکس انگریزوں نے مسلمانوں کو ۱۹۰۵ میں پہلا تحفہ تقسیم بنگال کی صورت میں دیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کے جداگانہ حق انتخاب کو تسلیم کیا۔ بعد ازاں انگریزوں کے حامیوں نے مسلم لیگ قائم کی۔ مسلم لیگ نے کبھی انگریزوں کی مزاحمت نہیں کی۔ مسلمانوں نے صرف خلافت تحریک میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی۔ قائد اعظم کبھی جیل نہیں گئے، البتہ کانگریس ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کی دہائیوں میں انگریزوں کے خلاف پرامن جدوجہد کرتی رہی۔ اس نے ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی، مگر مسلم لیگ کے رہنمااس کی مخالفت کرتے رہے۔

خدا کی پناہ ایسے ہی مواقع پر باآواز بلند طلب کی جاتی ہے۔ میڈم جھانسی کی رانی کو تو کھود کر نکال لائیں مگر انھیں مسلمانوں کی طویل وعریض مزاحمت کہیں نظر نہیں آئی۔ آخری اطلاعات کے مطابق حیدر علی مسلمان ہی تھا۔ اس کا فرزند ارجمند سلطان ٹیپو شہید بھی مسلمان تھا۔ سراج الدولہ کے بارے میں بھی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ بھی اتفاق سے مسلمان تھا۔ تیتو میر ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کا مرکزی کردار جنرل بخت خان ۔ اور کتنے نام گنوائے جائیں؟ خلافت تحریک اس کے علاوہ ہے۔ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک بھی مسلح مزاحمت پر مائل تھی۔ تقسیم بنگال یقیناًمسلمانوں کے لیے رعایت تھی، لیکن خود میڈم نے تسلیم کیا ہے کہ یہ رعایت فوراً واپس لے لی گئی۔ پھر یہ کہ تقسیم بنگال انتظامی اعتبار سے انگریزوں کی ضرورت تھی اور اسے تحفہ قرار دینا کسی بھی اعتبار سے قرین انصاف نہیں ہے۔ بالفرض یہ تحفہ بھی تھا تو یہ کیسا تحفہ تھا جو دے کر تقریباً فوراً ہی واپس لے لیا گیا۔ اس سلسلے میں محرک کے طور پر انگریزوں کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بلاشبہ مسلم لیگ انگریزوں سے قربت رکھنے والوں نے قائم کی، لیکن کانگریس تو خود ایک انگریز نے قائم کی، مگر میڈم کانگریس کو مزاحمتی جماعت کہتی ہیں اور مسلم لیگ کو مفاہمتی پارٹی۔ یہ کیسا تاریخی شعور ہے؟ بلاشبہ مسلم لیگ نوابوں کی جماعت تھی، لیکن ۱۹۴۰ میں مسلم لیگ ایک عوامی جماعت بن چکی تھی اور اس کی تحریک کی پشت پر بڑے بڑے مذہبی، تاریخی اور نفسیاتی محرکات کارفرما ہو چکے تھے اور جب تاریخ میں کسی سیاسی گروہ کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے ظاہری سانچے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو اسے صرف مسلمان ہی نہیں ہندووں کی جدید تاریخ کے کئی اہم کردار بھی مشتبہ سمجھتے تھے۔ بھگت سنگھ اس کی ایک علاقائی مثال تھا اور سبھاش چندر بوس ملک گیر مثال، اور یہ دونوں ہندووں میں کم مقبول نہیں تھے۔ سبھاش چندر بوس مسلح جدوجہد کے قائل تھے اور انھیں اپنی اس فکر کے باعث بالآخر ہندوستان چھوڑنا پڑا اور عجیب بات یہ ہے کہ انھیں بھارت سے افغانستان پہنچانے والا کوئی ہندو نہیں، ایک پٹھان تھا۔

