محمد موسی بھٹو
کل مضامین:
4
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
(۱) ملک کے ممتاز فاضل، دانشور اور محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ساٹھ سال کی عمر میں ۲۶ ستمبر کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ’’اناﷲ وانا الیہ راجعون‘‘۔ ہمارے حلقہ سے وابستہ علمی دوستوں وساتھیوں کی، ایک ایک کرکے جدائی جہاں دلی صدمہ کا باعث ہے، وہاں موت کی تیاری کے لیے انتباہ کی حیثیت کی حامل بھی ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب عالم دین تھے، حافظ قرآن تھے، جدید نوعیت کے فقہی مسائل میں ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل تھے، کئی زبانوں میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی بڑی حیثیت یہ تھی کہ وہ دردمند داعی تھے اور خدمت اسلام کا بے پناہ جذبہ...
شیعہ سنی مسئلہ مولانا دریابادیؒ کی نظر میں
’’صدق جدید‘‘ میں مولانا عبد الماجد صاحبؒ نے مسلم امت کے مسائل پر جس بصیرت اور خون جگر سے لکھا ہے، ضرورت ہے کہ ’’صدق جدید‘‘ کے سارے فائلوں کو کھنگال کر مولانا کے اس قیمتی مواد اور ان کے پیش کردہ نکات کو قوم کے سامنے لایا جائے۔ امت میں بڑھتا ہوا مسلکی اختلاف اور اس اختلاف کی وجہ سے افتراق وانتشار اور وقت اور صلاحیتوں کا ایک دوسرے کی قوت کو کمزور کرنے میں استعمال ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے اور اس وقت کا بنیادی مسئلہ بھی۔ دین کے وسیع دائرے میں رہتے ہوئے فقہی، کلامی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف رحمت کا باعث ہونا چاہیے۔ اختلاف کا آغاز، اس کے ارتقا،...
دور جدید میں اسلامی شریعت کا نفاذ کیسے ہو؟
اسلامی شریعت کے نفاذ بالخصوص سزاؤں سے متعلق اس کے قوانین کے اجرا کے سلسلہ میں صحیح نبوی ترتیب کیا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو مسلم معاشروں میں اسلامی حلقوں میں ایک عرصہ سے زیر بحث ہے۔ صوبہ سرحد میں شریعت کے نفاذ کے اعلان اور اس کی منظوری کے بعد اس سوال کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ یقیناًاسلامی شریعت کا نفاذ ہر دردمند مسلمان کے دل کی آواز ہے اور اس سے بڑھ کر کسی علاقہ اور صوبہ کی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا ریاستی نظام قوانین شریعت پر تشکیل دیا جائے لیکن بالخصوص موجودہ دور میں شریعت کے عملی نفاذ کے سلسلے میں جو دشواریاں پیش آ گئی ہیں، انہیں...
سیاسی کے بجائے معاشرتی انقلاب کی ضرورت
تعلیمی اداروں، سماجی اداروں اور اسلام کے نظریاتی اداروں سے وابستہ وہ باصلاحیت افراد جو سیاست میں دینی جدوجہد کے ذریعہ بہت بڑی تبدیلی کی توقع پر معاشرہ کی سطح پر اپنے حصہ کے کام کو معطل کیے ہوئے ہیں یا اس کام کی افادیت کے قائل نہیں، انہیں اس نکتہ پر ضرور غور وفکر کرنا چاہیے کہ اول تو معاشرہ کی سطح پر تبدیلی کے لیے اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے بغیر صحت مند سیاسی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اگر اس طرح کی تبدیلی واقع بھی ہو جائے تو اس تبدیلی میں ان کا کردار نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود تو اس عظیم کام کی سعادت سے محروم ہی رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کے...
1-4 (4) |