بائبل کا قورح ہی قرآن کا قارون ہے

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

محمد یاسین عابد صاحب نے ’الشریعہ‘ کے فروری ۲۰۰۶ کے شمارے میں میرے ایک مضمون’’قرآن کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ (الشریعہ، دسمبر ۲۰۰۵) کو تنقید سے نوازا ہے اور متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ افسوس کہ ان کا اندازبیاں بڑا جارحانہ اور علمی حیثیت سے گرا ہواہے ۔وہ فرماتے ہیں: ’’غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔‘‘

اب میں تو کوئی جارحانہ اسلوب اختیار نہیں کرتا،ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ کبھی کراچی آئیں اور میرانسخہ بائبل دیکھیں جو بیسیوں تنقیدی حواشی سے بھرا ہوا ہے۔ بائبل جس کو وہ بہت مستند اور لائق اعتماد کتاب قرار دے رہے ہیں، اس کے کچھ عجائب وغرائب شرافت ونبوت ہی کے منافی نہیں ، انسانیت کی پیشانی پر کلنک کاٹیکہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ نسخہ ایسے حواشی سے بھرا ہو ا ہے جو بعض انبیاء علیہم السلام اور خاص طور پر موسیٰ علیہ السلام وفرعون کے قصے کے حوالے سے قرآنی بیانات سے متعلق ہیں۔ پہلی قسم کے حواشی سے قرآن کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود نے توراۃ میں تحریف کی ہے ،اور دوسرے قسم کے حواشی سے توراۃ کے بارے میں قرآن کے بیان ’’مصدق لما بین یدیہ‘‘ کی تصدیق ہوتی ہے۔

جناب ناقد نے یہودی قورح کے دفاع میں جو کچھ لکھا ہے اور جس طرح خود بائبل کے بیانات سے تجاہل برتاہے، اس کی امید کسی یہودی ہی سے کی جاسکتی تھی۔ اس سب کی تردید تو اپنی جگہ آئے گی،لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ جناب ناقد نے اپنے مضمون کی ابتدا میں محمد اسلم رانا مرحوم کے پندرہ سال قبل شائع ہونے والے مضمون کو، جو قارون وقورح سے متعلق ہے، اپنی تنقید کی بنیاد بنایا ہے، جو ان کے بیان کے مطابق کسی ’’المذاہب‘‘میں چھپا تھا۔ یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ قورح کے متعلق جوبیانات موصوف کے مضمون میں ہیں، یا اس میں بائبل کے جو حوالے ہیں، وہ مرحوم اسلم رانا صاحب کا فیضان قلم ہے ،یا جناب ناقد کی اپنی تحقیق انیق ہے۔ بہرحال انھوں نے جو سوالات اٹھائے، ان کی وضاحت ضروری ہے جو ترتیب وار عرض ہے:

ا۔ جناب ناقد کا اعتراض یہ ہے کہ میں نے قارون کو توراۃ کاقورح سمجھ رکھا ہے ،جو ان کی دانست میں غلط ہے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ قارون کو قورح میں نے ہی نہیں سمجھ رکھاہے، بلکہ ہمار ے تمام قدیم مفسرین اور عصر حاضر کے بعض ممتاز پاکستانی وہندوستانی مترجمین ومفسرین نے بھی یہی لکھا ہے۔ جس قورح کا شجرہ نسب جناب ناقد نے بائبل سے نقل کرنے میں بڑی سر مغزی کی ہے ،یا مرحوم اسلم رانا کے مذکورہ بالا مضمون سے حرف بحرف نقل کیا ہے ،یہی شجرہ نسب ہمارے قدیم ترین عظیم مفسر، تیسری صدی ہجری کے امام طبری نے اپنی تفسیر میں سورۃ قصص کی متعلقہ آیت کے ضمن میں قارون کا دیا ہے: ’’قارون بن یصہر بن قاہث بن لاوی بن یعقوب‘‘اور یہی اپنی مشہور ومعروف تاریخ کی پہلی جلد میں قارون کے ذکر میں بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے صحابی رسول ﷺ اور مشہور مفسر قرآن عبداللہ ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں مجاہد وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں ،اور وضاحت کی ہے کہ یہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد تابعین کے بیانات (یعنی قارون ہی توراۃکا قورح ہے) اس لیے مستند ہیں کہ ان کا ماخذ ان یہودی علما کے اقوال وبیانات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام، کعب بن مالک، اور وہب بن منبہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ انہی تابعین میں ایک مشہور تابعی ابن جریج (عبد اللہ بن عبد العزیز) ہیں جو امام ابو حنیفہ ؒ کے معاصر تھے اور جن کے دادا جریج ایک رومن عیسائی تھے۔ انہوں نے قارون کا وہی شجرہ دیاہے جو قورح کا ہے۔

یہی بات مفسر زمخشری اور قرطبی وغیرہ نے لکھی ہے ،اور بائبل کے بیانات کے مطابق قورح ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ قدیم عرب مفسرین ومورخین کے علاوہ عہد حاضر کے انگریزی مترجم ومفسر قرآن عبد اللہ یوسف علی، مولانا عبد الماجد دریابادی (انگریزی تفاسیر) اور مولانا مودودی نے بھی قارون کو بائبل کا قورح لکھا ہے۔

اب کہیں یاسین عابد صاحب یہ اعتراض نہ کر بیٹھیں کہ توراۃ کے شجرۂ نسب میں قورح کے باپ کا نام اضہار اور اس کے دادا کا نام قہات ہے، جبکہ دونوں کے نام طبری وغیرہ اسلامی ماخذ میں علی الترتیب یصہر اور قاہث ہیں۔ اس بے بنیاد ممکنہ شبہہ کے جواب میں عرض ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام توراۃ کی کتاب پیدایش میں مسلسل چھ اصحاح ( ۱۱ تا۱۶) میں ’ابرام‘ مذکور ہے اور طرفہ تماشایہ کہ اصحاح ۱۷:۵ کے بعد سے وہ ننانوے سال کی عمر میں ’’ابرام‘‘سے ’’ابراہام‘‘ ہوگئے اور اللہ نے ان کا یہ نام بدلا۔ علاوہ ازیں بائبل میں حضرت اسحاق علیہ السلام کا نام اضحاق، یونس علیہ السلام کا نام یوناہ اور یحییٰ علیہ السلام کا نام یوحنا ہے، اور انگریزی بائبل میں تو یہ نام بہت ہی مختلف ہیں۔ لوط، یعقوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کے نام علی الترتیبLot, Jacob, Joseph, Moses, Aaron لکھے ہیں۔اب یاسین عابد صاحب بتائیں کہ کیا قرآن میں مذکور انبیا اور بائبل میں مذکور یہ انبیا ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ قارون وقورح کے شجرۂ نسب کے ایک ہی ثابت ہونے کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ قارون بائبل کاقورح ہے۔ ’قارون‘ نام، شمعو ن، شیرون کے اوزان پر عبرانی نام ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جیسے حضرت ابراہیم کے والد کانام قرآن میں آذر (سورۃالانعام، آیت ۷۴) اور بائبل کی کتاب پیدایش میں تارح ہے، جن کے مابین توفیق علما نے اس طرح کی ہے کہ ایک ان کا اصلی نام ہوگااور ایک عرف یا لقب، اسی طرح قارون اور قارح بھی ایک ہی شخص کے دو مختلف نام ہوں ، خاص طورپر یہ کہ ان کا شجرہ نسب ایک ہی ہے۔ یہی معاملہ قرآن کے طالوت (سورۃ البقرۃ۲۴۳) اور بائبل کے ساؤل کا ہے۔ 

قرآن کریم کے صریح بیانات کے مطابق توراۃ واناجیل اربعہ وغیرہ (بائبل ،عہد قدیم وعہد جدید) تحریف شدہ کتابیں ہیں: ’فَوَیْْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِأَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ہٰذَا مِنْ عِندِ اللّہِ لِیَشْتَرُواْ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً‘ (البقرۃ،۷۹) یعنی ’’ہلاکت ہے ان (یہودیوں) کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس طریقے سے کچھ پیسے حاصل کرسکیں۔‘‘ اور دوسری جگہ ہے: ’یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہ‘ (النساء،۴۶) یعنی ’’وہ لوگ جو اپنے آپ کو یہودی کہنے لگے، ان میں سے کچھ لوگ (اللہ کے) کلمات ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ قورح کے بارے یہودیوں نے بائبل میں تحریف کی ہو۔

قارون اور قورح کے ایک ہی شخص ہونے کے بارے میں مزید ایک بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مصر کے بادشاہ کا لقب قرآن وبائبل میں ’فرعون‘ مذکور ہے ۔یہ مصری لقب جو مصر کے تمام بادشاہوں کا لقب تھا،اصل میں ’’پر+عو‘‘ یا ’’فر+عو‘‘ دو لفظوں سے مرکب تھا ، جس کا معنی ہے ’’عظیم محل ‘‘یا قصر اعظم۔ انگریزی نام Pharoahمیں لفظ کی اصل مصری صورت بڑی حد تک باقی ہے۔ لفظ فرعون کی یہ تشریح مصر قدیم سے متعلق کتابوں اور خاص طورپر موسسہ فرانکلین کی طرف سے شائع ہونے والی یک جلدی ضخیم انسائیکلوپیڈیا ’الموسوعۃ العربیۃ المیسرۃ‘ میں ہے جو ممتاز مصری مورخین ومحققین وماہرین آثار کے قلم سے ہے۔ اس میں لفظ کی مذکورہ بالا تشریح کے بعد لکھا ہے کہ یہ لفظ ’’پرعو‘‘ شاہی قصر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر خود مصر کے بادشاہوں کے لیے استعمال ہونے لگا، جس طرح ’’الباب العالی‘‘ (بلند دروازہ، Sublime Porte) کا اطلاق ترکی سلاطین پر ہوتاہے۔ (المو سوعۃ العربیۃ المیسرۃ، قاہرہ ۱۹۶۵ء، ص ۱۲۹۰)

۲۔ قورح کی فراوانی دولت سے متعلق میں نے ایک اقتباس بائبل کا حوالہ دے کر نقل کیا تھا۔ اس پر جناب ناقد صاحب کا ارشا د ہے: ’’یہ عبارت بھی گنتی باب ۱۶ میں نہیں ہے بلکہ ہمیں تو پوری کوشش کے باوجود پوری بائبل میں کہیں نہیں مل سکی۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔‘‘

میری عربی، انگریزی واردو تصانیف پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں سنی سنائی معلومات درج کرنے کا خوگر نہیں۔ یاسین عابد صاحب بھی میری دو اردو کتب ’’ تحقیقات وتاثرات‘‘ اور ’’خانوادہ نبوی وعہد بنی امیہ ‘‘میں میرے انداز تحقیق کو دیکھ سکتے ہیں۔ میرا زیر بحث مضمون دروس قرآن کے ضمن میں ایک دعوتی واصلاحی نوعیت کی کاوش ہے۔ یہ قارون (قورح) سے متعلق کوئی تحقیقی مقالہ نہیں اور اہل علم میں قارون کے متعلق جو باتیں معروف ہیں (ان میں یہ بھی ہے کہ وہی بائبل کا قورح ہے) میں نے بغیر حوالے کے لکھ دی تھیں، کیونکہ بنیادی طورپر اس لیکچر (درس قرآن) میں آنے والے عام تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ اب اگر مضمون نگار صاحب نے اپنے انتہائی محدود مطالعے اور صرف بائبل یا توراۃ (جو قرآن کے مطابق تحریف شدہ ہے) پر کلی اعتماد کرتے ہوئے میری بات کو سنی سنائی اور غیر مستند سمجھا ہے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قورح کی فراوانی دولت کا بیان پہلی صدی عیسوی کے ممتاز یہودی مورخ یوسفوس (Josephus) نے اپنی مشہور کتاب Antiquities of the Jewsمیں کیا ہے جس کو مرحوم مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی انگریزی تفسیر ماجدی (جلد ۳، ص ۳۵۳) میں نقل کیا ہے۔ یہ اقتباس درج ذیل ہے :

"Corah, an Hebrew of principal account, both by his family and by his wealth, saw that Moses was in an exceedingly great dignity, and was uneasy at it, and envied him at that account (he was of the same tribe with Moses, and of kin to him) being particularly grieved, because he thought he better deserved that honourable post on account of his great riches, and as not inferior to him in his birth." 

’’قورح ایک ممتاز حیثیت کا یہودی تھا، اپنی خاندانی حیثیت سے بھی اور اپنی دولت کے سبب سے بھی۔ اس نے دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو انتہائی بلند عظمت حاصل تھی۔ وہ اس بات سے ناخوش تھا اور اس وجہ سے اس نے حسد کرنا شروع کردیا (وہ موسیٰ کے قبیلے ہی سے تھااور ان کا ایک قرابت دار تھا) اس کو خاص طور پر شکایت یہ تھی کہ وہ اپنی بے انتہا دولت کے سبب اور اس وجہ سے بھی کہ وہ خاندانی وجاہت میں موسیٰ سے کم نہ تھا، اس معزز منصب کا زیادہ مستحق تھا جو موسیٰ کو حاصل تھا۔‘‘(Antiquities iv.2:2) 

یوسفوس کے اس بیان میں قورح کی فراوانی دولت کی طرف واضح اشارہ ہے اور وہ یہ بھی یقین کے ساتھ کہتاہے کہ خاندانی وجاہت کے ساتھ وہ اپنی کثیر دولت کے سبب اپنے آپ کو اس عالی مقام (نبوت )کا زیادہ اہل سمجھتاتھا جو موسیٰ علیہ السلام کو حاصل تھا۔ اس اقتباس میں قورح کی فراوانی دولت کا واضح ومکر ر ذکر ہے۔ یاد رہے کہ قدیم یہودی تاریخ کے بارے میں یوسفوس انتہائی مستند ماخذہے۔ اس کا پورا نام فلا فیوس یوسفوس تھا اور اس کا زمانہ ۳۷ء تا ۹۵ء ہے۔ یہودیوں نے اس کو ۶۶ء میں فلسطین کے شہر جلیلی Galili)) کا گورنر مقر ر کیا تھا۔ اس کے رومن حکومت سے اچھے تعلقات تھے۔ یہ رومابھی گیاتھا ،اور اس کو پورے رومنRoman)) شہری حقوق حاصل تھے۔ اس نے مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ یہودیوں اور ان کی جنگوں کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ وہ یہودیوں کا ایک مذہبی رہنما (کاہن) اور مورخ وسیاستدان تھا۔اس نے یہودیوں کی مدافعت میں بہت کچھ لکھا اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہاہے۔ (الموسوعۃ العربیۃ المیسرۃ ،ص ۱۹۹۲)

اس سب کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ یہودی مورخ اپنے ہم قوم یہودیوں کا دشمن تھا۔یوسفوس کی یہ کتاب آسانی سے دستیاب نہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم کو جنہوں نے کتاب کا یہ اقتباس اپنی انگریزی تفسیر میں محفوظ کر لیا ہے۔ تما م انگریز ی تفاسیر میں ان کی یہ انگریزی تفسیر اس حیثیت سے ممتاز ہے کہ اس میں بیسیوں ایسی کتابوں کے حوالے ہیں جو ان کے ذاتی مکتبہ میں تھیں۔ اب یاسین عابد صاحب بتائیں کہ نزول قرآ ن کے پانچ سو سال پیشتر کے اس یہودی مذہبی رہنما اور مورخ نے بھی قرآنی قارون کو ذہن میں رکھ کر سنی سنائی اور غیر مستند معلومات نقل کی تھیں؟

جہاں تک تین سو بار بردار جانوروں پر قارون (قورح) کے خزانوں کی کنجیاں لادنے کاتعلق ہے تو یہودی دائرۃالمعارف Jewish Encyclopaedia(جلد ۷ ص ۵۵۶) میں مذکورہے کہ’’قورح کے خزانون کی کنجیاں تین سو خچروں پر لادی جاتی تھیں‘‘ (تفسیر ماجدی ، انگریزی vol. III, p. 353، تفہیم القرآن ،جلد سوم،ص۶۶۲)

میرا جومضمون قارون سے متعلق ’’الشریعہ ‘‘میں شائع ہوا تھا، وہ دروس قرآن کے ضمن میں ٹیپ سے نقل کردہ Transcribed)) ایک لیکچر تھا جو ہمارے دفتر کے ایک سیکرٹری نے ٹیپ سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا۔ ان کے سہو قلم سے تین سو خچروں کے بجائے تین سو اونٹ کتابت ہوگیااور چونکہ توراۃ کا ذکر اوپر چل رہاتھا، اس وجہ سے اسی کانام بجائے جیوش انسائیکلوپیڈیا کے انہوں نے لکھ دیا۔ بہر حال مصنف اس پر معذرت خواہ ہے، لیکن کتابت کی اس غلطی کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ مذکورہ بالادو اہم یہودی حوالوں کے پیش نظر قورح بے انتہا دولت کا مالک تھا ،خواہ اس کے خزانوں کی کنجیاں تین سو خچروں پر لادی جائیں یا تین سو اونٹوں پر، اور خواہ اس کا ذکر جیوش انسائیکلو پیڈیا میں ہو اوربائبل میں نہ ہو، کیونکہ قرآنی تاکیدات کے پیش نظر بائبل ایک تحریف شدہ کتاب ہے۔ پھر اہل علم سے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ یہودی مذہب اور تاریخ سے متعلق بعض انتہائی اہم بیانات وتفاصیل توراۃ کی شرح تلمود میں موجود ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ایک مقدس کتاب ہے۔

جوبات میں نے Josephusکی مذکورہ بالا کتاب کے پیش نظر قورح سے متعلق لکھی تھی، وہی بات برصغیر کے عظیم عالم ومفسرّ قرآن مولانا شبیر احمد عثمانی نے سورۃ القصص کی متعلقہ آیت ۷۶ پر اپنے تفسیری حاشیے نمبر ۸ میں کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’وہ حضرت موسیٰ وہارون کی خداداد عزت ووجاہت کو دیکھ کر جلتا اور کہتا کہ آخر میں بھی ان ہی کے چچا کا بیٹاہوں۔یہ کیا معنی کہ وہ دونوں تو نبی اورمذہبی سر دار بن جائیں ،مجھے کچھ بھی نہ ملے ۔ کبھی مایوس ہوکر شیخی مارتا کہ انہیں نبوت مل گئی تو کیا ہوا، میرے پاس مال ودولت کے اتنے خزانے ہیں جو کسی کو میسر نہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اس کی ناپاک سرشت کے اور واقعات بھی، جن کاتعلق موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس کے حسد سے تھا، طبری ، زمخشری، رازی اور قرطبی سے نقل کیے ہیں جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قارون بائبل کاقورح ہی تھا۔

۳۔ میرے مضمون میں قورح سے متعلق بیانات پر اعتراضات کے بعد، جن کا جواب دیا جا چکاہے، موصوف نے قورح کی شخصیت پر ایک صفحہ سیاہ کیا ہے۔ سب سے پہلے تو توراۃ کے حوالوں کے ساتھ اس کے باپ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا شجرہ نسب حضر ت یعقوب علیہ السلام تک دیا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ قورح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ اس کی چنداں ضرورت نہ تھی، کیونکہ ہمارے سب قدیم مفسرین ومورخین نے لکھاہے کہ قارون (قورح) موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ یاسین عابد صاحب چونکہ قارون اور قورح کو دو علیحدہ علیحدہ اشخاص سمجھتے ہیں، تو اب وہ قارون کا شجرہ نسب بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ثابت کریں، یا پھر یہ ثابت کریں کہ مورخ ومفسر امام طبری نے ،جن کے زمانے میں بغداد میں کافی یہود آباد تھے او ر جن سے مسلمانوں کامیل جول تھا، قارون کاوہ شجرہ غلط نقل کیا ہے جو بالکل قورح کے شجرہ نسب کی طرح ہے اور لاوی بن یعقوب علیہ السلام سے جاملتاہے۔ وہ تو ہرگز ان دونوں میں سے کوئی بات ثابت نہیں کرسکیں گے ،لیکن میں بائبل کے ان حافظ صاحب کو دکھاتاہوں کہ اس قورح کے شجرہ نسب میں خود بائبل میں کتنا تضاد ہے۔

موصوف نے قورح کا جو شجرہ نسب دیا ہے، وہ توراۃ کی کتاب خروج سے لیا گیا ہے۔ اس میں وہ اضہار بن قہات کا بیٹا ہے، لیکن اسی بائبل کی کتاب ۱۔ تواریخ، ۶:۲۲،۲۳ میں ہے: ’’قہات کا بیٹا عمینداب۔ عمینداب کا بیٹا قورح‘‘۔ لیجیے، توراۃ کی کتاب خروج میںیہ قورح، اضہار بن قہات کا بیٹاتھا،اب دوسری کتاب ۱۔ تواریخ میں عمینداب کا بیٹاہو گیا۔ کیا بائبل کے حافظ یاسین عابد کی نظر سے بائبل کا یہ باب اور یہ فقرہ نہیں گزرا، یا انہوں نے جان بوجھ کر تغافل کیا ہے؟ پھر یہ کہ موصوف نے قورح کے شجرہ نسب کے لیے بائبل کی کتاب خروج کے علاوہ ۱۔تواریخ ۲:۱ کاحوالہ بھی دیا ہے۔ اس مقام پر اضہار اور قہات بن لاوی یعنی قورح کے باپ کا بالکل ذکر نہیں۔ اس اصحاح کے فقرہ ۲ میں ’’دان، یوسف اور بنیمین، نفتالی، جد اور آشر‘‘ کاذکر ہے۔ اس فقرے سے پہلے فقرے میں ہے: ’’یہ بنی ا سرائیل ہیں۔ روبن، شمعون، لاوی، یہوداہ،اشکار اور زبولون۔‘‘ اس طرح ۱۔تواریخ ۲:۱،۲ میں بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کا ذکر ہے۔ پھر ہر بیٹے کی نسل کا ذکر ہے، اور بنی لاوی کا ذکر، جن میں سے قورح تھا، اصحاح۶میں ہے۔

اب جناب ناقد، بائبل کے حافظ بتائیں کہ بائبل سے سنی سنائی باتیں کون نقل کررہاہے؟ میں یاموصوف؟ اگر وہ انصاف پسند انسان ہیں تو یقیناًیہاں وہ مشہور مصرع پڑ ھیں گے:’’ میں الزام ان کو دیتاتھا، قصور اپنا نکل آیا‘‘۔اور قورح کے باپ کے بارے میں بائبل کے بالکل متضاد بیان پر میں کہوں گا، وصدق اللہ العظیم: ’یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہ‘ یعنی یہ (یہودی) کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔ توراۃ بلکہ پوری بائبل میں بیسیوں اور مواقع پر میں تحریف ثابت کر سکتاہوں،لیکن یہاں بائبل پرقرآن سے زیادہ اعتماد کرنے والے ناقد صاحب سے کہوں گا کہ وہ اس موضوع پر مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی بے نظیر کتاب’’اظہار الحق‘‘ کی پہلی جلد میں دوسرا باب’’ فی اثبات التحریف‘‘ ص۳۳۵۔۵۰۸ پڑھ لیں (جدید عربی ایڈیشن، تحقیق الاستاذ عمر الدسوقی) ان کو عربی نہ آتی ہو تو اس کاترجمہ مولانا تقی عثمانی کے قلم سے بہ عنوان ’’بائبل سے قرآن تک ‘‘ پڑھ لیں، اگر چہ مجھے علم نہیں کہ انہوں نے اس کاپور ا ترجمہ کیا ہے یا ناقص۔

۴۔ قورح (سب مسلمان اہل علم کے نزدیک قرآن کاقارون) سے وہ بہت زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں ،اور اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے مصر میں اپنا گھربار اور شہری حقوق وسہولیات چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی او ربحر قلزم کو عبور کیا۔ تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضر ت موسیٰ کے زیرفرمان ہی ہوتی تھی۔‘‘ (گنتی ۹:۲۳)

