قربانی کا تصور شاید اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسان کی معلوم تاریخ ۔ تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قربانی کی رسم موجود رہی ہے ۔ یہ رسم اپنے ظاہر میں متنوع ہونے کے باوجود کسی ایسے یکساں جذبے یا داخلی تحریک کی علامت ہے جو تمام انسانوں میں فطری طور پر موجود ہے۔ تاریخ کے صدیوں پر محیط سفر سے ان گنت مثالیں دینے کے بجائے ہم صرف اسی مثال پر اکتفا کریں گے کہ اہلِ روم دوسری پیونک جنگ تک دیوتاؤں کے حضور انسانوں کی قربانی پیش کیا کرتے تھے۔ قربانی کے اس سفاک مظہر کو معاشرے میں عمومی قبولیت حاصل تھی کیونکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے ایک فطری داخلی جذبے کی تسکین ہوتی تھی۔ یہاں ہم تحلیلِ نفسی کی اس بنیادی دریافت کا ذکر کرنا مناسب سمجھیں گے جس کے مطابق ، اگر کسی داخلی تحریک یا جذبے کو عمل میں ظاہری اظہار پانے سے روک دیا جائے تو وہ جذبہ عموماً ختم نہیں ہوتا، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وہ وقتی طور پر ’’دب ‘‘ جاتا ہے اور پھر بعد میں اظہار کی ایسی راہ تلاش کرتا ہے جو اکثر اوقات اس ظاہری اظہار سے بہت زیادہ قبیح اور نقصان دہ ہوتی ہے جسے نامعقول قرار دے کر (یا کسی بھی وجہ سے ) عمل میں آنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور اسے دبانے کی بھی (بظاہر کامیاب ) کوشش کی گئی ہوتی ہے۔
ہماری رائے میں سنتِ ابراہیمی ؑ کی بے شمار حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ یہ انسان کی کی بہت بڑی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اگرچہ زندہ صحت مند جانور کے گلے پر چھری پھیرنا، خون بہانا، کھال اتارنا وغیرہ کسی حد تک سفاک عمل معلوم ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہی داخلی جذبہ جس کی تسکین جانور کو ذبح کرنے سے ہو جاتی ہے، کسی بہت ہی مکروہ اور انسانیت سوز صورت میں سامنے آسکتا ہے، جیسا کہ خود انسان کی قربانی کرنا۔ مسلم معاشرے کی تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں انسانیت سوز قسم کی رسوم کبھی نہیں پنپ سکیں، اس کی ایک بنیادی وجہ اسلام کا تصورِ قربانی ہے۔ اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ انسان کے بنیادی جذبات اور داخلی تحاریک کی نفی نہیں کرتا، بلکہ ان کی تہذیب کرتا ہے جیسا کہ جنگ کے مقابل جہاد کا تصور۔ جہاد، انسان کے ایک فطری جذبے کی متشکل جہت اور جنگ کی تہذیب یافتہ صورت ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہو گا کہ جنگ ہونی ہی نہیں چاہیے اور اسی طرح قربانی بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس میں خوامخواہ خون بہایا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں یہ کہنا ہی آسان ہے لیکن اس پر عمل عمومی انسانی نفسیات اور رویے کے باعث ناممکن ہے ۔ مثلاً اگر سبزی خور قوموں کی رسوم پر نظر دوڑائی جائے تو ایک طرف جانوروں کی پرستش نظر آئے گی اور دوسری طرف عورت کا خاوند کی لاش کے ساتھ زندہ جل مرنا۔ ان دو مظاہر کے تضاد سے وہ قومیں آگاہ ہی نہیں ہوتیں کیونکہ دونوں مظاہر انسان کے دو داخلی فطری جذبات کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔
ہماری رائے میں ستی اور اسی نوعیت کی دیگر رسوم اس جذباتی خلل کا نتیجہ ہیں جو ایک فطری جذبے (قربانی) کے مناسب اظہار پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اسلام اپنی اپروچ میں ’’خیالی اور مثالی‘‘ تعلیمات نہیں دیتا بلکہ اس کی مثالی تعلیمات کی نوعیت ’’ممکن الحصول مثالی ‘‘ کے دائرے میں آتی ہے، اسی لیے اس نے انسانی روح میں گندھے ہوئے جذبات کے اظہار پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ان کے اظہار کی ایسی راہیں نہ صرف تسلیم کی ہیں بلکہ انھیں اپنانے کی ترغیب بھی دی ہے جو داخلی جذبات کی آسودگی کے ساتھ ساتھ انسان کو بطور انسان متوازن رکھتی ہیں۔ دنیا کی قومیں اگر اپنی تاریخ کے آنے والے دور میں ’’قبیح رسوم ‘‘ سے بچنا چاہتی ہیں تو عید البقر میں مضمر مذکورہ بالا حکمت کے پیشِ نظرانھیں مسلمانوں کی ہمراہی میں سنتِ ابراہیمی ؑ ادا کرنی چاہیے۔