بلاشبہ قائد اعظم کبھی جیل نہیں گئے، لیکن کیا کسی لیڈر کا جیل نہ جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ رہنما ہی نہیں یا اس کی عظمت مشتبہ ہے؟ لیکن قائد اعظم کبھی جیل کیوں نہیں گئے؟ اس سوال کا جواب قائد اعظم کی شخصیت اور نفسیات کا مرکزی نکتہ ہے اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ قائد اعظم اول وآخر ایک وکیل تھے اور آئینی وقانونی جدوجہد ان کا انتخاب نہیں، ان کا ’’مزاج‘‘ تھی۔ انھوں نے پاکستان کا مقدمہ اساسی طور پر ایک ’’رہنما‘‘ کی طرح نہیں، بلکہ ایک ’’وکیل‘‘ کی طرح لڑا۔ اس کی دو اور سمجھ میں آنے والی ثانوی وجوہ بھی ہیں۔ قائد اعظم کو احساس تھا کہ مسلمان انگریزوں اور ہندووں کے درمیان ہیں۔ انھیں بیک وقت دو حریفوں کا سامنا ہے۔ ایک حریف طاقت ور حاکم ہے اور دوسرا فریق عددی اکثریت کا حامل ہے، چنانچہ مسلمانوں نے طاقت کا طریقہ استعمال کیا تو انھیں بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پھر قائد اعظم کو معلوم تھا کہ انھیں گاندھی کی طرح کوئی نہرو، پٹیل اور ابو الکلام فراہم نہیں۔ وہ جیل میں ہوں گے تو اقلیتی گروہ کی جدوجہد کسی بھی سمت میں جا سکتی ہے۔ چنانچہ جیل قائد اعظم کے لیے ایک ایسی تعیش تھی جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

جہاں تک مسلمانوں کے ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ نہ لینے کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ دو الگ الگ سیاسی پلیٹ فارم تھے۔ ان کی اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی تھی اور وہ اپنے تناظر کے مطابق کچھ بھی کرنے میں آزاد تھے۔ ویسے بھی گاندھی جی نے اس تحریک کی ابتدا اچانک کی تھی اور اس سلسلے میں انھوں نے مسلم لیگ سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی۔ گاندھی کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ کانگریس کو بھارت کی واحد نمائندہ جماعت ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے، جبکہ مسلم لیگ کے لیے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی جداگانہ شناخت اور مفادات کا سوال اہم تھا۔ 

میڈم شاہدہ قاضی نے ساتواں Myth یہ پیش کیا ہے کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی۔ میڈم کے بقول مسلم لیگ ۱۹۴۰ سے قبل کبھی مقبول عوامی جماعت نہ تھی اور اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں اسے ۴۸۲ میں سے صرف ۱۰۳ نشستیں ملی تھیں۔ باقی نشستیں کانگریس کے مسلم نمائندوں، قوم پرستوں یا یونینسٹوں نے حاصل کی تھیں۔

انتخابی نتائج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو میڈم کی رائے سو فیصد درست ہے، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کے واحد نمائندہ جماعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ قوم پرست اور یونینسٹ کانگریس اور انگریزوں کے پٹھو تھے۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جو اس وقت عراقی عوام کو درپیش ہے۔ عراق کی واحد نمائندہ قوت امریکہ کی مزاحمت کرنے والے عناصر ہیں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے امریکہ کے زیر اہتمام فراڈ انتخابات میں حصہ لیا ہے تو انھیں حقیقی معنوں میں عراق کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ انھوں نے عراق پر امریکہ کے قبضے کو اصولی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یہی پوزیشن کبھی مسلم لیگ اور دیگر مسلم تنظیموں اور شخصیات کی تھی۔ پھر تاریخ میں اصل چیز یہ نہیں ہوتی کہ ’’کیا تھا‘‘ بلکہ اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ بالآخر ’’کیا ہوا؟‘‘ اور بالآخر یہ ہوا کہ ۱۹۴۶ کے انتخابات میں مسلم لیگ نے ہر علاقے میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ سرحد کے غفار خان اور پنجاب کے یونینسٹ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کا قیام ممکن ہی نہ ہوتا۔

میڈم شاہدہ کے مطابق آٹھواں Myth یہ ہے کہ علامہ اقبال نے سب سے پہلے مسلمانوں کی جداگانہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ میڈم کے بقول اقبال انڈین یونین کے دائرے میں مسلمانوں کے سیاسی بندوبست کے قائل تھے۔ اس کے سوا ان کا کوئی مطالبہ نہیں تھا اور یہ ایک ایسی بات تھی جو اقبال سے پہلے کم از کم ۶۴ بار مختلف حوالوں سے سامنے آ چکی تھی۔ خود انگریز بھی اس کے حامی تھے۔ چنانچہ اقبال نے کوئی نئی بات نہیں کہی، بلکہ جب ان کے خطبہ الٰہ آباد سے یہ ’’غلط فہمی‘‘ پیدا ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست طلب کر رہے ہیں تو انھوں نے ایک بیان کے ذریعے وضاحت کی کہ ایسا نہیں ہے۔

اس سلسلے میں اقبال کی مرکزی اہمیت سے بہت سے لوگوں کو تکلیف ہے۔ البتہ کسی کی تکلیف لسانی ہے اور کسی کی نسلی۔ اقبال کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کچھ Claim ہی نہیں کرتے۔ وہ عظیم شاعر تھے مگر انھیں عظیم شاعر کیا، شاعر ہونے کا دعویٰ بھی نہیں ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ شاعر تو میں نہیں ہوں، البتہ میرے پاس کچھ خیالات ضرور ہیں۔ چونکہ میری قوم کو شاعری سے گہرا شغف ہے، اس لیے میں نے شاعری کو میڈیم کے طور پر استعمال کیا ہے اور بس۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھوں نے جداگانہ ریاست کا تصور پیش نہیں کیا۔ یہ حقیقت اتنی عیاں ہے کہ اس پر بحث ہی فضول ہے۔ البتہ یہ ٹھیک ہے کہ اقبال یہ تصور پیش کرنے والے پہلے آدمی نہیں تھے، مگر یہاں بھی اقبال کی اہمیت غیر معمولی ہے۔

ایک تصور تاریخ کے مختلف ادوار میں پیش کیا جاتا رہتا ہے، لیکن وہ ایک خاص وقت سے قبل لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ مثال کے طور پر یورپی مشترکہ منڈی اور مشترکہ کرنسی کا تصور ۷۵ سال پرانا ہے، لیکن اسے اب جا کر قبول عام حاصل ہوا ہے۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی ریاست کا تصور کئی سو سال سے یہودیو ں کی تاریخ میں سفر کر رہا ہے، لیکن اسرائیل کا قیام ۱۹۴۸ میں ممکن ہوا۔ اقبال کی اہمیت یہ ہے کہ ان کی بات پر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی توجہ مرکوز ہو کر رہ گئی اور اصل بات یہی ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی بندوبست کا تعلق ہے تو اس کا قائل کون نہیں تھا؟ قائد اعظم آخری وقت تک اس کے لیے کوشاں رہے، لیکن کانگریس نے کابینہ مشن پلان کو بھی مسترد کر دیا اور بالآخر ۱۹۴۰ تک یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ اب مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل پاکستان ہے۔

میڈم شاہدہ قاضی نے مزید تین Myth پیش کیے ہیں، مگر وہ اتنے معمولی ہیں کہ ان کا ذکر صرف الطاف حسین جیسے لوگوں کی زبان پر اچھا لگتا ہے۔ مثلاً یہ کہ پاکستان واحد ریاست نہیں تھا بلکہ مسلم لیگ کی قرارداد میں State کے بجائے ’’ریاستوں‘‘ کا لفظ استعمال ہوا تھا۔ اب بھلا ایسی باتوں کا کوئی کیا جواب دے!

البتہ اس پورے سلسلے کے بارے میں اتنی بات کہنے کی شدید ضرورت ہے کہ قوموں کی تہذیب وتاریخ کو سمجھنے کے لیے صرف معلومات کافی نہیں ہوتیں، اس قوم اور اس قوم کی تاریخ سے تھوڑا بہت تعلق ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، ورنہ معلومات بھی بھول بھلیاں بن جاتی ہیں۔ کاش میڈم شاہدہ قاضی کو اسلام اور مسلمانوں اور پاکستان کے تصور سے تھوڑی بہت محبت ہوتی۔

آراء و افکار

(جولائی ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter