’الشریعہ‘ دسمبر ۲۰۰۵ء میں ’’اسلام کا نظریہ مال ودولت قصہ قارون کی روشنی میں‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون کے بعض مندرجات ہمارے نزدیک محل نظر ہیں جن کی وضاحت درج ذیل سطور میں کی جا رہی ہے۔
بہت سے علما کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر (القصص ۷۶۔۷۹، العنکبوت ۳۹، المومن ۲۴) قارون نامی جس سرمایہ دار کا ذکر ہے، وہ وہی شخصیت ہے جس کا نام بائبل میں (گنتی ب ۱۶ و ۲۶:۱۰، خروج ۶: ۲۱، ۱۔تواریخ ۶:۲۲) قورح بتایا گیا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ بائبل کے معروف عالم جناب محمد اسلم رانا مرحوم نے ماہنامہ ’المذاہب‘ لاہور (جون ۱۹۹۰) میں اس کی تفصیلی وضاحت فرمائی ہے۔
ڈاکٹر ندوی اپنے مذکورہ مضمون میں لکھتے ہیں:
’’تورات میں بھی قارون کا ذکر ہے، لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (تورات، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶)‘‘
ہماری گزارش یہ ہے کہ ’قارون‘ نام پوری بائبل میں کہیں بھی درج نہیں۔ گنتی کے باب ۱۶ میں قورح کا ذکر ضرور ہے، لیکن جیسا کہ ہم واضح کریں گے، اس کا قارون سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب قورح بن اضہار بن قہات بن لاوی بن یعقوب کو ہی قارون قرار دے رہے ہیں تو بھی تورات میں اس کی فراوانی دولت کا کوئی ذکر نیں اور نہ کبھی قورح نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہو کر یہ کہا کہ ’’میں مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔‘‘ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے یہ بات تورات کی طرف کیسے منسوب کر دی۔
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’تورات کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی تھیں اور تین سو اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔......... یہاں تورات کا بیان غلط معلوم ہوتا ہے کہ چمڑے کی کنجیوں میں اتنا وزن نہیں ہوتا۔‘‘
یہ عبارت بھی گنتی باب ۱۶ میں نہیں ہے بلکہ ہمیں تو پوری کوشش کے باوجود پوری بائبل میں کہیں نہیں مل سکی۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے کبھی بائبل کھول کر نہیں دیکھی اور سنی سنائی اور غیر مستند معلومات کی بنیاد پر مذکورہ عبارت تورات کی طرف منسوب کر دی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا قارون اور بائبل کا قورح دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ علما کو مغالطہ غالباً اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ دونوں شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں تھے، دونوں کا تعلق آپ کی قوم سے تھا، دونوں ہی خطاکار تھے اور دونوں کو زمین میں دھنسا دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں متعدد قرائن ایسے ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد محترم کا نام عمرام تھا (خرج ۶:۲۰) جبکہ قورح، اضہار کا بیٹا تھا۔ (خروج ۶:۲۲) اضہار، عمرام کا چھوٹا بھائی تھا اور دونوں قہات بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ (خروج ۶:۱۶۔۱۸ و ۱۔تواریخ ۲:۱) گویا قورح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے مصر میں اپنا گھربار اور شہری حقوق وسہولیات چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی او ربحر قلزم کو عبور کیا۔ تمام بنی اسرائیل کی نشست وبرخاست خدا اور اس کے نبی حضر ت موسیٰ کے زیرفرمان ہی ہوتی تھی۔ (گنتی ۹:۲۳) قورح، داتن، ابیرام،اون اور ان کے دوسرے ساتھی بھی ہر عمل میں اپنی قوم کے ساتھ تھے۔ بچھڑے کی پوجا کے واقعے میں یہ اشخاص شرک میں مبتلا ہونے والے گروہ کے خلاف اور حضرت موسیٰ وہارون کے ساتھ تھے۔ اس واقعے میں بنی لاوی نے تمام مشرکین کو قتل کیا تھا۔ (خروج ۳۲:۲۸) اسی وجہ سے بنی لاوی کو بنی اسرائیل میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی تھی (گنتی ۸:۱۴) اور ہو خدا کے چنے ہوئے لوگ ٹھہرے۔ یہاں تک قورح ایک گم نام شخص ہے۔
اس کے بعد ایک اہم واقعے میں قورح کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنی لاوی میں سے بنی ہارون کو ایک ایسا اعزاز سونپ دیا گیا جو دوسرے لاویوں کو حاصل نہیں تھا۔ (خروج ۲۸: ۲ و ۳ و ۴۰۔۴۲، ۲۹:۱۔۹، گنتی ۱۸:۱۔۷) خیمہ اجتماع کی خدمت کا حق تو لاویوں کو مل گیا، لیکن مذبح اور پردہ کے اندر کی خدمت صرف بنی ہارون انجام دے سکتے تھے۔ تورات میں ہے:
’’کہانت کی خدمت کا شرف میں تم کو بخشتا ہوں اور جو غیر شخص نزدیک آئے، وہ جان سے مارا جائے۔‘‘ (گنتی ۱۸:۷)
ہارون اور بنی ہارون کی اس عزت افزائی پر قورح حسد میں مبتلا ہو گیا اور اس نے ۲۵۰ آدمیوں کی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر بنی ہارون کی کہانت پر اعتراض کیا۔ اس نے کہا:
’’تمھارے تو بڑے دعوے ہو چلے۔ کیونکہ جماعت کا ایک ایک آدمی مقدس ہے اور خداوند ان کے بیچ رہتا ہے سو تم اپنے آپ کو خداوند کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟‘‘ (گنتی ۱۶:۳)
بنی اسرائیل میں خاندان کی سرداری پہلوٹھے بیٹے کو ملتی تھی۔ (پیدایش ۲۵:۳۱۔۳۴، استثنا ۲۱:۱۷، خروج ۲۲:۲۹) روبن حضرت یعقوب کو پہلوٹھا ہونے کی وجہ سے سرداری کا حق دار تھا (پیدایش ۳۷:۲۲) لیکن اپنی سوتیلی ماں سے زنا کی پاداش میں ا س حق سے محروم کر دیا گیا۔ (پیدایش ۴۹:۳۔۴، ۱۔تواریخ ۵:۱۔۲) بنی روبن کو اس سے بڑی خجالت کا سامنا تھا، اس لیے وہ بنی لاوی کی تقدیس پر تو خاموش رہے لیکن جب بنی لاوی میں سے قورح کو بنی ہارون کے خلاف باغی پایا تو بنی روبن میں سے الیاب کے دونوں بیٹے داتن اور ابیرام اور پلت کا بیٹا اون بھی مخالفت میں پیش پیش ہو گئے۔ انھوں نے مصر کو دودھ اور شہد کی سرزمین قرار دیا اور حضرت موسیٰ وہارون پر اعتراض کیا کہ انھوں نے بنی اسرائیل کو دودھ اور شہد کی سرزمین یعنی کنعان میں پہنچانے کا جھانسا دے کر یہاں ویرانوں اور بیابانوں میں لا پھینکا ہے۔ (گنتی ۱۶:۱۳۔۱۴) اس پر قورح ، ابیرام، داتن اور اون کو زمین نگل گئی اور ۲۵۰ باغیوں کو آگ نے بھسم کر دیا۔ (گنتی ۱۶:۳۱۔۳۵)
اب ہم قرآن مجید کے قارون کو دیکھتے ہیں۔
قرآن مجید کے بیان کے مطابق قارون قوم موسیٰ میں سے تھا اور بے انتہا دولت کا مالک تھا۔ اس نے اپنی دولت کی حفاظت، قرضوں کے لین دین اور سودکے حساب کتاب کے لیے منشیوں، خزانچیوں، مسلح پہرے داروں، سپاہیوں اور عاملوں ایک پورا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ (۲۸:۷۶) جبکہ بقیہ قوم بنی اسرائیل غلامی، مفلسی اور بیگار میں پس رہی تھی۔ قارون اپنی قوم کے خلاف ہو کر فرعون کے مصاحبوں میں شامل ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور زیب وزینت والے شاہانہ لباس پہن کر اور سواریوں پربیٹھ کر غریب اسرائیلیوں کے سامنے اتراتا تھا۔ جب قوم اسے اللہ کے احسانات پر اس کا شکر ادا کرنے اور غربا پر احسان کر کے اپنی آخرت سنوارنے کا مشورہ دیتی تو وہ شیخی بگھار کر کہتا کہ یہ سب مال دولت اس نے اپنے علم اور منصوبہ بندی سے حاصل کیا ہے۔ (القصص ۷۸) قرآن کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور ہامان کے ساتھ ساتھ قارون کی طرف بھی مبعوث کیے گئے تھے۔ (۲۹:۳۹)
قارون نے کبھی حضرت موسیٰ کی نبوت کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس نے فرعون اور ہامان کی ہم نوائی میں حضرت موسیٰ کو ساحر اور کذاب کہا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قارون کا ذکر کافروں میں کیا ہے۔ (۴۰:۳۲۔۲۵) اپنے اسی تکبر اور کفر کی وجہ سے قارون اللہ کے غضب کا شکار ہوا اور اسے اس کے سارے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ (۲۸:۸۱)
اس تقابل سے واضح ہے کہ قورح نے تو ہجرت کی، جنگلوں اور بیابانوں کی خاک چھانی، بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا، لیکن آخر بنی ہارون کی تقدیس سے حسد کا شکار ہو کر اللہ کے نبی کا گستاخ ہو گیا اور برابری کا دعویٰ کرنے لگا جس کی پاداش میں اسے جیتے جی زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اس کے برعکس قارون نہ ایمان لایا نہ اس نے ہجرت کی، بلکہ مصر ہی میں حالت کفر میں زمین میں دھنس کر آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن گیا۔ دونوں مجرم تھے، دونوں خداکے غضب کا شکار ہوئے اور دونوں کو زمین میں دھنسا دیا گیا، لیکن ان مشابہتوں کے باوجود بہرحال یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں تھیں۔ ان کو ایک قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