اس وقت عالمِ اسلام اور وطنِ عزیز کی ناگفتہ بہ حالت کے معروضی تجزیے کے لیے جس اخلاقی جرات اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے، شاید اس سے دیدہ و دانستہ پہلو تہی برتی جا رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر قومی و ملی مورال گرتا جا رہاہے۔ عوام الناس آنکھوں میں سینکڑوں سوالات لیے قائدین کی طرف دیکھ رہے ہیں ، جو اب بھی ایڑیاں اٹھا اٹھا کر’ قد آور‘ ہونے کی ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ ان کی اپنی سوچ محدود، منتشر اور غیر منظم ہے۔ ان نام نہاد قائدین نے جماعت، طبقہ، ذات، حیثیت، نسل اور مسلک وغیرہ جیسی خواہشات سے دب کر اپنے نظریات اور کمٹ منٹ کو انتہائی منفی حد تک متاثر کیا ہے۔ وہ حقائق جاننے سے قبل ہی فیصلہ سنا دینے کے عادی ہو چکے ہیں، کسی کام کے دور رس نتائج کو بھانپے بغیر ہی اسے ناکام یا کامیاب قرار دیتے ہیں اور کسی صورتِ حال کا سامنا کرتے وقت ’’ادراک‘‘ مکمل ہونے سے قبل ہی آخری قدم اٹھا بیٹھتے ہیں۔ اب بات اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان قائدین کواپنے فکری انتشاراور عملی تضادات کا احساس تک نہیں رہا (۱)، لہٰذاوہ دن قریب ہیں جب عوام الناس حدِ نظرتک پھیلی ہوئی مایوسی کے ردِعمل میں کوئی اور پلیٹ فارم ڈھونڈ لیں گے۔
اس زبوں حالی کی وجوہ اورحقائق جاننے کے لیے اگر ہم تاریخ کے آئینے سے مدد لیں تو عیاں ہوگا کہ صنعتی انقلاب (۲) کے بعد دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پرقائم نوآبادیاتی نظام (۳) ’’منظم سامراجیت‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوا (۴) جس سے ایک طویل استحصالی سلسلہ شروع ہوا اوراس وقت کے یورپ میں قومی ریاستوں کی باہمی آویزش سے ’’کثیر قطبی‘‘دنیا سامنے آئی (۵)۔ شاید ان دنوں ایسے مواقع موجود تھے کہ دانش مندانہ حکمتِ عملی سے ابھرتے ہوئے نوآبادیاتی نظام کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکا جا سکتا اور اسلامی دنیا یورپ کی قومی ریاستوں سے ’’متوازن تعلقات‘‘ قائم کر کے ’’بچاؤ اور پیش قدمی‘‘ کی کوئی راہ تلاش کر لیتی۔ اس حوالے سے فقط برِصغیر پاکستان وہند میں ٹیپو سلطان (۶)کے ہاں ہی بالغ نظری اور درکارسیاسی عزم(Required Political Will) کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس دور کے قائدین کی افسوس ناک حد تک ’’غیر منظم فکر ‘‘ نے ٹیپو کی آواز پر کان نہ دھرا، اور یہ سرمایہ دارانہ نظام (جو اپنی فطرت میں کھٹمل سے مشابہ ہے)، انیسویں صدی کے آخر تک اپنے ’’سامراجی مظہر‘‘ کے ساتھ عالمِ انسانیت کوہڑپ کر گیا۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اس ’’کھٹملی فکر‘‘ کے سرخیل انگریزوں نے طاقت کے نشے سے مخمور ہو کر نہ صرف چینیوں کو افیون خریدنے اور کھانے پر مجبور کیا (۷)، بلکہ مذہب کو بھی لوٹ کھسوٹ کے لیے شرمناک حد تک ’استعمال‘ کیا(۸)۔ اہم بات یہ ہے کہ برِصغیر پاکستان وہندمیں ٹیپوسلطان کی مجاہدانہ تزویراتی کوششوں سے قبل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (۹) فکری سطح پر ’’منظم اور مربوط‘‘ کام کر چکے تھے۔ اگر شاہ صاحب کی فکر کو طاقِ نسیاں کی زینت بنانے کی بجائے عملی سطح پر ’’شعوری تحریک‘‘ کی صورت میں پھیلایا جاتا تو کھٹملی فکر کو بر وقت لگام دینے کا سہرا برِ صغیر کے مسلمانوں کے سر بندھتا۔ لیکن شاہ صاحب ؒ کو کوئی لینن، کوئی گورکی نہ مل سکا۔
بہرحال !تاریخ کا سفر جاری رہا اور 1857 میں سامراجیت کے خلاف جنگِ آزادی کے بعد برِ صغیر میں مسلمانوں کے دو گروہ منظرِ عام پر آئے۔ ایک نے انگریزوں کی ہم نوائی کی اور دوسرے نے تصادم کا راستہ چنا۔ علی گڑھ تحریک کا محور مسلمانوں کی’تعلیمی و معاشی‘ ترقی تھا (۱۰) ، جس کے حصول کے لیے سیاست سے قطع تعلق کرنے کو ترجیح دی گئی۔ اس کے برعکس رویہ مدرسہ دیوبند کاتھا جس نے سامراجیت کو کھلے بندوں چیلنج کیا۔ تاریخ کے اسی دور میں ’کھٹملی فکر‘ کو نکیل ڈالنے کے لیے ’مارکس ازم ‘ سامنے آیا جس نے سرمایہ داروں کی انسانیت دشمنی سب پر ظاہر کردی۔ وقت نے بیسویں صدی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو دہلیز پر علی گڑھ تحریک کی سیاسی جہت ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کو برِ صغیر میں کھٹملی فکر کے علمبرداروں کا ہم نوا پایا۔ اسی صدی کی دوسری دہائی میں جناح کی مسلم لیگ میں شمولیت کے ساتھ ہی اس کے منشور میں تبدیلی ہوئی اور لیگ ’’سیاسی وژن‘‘کی حد تک سامراج مخالف ہوگئی، اگرچہ اس کی معاشی ’’آؤٹ لک‘‘ سامراج موافقت پر مبنی رہی۔ دیوبند مکتبہ فکر کا ’’خانقاہی گروہ‘‘ بھی لیگ کی اس اپروچ کا ہم نوا بن گیا۔ دوسری طرف وہ لوگ جو سامراجیت کی اصل نوعیت کو سمجھتے تھے، انہوں نے ’’ریشمی خطوط‘‘ جیسی تحاریک کے ذریعے ’کلی آزادی‘ حاصل کرنے کی کوشش کی (۱۱)۔
تاریخ کا دھارا بہتا رہا ۔ دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں برطانیہ فتح یاب ہونے کے باوجود اس پوزیشن میں نہ رہا کہ برِ صغیر پر قبضہ برقرار رکھ سکے اور 1947 میں اسے یہاں سے جانا پڑا۔1945میں جاپان ، جرمنی اور اٹلی کی شکست کی صورت میں عالمی جنگ کے خاتمے سے قبل ہی عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مدبرین نے بھانپ لیاتھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے۔اس لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جاپان پر گرائے جانے والے بم ’ جنگ کا تقاضا‘ نہیں تھے، بلکہ اس کے ذریعے ایک سوویت یونین کو، جو اس وقت امریکہ کا اتحادی تھا، وارننگ دینا مقصود تھااور دوسرا بموں کی ٹیسٹنگ بھی۔ اس اعتبار سے سامراجیوں کی حکمتِ عملی بہت کامیاب رہی کہ بوقتِ ضرورت سوویت یونین سے اتحاد کر کے فوری خطرے کا تدارک کیا اور اس کے دوران ہی سوویت یونین سے پنجہ آزمائی کی حکمت عملی بھی تیار کر لی(۱۲)۔
1947 میں پاکستان کے ظہور میں آنے کے بعد کلی آزادی کے علمبردار پس منظرمیں چلے گئے اورسرمایہ دارانہ فکرکے ہم رکاب (Pro-Capitalist) امورِ سلطنت پر چھا گئے ۔پراپیگنڈا اور مخصوص لٹریچر کے ذریعے کمیونسٹ مخالف(Anti-Communist) فضا قائم کی گئی ۔ یہ طے کر کے پاکستان کو سرمایہ دارانہ بلاک کا باقاعدہ حصہ بنا گیاکہ کمیونزم اسلام مخالف نظریہ ہے۔راقم کی رائے میں اس معاملے میں ’’غلو‘‘ سے کام لیا گیا ۔ضرورت اس امر کی تھی کہ دونوں بلاکوں میں کسی میں شمولیت یا غیر جانبداری اختیار کرنے کے حوالے سے ’’اجتہاد‘‘ کیا جاتا، کہ معاملہ اتنا سادہ نہ تھا۔ اس طرح غلو کی وجہ سے اسلام’’ سامراجیت پسند‘‘ بن کر سامنے آیا ، حالانکہ اسلام کی صحیح اپروچ افراط و تفریط کی بجائے توازن کے داعی اور علم بردار (Balancer) کی ہے اور اسی وجہ سے پڑھا لکھا باشعور طبقہ ’دین‘ سے دور ہوتا چلا گیا کہ شاید مذہب عوام کے لیے افیون ہی ہے کیونکہ مذہبی طبقہ بالعموم سرمایہ دارانہ سامراجیت کی حمایت کرتا رہا۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ مغربی بلاک میں شمولیت کا فیصلہ اور اس کی پشت پناہی ’عسکری ادارے‘ نے کی۔ یوں اجتہاد کا حق بھی اس ادارے نے حاصل کر لیا جس کے بل بوتے پر انگریزوں نے برِ صغیر پر حکومت کی تھی۔ (خیال رہے کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہدِ آزادی میں ملٹری آفیسرز کی ’’دیسی کھیپ‘‘ کا کوئی کردار نہیں تھا) بہر حال ’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر بنائی گئی اس اجتہادی پالیسی کے غبارے سے 1971 میں ہوا نکل گئی اور مشرقی پاکستان باقی ماندہ ملک سے کٹ گیا۔
1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد عسکری ادارے نے ایک بار پھر ’اجتہاد اور علما نے جہاد کیا بلکہ کروایا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس بار بھی توازن قائم کرنے والی قوت (Balancer) کا کردار ادا کرنے کے بجائے ’’غلو ‘‘ کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ غلو اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ثابت ہوا اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد ۹۰ کے عشرے میں’’یک قطبی‘‘ دنیا سامنے آنا شروع ہو گئی جس کے ہمہ گیر منفی اثرات اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔
۹۰ کے عشرے میں ہی ’کفار‘ کے خلاف جیت کے نعروں کی گونج میں افغانستان میں طالبان تحریک ابھری اور کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کوتیز کر دیا گیا۔ حسبِ سابق ’’ اجتہاد‘‘ عسکری ادارے نے کیا اور ’’جہاد‘‘ علما نے۔ چند سالوں تک کھٹملی فکر کے سرخیلوں کی ’خاموشی‘ شاید اس لیے تھی کہ اس عمل سے پاکستان کی ’عسکری قوت‘ کی وہ تمام جہات بے نقاب ہو رہی تھیں جو اس نے سوویت یونین سے ’جہاد‘ کے دوران خود حاصل کی تھیں،یاپھر مغربیوں سے اینٹھی تھیں۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر کھٹملی فکر نے اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر اسلامی دنیا پر چڑھائی کر دی۔ پاکستان میں عسکری ادارے کی روایت کے مطابق ’ٹیلی فونک ہاں‘ کے لیے جنرل پرویز، اسی طرح مشرف بہ اقتدارہو چکے تھے جس طرح سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت سے قبل جنرل ضیاء الحق اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے تھے۔
اب آج کی مسلم دنیا کی صورتِ حال سب کے سامنے واضح ہے۔مذکورہ بالا پس منظر یہ بنیادی سوال پیدا کرتا ہے کہ ہم لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے درمیان کشمکش میں کم از کم ’فکری و نظری سطح پر’Balancer‘ کا کردار ادا کیوں نہیں کیا؟ عسکری ادارے کی سا مراجیت پسندی پر بحث کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ یہ سوال ان لوگوں سے ہے جو خود کو دینِ اسلام کی تفہیم کے ضمن میں حرفِ آخر خیال کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے بہتر تو کمیونسٹ ہیں جو دہریے تھے ، ان کا ایک نعرہ مذہبی طبقے کی سامراجیت پسندی کی وجہ سے ’لا الٰہ‘ بھی تھا۔ انھوں نے (لا الہ کے توسط ہی سے) کھٹملی فکر میں’’فلاحی پہلو‘‘ شامل کرادیا اور اس کی اندوہ ناکی میں تخفیف کر دی۔ سوال یہ ہے کہ الا اللہ والوں نے کیا کیا؟ کھٹملی فکر کی درستگی کے لیے ان کا کردار ’کہاں ‘ہے؟
راقم کی نظر میں اس صورتِ حال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں آمریت کی وجہ سے ’مکالمہ بندی‘ کی فضا رہی جس کی وجہ سے فکری سطح پر افراط و تفریط سے پالا پڑا، اور عسکری ادارے کی پالیسیاں ہی اسلام کی ’تعبیر ‘ کہلائیں جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ کھٹملی فکر ہی اسلام کی معاشی فکر ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک بہت سے نام نہاد مجتہد یہی سوچ رکھتے ہیں ۔
اس وقت موجودہ عالمی حالات تقاضاکر رہے ہیں کہ مسلمان فکری و نظری اعتبار سے واضح ہوں ۔مثلاًدہشت گردی کو ہی لیجیے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس کے’’ تاریخی محرکات‘‘ کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا ہوگا۔راقم کی رائے میں اس کی جڑیں ’کلی آزادی‘ کے تصور میں پیوست ہیں ۔ دہشت گردی ،درحقیقت، ان غلاموں کی بغاوت ہے جنہیں مختلف حیلوں بہانوں سے کئی صدیوں سے غلام رکھا جا رہا ہے (۱۳)۔ اس وقت ’دہشت گردی‘ کی نہیں بلکہ ’’غلامی‘‘ کی تعریف متعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آقاؤں کے استحصالی حیلے ، کارِ جہاں کی طرح دراز نہ ہوتے جائیں ۔دینِ اسلام میں غلامی کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان نہ ہونے کا سبب شاید یہی ہے کہ غلامی اپنی فطرت میں بہروپیے سے مشابہ ہے جو اپنی صورت بدلتی رہتی ہے ، مکمل ختم نہیں ہوتی۔اگر اس کے خاتمے کا باقاعدہ اظہار کردیا جاتا تو پھر لفظی دنیا میں تو یہ موجود نہ ہوتی لیکن عملاًکسی نہ کسی مکروہ شکل میں برقرار رہتی۔ اسلام اپنی اپروچ میں اس قسم کے آئیڈیل ازم (Idealism) کو ناپسند کرتا ہے جس میں زمینی حقائق اور انسانی نفسیات کو مدِ نظر نہ رکھا جائے ۔اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے ’ذاتی ملکیت کے حق‘ سے اسلام کی موافقت موجود ہے کہ یہ انسانی نفسیات کے مطابق ہے،لیکن ایسے نظام میں ’طبقاتی تفاوت‘ کے در آنے کو بھانپتے ہوئے، چاہے انفرادی ، قومی یا عالمی سطح پر ہو، غلامی کا خاتمہ اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ ذاتی ملکیت سے پھوٹنے والے منفی و استحصالی رویے کو ’’غلامی‘‘ گردان کر اسے باقاعدہ ایڈریس کیا جائے نہ کہ چشم پوشی اختیار کی جائے۔ اس طرح اسلام نے سرمایہ دارانہ نظام کے ’کھٹملی پہلو‘ کو نکیل ڈالنے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے ۔ عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہؓ میں بہت سے ایسے واقعات مرقوم ہیں جن سے غلامی کے خاتمے کی طرف بڑھنے کے اقدامات ملتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا آدرش غلامی یعنی کسی بھی نوع کے استحصالی رویے میں مسلسل تخفیف کرتے رہنا ہے (۱۵) ۔ رسالت مآب ﷺ کے خطبہ حجۃالوداع کے آفاقی نکات دینِ اسلام کی اس اپروچ کا بلیغ اظہار ہیں ۔
تاریخی شعور اور موجودہ حالات کے سیاق و سباق ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اب پھونک پھونک کر قدم اٹھا یا جائے۔ ہمیں ماضی والے رویے کے برعکس ’مستقبل بین ‘ (Futurist) ہونا ہو گا(۱۶) ۔ ہمیں سامراجیت کی اصل نوعیت پر ہاتھ ڈالنا ہوگا اور دیکھنا ہو گا کہ ہمارے کون سے ادارے اور رویے غلامی کی نئی شکل کو تقویت دینے والے ہیں۔ غلامی کی نئی صورت ’گلوبلائزیشن ‘ کے مغربی عمل سے ظہور پا رہی ہے۔ اس حوالے سے تبلیغی جماعت کے کردار سے متعلق کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ خیال رہے ، یہاں کسی کی بزرگی کو چیلنج کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف ان چند ممکنات پر بات کرنی ہے جو غلامی کی نئی شکل کو تقویت دے سکتے ہیں۔ ایک تو یہ بات ہے کہ تبلیغی اجتماع عیدین اور حج کے درمیان بڑا مذہبی اجتماع بن چکا ہے۔ اندیشہ ہے کہ مستقبل میں اس ’تہوار‘ کو منانا بھی لازمی ہو جائے گا ۔ اس کی وجہ تبلیغی جماعت کا ’غلو‘ ہو گا جو وہ دین میں کر رہی ہے کہ تبلیغ ہی دین ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جماعت کا رجحان ’معاملات‘ کی طرف نہ ہونے کے برابر ہے ، اسی لیے اس کے معاشرتی اثرات معاملات سے پرے پرے ہی ہیں۔ لوگ اسی طرح کرپشن کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، ہیرا پھیری کرتے ہیں، اگرچہ نمازی اور حاجی ہو جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاملات سے دانستہ چشم پوشی سے ’’نادانستگی‘‘ امت کو غلامی کی نئی شکل کا اسیر بنایا جا رہا ہے۔ جب لوگوں کے اذہان میں یہ بات ڈالی جائے کہ دولت کی تقسیم ’خدائی کام‘ ہے اور وسائل وااسباب کی کوئی اہمیت نہیں، اور یہ کہ مسلمانوں کو سب کچھ آخرت میں ہی ملے گا تو بتائیے اس کا نتیجہ معاشرتی سطح پر کیا ہوگا؟ کیا اس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ ’سرمایہ دار‘ جو کرتے ہیں، انہیں کرنے دیا جائے، اس سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں؟ کیا یہ با لواسطہ (Pro- Capitalist) اپروچ نہیں ؟ کیا یہ مذہب کی ایسی تشریح نہیں جس سے وہ عوام کے لیے حقیقتاً ’’افیون‘‘ بن جائے ؟ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں، بس ذرا تاریخ کے آئینے سے مدد لے کر Futurist بن کر غور کیجیے ۔ انیسویں صدی میں سر سید کا آدرش بھی مسلمانوں کی ’’تعلیمی ترقی‘‘ تھا لیکن اس کے حصول کے لیے انہوں نے با لواسطہ ’’سرمایہ دارانہ فکر‘‘ کا ساتھ دیا، اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، کیونکہ ان کے بعد مسلم لیگ، دیو بند کے خانقاہی گروہ اور پھر حیرت ناک حد تک سامراج مخالف گروہ نے بھی ایسا ہی کیا اور لوگوں کے اذہان میں کمیونزم مخالفت اس طرح بھری جیسے سر مایہ دارانہ نظام عین اسلام کے مطابق ہے، حالانکہ اسی نظام کے ذریعے مسلمانوں کو غلام رکھا جا رہا تھا اور پوری بیسویں صدی میں مسلمان غلام بنے رہے۔ اسی طرح بیسویں صدی میں شروع ہونے والی تبلیغی جماعت کا آدرش بھی مسلمانوں کی اخلاقی و مذہبی حالت کو سنوارنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں یہ جماعت بھی ’نا دانستگی ‘ میں تاریخ کو دہرا تو نہیں رہی؟ ایسی صورتِ حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دین کے فقط ایک پہلو کو ’’دین ‘‘قرار دینے کے’’غلو‘‘ سے بچتے ہوئے Balancer اور Futurist بنا جائے۔(۱۷)
حواشی
(۱) اس کی تازہ مثال متحدہ مجلسِ عمل کا بیک وقت اپوزیشن میں ہونا اور ایل ایف او کو دستورکا حصہ بنانے کے لیے حکومت کا ساتھ دینا ہے۔ متحدہ مجلسِ عمل کا یہ فیصلہ ،کم از کم کسی’’ منظم سوچ‘‘ کی غمازی نہیں کرتا ۔
(۲) انگلستان کے بادشاہ جارج سوم (1760-1820) کے عہد سے پہلے انگریز لوگ معمولی چرخوں پر سوت کاتتے اور معمولی کھڈیوں کے ذریعے کپڑا تیار کرتے تھے۔ یہ کپڑا بہت موٹا ہوتا تھا اور اس کی یومیہ پیداوار بھی بہت تھوڑی تھی۔1765 میں ہرگریوز نے سوت کاتنے کی کل ایجاد کی اور اس کا نام (Spinning Jenny) رکھا،اس میں 80 تکلے بیک وقت کام کرتے تھے ۔آرک رائٹ نے اس کے دو سال بعد پانی کے زور سے چلنے والی ایک اور کل(The Water Frame) ایجاد کی جو ہرگریوز کی کل سے بھی زیادہ سوت کاتتی تھی۔1779 میں ایک اور مشین ایجاد ہوئی ،جسے میول(Mule) کہتے تھے ، اس کل میں سابقہ مشینوں کے اصول اکٹھے کر دیے گئے ، اسی لیے یہ مشین کثیر مقدار میں باریک سوتی کپڑا بنتی تھی ۔ 1787 میں کارٹ رائٹ کی ایجاد کردہ کل (The Power Loom)پہلے سے بھی زیادہ کپڑا تیار کرنے لگی، کہ وہ بھاپ سے چلتی تھی(1769 میں واٹس ، بھاپ کا انجن ایجاد کر چکا تھا)۔1790 میں ہنری کورٹ نے لوہا پگھلانے کا آسان اور سستا طریقہ ایجاد کیا۔1830 میں سٹیفن سن نے متحرک انجن یعنی بھاپ کے ذریعے خودبخود چلنے والا انجن ایجاد کیا تو صنعتی انقلاب بھر پور طریقے سے پر پرزے نکالنے لگا، ریل کی پٹڑی بچھ گئی اور بھاپ کی طاقت سے چلنے والے جہاز سمندروں میں دوڑنے لگے۔
(۳)نوآبادیاتی نظام کا آغاز پندرہویں صدی کے دوسرے نصف میں ، یورپ میں تحریکِ احیائے علوم(Renaissance) کے بعد دریافتوں کے زمانے (Age Of Discovery) سے ہوا۔پرتگیزوں نے بحرِ اوقیانوس کا چپہ چپہ چھان مارا،اورکئی نامعلوم جزیرے دریافت کیے۔ 1486 میں افریقہ کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ افریقہ کے عین جنوب میں اس مقام پر پہنچے جسے راس امید(Cape Of Good Hope) کہا جاتا ہے ۔ اس کے گیارہ سال بعد واسکوڈے گاما ، راس امید کا چکر کاٹ کر، افریقہ کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ ہوتاہوا، ہندوستان (کالی کٹ )پہنچ گیا۔ واسکوڈے گاما پہلا یورپی شخص تھا ، جو بالکل بحری راستے سے ہندوستان آیا۔ اس طرح یورپ نے برِصغیر پاکستان و ہند کی ’راہ‘ دیکھ لی۔تاریخ کے اسی عہد میں سپین کے شہرہ آفاق جہاز ران کولمبس نے اتفاقاً ’امریکہ ‘ دریافت کرلیا، اور پھر امریکہ بھی کالونی بنتا چلا گیا۔ سولہویں صدی کے اختتام اورسترہویں صدی کے آغاز میں ڈچ اور انگریز بھی بحرِ ہند میں ’’طالع آزمائی‘‘ کے لیے داخل ہو گئے ۔ فرانسیسی پیچھے رہنے والے نہیں تھے۔ان اقوام کے درمیان برِصغیر کی دولت اور اقتدار پر قبضے کے لیے شدید کھینچا تانی ہوئی ،جس میں انگریز آخر کار فاتح رہے ۔انگریزوں کی قوم پرستی، حربی مہارت اور سیاسی تدابیر کے ساتھ جب صنعتی انقلاب بھی ان کا ہمقدم ہوگیا تو نوآبادیاتی نظام مستحکم ہوتا چلاگیا اور ’کھٹملی فکر‘ کو مزید پاؤں پسارنے کا موقع مل گیا ۔
(۴) سامراجیت(Imperialism) اور استعماریت(Colonialism) میں تھوڑا سا فرق ہے ۔ نوآبادیت یا استعماریت کا مطلب یہ ہے کہ افراد کے کسی گروہ کا کسی ایسے خطے میں دائمی قیام کرنا جہاں عام طور پر پہلے آبادی بھی نہیں ہوتی ۔جبکہ سامراجیت سے مراد یہ ہے کہ کوئی ریاست کسی دوسری قوم کے علاقے پر ناجائزتسلط قائم کرے تاکہ وہاں کے وسائل کو اپنی طاقت اور اپنے عوام کی بہتری کے لیے تصرف میں لا سکے ۔اس طرح معلوم ہوا کہ سامراجیت ، استعماریت سے زیادہ خطرناک اورانسانیت سوز ہے ۔
(۵)کثیر قطبی نظام سے مراد ہے کہ اس وقت طاقت کے کئی ’مرکز‘ تھے ۔ مختلف اقوام اور ریاستیں ’توازنِ طاقت‘ کی پالیسی اختیار کر کے کسی ایک کو بالادستی قائم کرنے کا موقع نہیں دیتی تھیں ۔ سترہویں صدی میں تیس سالہ جنگ(1618-1648) کے بعد ویسٹ فالیامعاہدہ(1648) نے قومی ریاست کا نظام(Nation State System) تشکیل دے دیا۔ اسی صدی میں فرانس کے جارحانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے انگلینڈ اور نیدرلینڈ نے باہمی اتحاد سے فرانس کو کنٹرول کیا۔اٹھارہویں صدی میں (Treaty Of Utrech) سے لے کر پولینڈ کی تقسیم تک کا دور (1713....1772) نظری اور عملی اعتبار سے توازنِ طاقت کا سنہری زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی دوران جنگ ہفت سالہ (1756-1763) تین برِاعظموں میں لڑی گئی۔1789 کے انقلابِ فرانس کے بعد نپولین کے عروج سے توازنِ طاقت بگڑ گیا تو پھر جنگوں کا ایک اورسلسلہ شروع ہوا ، جو واٹرلو میں نپولین کی شکست (1815)پر ختم ہوا ۔نپولین کو سینٹ ہلینا کے جزیرے میں قید کرنے کے بعد ’اتحادی‘ ویانا میں جمع ہوئے اور انھوں نے یورپ کا نقشہ نئے سرے سے ترتیب دیا۔ محکوم قوموں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے جلد ہی ’ویانا کانگرس‘ کے صلح نامے کے پرزے پرزے کر دیے۔1854 میں فرانس ، برطانیہ اور آسٹریا نے روس کے خلاف ’اتحاد‘ بنایا جس سے جنگِ کریمیا(1854-1856) چھڑ گئی۔برلن کانگرس(1878) بھی ’توازنِ طاقت‘ کے سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ اس کے ذریعے روس کو،شکست خوردہ ترکی سے کیے گئے معاہدے پر نظر ثانی کے لیے مجبورکیا گیا ۔1882 میں جرمنی ،آسٹریا اور اٹلی کا اتحاد وجود میں آیا تو جواباً ’توازن‘ رکھنے کے لیے فرانس، انگلینڈ اور روس نے اتحاد(1907) کر لیا۔ بیسویں صدی میں جب توازنِ طاقت بگڑا تو پھر ایک جنگ چھڑ گئی (1914)، جسے پہلی عالمی جنگ کہتے ہیں ۔اس میں ایک طرف (محوری)جرمنی ،آسٹریا ، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ تھے اور دوسری طرف(اتحادی) برطانیہ ، فرانس، روس جاپان اور امریکہ تھے ۔ اٹلی پہلے تومحوری گروپ میں تھا ، بعد میں لندن پیکٹ کے تحت اتحادی کیمپ میں شامل ہوگیا۔ 1919 میں جمعیتِ اقوام(League Of Nations) کی تشکیل سے بھی توازنِ طاقت کی سٹریٹیجی متاثر نہ ہوئی اور اتحادات ، جوابی اتحادات سے 1939 میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی، جس میں ایک طرف اتحادی ممالک برطانیہ ، فرانس ، روس، امریکہ و غیرہ تھے ، اور دوسری طرف محوری ممالک جرمنی، اٹلی اور جاپان تھے۔اس جنگ میں محوری کیمپ کی شکست کے بعد ’’کثیر قطبی‘‘ دنیا کا خاتمہ ہوا ، اور ’’دوقطبی‘‘ دنیا کا ظہور ہوا، جس میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی جبکہ دوسری طرف سوویت یونین اور اس کے اتحادی تھے ۔
(۶) فتح علی ٹیپو سلطان(1750-1799) اٹھارہویں صدی کی سیاست کا درخشندہ ستارہ تھا ۔ٹیپو نے برِ صغیر میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے اعلیٰ تدبر کا مظاہرہ کیا ۔اس نے فرانس، افغانستان اور ایران سے ’تزویراتی تعلقات‘ قائم کرنے کی کوشش کی، مر ہٹوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایااور چاہا کہ میسور اور حیدرآباد کے حکمران ’خاندانی قرابت‘ کے رشتے میں منسلک ہو جائیں ۔ سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ اس کی مراسلت و سفارت کاری بھی تزویراتی اہمیت کی حامل تھی لیکن یورپی سیاست کے جبر (روس اور آسٹریا سے ترکی کی مخاصمت) نے ترکوں کو ٹیپو کی حمایت سے باز رکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ 4 مئی1799 کو جامِ شہادت نوش کرنے والے اس عظیم فرزندِ اسلام کی یاد میں ہر سال4 مئی کو سیمینارز منعقد ہوں اور اس کے نام پرکوئی سٹریٹیجک پالیسی سازادارہ بھی قائم کیا جائے تا کہ اس کے وقت کی مسلم دنیا کی تزویراتی غلطیوں کی نشاندہی اس طور ہوسکے کہ انہیں دہرایا نہ جاسکے۔
(۷) اس سلسلے میں جنگِ افیون(1839-1842)، (1856-1860) مشہور ہیں۔
(۸) جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے اس’’ کٹھملی فکر‘‘ کو یوں عیاں کیا تھا کہ: ’’جب سفید آدمی آیا تو اس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس اراضی، اب اس کے پاس اراضی ہے اور ہمارے پاس بائبل‘‘۔
(۹) شاہ صاحب (1703-1763) کا اصل نام قطب الدین ہے ۔ان کے نظریات میں جدت اور ندرت پائی جاتی ہے ۔شاہ صاحب کی فکر کا معاشی پہلو اس اعتبار سے قابلِ توجہ ہے کہ اس میں (Political Economy) کی جھلک نظر آتی ہے ، منصوبہ بندی اور انفرا سٹرکچر کا ذکر ملتا ہے اور اجتماعی نفع کے شواہد ملتے ہیں ۔
(۱۰) علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان (1817-1898) تھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے ہاں عقل ،مادیت اور معاش پر زور دینے کے باوجود’’مارکسسٹ اپروچ‘‘ نظر نہیں آتی ، حالانکہ 1876 میں ’’سرمایہ‘‘ شائع ہو چکی تھی ۔اگر سرسید نے مارکس ازم کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو سرمایہ دارانہ فکر کی ’’منفیت‘‘ ان پر ضرور عیاں ہوتی اور وہ انگریزوں سے مصالحت کی پالیسی کے باوجود سرمایہ دارانہ فکر پر چند تحفظات کا اظہار ضرور کرتے ۔لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ’عقل پسندی‘ ذہنی خود کفالت کا نتیجہ نہیں بلکہ انگریزوں سے مرعوبیت کے باعث تھی۔
(۱۱) انگریزوں کے جانے کے بعد جب ریشمی رومال رپورٹ شائع ہوئی تو انڈین صدر جناب فخر الدین علی احمد نے ایوانِ صدارت میں پانچ صد منتخب مدعوین کے ساتھ (جس میں وزیرِ اعظم اور دوسرے بڑے بڑے عمائدین تھے) کتاب کا افتتاح کیا۔
(۱۲) خیال رہے کہ ایک گروہ ہمیشہ سے اس خیال کا حامی رہا ہے کہ برِ صغیر کی تقسیم بھی ، سوویت یونین (کمیونزم ) کے خطرے کے باعث کی گئی تھی اور اس وقت کے امریکی صدر نے تقسیم کے لیے برطانیہ پر دباؤ ڈالا تھا۔
(۱۳) پہلے سامراجیت اور نئی سامراجیت کے ذریعے ، اور اب گلوبلائزیشن کے ذریعے۔
(۱۴) اس وقت بھی بہت سے ایسے معاملات موجود ہیں جن کی بابت حکومت نے قوانین بنا رکھے ہیں لیکن پھر بھی عمل درآمد نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ یہ بہت آسان بات ہے کہ کسی سنجیدہ معاملے سے جان چھڑانے کے لیے قانون بنا کر کہا جائے ، لو جی حکومت نے قانون تو بنا دیا ہے ، اب مزید اور کیا کرے ؟
(۱۵) استحصالی رویے کی ہر نوعیت اور ہر سطح کے خاتمے کے لیے ’خود تسخیری‘ ضروری ہے ، جو ہمیشہ ناتمام رہتی ہے ۔ بھلا خود سے ماورا ہونا کس کے بس میں ہے ؟
(۱۶) اگر Louis Halle ، عین سرد جنگ کے عروج کے عہد میں (1967) ، ایک کتاب The Cold War As History لکھ سکتا ہے ، تو ہم آج Uni Polar World As History کیوں نہیں لکھ سکتے ؟
(۱۷) قرآن مجید میں آتا ہے کہ ’’اے اہلِ کتاب تم اپنے دین میں غلو نہ کرو‘‘۔ حدیثِ نبویﷺ ہے کہ ’’ غلو فی الدین سے بچتے رہو ، کیونکہ تم سے پہلی امتیں غلو فی الدین ہی کی وجہ سے ہلاک و بر باد ہوئیں ۔‘‘