جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۲)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

کوئی بھی جماعتی نظام حرکت و جمود دونوں کو سمو نہیں سکتا۔ یہ دونوں باہم متضاد ہیں۔ نظام حرکت کو فروغ دینے والا ہو گا تو اس میں جمود کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ اگر نظام کی بنیادوں میں جمود پیدا کرنے والے محرکات کو شامل کیا گیا تو پھر حرکت کے تمام امکانات ختم اور جمود روز بروز مستحکم ہو گا۔ جناب ندوی صاحب نے بہت سے پہلوؤں سے جماعت کے اندر جمود کے محرکات کا جائزہ لیا ہے مگر ان کی نظر جمود کے زیادہ گہرے اسباب تک نہیں پہنچی۔ انہوں نے جماعت کے اندر قیادت سازی کے نظام کو جماعتی استحکام کا سبب قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہی نظام مکمل جمود تک پہنچا دینے کا باعث ہوا ہے۔ جدید دور میں جس طرح جمہوریت کثیر جماعتی نظام کے بغیر چلائی نہیں جاسکتی، جس طرح نظام عدل وکالت کے ادارے کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اسی طرح امیدواری کے بغیر انتخابی نظام کا کوئی تصور ممکن نہیں۔ مزید براں قیادت کا بار بار منتخب ہونے پر پابندی لازمی ہے۔ ان دو پہلوؤں سے ہٹ کر جو نظام جماعت میں قائم کیا گیا اس کا نتیجہ جمود کے سوا کچھ ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ امید واری کی نفی کے حق میں جو استدلال کیا گیا ہے اس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔ قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف سے مصر کا وزیر خزانہ بنائے جانے کی خواہش اور درخواست کا ذکر موجود ہے۔ علاوہ ازیں انسانی شخصیت کا یہ نفسیاتی پہلو ہے کہ اس میں دولت، جنس اور اقتدار کے حصول کا جذبہ قدرت نے ودیعت کیا ہے، اسے ضابطوں میں مقید کر کے بے قید ہونے سے تو روکا جاسکتا ہے مگر اس کی یکسر نفی نہیں کی جاسکتی۔ منصب کی خواہش کرنا کسی طرح ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مناصب پر فائز لوگ اپنی حیثیت اور کارکردگی کے لحاظ سے انتخاب یا استصواب کے موقعہ پر باقی تمام لوگوں پر فائق اور نمایاں ہوتے ہیں۔ رائے دہندہ کے سامنے لا محالہ صاحب منصب کو چھوڑکو ووٹ دینے کی بہت ٹھوس وجوہ ہونا چاہیے۔ پھر اہل مناصب کے لیے بلا واسطہ یا بالواسطہ کنویسنگ کیلیے اشارے اور کنائے بھی کافی ہوں گے۔ جب احتساب کمزور ہو جائے تو کسی بھی بے قاعدگی کو روکنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ یہاں تک کہ قاضی حسین احمد نے اپنے خلاف جماعت کے بزرگوں کی جانب سے الزامات کی بوچھاڑ کے بعد استعفیٰ دے کر نئے انتخاب کا اہتما م کرایا تو ان کا تحریری استعفیٰ دراصل نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ دینے کی اپیل تھی۔ طفیل نامہ میں میاں طفیل محمد نے قاضی حسین احمد کے استعفے کا متن درج کیا ہے۔ اس میں قاضی صاحب کے یہ الفاظ موجود ہیں،

’’میرے خلاف مسلسل محاذ آرائی اور یکطرفہ الزام تراشی نے یہ بات ناگزیر بنا دی ہے کہ میں اب خود ارکان جماعت سے براہ راست رجوع کروں تاکہ یہ معلوم کر سکوں کہ مجھے اب بھی پہلے کی طرح ان کا اعتماد حاصل ہے یا یہ کہ وہ اماارت میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔‘‘

اس لیے میں نے طویل غور و فکر کے بعد اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں امارت کی ذمہ داری سے مستعفی ہوکر ارکان جماعت کو یہ موقع دوں کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ (طفیل نامہ صفحہ ۳۱۱)

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں طفیل محمد صاحب نے امیر جماعت کے اس انتخاب کو ڈھونگ قرار دیا، وہ فرماتے ہیں: 

’’حقیقت یہ ہے کہ امیر جماعت کا یہ انتخاب انتخاب نہیں ڈھونگ تھا۔ اگر یہ استعفیٰ تھا تو اس پر یہ رقم کرنے کا کیا جواز تھا کہ ارکان جماعت فیصلہ کریں کہ مجھے اب بھی ان کا اعتماد حاصل ہے کہ نہیں۔ یہ تو صریح طور پر منصب امارت کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان تھا۔۔ ۔ قاضی صاحب نے تو ارکان سے اپنے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کر دی ۔ یہ دستور کی رو سے انہیں امارت کے لیے نا اہل بنا دیتی ہیں۔‘‘ (ایضاً صفحہ نمبر ۳۱۲)

مجموعی طور پر جماعتی تصورات سے آزاد ہو کراس نظام انتخاب کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ انتخابات سے پہلے اہل مناصب کی کاردگی کے باقاعدہ اور موثر جائزے کا بھی کوئی اہتمام نہ ہو، کسی دوسرے کو ان کے خلاف مہم چلانے کی بھی اجازت نہ ہو، کوئی امید وار بھی نہ بن سکے تو نتیجہ صرف اور صرف ایک ہی ہو گا کہ مناصب پر فائز لوگ تواتر کے ساتھ منتخب ہوتے جائیں گے۔ انتخاب یا استصواب کے موقعہ پر ارکان جماعت میں ذہنی تن آسانی استوار ہو جائے گی۔ وہ رائے استعمال کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو استعمال کرنے کے بجائے منصب پر فائز لوگوں کے حق میں رائے دینے کو ترجیح دیں گے۔ شوریٰ کے انتخاب کے موقعہ پر ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ارکان پوچھتے ہیں کہ پہلے کون لوگ شوریٰ میں موجود ہیں۔ ان کے نام معلوم کر کے وہ فوری طور پر انہی کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہمارے نقطہ نظر سے جماعتی نظام انتخاب کسی طرح انتخابی نظام نہیں۔ 

اس مرحلہ پر ہم جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر جناب خرم مراد کے مشاہدات کا حوالہ انتہائی بر موقع خیال کرتے ہیں:

’’انتخاب سے ایک روز پہلے میں دفترگیا، وہاں پر لاہور کے مضافات سے ایک نا خواندہ رکن آئے پرچہ رائے دہندگی لیتے ہوئے بلا تکلف ناظم دفتر سے پوچھا کہ آج کل کون امیر ہے؟۔ ناظم دفترنے کہا شاہ صاحب (اسعدگیلانی) ہیں۔ کہنے لگے بس ان کے نام کے آگے نشان لگا دیں۔ انہوں نے وہاں نشان لگا دیا۔‘‘(لمحات ۴۲۸۔۴۲۹)

جناب خرم صاحب مرکزی ناظم مالیات شیخ فقیر حسین صاحب کے حوالے سے لمحات کے صفحہ ۴۲۷ پر لکھتے ہیں، 

’’اصل میں تو جماعت کے اندر سنگل کینی ڈیچر سسٹم (یک امیدواری نظام) ہے۔ ان کی بات سن کر میں ایک دم چونکا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟۔ کہنے لگے دیکھئے جو آدمی پہلے سے امیر ہے وہ فرد تو ایک امید وار ہے ہی اور باقی کوئی امیدوار اخلاقی اور دستوری طور پر اس کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اسے لیے الا ما شا ء اللہ کوئی دوسرا منتخب بھی نہیں ہوتا۔ ‘‘

ہم کمیونسٹ ممالک اور پارٹیوں میں یک امیدواری نظام پر ہمیشہ اعتراض کرتے رہے۔ ان کے الیکشنز کو ہم ایک ایسی دوڑ سے تعبیر کرتے رہے جس میں ایک ہی گھوڑا حصہ لیتا ہے، اس کے باوجود اپنے ہاں ہمارا اہتمام قابل غور ہے۔

لمحات کے صفحہ نمبر ۴۲۸ پرجناب خرم مراد نے لکھا:

’’امریکہ جیسے جمہوری ملک میں جہاں (باقاعدہ امیدوار الیکشن لڑتا ہے) پڑھے لکھے رائے دہندگان موجود ہیں، وہاں بھی اگر پہلے سے منتخب صدر دوسری مرتبہ امیدواربن جائے تو ان میں سے شاید ہی کوئی ہارا ہو۔ دو سال میں دوسری ٹرم کے لیے ہارنے والے صدر شاید پانچ چھ ہیں۔ 
جب وہاں یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں اس کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، جہاں پر لوگ مروت، احترام اور وضع داری کے باعث کچھ بہت زیادہ غور و فکر بھی نہیں کرتے۔‘‘

جناب خرم لمحات کے صفحہ نمبر ۲۸۱ پر تحریر کرتے ہیں:

’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ دس برس کے دوران میں نے پاکستان میں یہ دیکھا ہے کہ لوگ عام طور پر ذمہ داری سے نہ از خود سبک دوش ہوتے ہیں نہ دوسروں کے لیے جگہ چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں، اگرچہ اپنی صحت، اہلیت، قوت کار اور صلاحیت کی کمی وجہ سے بھی جماعت کو نہ چلا سکتے ہوں۔ یہ رویہ اس وقت بھی بر قرار رہتا ہے، جب ان کے علم میں بات آ جاتی ہے کہ بالائی نظم ان کے کام سے مطمئن نہیں ہے، یا پھر ان سے بہتر کسی آدمی کو لانا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں وضع داری، صحیح اسپرٹ اور اسلامی روایات کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگ خود ان افراد کے لیے جگہ خالی کرنے کی پیش کش کردیں، افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

اس سب کچھ کے باوجود اگر اسے انتخابی نظام مان بھی لیا جائے تو صوبائی امرا سے لے کر مقامی امرا تک کا تقرر کیا جاتا ہے۔ 

جناب خرم مراد لمحات کے صفحہ ۲۸۱ پر مزید لکھتے ہیں:

’’جماعت اسلامی میں باہم مشورے سے وحدانی نظام اختیار کیا گیا ہے، جس میں بیشتر مناصب، امیر جماعت کے اعتماد کی بنیاد پر لوگوں کے سپرد کیے جاتے ہیں۔‘‘

دستور میں تقرر میں ارکان کی رائے کو قبول کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر اس میں استثنائی اختیار دے کر خالص نامزدگی کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہ دروازہ اب ایسا چوپٹ ہو گیا ہے کہ ان سطحوں پر عملاً نامزدگی کو رواج مل چکا ہے۔ اس کے لیے اگر کسی مقام پر تبدیلی کی نظمِ بالا ضرورت محسوس کرے تو انتخاب سے مہینہ دو پہلے اصل ذمہ دار کو ہٹا کر قائم مقام کا تقرر کر دیا جاتا ہے، یہ تقرر، قائم مقام کے انتخاب کے لیے راہ ہموار کر دیتا ہے۔ اس نظامِِ انتخاب کے جامد ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ امرائے اضلاع کے مناصب پر، قریب قریب ہر امیر ضلع کم و بیش متواتر تیس تیس سال تک فائز رہا۔ مرکزی شوریٰ کے سامنے بار بار کے انتخاب پر پابندی کی دستوری ترمیم بائیس سال زیر التوا رہی۔ اس کے بعد اسے منظور کیا گیا۔ اتنی دیر میں جامد انتخابی نظام اپنا کام کر چکا تھا۔

مرکزی سطح کو ہی لے لیجیے، جماعت ۱۹۴۱ء کو قائم ہوئی۔ قیام کے ساتھ ہی سید مودودی رحمہ اللہ امیر جماعت منتخب ہوئے۔ وہ ۱۹۷۲ء تک امیر جماعت رہے۔ پھر باقاعدہ انتخاب کے موقعہ پر انہوں نے اپنی کمزوری صحت کی بنا پر معذرت کی تو میاں طفیل محمد امیر جماعت منتخب ہوئے۔ اگر مولانا معذرت نہ کرتے تو وہ زندگی کی آخری سانس تک منتخب ہوتے رہتے۔ ان کا پہلا انتخاب بھی اپنی روح کے اعتبار سے انتخاب نہیں تھا۔ وہ داعی کی حیثیت سے میز بان تھے۔ مولانا مودودی کی تجویز پر نظام جماعت ایسا مان لیا گیا جس کی رو سے کوئی امیدوار نہیں ہو سکتا تھا۔ تین چار روز کے تاسیسی اجتماع میں مولانا چھائے رہے۔ دستور کا مسودہ ان کا مرتب کردہ تھا۔ انہوں نے خود ہی اسے پیش کیا۔ یہ مسودہ منظور کر لیا گیا۔ اس ماحول میں انتخاب امیر کے لیے ان ہی پر ہر ایک کی نظر تھی۔ متبادل امیدوار ہو نہیں سکتا تھا۔ اس طرح مولانا امیر منتخب ہو گئے۔

انتخابی نظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ایک متعینہ مدت کے بعد مختلف صلاحیتوں کے لوگوں میں سے کسی نہ کسی کو قیادت کا موقع مل جاتا ہے۔ اس طرح مختلف صلاحیت کے لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ چنانچہ ہر کوئی جماعت میں اپنی دلچسپی بر قرار رکھ سکتا ہے۔ لوگ باہر نکلنے کے راستے کی جانب نہیں دیکھتے۔ لیکن یہاں جماعت کا نظام ایسا متشکل ہوا کہ سید علیہ الرحمہ کے برابری کے کسی شخص کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس وجہ سے سید کے ہم مرتبہ لوگ جماعت کی تشکیل کے ایک دو سال بعد ہی جماعت سے دور ہو گئے۔ جماعت کی تشکیل کے موقعہ پر جتنا زبردست ٹیلنٹ جمع ہوا تھا، وہ چھٹ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۷۲ء میں جب سید علیہ الرحمہ کی توانائیاں جواب دے گئیں اور وہ جماعت کی امارت ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابی معرکے میں سب سے پہلا انتخابی جلسہ لاہور کے موچی دروازے کے باہر ہوا۔ مولانا مودودی نے بمشکل چالیس منٹ خطاب کیا اور پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ جھٹک کر بے بسی کے عالم میں کہا کہ ان کی طاقتیں جواب دے گئی ہیں۔ وہ اپنی تقریر جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس طرح انہوں نے اپنی تقریر ادھوری چھوڑ دی۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا واقعہ تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے تقریر کو مکمل کیا۔ کبھی ادھوری تقریر نہیں کی۔ ۱۹۶۴ء کے صدارتی معرکے میں ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح امیدوار تھے۔ جماعت مادر ملت کی حمایت کر رہی تھی۔ موچی دروازے سے باہر انہوں نے اڑھائی گھنٹے خطاب کیا۔ ان کی یہ طویل تقریر، ایوب خان کے دور حکومت کا مکمل اور جامع جائزہ تھا۔

تسلسل اور تواتر کو فروغ دینے والے نظام جماعت میں قیادت کا خلا لازماً پیدا ہوتا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں جب مولانا نے معذوری ظاہر کی تو اس منصب کو سنبھالنے والا کوئی صاحبِ صلاحیت شخص، جماعت کے اندر موجود ہی نہیں تھا۔ چارو نا چار جناب میاں طفیل محمد کو یہ بار گراں اٹھانا پڑا۔ محترم میاں صاحب کی سید مرحوم کے قیم کے طور پر خدمات درجہ کمال کی ہیں، مگر امارت جماعت کے منصب پر ان کا فائز ہونا بہر حال خانہ پری سے زیادہ نہیں تھا۔ اس انتخاب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ میاں صاحب تیس سال قیم رہ کر حقیقت میں ایگزاسٹ ہو چکے تھے۔ ایک ایگزاسٹ شخص سے کسی بڑی کارکردگی کی توقع مشکل ہوتی ہے۔ بہر حال میاں طفیل صاحب ۱۹۸۷ء تک کام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے بھی خرابی صحت کی بنا پر باقاعدہ انتخاب کے موقع پر ارکان سے معذرت کرتے ہوئے ان کو منتخب نہ کرنے کی اپیل کی۔ اس کے نتیجہ میں قاضی حسین احمد منتخب ہوئے۔ وہ بھی پچھلے انتخابات کے موقع تک کام کرتے رہے۔ اس موقع پر انہوں نے بھی خرابی صحت کی بنا پر معذرت کی تو سید منور حسن منتخب ہوئے۔ اگر میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد معذرت نہ کرتے تو وہ تواتر سے منتخب ہوتے رہے۔ قاضی حسین احمد نے اس وقت معذرت کی جب وہ تین بائی پاس آپریشنوں سے گزر چکے تھے۔

انتخابی عمل قیادت میں تبدیلی کا ضامن ہوتا ہے۔ ہم نے اوپر کی مثالیں دے کر واضح کر دیا ہے کہ جماعت کا نظام تبدیلی کی نفی کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں یہاں انتخابی نظام کی نفی کی گئی ہے۔ ایسا نظام اختیار کیا گیا جو بظاہر انتخابی نظام نظر آتا ہے مگر حقیقت میں وہ تسلسل برقرار رکھنے کا بڑا گہرا نظام ہے۔

جماعتی نظامِ انتخاب کی جناب وصی مظہر بڑی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ جماعتی تنظیم کے استحکام کا باعث ہوا۔ جسے استحکام کہا گیا ہے، وہ جمود ہے۔ نظام جماعت کو، جمود اپنی ایک انتہا کے بعد دوسری انتہا تک لے گیا، مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہاں متبادل قیادت کا مکمل فقدان رہا۔ ایگزاسٹ ہونے سے پہلے کسی صاحب منصب نے منصب نہ چھوڑا۔ برابر کی حیثیت رکھنے والے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کے امکانات نہ پاکر جماعت سے الگ ہو گئے۔

اس جامد نظام کے کئی منفی نتائج نکلے۔ اگر جماعت میں ہر سطح پر باقاعدہ انتخابی نظام اختیار کیاجاتا تو ذمہ داران کا احتساب زیادہ موثر ہوتا، کارکنوں کی سیاسی تربیت ہوتی، جماعت اپنی راہ و منزل سے کبھی نہ ہٹ سکتی۔ جماعت ان فوائد سے اپنے نظام کی وجہ سے محروم رہی۔ انتخاب کے مرحلے میں ارباب مناصب کی کار کردگی زیر بحث آتی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دیگر امید وار انتخاب جیتنے کی صورت میں کارکردگی میں بہتری کی صورتیں تجویز کرتے۔ ارکان ان پر غور کرتی۔ سوچ اور فکر کو راہ ملتی۔ عمل میں سرگرمی پیدا ہوتی۔ تبدیلی کی صورت میں نئے آنے والے ذہنی طور پر تیار ہو کر مناصب سنبھالتے۔ اگر تبدیلی نہ آتی تو بھی پہلے سے کام کرنے والے اپنی کار کردگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتے۔ محدود مدت تک منصب پر رہنے کے نتیجہ میں اصحاب منصب اپنی صلاحیتوں کو زیادہ اچھے اور فعال تر انداز میں استعمال کرتے۔

جماعتی نظام انتخابی ہوتا تو امید وار بننے، رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کرنے کی عملی تربیت ملتی۔ وہ کارکن جسے جماعت کے اندر امیدوار بننے کی اجازت نہ ہو، انتخابی مہم دور کی بات، ذمہ داران کی کارکردگی پر اظہار کرنے کی اجازت نہ ہو، ایسے کارکنوں سے کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سیاسی اور انتخابی میدان میں موثر ہو سکیں گے۔وہ امیدوار بننے اور ووٹ مانگنے سے شرمائیں گے۔ ان کو لوگوں کی ذہنی اور مزاجی سطح تک اترنا اور سمجھناکتنا مشکل ہو گا۔

جماعت کے اپنی راہ و منزل سے ہٹنے کا حادثہ کبھی پیش نہ آتا۔ وجہ یہ ہے کہ انتخابی نظام احتساب کے عمل کو زیادہ طاقت ور بنا دیتا۔ یہ امر ماننا ہی پڑے گاکہ جماعت پٹڑی سے اتری۔ نعیم صدیقی اور میاں طفیل محمد صاحب نے واضح طور پر قاضی صاحب کے دورِ امارت میں یہ قرار دیا۔ زندہ اور توانا تنظیم کبھی مقاصد سے ہٹ جانے کا راستہ نہیں دے سکتی۔ جامد نظام کے نتیجہ میں امرا ئے جماعت کے قویٰ ہی مضمحل نہ ہوئے بلکہ پورا جماعتی نظام مضمحل ہو گیا۔ چنانچہ لوگ جماعت کو پٹری سے اتار کر دوسری لائن پر لے گئے مگر کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ تھا۔

جماعتی نظام میں دوسری خرابی یہ ہوئی کہ مالی لحاظ سے جماعت کی امانت و دیانت اور حسابات کے اپڈیٹ ہونے کی ساکھ مکمل طور پر بر باد ہوگئی۔ نتیجہ کے طور پر جماعت کی قیادت کاروباری لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی اور جماعت میں مشنری رجحانات کمزور ہو گئے اور کاروباری داعیے توانا ہوتے گئے۔ منصورہ شریف اب مشن سے زیادہ بین الاقوامی سطح کا ٹریڈ سنٹر بن گیا۔ یہاں ارباب جماعت کے حوالے سے ملک اور دیگر ممالک میں اقتصادی مواقع کا بنیادی نیٹ ورک قائم ہو گیا۔ اقتصادی دوڑ میں ہر کوئی آگے جانے کے لیے پر تول رہا ہے۔ تحریک کدھر جا رہی ہے، پٹڑی سے اتر رہی ہے،اس کا سفر رک گیا ، اس کی کسی کو کوئی پروا نہ رہی۔ اس صورت حال کی جناب وصی مظہر نے دبی زبان میں نشان دہی کی ہے۔ انہوں نے کتاب کے صفحہ نمبر ۱۹۲۔۱۹۳۔۱۹۴ پر بیت المال اور خفیہ ذرائع آمدنی کے تحت لکھا ہے:

’’جماعت اسلامی اس دور میں عام اعانت یا جماعت کے باہر کے لوگوں سے چندہ مانگنے کو نا پسند کرتی تھی۔ وہ صرف ایسے لوگوں سے مالی اعانت قبول کرتی تھی جن کے ذرائع آمدن مشتنبہ نہ ہوں اور جماعت کے نصب العین اور مقاصد سے بھی اتفاق رکھتے ہوں، لیکن قیام پاکستان کے بعد جب جماعت اسلامی کو جلد از جلد سیاسی خلا پر کرنے کے لیے، وسیع رابطہ عوام کے لیے بڑے پیمانے پر چندہ وصول کرنا شروع کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے چار بڑے نقصانات ہوئے:
حلال ذرائع سے آنے والی آمدنی کی برکت ختم ہو گئی۔ جماعت کے ارکان اور رہنما بیت المال کے خرچ میں کفایت شعار اور محتاط نہ رہے۔ بے ایمانی اب بھی خدا کے فضل سے در نہ آئی تھی، مگر تھرڈ کلاس میں سفر کے بجائے اعلیٰ درجوں میں یا ہوائی جہاز سے سفر ہونے لگا، اجتماعات میں کھانے اور رہائش کا معیار بلند ہوتا گیا وغیرہ وغیرہ۔
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ان سرمایہ داروں اور زمینداروں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو گیا جن سے اعانت لی جاتی تھی۔ چنانچہ ان کے ناجائز ذرائع آمدنی کے سلسلہ میں بھی مداہنت سے کام لیا جانے لگا اور جماعت کی پالیسیوں پر ان لوگوں کے اثر انداز ہونے کا دروازہ کھل گیا۔
خفیہ ذرائع: ان ذرائع سے جماعت کے امیر یا اہم افراد کو معقول آمدنی ہونے لگی، لیکن عام ارکان جماعت کو یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ یہ آمدنی کہاں سے آرہی ہے، کتنی آرہی ہے اور کہاں خرچ ہو رہی ہے۔ اس آمدنی میں مولانا کی کتابوں کے ترجموں کی رائلٹی اور عرب حکمرانوں کی جانب سے ان کی وسیع پیمانے پر مفت تقسیم کے لیے خرید اور عرب شیوخ کی بھاری اعانتیں بھی شامل ہو گئیں۔ اسلامی فرنٹ کی پروپیگنڈا مہم پر اٹھنے والے اخراجات اور آمدنی کے ذرائع کے بارے میں عام ارکان تو درکنار، ارکان شوریٰ کو بھی ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہوگا۔ 
میں اس پورے معاملے میں کسی کو بد دیانت نہیں ٹھہرانا چاہتا، لیکن اس طرح بد دیانتی نہ سہی، بد گمانی کے دروازے کھلنے لگے اور ایمانداری کو زیادہ آزمائش میں ڈالنے کا نتیجہ اکثر خطرناک نکلتا ہے۔
پھر یہ بھی ہوا کہ جماعت کے بااثر لوگوں نے اپنی اولاد اور اہل خاندان کو عرب ممالک سے ملنے والے تعلیمی وظائف پر بھیج کر ان کی تعلیم اور روزگار کا اہتمام بھی کر ڈالااور عام ارکان کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی، حالانکہ اس قسم کے وظائف سے استفادے کے لیے جماعت کے اندر جوانوں کا عام مقابلہ کرانا چاہیے تھا۔ 
میں اپنی ان سطور سے نہ کسی پر الزام لگانا چاہتا ہوں نہ کسی کو مطعون کرنا چاہتا ہوں۔ بس دل درد مند کے ساتھ چند گزارشات پیش کر دی گئی ہیں۔‘‘

یہاں جناب سید مولانا وصی مظہر ندوی سب کچھ کہنے کے بعد بھی مداہنت کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ در اصل جماعت کے نظام تربیت اور سخت ڈسپلن سے ترتیب پانے والا مزاج، اظہار میں پوری طرح آزادنہیں ہو سکتا ۔ جامد نظام سے سخت بر گشتہ شخص بھی حسنِ ظن کی اس بیماری سے جان نہ چھڑا سکا جو اس نظام کے اندر باقاعدہ شرعی حوالوں سے پالی گئی ہے۔ یہاں ہم سوال اٹھائیں گے کہ مولانا وصی مظہر صاحب نے جن حقائق کو سپاٹ طریقے سے پیش کر دیا ہے، کیا اس کے بعد ان پر حسن ظن کے ردے چڑھانا لازم تھا؟ کیا جماعت سے علیحدگی کے بعد بھی وہ اس مداہنت کے پابند تھے؟ یہ حال تو جناب ندوی صاحب جیسے صاحب نظر کا ہے اور جن کی بینائی ہی اس جامد نظام نے چھین لی ہو، وہ کیا کرسکتے ہیں؟

انتخابی شکست کے اسباب کی نشاندہی میں بھی جناب ندوی صاحب نے کافی تفصیلی بحث کی ہے، مگر لگتا ہے کہ اس میں بھی وہ جماعتی ماحول سے آزاد ہو کر صورت حال پر غور نہیں کر سکے۔ انہوں نے ان اسباب کے ذکر میں عجلت پسندی کو پہلا سبب قرار دیا۔ دوسرا سبب انہوں نے خود بیان کرتے ہوئے آزادانہ مشاورت کے فقدان کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مشاورت کے دوران میں رائے بعض بزرگوں کی عقیدت میں بلا سوچے سمجھے دے دی جاتی ہے۔

انہوں نے ۱۹۵۳ء کے انتخابات کی جائزہ رپورٹ اور فروری ۱۹۷۲ء کی مرکزی مجلس شوریٰ کی قرار داد کے حوالے سے تفصیلات مہیا کی ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مندرجات کے بارے میں تو جناب ندوی صاحب نے تفصیل سے گریز کیا ہے۔ یہ گریز ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ لگتا ہے کہ جماعت سے غیر مطمئن ہو کر باہر آکر بھی ان کے پاؤں میں جامد نظام کی پہنائی ہوئی بیڑیاں اپنا کام دکھاتی رہیں۔ در اصل اس نظام نے جو ذہن مرتب کیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں۔ اس پہلو سے ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ جنابِ ندوی اس بنیادی حقیقت تک کیوں نہیں پہنچ سکے کہ جماعت کی جملہ سرگرمیوں کا محور استحصالی دوڑ میں شرکت کرکے اپنی بساط کی حد تک حصہ رسدی وصول کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ استحصال سے لوگوں کو چھٹکارا دلانے کا جماعت کے پاس کوئی لائحہ عمل ہی نہیں۔ بعض قومی اور عقیدے کے روایتی مسائل کے علاوہ لوگوں کی حقیقی پریشانیوں میں کوئی کردار ادا کیے بغیر آپ سیاسی میدان میں کس طرح پیش رفت کر سکتے ہیں۔ ہم نے تو وہ بد قسمت مناظر بھی دیکھے ہیں کہ لوگ آٹے اور چینی کے لیے، روزہ رکھ کر قطاروں میں کھڑے جانیں دے رہے تھے اور جماعت کے ذمہ داران پورے ملک میں بڑے بڑے ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں افطار پارٹیاں منعقد کر رہے تھے۔ شاید ایسی ہی صورت کے بیان کے لیے جناب خرم مراد نے یہ لکھا ہے کہ ہماری دنیا لوگوں سے الگ ہے۔ ہم اپنی دنیا میں مست ہیں اور لوگ اپنی بے بسیوں کا شکار ہیں۔

جماعت نے لوگوں کو درپیش مسائل میں کبھی کوئی ترجیحات مرتب کی ہیں اور نہ ہی ان پر عملی جد و جہد کا سنجیدہ پروگرام بنایا ہے۔ جب بھی یہ بات کہی جائے تو جماعت کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ اس طرح کی ترجیحات تو بر سر اقتدار آنے والی جماعتوں نے بھی مرتب نہیں کیں۔ مگر جماعتی حلقے یہ نہیں سوچتے کہ غالب جماعتوں کی کامیابی کے ذرائع جماعت سے بہت مختلف ہیں۔ جماعت کو یہ ذرائع تو حاصل ہی نہیں ہوسکتے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نذیراحمد شہید کی مثال ایک استثنا ہے۔ انہوں نے مقامی سطح پر سول انتظامیہ پر زبردست گرفت قائم کر کے مظلوم عوام کو جو حوصلہ اور تحفظ دیا، وہ اپنے برگ و بار دے کر رہا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابی معرکے میں، پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی طرح پھیل گئی۔ ضلع ڈیرہ غازی خان میں ڈاکٹر نذیر کا کمال تھا کہ پیپلز پارٹی پورے ضلع میں ناکام رہی۔ وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست بھی حاصل نہ کر سکی۔ قومی اسمبلی کا رکن بننے کے بعد، ڈاکٹر نذیر شہید نے اپنے اندازِ جد و جہد کو پورے ملک میں پھیلانے کے لیے عوام کی سطح پر آکر کام شروع گیا تو جماعت کی قیادت پریشان ہو گئی۔ ڈاکٹر نذیر احمد کو جماعت نے پابند کرنا چاہا مگر ایسا عملاً ممکن نہ تھا۔ ’’وہ جماعت کو ایک ایسی راہ پر لے کر چل پڑے جس پر جماعت چلنا نہیں چاہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جلد سنبھال لیا وگرنہ جماعت کسی بڑی آزمائش میں مبتلا ہو جاتی۔‘‘ (یہ امیر جماعت اسلامی ملتان شیخ عبدالمالک کی گفتگو کے الفاظ ہیں)۔ ڈاکٹر نذیر شہید کر دیے گئے۔ کتاب زیر تبصرہ میں مولانا وصی مظہر نے اس پہلو کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ جماعت کی انتخابی شکست کے جائزے میں ڈاکٹر نذیر کی جد و جہد کا ذکرنہ آئے عجیب و غریب بات ہے۔ جماعت تو شکست کے اسباب معلوم کرنا چاہتی ہے اور نہ ان کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جناب وصی مظہر کی موجودہ کتاب بھی ڈاکٹر صاحب کے ذکر سے خالی ہے۔ در اصل جناب ندوی انتخابی نتائج سے مایوس ہو کر دیگر ذرائع کی جانب مائل ہو گئے تھے۔ اس بارے میں انہوں نے مولانا مودودی کے بعض تائیدی حوالے دیے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد جب لوگوں نے لکھ لکھ کر مرکز میں انبار لگا دیے تو جماعت نے ان تحریروں کے جائزے کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔ کمیٹی نے فروری ۱۹۷۲ء کو رپورٹ دی جس پر ایک قرار داد مرتب کر کے مرکزی مجلس شوریٰ میں پیش ہوئی۔ جناب ندوی کی روایت کے مطابق شوریٰ میں قرار داد مولانا مودودی نے خود پیش کی۔ اس موقع پر مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے جو تقریر کی، اس کی روایت جناب ندوی کے الفاظ میں اس طرح ہے، مگر یہ واضح رہے کہ جماعت نے جماعتی حلقے مولانا مودودی کے انتخاب کے علاوہ کسی دیگر طریقہ کار کی جانب مائل ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ اس بارے میں جناب ندوی کے حوالوں کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کرنا تو اتنا آسان نہیں مگر ان کے حوالے بہر حال اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک مولانا مودودی کے مرکزی مجلس شوریٰ سے خطاب مورخہ ۲۸ نومبر ۱۹۷۵ء کا حوالہ دیا ہے۔ صریر خامہ کے صفحہ نمبر ۱۶۹ پر ایک خط پر ان الفاظ میں درج ہے:

’’تباہی کا اصل سبب بالغ رائے دہی ہے۔ میں خود بالغ رائے دہی کے لیے دلائل دیتا رہا ہوں، لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ یہ سب غلط ہے۔ یہ ملت کی قسمت کو جاہلوں کے حوالے کرنا ہے۔ رائے دہی کے لیے تعلیم وغیرہ کی کوئی کم سے کم شرط عائد کی جاسکتی ہے۔ قوم کے دو طبقے ہیں: ایک تعلیم یافتہ طبقہ اور یہی طبقہ در اصل کرم فرما طبقہ ہے، یہی ملک کو چلاتا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ دو حصوں میں منقسم ہے: ایک دنیا دار اور ایک دین دار۔ ان میں سے دین دار طبقے کی اکثریت اگرچہ ہمارے ساتھ نہیں، لیکن سنجیدہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ دنیا دار طبقے کی بڑی اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور یہ طبقہ آہستہ آہستہ ہمارے بارے میں یکسو ہوتا جا رہا ہے۔ عوام الناس کی اکثریت کے باوجود ملک کی زمام کار اسی طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں عوام الناس کا یہ حال ہے کہ وہ بہت جلد دھوکہ میں آ جاتے ہیں اور دھوکہ دینے والے لوگ بہت موجود ہیں، لہٰذا انتخابات کے ذریعے کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں، کیونکہ اولاً بھٹو صاحب آمریت کے لیے ہر داؤ استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عام لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں، اس لیے وہ ایسے انتظامات کر رہے ہیں کہ اگر صد فیصد رائے بھی ان کے خلاف ہو تو بھی نتیجہ صد فیصد ان کے حق میں نکلے۔ (مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں مولانا مودودی کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی)۔ عوام صرف اپوزیشن کے لیے اسمبلی میں ارکان بھیجنے کی ضرورت نہیں سمجھتے، وہ صرف اس کو ووٹ دینے کی ہمت کریں گے جس کے متعلق ان کو یقین ہو کہ وہ بھٹو کو Replace کر سکتا ہے، لیکن بھٹو صاحب عوام کو یقین دلا دیں گے کہ تم مجھ کو ہٹا نہیں سکتے۔ اس حالت میں عوام صرف طاقتور کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کام کرنے کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ ہم ذہین طبقے کے اندر اپنا کام تیزی سے کرتے چلے جائیں تا آنکہ آمر پلپلا ہو جائے اور کرفرما طبقے میں سے کوئی نمبر ۲ اس کی جگہ لے سکے۔ اس وقت ذہین طبقے میں ہماری دعوت پوری طرح گھرکر چکی ہوگی۔‘‘

جناب ندوی کے مطابق قرار داد میں دیگر کئی امور کے علاوہ یہ کہا گیا کہ :

’’جماعت اسلامی سیاسی مہمات میں شرکت نہ کرے اور ہر مسئلہ پر صرف قرار دادوں کی صورت میں اپنی رائے ظاہر کرے۔‘‘ 
’’حکومت سے براہ راست تصادم سے بچتے ہوئے دعوتی اور تنظیمی کاموں پر توجہ دے۔‘‘ (صریر خامہ صفحہ نمبر ۱۷۲)

قرار داد بلا کسی بحث کے منظور ہوئی، لیکن اس کا جو حشر ہوا، اس کا ذکر کرتے ہوئے جناب ندوی لکھتے ہیں:

’’شوریٰ میں بحث نہ ہونے کی وجہ سے ارکان شوریٰ پر نئی پالیسی اور قرار داد کے مضمرات واضح نہ ہو سکے۔ بالخصوص محترم میاں طفیل محمد پر جو قائم مقام امیر کی حیثیت سے اس وقت تک کام کر رہے تھے اور کسی وجہ سے مجلس عاملہ کی بحثوں میں شریک نہ تھے، انہوں نے نہ پالیسی کو سمجھا نہ اس قرار داد کو، حتیٰ کہ دوسرے ہی دن کے اجلاس میں انہوں نے شوریٰ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ملک کا نیا دستور بن رہا ہے، اس لیے شوریٰ وہ کم از کم نکات طے کر دے جن کو ہم دستو رمیں شامل کرانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ جماعت ان نکات کے لیے مہم شروع کردے۔ چنانچہ مولانا مودودی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ہم نے کل یہی تو طے کیا ہے کہ ہم کسی قسم کی مہم نہ چلائیں گے۔ دستور ساز اسمبلی میں اسٹیئرنگ کمیٹی کے ذریعہ جو اسلامی دفعات شامل کی جاسکتی ہوں، ان کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے، سر دست کسی عوامی مہم کی ضرورت نہیں۔ لیکن جماعت اسلامی پر قابو یافتہ افراد کو یہ قرارداد ایک آنکھ نہ بھائی، چنانچہ انہوں نے اولاً تو اس قرارداد کو تین ماہ تک چھپنے ہی نہ دیا اور اس عرصے میں بتدریج حکومت سے محاذ آرائی شروع کر دی۔‘‘ (صریر خامہ صفحہ ۱۷۲)

