(’’خاطرات‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شذرات کا آغاز کافی عرصے سے ذہن میں تھا جس میں مختلف علمی، فکری، فقہی، معاشرتی وتہذیبی اور مشاہداتی موضوعات کے حوالے سے، جو راقم الحروف کے زیر غور رہتے ہیں، اپنے طالب علمانہ نتائج فکر کو مختصر تحریروں کی صورت میں قارئین کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔ زیر نظر شمارے سے اس سلسلے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ اس عنوان سے کچھ نہ کچھ معروضات تسلسل کے ساتھ پیش کی جاتی رہیں۔ واللہ الموفق۔ عمار ناصر)
استاذ گرامی حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ
مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کم وبیش نصف صدی تک درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کی سرگرمیوں سے بھرپور زندگی بسر کرنے کے بعد گزشتہ دنوں دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
والد گرامی نے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں مولانا مفتی عبد الواحد مرحوم کی نیابت میں خطابت کا سلسلہ ۱۹۷۰ء میں شروع کیا۔ اس وقت تک والد گرامی، والدہ محترمہ کے ہمراہ گکھڑ میں دادا محترم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدرؒ کے ساتھ انھی کے گھر میں سکونت پذیر تھے۔ غالباً ۱۹۷۹ء میں ہمارا گھرانہ گوجرانوالہ میں منتقل ہوا تو میں اس وقت تقریباً چار سال کا تھا اور نئی جگہ منتقل ہونے کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ اس کے بعد سے قاضی صاحب کی وفات تک تیس سے زائد سال کا عرصہ میں نے جامع مسجد شیرانوالہ باغ اور مدرسہ انوار العلوم کے اسی ماحول میں بسرکیا ہے جس میں قاضی حمید اللہ خان درس وتدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یوں بحمد اللہ مجھے ان کی شخصیت ومزاج کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کے روز مرہ معمولات کا مشاہدہ کرنے کے مواقع مسلسل حاصل رہے ہیں۔
ابتدا ہی سے انھیں دن کے اوقات میں مدرسہ انوار العلوم کے طلبہ کو اپنے بلند آہنگ میں اسباق پڑھاتے اور مغرب کی نماز کے بعد عوام الناس کو درس قرآن دیتے ہوئے دیکھنا ہر روز کا معمول تھا۔ ۱۹۸۵ء تک میں جامع مسجد میں حفظ قرآن کا طالب علم تھا اور مغرب کی نماز کے فوراً بعد طلبہ سب لوگوں کے ساتھ قاضی صاحب کے درس قرآن میں شریک ہوتے اور پھر اپنی کلاس میں بیٹھتے تھے۔ وعظ وتبلیغ میں قاضی صاحب کے سادہ، موثر اور دل نشیں انداز بیان کا گہرا نقش اسی وقت سے دل ودماغ پر ثبت ہے۔
دینی علوم اور خاص طو رپر درس نظامی میں شامل معقولات کے میدان میں قاضی صاحب کی تدریسی مہارت کا تاثر بھی اسی زمانے سے ذہن میں قائم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہمارے چچا محترم مولانا رشید الحق خان عابد، جو اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں زیر تعلیم تھے، عصر کے بعد قاضی صاحب سے معقولات کے کچھ اسباق، غالباً حمد اللہ وغیرہ پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ میں نے ۱۹۸۶ء میں مدرسہ انوار العلوم میں ہی درس نظامی کے اسباق کا آغاز کیا۔ قاضی صاحب ابتدائی درجات کی کتابیں نہیں پڑھاتے تھے، اس لیے ان سے تلمذ اور استفادہ کا موقع ۱۹۸۹ء میں ملا اور درجہ رابعہ میں ہم نے ان سے ملا جامی کی شرح کافیہ پڑھی۔ قاضی صاحب درس وتدریس کا غیر معمولی ذوق بھی رکھتے تھے اور شوق بھی اور معمول کے اسباق کے علاوہ طلبہ کی فرمائش پر انھیں کوئی بھی کتاب پڑھانے کے لیے فوراً آمادہ ہو جاتے تھے۔ چنانچہ شرح ملا جامی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اسی طرح کی فرمائش پر ہماری جماعت کے طلبہ کو رسالہ ایساغوجی اور تلخیص المفتاح کا متن بھی پڑھایا۔
درس نظامی کی تعلیم کے دوران میں مجھے درسی کتب کو زیادہ محنت اور لگن سے پڑھنے کی کوئی خاص رغبت اپنے اندر محسوس نہیں ہوتی تھی اور اس کے بجائے (مدارس کی خاص اصطلاح میں) ’’خارجی‘‘ کتابیں پڑھنے کا رجحان زیادہ غالب تھا۔ اسی دور میں بعض اسباب سے مجھے بائبل اور مسیحیت سے متعلق مناظرانہ موضوعات کے مطالعہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور اس حوالے سے کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کرنے کے علاوہ مبتدیانہ نوعیت کی مشق قلم کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ تاہم قاضی صاحب کی طرف سے ’’صلائے عام‘‘ کا رویہ دیکھتے ہوئے شرح جامی کے سال کے اختتام پر میں نے چھٹیوں میں ان سے فرمائش کی کہ میں کافیہ پر رضی استراباذی کی مشہور شرح بھی آپ سے سبقاً پڑھنا چاہتا ہوں۔ قاضی صاحب نے فوراً ہامی بھر لی، لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ ایک شرط پر پڑھاؤں گا اور وہ یہ کہ دینی علوم کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد ادھر ادھر کا کوئی مشغلہ اپنانے کے بجائے مدرسے میں بیٹھ کر طلبہ کو پڑھاؤ گے۔ میں نے وعدہ کر لیا اور پھر قاضی صاحب نے ایسی غیر معمولی شفقت فرمائی کہ مجھے اپنے پاس طلب کرنے کے بجائے وہ بذات خود روزانہ عصر کے بعد جامع مسجد تشریف لاتے رہے اور میں اور میرے ساتھ چند ایک دوسرے طلبہ جامع مسجد کے صحن میں ان سے رضی کی شرح کافیہ کا درس لیتے رہے۔ کتاب کا نسخہ ایک ہی میسر تھا جو میں نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحد مرحوم کے پوتے جناب مولانا رشید احمد علوی صاحب سے مستعار لیا تھا، لیکن یہ نسخہ میرے ہی پاس تھا، جبکہ قاضی صاحب روزانہ سبق سے متصل پہلے اسی نسخے سے تیاری کر کے ہمیں سبق پڑھاتے تھے۔ یاد پڑتا ہے کہ رجب اور شعبان کی چھٹیوں میں ہم نے غالباً غیر منصرف کی بحث تک کتاب کا ابتدائی حصہ پڑھا اور پھر رمضان کی آمد کے ساتھ یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔
قاضی صاحب کا اسلوب درس دیگر اساتذہ سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ وہ طلبہ کو کتاب کے مطالب حل کر کے لانے کا نہیں کہتے تھے ، حتیٰ کہ عام طور پر ان کے سبق میں طلبہ سے کتاب کی عبارت پڑھوانے کا طریقہ بھی رائج نہیں تھا۔ وہ خود ہی کتاب کی عبارت پڑھتے جاتے اور اپنے مخصوص اسلوب میں مطالب کی توضیح کرتے جاتے تھے۔ ساتھ ساتھ چٹکلوں اور طلبہ کے ساتھ مزاح کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ طلبہ کو مختلف القاب دینا ان کے التفات کا ایک خاص انداز تھا۔ کسی طالب علم کو وہ ’’فارابی‘‘، کسی کو ’’ارسطو‘‘ اور کسی کو ’’تبلیغی‘‘ کا لقب دیتے تھے اور کتاب کے مطالب سمجھانے کے لیے کوئی مثال دیتے ہوئے عام طور پر سامنے موجود طلبہ میں سے ہی کسی پر اسے منطبق کر کے دکھاتے تھے۔
دوران سبق کے علاوہ بھی وہ ہمیشہ بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر جب والد گرامی بیرون ملک کے سفر پر گئے اور زیادہ عرصے کے لیے وہاں ٹھہر گئے تو ان کی غیر موجودگی میں قاضی صاحب کچھ دنوں کے وقفے سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ بازار لے جاتے اور پھل کی دوکان سے تازہ موسمی پھلوں کا لفافہ خوب بھر کر مجھے دے دیتے تھے کہ یہ گھر لے جاؤ۔ قاضی صاحب کے بچوں کا ہمارے گھر آنا جانا رہتا تھا، بلکہ ان کی تین چار بچیاں بچپن میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارے ہاں والدہ محترمہ کے پاس ہی آیا کرتی تھیں۔ خوش طبعی اور سادگی قاضی صاحب کے مزاج کا حصہ تھی۔ ہمیشہ صاف ستھرا سفید لباس زیب تن فرماتے تھے اور باریک سیاہ دھاریوں والا ایک رومال ان کے کندھے پر یا ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔
مجھے اپنے گھر کے ماحول تک محدود رہنے اور سفر سے طبعاً گریزاں ہونے کی وجہ سے اپنے دور کے بہت کم بزرگوں اور اہل علم کی زیارت وملاقات کا موقع ملا ہے، تاہم جن بزرگوں کو دیکھنے اور کسی بھی حوالے سے ان کی شفقتوں اور عنایتوں سے کچھ بہرہ پانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، وہ بحمد اللہ کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ ان بزرگوں کی محبت اور شفقت کی یاد ہمیشہ دل میں تازہ رہتی اور دل کو تازہ رکھتی ہے۔ قاضی حمید اللہ خان صاحبؒ سمیت ان میں سے بیشتر بزرگ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے اور ان کے ساتھ تعلق اور نسبت کو ہمارے لیے دنیا وآخرت میں سعادت ونجات کا ذریعہ بنا دے۔ جو بزرگ بقید حیات ہیں، اللہ تعالیٰ صحت، عافیت اور سلامتی کے ساتھ ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے اور اس چند روزہ زندگی کی ہر قسم کی آزمائشوں اور آفات سے ہم سب کو محفوظ رکھتے ہوئے آخرت میں بلا استحقاق اپنے ابدی انعام واکرام کا حق دار بنا دے۔ آمین
مرزا غلام احمد کے دعاوی اور قادیانیوں کی تکفیر
جناب مولانا وحید الدین خان نے اپنی بعض حالیہ تحریروں میں مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کے حوالے سے اس پرانی بحث کو ایک بار پھر چھیڑنے کی کوشش کی ہے کہ مرزا صاحب نے فی الواقع اصطلاحی مفہوم میں اپنے لیے نبوت کے منصب کا دعویٰ کیا تھا یا نہیں، البتہ انھوں نے اس ضمن میں صرف مرزا صاحب کے بعض بیانات پر انحصار کرتے ہوئے گزشتہ ایک صدی کے حالات وواقعات اور اس بحث کے حوالے سے رونما ہونے والے فکری وعملی ارتقا کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ مرزا صاحب کی تحریروں میں اس حوالے سے جو مختلف ومتضاد بیانات ملتے ہیں، ان کے پیش نظر خود ان کے معتقدین ان کی وفات کے بعد لاہوری اور قادیانی گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور اس موضوع پر ان کے مابین مناظرانہ بحثوں کا سلسلہ بھی چلتا رہا ہے۔ تاہم اس داخلی نزاع میں جو گروہ عملاً جماعت احمدیہ کی ایک بڑی اکثریت کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے اور جماعت کی قیادت کا منصب سنبھالنے میں کامیاب رہا، وہ قادیانی گروہ ہے اور اس گروہ کے قائدین مختلف مواقع پر ایک تسلسل کے ساتھ اپنا یہ موقف دوٹوک انداز میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو خالص اصطلاحی مفہوم میں خدا کا ایک واجب الاطاعت پیغمبر تسلیم کرتے اور ان پر ایمان نہ لانے والوں کو دائرۂ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جماعت احمدیہ کے کفر واسلام کا فیصلہ کرنے میں خود مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی تحریریں اور ان میں دکھائی دینے والے مختلف وجوہ اور احتمالات زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کا مدار عقلی ومنطقی طور پر قادیانی جماعت کے موقف پر ہونا چاہیے کہ وہ مرزا صاحب کو کیا حیثیت دیتی ہے اور اسی کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ جماعت احمدیہ سے وابستہ حضرات مسلمان ہیں یا نہیں۔ فرض کر لیجیے کہ مرزا صاحب نے حقیقتاً نبوت کا دعویٰ نہیں کیا، لیکن جماعت احمدیہ کے لوگ بہرحال انھیں نبی قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں بنیادی اہمیت مرزا صاحب کے بیانات کی نہیں، بلکہ قادیانی جماعت کے اعتقاد کی ہے۔ لاہوری گروہ کے بارے میں، البتہ، یہ سوال ہو سکتا تھا کہ انھیں کس طرف شمار کیا جائے ا ور بعض اہل علم، مثلاً مولانا مودویؒ ابتداءً ا ان کی تکفیر میں کچھ تردد کا شکار رہے ہیں، لیکن ۱۹۷۴ء میں آئینی فیصلے کے موقع پر انھوں نے قادیانی ولاہوری، دونوں گروہوں کی تکفیر کے حوالے سے کیے جانے والے متفقہ فیصلے میں شرکت اور اس کی تائید کی ہے۔
مرزا غلام احمد اور ان کے معتقدین کی تکفیر کے ضمن میں ایک اور بحث کا ذکر بھی موقع کی مناسبت سے یہاں کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مرزا صاحب کی طرف سے وحی کے نزول اور منصب نبوت عطا کیے جانے کے دعووں کے سامنے آنے کے بعد علماء کی غالب اکثریت نے ابتداء ہی سے یہ واضح موقف اختیار کر لیا تھا کہ جماعت احمدیہ سے وابستہ حضرات اسلام کے ایک اساسی عقیدہ یعنی عقیدۂ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ تاہم علما کے معروف حلقے میں دو شخصیتیں ۔مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور مولانا عبد الماجد دریابادیؒ ۔ ایسی تھیں جنھوں نے اس فیصلے پر تحفظات ظاہر کیے۔ جہاں تک عقیدۂ ختم نبوت کے اسلام کا ایک اساسی عقیدہ ہونے اور اس کے انکار کے فی نفسہ کفر ہونے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں کسی باشعور عام مسلمان کو بھی کوئی شبہہ نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ کوئی عالم دین اس ضمن میں کسی شک وشبہہ کا شکار ہو۔ اسی طرح ایک مدعی نبوت کی حیثیت سے خود مرزا غلام احمد کے کفر وارتداد میں بھی بدیہی طو رپر کسی تردد کی گنجائش نہیں تھی۔ مذکورہ اہل علم کے تحفظات کا تعلق دراصل بطور ایک گروہ کے پوری جماعت احمدیہ کے بارے میں ’تکفیر‘ کی حکمت عملی اختیار کرنے سے تھا اور وہ بعض پہلووں سے اس جماعت میں شامل ہو جانے والے عام اور سادہ مسلمانوں کو ’تاویل‘ کی رعایت دیتے ہوئے کفر کے فتوے سے بچانے کی طرف میلان رکھتے تھے۔ (اس ضمن میں مولانا سندھیؒ کے خیالات پروفیسر محمد سرور مرحوم کے مرتب کردہ ’’افادات وملفوظات‘‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں، جبکہ مولانا دریابادیؒ کے حوالے سے اس مناقشے پر نظر ڈال لینا مناسب ہوگا جو چند سال قبل ماہنامہ ’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک کے صفحات پر مولانا مدرار اللہ مدرارؒ اور جناب طالب الہاشمیؒ کے مابین جاری رہا ہے۔)
مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے مسلمان فرقوں کی تکفیر کے حوالے سے چند سوالات اپنے شیخ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے سامنے پیش کیے تو لکھا کہ:
’’میرا دل تو قادیانیوں کی طرف سے ہمیشہ تاویل ہی تلاش کرتا رہتا ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے جواب میں مولانا تھانوی نے انھیں توبہ کی تلقین کرنے یا سطحی درجے کا مولویانہ ومفتیانہ رویہ اپناتے ہوئے ایمان اور نکاح کے ٹوٹ جانے کا فتویٰ صادر کرنے کے بجائے صرف اس قدر فرمایا کہ:
’’یہ غایت شفقت ہے، لیکن اس شفقت کا انجام سیدھے سادے مسلمانوں کے حق میں ’’عدم شفقت‘‘ ہے، وہ اچھی طرح ان کا شکار ہوا کریں گے۔‘‘
یہ تفصیلی سوال وجواب امداد الفتاویٰ جلد چہارم، ص ۵۸۴ تا ۵۸۷ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
مذہبیات کے ایک طالب علم کے طور پر راقم الحروف کافی عرصہ تک اس نقطہ نظر کی طرف جھکاؤ محسوس کرتا رہا ہے اور میری کچھ عرصہ قبل کی بعض تحریروں میں بھی اس کی جھلک قارئین کو دکھائی دے گی۔ البتہ، جیسا کہ واضح ہے، اشکال عقیدۂ ختم نبوت کے دین کا ایک اصولی اور اساسی عقیدہ ہونے یا خود مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر و ارتداد میں نہیں، بلکہ صرف اور صرف ان عام قادیانیوں سے متعلق تھا جو لاعلمی، ناواقفیت اور جہالت کی بنا پر قادیانی تاویلات کے جال میں گرفتار ہو کر اس ڈر سے مرزا صاحب پر ایمان لانے کو اپنی نجات کے لیے ضروری خیال کر بیٹھے ہوں کہ ان کا شمار کہیں خدا کے ایک فرستادہ کا انکار کر کے جہنم کی آگ کا مستحق بن جانے والوں میں نہ ہو جائے۔
بہرحال کافی غور وخوض اور معاملے کے جملہ نظری وعملی پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد مجھ پر یہ واضح ہوا کہ اس باب میں علما کا عمومی موقف ہی اسلام کے نظام عقائد اور دیگر دینی وشرعی مصالح کے تحفظ کے پہلو سے اقرب الی الصواب ہے اور اگر دین وشریعت کا مزاج کسی بھی معاملے میں نظری پہلووں سے زیادہ عملی نتائج واثرات کو زیادہ وزن دینے کا ہے تو پھر مرزا صاحب کی نبوت پر ایمان رکھنے بلکہ ان کی ذات سے کسی بھی نوعیت کا مذہبی اعتقاد وابستہ کرنے والوں کی بلا تفریق تکفیر ہی عام مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ رکھنے کے لیے مفید اور موثر ہو سکتی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا دریابادی کے اشکال کے جواب میں اسی پہلو کو واضح فرمایا ہے۔ قادیانی گروہ چونکہ ایک نئی نبوت پر ایمان کو کفر وایمان کا معیار قرار دے کر تبلیغی مہم شروع کر چکا اور اسلام کے لبادے میں سادہ لوح عوام کو کفر وضلالت کے ایک نئے فتنے میں مبتلا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکا تھا، اس لیے عقیدۂ ختم نبوت کی قطعی اور اساسی اہمیت کو واضح کرنے اور اسلام کے نظام عقائد کو اس طرح کی کسی بھی رخنہ اندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے علما نے بجا طو رپر اسی بات کو مناسب سمجھا کہ اس فرقہ نوپید کو مسلمانوں کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع دینے سے پہلے ہی اسے جسد امت سے بالکل کاٹ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس تناظر میں قادیانی گروہ کے خواص اور عوام میں کوئی فرق کرنا نہ صرف یہ کہ عملی طور پر ممکن نہیں تھا، بلکہ اس سے عوام الناس کو اس گروہ کے اعتقادی شر سے بچانے کا وہ مقصد بھی بالکل فوت ہو جاتا جس کے پیش نظر تکفیر کا یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔
مذکورہ وجوہ سے میرے نزدیک قادیانیوں کو من حیث المجموع قانونی اعتبار سے کافر قرار دینے کا فیصلہ تو بالکل درست اور دینی وشرعی مصالح کے مطابق ہے، تاہم یہ نکتہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ عام مسلمانوں میں سے جو لوگ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے قادیانی تاویلات کے فریب کا شکار ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ نفرت و مخاصمت اور سماجی مقاطعہ کا رویہ درست نہیں، بلکہ وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ایک داعیا نہ ہمدردی کے ساتھ انھیں مسلمانوں کے قریب تر کرنے اور ان کے لیے اسلام کے صحیح عقائد سے متعارف ہونے کے مواقع پیدا کیے جائیں، اس لیے کہ دعوت دین کا کام لوگوں کو حق اور اہل حق سے دور رکھنے کا نہیں، بلکہ راہ حق سے بھٹک جانے والے لوگوں تک پہنچ کر انھیں حق کے قریب لانے کی جدوجہد کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