آراء و افکار

مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

مغربی اثرات کے تحت اسلامی دنیا میں بیسویں صدی کے دوران جو فکری مواد لکھا گیا اس کا ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ’مغرب کی اجتماعی زندگی چند اعلی انسانی اخلاقی اقدار کا مظہر ہے، لہٰذا مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے‘۔ یہی دعویٰ ان الفاظ میں بھی دہرایا جاتا ہے کہ ’اجتماعی زندگی کی تشکیل کے معاملے میں مغرب ہم سے بہت بہتر اقدار کا حامل ہے، البتہ ذاتی معاملات (مثلاً بدکاری، شراب نوشی وغیرہ کے استعمال ) میں کچھ نا ہمواریاں پائی جاتی ہیں‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ دعویٰ کرنے والے حضرات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب کا اجتماعی نظم ’اسلامی تعلیمات...

عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف / امیر عبد القادر الجزائری: شخصیت وکردار کا معروضی مطالعہ

محمد عمار خان ناصر

عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف۔ دینی مدارس کے طلبہ واساتذہ کے متعلق عام طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ وہ جدید علوم سے واقفیت حاصل نہیں کرتے اور نتیجتاً دور جدید کے ذہنی مزاج اور عصری تقاضوں کے ادراک سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن میرے نزدیک اس طبقے کا زیادہ بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ خود اپنی علمی روایت، وسیع علمی ذخیرے اور اپنے اسلاف کی آرا وافکار اور متنوع تحقیقی رجحانات سے بھی نابلد ہے۔ اس علمی تنگ دامنی کے نتیجے میں ا س طبقے میں جو ذہنی رویہ پیدا ہوتا ہے، وہ بڑا دلچسپ اور عجیب ہے۔ یہ حضرات اپنے محدود علمی...

جعلی مجاہد کی اصلی داستان

مفتی ابو لبابہ شاہ منصور

قارئین کرام! آپ کو علم ہوگا کہ ضرب مومن میں کتابوں پر تبصرے شائع نہیں کیے جاتے یا بہت ہی کم شائع کیے جاتے ہیں۔ نیز یہ بھی علم ہوگا (راقم الحروف پہلے بھی لکھ چکا ہے) کہ احقر کتابوں کا تعارف یا تقریظ لکھنے سے حتی الامکان کتراتا ہے۔ اپنی کتابوں پر بھی اپنے بڑوں کو تقریظ لکھنے کی زحمت دینا اچھا نہیں سمجھتا۔ مروجہ تقاریظ، کتاب، مصنف اور صاحب تقریظ سب کی ساکھ گرانے کا باعث لگتی ہیں۔ کتاب چاولوں کی دیگ نہیں کہ چند چاول دیکھ کر ساری دیگ کو دم لگ جانے کی خوشخبری سنا دی جائے، لیکن آج ا س اصول کو توڑتے ہوئے ہم اپنے آپ کو ایک انوکھی مجرمانہ کتاب کا تعارف...

الجزائری کی داستان حیات: چند توضیحات

محمد عمار خان ناصر

کوئی دو سال قبل مجھے امریکی مصنف جان کائزر کی ایک کتاب کے توسط سے انیسویں صدی میں فرانس کی استعماری طاقت کے خلاف الجزائر میں جذبہ حریت بیدا ر کرنے اور کم وبیش دو دہائیوں تک میدان کارزار میں عملاً داد شجاعت دینے والی عظیم شخصیت، امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت سے تفصیلی تعارف کا موقع ملا تو فطری طور پر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کی داستان حیات اور خاص طو رپر ان کے تصور جہاد سے پاکستان کی نئی نسل کو بھی آگاہی پہنچانی چاہیے تاکہ ہمارے ہاں شرعی جہاد کا مسخ شدہ اور شرعی اصولوں کے بجائے ہمارے اخلاقی، تہذیبی اور نفسیاتی زوال کی عکاسی کرنے والا جو...

’’کافروں‘‘ کے دفاع میں جہاد

جان کائزر

ہر طرف بہت بری افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ تفصیلات بہت کم دستیاب تھیں، لیکن جب اڑتی اڑتی کچھ باتیں امیر کے کانوں تک پہنچیں تو وہ لرز کر رہ گیا۔ عیسائیوں کو اپنے کیے کا پھل بہت جلد ملنے والا تھا۔ ۵ مارچ ۱۸۶۰ء کو دمشق کے گورنر احمد پاشا نے اپنے محل میں کئی مقامی رہنماؤں کی میٹنگ طلب کی جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ اس کا مقصد ’’ذمہ‘‘ کا قانون ختم کرنے والی اصلاحات کو بے اثر کرنا تھا۔ جن لیڈروں کو اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا، ان میں دو دروز سرداروں سعید بے جنبلاط اور ولد العطرش کے علاوہ دمشق کے مفتی بھی شامل تھے۔ دروزوں نے لبنان میں پہلا مرحلہ...

ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگو (۲)

محمد عمار خان ناصر

مشعل سیف: یہ بتائیے کہ آئین کو اور بہت سے قوانین کو Islamize کر لینے اور نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت جیسے ادارے بنا لینے کے بعد پاکستان کو عملی طور پر اسلامی ریاست بنانے کے لیے اب مزید کن چیزوں کی ضرورت ہے اور آگے کس بات کی کوشش کرنی چاہیے؟ عمار ناصر: یہ بھی ایک بڑا اہم سوال ہے کہ عملی طور پر کیا ہو سکتاہے۔ میرے خیال میں جب بھی ہم اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو ہمارا سارا دھیان ریاست اور حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ میرے فہم کے مطابق قرآن وسنت میں جو مسلم معاشرے کا تصور ملتا ہے، اس میں ریاست اور حکومت کے معاملات بہت ثانوی چیز...

امت کا فکری بحران ۔ تاریخی بیانیے کا ایک تنقیدی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

امتِ مسلمہ پچھلی کئی صدیوں سے زوال کا شکار ہے۔ زوال و انحطاط کی مدہوشی میں اس کے ہوش و حواس پر ایک ہی منظر چھایا ہوا ہے۔ اس منظر کا نام ’شان دار ماضی‘ ہے۔ شان دار ماضی میں اسلاف ہیں اور اسلاف کے عظیم کارنامے ہیں۔ یہ منظر اپنی مجموعی کلی حیثیت میں پورے کا پورا چھایا ہوا نہیں ہے۔ شان دار ماضی کے حصے بخرے ہو گئے ہیں۔ سیاست، معیشت، فلسفہ، قانون، تصوف، سائنس، عمرانیات، اخلاقیات، الہیات اور زندگی کے دیگر پہلوؤں میں حاصل کی گئیں کامیابیاں اور کامرانیاں الگ الگ خانوں میں بٹ چکی ہیں۔ اگر ان خانوں کو جدا جدا کرنے کا مقصد، انکشافِ حقیقت کی غرض سے یہ...

دو قومی نظریہ اور امجد علی شاکر

سید امتیاز احمد

جہاں علمی ادارے، میڈیا اور ذہن سازی کے جملہ مراکز اور ذرائع نقطہ ہائے نظر کو تاریخی حقائق اور نظریات کو عقائد بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہوں، جہاں سماعتیں آدھا سچ سننے اور بصارتیں ادھوری حقیقت پڑھنے کی اس حد تک عادی ہو چکی ہوں کہ پورے سچ اور مکمل حقیقت کے روبرو ہونے کی خواہش ہی موجود نہ رہے، وہاں اگر کوئی دیوانہ پکار اٹھے کہ ’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘، وہاں اگر کوئی مؤرخ، تعصبات سے بلند ہو کر تاریخ کا جائزہ لینے کا حوصلہ کر بیٹھے، وہاں اگر کوئی حقیقت کا متلاشی سچ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی کوئے ملامت میں جا نکلے، وہاں اگر کوئی دانش ور سرکاری نقطۂ...

نہ معرفت، نہ نگاہ!

محمد دین جوہر

الشریعہ دسمبر ۲۱۰۲ء میں میاں انعام الرحمن صاحب نے ’’۔۔۔ اور کافری کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے راقم کے مضمون کا جواب دیا ہے۔ انہوں نے کافی محنت سے مضمون کا ایک درسی گوشوارہ مرتب کیا اور پھر اس کا شق وار قانونی جواب دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے میں بڑی محنت اٹھائی۔ اس کے لیے وہ یقیناًداد کے مستحق ہیں۔ اس جواب الجواب کی pedantry کا، صاف ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ان کے جواب سے ہمیں یہ اندازہ بخوبی ہو گیا ہے کہ میاں صاحب ہماری گزارشات اور سوالات کو register بھی نہیں کر پائے اور کسی دوسری طرف نکل کھڑے ہوئے۔ لفظوں کی گردانیں تو ہم نے سن رکھی...

جماعت اسلامی کے ناقدین و مصلحین

خواجہ امتیاز احمد

...

قائد اعظم یا طالبان، کس کا پاکستان؟ / قاضی صاحب پر حملہ / ریاست کے اندر ریاست

خورشید احمد ندیم

قائد اعظم کا تصورِ ریاست ایسا پامال موضوع ہے کہ اب اس پر قلم اُٹھانے کے لیے خود کو آمادہ کرنا پڑتا ہے۔ خیال ہوتا ہے جیسے آدمی پھر سے پہیہ ایجاد کر نے کی کوشش میں ہے۔ لوگ اس باب میں براہین وشواہد کے ساتھ کلام کرچکے۔ اس کے باوصف یہ تاثر ختم نہیں ہو رہا کہ قائد اعظم کے پیشِ نظر ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا۔ ایم کیو ایم جب اسے ایک ریفرنڈم کا عنوان بنا رہی ہے تو اس کا مقدمہ بھی یہی ہے۔ اس نا قابل تردید شہادت کے باوجود کہ قائد نے تمام عمر سیکولرزم کالفظ استعمال نہیں کیا اور بارہا اپنے ارشادات میں واضح کیا کہ وہ اسلام کے اصولوں کو ریاست کی بنیاد بنانا...

.... اور کافری کیا ہے؟

پروفیسر میاں انعام الرحمن

الشریعہ ستمبر ۲۰۱۲ء میں ہمارے شائع شدہ مضمون ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد: قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں ایک عمرانی مطالعہ‘‘ کی بابت محمد دین صاحب جوہر نے ( نومبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں) نہایت درد مندی سے اپنی فاضلانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ جوہر صاحب کی تنقیدی دفتری کافی موٹی ہے۔ آئندہ سطور میں نوع بہ نوع اس دفتری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ۱۔ محترم جوہر صاحب کا پہلا اعتراض: ’’..... میں تو استدراک پر ہی معتکف ہوں اور ابھی تک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ یہ کسی متداول اخبار کا تراشہ ہے یا کسی علمی مضمون کا تتمہ؟ ......... اس مضمون کے عنوان میں ’نفاذ‘ کا لفظ...

سیدہ عائشہؓ سے نکاح کے لیے خولہ بنت حکیمؓ کی تجویز

محمد عمار خان ناصر

سیدہ عائشہؓ سے نکاح کے لیے خولہ بنت حکیمؓ کی تجویز۔ نکاح کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بالغ ہونے کے حق میں بعض اہل علم نے جو مختلف قرائن پیش کیے ہیں، ان میں سے زیادہ تر پر ہم اپنے اصل مضمون (الشریعہ، اپریل ۲۰۱۲ء) میں تبصرہ کر چکے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اور قرینہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ روایات کے مطابق سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہائی کے پیش نظر آپ کو نیا نکاح کرنے کی تجویز خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے دی تھی اور انھی نے اس ضمن میں سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہ عائشہ کے نام آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔ اس...

جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۲)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

کوئی بھی جماعتی نظام حرکت و جمود دونوں کو سمو نہیں سکتا۔ یہ دونوں باہم متضاد ہیں۔ نظام حرکت کو فروغ دینے والا ہو گا تو اس میں جمود کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ اگر نظام کی بنیادوں میں جمود پیدا کرنے والے محرکات کو شامل کیا گیا تو پھر حرکت کے تمام امکانات ختم اور جمود روز بروز مستحکم ہو گا۔ جناب ندوی صاحب نے بہت سے پہلوؤں سے جماعت کے اندر جمود کے محرکات کا جائزہ لیا ہے مگر ان کی نظر جمود کے زیادہ گہرے اسباب تک نہیں پہنچی۔ انہوں نے جماعت کے اندر قیادت سازی کے نظام کو جماعتی استحکام کا سبب قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہی نظام مکمل جمود تک پہنچا دینے کا...

اسلام کی نئی تعریف؟

محمد دین جوہر

میاں انعام الرحمن صاحب نے الشریعہ کے ستمبر ۲۱۰۲ء کے شمارے میں ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدو جہد‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون تحریر کیا ہے۔ ذیل کی گزارشات اسی ضمن میں پیش کی جار ہی ہیں۔ ہم میاں صاحب کے اس مضمون کا ایک تجزیہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہیں گے، لیکن تمہید ہی میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں ا س مضمون کے مشمولات سے نہایت بنیادی نوعیت کااختلاف ہے، کیونکہ قلب ہدایت تک نظریے کی جارحانہ رسائی کو ہم کوئی مستحسن اقدام نہیں سمجھتے۔ اگر خود نظریہ اپنے اظہار کا کوئی علمی اسلوب رکھتا ہو تو اس سے گفتگو میں آسانی ہو جاتی...

احکام شریعت بطور نعمت الٰہی / احتجاج وانتقام اور اسلامی اخلاقیات

محمد عمار خان ناصر

احکام شریعت بطور نعمت الٰہی۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خاتم المرسلین محمد و آلہ وصحبہ اجمعین۔ اما بعد! قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی شریعت کے احکام بیان کرتے ہوئے اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جو ہدایات احکام کی صورت میں، شرائع کی صورت میں مسلمانوں کو دی جا رہی ہیں، یہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں اور جیسے جیسے شرائع اور احکام کا یہ سلسلہ نازل ہوتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی شریعت پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے، ویسے ویسے خدا کی نعمت بھی ان پر مکمل...

غامدی صاحب کے ایک سوال کا جواب

حافظ زبیر علی زئی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی تجویز کس نے پیش کی تھی، اس کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب نے لکھا ہے: ’’روایات بالکل واضح ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ کے نکاح کی تجویز ایک صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم نے پیش کی۔ اُنھی نے آپ کو توجہ دلائی کہ سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محرومی کے بعد آپ کی ضرورت ہے کہ آپ شادی کر لیں، یا رسول اللّٰہ، کانی اراک قد دخلتک خلۃ لفقد خدیجۃ... افلا اخطب علیک؟ (الطبقات الکبریٰ ، ابن سعد ۸/۵۷)۔ آپ کے پوچھنے پر اُنھی نے آپ کو بتایا کہ آپ چاہیں تو کنواری بھی ہے اور شوہر دیدہ...

آئیے تاریخ پڑھیں!

طلحہ احمد ثاقب

پاکستان کو قائم ہوئے پینسٹھ برس بیت گئے، مگر کیا مجال کہ فضا میں ہلکی سی تبدیلی بھی ہوئی ہو۔ وہی نعرے، وہی انداز استدلال، وہی جذباتیت، وہی مخالفین کے لیے سب وشتم وغیرہ۔ مسلم لیگی کارکنوں نے تو ۱۹۴۷ء میں نعرے بلند کیے، مضمون لکھے اور اپنے جذبوں کو زبان دی۔ پاکستان بن گیا تو وہ لوگ حکومتیں کرنے لگے، مخالف منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی مسلم لیگی پر تنقید کی یا حکومتی غلطیوں کی نشان دہی کی، وہیں اسے غدار، ملک دشمن، ہندو کا ایجنٹ وغیرہ کے خطاب عنایت کر دیے گئے۔ تحریک پاکستان کے کارکن تو اللہ کوپیارے ہو گئے، ان کی یادگار کارکنان تحریک...

جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۱)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مولانا سید وصی مظہر ندویؒ کے منتخب مقالات ومکتوبات کا ایک مجموعہ ’’صریر خامہ‘‘ کے عنوان سے جناب محمد ارشد نے مرتب کر کے گزشتہ سال شائع کیا ہے۔ (صفحات:۶۳۷۔ ناشر: فکر و نظر پبلشنگ، ۴۳ ہائی بری سی آر، کچنر او این این ۲این ۳ پی ۶، کینیڈا۔ سب آفس حیدرآباد پاکستان)۔ مولانا سید وصی مظہر ندوی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھنؤ میں پیدا اور ۲ جنوری ۲۰۰۶ء کو کینیڈا میں فوت ہوئے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آخر پر مولانا سید وصی مظہر کا ایک خط تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کے نام شامل ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنے بارے میں درج ذیل تعارفی سطور لکھیں: ’’میں تقریباً...

رؤیت ہلال کا مسئلہ اور ہمارے قومی رویے / توہین مذہب کا تازہ واقعہ۔ توجہ طلب امور

محمد عمار خان ناصر

رؤیت ہلال کا مسئلہ اور ہمارے قومی رویے۔ عید کے موقع پر چاند کی رؤیت کے حوالے سے اہل علم کے مابین بعض فقہی اختلافات عالم اسلام کے کم وبیش تمام حصوں میں موجود ہیں، مثلاً یہ کہ کیا چاند کی رؤیت کا فیصلہ فلکیاتی حسابات کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے یا اس کے لیے چاند کو آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے؟ اسی طرح یہ کہ کیا ایک علاقے میں چاند کے دیکھے جانے پر دوسرے علاقوں کے لوگ، جہاں چاند نظر نہیں آیا، رمضان یا عید کا فیصلہ کر سکتے ہیں یا ہر علاقے کے لوگوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے؟ وغیرہ۔ تاہم ہمارے ہاں چاند کے دیکھے جانے کا فیصلہ کرنے کے لیے علماء...

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۳)

محمد زاہد صدیق مغل

۳۔ اصلاح انفرادیت کے اسلامی کام کی نوعیت۔ یاد رہنا چاہیے کہ مغربی فرد کے اضطرار کی بنیاد گناہ سے آگاہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو عبد پیدا کیا ہے اور جب وہ عبدیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو درحقیقت اپنی اصل اور فطرت سے لڑتا ہے اور نتیجتاً ہر وقت اضطرار اور گناہ کے احساس سے معمور رہتاہے اور گناہ پر مطمئن ہونے کے لیے لغو تعبیریں تلاش کرکے خود کو دھوکا دیتا ہے۔ گناہ سے چھٹکارا اس وقت ممکن ہے جب انسان عبدیت کی نیت کرے، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور گناہ معاف کردیتا ہے۔ اس کے دل کو اضطرار سے نجات دلا کر اطمینان کی دولت سے...

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

۲۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت (Capitalist Subjectivity)۔ اب ہم دیکھیں گے کہ سرمایہ دارانہ یعنی موجودہ مغربی تہذیب کا عام باشندہ عقائد اور حال کے فساد کا شکار ہے۔ پہلی صدی عیسوی کے آخر تک بیشتر عیسائیوں نے ان عقائد کے ایک حصے کو رد کردیا جنکی تبلیغ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمائی اور جنہیں انکے حواریوںؓ نے قبول کیا تھا۔ دوسری سے چودھویں صدی عیسوی تک کی مغربی عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام اور یونانی افکار کا ایک مرکب بن گئی تھی۔ تحریک نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب (Renaissance and Reformation) نے مسیحی عقائد کو تقریباً مکمل طور پر رد کردیا اور یونانی عقائد و افکار کی...

تعریفاتِ علوم کی ماہیت، مقصدیت اور اہمیت

مولانا محمد عبد اللہ شارق

آپ جانتے ہوں گے کہ کسی بھی علم کے آغاز میں اس کی’’ تعریف‘‘ (Definition) کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ تعریف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’تعارف ‘‘ کے ہیں۔ علم کی ’’تعریف‘‘ سے مقصود بھی علم کا ایک اجمالی تعارف ہوتا ہے تاکہ نو آموز طالبِ علم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارتا رہے بلکہ علم کے شروع کرنے سے پہلے ہی اس کے ذہن میں اس کا ایک ہلکا پھلکا سا خاکہ اور تاثر موجود رہے ۔ ’’تعریفات ‘‘ کو علوم کے دیباچہ اور ابتدائیہ کا حصہ بنانے سے اولاً یہی مقصود تھا ‘ مگر یہ مقصود رفتہ رفتہ دھندلاتا چلا گیا اور وہ تعریف جودراصل علم کے حصول کو آسان تر بنانے کے لیے...

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

اس مضمون کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تفہیم کے لیے چند مطلوب بنیادی مباحث کو مربوط انداز میں پیش کرنا ہے۔ سرمایہ داری یا کسی بھی نظام زندگی پر بحث کرتے وقت مفکرین کا نقطہ ماسکہ اجتماعی زندگی اور اسکے لوازمات کی تشریح و تنقیح رہتی ہے اور وہ انفرادیت جو ان تمام اجتماعی معاملات کو جنم دیتی ہے نظروں سے اوجھل رہتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی زندگی فرد کے تعلقات کے مجموعے کے سواء اور کچھ بھی نہیں (۱)۔ انسانی زندگی ایک مربوط عمل ہے۔ انسان کی سوچ، عمل اور تعلقات میں گہرا ربط ہے۔ عمل اور تعلقات سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ سوچ کی بنیاد احساس...

نفاذ شریعت کی حکمت عملی: ایک فکری مباحثے کی ضرورت / مورث کی زندگی میں کسی وارث کی اپنے حصے سے دست برداری / ایک غزل کے چند اشعار

محمد عمار خان ناصر

نفاذ شریعت کی حکمت عملی: ایک فکری مباحثے کی ضرورت۔ ۲۰۰۹ء میں جن دنوں سرحد حکومت اور سوات کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے مابین ’’نظام عدل ریگولیشن‘‘ کے نفاذ کی بات چل رہی تھی، مجھے ۱۰ اور ۱۱ مارچ کے دو دن پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے بھیجے جانے والے ایک وفد کے ہمراہ، جس میں دو درجن کے قریب سول اور سیشن جج صاحبان کے علاوہ ہائی کورٹ کے ذمہ دار افسران بھی شامل تھے، سوات کے شہر مینگورہ میں گزارنے کا موقع ملا۔ مجھے بتایا گیا کہ سرحد حکومت اور مولانا صوفی محمد کے مابین سوات میں امن وامان کے قیام اور شرعی نظام عدل کے نفاذ کے...

سیدہ عائشہ کی عمر

جاوید احمد غامدی

عام طور پر مانا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کے وقت ام المومنین سیدہ عائشہ کی عمر چھ سال تھی۔ یہ نکاح سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ہوا تھا۔ اُن کی رخصتی اِس کے تین سال بعد مدینہ میں ہوئی۔حدیث و سیرت کی کتابوں میں اُن کے بارے میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ اِس سلسلہ کی روایات بخاری و مسلم میں بھی ہیں اور حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں بھی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ دیہاتی اور قبائلی تمدن کی بعض ضرورتوں کے تحت اِس طرح کے نکاح ہوتے رہے ہیں۔ اِس کی مثالیں خود ہمارے معاشرے سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بنیادی اخلاقیات سے جو...

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ / مختلف کلامی تعبیرات کی حقیقت اور ان سے استفادہ کی گنجائش / قربانی کے ایام

محمد عمار خان ناصر

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ۔ مولانا محمد اسلم شیخوپوری سے میرا پہلا تعارف ۔جو غائبانہ تھا اور آخر وقت تک بنیادی طور پر غائبانہ ہی رہا۔ ۹۰ء کی دہائی میں اپنے زمانہ طالب علمی کے اواخر میں ہوا جب ’’ندائے منبر ومحراب‘‘ کے عنوان سے ان کا سلسلہ خطبات منظر عام پر آنا شروع ہوا۔ مجھے تقریر وخطابت سے اور خاص طور پر اس کے مروجہ اسالیب سے طبعی طور پر کبھی مناسبت نہیں رہی، تاہم مولانا شیخوپوری کے سنجیدہ اور بامقصد انداز گفتگو کا ایک اچھا تاثر ذہن پر پڑنا یاد ہے۔ شاید اس زمانے میں اس سلسلے کی کچھ جلدیں بھی نظر سے گزری ہوں۔ ۹۰ء کی دہائی میں ہی والد گرامی...

ہندوستان کی روایتی اسلامی فکر میں تاریخ اور قانونی معیاریت (۲)

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

اجتہاد کی تشریحات۔ قاری طیب صاحب کی اجتہاد کی مجموعی تشریح میں تین متلازم عناصر ہیں: تقویٰ،علمیات اور تاریخ۔ ان تینوں زاویوں کو نظر انداز کرنے سے ان کے تصور اجتہاد کی غلط تفہیم اور ساتھ ہی ان چیزوں کے ان کے تصور کی تحریف ہو سکتی ہے۔ زمانۂ حال کے آزاد خیال تصور اجتہاد اوراخلاقیات کی تشریح و تعبیر میں مشکل ہی سے ایسی قواعد سازی یا قواعد کی تلاش کا سراغ ملے گا، جس کو تقویٰ اور فقیہ و عالم کے شخصی اخلاق کا پابند بنایا گیاہو۔ اس کے برعکس قاری صاحب نہ صرف اس زاویہ کو خاصی اہمیت دیتے ہیں بلکہ مذہبیات کی تعبیر کی اپنی گفتگو میں وہ اسے مرکزی مقام دیتے...

ہندوستان کی روایتی اسلامی فکر میں تاریخ اور قانونی معیاریت (۱)

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

’’ایک زمانہ وہ تھا جب ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم کون ہیں؟ لیکن اب ہم صرف ایک ایسے اداکار کی طرح ہیں جو صرف اپنے حصے کا مکالمہ دہرا دیتا ہے۔‘‘ (John M. Coetzee, Elizabeth Costello)۔ ’’ ماضی بعید ان چیزوں میں سے ہے جو جہالت کو ثروت مند بنا سکتی ہے ۔ یہ مستقبل کے مقابلے میں اپنے اندر بے انتہا لچک رکھنے والی ہے او ر بہت زیادہ اہم ہے ۔ اس کے لیے ہمیں کم سے کم کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔یہی وہ معروف موسم ہے جسے تمام اساطیر کا تحفظ حاصل ہے۔‘‘ (Jorge Luis Borges,"I, a Jew": Selected New Fictions)۔ تعارف۔ کم و بیش دو صدیوں سے مسلم مفکرین اجتہاد کے نظریے کی وکالت و اشاعت کرتے رہے ہیں۔ (۱)اجتہاد کی...

استاذ گرامی حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ / مرزا غلام احمد کے دعاوی اور قادیانیوں کی تکفیر

محمد عمار خان ناصر

(’’خاطرات‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شذرات کا آغاز کافی عرصے سے ذہن میں تھا جس میں مختلف علمی، فکری، فقہی، معاشرتی وتہذیبی اور مشاہداتی موضوعات کے حوالے سے، جو راقم الحروف کے زیر غور رہتے ہیں، اپنے طالب علمانہ نتائج فکر کو مختصر تحریروں کی صورت میں قارئین کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔ زیر نظر شمارے سے اس سلسلے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ اس عنوان سے کچھ نہ کچھ معروضات تسلسل کے ساتھ پیش کی جاتی رہیں۔ واللہ الموفق۔ عمار ناصر)۔ استاذ گرامی حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ۔ مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کم وبیش نصف صدی تک درس وتدریس اور...

شیخ ایمن الظواہری پر حافظ عمار ناصر کی تنقید کا محاکمہ

محمد عادل فاروقی

الشریعہ کی اشاعت خاص (جہاد: کلاسیکی اور عصری تناظر میں) میں حافظ عمار ناصر کا مضمون پڑھنے کے بعد قلب و ذہن کی عجیب کیفیت ہے کہ خیر القرون کے ایک تابعیؒ اور شر قروں کی طرف محو سفر زمانے کی ایک کافرہ نے بیک وقت فکر و خیال کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اہل علم کے بقول پیغمبرانہ اسلوب بیان رکھنے والے مشہور تابعی بزرگ شیخ حسن بصریؒ نے ایک بار فرمایا: ’’ ما لی اریٰ رجالا و لا اریٰ عقولا‘‘ (الحسن البصری، ابن جوزی ،ص ۶۹) کیا معاملہ ہے کہ مجھے آدمی تو نظر آتے ہیں مگر عقلیں نایاب ہیں۔یاد رہے کہ شیخ ؒ یہ سب کچھ خیر القرون ہی میں فرما رہے ہیں اور وہ زمانہ عہد...

’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۲)

مولانا محمد بدر عالم

11) دیگر مذاہب کے اثرات:خارجی اثرات نے بھی بہتوں کو گمراہ کیا۔ اسلام جزیرہ عرب سے باہر نکلاتو بجلی کی سی رفتار سے بڑھنے لگا۔ غیر اقوام ومذاہب کے لوگ جو غلط عقائد پر اپنی عمریں گذار چکے تھے۔ ترک مذہب کرکے داخل اسلام ہوئے تولاشعوری طور پر سابقہ اثرات بھی ہمراہ لائے کئی مسائل جو ان کے دماغی سانچے میں ماقبل اثرات کی وجہ سے درست نہ بیٹھے تو انہوں نے ان کی نئی تعبیر پیش کردی۔ انہی لوگوں سے مسلمانوں کااختلاط ہواتو ان کے عقائد ورسوم کا بہت کچھ اثر ان مسلمانوں نے بھی قبول کیا جو لاعلم یاکم علم تھے۔ ایسے ہی اثرات اس وقت بھی مرتب ہوئے جب غیر اقوام کی کتابیں...

’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘

محمد رشید

امن ایک نہایت مطلوب چیز ہے اور تشدد ایک قابل نفرت چیز۔ساری دنیا امن سے محبت کرتی ہے اور تشدد کو برا جانتی ہے، لیکن اگر کوئی مفکر امن سے محبت اور تشدد سے نفرت کے نام پر اقوام اور ریاستوں کی دفاعی قوت یعنی افواج کوختم کرنے کی دعوت دے اور یہ کہے کہ جدید دور میں فوج بنانے کا مطلب ہے تشدد کا حامی ہونا، لہٰذا کسی ملک کو اپنے پاس فوج نہیں رکھنی چاہیے تو اقوام عالم کی اکثریت من حیث المجموع اس غیر معقول فلسفہ کو ردکردے گی۔ اسی طرح ’’امن اور شانتی‘‘ کے نام پر اس حد تک غلو کا شکار ہونا کہ کمزوری، پستی، ذلت، رسوائی، بے حمیتی، بے حسی اور غلامی کی ہر پست...

حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحث

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خروج اور تکفیر کا مسئلہ ایک عرصہ سے دینی حلقوں میں زیر بحث ہے اور مختلف حوالوں سے اس پر بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مسئلہ نیا نہیں ہے، بلکہ خیر القرون میں بھی اس پر بحث ومباحثہ ہو چکا ہے اور مختلف حلقوں کا موقف تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ تکفیر کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا جب جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر سے خوارج نے علیحدگی اختیار کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر الزام لگا دیا کہ انھوں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ جنگ کے دوران جنگ کو فیصلہ کن نتیجے تک پہنچانے کی بجائے صلح کی پیش کش قبول کر کے اور حضرت عمرو بن العاصؓ اور...

پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہے

الشیخ ایمن الظواہری

(مصنف کی کتاب ’’الصبح والقندیل‘‘ کے اردو ترجمہ سے اقتباسات۔)۔ جب سے میں پاکستان سے متعارف ہوا ہوں، مسلسل کئی پاکستانی بھائیوں اور اسلامی جماعتوں کے داعی اور کارکن حضرات کو ایک بات دہراتے سنا ہے۔ ان سب حضرات کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت دیگر مسلم ممالک میں قائم نظام ہائے حکومت سے قدرے مختلف ہے، کیونکہ پاکستان کا دستور صحیح اسلامی اساس پر قائم ہے۔ یہ دستور عامۃ المسلمین کو اپنے نمائندے چننے اور شریعت کی روشنی میں اپنے حکام کا محاسبہ کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ پس مسئلہ دستور یا نظام کا نہیں، بلکہ اس فاسد حکمران طبقے...

دنیائے اسلام پر استشرقی اثرات ۔ ایک جائزہ (۲)

ڈاکٹر محمد شہباز منج

مفسرین اور ان کے متبعین: عالم اسلام میں تفسیر قرآن کے باب میں بھی استشراقی اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔بہت سے مسلم اہل تفسیر نے اپنی تعبیراتِ قرآنی کو استشراقی نتائج فکر سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ان معروف اہل تفسیر کے بہت سے عقیدت مندوں اور متبعین نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور وہی طرز تفسیر اپناتے ہوئے استشراقی تصورات سے تطابق کی سعی کی ہے۔ اس سلسلہ میں دنیائے اسلام کے دو نمایاں ترین افراد یعنی مفتی محمد عبدہ اور سر سید احمد خاں اور ان کے متبعین اور حلقہ فکر کے لوگوں کے تفسیری نکات کا مختصر تذکرہ ضروری آگہی کے لیے کفایت کرے...

’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۱)

مولانا محمد بدر عالم

امت مسلمہ اس وقت گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ عالمی کفر نے ہر طرف سے اس کو شکنجے میں کس لیاہے۔ ہم معاشی طور پر خدایانِ مغرب کے محتاج اور عسکری طور پر ان کفار کے دست نگر ہیں۔ ہم ان کے سیاسی قیدی اور تہذیبی غلام ہیں۔ جمہوری نظام ہماری آنکھوں کا تارا اور بے دین معاشرت ہمارے سروں کا تاج ہے۔ حالات دِل فگار ہیں۔ ملت کا اجتماعی ڈھانچہ بالکل ٹوٹ چکاہے۔ معدودے چند افراد کے سوا جو امت کی ڈوبتی ناؤ بچانے کی کوشش کررہے ہیں، بہت بڑی اکثریت صرف اپنے مفادات کی سوداگر ہے۔ مفکروں کی دانش بانجھ اور فکر مردہ ہوچکی ہے۔ حکمران اگر کاسہ لیس اور عیارہیں تو سیاستدان...

رائے کی اہلیت اور بحث و مباحثہ کی آزادی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی ہمارے فاضل دوست ہیں اور مخدومنا المکرم حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاندانی تعلق کے باعث وہ ہمارے لیے قابل احترام بھی ہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کی زیر ادارت شائع ہونے والے جریدہ ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور کے دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں، جو احناف کی ترجمانی کرنے والا ایک سنجیدہ فکری وعلمی جریدہ ہے، مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی نے اپنے ایک مضمون میں ’’الشریعہ‘‘ کی کھلے علمی مباحثہ کی پالیسی کوموضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے...

میرزا عبدالرحیمؒ کے نام مجدد الف ثانیؒ کے خطوط

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ (۹۷۱۔۱۰۳۴ھ / 1624-1563ء) نے ’’اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘ کے اصول کے مطابق جن سیاسی شخصیات کو خاص طور پر خطوط صادر فرمائے اور ان کی اصلاح کی راہ سے بادشاہ، امرا اوردیگر عمائدین حکومت کی اصلاح کا قصد فرمایا ،ان میں ایک بڑا نام میرزا عبدالرحیم خانِ خاناں کا ہے ۔ حضرت مجددؒ کے طرزِ عمل سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ داعی کا ایک اہم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے میں صاحبانِ اقتدار میں سے سلیم الفطرت انسانوں کی کھوج میں خصوصی محنت کرے ،کیونکہ ایسے لوگوں کو تھوڑی سی محنت سے جادۂ مستقیم پر گامزن کیا جاسکتا...

علمی و اجتہادی مسائل میں رائے کا اختیار

حافظ زاہد حسین رشیدی

ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے جہاں کچھ عرصہ سے دینی جرائد میں مقبولیت حاصل کی ہے، وہیں اس کے علمی واجتہادی مسائل میں مباحثے نے بیسیوں Side Effects اثرات کے خدشات کو جنم دیا ہے جن کا اظہار بعض مقتدر شخصیات کرتی رہتی ہیں اور ’الشریعہ‘ کے صفحات پر ان کو جگہ دی جاتی ہے۔ ہماری ناقص رائے میں علمی مباحثے کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ضروری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہم اور نازک ترین مسائل میں اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار کسے حاصل ہے؟ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر ہمارے مخدوم بزرگ حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ رائے دینے کی اہلیت اور نااہلیت کے حوالے سے کسی اصول وضوابط...

آزادانہ بحث و مباحثہ اور ’الشریعہ‘ کی پالیسی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب ہمارے قابل احترام دوست ہیں، تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے ایک عرصے سے سرگرم عمل ہیں، ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کی تشکیل میں ان کا اہم کردار ہے اور دینی حمیت کو بیدار رکھنے کے لیے مسلسل تگ ودو کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے موقر جریدہ ’’البرہان‘‘ کا اکتوبر ۲۰۱۱ء کا شمارہ جناب جاوید احمد غامدی کے افکار وخیالات پر نقد وجرح کے لیے مخصوص کیا ہے اور اس ضمن میں راقم الحروف، ماہنامہ ’الشریعہ‘ اور عزیزم عمار خان ناصر سلمہ پر بھی کرم فرمائی کی ہے جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔ ڈاکٹر صاحب محترم کے دینی معاملات میں عزم وجذبہ کا میں...

مشہورات کو مسلمات بنانے سے اجتناب کی ضرورت

مولانا محمد عبد اللہ شارق

میرے خیال میں اب وہ وقت آگیا ہے کہ میرے ایسے طالبِ علم کو توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ کے ضمن میں کچھ عرض کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے جناب مولانا زاہدالرشدی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے بہت طویل انتظارکے بعد ہی سہی، بہرحال اِس نازک اور حساس مسئلہ میں خاموشی پر اظہار کو ترجیح دی، بغیر کسی لگی لپٹی کے حنفی نکتۂ نظر کو وضاحت سے بیان کیا اور کسی کے طعن وملامت کی پروا کیے بغیر پڑھنے لکھنے والے بچوں کے اس کرب کا مداواکیا جو اِ س مسئلہ کی بابت پیدا ہونے والے سنجیدہ ابہامات اور ان پربڑوں کی لامتناہی خاموشی کو دیکھ کر...

کیا معاصر جہاد ’منہاج دین‘ کے خلاف ہے؟

محمد زاہد صدیق مغل

ماہنامہ الشریعہ، شمارہ اکتوبر ۲۰۱۱ میں فاضل مصنف جناب اویس پاشا قرنی صاحب کا مضمون ’عصر حاضر میں غلبہ اسلام کے لیے جہاد‘ نظر سے گزرا۔ صاحب مضمون نے اپنے مضمون میں دو مقدمات پر بحث کی ہے۔ اولاً، موجودہ دور میں نصوص دعوت کو منسوخ ٹھہرانے والے حضرات کا رد (مضمون کے اس حصے سے ہمیں اتفاق ہے کہ دعوت و تبلیغ کی اہمیت کا انکار کرنا کسی طور درست نہیں)۔ ثانیاً، موجودہ دور میں جہادی جدوجہد کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ منہاج شریعت کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔ اس ضمن میں فاضل مصنف بنیادی طور پر دو دلائل پیش کرتے ہیں: (۱) جہادی جدوجہد ناکامی و نقصان سے عبارت...

مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوائے نبوت اور مولانا وحید الدین خان کا تجاہل عارفانہ

مولانا مفتی محمد سعید خان

جناب مولانا وحید الدین خان صاحب ، عصر حاضر کی ان نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جن کے قارئین کا پوری دنیا میں ایک حلقہ موجود ہے۔لوگوں کوان کی تحریرات کاانتظار رہتا ہے اور ہزاروں افراد نہ صرف یہ کہ ان کے مشن سے وابستہ ہیں بلکہ کسی بھی معاملے میں انہیں جو ہدایات مولانا کی طرف سے ملتی ہیں، وہ دل وجان سے ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے چند ایک پڑھے لکھے حضرات میں ان کانام شمار کیاجاتا ہے اوران کی جو پذیرائی مغربی ممالک میں ہورہی ہے، اس کااندازہ کچھ انہی حضرات کو ہوسکتا ہے جو ان کے شمارے ’’الرسالہ‘‘ کے مستقل قاری ہیں۔ ان کی شخصیت، جیسا...

ہم ۔ دنیا بھر کے تنازعات کے امپورٹر!

مولانا مفتی محمد زاہد

عالمِ عرب میں اس وقت جو عوامی تحریکیں چل رہی ہیں، وہ جہاں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں، وہیں پاکستان سمیت عالم اسلام کی ان سے دلچسپی ایک فطری امر ہے۔ تاہم ان تحریکوں نے خلیجی ریاستوں میں پہنچ کر کسی قدر فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلیاہے یا یہ رنگ انہیں دے دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر اس مسئلے کے حوالے سے کسی قدر کشیدگی کا عنصر بھی آرہا ہے۔ پہلے تو بحرین اور سعودی عرب کے بعض واقعات یا مسائل کی وجہ سے ایک فریق نے سعودی عرب کے فرماں روا خاندان کے خلاف نفرت آمیز بینرز لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے جواب میں دوسرے فریق نے نہ صرف یہ...

کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں

محمد اظہار الحق

(۱) یہ ریاست ہاے متحدہ امریکہ کے شمال کا ایک شہر تھا جہاں اسے ملازمت ملی۔ ہجرت کر کے آنے کے بعد تارکین وطن کے سامنے یوں بھی امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ جہاں بھی روزگار مل جائے، وہیں سے آغاز کرنا پڑتا ہے۔ چند ہفتوں کے اندر ہی اسے احساس ہو گیا کہ پاکستانیوں کی تعداد وہاں کم ہے، بہت ہی کم۔ اور ان میں سے بھی زیادہ تر وہ قادیانی تھے جو مذہبی بنیادوں پر پناہ (Asylum) لے کر آباد ہوئے تھے۔ اس کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ ان کا مقاطعہ کرے، کسی تقریب میں جائے نہ ان سے میل ملاپ کرے۔ دوسرا یہ کہ وہ ان لوگوں سے ملے اور جہاں، جب بھی موقع ہو، بات چیت کرے۔ اس نے دوسرا...

توہین رسالت کی سزا: ایک اجتہادی و اختلافی مسئلہ

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

جہاں تک اس مسئلے میں مذاہب کے اختلاف کا معاملہ ہے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ جمہور کا مسلک تو وہی ہے جس کا اثبات ابن تیمیہ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں کیا ہے، تاہم اس میں کچھ اختلاف بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ راقم نے بھی اپنے مقالے میں اول الذکر نقطہ نظر کو زیادہ اہمیت دی ہے، لیکن کل کی بحث سن کر احساس ہوا کہ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ اسے بھی بیان کیا جائے کیونکہ اس دوسرے نقطہ نظر کا تقریباً انکار کر دیا گیا ہے۔ یہ اختلاف فقہاے احناف کا ہے جن کا مذہب یہ ہے کہ سب رسول کا مرتکب اگر مسلمان ہے تو اسے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اگر ذمی...

پاکستان کا قانون توہین رسالت اور فقہ حنفی

مولانا مفتی محمد زاہد

توہینِ رسالت کے قانون کو ختم یا اس میں تبدیلی کرنے کی جو کوشش نظر آرہی تھی اور جس کے پیچھے ایک خاص لابی بھی موجود تھی جو ہمیشہ پاکستانی عوام کے احساسات وجذبات کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے، یہ کوشش تو دینی جماعتوں کے باہمی اتحاد اور عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت دکھانے سے دم توڑ گئی ہے۔ اس پر یقیناًیہ جماعتیں اور عوام تبریک کے مستحق ہیں۔ اس مسئلے پر گرما گرمی کے دوران میں نے ایک نجی مجلس میں یہ بات عرض کی کہ موجودہ ماحول سے قطع نظر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ۱۹۵ سی کے متعدد پہلو علمی وفقہی لحاظ سے غور کے متقاضی ہیں، نارمل حالات میں علما کو ان پر بھی...

قومی ہم دردی اور ہم

مولانا محمد بدر عالم

لکڑی کا بنا ہواخوبصورت دروازہ گھرسے نکلتے وقت آپ کو الوداع کرتاہے اورگھر میں داخل ہوتے وقت آپ کا استقبال کرکے آپ کادل خوش کرتااوراپنی مضبوطی کا احساس دلاتا ہے ۔ایک دن اچانک جیسے ہی آپ دروازے پر ہاتھ رکھتے ہیں کسی ایک پٹ کا کوئی قبضہ اکھڑ جاتاہے ۔چوکھٹ کے کسی ایک بازوسے لکڑی کا چھلکا ادھڑ کر ہاتھ میں آجاتاہے۔ یہ کیا؟آپ ایک لمحے کے لیے سوچتے ہیں اورفوراہی آپ کو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ دابۃ الارض(دیمک ) کی کارستانی ہے۔ ایسی چوکھٹ کا کیا فائدہ اسے تو تبدیل کرنا پڑے گا۔ پکانے کے لیے بڑے شوق سے آپ چنے یا سفید لوبیا لے کر آئے۔ دھونے کے لیے برتن میں ڈالا،...

تشدد، محاذآرائی، علیحدگی اور غلبہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

تقسیم ہند سے تقریباً نوے برس قبل ۱۸۵۷ میں لڑی جانے والی جنگ آزادی کا اصل مقصد، اسلام کا نفاذ نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف، اپنے علاقے سے غیر ملکیوں کو کھدیڑنا تھا۔ اس لیے اس جنگ میں متحدہ ہند کی تمام قوموں نے بلا تفریق مذہب و ملت، رنگ و نسل مقدور بھر حصہ لیا تھا۔ شاید اسی لیے اس واقعہ کی بابت یہ بحث تو ہوتی رہی کہ یہ جنگ ہے یا غدر۔ لیکن، یہ جہاد ہے یا نہیں؟ اس زاویے سے کوئی سنجیدہ بحث ہمارے علم کی حد تک کبھی نہیں چھڑی۔ جن لوگوں نے اسے ’جنگِ آزادی‘ قرار دیا اور جنہوں نے اسے ’غدر‘ گردانا، دونوں ہی اپنے اپنے موقف کے تاریخی اثرات سے پوری طرح آگاہ نہ...
< 201-250 (427) >

Flag Counter