بہر صورت جناب ندوی صاحب کی صریر خامہ میں شامل تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قرار داد پر عمل درآمد کا مسئلہ ان کو جماعت سے باہر لے گیا۔ قرارداد کا منشا، سیاسی جد و جہد کو low profile کی سطح پر لے جانا تھا مگر جماعت کی قیادت اس کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ مولانا مودودی اور شوریٰ کو بائی پاس کرنے پر شعوری یا غیر شعوری طور پر تلی ہوئی تھی۔ جناب سید وصی مظہر اس صورت حال میں احتجاج کرتے رہے۔ انہوں نے مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۷۲ء، ۹ ؍جون ۱۹۷۲ء کو میاں طفیل محمد صاحب کے نام خطوط لکھے۔ ان خطوط کے بعض حصے صریر خامہ میں شامل ہیں۔ ۹ جون ۱۹۷۲ء کے خط میں مولانا مودودی کی شوریٰ سے خطاب کے کچھ مزید جملے درج کیے ہیں:

’’موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں پیش پیش رہنے کا نتیجہ وہی ہو گا جو ایوب خان کے خلاف جد و جہد میں پیش پیش رہنے کا نکل چکاہے یعنی دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ مذکورہ بالا حالت میں صحیح طریقہ وہی تھا جو مرکزی مجلس شوریٰ نے طے کیا تھا کہ سیاسی حریف کی حیثیت کو حتی الوسع ہلکا کیا جائے اور داعیانہ رنگ اختیار کر کے ملک کے باثر طبقات، طلبہ، اساتذہ، وکلا، مزدور، کسان، کارخانے دار، زمیندار وغیرہ میں منظم دعوتی کام کے ذریعہ یا کسی دوسرے مناسب حال وسیلے سے اسلامی نظام برپا کیا جائے۔‘‘

جناب وصی مظہر صاحب کے احتجاج کو کسی نے نوٹ نہ کیایہاں تک کہ خطوط کے جواب تک نہ دیے گئے۔ انہوں نے ارکان کے اجتماع میں بات کرنا چاہی تو رکن شوریٰ ہونے کی وجہ سے اجازت نہ دی گئی۔ انہوں نے شوریٰ سے استعفا دے دیا تو اسے قبول نہ کیا گیا اور شوری ٰمیں موقع ملا تو کہا گیا کہ اجتماع ارکان میں یہی طے ہوا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود عملی طور پر پرنالہ وہیں رہا۔ میاں (طفیل) صاحب سے ملاقات کی درخواست کی گئی مگر اس کا کوئی موقع نہ دیا گیا۔ اس کے بعد، جناب ندوی جماعت کے اندر رہنے کی کوئی صورت نہ دیکھتے ہوئے باہر کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔

بہر حال انتخابی شکست کے اسباب کے بارے میں یہ امر اپنی جگہ قطعی ہے کہ جماعت عوامی سطح تک کبھی پہنچی ہی نہیں۔ قومی سطح پر جماعت کچھ نہ کچھ امیج بنانے میں کامیاب ہوئی، مگر مقامی سطح پر تو میدان ہمیشہ کی طرح خالی رہا۔ حالانکہ تبدیلی کا موثر عمل تو مقامی سطح ہی سے شروع ہوتا ہے۔ در اصل جماعت ایشوز پر سیاست کا کوئی لائحہ عمل مرتب ہی نہیں کر سکی۔ جماعت دوسروں کی ترجیحات کا پیچھا کرتی رہی ہے۔ اس بارے میں جس سیاسی اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، جماعت کی قیادت میں اس کا ہمیشہ سے مکمل فقدان رہا ہے۔ جماعت کی پوری سیاسی جد و جہد کا بغور جائزہ لیا جائے تو واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے مقاصد کے لیے اتحادی سیاست میں شرکت جماعتی تشخص کی تباہی کا باعث ہوا۔ ان اعلیٰ مقاصد کے لیے اتحاد کیے بغیر بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے تعاون کی راہیں تلاش کرنا ممکن تھیں، مگر ہمارے لیے یہی بہت غنیمت تھا کہ جماعت کی قیادت کو دیگر جماعتیں ساتھ شریک کر لیں۔ یہ در اصل جماعت کی مضبوط تنظیم کا کم از کم معاوضہ تھا۔ اس کے لیے نفع و نقصان کی بیلینس شیٹ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پہلو کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو اس کی وجوہات موجود ہیں، مگر انتخابی اتحاد کی راہ پر چلنا سیاسی خو دکشی سے کسی طرح کم نہیں ۔

اس طویل بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ ’’صریرخامہ‘‘ میں جس قدر تحریریں جماعت پر نقد سے متعلق شامل کی گئی ہیں، وہ قابل توجہ ہیں۔ جناب سید وصی مظہر ندوی نے ان میں جو نتائج مرتب کیے ہیں، ان سے اتفاق و اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن ان کی پیش کردہ معلومات ان کے اپنے مشاہدات اور تجربات ہیں۔ یہ کافی مواد کی حامل ہیں۔ اس کی بنیاد پر تحقیق کرنے والوں کو کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس پر ۱۹۷۶ء تک کے حالات کے حوالے موجود ہیں۔ اس طرح کی ان کی دیگر تحریروں کو اگر شائع کر دیا جائے تو امید بندھتی ہے کہ یہ بڑی مفید ہوں گی۔ جماعت میں اوپر کی سطح کا کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں جس نے کھل کر اور براہ راست انداز میں کلام کیا ہو۔ بہر صورت اس کتاب کو مواد اور موضوع کے لحاظ سے اہمیت دی جانی چاہیے۔

آراء و افکار

(نومبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter