آپ کو کوئی کتاب خریدنی یا لائبریری سے جاری کروانی ہے تو ذرا سوچ سمجھ کر کروائیے۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی، آرویلین نیمڈ پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت آپ کی نگرانی کر سکتا ہے۔ اس قانون کی ایک اور شق کے مطابق اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو خبردار کرے کہ حکومت آپ کے کتابوں کے انتخاب کی نگرانی کر رہی ہے تو اس پر فوجداری مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
کلاس روم میں مطالعے کے لیے مواد تجویز کرتے وقت بھی احتیاط کیجیے۔ چیپل ہل کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا پر امریکن فیملی اسوسی ایشن سنٹر فار لا اینڈ پالیسی نے اس بنیاد پر مقدمہ دائر کر دیا تھا کہ اس میں نئے آنے والے طلبہ کے سامنے اسلام کا مختصر تعارف کرانے کی اسائنمنٹ دی گئی تھی۔ خوش قسمتی سے یونیورسٹی اپنے موقف پر سختی سے قائم رہی اور کورٹ آف اپیلز نے مقامی سیاست دانوں اور یونیورسٹی کے بعض ٹرسٹیز کے زائد حملوں کے باوجود مقدمہ خارج کر دیا۔
اس ضمن میں بھی محتاط رہیے کہ آپ اشاعت کے لیے کون سے مضامین قبول کر رہے ہیں۔ یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول نے فروری ۲۰۰۴ میں فیصلہ کیا کہ امریکی اشاعتی ادارے ان ممالک میں تصنیف کیے جانے والے کاموں کو ایڈٹ نہیں کر سکتے جن پر تجارتی پابندیاں عائد ہیں، جن میں ایران، عراق، سوڈان، لیبیا اور کیوبا شامل ہیں۔ خلاف ورزی کے نتیجے میں ایک ملین ڈالر تک جرمانہ اور دس سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
جو کچھ آپ پڑھا رہے ہیں، اس میں بھی احتیاط برتیے۔ خزاں ۲۰۰۳ میں امریکی ایوان نمائندگان نے متفقہ طور پر قرارداد نمبر ۳۰۷۷ منظور کر کے ایک ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا جو دنیا کے مختلف خطوں کے مطالعہ کے لیے قائم مراکز کی نگرانی کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ مراکز ’’قومی مفاد‘‘ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگرچہ قانون کا اطلاق تمام ان مراکز پر ہوگا جن کو وفاقی ٹائٹل وئی آئی پروگرام کے تحت امداد ملتی ہے، لیکن اس کا ہدف واضح طور پر ملک کے وہ سترہ مراکز ہیں جو مشرق وسطیٰ کے مطالعے کے لیے مخصوص ہیں۔ دی اسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹی پروفیسرز، دی امریکن سول لبرٹیز یونین، دی مڈل ایسٹ سٹڈیز اسوسی ایشن اور بیشتر پیشہ ور تنظیموں نے حکومت کی جانب سے کلاس روم میں اس طرح کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی کوئی مثا ل ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے خدشات میں بورڈ کے لا محدود تفتیشی اختیارات، جواب دہی کا فقدان اور بورڈ کی ہیئت تشکیلی ہے، کیونکہ اس کے کچھ ارکان ملک کی حفاظت کی ذمہ دار دو ایجنسیوں سے لیے جائیں گے۔ اگر قرارداد نمبر ۳۰۷۷ کو امریکی سینٹ بھی پاس کر دیتی ہے تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک تفتیشی باڈی کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کلاس روم کی نگرانی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرے کہ مثال کے طور پر کون سا لیکچر متنوع اور متوازن ہے اور کون سا نہیں۔ اس کے نتیجے میں پیشہ ورانہ تعلیمی معیار کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا اور اس کی جگہ سیاسی معیار لے لے گا۔
اس کی بھی احتیاط کیجیے کہ آپ کلاس میں یا کیمپس کے باہر کیا کہہ رہے ہیں۔ امریکن کونسل آف ٹرسٹیز اینڈ ایلمنی نے، جس کی بانی نائب صدر ڈک چینی کی اہلیہ لن چینی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینٹر اور سابق نائب صدارتی امیدوار جوزف لائبرمین ہیں، ’’تہذیب کا تحفظ: یونیورسٹیاں کیسے امریکہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟‘‘کے عنوان کے تحت ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یونیورسٹیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمزور کردار ادا کر رہی ہیں اور یہ کہ وہ دشمن کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر ۱۱۷؍ امریکہ مخالف پروفیسروں اور ان کے ایسے ناگوار ریمارکس کی فہرست شائع کی گئی ہے جو انھوں نے مبینہ طور پر دیے۔
اگر آپ فورڈ یا راک فیلر فاؤنڈیشن سے امداد کے لیے درخواست دینا چاہتے ہیں تو بھی احتیاط کیجیے۔ آپ سے نئے انداز سے بنائی گئی امدادی درخواستوں پر دستخط کے لیے کہا جائے گا جو آپ کو اور آپ کی تنظیم کو اس بات کا پابند کریں گی کہ، اگر آپ فورڈ فاؤنڈیشن سے امداد لینا چاہتے تو آپ ’’تشدد، دہشت گردی، تنگ نظری، یا کسی ملک کی تباہی‘‘ میں ملوث نہ ہوں۔ جو لوگ فلسطین اسرائیل تنازع کے حوالے سے ۱۱ ستمبر سے بہت پہلے سے جاری عمومی مباحثے سے واقف ہیں، وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ اس نئی اصطلاح کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ان کے لیے یہ بات ہرگز حیرانی کا باعث نہیں ہوگی کہ درخواستوں میں یہ تبدیلیاں اسرائیل کی حامی کئی یہودی تنظیموں کی تنقید کے باعث اور پھر ان کے مشورے سے کی گئی ہیں جو اس بات پر ناراض تھیں کہ انسانی حقوق کے کچھ گروپ جنھوں نے جنوبی افریقہ میں ڈربن کانفرنس کے موقع پر اسرائیل پر سخت تنقید کی تھی، انھیں فورڈ اور راک فیلر کی طرف سے امداد ملی ہے۔ اس اصطلاح کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کی شرائط واضح اور متعین نہیں ہیں۔ کیا اگر کسی لیکچر میں کسی اسلام پسند تنظیم مثلاً حزب اللہ کے لبنان کے سیاسی نظام میں حصہ لینے کے حق کی حمایت کی جائے تو اس کو دہشت گردی کا فروغ قرار دیا جائے گا؟ کیا اگر کسی ریسرچ میں اسرائیل اور فلسطین پر مبنی ایک دو قومی ریاست قائم کرنے کے حق میں دلائل دیے گئے ہوں تو اس پر اسرائیل کی تباہی کا پیغام پھیلانے کا الزام لگا دیا جائے گا؟ باوقار یونیورسٹیوں مثلاً ہارورڈ، ییل، پرنسٹن، مارنل، کولمبیا، سٹین فورڈ، دی یونیورسٹی آف پنسلوینیا، میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اور دی یونیورسٹی آف شکاگو نے اس زبان پر اعتراض کیا ہے جس پر بعض معمولی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ تاہم یہ اتنی معمولی ہیں کہ ACLU نے، جو امریکہ میں شہری حقوق کی ایک بڑی تنظیم ہے، حال ہی میں فورڈ کی طرف سے ایک ملین ڈالر کی اور راک فیلر کی طرف سے ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی امداد مسترد کر دی ہے۔ ACLU کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ ’’ایک افسوس ناک دن ہے کہ اس ملک کے دو نہایت محبوب اور قابل احترام ادارے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خوف اور ہراس کی ایک ایسی فضا میں کام کر رہے ہیں جس میں وہ اپنے ہزاروں وصول کنندگان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امداد حاصل کرنے کے لیے مبہم شرائط کو قبول کریں جس سے شہری آزادیوں پر سخت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے بھی محتاط رہیے۔ نجی طور پر مالی امداد سے چلنے والی تنظیموں کی طرف سے ’’ٹیک بیک دی کیمپس‘‘ مہموں میں ان طلبہ اور اساتذہ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جن کا تعلیمی یا ثقافتی طور پر مسلمانوں یا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلق ہے۔ ان میں سے کچھ تنظیمیں کھلے بندوں طلبہ کو اپنے اساتذہ اور ساتھی طلبہ کی مخبری کا کام سونپتی ہیں جن کو پھر سامی مخالف ہونے کے الزام میں نکال دیا جاتا ہے۔ یہ جنگ محض لفظوں تک محدود نہیں ہے، بہت سے پروفیسروں کو، جن پرجھوٹے الزامات عائد کیے گئے، خود ان کی اپنی یونیورسٹیوں اور میڈیا کی طرف سے تذلیل اور کردار کش تفتیشوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بڑے بڑے چندہ دہندگان کو متحرک کر کے یونیورسٹی کے منتظمین، مثال کے طور پر ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ،پر دباؤ ڈلوایا گیا ہے کہ وہ ایسے بیانات جاری کریں جن میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کو موثر طور پر سامیت دشمنی کے مترادف قرار دیا گیا ہو۔
اگر آپ امریکی شہری نہیں ہیں اور تدریس یا تعلیم کے لیے امریکہ جا رہے ہیں تو بھی احتیاط کیجیے۔ اگر آپ امریکی پالیسیوں کے بارے میں ناقدانہ خیالات رکھتے ہیں تو آپ کا ویزا کینسل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ پروفیسر طارق رمضان کے کیس میں ہو چکا ہے۔ سیاسی پروفائلنگ (کسی شخص کے قومی، نسلی یا مذہبی پس منظر کی بنیاد پر بوقت ضرورت نئی پالیسیوں کے نفاذ) کی بنا پر غیر امریکیوں کے امریکہ میں پہلی مرتبہ یا دوبارہ داخلے میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے تعلیمی پروگراموں میں خلل واقع ہوا ہے اور امریکہ میں غیر ملکی گریجویٹ طلبہ کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ جن طلبہ کو ویزا مل جاتا ہے، ان کے تعلیمی اداروں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ ان طلبہ کی نگرانی کریں اور سرکاری ایجنسیوں کو ریگولر رپورٹیں جمع کروائیں۔ ان تمام پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ کے تعلیمی ماحول کا پورا بین الاقوامی عنصر ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
(ISIM Review, Spring 2005)