جو حوالہ موصوف نے بائبل کی کتاب گنتی کادیا ہے ،اس میں کہیں بھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ قورح کی مصر سے ہجرت کا ذکر نہیں، نہ اس کے مصر میں شہری حقوق وسہولیات چھوڑنے اور نہ بحر قلزم عبور کرنے اور جنگلوں میں مارے مارے پھرنے کا ذکر ہے۔ اس مقام (گنتی ۹:۲۳) پر تو صرف یہ درج ہے کہ ’’وہ (بنی اسرائیل) خداوند کے حکم سے قیام کرتے اور خداوند ہی کے حکم سے کوچ کرتے تھے۔‘‘ بلکہ اس پورے اصحاح یا باب میں مصر سے براہ بحر قلزم ہجرت بنی اسرائیل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اب لمبی زبان والے جناب ناقد صاحب یہ بتائیں کہ سنی سنائی باتیں کون کر رہاہے اور کیا اب میرا یہ کہنا درست ہوگا کہ موصوف نے کبھی بائبل کھول کر دیکھی ہی نہیںیا دیکھی ہے تو وہ جان بوجھ کرغلط بیانی کررہے ہیں اور قارئین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ یاپھر یہ علامہ صاحب یہ تو بتائیں کہ قورح، جو ان کے بقول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لایا اور پکا اسرائیلی تھا ، اس کو مصر میں شہری حقوق کیسے مل گئے؟ اسر ائیلی تو مصر میں مبتلائے عذاب (Persecuted) تھے۔ فرعون کے دربار میں اس کے اعلیٰ مقام کا ذکر تو ہمارے مفسرین ومورخین نے کیا ہے، اس بنیادپر کہ یہ قورح وہی قارون تھا جو اپنی قوم کے خلاف فرعون کے ساتھ ہو گیا تھا، لیکن شہری حقوق حاصل ہونے کا کیا ثبوت ہے؟

۵۔ جناب ناقد بائبل (توراۃ) کی کتاب خروج ۳۲:۲۸ کے حوالے سے لکھتے ہیں: 

’’قورح، داتن، ابیرام،اون اور ان کے دوسرے ساتھی بھی ہر عمل میں اپنی قوم کے ساتھ تھے۔ بچھڑے کی پوجا کے واقعے میں یہ اشخاص شرک میں مبتلا ہونے والے گروہ کے خلاف اور حضرت موسیٰ وہارون کے ساتھ تھے۔ اس واقعے میں بنی لاوی نے تمام مشرکین کو قتل کیا تھا۔ (خروج ۳۲:۲۸) ‘‘

اس کے فوراً بعد تحریر کرتے ہیں: ’’اسی وجہ سے بنی لاوی کو بنی اسرائیل میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی تھی (گنتی ۸:۱۴) اور وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ ٹھہرے۔ یہاں تک قورح ایک گم نام شخص ہے۔‘‘

اب میں پھر بائبل کے ان بزعم خود حافظ صاحب سے کہتاہوں کہ انہوں نے سنی سنائی باتیں لکھی ہیں، اور بائبل کھول کر بھی نہیں دیکھی (بلکہ شاید بغیر کھولے بھی نہیں) یہ انہیں کے الفاظ میں نے دہرائے ہیں۔ اگر ان کے پاس واقعی بائبل ہے تو وہ اسے کھول کردیکھیں۔ کتاب خروج کے مندرجہ بالا باب اور فقرے میں سرے سے قورح وداتن وغیرہ کانام ہی نہیں بلکہ اس پورے باب (اصحاح ) میں کہیں ان کا نام نہیں، یہ بات تو علیحدہ رہی کہ انہوں نے ان مرتدین ومشرکین کی مخالفت کی تھی جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ 

میں ان کی او رقار ئین کی اطلاع کے لیے وضاحت کیے دیتاہوں کہ کتاب خروج ۳۲:۲۸ میں صرف یہ لکھا ہے: 

’’اور بنی لاوی نے موسیٰ کے کہنے کے موافق عمل کیا۔ چنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریبا تین ہزار مرد کھیت آئے‘‘۔

اس کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اس سے قبل لکھا ہے: 

’’اور اس( موسیٰ) نے ان (بنی لاوی ) سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدایوں فرماتاہے کہ تم اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم کر سارے لشکر گاہ میں اپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو‘‘۔

یاسین عابد صاحب ان حوالوں سے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ وہ قارئین جن کی نظر سے کبھی بائبل نہیں گزری، وہ تو اس سے مرعوب ہوجائیں گے اور دھوکہ کھا جائیں گے اور ایسے بہت سے ہیں، لیکن وہ جن کی نظر بلکہ تنقیدی نظر اس تحریف شدہ کتاب پر ہے، وہ اس سے دھوکہ نہیں کھا ئیں گے۔ اس موقع پر مجھے پندرہ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ،کہ کراچی ٹیلی ویژن کے ایک مشہور خطیب اور میلاد خواں نے میرے ایک تحقیقی مضمون پر، جو شجرہ خاندان نبوت سے متعلق تھا، ایک تنقیدی مضمون لکھا جس میں ہفت روزہ تکبیر کے قارئین کو مرعوب کرنے کے لیے کچھ عربی کتابوں کے جھوٹے حوالے بھی لکھے۔ پھر اس کا جواب میں نے اسی ہفت روزے میں شائع کیا تو انہوں نے اپنے ہمہ دانی کے زعم میں تاریخ بنی امیہ سے متعلق کچھ سوالات اٹھائے جن میں ناصبیت کارنگ تھا، اور اسی طرح کا جارحانہ انداز بیاں اختیار کیا جو یاسین عابد صاحب کا ہے، اورپھر ساتھ ہی مزید جھوٹے حوالے ۔ میں نے اس کا بھی مفصل ومدلل جواب دیا، الحمد للہ کہ اہل علم نے میری تحریروں کو پسند کیا۔ بعض بزرگ میرے پاس تشریف بھی لائے۔ اس طرح وہ تحریری مناظرہ ایک کتابی شکل اختیار کرگیا اور دو سال قبل ’’خانوادہ نبوی وعہد بنی امیہ ‘‘ کے نام سے میرے یہاں سے ہی اشاعت پزیر ہوا۔ اب یہ ایڈیشن تقریباً ختم ہو چکاہے۔

۶۔ آخر میں موصوف نے قارون کی دولت پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اس نے اپنی دولت کی حفاظت، قرضوں کے لین دین اور سودکے حساب کتاب کے لیے منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں کا ایک پورا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ (۲۸:۷۶) ‘‘

مضمون نگار صاحب بائبل کے انداز حوالہ جات سے متاثر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس عبارت کے لیے سورۃ القصص کی آیت نمبر ۷۶ کا حوالہ بائبل کے انداز پر دیا ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کے حوالے سورتوں کے نام اور آیات کے نمبروں سے ہوتے ہیں۔ یہی وہ اسلوب ہے جو اہل علم میں رائج ہے ۔اسی اسلوب پر عصر کی مشہور مجمع اللغۃ العربیہ(عرب لسانیات اکیڈمی) کی ضخیم کتاب ’’معجم الفاظ القرآن الکریم‘‘(دوجلدیں) مرتب کی گئی ہے۔ بہرکیف ان کی بیان کردہ تفصیلات کا مذکورہ آیت میں کوئی ذکر نہیں۔ پھر یہ خیالی گھوڑے کس لیے دوڑائے گئے ہیں؟

انہوں نے اس موقع پر پھر دہرایا ہے کہ قارون کاذکر بائبل میں نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ قارون کانام نہیں لیکن قورح اور قارون اسی طرح تقریبی مشابہت رکھتے ہیں جس طرح مصری تاریخ کا’’ فرعو‘‘ اور بائبل اور قرآن کا’’فرعون‘‘۔ ایسی قریبی مشابہت بنی اسرائیل کے بہت سے قرآنی اور توراتی ناموں میں بھی نظر آتی ہے۔ دونوں جگہ مکمل یکسانیت نہیں ۔ہم قارون اور قورح کے ایک ہی شجرہ نسب اور تقریباً دو ہزار سال قبل کے یہودی مورخ یوسفوس کی کتاب کے حوالے سے ثابت کر چکے ہیں کہ قارون اور قورح ایک ہی شخص ہے۔ اب آخر میں بائبل کے نئے حوالوں سے، جن سے یاسین عابد صاحب یا تو غافل ہیں یا انہوں نے قصداً ان کو چھپا یا ہے ، ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ قورح، موصوف کے بیان کے برخلاف، صحرائے سینا میں نہیں بلکہ مصر میں اپنے محل کے ساتھ زمین میں دھنسا دیاگیا ،جس کی تصدیق قدیم مصری تاریخ کے ماہرین اور علماے آثار قدیمہ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔

بائبل (توراۃ ) کی پانچویں کتاب التثنیہ یا استثنا Deuteronomy)) میں ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکل کر سینا میں دشت نوردی کررہے تھے تو اس دور میں حضرت موسیٰ کے مخالفین ’’داتان اور ابیرام کو جو الیاب بن روبن کے بیٹے تھے ...... سب اسرائیلیوں سمیت زمین نے اپنا منہ پسار کران کے گھرانوں، خیموں اور ہرذی نفس جو ان کے ساتھ تھا، نگل لیا۔‘‘(استثنا ۱۱:۶) یہاں ان زمین میں دھنسائے جانے والوں میں قورح کانام نہیں ،جبکہ کتاب گنتی ۱۶:۳۱،۳۲ میں قورح کانام ہے۔ یہ اسی طرح کا ایک تضاد ہے جس کاذکرہم قورح کے باپ کے نام کے سلسلے میں کر چکے ہیں ، اور اس کاسبب یہ ہے کہ بابل کے کلدانی بادشاہ نبو خذ نصر نے (بائیل کا نبو کدنضر) جو عربی کے اثر سے اردو میں بخت نصر مشہور ہے، یروشلم کو اپنے دوسرے حملے ۵۸۶ قبل مسیح میں بالکل تباہ کردیا تھا، ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیاتھا اور توراۃ کے سارے نسخے جلا دیے تھے۔ تقریباً پچاس سال بعد ایران کے پہلے ہخا منشی (اکمینی) بادشاہ کو روش (بائبل خوروس، کتاب عزرا، انگلش Cyrus) نے یہودیوں کو فلسطین واپس جانے اور دوبارہ ہیکل (معبد) بنانے کی اجازت دی جو دوسرے ہخامنشی شاہ ایران خوشایارخوش (بائیبل، عزرا: ارتخششتا، یونانی و انگریزی Xraxes) کے زمانے میں ۵۱۵ قبل مسیح میں بن سکا اور اسی عہد میں عزرا کاہن نے اپنی یادداشت سے توراۃ (بائیبل عہد قدیم )کو دوبارہ لکھا جس کی وجہ سے اس میں کافی اغلاط اورتضادات پائے جاتے ہیں۔ پھر موجودہ بائبل میں تو اس کے بعد بھی تحریف ہوئی ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں، لیکن اس موضوع اور یہودی تاریخ پر ڈاکٹر احمد شلبی (مصری) کی بہترین کتاب ’الیہودیۃ‘ (قاہرہ، ۱۹۸۴ ) دیکھی جاسکتی ہے۔

بہر حال قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس طرح بائیبل کی کتاب استثنا میں داتن اور ابیرام کے ساتھ قور ح کے زمین میں دھنسائے جانے کاذکر نہیں ،اسی طرح بائبل کی ایک دوسری اہم کتاب زبور میں، جہاں داتن اور ابیرام کے زمین میں دھنسائے جانے کا ذکر ہے، وہاں بھی قورح کانام نہیں۔ زبور ہی بائبل کی وہ کتاب ہے جس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور بنی اسرائیل کے اظہار بندگی کے ترانے ہیں اور ان کے لیے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ان ترانوں میں ہے جن کو بآسانی حفظ کیا جا سکتاہے۔ یہی وہ زبو ر ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کو عطاکی گئی تھی۔

زبور کے مزمور ۱۰۶ میں ہے: ’’ انہوں (بنی اسرائیل ) نے خیمہ گاہ میں موسیٰ اور خدا وند کے مقدس مرد ہارون پر حسد کیا ۔ سو زمین پھٹی اور داتن کو نگل گئی اور ابیرام کی جماعت کو کھاگئی ۔‘‘ (مزمور ۱۰۶:۱۶،۱۷) زبور کی تصریح (یہی مزمور، فقرات ۶تا ۱۵) کے مطابق یہ واقعہ سینا میں پیش آیا ،اور حسد کرنے والے روبن بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے جبکہ موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام اور قورح (قارون) لاوی بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اسی لیے داتن اور ابیرام ودیگر جو اولاد روبن سے تھے، موسیٰ علیہ السلام سے ان کی نبوت کے سبب حسد کرتے تھے۔

قورح کے خسف فی الارض (زمین میں دھنسائے جانے) کا واقعہ اس سے قبل مصر میں ہو چکا تھا۔ قرآن کریم نے کتاب استثنا اور زبور کی روایت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مصر میں تھے کہ قارون (قورح ) اور اس کامحل زمین میں دھنسائے گئے ۔ ورنہ سینا میں تو سارے اسرائیلی خیموں میں رہتے تھے۔ وہاں قورح نے کون سا محل اور کہاں تعمیر کیا تھا؟ اسی لیے بائبل کی مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں داتن اور ابیرام کے گھروں کاذکر نہیں، بلکہ خیموں کاذکر ہے۔

مصر میں قارون (قورح) اور اس کے محل کے زمین میں دھنسنے کاذکر توراۃ کی ایک قدیم شرح مدراش (Midrash) کی روایت میں بھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک بہت بڑا خسف فی الارض رعمسیس اور پتوم میں ہوا جو مصر کے مشہور شہر تھے۔ اس حادثے میں بنی اسرائیل بھی ہلا ک ہوئے۔ (مقالہ قارون، تعلیقہ، دائرۃ المعارف الاسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی (جلد۱۶/۱) بقلم جناب عبد القادر) اس شہر رعمسیس (یا بر رعمسیس ) اور بتوم کا ذکر عظیم مصری مورخ وماہر علم الآثار سلیم حسن کی کتاب ’’مصر القدیمۃ‘‘ (جلد ۶) میں بھی ہے۔ اردو دائرۃ المعارف الاسلامیہ ،پنجاب یونیو رسٹی میں مقالہ ’قارون‘ پر تعلیقہ (نوٹ)لکھنے والے عبدالقادر صاحب کاCommentory on the Bible, Peake 1952 کے حوالے سے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قارون کے بارے میں دو الگ الگ کہانیوں کو کسی بعد کے مرتب نے یکجا کر دیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس قسم کے دو حادثے ہوئے تھے۔ مرور زمانہ کے باعث قورح (قارون) کی کہانی داتن اور ابیرام کے حادثے کے ساتھ جوڑدی گئی۔

یہ ہے وہ بائبل اور قورح سے متعلق اس کے متضاد بیانات جن کو یاسین عابد صاحب نے مستند مانا ہے اور صرف کتاب گنتی وخروج کے حوالے دے کر قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم نے قدیم وجدید عرب وغیر عرب مفسرین کے اقوال اور بائبل کی دوسری کتابوں (استثنا اور زبور) کے حوالوں سے ثابت کردیا ہے کہ قرآن کاقارون ہی بائبل کا قورح تھا۔ جناب ناقد کی غلط بیانیوں کابھانڈا بھی پھوٹ گیا ہے ،اور ساتھ ہی بائبل جس کو ’کتاب مقدس‘ کانام دیا جاتاہے، اس کی حقیقت بھی سامنے آگئی ہے۔ 

آراء و افکار

(مارچ ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter