جناب مولانا وحید الدین خان صاحب ، عصر حاضر کی ان نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جن کے قارئین کا پوری دنیا میں ایک حلقہ موجود ہے۔لوگوں کوان کی تحریرات کاانتظار رہتا ہے اور ہزاروں افراد نہ صرف یہ کہ ان کے مشن سے وابستہ ہیں بلکہ کسی بھی معاملے میں انہیں جو ہدایات مولانا کی طرف سے ملتی ہیں، وہ دل وجان سے ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے چند ایک پڑھے لکھے حضرات میں ان کانام شمار کیاجاتا ہے اوران کی جو پذیرائی مغربی ممالک میں ہورہی ہے، اس کااندازہ کچھ انہی حضرات کو ہوسکتا ہے جو ان کے شمارے ’’الرسالہ‘‘ کے مستقل قاری ہیں۔ ان کی شخصیت، جیسا کہ روز اول سے ہوتا چلا آیا ہے، موضوع سخن رہی ہے ،اب بھی ہے اور جب وہ دنیا میں نہیں ہوں گے، اس وقت بھی اپنے نقاد اور مداحوں کے درمیان گھری رہے گی۔ الرسالہ میں ان کی بعض تحریرات شہ پارہ ہیں اور ہماری نئی نسل کی رہنمائی میں ہمیشہ معاون ثابت ہوتی ہیں، لیکن اس تصویر کادوسرا رُخ یہ ہے کہ ان کی بعض تحریرات اہل ایمان ودانش کے لیے سخت خلجان کا موجب بھی بن جاتی ہیں۔ انگلی کو دانتوں میں دبائے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ جس شخص اورا س کے قلم کی صلاحیتیں اسلام کے مخالفین اور شکوک وشبہات کی جڑ کھودنے میں صرف ہو رہی ہیں، انہی صلاحیتوں کا رُخ پھرا اور کوئی ایسی تحریر وجود میں آگئی جو اہل کفر اور افواج باطل کے لیے ایک عمدہ ہتھیارکا کام دے سکے۔دودھاری تلوارجب کھنچ جائے اور دشمنوں ہی کونہیں دوستوں کو بھی اپنا دفاع کرنا پڑے تو اس کاٹ کی مدح سرائی کیونکر ہو۔
ماہ اکتوبر 2011ء کا شمارہ ’’الرسالہ‘‘ نظرنواز ہوا اور اس ماہ کا موضوع ہے ’’ختم نبوت‘‘۔ ختم نبوت جو ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ اور کفر واسلام کا ایک امتیازی نشان ہے ، مسلمانوں میں کبھی بھی متنازعہ نہیں رہا۔ جس شخص نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا،اسے اور اس کے ماننے والوں کو اُمت مسلمہ نے کبھی بھی اپنی صفوں میں کوئی جگہ نہیں دی۔دعوائے نبوت اس قدر ہولناک ہے کہ اس کے مدعی کے کلام کی توجیہ وتاویل کبھی بھی قابل اعتبار و التفات نہیں ٹھہری ۔اب تک جس آخری شخص نے نہایت شدّو مد سے دعویٰ نبوت بھی کیا اور انہیں اپنے ماننے والوں کی جماعت بھی میسر آئی، وہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی تھے۔ الرسالہ کے اس ’’ختم نبوت‘‘ نمبر میں ، اس دعوائے نبوت کی تاویل کرتے ہوئے جناب مولاناوحید الدین خان صاحب اس دعوے کی نہ صرف یہ کہ نفی کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جناب مرزا غلام احمد صاحب کے دعوائے نبوت کی تاویل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’مرزا غلام احمد قادیانی نے کبھی اپنی زبان سے یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں ظلِّ نبی ہوں، یعنی میں نبی کا سایہ ہوں ۔اس طرح کے قول کو ایک طرح کی دیوانگی تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کو دعوائے نبوت نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ، اکتوبر 2011ء ، ص:13)
معروضہ یہ ہے کہ جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہمیشہ نبوت کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور بالکل صاف اور واضح الفاظ میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نبی اور رسول کہتے رہے ہیں۔ان کی زبان اور قلم ہمیشہ اپنے سننے اور پڑھنے والوں سے یہی تقاضا کرتی رہی ہے اور اب بھی ان کی جماعت کا اصولی مؤقف یہ ہے کہ ان کے مقتدا اورپیشوا جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو نبی اور رسول مانا جائے۔ خود جناب مرز اغلام احمد صاحب قادیانی تحریر فرماتے ہیں :
’’حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، اس میں ایسے الفا ظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ ۔‘‘
پھر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں :
’’چنانچہ وہ مکالماتِ الہٰیہ جو براہین احمد یہ میں شائع ہوچکے ہیں ، ان میں سے ایک وحی اللہ (اللہ تعالیٰ کی وحی)ہے: ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ (دیکھو براہین احمد یہ ، ص:۴۹۸)اس میں صاف طور پراس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے ۔‘‘
چند سطروں کے بعد تو انہوں نے ایسی عبارت لکھی ہے، جو کسی بھی اشتباہ یا تاویل کا موقع فراہم نہیں کرتی:
’’یہ وحی اللہ (اللہ تعالیٰ کی وحی)ہے: محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم، اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی ۔‘‘
(ان تمام عبارات کے لیے ملاحظہ ہو روحانی خزائن ، جلد :18 ص:206-207۔ ایک غلطی کا ازالہ، ص:2-3)
صرف اس ایک کتاب ’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ ہی نہیں بلکہ ان کی متعدد کتابوں میں بار بار اس دعوے کی تکرار کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں ۔ وہ اپنی وحی کو بھی قرآن کریم کے ہم پلّہ قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
’’مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر۔‘‘ (روحانی خزائن ، جلد:17، ص:454۔(ب)اربعین لاتمام الحجۃ علی المخالفین نمبر4، ص:112)
جناب مولانا وحید الدین خان صاحب سے درخواست ہے کہ اگر اب تک انہوں نے احمدی حضرات کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیاتو اُن کی کتاب ’’روحانی خزائن ‘‘کو غور سے پڑھیں اور کسی بھی شخص یافریق کی بات سنے،ان کا لٹریچر پڑھے اور ان کے متعلق کسی بھی ٹھوس ثبوت کے بغیر کوئی حکم لگانا ، بعیداز انصاف ہے ۔ان کی جماعت کے کسی بھی ذمہ دار فرد سے اگران کا مسلک دریافت کیا جائے تو وہ جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی نبوت ورسالت کا ہی اقرار کرتے نظرآئیں گے ۔
یہ تمام تحریر بھی اس صورت کے لیے ہے کہ یہ فرض کر لیاگیا کہ جناب مولانا وحید الدین خان صاحب کی نظر سے جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی ایسی تحریرات اور کتابیں نہیں گذریں، لیکن اگر وہ ان کی کتابوں کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تو پھر وہی مثل صادق آتی ہے کہ ہم سوئے ہوئے کو تو بیدار کرسکتے ہیں ، اس کو نہیں جو سویا بن رہا ہے ۔
مرزا صاحب نے اپنی تحریروں میں بروزی نبوت کا تصور پیش کیا ہے۔ عربی زبان میں بَرَزَ کا لفظ ظہور اور کسی چیز یا کام یا صلاحیت کے ظاہر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ہندوؤں کے عقیدے میں بھی یہ ’’بروز ‘‘شامل ہے۔ان کے مذہب میں یہ بات ہے کہ ان کے دیوتا آسمان سے اُترے اور مختلف انسانوں کے روپ دھار کر انہوں نے بروز کیا یعنی ظہور یا ظاہر ہوئے۔ وہ ظاہر میں انسان لیکن در حقیقت خدا تھے۔جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بھی ہندوؤں کے اس نظریے کو ایک اور رنگ میں پیش کیا اور وہ یہ کہ ہندو تو خداؤں کے بروز کے قائل تھے، انہوں نے نبوت کو بروزی بنادیا کہ ان کے اندر تو حضرت رسالت مآب سمائے ہوئے تھے اور ظاہر میں جسم ان کا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی ایک کتاب’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘میں واضح طور پر تحریر فرماتے ہیں :
’’بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں۔‘‘
یعنی آقائے نامدار حضرت رسالت مآب e میرے اندر سماگئے ہیں ۔ میں ظاہر میں تو مرزا غلام احمد ہوں` لیکن اندر سے محمد رسول اللہ ہوں۔اعاذنا اللہ۔پھر اپنی اسی کتاب میں چند سطروں کے بعد مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’میں بروزی طور پر آنحضرت ہوں۔‘‘ (روحانی خزائن،ج:18، ص:212 (ب)ایک غلطی کا ازالہ ۔ص:8)
جناب مولانا وحید الدین خان صاحب اور ان کی تحریرات سے متاثر ہونے والے حضرات وخواتین کو اس نقطے اور عبارات پر غور فرماناچاہیے کہ جناب مرزا صاحب کہہ کیا رہے ہیں۔ وہ تو یہ بتارہے ہیں کہ میں اندر سے تو حضرت خاتم الابنیاء ہوں اور ظاہر میں مرزا غلام احمد ہوں۔ ایسے عقائد تو ان قوموں کے ہوا کرتے تھے جو اپنے دیوتاؤں کو خدا مانتے تھے اور ہیں۔ اسلام نے بھی کبھی کوئی ایسی تعلیم دی ہے؟کل کو یا زمانۂ ماضی میں اگر کوئی جاہل اور گمراہ صوفی یہ دعویٰ کرے کہ وہ بروزی طور پر خدا ہے تو کیا وہ مسلمان رہ جائے گا ؟وہ دنیا کو اس عقیدے کی دعوت دے کہ میں بروزی اللہ ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے اندر سما گیا ہے اور میں فقط ظاہر میں انسان ہوں، حقیقت میں تمہارا پروردگار ہوں ۔ کیا یہ دعویٰ مسموع ہوگا؟ اس لیے جناب مولانا وحید الدین خان صاحب کن کا دفاع فرمارہے ہیں، چاہیے کہ غور فرمالیں اور جو لوگ دین میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، کہیں ان کی راہ کھوٹی نہ ہوجائے۔
جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ ظِلّی نبی ہیں جناب مولانا وحید الدین خان صاحب تحریر فرمارہے ہیں کہ:
’’انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں ظِلِّ نبی ہوں یعنی میں نبی کا سایہ ہوں۔‘‘ (الرسالہ،بابت ماہ اکتوبر 2011ء، ص:13)
بات یوں نہیں ہے جناب مرزا صاحب نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ حضرت رسالت مآب علیہ الصلاۃوالتسلیم کا سایہ (ظل)ہیں بلکہ انہوں نے تو یہ دعویٰ فرمایا کہ میں نبی ہوں اور میری نبوت کو حضرت صاحب الرسالۃ محمد رسول اللہ سے وہی نسبت ہے جوکہ سایے کو اصل سے ہوتی ہے۔ جناب مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریر کے مطابق تو ان کا اصل دعویٰ محض اصل اور سایے(ظِلّ) کے زمرے میں آتا ہے، لیکن در حقیقت ان کا دعویٰ اپنی چھوٹی نبوت اور حضرت رسالت مآب کی بڑی نبوت کا ہے کہ میں جو کم درجے کی چھوٹی نبوت رکھتا ہوں، اس کے مقابلے میں ایک بڑی نبوت بھی ہے، وہ حضرت رسالت مآب کی ہے۔ وہ تو بہت صاف ،واضح اور بغیر کسی جھجک کے یہ دعویٰ فرماتے ہیں:
’’میں ظلّی طور پر محمد ہوں۔‘‘ (روحانی خزائن ج:18 ،ص:212 (ب)ایک غلطی کا ازالہ،ص:8 )
اور پھر انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دعویٰ کردیا ،ایسادعویٰ کہ جو ان کے اس دعوے کو نہیں مانتے اور اس کی تکذیب کرتے ہیں اور وہ افرادجو جناب مرزا صاحب کو ان کے دعوے میں سچا مانتے ہیں، دونوں کے درمیان مسلم اور غیر مسلم کی لکیر کھچ گئی۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ دعویٰ کیا:
’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (روحانی خزائن ج:18، ص:231۔ دافع البلاء و معیار اھل الاصطفاء: ص:15)
ایک اورحوالہ ملاحظہ ہو :
’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا ۔پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘ (روحانی خزائن، ج:22،ص:406-407۔ حقیقۃ الوحی ، ص:391)
جناب مولانا وحید الدین خان صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ انہوں نے اپنے پرچے ’’الرسالہ ‘‘ میں جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی وکالت ، اور ان کے جرم کو جو کم کرنے کی کوشش کی ہے، تو کیا یہ دعاوی اور عبارات ان کی نظر سے نہیں گزریں؟ اگر نہیں تو یہ تو بہت ہی نامناسب بات ہے کہ وہ جس کی وکالت فرماتے ہیں، وہی ان کے دعوے کی تردید کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کی عبارتیں ایک سے ایک بڑھ کر دعوائے نبوت ورسالت کی ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے دعویٰ کیا ہی نہیں۔ بغیر مطالعہ کیے عقیدۂ ختم نبوت جیسے حساس اور بنیادی عقیدے پر اس طرح کا تبصرہ کیسے مناسب ہے؟ اور اگر ان کی نظر سے یہ تمام کتابیں اور جناب مرزا صاحب کے دعوے گزر چکے ہیں تو پھر کیا اسے تجاہل عارفانہ سمجھا جائے! جناب مولانا وحید الدین خان صاحب چاہیے کہ اپنے الفاظ ، تحریر اور عقیدے سے رجوع فرمائیں۔ اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے اور اس نزاکت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کی اس تحریر کی بنیاد پر کوئی نیا فرقہ نہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ اُمت کی حفاظت فرمائے، پہلے ہی بہت ٹکڑے اور فرقے بن چکے ہیں، اب کہیں کوئی نیا فرقہ یا فتنہ نہ اٹھ کھڑا ہو۔