(جہاد کے موضوع پر الشریعہ کی اشاعت خاص (مارچ ۲۰۱۲ء) میں جناب ایمن الظواہری کی تصنیف ’’الصبح والقندیل‘‘ پر شائع ہونے والی، راقم الحروف کی تنقید کے جواب میں درج ذیل تحریر ہمیں ای میل کے ذریعے سے موصول ہوئی ہے جسے من وعن قارئین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ میں اس کے جواب میں کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ قارئین خصوصی اشاعت میں میری اصل تحریر اور زیر نظر تنقید کا خود موازنہ کر سکتے ہیں۔ مدیر)
الشریعہ کی اشاعت خاص (جہاد: کلاسیکی اور عصری تناظر میں) میں حافظ عمار ناصر کا مضمون پڑھنے کے بعد قلب و ذہن کی عجیب کیفیت ہے کہ خیر القرون کے ایک تابعیؒ اور شر قروں کی طرف محو سفر زمانے کی ایک کافرہ نے بیک وقت فکر و خیال کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اہل علم کے بقول پیغمبرانہ اسلوب بیان رکھنے والے مشہور تابعی بزرگ شیخ حسن بصریؒ نے ایک بار فرمایا: ’’ ما لی اریٰ رجالا و لا اریٰ عقولا‘‘ (الحسن البصری، ابن جوزی ،ص ۶۹) کیا معاملہ ہے کہ مجھے آدمی تو نظر آتے ہیں مگر عقلیں نایاب ہیں۔یاد رہے کہ شیخ ؒ یہ سب کچھ خیر القرون ہی میں فرما رہے ہیں اور وہ زمانہ عہد حاضر کے دانش گرد ’’علماء‘‘ سے ابھی محفوظ تھا۔ دوسری بات واشنگٹن پوسٹ کی خاتون صحافی ، اپلینا بائیٹ کی ہے جس نے کفار کی کڑی حفاظت میں رہنے والے خود ساختہ ’’شیخ الاسلام‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب ’’ دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کے چھپنے پر ایک تبصرہ کیا تھا جو پسپائی کو مکالمہ اور بے حمیتی کو برداشت کی دل موہ لینے والی اصطلاحات کا جامہ پہنانے والوں کی اوقات واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتی ہے: ’’ کیا وجہ ہے ہے کہ عالم اسلام سے اتنی زیادہ تعداد میں دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ آنے کے باوجود یہ ختم کیوں نہیں ہو رہی؟ وجہ یہی ہے کہ ابھی تک عالم اسلام میں سے ایسے لوگوں نے اس کے خلاف باقاعدہ فتویٰ نہیں دیا جو حکومتوں اور دنیا سے دور ہوں۔‘‘ یہی بات اس خاتون کے علاوہ کئی دوسرے مغربی’’ دانش ور‘‘ مختلف پیرایہ ہاے اظہار میں کر چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جس بات کو کافر سمجھ گیا ہے، وہ بات ہمارے ہاں کے عمار ناصر ایسے ان ’’اجل صاحبان علم و فضل‘‘ کو سمجھ نہیں آرہی۔
اس مضمون پر بقیہ بحث کرنے سے قبل اسی شمارے کے سو (۱۰۰) سے زائد صفحات پر پھیلے PIPS کے اس مذاکرے کے بارے میں تھوڑی سی بات ہو جائے جس کے تانے بانے امریکی این جی اوز کے واسطے سے ہوتے ہوئے کہیں اور جا ملتے ہیں۔ ابھی حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتنے کے لیے پاکستان میں میڈیا کو اپنے حق میں کرنے کی خاطر۶۲ ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ (روزنامہ جنگ، کالم نصرت مرزا) اس سے چند ماہ قبل کی وہ خبر بھی ذہن میں تازہ کیجیے جس کے مطابق طالبان کے خلاف مہم چلانے کے لیے بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کو ایک دفعہ کی ادائیگی میں ۳۶۰۰۰ ڈالرسے کچھ اوپرکے فنڈز دینے کا تذکرہ کیا تھا جس پر اس کونسل نے پہلے امریکہ پر ہتک عزت کا دعو یٰ دائر کرنے کی بڑ ہانکی اور بعد میں اپنے چند عہدے داروں کو اس حرکت پر ’’فارغ‘‘ کر کے ’’ گونگلووں سے مٹی جھاڑ دی‘‘اور خود کو کوثر و تسنیم میں دُھلے صدق و صفا کا پیکر قرار دے دیا۔ اسی طرح اس سے بھی چند ہفتے قبل کی وہ خبر بھی دُہرا لیجیے جس کے مطابق پچھلے سال مئی میں شیخ اسامہ بن لادن ؒ کی شہادت کے بعد امریکی سفارت خانے نے پاکستان میں ایک خصوصی سیل قائم کیا جو شیخ ؒ کی شہادت کے بعد القاعدہ کو ایک آخری دھچکہ لگانے کے لیے کام کرے گا۔ اس سیل میں ’’علماء‘‘ بھی معاونت کے لیے موجود ہوں گے اور یہ سیل سٹکر اور پمفلٹ سے لے کر فلم تک بنائے گا جو اسی طالبان مخالف مہم کا حصہ ہے۔
رازی اور کشاف کے نکات و معارف پردسترس اورعبور رکھنے کے زعم میں مبتلا صاحب مضمون بھول گئے کہ اقبال ؒ کیا کہہ گئے تھے:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
عالمانہ شان تو دور کی بات، موصوف کے طرز استدلال میں دیانت، فکر یااخلاق و مروت کی پرچھائی تک بھی نہیں ملتی۔ غامدی فکر کے اس پرچارک کی جہادی تفہیم و تشریح اُسی کاوش اور مہم کا تتمہ ہے جوجہاد مخالفت میں اس بر صغیر میں کوئی ڈیڑھ صدی قبل ۱۸۵۷ء کے جہاد کے بعد شروع کی گئی تھی۔ راقم صد کوشش کے باوجود مجبور ہے کہ اِس بازاری زبان کا جواب اِس سے ملتے جلتے محاورے میں ہی دے، کیوں کہ اصول ہے کہ ’’لوگوں سے ان کی عقلی سطح کے مطابق کلام کرنا چاہیے‘‘ اور ’’نزلوا الناس منازلہم‘‘ یعنی لوگو ں کو ان کے مقام کے مطابق عزت دو۔
عمار ناصر نے علمی اور تاریخی ہر دو سطح پر بد دیانتی سے کام لیا ہے۔ علمی حوالے سے اس طرح کہ شیخ ایمن الظواہری مدظلہ العالی کی کتاب میں جن دلائل کاتذکرہ کیا گیا ہے اور بحث کو جس منطقی انداز میں انھوں نے سمیٹا ہے، اس کو نہ تو درست انداز میں ذکر کیا ہے اور نہ ہی ان ابحاث کا ’’مزعومہ رد‘‘ اس گراں قدر تحریر کے شایاں کیا ہے۔ جناب کی یہ کاوش شاعری کے عنفوانِ شباب کی منزلیں طے کرتے اس نوجوان شاعر جیسی ہی ہے جس نے متنبی کی ہجو کہی تھی تا کہ مشہور ہو جائے۔ دلائل کے معاملے میں ہر تہی دست کی طرح، مرتب اور مسکت دلائل نہ ہونے کی وجہ سے، جناب نے اپنے مخاطب دیوبندی حلقے (جو موصوف کے غامدی فکر کے مناد اور نقیب ہونے، دلائل کے Academic Framework میں اکابرکے فہم دین سے کئی بڑے اور بنیادی انحرافات اور ’’نادر تحقیقات‘‘ کی وجہ سے ان سے سخت نالاں ہے) کو جذباتی انداز میں قائل کرنے کی کوشش کی ہے، مثلاً: ’’ظواہری کی اس تنقید کو درست مانا جائے تو اس کی زد میں براہ راست پاکستان کی وہ چوٹی کی مذہبی قیادت آتی ہے جو دستور سازی کے مختلف مراحل میں شریک رہی۔‘‘ (ص ۶۲۵)‘‘ حالانکہ کتاب کے مصنف نے ان حضرات کی نیتوں پر کوئی طعن نہیں کیا، بلکہ اس بات کابرملا اظہار کیا ہے کہ جدید دستوری ضابطوں کے مفاسد ان اکابرین امت کے دور میں ابھی واضح انداز میں ظاہر نہیں ہوئے تھے، اِس لیے ہم اُن حضرات کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے ۔
القاعدہ کے جمہوریت کو کفریہ قرار دینے کو جبر و تشدد کا رد عمل (ص ۶۱۵) قرار دینے کی بد دیانتی کرتے وقت عمار ناصر یہ بھول گئے کہ اس نظام کے ابتدائی سطح ہی کے مفاسد کو دیکھتے ہوئے اکابر کااس بارے میں کیا موقف رہا ہے۔ ہم زیادہ طوالت میں نہیں جاتے اور عہد حاضر کے نامور محقق علامہ خالد محمود صاحب کی رائے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جو خود بھی یورپ میں رہ چکے ہیں اورعمار ناصر اُن پر جبر و اکراہ کے رد عمل کی وجہ سے ایسی رائے دینے کا طعن بھی نہیں کر سکتے۔ ایک سوال کے جواب میں لندن سے چھپنے والی اپنی کتاب ’’عبقات‘‘ میں علامہ جمہوریت کے متعلق لکھتے ہیں۔’’اسے صحیح سمجھنا اور حق جاننا کفر ہے۔‘‘ (ص ۴۲۰)
جہاد اور مجاہدین سے بغض و عناد کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی کی شریعت کی تفہیم و تشریح کے متعلق موصوف انتہائی تمسخرانہ انداز اپناتے ہیں۔ مثلاً شیخ کی رائے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے پوری بصیرت کے لفظ کو تمسخرانہ انداز میں واوین میں لکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’ظواہری دستور پاکستان کے مطالعے کے بعد ’’پوری بصیرت‘‘ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔۔۔‘‘(۶۱۵) جبکہ پرویز مشرف، جس کے بارے میں اپنی نجی محفلو ں میں اکثر مفتیان کرام مرتد ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں، سے نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے انتہائی مثبت اسلوب اپناتے ہیں۔ مضمون نگار لکھتے ہیں: ’’تاہم جنرل مشرف چونکہ پوری دیانت داری اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے تھے‘‘ (ص، ۶۱۶)۔ اس سے چند سطور بعدعمار ناصر کی شرعی زبان پڑھیں اور سر دھنیں:
’’ ایک مخصوص صورت حال کے تناظر میں بڑی حد تک حالات کے جبر کے تحت اختیار کی جانے والی ناروا حکومتی پالیسیوں کو اس بات کے لیے مناسب جواز تسلیم نہیں کیا کہ پورے ریاستی نظام کی رٹ کو چیلنج کر دیا جائے۔‘‘ (ص، ۶۱۶)
دین میں مسلمات کی حیثیت رکھنے والے مسائل سے رو گردانی کی جائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولاد عرب مسلمان بھایؤں، بہنوں اوربیٹیوں کو کفار کے ہاتھوں بیچ دیا جائے، صرف ابتدائی ایک ہی سال میں ہمسایہ مسلمان بھائیوں پر ۵۸۰۰ ہزار فضائی حملوں کے لیے پاکستانی ہوائی اڈے فراہم کر دیے جائیں، روزانہ اسلحہ، گولہ بارود اور خوراک سے لدے ۴۰۰ کنٹینروں کو باحفاظت افغانستان پہنچایا جائے، امریکہ سے لڑنے کی خواہش رکھنے والے مجاہدین سے اپنے عقوبت خانوں کو بھر دیا جائے اور ان تمام جرائم کے ارتکاب پرعمار ناصر کے قلم سے فتویٰ نکلے تو صرف’’ ناروا حکومتی پالیسی‘‘ ، جیسے ٹی وی پر بیٹھے کسی نام نہاد ’’غیر جانبدار‘‘ مبصر نے تبصرہ کیا! اپنے پیسے لیے اور گھر کی راہ لی! باقی امت جانے اور دین کا محافظ رب خود جانے۔
یہ ہے بنی اسرائیل کے علماء سے پوری پوری مشابہت رکھنے والے عمار ناصر کا فہم دین اور اعلان حق کہ ’’ طاقت وروں کے اور دین اور کمزوروں کے لیے اور دین‘‘!
شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی نے سنت کے مطابق نیکی کے درجات پر قیاس کرتے ہوئے اسلامیانِ پاکستان سے کم از کم سطح پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگر مجاہدین کی مدد و نصرت نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے خلاف برسر جنگ امریکی آلہ کاروں کے ہاتھ مضبوط نہ کریں اور مجاہدین کی مخالفت سے اپنے آپ کو روکے رکھیں کیوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ ولسم نے امت کو نیکی کی درجہ بندی کی ایسی ہی تربیت دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ واجب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول، اگر اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرما:یا وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرے، پھر اپنی ذات کو بھی فائدہ دے اور صدقہ بھی کرے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گزارش کی ! اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: وہ ضرورت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اگر وہ یہ بھی نہ کر سکتا ہو؟ آپ نے فرمایا: تو وہ نیکی کا حکم دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ نے عرض کی: اگر اس سے یہ بھی نہ ہو سکے تو؟آپ نے فرمایا: وہ برائی سے باز رہے اور کسی کو تکلیف نہ دے، یہی اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری: ۱۴۴۵، مسلم : ۵۵؍۱۰۰۸) مگر عمار ناصر کے احمقانہ اور سفیہانہ طرز استنباط نے سنت سے اس حد درجہ تمسک سے بھی ’’تحفظ ذات کے جذبے‘‘ (ص ۶۱۶) کا نکتہ نکالا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
دستورِ پاکستان کے بارے میں احتمالات کی بات کرتے ہوئے بھی عجیب نکات بیان کیے گئے ہیں۔ ’’احتمال‘‘ اور ’’یقین‘‘ کا فرق عمار ناصر جیسے تیرہ فکر فقہیوں کو معلوم ہو گا۔ اگر کسی شخص میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں تو اس پر کفر میں توقف کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ محتمل تو متعد د معانی و وجوہ کا مورد ہو سکتا ہے، لیکن اس قول کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ننانوے احتمال ایمان کے ہوں اور ایک یقینی کفر ہو تووہ پھر بھی مومن رہے گایا ننانوے یقینی کفر کو صاحب فتویٰ پوری محنت صرف کر کے احتمال بنائے گا۔ سوال یہ کہ حکومت و افواج پاکستان کا امریکیوں کو اڈے دینااور انٹیلی جنس مدد فراہم کرنا یقین ہے یا احتمال؟ مسلماتوں کو گرفتار کر کے صلیبیوں کے ہاتھ فروخت کرنا یقینی ہے یا محض احتمال؟افواج پاکستان کا لال مسجد میں فاسفورس بموں سے خواتین کو بے دردی سے شہید کرنا، مسجد کو تباہ کرنا اور اس سب پر جارج بش کا تحسین کرنا، یہ محض احتمال ہی ہے؟ اسی طرح قیام پاکستان سے آج تک حکومتوں کے نظم معیشت کو سود پر چلانااور اس پر اصرار کرنا محض احتمال ہی ہے اور یہ ابھی تک یقین نہیں بنا؟ شرعی حدود کا پاکستانی آئین کے تحت غیر آئینی ہو کر ابھی تک نافذ نہ ہونا ابھی تک احتمال ہی ہے؟ مانعین زکوٰۃ جن پر اجماع صحابہؓ کے تحت کفر کا فتویٰ لگا اور صحابہؓ نے ا ن کے خلاف قتال کر کے ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا، ان میں تو ایمان کے احتمالات نہیں بلکہ یقینیات موجود تھے۔ کیا وہ شہادتین کے منکر تھے؟ کیا وہ صلوٰۃکے منکر تھے؟ کیا وہ زکوٰۃ کو ایک تاویل کے ساتھ دینے سے مانع نہیں تھے کہ: خذ من اموالھم کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھااور آپؓ خلیفۃ الرسول کی حیثیت سے نہیں لے سکتے تو اس کو صحابہؓ نے احتمالِ ایمان نہیں سمجھا! مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھی شہادتین کا اقرار کرتے تھے مسلمانوں کے سب شعار پر کاربند تھے تو کیا صحابہؓ نے اس سے احتمال ایمان اخذ کیا؟
جنابِ عمارناصر نے جس طرح جعل سازی کر کے تدریج کا اصول بنانے کی کوشش کی ہے، اگر با لفرض محا ل مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ اصول نسلی مسلمانوں پر کیسے منطبق ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفر سے اسلام کی طرف آنے والوں کو یہ رخصتِ وقتی دے رہے ہیں۔ یہ تو قیاس مع الفارق ہے ۔ تدریج کے اس منہج کے ضمن میں حضرت بشیر السدوسیؓ والی وہ حدیث یاد رکھیں جب قبول اسلام کے وقت انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’جہاد اور صدقے‘‘ کی رخصت چاہی کہ میں یہ نہیں کر سکتا تو آپ نے فرمایا کہ ’’ بشیر پھر جنت میں کیسے جاؤ گے‘‘ تو نبی کے اس جاں نثار نے فورا ان دونوں باتوں کو بھی قبول کر لیا۔ دوسرا یہ کہ تدریج کا بھی کوئی انتہائی وقت ہوتا ہے یا صدیوں تدریج جاری رہتی ہے؟ جس طرح طاہر القادری کے نزدیک ابھی تقریبا ۱۷۵۰ سال تک ظہور مہدی نہیں ہونا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج چونسٹھ سال تک تدریج زور و شور سے جاری ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان سود کو جاری رکھنے کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کے خلاف Stay لے چکی ہے، لیکن تدریج کا جن بوتل میں بند ہونے کو تیار نہیں۔ تیسرا یہ کہ کیا جناب عمار ناصر اس مذہب کی روشنی میں آج عمومی نسلی مسلمانوں کو شراب، زنا ، اور ترکِ صلوٰۃ و زکوٰۃ کی اجازت دیں گے کیوں کہ معاشرے کی مکمل تبدیلی کے باعث کئی’’دانش وروں‘‘ کا نوجوانوں کے لیے یہ مشورہ ہے؟
حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دستور کی اسلام کے مطابق شق اور اسلام کے خلاف شق مساوی درجہ رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کو کالعدم نہیں کر سکتیں۔ شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی نے بالکل بجا طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو کفر قرار دیا ہے۔ عمار ناصر کو شیخ کے اس استدلال کا کوئی جواب نہیں سوجھا! شاید شیطان نے وحی نہ کی ہو! اس لیے اس کے رد میں جو لکھا ہے، اس کے جواب میں یہی کہنا کافی ہے کہ ’’عقل نئیں تے موجاں ای موجاں‘‘۔ جناب خود اس تعبیر کے بارے میں لکھ بھی رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی یہ تعبیر موثر ہے (ص ۶۲۲) مگر بے ضمیری کا چسکا لگا ہو تو صریح نصوص کا انکا ر بھی آسان ہو جاتا ہے ا ور نقطہ نظر کے بالکل واضح خلا ف دلیل بھی سمجھ نہیں آتی۔
شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی کی کتاب میں اختصار کی وجہ سے ہو سکتا ہے، بعض مقامات پرکسی کوکوئی اشکال پیدا ہو، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ تنظیم القاعدہ کی دوسری کتب اور لٹریچر کو بھی سامنے رکھاجائے تا کہ مسئلے کا پورا حل سمجھ میں آئے۔ عمار ناصر نے بد دیانتی کا ارتکاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ چونکہ مقصود پاکستان کے شہریوں کے سامنے شریعت کی بالا دستی قائم کرنے کا کوئی متبادل لائحہ عمل پیش کرنا نہیں‘‘ (ص ۶۱۶) حالانکہ القاعدہ پورا اور مکمل شرعی حل پیش کرتی ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کے مواد کا مکمل مطالعہ کیا جائے۔ حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد دامت برکاتہم العالیہ کے عہد امارت میں جب ایک امریکی جاسوس کو سزائے موت سنائی گئی تو انگریز صحافی نے متعلقہ حکومتی اہلکار سے پوچھا کہ آپ نے جدید طرز کا کوئی مقدمہ نہیں چلایا تو انھوں نے جو جواب دیا، وہ مسائل فقہیہ کی جدیداصول اجتہاد پر تدوین نو کرنے اور تجدد پسند لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت پر زور دینے والے عمار ناصر کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے فرمایا: ’’ ہماری کتبِ فقہ کے اندر صدیوں پہلے مقدمات چلائے اور فیصلے سنائے جا چکے، ہمیں تو بس ایک ایسا خطہ درکار تھا جہاں ہم ان کو نافذ کر دیں‘‘۔
حرم کے نام پر کھانے والوں کے لیے یقیناًاسلامی مقدسات اہم نہیں ہیں اور نہ ہی دین۔ تاریخی حقائق کے سلسلے میں بد دیانتی کرتے ہوئے عمار ناصر افغانستان پر حملے کے محرکات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کو گول کر گئے (ص، ۶۲۵) کہ شیخ اسامہ ؒ اور امریکہ کے درمیان جنگ کب اور کیوں شروع ہوئی۔ یہ غلطی ہمارے ہاں کے کئی دوسرے ’’اسکالرز‘‘ اور بعض مخلص اہل علم بھی کرتے ہیں اور بیچارے صحافی سلیم شہزاد کو بھی ایک ٹی وی پروگرام میں ایسا ہی سچ بولنے پر موت کی سزا سنا دی گئی۔ اس نے بھی یہی کہا تھا کہ ’’ یہ جنگ پاکستانی فوج نے شروع کی ہے۔ القاعدہ نے تو مجبوراً فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں، لہٰذا اب جنگ بندی میں بھی پہل فوج ہی کو کرنی پڑے گی‘‘
اب ہم اشارتاً آتے ہیں شیخ اسامہ ؒ کے مجاہدین کے خلاف پاکستانی فوج کی اقدامی جنگی تاریخ کی طرف!
- جب صومالیہ کے مسلمانوں کی نصرت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شیخ اسامہؒ کے مجاہدین نے امریکی فوج کو گھیرے میں لیا اور خوب عسکری نقصان پہنچایا تو امریکی فوج کو باحفاظت فرار کروانے کی ساری خدمت امن فوج میں شامل پاکستانی دستوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر انجام دی، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
- ۱۹۹۶ میں شیخ اسامہ ؒ پر افغانستا ن میں امریکی کمانڈوز نے حملہ کیا۔ ہیلی کاپٹر کراچی کے ساحل پر کھڑے امریکی بحری بیڑے سے اڑے، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
- ۱۹۹۸ میں شیخ اسامہ ؒ کے مرکز پر افغانستان میں امریکی کروز میزائلوں سے حملہ ہوا، میزائل کراچی کے ساحل پر کھڑے امریکی بحری بیڑے سے داغے گئے (جہانگیر کرامت سے امریکی سٹاپ اوور لینے کا معاملہ اخبارات کی زینت بھی بنا)، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
- سقوط قندھار کے بعد آزاد قبائل کی پناہ میں آنے والے مجاہدین کو بچوں، بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں سمیت پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
- اس کے بعدمکمل چار برس تک ایجنسیاں اور پولیس کتوں کی طرح مجاہدین کا پاکستان کے طول و عرض میں پیچھا کرتی اور پکڑتی بیچتی رہی، شیخ ابو زبیدہ (اللہ ان کو گونٹا نامو سے رہائی نصیب فرمائے) کو گرفتا ر کرنے کا واقعہ تو اخبارات میں بھی آیا کہ جب ان کے سامنے امریکی سے پہلے پاکستانی اہلکارآیا تو انھوں نے یہ کہ کر اپنی بندوق پھینک دی کہ کاش میرے سامنے کوئی امریکی ہوتا۔ اب بھی مجاہدین نے صبر کر لیا اور پاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
- قبائل میں آپریشن اور پاکستانی فوج کی زمینی جاسوسی کی مددسے امریکی ڈرون حملے شروع ہوگئے ، مجاہدین نے صبر کر لیا اور پاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
- قبائلی علاقوں کے آپریشن کے خلاف،جامعہ حفصہؓ اور لال مسجدکے علماء نے اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف اور شرعی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے جب اس آپریشن کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا تو اس جرم پرپاکستانی فوج اور اس کے سربراہ پرویز مشرف نے عمار ناصر کے فہم دین کے مطابق پوری دیانت داری سے عبرت ناک سزا دینے کے لیے حملہ کر کے مسلمانو ں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ شعار دینی مسجدو مدرسہ کی حرمت کو بھی پامال کر دیا تو اب مجاہدین کا صبر جواب دے گیا ۔ اب مجاہدین نے اس کفریہ نظم مملکت کے خلاف’’شریعت یا شہادت‘‘ کے مقصد کے تحت جدوجہد کا آغاز کر دیا ۔
لیکن یہ سب کچھ تو اس کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہے جو دیدہ بینا رکھے! جو بنی اسرائیل کی بالشت بالشت پیروی سے باز رہے! جو اپنے اندرحق کو حق کہنے کی جرات رکھے! اور ایک اللہ کو جواب دہی کا خوف دل میں رکھتا ہو!
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