مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار کون؟

مولانا محمد یوسف

روئے زمین پر سب سے محترم ومقدس مقامات مساجد ہیں۔ جناب نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: احب البلاد الی اللہ مساجدہا ۔ ان مساجد میں سے بعض ایسی ہیں جن کو کسی نہ کسی وجہ سے امتیازی مقام حاصل ہے۔ روئے زمین پر قائم تین مساجد ایسی ہیں جن کی طرف تقرب الٰہی کے حصول کی نیت سے باقاعدہ دور دراز سفر کر کے جانے کی ترغیب خود نبی اکرم ﷺ نے دی ہے۔ ارشاد گرامی ہے: لا تشد الرحال الا الی ثلثۃ مساجد المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی۔

درج بالا حدیث مبارکہ میں مسجد حرام اور مسجد نبوی کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کو بھی مقدس مقام شمار کیا گیا ہے۔ اس کی عظمت نہ صرف مسلمانوں کی نگاہ میں ہے بلکہ یہود ونصاریٰ بھی اس کو مقدس مانتے ہیں۔ جب بھی کوئی مسلمان سورۃ اسرا کی تلاوت کرتا ہے، اس کے قلب میں اس مقام کا تقدس وجلال اثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ 

اس مقدس مسجد کو خداے واحد کی پرستش کے لیے سب سے پہلے حضرت یعقوب نے تعمیر کیا۔ بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ، دنیا میں سب سے پہلی مسجد کون سی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، مسجد حرام۔ ابو ذر غفاریؓ نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سی مسجد عالم وجود میں آئی؟ آپ نے فرمایا، مسجد اقصیٰ۔ ابو ذرؓ نے تیسری مرتبہ سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان مدت کس قدر ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، دونوں کے درمیان چالیس سال کی مدت ہے۔ (بخاری، کتاب الانبیاء)

جس طرح حضرت ابراہیم نے مسجد حرام کی تعمیر کی اور وہ مکہ مکرمہ کی آبادی کا باعث بنی، اسی طرح حضرت یعقوب نے مسجد بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان کے حکم سے اس مسجد کی جدید تعمیر کی گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد اقصیٰ کی عظمت مسلمانوں اور یہود دونوں کے ہاں مسلم ہے تو اس کی تولیت کا حق کس کو ہے؟ اگر خاندانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق یہود کو حاصل ہے کیونکہ وہ حضرت یعقوب کی اولاد ہیں۔ حضرت یعقوب کے بڑے بیٹے یہودا کی نسبت سے ان کو یہودی کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر نظریہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کے حصے میں آتا ہے کیونکہ قرآن وحدیث کی رو سے انبیا کے نظریاتی وارث مسلمان ہیں نہ کہ یہود۔ ذیل میں اس موقف کو قرآن کریم کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔ 

یہودی، اور اسی طرح نصاریٰ اور مشرکین، خود کو ملت ابراہیمی کا وارث قرار دیتے تھے۔ یہی دعویٰ مسلمانوں کا تھا۔ قرآن کریم نے یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے اس دعوے کی واضح انداز میں تردید کی اور مسلمانوں کو ملت ابراہیمی کا اصلی وارث قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَاکَانَ اِبْرَاہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیاًّ وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ O اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُوْمِنِیْنَ O (آل عمران )
’’حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک موحد مسلم تھے اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھے۔ ابراہیم سے نسبت رکھنے کا حق اگر کسی کوپہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اب یہ نبی (حضرت محمد ﷺ) اور ان کے ماننے والے اس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ صرف انہی کا حامی ومددگار ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘

درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا تعلق حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑا ہے۔ یہ تعلق نظریے کی بنیاد پر ہے نہ کہ خاندان کی بنیاد پر۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ انبیا کی تعلیمات کے وارث مسلمان ہیں نہ کہ یہود ونصاریٰ۔ جس طرح مسلمان انبیا کے نظریات کے وارث ہیں، اسی طرح ان کی قائم کردہ عبادت گاہوں کے بھی وارث ہیں۔

بنی اسرائیل حضرت یعقوب کی اولاد ہیں اور اسی بنیاد پر وہ حضرت یعقوب کو یہودی قرار دیتے تھے اور خود کو حضرت یعقوب کا وارث۔ اللہ تعالیٰ نے محض خاندان کی بنیاد پر حضرت یعقوب کے ساتھ یہود کے اس قائم کردہ تعلق کی نفی فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَمْ تْقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ کَانُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی قُلْ ءَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہُ مِنَ اللّٰہِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ O (البقرہ )
’’یا پھر تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراہیم واسمٰعیل واسحق ویعقوب اور اولاد یعقوب سب کے سب یہودی تھے یا نصرانی تھے؟ کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ؟ ا س شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔ تمہاری حرکات سے اللہ تعالیٰ غافل تو نہیں ہیں۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ خاندان کی بنیاد پر یہود نے حضرت یعقوب کے ساتھ اور دیگر انبیا کے ساتھ جو تعلق قائم کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی ہے۔ یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق معمار اول حضرت یعقوب کے ساتھ نظریاتی تعلق کی وجہ سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کے ساتھ ان کے اس نظریاتی تعلق کی نفی فرما دی جو حق تولیت کی بنیاد ہے تو حق تولیت کی نفی خود بخود ہو گئی کیونکہ انبیا کی وراثت نظریے کی بنیاد پر ہوتی ہے نہ کہ خاندان کی بنیاد پر۔ جس طرح انبیا کے نظریات کے وارث مسلمان ہیں، اس طرح انبیا کی تعمیر کردہ عبادت گاہوں کے وارث بھی مسلمان ہیں۔

حدیث رسول سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیا کے ساتھ تعلق اور انبیا کا وارث قرار پانا نظریے کی بنیاد پر ہے نہ کہ خاندان کی بنیاد پر۔ مسلم شریف کی حدیث ہے کہ جب سرکار دو عالم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہود یوم عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں۔ جب یہود سے یوم عاشورا کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو یہود نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا، یعنی حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون کو غرق کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: 

نحن اولی بموسیٰ منکم فامر بصومہ۔
’’ہم تمہاری نسبت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔‘‘

پس آپ نے اپنے پیروکاروں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کس وجہ سے یہ ارشاد فرمایا کہ ہم موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں؟ خاندانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہود کا تعلق حضرت موسیٰ سے زیادہ قریبی ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے، اس کے باوجود آپ نے یہ ارشاد فرمایا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضور کے پیش نظر نظریے کی قربت ہے نہ کہ خاندان کی۔ چنانچہ آج بھی مسلمان یوم عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، البتہ یہود کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے سرکار دو عالم کے حکم کے مطابق دس محرم کے ساتھ نو محرم یا گیارہ محرم کا روزہ بھی ملایا جاتا ہے۔

یہودی تو خود کو جن انبیا کا پیروکار کہتے ہیں، ان مقدس انبیا پر نعوذ باللہ ایسے الزامات عائد کرتے ہیں کہ ان کے تصور سے ہی جسم میں جھرجھری پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا یہود کا ان انبیا پر ایسے الزامات عائد کرنے کے بعد بھی مسجد اقصیٰ پر تولیت کا کوئی مذہبی یا اخلاقی حق باقی رہ جاتا ہے؟ حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی جدید تعمیر کی۔ یہود نے ان کے والد محترم حضرت داؤد کے پاکیزہ دامن پر ایسا الزام لگایا جس کی توقع کسی بھی شریف آدمی سے نہیں کی جا سکتی۔ کیا حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی جدید تعمیر ایسے ہی لوگوں کی تولیت کے لیے فرمائی تھی؟ 

اگر بیت المقدس پر یہودیوں کے حق تولیت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر آج کے مشرکین بھی بیت اللہ پر تولیت کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک ہندو نوجوان کا مقالہ نظروں سے گزرا جس نے اپنا زور تحقیق اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے صرف کیا کہ خانہ کعبہ کی تولیت کا حق ہندوؤں کا ہے۔ اس محقق نوجوان نے بخاری شریف کی روشنی میں فتح مکہ کا حوالہ دیتے ہوئے خانہ کعبہ کا نقشہ کھینچا کہ جب مسلمانوں نے مکہ فتح کیا تو وہاں بتوں کی پرستش ہوتی تھی، لوگ دیوتاؤں کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے تھے، صفا اور مروہ پر اساف اور نائلہ نامی بت نصب تھے۔ مگر جب مسلمانوں نے مکہ فتح کیا اور خانہ کعبہ ہمارے آباو اجداد سے چھینا تو مسلمانوں نے ہمارے دیوتاؤں کی بے حرمتی کی اور ہمارے دیوتاؤں کو ہماری عبادت گاہ سے نکال دیا۔ اس وقت سے آج تک خانہ کعبہ مسلمانوں کے قبضے میں چلا آ رہا ہے، لہٰذا اخلاقی طور پر مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خانہ کعبہ پر اپنا ناجائز قبضہ ختم کر کے اس عبادت گاہ کو ہمارے حوالے کریں۔ میرا قارئین سے سوال ہے کہ کیا اس نوجوان ہندو محقق کے اس دعویٰ کو قبول کر لیا جائے گا؟ یقیناًکوئی مسلمان بھی اس دعوے کو قبول کرنے کے لیے کسی صورت بھی تیار نہیں ہو سکتا، کیونکہ معمار کعبہ حضرت ابراہیم نے اس کو خداے واحد کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا، نہ کہ بتوں اور دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کے لیے۔

یہاں ممکن ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ خانہ کعبہ پر مشرکین کے حق تولیت کو تو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا ہے لیکن مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کو منسوخ نہیں کیا لہٰذا قرآن کریم کے حکم کے مطابق مشرکین کے حق تولیت کو تو منسوخ سمجھا جائے گا، لیکن مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کو منسوخ نہیں سمجھا جائے گا۔

اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت مشروط طور پر عطا فرمائی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

یٰبَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ وَاِیَّایَ فاَرْہَبُوْنِ O (البقرہ )
’’اے بنی اسرائیل، میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں۔ میرے عہد کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔‘‘

مسجد اقصیٰ پر یہود کی تولیت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی۔ درج بالا آیت میں اس عہد سے مراد احکام الٰہی کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ لیکن جب یہود نے احکام الٰہی کی نافرمانی کی تو ان کی اس نافرمانی کی وجہ سے بابل کے بادشاہ بخت نصر کو ان پر مسلط کر دیا گیا جس نے یہود کو ارض مقدس سے جلاوطن کر دیا۔ بعد ازاں انبیا نے بنی اسرائیل کو خدا تعالیٰ سے توبہ وتضرع کی تلقین کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا اور ایرانیوں کے عہد میں ارض مقدس کی تولیت دوبارہ ان کو عطا ہوئی لیکن یہود نے احکام الٰہی کی نافرمانی کے سبب مسلط ہونے والے عذاب سے کوئی سبق نہ سیکھا اور اپنی سابقہ روش کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی تو بطور سزا کے ان پر رومیوں اور یونانیوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے یہود کا قتل عام کیا، مسجد اقصیٰ کو جلا دیا اور جلا وطن یہودی ایک بڑی تعداد میں انتہائی مایوسی کے عالم میں ارض مقدس کو چھوڑ کر مدینہ منورہ اور اس کے ارد گرد آکر آباد ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا انتظار کرنے لگے۔ آنحضرت کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آخری موقع دیا کہ وہ تورات کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے آخری نبی پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں گے ورنہ اگر یہود نے اپنی سابقہ روش اختیار کی تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو ماضی میں ہو چکا ہے کہ ان کی نافرمانی کے باعث مسجد اقصیٰ سے دو مرتبہ ان کی تولیت کو ختم کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْرًا O (بنی اسرائیل)
’’(اب محمد ﷺ کی بعثت کے بعد) ممکن ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے اور اگر پھر تم نے ویسا ہی کیا تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے اور حق کے منکروں کے لیے ہم نے جہنم کا احاطہ بنا رکھا ہے۔‘‘

لیکن یہود نے اللہ تعالیٰ کی اس عطا کردہ مہلت سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کا نہ صرف انکار کیا بلکہ دشمنی پر اتر آئے۔ نہ صرف مدینہ منورہ اور خیبر سے ان کو جلاوطن کیا گیا بلکہ سیدنا فاروق اعظم کے دور خلافت میں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس بجائے یہود کے مسلمانوں کو عطا فرمایا۔

امت مسلمہ کے محققین نے جن مختلف دلائل کی بنیاد پر بیت المقدس کی تولیت کا حق امت مسلمہ کے لیے ثابت کیا ہے، ان سب کو اگر ذکر کیا جائے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔ لہٰذا بطور مثال کے صرف ایک دلیل کو تحریر کر کے کچھ تبصرہ کیا جاتا ہے۔

سید سلیمان ندویؒ اپنی کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ کی جلد سوم میں ’’قرآن مجید اور معراج‘‘ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں:

’’آپ کو دونوں قبلوں کی تولیت تفویض ہوئی اور نبی القبلتین کا منصب عطا ہوا۔ یہی نکتہ تھا جس کے سبب سے آنحضرت کو کعبہ اور بیت المقدس دونوں طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا، اسی لیے معراج میں آپ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی صف میں آپ کو امامت پر مامور کیا گیا تاکہ آج اس مقدس دربار میں اس کا اعلان عام ہو جائے کہ دونوں قبلوں کی تولیت سرکار محمدی کو عطا ہوتی ہے اور نبی القبلتین نامزد ہوتے ہیں۔‘‘

معراج کا مقدس سفر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار اور رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔ مسجد اقصیٰ میں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کو جمع فرمایا اور رسول اللہ ﷺ کو ان کا امام بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ مسجد اقصیٰ میں رسول اللہ ﷺ کو انبیا کی امامت پر مامور کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ انبیاء کرام سے لیے گئے وعدے لَتُوْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہُ (البتہ تم ضرور بضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے) کا عملی اقرار ہو جائے اور دوسری یہ حقیقت ثابت ہو جائے کہ بانیان مسجد اقصیٰ کی موجودگی میں آپ کا امامت کے لیے بحکم خداوندی کھڑا ہونا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آپ کی موجودگی میں جس طرح کوئی نبی مصلاے امامت پر نہیں کھڑا ہو سکتا، اسی طرح آپ کی امت کی موجودگی میں کوئی دوسری امت مسجد اقصیٰ کے مصلے پر نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اس لیے آپ نے نہ صرف خود نماز پڑھائی بلکہ اپنی امت کو بھی اس میں نماز پڑھنے کی تعلیم وترغیب دی۔ ارشاد نبوی ہے:

بیت المقدس ارض المحشر والمنشر ایتوہ وصلوا فیہ فان صلوۃ فیہ کالف صلوۃ فی غیرہ (کنز العمال)
’’بیت المقدس حشر ونشر کی زمین ہے (قیامت برپا ہونے کا میدان سرزمین مقدس ہوگی) اس سرزمین میں جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ اس میں ایک نماز (مسجد حرام اور مسجد نبوی کے سوا) دیگر مقامات میں ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔‘‘

کسی مذہب کے راہنما کا کسی عبادت گاہ میں نماز ادا کرنا اور اپنے متبعین کو اس میں عبادت کی تلقین کرنا اور اس عبادت گاہ میں کی جانے والی عبادت کو ہزار گنا فضیلت والی عبادت قرار دینا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ وہ اس کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ اگر خاندان کی بنیاد پر یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق ہوتا تو سرکار دو عالم مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے کی ترغیب کیوں دیتے؟ کیا آپ نے اپنی پوری حیا ت طیبہ میں کسی بھی یہودی عبادت گاہ میں کوئی نماز پڑھی یا اہل ایمان کو اس کی ترغیب دی؟ اگر آپ نے کسی یہودی عبادت گاہ میں نہ خود نماز پڑھی اور نہ اہل ایمان کو اس کی ترغیب دی تو بیت المقدس میں آپ کے نماز پڑھنے اور اپنے متبعین کو اس میں نماز پڑھنے کی تلقین کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا حق تصور کرتے ہوئے وہاں نماز پڑھنے کی ترغیب دی۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو فاروق اعظمؓ کی دو رس نگاہ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر بھانپ لیا تھا۔ فتح بیت المقدس کی پوری تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم یہاں صرف ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فاروق اعظمؓ کی نظر میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کو ہے نہ کہ یہود کو۔

فتح بیت المقدس کے بعد حضرت عمر فاروق رات کے وقت بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں حاضری دی اور محراب داؤد میں دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی اور پھر صبح کو اسی مقام پر باجماعت نماز فجر ادا کی۔ آپ نے عیسائیوں کے مشہور کنیسہ قیامہ کی بھی سیر کی۔ دوران سیر نماز کا وقت آ گیا۔ بطریق نے جو آپ کے ساتھ تھا، عرض کیا کہ یہیں نماز پڑھ لیجیے مگر آپ نے پیش کش قبول نہ کی اور باہر نکل کر سیڑھیوں پر تنہا نماز ادا کی۔ آپ نے بطریق سے کہا، ’’اگر میں یہاں نماز پڑھ لیتا تو میرے بعد مسلمان اس کنیسہ کو تم سے چھین لیتے کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز پڑھی تھی۔‘‘ پھر آپ نے بطریق کو اس مضمون کی ایک تحریر لکھ کر دے دی کہ گرجا کی سیڑھیوں پر بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کی جائے اور نہ اذان دی جائے۔ (تاریخ ملت، جلد اول، ص ۲۷۲)

آخر کیا وجہ ہے کہ فاروق اعظمؓ مسجد اقصیٰ میں دو رکعت تحیۃ المسجد بھی ادا فرماتے ہیں اور نماز فجر بھی باجماعت پڑھتے ہیں لیکن عیسائیوں کے مشہور کنیسہ قیامہ میں نماز کا وقت ہونے کے باوجود اور بطریق کی پیش کش کے باوجود وہاں نماز ادا نہیں فرماتے بلکہ سیڑھیوں پر تنہانماز ادا فرماتے ہیں؟ پھر سیڑھیوں پر تنہا نماز پڑھنے کے بعد یہ مضمون بھی تحریر فرما دیتے ہیں کہ سیڑھیوں پر بھی جماعت کی نہ نماز ادا کی جائے اور نہ اذان دی جائے۔ اگر آپ بیت المقدس پر یہود کی تولیت کا حق تسلیم فرماتے تو کیا وہاں نماز باجماعت ادا فرماتے؟ سیدنا عمرؓ فاروق نے اس طرز عمل سے ا س حقیقت کو عملی طور پر ثابت کیا کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے جو مذہبی عبادت گاہیں خود تعمیر کی ہیں، ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں، لیکن جہاں تک مسجد اقصیٰ کا معاملہ ہے، اس کی تولیت کا حق مسلمانوں کو ہے۔ اس مقدس مسجد کو ہرگز یہود کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ محض چند تاریخی واقعات اور تورات کی بعض عبارات کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ کی مغضوب وملعون قوم کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔

آراء و افکار

(دسمبر ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter