قومی ہم دردی اور ہم

مولانا محمد بدر عالم

لکڑی کا بنا ہواخوبصورت دروازہ گھرسے نکلتے وقت آپ کو الوداع کرتاہے اورگھر میں داخل ہوتے وقت آپ کا استقبال کرکے آپ کادل خوش کرتااوراپنی مضبوطی کا احساس دلاتا ہے ۔ایک دن اچانک جیسے ہی آپ دروازے پر ہاتھ رکھتے ہیں کسی ایک پٹ کا کوئی قبضہ اکھڑ جاتاہے ۔چوکھٹ کے کسی ایک بازوسے لکڑی کا چھلکا ادھڑ کر ہاتھ میں آجاتاہے۔ یہ کیا؟آپ ایک لمحے کے لیے سوچتے ہیں اورفوراہی آپ کو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ دابۃ الارض(دیمک ) کی کارستانی ہے۔ ایسی چوکھٹ کا کیا فائدہ اسے تو تبدیل کرنا پڑے گا۔ پکانے کے لیے بڑے شوق سے آپ چنے یا سفید لوبیا لے کر آئے۔ دھونے کے لیے برتن میں ڈالا، مگر یہ کیا؟ اس کے آدھے سے زیادہ دانے تو اندر سے کھوکھلے ہیں۔یہ پکانے کے قابل نہیں رہے۔ چوکھٹ اوردانے دشمن کا شکار ہوگئے جواگرچہ باہر سے آیا، مگر اندر ہی اندرکام کرتے ہوئے اس نے انہیں داخلی طورپر کھوکھلاکردیا۔ امتوں اورقوموں کے عروج وزوال کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ میرامحدودمطالعہ اورتجزیہ مجھے یہی بتاتاہے کہ اقوام کاعروج اورزوال دونوں اندر سے شروع ہوتے ہیں۔ داخلی عوامل ہی ان دونوں کا اصل سبب ہوتے ہیں۔جن خارجی اثرات کو ان کا سبب سمجھاجاتاہے، وہ دراصل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہمارے یہاں ایک نعرہ لگایاجاتاہے :

گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو

خارجی اثرات صرف ایک دھکے کاکام کرتے ہیں۔ہم اپنی تباہی کے اسباب خارج میں ڈھونڈتے ہیں اورانہیں دور کرنے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں۔بنیاد مضبوط کیے بغیر ہی بلند وبالاعمارت کی تعمیر شروع کردیتے ہیں جو تکمیل سے پہلے ہی گرجاتی ہے۔جیسے معدے کا مزاج فاسد ہوجائے تو عمدہ سے عمدہ غذا بھی زہر بن جاتی ہے، اسی طرح اندرونی بیماریاں دور کیے بغیرخارجی کمزورری دور کرنے کی ہرکوشش بیماری کو بڑھاتی اورمسائل میں اضافہ ہی کرتی ہے۔ہمیں یہ یاد رکھناچاہیے کہ ہمارا دشمن ہم پر کسی ایک جہت سے حملہ آور نہیں ہے، بلکہ اس کا حملہ ہمہ جہت ہے ۔فکری حملہ، عسکری حملہ، سیاسی حملہ، معاشی حملہ ،معاشرتی حملہ، تعلیمی حملہ۔ پھر ان حملوں کے لیے مختلف ذرائع اختیار کرتاہے، اس لیے دفاع بھی ہمہ جہتی ہوگا۔ جو لوگ کسی ایک راستے کو اختیار کرتے اورپھر اسی کو حرف آخر قرار دے کر تما م لوگوں پر اس کی پابندی لازم کردیتے ہیں، وہ غلطی کرتے ہیں ۔صحیح معنوں میں یوں کہاجائے کہ وہ لوگوں کی نفسیات اوراختلاف طبائع کے برخلاف معاملہ کرتے ہیں جن پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ وہ چند معاملات مستثنیٰ ہیں جن میں رعایتیں موجودہیں، مگراختلاف طبائع کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ہاں اتنا لازم ہے کہ دفاع اوراقدام سے پہلے ایک عمومی مضبوط بنیاد بنالی جائے جو ہر شعبے میں کام دے سکے ۔

معاشرہ افراد سے بنتاہے اورقوم معاشرے سے ہی تشکیل پاتی ہے ۔فرد کی تعمیر وتخریب ہی معاشرے کی تعمیر وتخریب کی بنیاد ہوتی ہے ۔فرد کی تعمیر اخلاق وکردار سے ہوتی ہے۔علم الاخلاق ایک باقاعدہ موضوع ہے جس کے اندر بہت سے اخلاق پر بحث کی جاتی ہے، مگر یہاں میرامقصود وہ تمام اخلاق اوران کا فلسفہ بیان کرنانہیں اگرچہ ان سے بالکل اجتناب بھی ممکن نہیں۔ میری مراد وہ چند اہم اخلاق ہیں جو معاشرے کو قوم اوربھیڑ کو فوج بناتے ہیں، جو اختلاف طبیعت، اختلاف نسل، اختلاف زبان وغیرہ کے باوجودپورے سماج کو ایک لڑی میں پرودیتے ہیں،جس کی ہر اینٹ دوسری کو مضبوط کرتی ہے،جس میں فرد حصار ذات سے بلند ہوکر کام کرتاہے۔جب اخلاق کو گھن لگ جاتاہے تو قوموں کی سطوت وشوکت کے بلند وبالامحل بھی پیوند خاک ہوجاتے ہیں اوران کی رفعت وعروج کے مضبوط دروازے بھی دیمک کا شکار ہوجاتے ہیں۔مضبوط اخلاقی کردار ہی میرے نزدیک وہ عمومی بنیاد ہے جو تمام شعبوں میں کام کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔حضرت تھانوی کا ایک مقولہ کہیں پڑھاتھا کہ مجھے اگر امیر المومنین بنادیاجائے تودس سال تک کے لیے جہاد کا اعلان نہ کروں، بلکہ اس عرصے میں قوم کی اخلاقی تربیت کا کام کیا جائے۔الفاظ آگے پیچھے ہوگئے، مفہوم ایسا ہی تھا۔

جب معاشرے کے عام افرادمیں اخلاقی گراوٹ کے آثاررونما ہوں تو اس کا مطلب ہوتاہے کہ قوم کے اندر بیماری پیدا ہوچکی ہے جو علاج کا تقاضاتو کرتی ہے مگر ایسی بیماری ہے جو اطراف میں ہے ،اورجب قوم کا مقتدر طبقہ اس علت کا شکار ہوجائے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے اعضائے رئیسہ دل، دماغ، جگر پر بیماری کا حملہ ہوجائے۔جو افراد قوم کا مکھن اوربالائی سمجھتے جاتے ہوں، جب وہ خراب ہوں تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ لسی اوردودھ میں اس پہلے شدید خرابی پیداہوچکی ہے۔ مسلم قوم بھی اخلاقی گراوٹ کے انہی داخلی عوامل کی وجہ سے روبہ زوال ہوئی۔ دیکھیے احادیث میں بھی اخلاقی بیماریوں ہی کو مسلم امہ کی مغلوبیت کا سبب بتایا۔ ایک معروف طویل حدیث میں ہے کہ ’’وہن‘‘ کی وجہ سے کافر اقوام مسلمانوں پر حملے کے لیے باہم اس طرح دعوت دیں گی جس طرح لوگوں کو دسترخوان کی طرف بلایا جاتاہے، حالاں کہ اس وقت مسلمان سمند ر کے جھاگ کے برابر ہوں گے۔ صحابہ نے ’’وہن‘‘ کی بابت دریافت کیا تو فرمایا: حب الدنیا و کراھیۃ الموت، دنیاکی محبت اورموت سے نفرت ۔ایک دوسری حدیث میں فرمایا: حب الدنیا راس کل خطیئۃ، دنیاکی محبت ہربرائی کی جڑہے ۔حب دنیاکو موت سے کراہت لازم ہے اورحب دنیاسے جو بنیادی خرابیاں پیداہوتی ہیں، وہ اخلاقی بیماریاں ہی ہیں ۔

جیساکہ پہلے ذکر کرچکاہوں کہ قوم کی ترقی کے لیے چند مخصوص اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ان اخلاق کو اپنے اندر پیداکرنے کے لیے اس درجے کی محنت کی ضرورت نہیں جو تصفیہ قلوب کے نام سے خانقاہوں میں ہوتی ہے، اگر چہ فی نفسہ اس محنت کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں بلکہ دیگر ذرائع کے ساتھ خانقاہی نظام کوان اہم اخلاقی صفات کے پیداکرنے اوران کے مطابق فردکی تربیت کرنے میں اہم کرداراداکرسکتاہے۔ 

جن اخلاق کی ہم بات کررہے ہیں، ان میں سے ایک بہت اہم خلق عصبیت ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اس کو تفصیل سے بیان کیاہے، اس کے مختلف مظاہر دکھائے ہیں اوراسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں عصبیت کی کارفرمائی کا جائزہ لیاہے۔ عصبیت اگر حد کے اندر رہے اورحق سے ناحق کی طرف جانے نہ پائے تو یہ ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے کوئی فرداپنی قوم کی آن،عزت ،آبرواوربقاکے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاتاہے۔ وہ اپنی قوم کی خاطر ہرطرح کے ایثار اورقربانی سے کام لیتاہے۔عصبیت کے اندر ہی وہ صفت چھپی ہوتی ہے جو میرے اس مضمون کا موضوع ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ دیگر بہت سی قیمتی صفات کے ساتھ ساتھ اس صفت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ قومی زندگی کو برتر بنانے والی صفات کے ساتھ اس پر بھی غیر مسلموں نے قبضہ کر لیا، حالاں کہ اس کے مختلف مظاہر کو اللہ، رسول نے دین کا درجہ دیاہے اوران کے ترک پر سخت وعیدیں ارشادفرمائی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ان پر عمل پیرا ہوں تو صرف ہمارا، ہماری قوم کا اورہماری دنیا ہی کا فائدہ نہیں بلکہ ہماری آخرت کا فائدہ بھی ہے ۔یہودیوں کی زندگی،مشن اورکاز کے متعلق اردو میں بھی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن کے مطالعے سے ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہودی جیسا بھی ہو، جہاں بھی ہو، ہر جگہ اپنی قوم کے ساتھ مخلص ہے۔قوم کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ہی ان کی عورتیں برضاورغبت دشمنوں کے بستروں کی زینت بننا گوارا کر لیتی ہیں۔ ہم اپنے ملک کی بیٹی کو مچھلی کی طرح خود پکڑ کر عیسائیوں کے حوالے کرتے ہیں اوروہ دوسرے ملک کا ہونے کے باوجود صرف عیسائی ہونے کی وجہ اپنے لوگوں کا ہر طرح سے تحفظ کرتے ہیں اوراپنے ملک کے دروازے ان کے لیے کھول دیتے ہیں۔اپنے ملک کے اندر شیعہ، اسماعیلی اورقادیانیوں کو دیکھ لیجیے،کیسے ان کے افراد ہرجگہ، غلط ہویادرست، اپنی کمیونٹی کو سپورٹ کرتے ہیں ،اورمیں تومبنی برحق عصبیت کی بات کررہاہوں 

قومی ہم دردی نہ ہونے کی وجہ سے ہی تمام اسلامی ممالک کے حکمران یا مقتدر طبقہ امیر ترین ہے اوران کے عوام غریب ترین۔اسی وجہ سے وہ قومی وملکی مفادات کا سوداکرگذرنے سے دریغ نہیں کرتے کہ انہیں اپنی قوم سے ہم دردی ہونے کی بجائے اپنے مفادات سے محبت زیادہ ہوتی ہے۔ قومی ہم دردی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ دینے کے بجائے لینے کا معاشرہ بن گیا۔یہاں ہر شخص لٹیرا ہے،فرق صرف رسائی کا ہے ۔جس کی پہنچ جہاں تک ہے، وہ وہاں تک لوٹنے سے دریغ نہیں کرتا۔ ایک ٹریفک کانسٹیبل سوپچاس روپے رشوت لیتا ہے اورایک کسٹم آفیسر لاکھوں روپے۔ دونوں کا عمل ایک جیسا ہے، صرف اختیار کا فرق ہے ۔ہمارے حکمران بیرونی دوروں پر عوامی خزانے کے کروڑوں لٹادیتے ہیں اورایک عام آدمی ریل گاڑی پر بلاٹکٹ سفر کرکے انہی کی طرح قومی خزانے کونقصان پہنچاتاہے تو منشا کے اعتبار سے دونوں ہی ایک جیسے ہوئے۔ فرق یہی ہے کہ ایک کی رسائی وہاں تک ہے اوردوسرے کی یہاں تک۔آپ کیا سمجھتے ہیں، ایسے شخص کو اگر اقتدار مل جائے تووہ کیا قیامت ڈھائے گا؟ ہم سب، کیا عوام کیا حکمران، ذاتی مفاد کے محافظ اورقومی مفادات کے سوداگرہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مختلف ملتوں کے مذہبی تہوار اورایام آتے ہیں تو وہ اشیا کے نرخ کم کردیتے ہیں، حکومتیں لوگوں کو ہرممکن سہولت فراہم کرتی ہیں۔ گذشتہ دنوں مجھے ایک ایڈووکیٹ صاحب بتارہے تھے کہ میرے نواسے وغیرہ امریکہ میں ہوتے ہیں اورکئی چیزیں جو عام دنوں میں وہ نہیں خریدسکتے، ان کے لیے وہ کرسمس کا انتظار کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں رمضان آتاہے تو اشیا کے نرخ دوگنے سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی رمضان میں قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کوسہولت دی جاتی ہے اورہم؟کیا یہ قومی ہمدردی ہے یا قوم دشمنی؟حج کے معاملے میں دیکھیں، ہندوستان میں بہت سی سہولتوں کے ساتھ کرایے پاکستان سے کم ہیں اورپاکستان میں جو کچھ ہوتاہے اورجو کچھ ہوا، وہ محتاج بیان نہیں ۔

قومی ہمدردی اورقوم دشمنی کے مختلف مظاہردیکھیں تو ان میں اصل الاصول ایک ہی بات نظر آئے گی: ذاتی مفادکو ترجیح دینا اورقوم یا فرد کے مفاد کو قربان کرنا۔ جو شخص قومی کا ہم درد ہوگا، وہ کسی موقعے پر بھی ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح نہیں دے گا۔وہ قربانی سے کام لے گا، ایثار کو اپنائے گااورذاتی مفادات کو قربان کرنا پڑا تو اس سے دریغ نہیں کرے گا۔ آپ خود سے سوال کیجیے، ذاتی فائدے پر قومی مفادات کو قربان کرنے والاقوم کا ہم درد ہے یا قوم کا دشمن؟دونوں مفادات میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے متعلق ہماری تاریخ میں بہت سی ’’روشن‘‘ مثالیں بکھری ہوئی ہیں۔ دور صحابہ میں اور دور تابعین میں ایسے کئی واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے زمانہ پیچھے کی طرف لوٹتارہا، توں توں یہ تناسب کم ہوتا گیا۔ شریف مکہ حسین بن علی نے قوم دشمنی میں اپنا آپ انگریزوں کے حوالے کردیااورسلطان عبدالحمیدنے قومی ہمدردی میں فلسطین یہودیوں کے حوالے کرنے سے انکارکردیا۔ میرجعفراورمیرصادق جیسے کردار قوم دشمنوں کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔یہی حال ہماراہے، ہم سراج الدولہ اورٹیپوکے راستے پر چلنے کے بجائے ’’میران‘‘ کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں ۔

ایک صحابی نے اپنے اہل خانہ سمیت خود بھوکارہ کرمہمان کا اکرام کیا تو اللہ نے فرمایا: ویوثرون علی انفسہم ولوکان بہم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون۔ یہ ہے مسلمان کی شان کہ وہ خود پر دسروں کو ترجیح دیتاہے۔اللہ فرماتاہے، کامیابی اس کو ملے گی جو شح نفس سے بری ہوگا۔ آہ، افسوس کہ ہم اسی مرض میں گرفتارہیں۔قومی ہم دردی کا سبق دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الدین النصیحۃ، دین دوسروں کی بھلائی چاہنے کا نام ہے ۔اس کا معیار کیاہے ؟ اس کو دوسری جگہ حضورہی نے بیان فرمایا کہ تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیزپسند نہ کرے جو اپنے لیے پسندکرتاہے۔اس پر مجھے ایک صحابی کا اوردوسراامام ابوحنیفہ کا ایک ایک واقعہ یاد آرہاہے کہ بائع نے انہیں قیمت کم بتائی اور انہوں نے اس کی قیمت میں خودگراں قدراضافہ کر کے مہنگے داموں اس کا سامان خریدا، کیوں کہ ان کے نزدیک مال کی صحیح قیمت یہی تھی اورخیرخواہی کا تقاضاتھاکہ درست قیمت پر مال خریدکربائع کو فائدہ پہنچایاجائے۔ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ وہ درزی کا کام کرتے تھے اورکھوٹے سکے جانتے بوجھتے اس نیت سے لے لیاکرتے تھے کہ دینے والایہ کھوٹے سکے کہیں دوسرے مسلمانوں کونہ دے دے ۔ میاں سید اصغر حسین دیوبندی کا واقعہ لکھاہے کہ ہمیشہ برسات میں اپنے مکان کی لپائی کراتے، مگروسعت رکھنے کے باوجود اسے پختہ نہ کروایا۔ دریافت کرنے پر جواب دیاکہ اردگرد تمام اہل محلہ کے مکان کچے ہیں، میں اگر اپنامکان پختہ کرالوں گا تو یہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں گے۔ 

کون سی چیز ہے جس میں ہم ملاوٹ نہیں کرتے؟ کیا اشیاے صرف، کیا ادویات ،کیا دوسری چیزیں۔ ملاوٹ کرنے والے قوم کے دشمن ہیں یا ہم درد؟ اورجانتے بوجھتے انہیں بیچنے والوں کے متعلق کیاخیال ہے؟پھر جن کی ناک کے نیچے یہ کام ہو رہے ہیں اوروہ رشوت لے کر ایسے لوگوں کو عوام کی زندگی، صحت اورپیسے سے کھیلنے کی اجازت دے دیتے ہیں، وہ کس ذیل میں داخل ہوں گے ؟ابھی ذکرکی گئی حدیث کوسامنے رکھ کر سوچیں کہ کیا وہ یہ ملاوٹ شدہ اشیا اپنی ذات کے لیے پسند کریں گے؟ایسے لوگوں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے لفظوں میں فرمایا: من غش فلیس منا، جو ملاوٹ کرے اس کا ہم مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔

اللہ فرماتاہے: إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا (النساء :۵۸) بے شک اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ تم امانتیں ان کے سپردکروجو ان کے اہل ہوں۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا وسد الامرالی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ ، جب ذمہ داریاں نااہلوں کے حوالے کردی جائیں تو بس قیامت کا اانتظار کرو۔ہم کون سا کام میرٹ پر کرتے ہیں؟ کیا رشوت لے کراور سفارش کی وجہ سے ذمہ داریوں پر ان لوگوں کا تقرر نہیں کرتے جو ان مناصب کے اہل نہیں ہوتے؟ کیا یہ قوم دشمنی ہے یا ہم دردی ؟اس قوم دشمنی میں تین لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو جانتے ہیں کہ ہم اس کے اہل نہیں، پھر بھی لوگوں کا حق مار کر اوپر چڑھ آتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ان کی نااہلیت جانتے ہیں، پھر بھی ان کی شفارش کرتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ سب سے زیادہ مجرم ہیں جو اپنے فرض میں کوتاہی کر کے رشوت سفارش کی وجہ سے نااہل لوگوں کو عہدوں پر بٹھادیتے ہیں۔ مومن کی شان اللہ یہ بیان کرتا ہے: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ (الفرقان: ۷۲) جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ کیا جو لوگ جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرتے ہیں، وہ یہ جھوٹی گواہی نہیں دے رہے؟کیا وہ امانت نااہل لوگوں کے سپردکرکے قوم سے دشمنی نہیں کررہے؟پھر یہی جعلی ڈگری ہولڈر ان عہدوں تک پہنچ جاتاہے جن کا وہ اہل نہیں ہوتا ہے۔ مختلف اداروں کی جو درگت بن رہی ہے، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ نااہل لوگ یہاں بیٹھ گئے ہیں۔ایسی ڈگریاں دینے والے،لینے والے اورایسے قوم دشمن جب کسی پوسٹ پر پہنچ جائیں تو ان کی مدح سرائی کرنے والے یہ سب قوم کے دشمن ہیں نہ کہ ہم درد۔ اسی طرح وہ لوگ جو کسی فن اورفیلڈ کے نہیں، اس کو جانتے نہیں، مگر خود کو اس کا ماہر ظاہر کرتے ہیں جیسے جعلی ڈاکٹر، عطائی حکیم، نیم ملا اوربناوٹی پیر، یہ سب دھوکہ باز کرپٹ اوردشمن قوم ہیں۔ مومن کا خلق تو یہ بیان ہوا کہ وہ سیدھاسادھا بھولابھالاہوتاہے: لا یخدع ولا یخدع، نہ دھوکا دیتاہے نہ دھوکا کھاتاہے۔ذاتی فائدے کے لیے قوم کو دھوکا دینے والاکیا قوم کا ہم درد ہوگا؟

جس معاشرے میں قومی ہم دردی کی صفت موجودہو، وہاں دوسروں کے کام آنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ ایسامعاشرہ ضرورت مندوں کی امداد کرتاہے، محتاجوں کوسہارادیتاہے ، یتیموں اورمسکینوں کی اعانت کرتاہے ،مصیبت زدہ افراد کا ساتھ دیتاہے، مزدورکو پوری اوربروقت اجرت دیتاہے۔ وہ دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔ حق اداکرتاہے، غصب نہیں کرتا۔ بھوکوں کوکھانا کھلاتاہے، ان کے منہ سے نوالے نہیں چھینتا۔ ننگوں کو کپڑے پہناتاہے ،ان کے تن بدن سے کپڑے نہیں اتارتا۔ کیا یہ سارے کا م وہ نہیں جن کا حکم ہمیں اللہ اوررسول نے دیا؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی ضرورت پوراکرنے میں لگ جاتاہے، اللہ اس کی ضرورت پوراکرنے میں لگ جاتاہے۔ٹوکیومیں ابھی جو زلزلہ آیا، اس میں وہاں کے لوگوں کے رویے کے متعلق ایک کالم نگار نے کسی جاپانی عورت کا واقعہ لکھا کہ ٹوکیوسٹیشن کے باہر جس کی چھوٹی سی ایک دکان تھی۔ اس نے اپنے لوگوں کی امداد کے لیے دکان کا سامان اس اعلان کے ساتھ باہر سجادیا کہ جس کے پا س پیسے ہیں، وہ دے کر لے جائے اورجس کے پاس نہیں، وہ اپنی ضرورت کی چیز ویسے ہی اٹھالے جائے۔ان غیر مسلموں کی قوم دوستی کے کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے تہذیبی فضلے کو تو ہم نے اپنالیا ہے، مگران کی جو چند اعلیٰ اخلاقی صفات ہیں، ان سے منہ پھیرلیاہے۔ یہ صفات بھی وہ ہیں ان سے پہلے جن کا حکم ہمارے لیے خود ہمارے دین میں موجود ہے۔ ہماری قوم دوستی کاحال تویہ ہے کہ جہاں کہیں کوئی حادثہ ہو، اسے غنیمت سمجھتے ہوئے پہلے ان متاثرہ افراد کی جیبیں خالی کرتے ہیں، پھر انہیں طبی امداد دینے کا سوچتے ہیں۔ ادھر ہسپتالوں میں مسیحا جلادوں کاروپ دھار لیتے ہیں۔ زخمی تڑپیں،بچے بلکیں، مائیں سسکیں، بیمار چلائیں، لوگ ان مسیحاؤ ں کی غفلت پر روئیں، ان کی منت ترلے کریں، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہسپتالوں میں جن مریضوں کو ٹھڈے مارتے ہیں، وہی جب ان کے ذاتی کلینک پہ چلے جاتے ہیں توجی آیاں نوں کہہ کر انہیں سرآنکھوں پہ بٹھاتے ہیں۔ ۲۰۰۵ کے زلزلے کے بعدان علاقوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے جن میں لوگوں نے اپنے بھائیوں کی امداد کرنے کے بجائے انہیں لوٹنے میں دلچسپی لی،یہاں تک کہ عورتوں کی چوڑیاں بندے حاصل کرنے کے لیے جسم کے اعضا تک کاٹ لیے ۔ہمارامعاشرہ ایک خودغرض معاشرہ ہے اورخود غرض معاشرہ کبھی قوم کا ہم دردنہیں ہوسکتا۔

مولانا اشرف علی تھانوی ایک دفعہ ٹرین میں سفر کررہے تھے۔ ایک جنٹل مین بھی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ انہوں نے قصہ چھیڑدیاکہ اسلام میں کتوں کو کیوں برا سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ اس میں یہ اور یہ خوبیاں ہیں ۔حضرت تھانوی نے شاید احادیث وغیرہ کے ذریعے سمجھایا، مگر وہ نہ سمجھا۔ آخرآپ نے فرمایا، بھئی بات یہ ہے کہ اس میں ایک خامی ایسی ہے جو تمام خوبیوں پر بھاری ہے ۔اس نے پوچھاکون سی ؟ آپ نے جواب دیا، اس کے اندر قومی ہم دردی نہیں ہوتی۔ دیکھو جہاں کہیں کسی کتے کو ایک ہڈی ملتی ہے، دوسرے کتے آموجود ہوتے ہیں اوراس سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں ایک کتادوسرے کودیکھتاہے، اس پر بھونکناشروع کردیتاہے ۔اس نے کہا، ہاں یہ بات توہے ۔غور کیجیے، اپنے اخلاق کی وجہ سے کہیں ہم بھی انہی سگان آوارہ کی صف میں شامل تو نہیں ہوگئے؟

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۱۱ء)

ستمبر ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۹

دینی جدوجہد اور اس کی اخلاقیات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قومی ہم دردی اور ہم
مولانا محمد بدر عالم

مدارس میں تصنیف و تحقیق کی صورتحال
مولانا محمد وارث مظہری

عصر حاضر میں غلبۂ اسلام کے لیے جہاد
اویس پاشا قرنی

تشدد، محاذآرائی، علیحدگی اور غلبہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

حافظ صفوان محمد کے جواب میں
طلحہ احمد ثاقب

جناب محمد عمار خان ناصر کی خدمت میں
پروفیسر خالد شبیر احمد

مکاتیب
ادارہ

تلاش

Flag Counter