’’سر اقبال‘‘ بنام ’’حسین احمد‘‘ ۔ ماضی کی ایک کہانی کا معما ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میں

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

کتابیں لکھے اور چھاپے جانے کی موجودہ گرم بازاری میں اگر کوئی واقعی ’’کتاب‘‘ ہاتھ آ جائے تو کچھ زیاہ ہی اچھی معلوم ہونا قدرتی بات ہے۔ علامہ اقبال کے سوانح حیات میں علامہ کے فرزند ارجمند جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے قلم سے نکلی ہوئی ’’زندہ رود‘‘ ایک ایسی ہی کتاب کہی جانے کی مستحق ہے۔ کتاب گو تازہ بتازہ نہیں، مگر راقم سطور کے ہاتھ میں وہ گزشتہ دنوں ہی آئی۔ تین جلدوں میں ہونے کے باوجود دلچسپی کو آخر تک قائم رکھنے والی۔

برصغیر کے پڑھے لکھے لوگوں میں کم ہی ہوں گے جنھیں علامہ کی شاعری سے دلچسپی نہ رہی ہو۔ تھوڑی بہت راقم سطور کے حصہ میں بھی آئی، اور ظاہر ہے کہ یہ کچھ سمجھ لینے کی ہی بنا پر ہو سکتا تھا۔ مگر ’’زندہ رود‘‘ پڑھ لینے کے بعد جب کسی ضرورت سے ’کلیات اقبال‘ کھولی تو اندازہ ہوا کہ اب بہت سے اشعار کی وہ تہیں کھل کر سامنے آئیں گی جو شاعر کی زندگی اور شخصیت سے واقفیت ہی کے نتیجے میں کھل سکتی ہیں۔ خاص کر ان کی شاعری کا جو ایک اہم موضوع ان کی اپنی ذات ہے، اس سلسلہ کے اشعار کے بارے میں تو یہ کتاب بہت صاف صاف بتائے دیتی ہے کہ اپنی کسی کمزوری کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے تو اس میں کس حد تک حقیقت ہے اور کس حد تک شاعری۔ اور کہیں جو کوئی خوبی جتائی ہے تو اس کی واقعی حقیقت کیا ہے۔ اسی طرح اگر علامہ کے کلام میں کہیں ایسے اشعار کسی کو نظر آتے ہیں جو ان کی شاعری کے عمومی مزاج سے جوڑ نہ کھاتے ہوں، ایسے اشعار کا مسئلہ حل کرنے میں بھی یہ کتاب مددگار ہونی چاہیے۔ ایسے اشعار کی ایک بہت نمایاں مثال ’’حسین احمد‘‘ کے عنوان سے کلیات کی تقریباً آخری نظم ہے جو علامہ کی وفات سے کوئی دو ماہ قبل (فروری ۱۹۳۸ میں) کہی گئی اور اس کی تلخی سے ملی فضا کچھ ایسی مکدر ہوئی کہ آج تک صاف نہ ہو پائی۔ ان اشعار کا کوئی جوڑ علامہ کی شاعری کے عمومی مزاج اور ایک صاحب علم وفضل کی حیثیت سے ان کے مسلمہ مقام ومرتبہ کے ساتھ کبھی سمجھ میں نہ آ سکا تھا۔ اس کتاب کے ذریعہ پہلی بار ہوا ہے کہ یہ ’’عقدۂ مشکل‘‘ حل ہوتا نظر آیا۔ اس تحریر کا اصل مقصد اسی یافت کا اظہار وبیان ہے۔

علامہ کے یہ اشعار ہمارے مخدوم ومحترم استاذ حدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ (م ۱۹۵۷ء) کے اس نظریہ کی تردید میں سپرد قلم ہوئے تھے کہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وطنی رشتہ اتحاد کی بنا پر سیاسی نوعیت کی متحدہ قومیت کا رشتہ نہ صرف قائم ہو سکتا ہے بلکہ ملک میں تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ قائم ہو۔ وہ موقع جس پر یہ اشعار سر ہوئے، اس نظریے کے سلسلہ میں حضرت مولانا کے کسی تفصیلی اظہار وبیان کا نہ تھا۔ بس ایک تقریر کی اخباری رپورٹ تھی جو علامہ کے لیے اس طرح کے سخت ترین الفاظ میں رد عمل کو کافی ہو گئی کہ

عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجبیست
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقام محمد عربیست
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبیست

تین شعرو ں کے الفاظ میں جتنی سخت باتیں سما سکتی تھیں، اس کے لحاظ سے کوئی کسر یہاں نہیں رہ گئی ہے۔ تقریر اگرچہ دہلی کے ایک سیاسی جلسہ میں تھی، مگر اسے ’’بر سر منبر‘‘ ٹھیرایا گیا ہے اور وعظ یا تقریر نہیں، ’’سرود‘‘ (بہ معنی راگ) کا نام اسے دیا گیا ہے۔ پھر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ تعلق دیوبند جیسے دینی مرکز سے مسند نشینی کا ہے، مگر مرکز دین حضرت محمد عربی ﷺ کے مقام سے واقفیت کی گویا ہوا بھی نہیں لگی۔ اور پھر آخر میں نصیحت ہے کہ دین تو تمام تر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کا نام ہے، تم اگر ان کی ذات گرامی تک نہیں پہنچ پاتے تو پھر تمھارے حصے میں جو چیز رہ جاتی ہے، وہ ’’بو لہبیت‘‘ (یعنی معاذ اللہ، مصطفی دشمنی) ہے۔

علامہ کے کلام میں یہ حقیقت یقیناًبے نقاب ہے کہ وہ یورپ کے پیدا کردہ وطنی قومیت کے سیاسی تخیل کو انسانیت کے لیے ایک لعنت اور خاص دین ومذہب کے حق میں تو ’’کفن‘‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ’’زندہ رود‘‘ میں آپ کے اس فکر کی پوری تفصیلات سامنے آ جاتی ہیں، ا س لیے یہ تو سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ علامہ جس چیز کو مذہب کا کفن جان رہے ہیں، اس کی دعوت کسی قابل لحاظ اسلامی شخصیت کی طرف سے آئے تو وہ اس کی تردید میں ’’ضبط سخن‘‘ نہ کر سکیں، لیکن یہ فرض کرتے ہوئے بھی کہ حضرت مولانا مدنی کا جو کہنا تھا، وہ وہی تھا جس کی حضرت علامہ کے فکر اور فہم اسلام میں گنجایش نہ تھی، تب بھی اس آخری درجہ کے جارحانہ انداز تردید کی توقع، جس سے ان کے اظہار مدعا سے زیادہ فریق ثانی کی معلوم ومعروف حیثیت عرفی کو خاطر میں نہ لانے کا اظہار ہوتا ہے، ان کے جیسے مرتبہ کی شخصیت سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ اشعار میں ’’دیوبند‘‘ کا حوالہ دلیل ہے کہ علامہ پر ’’حسین احمد‘‘ کی نہایت قابل لحاظ حیثیت عرفی مخفی نہ تھی، بلکہ یہی چیز گویا باعث ہوئی کہ وہ ان کی مبینہ تقریر پر نکتہ چیں ہوں۔ پھر آخر کیونکر یہ ممکن ہوا کہ اس تقریر کا حوالہ ’’سرود بر سر منبر‘‘ کے توہین آمیز الفاظ میں آئے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر ’’چہ بے خبر ز مقام محمد عربیست‘‘ فرماتے ہوئے علامہ یہ بھی نہ سوچیں کہ یہ وہ کس کے بارے میں فرما رہے ہیں؟ اور پھر کسے ’’بہ مصطفی برساں خویش‘‘ کا سبق دے رہے ہیں؟ وہ کہ جس نے مدتیں در مصطفی پہ فقیرانہ گزاری ہیں اور جس کا دیوبند میں شغل ہی درس حدیث مصطفی ہے؟

کیا یہ کہا جائے کہ عشق مصطفی (ﷺ) کی جو دولت علامہ کو نصیب سے مل گئی تھی، اس کے حوالے سے وہ خود بھی معاذ اللہ اسی خامی کا شکار ہوئے جس کا گلہ واعظ زاہد کے بارے میں کرتے ہوئے فرما گئے ہیں کہ

غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے

یہ علامہ کی شدت بے پناہ کے مقابلے میں محض ایک ہلکے سے شکوے کا پیرایہ ہوگا، مگر ایسا کہنا وہی پسند کرے گا جسے اندازہ نہیں یا وہ بھول گیا ہے کہ علامہ کے عشق مصطفی سے قدرت نے کیا کام ان کی شاعری کے حق میں لیا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر خود حضرت مولانا علیہ الرحمۃ نے علامہ کی اس سراپا آتش تنقید کے جواب میں جس پاس ولحاظ سے کام لیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے آپ کے ایک کفش بردار کو کہاں زیبا کہ وہ کوئی الگ راہ چلے؟ علامہ کی اٹھائی ہوئی اس بحث کے سلسلہ میں ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے عنوان سے جو ایک مقالہ حضرت والا نے اس موقع پر تحریر فرمایا، وہ مکمل ہونے نہ پایا تھا کہ علامہ نے وفات پائی۔ اس ناگہانی خبر کے حوالے سے اس مقالہ کی تمہید میں رقم طراز ہوئے ہیں:

’’جب کہ میں قومیت کی لفظی بحث کے اختتام پر پہنچ کر مقصد اصلی سے نقاب اٹھانا چاہتا تھا، ناگاہ جناب ڈاکٹر صاحب مرحوم ومغفور کے وصال کی خبر شائع ہوئی۔ اس ناسزا ودل گداز خبر نے خیالات وعزائم وافکار پر صاعقہ کا کام کیا۔ طبیعت بالکل بجھ گئی اور عزائم فسخ ہو گئے۔‘‘

پھر آئندہ صفحہ پر یہ کہنے کے لیے کہ ڈاکٹر اقبال صاحب اگرچہ مجھ سے اس درجہ فائق وبرتر تھے کہ میں گویا ان کے سامنے طفل ابجد خواں، مگر ہندوستانی سیاست کے مسئلہ میں ساحران فرنگ کے سحر کا شکار ہو گئے تھے، اور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بڑے غلطی کر جاتے جبکہ چھوٹے محفوظ رہتے ہیں، فرمایا کہ:

’’یہ امر یقینی اور غیر قابل انکار ہے کہ جناب ڈاکٹر صاحب کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی اور ان کے کمالات بھی غیر معمولی تھے۔ وہ آسمان حکمت وفلسفہ، شعر وسخن، تحریر وتقریر، دل ودماغ اور دیگر کمالات علمیہ اور عملیہ کے درخشندہ آفتاب تھے۔ مگر باوجود کمالات گونا گوں ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہو جانا یا بعض غلطیوں میں پڑ جانا اور کسی ابجد خواں طالب علم کا اس سے محفوظ رہنا کوئی تعجب خیز بات نہیں:
گاہ باشد کہ کودک ناداں
بر ہدف بر زند تیرے 
(کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نادان بچہ کا تیر نشانہ پر بیٹھ جائے)‘‘۔

اے کاش علامہ اپنے ہدف کے اس رد عمل کو دیکھنے کے لیے زندہ رہے ہوتے! یہ راقم نہیں سمجھتا کہ مرحوم علامہ نے یہ تحریر پڑھی ہوتی تو اس بے نفسی اور خاک ساری کے لیے اپنی زندگی کا کوئی ایسا دوسرا تجربہ وہ یاد کر پاتے۔ اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ علامہ کے ساتھ ’’سر‘‘ کا برطانوی خطاب اگر نہ لگا ہوتا تو متحدہ قومیت کی بابت آپ کی رائے میں برطانوی سحر کا دخل سمجھنے کی بات بھی ہمیں حضرت والا کی اس عبارت میں نہ ملتی۔

الغرض، اگر حضرت مولانا قومیت کا وہ نظریہ پیش کر رہے ہوتے جو حضرت علامہ کے فہم اسلام سے سیدھا ٹکراتا تھا، تب بھی اس پر رد عمل کا یہ پیرایہ اظہار کہ مسند نشین دیوبند کو بیک جنبش قلم ’’بو لہبی‘‘ تک پہنچا دیا جائے، یہ علامہ سے کسی قدر کم درجہ کی فہمیدہ وسنجیدہ شخصیت سے بھی بآسانی سمجھ میں آنے والی بات نہ تھی، لیکن مولانا کی تقریر کو تو فی الواقع دور کا تعلق بھی اس بات سے نہ تھا جو حضرت علامہ کو اس قدر ناگوار گزری۔ علامہ جس وطنی قومیت کو ’’مذہب کا کفن‘‘ سمجھتے تھے، مولانا بھی اسے ایسا سمجھنے میں علامہ سے اگر آگے نہیں تو پیچھے بہرحال نہیں تھے۔ مگر لگتا ہے کہ معاملے کے ایک خاص پس منظر کی بنا پر علامہ کو اپنا ہی بیان کردہ یہ نکتہ فراموش ہو گیا تھا کہ:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

وہ تحریک خلافت جس سے ’’زندہ رود‘‘ کے بیان کے مطابق علامہ دور اور نفور رہے اور جس میں حسین احمد کا مولانا محمد علی جوہر وغیرہ کے ساتھ وہ جانبازانہ حصہ تھا جس کی تفصیل کے لیے ان لوگوں پر چلائے گئے مقدمہ کراچی (۱۹۲۱) کی روداد پڑھنی چاہیے، یہ اس اسلامی خلافت کو بچانے کے لیے ہی اٹھائی گئی تحریک تو تھی جس کا ازروئے وطن ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہاں وہ اسلامی رشتہ ان کا اس کے ساتھ تھا جو جغرافیائی حدود وقیود سے بالاتر ہے، اور یہ خلافتی جدوجہد اسی متحدہ قومیت کے ساتھ تھی جس کا حوالہ مولانا مدنی کی زیر بحث تقریر میں آیا۔ کون نہیں جانتا کہ اس تحریک نے مہاتما گاندھی کو اپنی سربراہی کے لیے قبول کر لیا تھا اور ایسا ہونے میں ’’حسین احمد‘‘ سے کہیں زیادہ حصہ مولانا محمد علی جوہر کا تھا جن سے برتر اسلامیت کا دعویٰ شاید علامہ اقبال کو کبھی نہ ہوا ہو۔ یہی وہ ’’متحدہ قومیت‘‘ تھی جس کا حوالہ مولانا اپنی تقریر میں دے رہے تھے، نہ کہ وہ جو علامہ کے تصور میں تھی جس میں مسلمان، مسلمان نہیں رہ سکتا۔

حضرت حسین احمد کے جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ کی سیاسی زندگی ۱۹۱۷ء سے شروع ہوتی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ کے باغی شریف حسین نے مکہ میں ان کو ان کے محترم استاد شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ساتھ گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کیا اور پھر انگریزوں نے ان کو اپنی حکومت کے خلاف باغیانہ عزائم کے حوالے سے جزیرۂ مالٹا میں چار سال قید رکھا۔ چار سال بعد ۱۹۲۰ کے شروع میں ان حضرات کی رہائی عمل میں آئی۔ شیخ الہند کی یہ گرفتاری بے وجہ نہ تھی۔ یہ جنگ عظیم اول کا زمانہ تھا کہ آپ برطانوی حکومت کے خلاف ایک مکمل باغیانہ اسکیم لے کر ہندوستان کے باہر نکلے تھے۔ حجاز مقدس کو اولین منزل بنایا، اس لیے کہ وہاں حج کے زمانے میں ان میں سے بیشتر لوگوں سے رابطہ آسان ہو سکتا تھا جن سے اپنی اسکیم کے سلسلے میں رابطہ مطلوب تھا اور اس فہرست میں سب سے پہلے ترکی حکام تھے جن سے رابطہ ہوا بھی، مگر قسمت سے اسی زمانہ میں شریف مکہ حسین پر انگریزوں کے ڈورے کام کر گئے اور حجاز مقدس عثمانی خلافت کے اقتدار سے نکل گیا۔

مارچ ۲۰ء میں شیخ الہند رہا ہوئے تو بڑھاپے اور قید کے شدائد نے زار ونزار کر دیا تھا۔ نومبر ہی میں آپ کی شمع حیات گل ہو گئی اور پھر برطانوی حکومت کے خلاف آپ کے مشن کی علم برداری ’’حسین احمد‘‘ کے حصہ میں آئی۔ اسیران مالٹا نے جب رہائی پائی تو اس سے پہلے خلافت تحریک شروع ہو چکی تھی اور یہ صرف مسلمانوں کی نہیں، تمام ہندوستانیوں کی تحریک بن گئی تھی جس میں ہندو اکثریت کے سب سے بڑے نمائندہ مہاتما گاندھی پیش پیش تھے۔ شیخ الہند جن کا تحریک خلافت کی پوری مسلم قیادت نے مع گاندھی جی کے بمبئی پہنچ کر نہایت پرجوش استقبال کیا تھا، اس تحریک کے لیے سب سے بڑی اسلامی اتھارٹی کے حامل مانے گئے اور آپ نے اس متحدہ تحریک اور اس کے پروگرام عدم موالات (نان کو اپریشن) پر مہر تصویب ثبت فرمائی۔ اسی پر عمل درآمد کے نتیجے میں حسین احمد پر مولانا محمد علی وغیرہ کے ساتھ بغاوت کا مشہور مقدمہ کراچی چلا اور دو دو سال کی جیل ہوئی۔

یہ ہے حسین احمد کے اس نظریہ متحدہ قومیت کا پس منظر جس کا آپ کی ۳۸ء کی اس تقریر میں حوالہ ایک طوفان اٹھا گیا۔ یعنی یہ وہی متحدہ قومیت تھی جس کے جھنڈے کے نیچے تحریک خلافت کے دور میں علامہ اقبال اور مسٹر محمد علی جناح جیسے خال خال افراد کو چھوڑ کر مسلم ہندوستان کی وہ تمام ہستیاں سرگرم رہی تھیں جن کی طرف ملی مسائل کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھتی تھیں۔ علامہ اقبال، حسین احمد سے کچھ زیادہ واقف ہوں یا نہ ہوں، متحدہ قومیت والی بات کے اس پس منظر سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے۔ تحریک خلافت سے ان کے بے تعلق رہنے کی تو ایک اہم وجہ یہی تھی، مگر یہ دینی حوالے سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:

’’قیام انگلستان کے دوران جب وہ (ذہنی) انقلاب سے گزرے اور انھی ایام میں برصغیر میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا تو اقبال، سرسید احمد خان کے سیاسی مکتبہ فکر کو درست خیال کرتے ہوئے ذہنی وقلبی طور پر اس سے وابستہ ہو گئے۔ سرسید کے سیاسی مکتبہ فکر کی منطق یہ تھی کہ ....... جمہوریت کے ذریعہ قومیت متحدہ کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی تھی جب ہندو اور مسلمان مرکزی حکومت میں برابر کے حصہ دار ہوں، لیکن فرقہ وارانہ منافرت کے سبب ہندو ایسی صورت کو قبول کرنے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہو سکتے تھے۔ پس برصغیر میں قومیت متحدہ کا تخیل خیال خام تھا۔‘‘ (زندہ رود، جلد سوم، صفحہ ۲۹۱، ۹۲)

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں اصولاً متحدہ قومیت سے انکار نہ تھا۔ نمائندگی میں برابری کی شرط کے ساتھ وہ منظور تھی۔ پس علامہ کے اس سیاسی فکر وعقیدہ کا بے شک یہ حق تھا کہ کوئی آواز اس شرط کے بغیر متحدہ قومیت کے حق میں بلند کی جا رہی ہو تو اسے چیلنج کریں، مگر اس کے لیے سیاسی زبان کے بجائے یہ دینیات کی زبان کا سوال کیونکر پیدا ہو گیا؟ اور وہ بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مستند ومسلم عالم دین کے مقابلے میں! جبکہ علامہ اسلامی دینیات پر کتنا بھی عبور اپنے مطالعہ کی بنیاد پر رکھتے ہوں، مگر ان جیسے ذی فہم کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس عبور کو باضابطہ تحصیل کا ہم سر سمجھتے ہوں گے، اور اگر سمجھتے بھی ہوں، تب بھی جو زعم وپندار آمیز لہجہ انھوں نے اس چیلنج میں اختیار فرمایا، وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ضرور اس کے پس منظر میں کچھ خاص حالات ومعاملات ہونے چاہییں، ورنہ یہ علامہ کے مقام سے فروتر بات تھی اور قطعاً غیر متوقع بات تھی۔ ’’زندہ رود‘‘ نے انھیں خاص حالات سے پردہ اٹھانے کا کام انجام دیا ہے۔

کم سے کم راقم سطور کے علم میں اس سے پہلے نہ تھا کہ حضرت علامہ نے برصغیر کی سیاست میں کوئی سرگرم عملی حصہ بھی لیا۔ کل ہند مسلم لیگ کی سیاست سے ان کا عملی تعلق صرف ۱۹۳۰ء کے خطبہ صدارت الٰہ آباد کی حد تک معلوم تھا۔ اس کتاب سے معلوم ہوا کہ ۱۹۲۶ء میں جب علامہ نے لاہور سے پنجاب صوبائی کونسل کا انتخاب لڑا، تب سے مسلم لیگ سے ان کی وابستگی جو پہلے بس فکری درجہ کی تھی، سرگرم عملی وابستگی میں تبدیل ہو گئی تھی اور اس رشتہ کی یہ سرگرمی ٹھیٹھ سرسید مکتب فکر والی لائن پر تھی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں جب برطانوی حکومت نے سائمن کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا جس کو ہندوستان کے لیے آئندہ دستوری اصلاحات کے بارے میں سفارشات پیش کرنا تھیں اور اس کمیشن میں تمام کے تمام انگریز تھے، ایک بھی ہندوستانی کونہیں لیا گیا تھا، تو اس پر کانگریس نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ مسلم قائدین میں خود مسٹر جناح صدر مسلم لیگ کا یہی فیصلہ تھا، مگر اقبال اس کے برعکس اپنے صوبائی صدر سر محمد شفیع کے ساتھ اس کمیشن کے تعاون کے لیے اس حد تک گئے کہ مسلم لیگ، جناح لیگ اور شفیع لیگ کے دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور یہ دونوں لیگیں پبلک سطح پر ایک دوسرے سے متصادم ہوئیں۔ چنانچہ جب مسٹر جناح نے دوسرے مسلم لیڈروں کے ساتھ مل کر ایک بیان کمیشن کے مقاطعہ کے لیے شائع کیا تو ا س کے رد عمل میں علامہ اقبال نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ ایک بیان دیا جس کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ:

’’ہم نہایت جرات اور زور سے کہتے ہیں کہ ہم کرایہ کے ٹٹو بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسٹر جناح اور دیگر حضرات نے یہ فقرہ اڑا لیا ہے کہ ہماری خود داری ہمیں رائل کمیشن کی تائید کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جنگ اور خود داری یکجا قائم نہیں رکھی جا سکتیں......‘‘ (صفحہ ۳۳، ۳۴)

پنجاب مسلم لیگ، جس کے علامہ صاحب سیکرٹری تھے اور سر محمد شفیع صدر، اس کی اس روش پر مولانا محمد علی نے اپنے اخبار ہمدرد میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’سر محمد شفیع سے بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی وائسرائے کی رائے سے ہم رائے نہ ہوں۔ انھوں نے اپنی وفاداری کا راگ گانا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب کی بد قسمتی ہے کہ سر محمد اقبال جیسے لیڈرسر محمد شفیع جیسے وفادار کو اپنی آزاد خیالی کی سطح تک ابھار کر نہ لا سکے بلکہ برخلاف اس کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی سر محمد شفیع کی وفاداری کی پست سطح پر اتر آئے ہیں۔ چنانچہ کمیشن کے متعلق پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری کا بیان اس کے صدر کے بیان سے کہیں زیادہ چاپلوسی کا ہے۔‘‘ (ص ۳۳)

علامہ صاحب اس درجہ کامل ’’سرسیدی‘‘ تو ڈاکٹر جاوید اقبال کے صریح بیان کے مطابق تھے ہی، اس پرمزید یہ کتاب یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ برصغیر کے معاملات کو ایک حد تک پنجابی صوبائیت (یا کہیے علاقائیت) کی سطح سے دیکھنے والوں میں بھی شامل ہو گئے تھے۔ سائمن کمیشن کے بارے میں ان کے جس بیان کے آخری فقرے اوپر نقل کیے گئے ہیں، اسی بیان میں ہے کہ:

’’جن مسلمانوں نے مسٹر جناح کے اعلان پر دستخط کیے ہیں، ان میں سے بعض تو ایسے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مسلمان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ ان کی روش پنجاب اور بنگال ایسے صوبوں کے مسلمانوں کی حکمت عملی کو تبدیل یا وضع نہیں کر سکتی۔‘‘ (ص ۳۴)

اسی طرز فکر کا اظہار ان کے مسٹر محمد علی جناح کے نام ایک خط سے بھی ہوتا ہے جو ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو لکھا بتایا گیا ہے۔ اس خط میں تحریر فرماتے ہیں:

’’.... میرے خیال میں نیا آئین ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بنا پر حد درجہ یاس انگیز ہے۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ وتسلط سے بچانے کی واحد ترکیب وہی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ یعنی مسلم صوبوں پر مشتمل ایک جداگانہ وفاق کا قیام ...... میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔‘‘ (ص ۳۲۸) (نوٹ: آخری جملہ کو انڈر لائن کیا جانا، یہ راقم کی طرف سے ہے)

کیا یہ طرز کلام انھیں علامہ اقبال کا ہو سکتا ہے جنھیں ہم ’’عشق کے دردمند‘‘ کے طور پر جانتے آئے تھے؟ اور جن کی آفاقیت نے کہا تھا:

درویش خدا مست، نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند

نیز ارشاد ہوا تھا:

تو ابھی رہ گزر میں ہے، قید مقام سے گزر
مصر وحجاز سے گزر، پارس وشام سے گزر

نہیں، یہ دراصل ان کے اندر ۱۹۲۷ء سے پروان چڑھنے والی ایک نئی شخصیت کا ظہور تھا جو ۳۷ء کے اس معرکہ انگیز سال میں اپنے کمال کو پہنچ گئی نظر آتی ہے جس میں انڈیا ایکٹ ۳۵ء کے ماتحت ہونے والے الیکشن کے بعد یوپی کی وزارت سازی کے مسئلہ پر لیگ اور کانگریس کے درمیان کبھی نہ پٹنے والی خلیج پیدا ہوئی اور محمد علی جناح بھی سرسید والے دو قومی نظریے کو اپنانے کی طرف چل پڑے۔ اور یہ ۳۷ء وہ سال تھا کہ علامہ کی ۳۴ء سے شروع ہونے والی علالت اپنی آخری حدیں چھونے لگی تھی اور بالآخر اپریل ۳۸ء میں شمع حیات ہی گل کر گئی۔ زندگی کے اس مرحلے میں علامہ کے لیے یہ صورت حال کس قدر تسکین بخش رہی ہوگی کہ وہ اپنے جیتے جی مسٹر محمد علی جناح کو فکری طور پر وہیں پہنچتا ہوا دیکھ رہے ہیں جہاں ان کو پہنچانے کے لیے وہ ۱۹۲۷ء سے کوشاں ہوئے تھے۔ ایسے میں ناگاہ ان کے کان میں آواز آتی ہے کہ مسند آرائے دیوبند مولانا حسین احمد مدنی اس دو قومی نظریہ کی راہ میں حائل ہونا چاہتے ہیں۔ تب ---- اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ---- ان کا اس پر یہ بھڑک اٹھنے والا انداز کچھ غیر متوقع نہیں رہتا۔ آخر کو انسان تھے۔

صحت کے اعتبار سے علامہ کے ضعف کا یہ عالم بھی یہاں ملحوظ رہے کہ فروری میں کہے گئے ان اشعار کے سلسلہ میں چھڑ جانے والی بحث پر جب علامہ نے اپنی بات مدلل کرنے کے لیے ایک مفصل بیان کی ضرورت سمجھی تو خود اس قابل نہ تھے کہ اس کو لکھ سکیں، بلکہ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بیان کے مطابق یہ کام ان کے خاص معاونین، چودھری محمد حسین وغیرہ نے انجام دیا۔ (ص ۳۶۸) اور خود اشعار بھی اپنے معنوی پہلو سے اس گواہی کے لیے کم نہیں کہ علالت کے اثرات ایسے ہی غیر معمولی درجہ پر پہنچ چکے تھے، ورنہ اگر کسی نے ’’ملت از وطن است‘‘ کا سرود ’’بر سر منبر‘‘ الاپنے کا ارتکاب کیا بھی تھا تو ’’مقام محمد‘‘ کی معرفت تو بہت آگے کی چیز، یہ تو اس شخص کے دین محمد کی الف با تا سے بھی بے خبری کی دلیل ہے۔ پھر یہاں کیا محل کہ مقام محمد سے بے خبری کی طعن کی جائے؟ اور وہ کہ جو دین مصطفی کی الف با تا سے بھی بے خبر پایا جا رہا ہو، اسے کیا سمجھ آئے گی کہ ’’بہ مصطفی برساں خویش را‘‘ میں علامہ نے کیا فرمایا؟ مگر چونکہ علامہ کے یہاں اصل دین اور دینداری حضرت محمد مصطفی ﷺ سے جذباتی تعلق ہے، جیسا کہ ان کی شاعری سے عیاں ہے اور اسی کو جناب رشید احمد صدیقی مرحوم نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے کہ ’’اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت کی ہے‘‘ (اور اسی سے ان کی ان عملی دینی کمزوریوں کا عقدہ حل ہو جاتا ہے جو کچھ ایسی راز بھی نہ تھیں اور ڈاکٹر جاوید نے تو ان کو اس درجہ کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اچھا تھا اگر وہ یہ نہ کرتے) پس ان اشعار کے معنوی پہلو کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انحطاط قویٰ کے اس عالم میں جب علامہ نے ’’ملت از وطن است‘‘ کے ’’سرود‘‘ پر گرفت کے ارادہ سے قلم اٹھایا تو وہ موقع ومحل کی رعایت کرنے کے بجائے بے ساختہ اسی راہ پر رواں ہوا جس کا وہ عادی تھا۔

الغرض علامہ ان اشعار کی تسوید کے وقت جن خاص حالات کے ماحول میں اور صحت کی جس منزل میں تھے، اس کے پیش نظر ان کا یہ غیر متوقع کلام کچھ ایسا ناقابل فہم نہیں رہتا۔ صد شکر کہ علامہ کو انتقال سے پہلے اس کا موقع میسر آ گیا کہ اس قضیہ نامرضیہ کی وراثت چھوڑ کر نہ جائیں۔ حضرت مولانا کی طرف سے کی گئی ایک وضاحت آپ تک پہنچی، جس کے حوالے سے یہ اعلان اخبارات میں چھپوایا کہ اس کے بعد مولانا پر اعتراض کا کوئی حق انھیں نہیں رہتا، مگر افسوس آپ کے لوگوں نے آپ کے بعد آپ کا جو مجموعہ کلام ’’ارمغان حجاز‘‘ چھپوایا تو اس میں ان اشعار کو شامل کیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ’زندہ رود‘ میں اس سوال کا جواب بھی آیا ہے اور اس سے ان ’’خاص حالات‘‘ کے غیر معمولی اثرات کی مزید توثیق ہوتی ہے جن کے حوالہ سے علامہ کے بالکل غیر متوقع طرز کلام کی توجیہ ممکن ہوئی۔ علامہ کے رجوع کے بعد ان اشعار کو ان کے نامہ اعمال میں برقرار رکھنے کا جواز بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مولانا نے بعد میں ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے نام سے جو رسالہ چھاپا، وہ وضاحت کے برعکس تھا۔ پھر اس میں علامہ کی توہین کرتے ہوئے انھیں ساحران برطانیہ کے سحر میں مبتلا قرار دیا گیا اور ’’کودک ناداں‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ (ص ۳۷۰) اس بیان جواز میں صرف یہی نہیں ہے کہ ساحرین برطانیہ کے سحر میں آ جانے کی جو بات حضرت مولانا نے محض ایک بشری کمزوری کے طور پر کہی تھی جو کسی بھی شخص کو لاحق ہو سکتی ہے، اسے طنز وملامت پر محمول کر لیا گیا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ’’کودک ناداں‘‘ والا شعر جو صاف طور پر حضرت مولانا نے ازراہِ عجز وانکسار اپنے حق میں لکھا ہے، اسے علامہ کے حق میں پڑھ لیا گیا۔ حالانکہ ’’زندہ رود‘‘ کو پڑھ کر کسی ایسے شبہ کی ادنیٰ گنجایش نہیں رہتی کہ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی اردو فارسی اتنی کمزور ہو۔ تو پھر اس برعکس فہم کی ذمہ داری کے لیے نظر سوائے مسلم لیگ اور کانگریس کی ہوش ربا کشمکش والے ان حالات کے اور کس طرف جائے جو مسٹر جناح سے مولانا آزاد کو ’’شو بوائے‘‘ کہلوا دیں اور علامہ کی زبان پر شیخ دیوبند کے لیے ’’بو لہبی‘‘ کی وعید جاری کرا دیں؟

اس تحریر کا اصل مدعا تو پورا ہو گیا۔ یوں اور کافی باتیں اس میں ایسی ہیں کہ نقل کر دینے کی گنجایش ہو تو سب کام کی، تاہم ان میں ایک دو جو موجودہ مادیت اور زر پرستی کے دور میں ’’قندیل رہبانی‘‘ کا سا منظر پیش کرتی ہیں، ان کی گنجایش تو نکالنی ہی چاہیے۔ شاید ہم میں سے کچھ لوگوں کے دل ان میں پوشیدہ نصیحت سے جاگ پڑیں کہ بہت اندھیری چھائی ہے، اور یہ نصیحت علامہ کی شاعری کے خاص موضوعات میں سے بھی ہے۔

علامہ کے سفر افغانستان کے حوالہ سے وہاں کی معروف شخصیت ملا شور بازار کے یہاں حاضری کا جو ذکر آیا ہے تو بے تاج بادشاہی کا درجہ رکھنے والی اس شخصیت کے مکان کی کیفیت بھی قابل ذکر پائی گئی۔ لکھا ہے کہ

’’وہ ایک تنگ گلی کے اندر تھا اور ہر قسم کے تزک واحتشام اور ظاہری آراستگی سے خالی۔ باقاعدہ نشست گاہ بھی نہ تھی۔ زنانہ مکان تھا جہاں پردہ کرا کر ان لوگوں کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ انھیں ایک لمبے کمرہ میں لے جایا گیا جس میں ایک طرف ایک پلنگ بچھا تھا اور باقی زمین پر سادہ فرش بچھا تھا۔‘‘ (ص ۲۳۶)

علامہ کو ان کی زندگی کے آخری سالوں میں علالت کے ساتھ ساتھ معاشی پریشانی نے بھی گھیر لیا تھا۔ آپ کے دوست اور قدر داں سر راس مسعود (وزیر تعلیم ریاست بھوپال) کی کوشش سے ریاست سے آپ کے لیے پانسو روپے ماہوار تا حیات کا وظیفہ منظور ہوا۔ سر راس مسعود نے اس کی اطلاع کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ وہ کوشاں ہیں کہ بھوپال کے علاوہ حیدر آباد، بہاول پور وغیرہ بھی ان کے لیے وظیفے جاری کریں۔ اس کے جواب میں علامہ کا خط نقل کیا گیا ہے:

’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے، وہ میرے لیے کافی ہے۔ اور اگر کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ آپ کو میرے اس خط سے یقیناًکوئی تعجب نہ ہوگا کیونکہ جن بزرگوں کی آپ اولاد ہیں اور جو ہم سب کے لیے زندگی کا نمونہ ہیں، ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہا ہے۔‘‘ (ص ۳۶۸)


آراء و افکار

(جون ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter