ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے جہاں کچھ عرصہ سے دینی جرائد میں مقبولیت حاصل کی ہے، وہیں اس کے علمی واجتہادی مسائل میں مباحثے نے بیسیوں Side Effects اثرات کے خدشات کو جنم دیا ہے جن کا اظہار بعض مقتدر شخصیات کرتی رہتی ہیں اور ’الشریعہ‘ کے صفحات پر ان کو جگہ دی جاتی ہے۔
ہماری ناقص رائے میں علمی مباحثے کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ضروری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہم اور نازک ترین مسائل میں اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار کسے حاصل ہے؟ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر ہمارے مخدوم بزرگ حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ رائے دینے کی اہلیت اور نااہلیت کے حوالے سے کسی اصول وضوابط اور معیاریت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر شخص کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنی رائے قائم کرے اور اس کا اظہار کرے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ:
’’جہاں تک علمی اور اجتہادی مسائل پر کھلے مباحثے کے بارے میں ہمارے طرز عمل پر آپ کے تحفظات ہیں، میں اسے آپ کا حق سمجھتا ہوں مگر عمومی مباحثے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہر شخص کو رائے کا حق حاصل ہو۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے کہ کسی مسئلے پر کسی کو رائے دینے سے نہیں روکا گیا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، نومبر ۲۰۱۱ء، ص ۵۲)
علمی واجتہادی مسائل پر کھلے مباحثے میں ہر عام وخاص کو رائے پیش کرنے کا حق دینا امت میں خیر القرون سے مجتہد ومقلد کی تقسیم کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ جب ہر شخص صاحب الرائے ہے تو ہر شخص صاحب علم اور اپنے اجتہاد میں آزاد ہوگا۔ کیا ہمارے مخدوم بزرگ کی یہ وسعت ظرفی غیر مقلد دوستوں کے لیے کارآمد ثابت نہ ہوگی جنھیں ہم حسب ذیل آیات سنا کر ہر وناکس کے ہاتھ میں تحقیق کی غرض سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ اہل علم کا فریضہ راہ دکھانا اور علم وفن سے ناآشنا لوگوں کا کام ان کی پیروی کرنا ہے؟
(۱) فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (سورۃ الانبیاء، آیت ۷)
’’سو پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے اگر تم نہیں جانتے ہو۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہند)
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے تفسیر قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ جاہل آدمی جس کو احکام شریعت معلوم نہ ہوں، اس پر عالم کی تقلید واجب ہے کہ عالم سے دریافت کر کے اس کے مطابق عمل کرے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد ۶، ص ۱۷۱)
(۲) وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ (سورۃ التوبۃ، آیت ۱۲۲)
’’اور ایسے تو نہیں مسلمان کہ کوچ کریں سارے، سو کیوں نہ نکلا ہر فرقہ میں ان کا ایک حصہ تاکہ سمجھ پیدا کریں دین میں اور تاکہ خبر پہنچائیں اپنی قوم کو جب کہ لوٹ کر آئیں ان کی طرف تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہند)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ آیت مذکورہ کے حوالے سے حسب ذیل نکات بیان کرتے ہیں:
’’الف) سب لوگ طلب علم کے لیے اپنے گھروں سے نہ نکل جائیں، بلکہ تھوڑے سے جایا کریں اور وہ علم حاصل کر کے قوم کو فائدہ پہنچائیں یعنی ان کو تعلیم دیں اور ان کو وعظ وتلقین کریں۔
ب) جاننا چاہیے کہ فقاہت فی الدین کا درجہ مطلق علم سے بالاتر ہے۔ علم کے معانی جاننے کے ہیں اور فقاہت کے معنی لغت میں سمجھ اور فہم کے ہیں۔ فقیہ لغت اور شریعت کے اعتبار سے اس شخص کو کہتے ہیں جو شریعت کے حقائق اور دقائق کو اور اس کے ظہر اور بطن کو سمجھتا ہے۔ محض الفاظ یاد کر لینے کا نام فقاہت نہیں۔
ث) اطاعت کا دار ومدار معانی پر ہے۔ محض الفاظ یاد کر لینے سے فریضہ اطاعت ادا نہیں ہو سکتا۔ اصل عالم وہ ہے جو شریعت کے معانی اورمقاصد کو سمجھتا ہو، کما قال تعالیٰ: وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (سورۃ الحشر، آیت ۲۱)
ج) بہرحال اس آیت سے طلب علم دین اور تفقہ فی الدین کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عالموں پر بے علموں کو عذاب الٰہی سے ڈرانا فرض ہے اور بے علموں پر عالموں کی تقلید فرض ہے۔ ناقص پر کامل کی تقلید عقلاً فرض ہے۔ جو شخص درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو، اس پر کسی مجتہد کامل کی تقلید فرض ہے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد ۳، ص ۴۲۴)
مذکورہ بالا آیات او ر ان کی تشریح میں حضرات اکابر کے ارشادات پر گہری نظر ڈالیے، کیا ا س کے بعد بھی ہمارے قابل قدر اور صاحب نظر بزرگ کے اس توسع اور رائے دینے کے حوالے سے اذن عام کی گنجائش نکلتی ہے؟ ہمارے بزرگ کا یہ کہنا کہ ’’عمومی مباحثے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہر شخص کو رائے کا حق حاصل ہو‘‘ کس قدر سنگین اثرات کا باعث اور سلف بیزار طبقے کے لیے کتنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ کاش کہ حضرت علامہ مدظلہ اس پہلو پر بھی توجہ فرمائیں۔
اجتہادی مسائل میں رائے دینے کے لیے شرائط
ہر فن کی طرح فن اجتہاد بھی اصول وضوابط رکھتا ہے۔ ماہرین فن نے اجتہاد کے لیے متعدد شرائط بیان کی ہیں۔ چند ایک حضرت علامہ ڈاکٹر خالدمحمود صاحب مدظلہ نے بھی نقل کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اجتہاد کرنے کا حق ہر کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ اہل اجتہاد وہی ہیں جن میں اجتہاد کی یہ شرائط موجود ہوں:
۱) عربی زبان کا پورا علم ہونا۔
۲) قرآن وحدیث کا پورا علم ہونا۔
۳) آیات احکام اور احادیث احکام پر خصوصی نظر ہونا۔
۴) پہلے جو اجتہاد (مثلاً خلفاے راشدین ودیگر فقہاء صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین) ہو چکے ہیں، ان پر نظر ہونا۔
۵) اجتہاد کے اصول وضوابط کا پورا علم ہونا۔‘‘ (آثار التشریع جلد ۲، ص ۱۲۱)
کیا ہر شخص کو ان شرائط کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے؟ نہیں اور یقیناًنہیں تو پھر رائے کی آزادی چہ معنی دارد؟
پورا وثوق ہے کہ ہم زیر نظر سطور سے حضرت مخدوم مدظلہ کے علم ودانش میں رتی بھر اضافہ کر رہے ہیں نہ کسی طور انھیں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یقیناًہماری گزارشات کی دھول وہ چٹکیوں میں اڑا سکتے ہیں اور اپنے طرز عمل کی بیسیوں حکمتیں بیان کر سکتے ہیں۔ باوجود اس کے، لکھنے کا حوصلہ اور یہ قلم درازی کی خطا اس لیے سرزد ہوئی کہ وہ بھی تو بس یہی چاہتے ہیں کہ حجابات دور ہوں اور جمود ٹوٹے۔ آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے ذہن کی سکرین پر چند ایک سوال نمودار ہو رہے ہیں۔ انھی پر طوطی کی آواز کو بند کیا جاتا ہے، اس خواہش کے ساتھ کہ نقار خانے میں اسے چندلمحوں کے لیے سنا جائے۔
۱) کیا ہر شخص صاحب الرائے ہے؟
۲) کیا رائے اور اجتہاد کے لیے کہیں کوئی معیار ، اصول وضوابط ذکر نہیں؟
۳) کیا رائے کی آزادی امت کی وحدت اور جوڑ کا باعث بنے گی یا مزید انتشار وافتراق کا؟
۴) کیا بزرگان دین پر اعتماد اور مسلک حق پر تصلب جیسی روایات اس رائے کی آزادی سے دم توڑ نہیں جائیں گی؟
۵) کیا آج کے نووارد علما اپنے اکابر کے موقف واجتہادات کے حوالے سے تذبذب کا شکار نہ ہوں گے۔
۶) مختلف آرا کے بعد فیصلہ کن رائے یعنی مفتیٰ بہ قول بھی تو ضروری ہے، کیونکہ آرا سے مقصود حق تک پہنچنا ہے نہ کہ علمی ابحاث کو ذہنی آسودگی کا باعث بنانا۔ کیا ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں مختلف آرا کے بعد فیصلہ کن رائے بھی بیان کی جاتی ہے؟ اور اس کے لیے کسی اتھارٹی کا تعین کیا گیا ہے؟
(بشکریہ ماہنامہ ’فقاہت‘ لاہور)