عام طور پر مانا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کے وقت ام المومنین سیدہ عائشہ کی عمر چھ سال تھی۔ یہ نکاح سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ہوا تھا۔ اُن کی رخصتی اِس کے تین سال بعد مدینہ میں ہوئی۔حدیث و سیرت کی کتابوں میں اُن کے بارے میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ اِس سلسلہ کی روایات بخاری و مسلم میں بھی ہیں اور حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں بھی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ دیہاتی اور قبائلی تمدن کی بعض ضرورتوں کے تحت اِس طرح کے نکاح ہوتے رہے ہیں۔ اِس کی مثالیں خود ہمارے معاشرے سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بنیادی اخلاقیات سے جو سماجی رویے وجود میں آتے ہیں ،وہ مختلف معاشروں میں اُن کے احوال وتجربات کی بنیاد پر مختلف ہو سکتے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک کو معیار بنا کر دوسرے کی اخلاقی حیثیت متعین نہیں کی جا سکتی۔ یہ سب باتیں تسلیم کی جا سکتی ہیں، مگر اِس نکاح کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اِس کے بارے میں جوسوال ہر صاحب نظر کے ذہن میں خلجان پیدا کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اِس نکاح کی ضرورت کیوں پیش آئی اور جو ضرورت آج تھی، اُسے پورا کرنے کے لیے ایک ایسا اقدام کیوں کیا گیا جس سے وہ کئی سال کے بعد بھی پوری نہیں ہو سکتی تھی؟اِس طرح کے نکاح ہو جاتے ہیں، اِس کو ماننے میں تامل نہیں ہے، مگر بغیر کسی ضرورت کے اور آج کی ضرورت کو برسوں کے بعد پورا کرنے کے لیے بھی ہو جاتے ہیں، یہ ماننا آسان نہیں ہے۔
سیدہ کے نکاح کی تجویز اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کی گئی ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ایما سے ہوا ۔ سیدہ نے جو کردار آپ کی زندگی میں ادا کیا اور علم و حکمت کا جو خزانہ اُن کی ذات والا صفات سے امت کو حاصل ہوا، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ اُنھیں اِسی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کر لیا جائے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ نے یہ نکاح اپنی دعوت کی مصلحت سے کیا۔ سیدہ کے والد آپ کے شب و روز کے ساتھی تھے۔ قبائلی زندگی میں رشتے ناتے تعلقات کی مضبوطی میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنے ایک رفیق خاص کے ساتھ یہ رشتہ بھی قائم کر لیا جائے تاکہ دوستی اور محبت کا تعلق مضبوط تر ہو جائے۔
اِسی طرح نکاح کی تجویز اگر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیش کی گئی ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے لیے، اپنی بیٹی اور اپنے خاندان کے لیے اِس شرف و اعزاز کے متمنی تھے کہ جس ہستی کو وہ خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اُس کے ساتھ اُنھیں صہری تعلق کی نسبت بھی حاصل ہو جائے۔ سیدہ اسما کی شادی کے موقع پر اُن کا دھیان اِس طرف نہیں گیا۔ اُن کے بعد یہی ایک بیٹی تھی جس کے ذریعے سے وہ یہ شرف و اعزاز حاصل کر سکتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے نکاح کی تجویز پیش کی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز دوست کی دل داری کے خیال سے قبول کر لیا۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ اِن میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی ۔ سیدہ کے بارے میں اگر کسی رؤیا کی بنا پر اِس طرح کا کوئی خیال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں رہا بھی ہو تو آپ نے ہرگز اِس کا اظہار نہیں کیا۔ حدیث و سیرت کا ذخیرہ آپ کی طرف سے اِس نوعیت کے کسی ایما، اشارے یا تجویز سے بالکل خالی ہے۔ صدیق رضی اللہ عنہ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تعلق قائم کرنا چاہتے تو سیدہ کا رشتہ مطعم بن عدی کے بیٹے سے کیوں طے کرتے؟ روایتیں بتاتی ہیں کہ اِس تجویز سے پہلے وہ یہ کر چکے تھے۔ پھر یہی نہیں، اُن کے بارے میں تو بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ تجویز اُن کے سامنے آئی تو اُنھیں تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے بچوں کے لیے چچا کی طرح ہیں، اِس رشتے کے ساتھ نکاح کی تجویز کس طرح پیش کی جا سکتی ہے؟ اُن کے الفاظ ہیں: ’ھل تصلح لہ ، انما ھی ابنۃ اخیہ‘ (احمد بن حنبل، رقم ۲۵۲۴۱) کیا وہ اُن کے لیے جائز ہے؟ وہ تو اُن کے بھائی کی بیٹی ہے۔
روایات بالکل واضح ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ کے نکاح کی تجویز ایک صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم نے پیش کی۔ اُنھی نے آپ کو توجہ دلائی کہ سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محرومی کے بعد آپ کی ضرورت ہے کہ آپ شادی کر لیں، ’یا رسول اللّٰہ ، کانی اراک قد دخلتک خلۃ لفقد خدیجۃ...افلا اخطب علیک؟‘(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۸/ ۵۷) آپ کے پوچھنے پراُنھی نے آپ کو بتایا کہ آپ چاہیں تو کنواری بھی ہے اور شوہر دیدہ بھی۔ آپ نے پوچھا کہ کنواری کون ہے، تو اُنھی نے وضاحت کی کہ کنواری سے اُن کی مراد عائشہ بنت ابی بکر ہیں۔ (احمد بن حنبل، رقم ۲۵۲۴۱) بیوی کی ضرورت زن و شو کے تعلق کے لیے ہو سکتی ہے، دوستی اور رفاقت کے لیے ہو سکتی ہے، بچوں کی نگہداشت اور گھر بار کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہو سکتی ہے۔ یہ تجویز اگر بقائمی ہوش و حواس پیش کی گئی تھی تو سوال یہ ہے کہ چھ سال کی ایک بچی اِن میں سے کون سی ضرورت پوری کر سکتی تھی؟ کیا اُس سے زن و شو کا تعلق قائم کیا جا سکتا تھا؟ کیا اُس سے بیوی کی رفاقت میسر ہو سکتی تھی؟ کیا وہ بچوں کی نگہداشت کر سکتی تھی؟ کیا گھر بار کے معاملات سنبھال سکتی تھی؟ سیدہ کی عمر سے متعلق روایتوں کے بارے میں فیصلے کے لیے یہ قرائن میں سے ایک قرینہ نہیں، بلکہ بنیادی سوال ہے۔ کیا عقل باور کر سکتی ہے کہ جو ضرورت آج ہے، اُس کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسی تجویز پیش کی جائے جس کے نتیجے میں وہ برسوں کے بعد بھی پوری نہیں ہو سکتی ؟ ابن خلدون نے بالکل درست لکھا ہے کہ تاریخی واقعات کی روایت میں اصلی اہمیت امکان وقوع کی ہے۔ یہ محض اِس بنیاد پر قبول نہیں کیے جا سکتے کہ اِن کی سند میں فلاں اور فلاں ہے اور یہ متعدد طریقوں سے نقل کیے گئے ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون، ۷ ۳)
اِس وقت جو اہل علم اِس موضوع پر داد تحقیق دے رہے ہیں، اُنھیں سب سے پہلے اِس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ اُنھیں بتانا چاہیے کہ روایت کا یہ داخلی تضاد کس طرح دور کیا جائے گا؟ اور اگر دور نہیں کیا جا سکتا تو علم و عقل یہ تقاضا کیوں نہیں کرتے کہ چھ سال کی عمر میں نکاح کی روایت کو محل نظر ٹھیرایا جائے اوراُن اہل علم کی راے پر بھی غور کر لیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ ’بنت ست‘ کے بعد ’بعد العشر‘ کا مفہوم سیدہ کی گفتگو میں مقدر تھا جسے راویوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی؟ اِس سوال سے تعرض کیے بغیر جو تحقیق بھی پیش کی جائے گی، وہ کسی صاحب نظر کے لیے ہرگز لائق التفات نہیں ہو سکتی۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور)