جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۱)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مولانا سید وصی مظہر ندویؒ کے منتخب مقالات ومکتوبات کا ایک مجموعہ ’’صریر خامہ‘‘ کے عنوان سے جناب محمد ارشد نے مرتب کر کے گزشتہ سال شائع کیا ہے۔ (صفحات:۶۳۷۔ ناشر: فکر و نظر پبلشنگ، ۴۳ ہائی بری سی آر، کچنر او این این ۲این ۳ پی ۶، کینیڈا۔ سب آفس حیدرآباد پاکستان)

مولانا سید وصی مظہر ندوی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھنؤ میں پیدا اور ۲ جنوری ۲۰۰۶ء کو کینیڈا میں فوت ہوئے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آخر پر مولانا سید وصی مظہر کا ایک خط تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کے نام شامل ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنے بارے میں درج ذیل تعارفی سطور لکھیں:

’’میں تقریباً ۲۲ سال کی عمر میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہو گیا تھا اور لکھنؤ کی شاخ میں جماعت کے خزانچی کے عہدے سے لے کر حیدر آباد شہر، ضلع اور ڈویژن کا امیر، صوبہ سندھ کا قیم (سیکریٹری) رہنے کے علاوہ تقریباً بیس سال تک مرکزی مجلس شوریٰ اور تقریباً تین سال مرکزی مجلس عاملہ کا رکن رہا۔ تیس سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۶ء میں جماعت اسلامی سے علحدگی کا حادثہ پیش آ گیا لیکن اس حادثے کی پرورش برسوں سے جاری تھی۔
۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۳ء حیدرآباد میونسپل کار پوریشن کا منتخب مئیر رہا۔
۱۹۸۵ تا ۱۹۸۸ء قومی اسمبلی کا رکن رہا۔
مئی ۱۹۸۸ تا نومبر ۱۹۸۸ء وفاقی کابینہ میں وزیر رہا۔ 
مشرق اوسط کے اکثر ممالک کا بار بار سفر کیا۔ جناب محمد خان جونیجو کے ساتھ امریکہ، ترکی، جرمنی اور فرانس کے سفر کا موقع ملا۔ 
دینی، سیاسی اور دستوری موضوعات پر کئی کتابچے لکھ چکا ہوں۔
جنگ، نوائے وقت، خبریں، پاکستان، امت، جسارت، زندگی، فاران، ندائے خلافت وغیرہ میں مضامین شائع ہوتے رہے۔‘‘

کتاب پڑھ کر مولانا کے مزاج کا ناقدانہ پہلو سب سے نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ اس میں وہ بالکل بے لاگ اور صاف ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے زیر مطالعہ آنے والے اخبارات و رسائل پر مورچہ لگائے رکھتے تھے۔ جہاں کہیں، جس کسی نے بھی ملی اقدار سے کچھ بھی ہٹ کر لکھا تو انہوں نے گرفت کرنا اپنا فرض سمجھا۔ اس میں انہوں نے کبھی کسی کے منصب اور یا کسی سے اپنے ذاتی تعلق کا لحاظ نہیں کیا۔ البتہ تحریر میں شائستگی اور احترام کا پورا لحاظ رکھا۔ اس وجہ سے ان کی تحریروں میں چبھن کم ہی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ تنقید میں کوئی لاگ لپیٹ یا رو رعایت کہیں نظر نہیں آتی۔ ان کی عملی زندگی کا غالب حصہ (۱۹۴۶ تا ۱۹۷۶ء)جماعت سے وابستگی میں گزرا۔ ان کا کمالِ وابستگی یہ رہا کہ جماعتی سرگرمیوں میں پورے فعال رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے ذہن و دماغ کو آزاد رکھا۔ جہاں کہیں اور جس پہلو سے بھی عدم اطمینان محسوس کیا، اس کا بر ملا اظہار کیا۔ اس بارے میں متعلقین کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ ان کی تحریروں میں ناقدانہ پہلو غالب ہے اور ان کی بھر پور زندگی کا غالب حصہ جماعت کے ساتھ گزرا ہے۔ اس طرح ان کی محفوظ تحریروں کا سب سے زیادہ قابل قدر حصہ جماعت پر ان کے تحفظات پر مشتمل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے مرتب مولانا وصی مظہر کے ایک شاگرد رشید محمد ارشد ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ کے صفحہ ’’ف‘‘ پر لکھتے ہیں:

’’اس منتخب مجموعہ میں خاکسار نے مولانا ندوی کے متعدد ایسے مضامین کو جن میں انہوں نے تحریک اسلامی سے اپنے اختلافات کے اسباب و وجوہات کی تفصیل بیان کی ہے، شامل نہیں کیا ہے۔ مولانا نے جماعت سے اپنی وابستگی اور پھر اس سے اختلاف و علیحدگی کی کہانی قلم بند کر رکھی تھی جسے وہ شائع بھی کرانا چاہتے تھے۔ البتہ مولانا کو ان کے بعض قدیم تحریکی رفقا خصوصاً ڈاکٹر اسرار احمد نے ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیاتھا۔ چنانچہ مولانا نے اس کہانی کو اپنی زندگی میں شائع نہیں کروایا۔ مرتب نے بھی ایسی تحریروں کی اشاعت کو مناسب خیال نہیں کیا۔‘‘

ہمارے نزدیک مرتب نے جماعت سے متعلقہ تحریروں کو زیر تبصرہ مجموعے میں شامل نہ کر کے مولانا مرحوم اور ان کی تحریروں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم کیا ہے۔ مرتب خود لکھتے ہیں کہ مولانا اپنی ان تحریروں کو شائع کرانا چاہتے تھے۔ کچھ دوستوں کے روکنے کے باعث وہ ان کو اپنی زندگی میں شائع نہ کر اسکے۔ ان دوستوں میں ڈاکٹر اسرار احمد کا رویہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ خود انہوں نے اپنے حافظے کو کرید کرید کر جماعت سے اختلاف پر مشتمل اپنی تحریروں کو مرتب کر کے پورے اہتمام سے بار بار شائع کیا مگر وصی مظہر صاحب کو ان کی اشاعت سے روکتے رہے۔ شاید وہ میدانِ نقد میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے تھے۔ مرتب نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ مولانا ندوی نے ان تحریروں کی اشاعت کا ارادہ ترک کیا ہو۔ حقیقت میں ان کی یہ تحریریں ان کا اصل اثاثہ ہیں۔ اس میں انہوں نے اپنے براہ راست مشاہدات اور تجربات کو جگہ دی۔ اپنے قلب و ضمیر کا کھل کر اظہار کیا۔ یہ تیس سال کی عملی زندگی کے مشاہدات اور ان کا حاصل ہی نہیں بلکہ پورے ایک دور کا تذکرہ ہے۔ اپنی تاریخ کا سامنا کرنے کے بجائے اس سے پہلو بچانے کا رجحان زندہ قوموں کے شایان شان نہیں ہوتا۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ کے ہر پہلو اور ہر نقطہ نظر کو محفوظ رکھتی ہیں۔ ان پر بحث و نظر جاری رہتی ہے۔ وہ اس کی روشنی میں اپنی غلطیوں تک پہنچتی ہیں۔اس طرح غلطیوں کی درستی کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس میں اختلافی نقطہ نظر کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ غلطیوں کا اندازہ اختلافی نقطہ نظر کے مطالعے ہی سے ہوتا ہے۔ کبھی قصائد سے غلطیوں کی تلاش نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے سید صاحب نے آزادی اظہار کو بطور حق تسلیم کرانے کے لیے اپنی تحریروں میں خاص طور پر زور دیا۔ انہوں نے جماعت کی ناکامی کا ایک اہم سبب اختلاف پر پابندی کو قرار دیا ہے۔ کتاب کے مرتب کے نام اپنے خط میں وہ لکھتے ہیں،

’’اسلامی تحریکوں کی ناکامی کے بہت سے اسباب میں سے ایک اہم سبب پالیسی اور پروگرام کی تشکیل میں آزادانہ بحث و گفتگو اور اظہار اختلاف پر پابندی ہے جس کی وجہ سے ہر تحریک one man show بن کر رہ جاتی ہے اور مسلمانوں کے مختلف افکار رکھنے والے مگر اسلام کے لیے مخلص لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتی۔‘‘ (صریر خامہ صفحہ ۶۱۲)

اس کے علاوہ، قاضی صاحب کے دور امارت میں جماعت سے علیحدہ ہو نے والے بزرگوں نے تحریک اسلامی قائم کی۔ تحریک کے قیم محمد جلیل خان کے نام اپنے خط مورخہ یکم دسمبر ۱۹۹۶ میں جناب ندوی نے لکھا،

’’کیا ہی اچھا ہو کہ آپ حضرات اپنی تنظیم میں حریت فکر و نظر اور اظہار رائے کی اس آزادی کا بھی اہتمام کر لیں جس کی ضمانت کتاب و سنت میں دی گئی ہے، بلکہ ہر شخص کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ تواصی بالحق کرتا رہے اور اولی الامر سے نزاع کی نوبت آجائے تو اس کا فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں کر دیا جائے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا واقعہ سیرت نبوی یا سیرت خلفائے راشدین میں ملا ہو جس میں کسی شخص کے اظہارِ اختلاف کی بنا پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہو تو براہ کرم اس سے مجھے مطلع فرمائیں: 
کیا ہوازن و ثقیف سے حاصل شدہ مالِ غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے انصاریوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟
کیا صلح حدیبیہ کی بعض شرائط پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف کوئی تادیبی اقدام کیا گیا؟
کیا مسجد نبوی کے اندر بھرے مجمع میں فتنہ افک کی حمایت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟
کیا حضرت خالد بن ولید کی اسلامی افواج کی سرہراہی سے معزولی پر بھرے مجمع میں تنقید کرنے والے، جس نے حضرت عمر کو خطاب کر کے کہا تھا کہ امیر المومنین آپ نے اللہ تعالی کی تلواروں میں سے ایک تلوار کو نیام میں ڈال دیا ہے‘‘کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟

جس حق کے لیے زندگی پر جناب وصی مظہر لڑتے رہے، مرتب نے ان کی تحریروں کو مرتب کرتے ہوئے ان کی ایسی تحریروں کو کتاب میں شامل نہ کرکے تاریخ کے ایک دور کے بیان میں انصاف نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ جناب ندوی کا پورا دور تاریخ کا حصہ ہو گیا ہے۔ تاریخ کی یہ امانت آئندہ نسئلوں کا حق ہے۔ یہ امانت ان کے سپرد کرنا ندوی صاحب جیسے زعما کے معنوی یا حقیقی ورثا کی ذمہ داری ہے۔

اس میں یہ پہلو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ناقدانہ ذوق، صلاحیت، ہمت اور جرات رکھنے والا آپ کو ہزار میں ایک بھی نہیں ملے گا۔پھر کتنا ظلم ہے اس طرح کی شے نایاب کے نوادرات کو بھی غائب کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان تحریروں کو شائع کیوں نہ کیا جائے۔ کیا جناب ندوی نے یہ تحریریں غبار خاطر کے طور پر لکھیں تھیں۔ نہیں ہر گز نہیں، غبار خاطر کا لحجہ تو ان کی کسی تحریر میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ ان کا شائستہ، نرم اور پیار بھرا اسلوب، دردمندی سے بھر پور ہے۔ انہوں نے تو اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔دکھ دینے والے اس طرح کے اظہار کی کبھی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے۔ مرحوم کی زندگی کے بعد بھی ان کے اظہار پر پابندی نافذ رہے،نعیم صدیقی کی زبان شعر میں،

جبر کے یہ نت نئے کرشمے، عقل کھڑی حیران دیکھتی ہے

جناب سید وصی مظہر صاحب کے ورثا کو اس جبر سے دستکش ہو جانا چاہیے۔ یہ جبر و غصب، جناب ندوی صاحب کے ساتھ، ان کے تحریکی ساتھیوں نے روا رکھا، ان کے ورثا کو مرحوم کے رفقا والا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ جناب ندوی صاحب کے بعد اس رویے سے حقیقی متاثرہ فریق آئندہ نسل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ جناب ندوی صاحب کے ورثا میں سے جماعت اور تحریک کے ساتھ وابستگی کی کیا کیفیت ہے، اگر کوئی وابستہ ہے تو اس کا طرز عمل ناقدانہ ہے بھی یا نہیں۔ حلقے سے باہر رہ کر نقد و جائزہ میرے نقطہ نظر سے کچھ زیادہ اہم نہیں۔ اس میں زیادہ تر انداز تفریح کی نوعیت کا ہوتا ہے۔ البتہ جو شخص اندر رہ کر فعال و سرگرم رہا ہو اور اس نے نقد و نظر کا فرض بھی انجام دیا ہو تو اس کی موجود تحریریں بڑی اہم ہوں گی۔ وابستگی کی شرط پورا کرتے ہوئے نقد و جائزہ، وابستگی کے درجے کو بلند کر دیتی ہے۔

اگرچہ مولانا ندوی کی جماعتی موضوع پر اصل تحریروں کو زیر تبصرہ مجموعہ میں شامل نہیں کیا گیا مگر اس کے باوجود اس میں بہت سی تحریریں ایسی ہیں جن میں جماعت کے بارے میں، بھر پور ناقدانہ نقطہ نظر موجود ہے۔ ہم ان کی ایسی تحریروں کا جائزہ لیں گے۔ یہاں ہم ایک بار پھر اعادہ کریں گے کہ اس موضوع پر ان کی اصل تحریروں سے محروم کیے جانے کے بعد ہم مولانا کی تحریروں کے حوالے سے جو کچھ بھی لکھیں گے وہُ چھپائی ہوئی تحریروں کے سامنے آنے کے بعد قابل نظر ثانی ہوگا۔ 

اس مجموعہ میں ناقدانہ تحریروں میں، بعض مقامات پر عملی نقطہ نظر کے بجائے قیاسی اور تصوراتی نقطہ نظر پایا جاتا ہے۔ ان سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ جناب ندوی علمی سطح کے لحاظ سے کافی بلندی سے بات کر رہے ہیں۔ مثلاً جماعتی نظام اور دستور پر گفتگو کے دوران ان سے ریاستی دستور کے اصول اخذ کرنے کا معاملہ، بہت دور از کار معلوم ہوتا ہے۔ اس میں بظاہر معقولیت نظر آتی ہے مگر عملی پہلو سے یہ دور کی کوڑی لانے جیسی کوشش ہے۔ جناب وصی مظہر کتاب کے صفحہ نمبر ۱۵۴ ۔ ۱۵۵ پر دستور کی دفعہ ۳۰ کی ذیلی شق(د)اور شوری ٰکی کارروائی کا ضابطہ ۵۲ کی شق (۵) درج کرتے ہیں:

’’جماعت کے اندر مستقل پارٹیاں اور بلاک بنانے سے محترز رہیں اور اگر مجلس شوریٰ یا جماعت میں کوئی شخص اس کی کوشش کرتا نظر آئے تو اس کی ہمت افزائی کرنے یا اس سے تغافل برتنے کے بجائے اس کی اصلاح کی کوشش کریں‘‘۔ 

شوریٰ کی کارروائی کے ضابطے ۲۵ کی شق ۵ کو حوالہ دیتے ہوئے جناب ندوی فرماتے ہیں:

’’پہلے سے نجویٰ کر کے مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں شریک ہونا اور ایسا طرز عمل اختیار کرنا جس سے جماعت میں دھڑے بندیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہو‘‘

اس کے بعد جناب ندوی لکھتے ہیں:

’’ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنی تنظیم کی مضبوطی کے لیے شوریٰ کے اندر مستقل پارٹیاں اور بلاک بنانے پر جو پابندی عائد کی ہے وہ پابندی مسلم امت کی وحدت و اتحاد اور اسلامی ریاست کے استحکام کے لیے لازم تصور کی جانی چاہیے کیونکہ جماعت کی وحدت اور استحکام سے زیادہ امت اور اسلامی ریاست کی وحدت اور استحکام ضروری ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی اگر اپنے دستور پر عمل کرتے ہوئے فی الواقع اسلامی ریاست بنانے میں کامیاب ہو جاتی تو وہ اسلامی ریاست کی شوریٰ میں بھی مستقل پارٹیوں اور بلاک قائم کرنے کی اجازت نہ دیتی اور اب گر جماعت اسلامی نے ملک کے دستور میں ایک سے زائد پارٹیوں کے نظام کو شامل رکھنے کو تسلیم کر لیا تو یہ خود اپنے موقف سے انحراف یا مصالحت و مداہنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

اس کے بعد وہ سیاسی پارٹیوں کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کی پوری فہرست درج کر کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علماء نے جب بھی سنجیدہ غور و تحقیق کی ہے تو ہمیشہ ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کی تشکیل کے تصور کے خلاف متفقہ فیصلہ دیا ہے۔ 

در اصل یہاں جماعت کے دستوری اور کارروائی شوریٰ کی شق پر تنقید کی ضرورت تھی۔ اس کے بر عکس جناب ندوی صاحب اس سے استدلال کرکے قومی اور امت کی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کے عملی وجود پر معترض ہو رہے ہیں۔ یہ استدلال عملی طور پر قابل غور نہیں۔ حقیقت میں جماعت کے اندر رائے کی تشکیل اور ذہنی سرگرمی کو جس طرح کرب کیا گیا ہے یہ شقیں اس کے اہتمام کا بہت بڑا ثبوت ہیں۔ جماعت کا پورا تنظیمی ڈھانچہ اسی طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ ذہنی سرگرمی مفلوج رہے۔ نظم کی جانب سے اختیار کی گئی پالیسیوں اور فیصلوں کو شوریٰ ہی نہیں ہر سطح پر قبولیت کے سوا کوئی دوسرا امکان مکمل طور پر مسدود کر دیا جائے۔ اس طرح کے ڈھانچے کو مستحکم اور منظم تنظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب ندوی حریت فکر اور اختلاف کے اظہار پر جماعت کے اندر موجود پابندیوں کی شکایت کرتے ہیں۔ جماعت کا انتخابی نظام بھی اسی طرح کا ہے کہ جہاں موجودہ صورت حال کو جاری رکھنے کا پورا اہتمام موجود ہے۔ جناب ندوی مرکزی شوریٰ کے حوالے سے یہ تو ضرور کہتے ہیں کہ اس میں زیادہ تر نفری امرائے اضلاع کی ہے۔ یہ کم و بیش نامزد لوگ ہوتے ہیں۔ یہ شوریٰ میں سنجیدہ مباحث کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ لہذا شوریٰ میں تمام تر وقت معمول کی کارروائیوں میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس میں حقیقی مباحث کو کبھی زیادہ اہمیت نہیں ملتی۔ نامزد لوگ اپنے مزاج کے طور پر اطاعت امر اور اطاعت نظم میں سوچ اور فکر کی آزادی کو کیسے برت سکتے ہیں۔ وہ تو ہاتھ کھڑے کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دستور میں جب اختلاف کے اظہار پر یکطرفہ پابندیاں لاگو ہوں اور اخراج کی تلوار ارکان کے سر پر لٹک رہی ہو۔ جناب ندوی کتاب کے صفحہ ۱۵۸ اور ۱۵۹ پر تحریر فرماتے ہیں:

’’جماعت اسلامی نے اپنی صفوں میں پیدا ہوجانے والے انتشار کو دور کرنے کے لیے اپنے دستور میں امیر جماعت اور مرکزی پالیسی سے اختلاف کرنے والوں کو جماعت میں رہنے کی اجازت با دل نخواستہ دے تو دی مگر ان اپر اظہار اختلاف کے تمام دروازے بند کر دیے۔ دستور کی متعلقہ دفعہ کے الفاظ یہ ہیں،
دفعہ نمبر ۹۳ (۱) انہیں ارکان جماعت کے اجتماعات میں اختلافِ خیال کے اظہار کا پورا حق حاصل ہو گا مگر اس غرض کے لیے پریس اور پبلک پلیٹ فارم کو ذریعہ بنانے کا حق نہ ہو گا اور یہ حق بھی نہ ہو گا کہ وہ فردااً فرداً ارکانِ جماعت میں نجویٰ کرتے پھریں۔‘‘

اس پابندی کے نتائج کے حوالے سے مولانا ارشاد فرماتے ہیں:

’’ان دونوں شقوں میں ارکان جماعت کو اختلاف رکھنے کی آزادی تو دی گئی ہے مگر اس اختلاف کو ختم کرنے یا اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے بیشتر دروازے بند کر دئیے گئے اور جو دروازے کھلے ہیں ان کو بھی جماعت اسلامی کے اہل کاروں نے دستور کی غلط تعبیر و تشریح کرکے بند کر دیا ۔ ظاہر ہے ایک شخص کا اختلاف اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب وہ برابری کی سطح پر اپنے اختلاف کو دلائل کے ساتھ بیان کردے اور لوگ اسے پھر بھی نہ مانیں تو ایسا شخص یا تو اپنی رائے بدل لیتا ہے یا اکثریتی فیصلے کو صبر کے ساتھ قبول کر لیتا ہے۔ علاوہ ازیں اظہارِ اختلاف کی آزادی کا ایک بڑا فائدہ اور بھی ہوتا ہے کہ کسر و انکسار اور دو مختلف تجاویز پر غور کرنے کے نتیجے میں کوئی بہتر درمیانی راہ نکل آتی ہے۔ لیکن جب اظہار رائے کی برائے نام آزادی تو ہو مگر دوسرے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی تمام راہیں بند کر دی گئی ہوں تو اختلاف شدید ہونے کی صورت میں ایسے شخص کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ تنظیم ہی سے علیحدہ ہو جائے چنانچہ جماعت اسلامی سے جو اصحاب فکر و نظر وقتاً فوقتاً علیحدہ ہوتے رہے ہیں ان کی علیحدگی کی وجہ یہی ہے کہ ان کو اس بات کی کوئی توقع نہ تھی کہ وہ کبھی بھی دوسروں کو اپنا ہم نوا بنا سکیں گے لیکن اگر اظہار رائے کی کھلی آزادی ہوتی تو یہ اصحاب جماعت سے کبھی الگ نہ ہوتے، زیادہ سے زیادہ وہ کچھ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیتے اور ہو سکتا ہے کہ کسی مرحلے میں اکثریت ان کی ہمنوا ہو جاتی، اس سے جماعت کے نصب العین کو کوئی نقصان نہ پہنچتا بلکہ عام ارکان کی صلاحیت کو مہمیز ملتی اور دونوں قسم کی رائے رکھنے والے اپنی سرگرمیوں کو بڑھانے پر مجبور ہوتے۔ اس طرح جماعت اسلامی کی صفوں میں غیر فعال ارکان کی جو تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اس کا بڑھنا یکسر بند ہو جاتا۔‘‘
’’کسی اختلاف رکھنے والے کو پریس یا پبلک پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں جب کہ اکثریت کی پالیسی جماعت اور غیر جماعتی اخبار و رسائل، جلسوں اور اجتماعات میں مدلل انداز میں پیش کی جاتی رہے گی اور اختلاف رکھنے والا اس بارے میں لب کشائی کا مجاز نہ ہو گا۔‘‘

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے دستور کے مطابق، پارٹی مسائل پر، پارٹی جرائد میں لکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ بہر حال اس پابندی کا غیر فطری ہونا اس وقت واضح ہو گیا جب مولانا مودودی خود اس پابندی کو توڑنے پر مجبور ہوئے۔ میاں طفیل محمد امیر جماعت تھے اور پروفیسر غفور احمد نائب امیر۔ ایک زمانے میں انہوں نے جماعت کو دیگر جماعتوں میں مدغم کرنے کے عزم کا پریس میں اظہار کیا۔ اس پر مولانا مودودی کو مجبوراً پریس ہی کے ذریعے واضح کرنا پڑا کہ کسی عہدے دار بلکہ مجلس شوریٰ کوبھی یہ اختیار نہیں کہ وہ جماعت کو کسی دیگر جماعت میں مدغم کر سکے۔ اسی طرح قاضی حسین احمد کے زمانہ امارت میں جناب نعیم صدیقی نے بنام ’’دلبر‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اسے پریس میں چھپوایا۔ اس نظم کو جماعت کا نوحہ کہا جاسکتا ہے، ایک مصرعے میں وہ اس حد تک چلے گئے،

تدبر کے تخت طاؤس پر مسلط اک غبی ہے

حالات کے جبر کے سامنے، اس طرح کی پابندیاں بے اثر ہو جاتی ہیں۔ بہر حال مولانا ندوی دیگر پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ پابندی بھی ہے کہ اختلاف کا اظہار صرف اجتماعات ارکان میں کیا جائے فرداًفرداً لوگوں کو ہم خیال بنانے کی بھی اجازت نہیں۔‘‘
’’مرکزی شوری جو پالیسی ساز ادارہ ہے اس کے ارکان کو ہم خیال بنانے کی کوشس پر بھی پابندی ہے۔ حتیٰ کہ کوئی رکن شوری بھی دوسرے ارکان سے اختلافی موضوع پر گفتگو نہیں کر سکتا۔‘‘
’’اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ جماعت کے مقامی، ضلعی اور صوبائی اہلکاروں نے دستوری اصطلاحات کو بغیر سمجھے ان کا ایک مفہوم خود متعین کر لیا اور اس مفہوم کی بنا پر انہوں نے اختلاف کرنے والوں کی گردنیں ناپنی شروع کریں۔‘‘

اس طرح اطاعت نظم میں غلو کی بسم اللہ ایسی ہوئی کہ اختلاف اور ذمہ داران کے احتساب کے تصورات محض زینتِ دستور بن کر رہ گئے۔ در اصل جماعتی نظم اور نظام کی تشکیل میں پائے جانے والے بنیادی تضادات نے نظام جماعت کو ایک تدریجی عمل کے تحت برباد کیا ہے جس کے بعض پہلو جناب ندوی صاحب نے محسوس کیے ہیں۔ ایک تضاد کا تو جناب ندوی صاحب کے حوالے سے ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں۔ یہ تضاد جماعت کے اندر گروہ بندی کی مکمل ممانعت اور پھر میدان سیاست میں ایک سے زائد سیاسی پارٹیوں میں عملی شرکت کے سلسلے میں بیان کیا گیا ہے۔ جماعتی نظام میں تشکیل کے وقت ہی سے بعض ایسے بنیادی تضادات رکھ دئیے گئے تھے جن کے نتائج سامنے آنے تک جماعتی نظام کا ڈھانچہ مکمل تباہی کا شکار ہو چکا تھا۔ البتہ اس تباہی کا احساس اور شعور کبھی پیدا نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ ڈھانچے میں جمود کا رسوخ تھا جو دن بدن طاقتور سے طاقت ور ہوتا گیا۔ جماعت کا پورا لٹریچر پڑھ جائے، مولانا موودودی کی تحریریں دیکھ لیں، قیام جماعت کے بعد اطاعت نظم پر بے انتہا زور دیا گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں تنقید اور محاسبے پر زور بہت کم ہے اور عملی طور پر اس کا کوئی اہتمام نہیں تھا۔ دستور میں احتساب کا کوئی باقاعدہ ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ جب تک مولانا کی برابری کی سطح کے لوگ جماعت کے اندر موجود رہے تو احتساب ذمہ داران کا کچھ نہ کچھ کردار وہ لوگ ادا کرتے رہے مگر ان کے بعد احتساب و تنقید کے امکانات یکسر نا پید ہوتے گئے۔ اس کا اظہار جناب ندوی صاحب نے کھل کر کیا ہے۔ حقیقت میں مولانا امین احسن اصلاحی کے بعد جماعت کے اندر تنقید اور احتساب کا باب بند ہو گیا تھا۔ قاضی حسین احمد کے زمانے میں، احتساب امیر جماعت کے لیے جماعت میں سنجیدہ بزرگوں نے کوشش کی مگر قاضی صاحب نے احتساب کا سامنا کرنے کے بجائے استعفیٰ دے کر قائمقام امیر کے انتظام میں نئے انتخاب کا اہتمام کروایا اور خود دوبارہ منتخب ہو گئے۔ نتیجہ کیا ہوا قاضی صاحب پر دستور اور مرکزی شوری کے فیصلوں کی خلاف ورزی جیسے سنگین الزامات کی انکوائری کے لیے قائم کمیٹی دھری کی دھری رہ گئی۔ اس طرح احتساب کے لیے جتنا گردا اٹھایا گیا تھا وہ سب بیٹھ گیا۔ یہ روایت جماعت کی تاریخ میں پہلے سے موجود تھی۔ ۱۹۵۳ کے انتخابات میں ناکامی پر انکوائری کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد، مولانا مودودی نے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دیا۔ پریس کے ذریعے اس کی وسیع تشہیر کی گئی۔ مولانا نے بار بار یہ واضح کیا کہ ان کا مستعفی ہونے کا فیصلہ قطعی ہے۔ وہ اسے واپس نہیں لیں گے۔ اس طرح سنسنی خیز ماحول پیدا کرکے ماچھی گوٹ میں اجتماع ارکان طلب کیا گیا۔ ان کے استعفیٰ کے متن کو دیکھا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی سنسنی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مولانا نے لکھا:

’’اور یہ بات واضح کیے دیتا ہوں کہ یہ استعفیٰ واپس لینے کے لیے پیش نہیں کیا جا رہا۔ میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ اب جماعت میں کوئی منصب بھی حتیٰ کہ مجلس شوریٰ کی رکنیت بھی قبول نہیں کروں گا۔‘‘ (طفیل نامہ صفحہ نمبر ۳۱۴)

اس اجتماع میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ جماعت کا ایسا باب ہے جس پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس ستر پوشی کے لیے ۱۹۵۷ سے ۱۹۸۰ تک جماعت کی تاریخ کو ہی غائب کر دیا گیا۔ جماعت کی تاریخ، روداد جماعت اسلامی کے ناموں سے قیام جماعت سے تواتر سے جو سلسلہ جاری تھا اس میں تعطل پیدا کر دیا گیا۔

اب دیکھئیے کہ یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ جماعت کے اندر نظم کی اطاعت میں غلو کر کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر منجمد کر دیا جائے۔ اس کے بر عکس میدان سیاست میں درپیش جبر و آمریت کے خلاف آپ کو کم و بیش ہمیشہ بغاوت جیسی صورت حال اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ۱۹۶۰ء سے لے کر جولائی ۱۹۷۷ء تک جماعت نے، ہر قائم حکومت کے خلاف کھل کر اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ ضیاء الحق کے دور تک آپوزیشن کا رول ادا کرتے کرتے جماعت اس قدر تھک چکی تھی کہ مزید اپوزیشن کا رول ادا کرنے کے بجائے جماعت اپنے تمام اصولوں کو ترک کر کے مارشل لا کی وردی اور چھڑی تلے مرکزی کابینہ میں شامل ہوئی اور اقتدار سے لذت اندوز ہونے کا رجحان جماعت میں اتنا طاقتور ہوا کہ آخر کار بلا واسطہ یا بالواسطہ جماعت کا کردار حکمران جماعت کے حاشیہ نشینوں میں ہی رہا۔ قربت اقتدار کے اس دور میں کیا کچھ ہوااس کی پوری ایک تاریخ ہے مگر اس پر بہت دیر تک پردہ پڑا رہے گا۔ ایم ایم اے کے دور میں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ تو بہر حال تاریخ کے صفحات پر ایسا نقش ہوا ہے کہ اسے کوئی صاف نہیں کر سکتا۔

اطاعت شعار لوگوں میں اپوزیشن کی ہمت اور صلاحیت آخر کب تک باقی رہ سکتی ہے۔ اس کا جواب جماعت کی جد و جہد کا سرسری مطالعہ بڑے واضح انداز میں دے سکتا ہے۔

جماعت کے اندر اطاعت شعاری یا ذمہ داران کے احتساب، دونوں میں سے ایک ہی کا اہتمام ہو سکتا ہے اس میں توازن کا خواب یا وعظ تو ممکن ہے مگر اہتمام کسی طرح ممکن ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوا۔ احتسابِ ذمہ داران کے خلاف سب سے بڑا تحفظ جماعت سے ارکان کے اخراج کا ضابطہ ہے۔ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو ارکان کے اخراج کا یہ ضابطہ ہی شریعت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف جماعت اسلامی کی رکنیت کو شرعی ضرورت کا درجہ دیا جاتا ہے، بقول جناب خرام مراد:

’’جماعتی زندگی ایک شرعی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کے نزدیک دعوت دین کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوات، جس طرح فرض ہے اسی طرح اقامت دین کی جد و جہد بھی اہل ایمان کے لیے ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ جد و جہد جماعتی زندگی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔‘‘ (لمحات صفحہ نمبر ۱۸۷)
’’دستور اور روایت میں تادیبی کارروائی کی گنجائش کے باوجود، میں بنیادی طور پرکسی ساتھی کے خلاف انتہائی کارروائی کرنے کے خلاف ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ رکنیت کا جو تصور ہمارے ہاں ہے، وہ ہمیں ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔۔ ۔ آخر ایک اسلامی ریاست میں ہمیں معاشرے کی خرابیوں کو برداشت کرنا ہی پڑے گا اور انہیں ٹھیک رکھنے کے لیے تعلیم، تربیت اور تادیب کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے بہرحال ناپسندیدہ افراد کو ملک سے باہر تو نہیں نکالا جاسکتا۔ ریاست کے لیے ضروری ہو گا کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کی اصلاح کرے۔۔ ۔ میں نے اپنی تحریکی زندگی میں جمعیت یا جماعت سے کسی فرد کا بھی اخراج نہیں کیا۔ میں لوگوں کو کھو دینے کا قائل نہیں۔‘‘ (لمحات صفحہ نمبر ۳۹۹۔ ۳۰۰)

کوئی شخص جماعت کا رکن بن جائے تو جماعت کا نظام اس کو سیدھا کرنے میں موثر اہتمام کرتا ہے۔ ایسا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے کہ وہ خود جماعت سے باہر ہو جائے۔ جیسا کہ مولانا مودودی کے دور میں مولانا اصلاحی کے استعفیٰ سے پہلے پیدا کیا گیا۔ اسی طرح کا ماحول قاضی حسین احمد نے نعیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ان کے احتساب کی کوشش پر بھی پیدا کیا تھا۔ اگرچہ اس طرح کا ماحول پیدا کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہو سکتامگر ذمہ داران جماعت کے ہاتھوں میں ارکان کے اخراج کا اختیار دے کر ارکان جماعت کے سروں پر ایسی تلوار لٹکا دی گئی ہے کہ اس کی موجودگی میں احتساب ذمہ داران کا کوئی امکان باقی نہیں رہ سکتا۔مولانا ندوی نے اختلاف کی بنیاد پر تادیبی کارروائی کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ اس بارے میں ہم ان کا طویل اقتباس اوپر درج کر چکے ہیں۔ ویسے بھی جماعت اسلامی کے ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کا سٹیٹس حاصل کر لینے کے بعد، جماعت کی رکنیت تو ۱۹۷۳ء کے دستور کی آرٹیکل ۱۷ (۲) کے تحت بنیادی انسانی حق بن جاتا ہے۔ اس حق کی دستور مملکت نے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ اس طرح دستور جماعت میں درج اخراج کا ضابطہ مملکت کے دستور کے منافی محسوس ہوتا ہے۔ دستور کے متعلقہ آرٹیکل کے الفاظ یہ ہیں:

Every citizen, not being in the service of Pakistan shall have the right to form or be a member of a political party
’’ہر شہری جو پاکستان سرکار کی ملازمت میں نہ ہو، سیاسی جماعت کا رکن بننے کاحقدار ہے‘‘ 

دستور کے اس آرٹیکل کے پیش نظر جماعت میں رکن بنانے اور خارج کرنے کے ضابطے کو دستور پاکستان کے مطابق بنانا پڑے گا۔ 

(جاری)

آراء و افکار

(اکتوبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter