مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

مغربی اثرات کے تحت اسلامی دنیا میں بیسویں صدی کے دوران جو فکری مواد لکھا گیا اس کا ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ’مغرب کی اجتماعی زندگی چند اعلی انسانی اخلاقی اقدار کا مظہر ہے، لہٰذا مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے‘۔ یہی دعویٰ ان الفاظ میں بھی دہرایا جاتا ہے کہ ’اجتماعی زندگی کی تشکیل کے معاملے میں مغرب ہم سے بہت بہتر اقدار کا حامل ہے، البتہ ذاتی معاملات (مثلاً بدکاری، شراب نوشی وغیرہ کے استعمال ) میں کچھ نا ہمواریاں پائی جاتی ہیں‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ دعویٰ کرنے والے حضرات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب کا اجتماعی نظم ’اسلامی تعلیمات کی روح ‘ کا عکاس ہے۔ اس دلیل کو درست ماننے کے نتائج یہ نکلتے ہیں کہ (۱) ہم مغرب کے نظم اجتماعی کی اسلامی توجیہ پیش کرکے اسے اپنانے کا اسلامی جواز پیش کرتے ہیں اور (۲) ساتھ ہی ساتھ مغربی انفرادیت کی برائیوں کو ثانوی قرار دے کر نئی آنے والی نسل کے لیے انہیں برداشت اور قبول کرنے کا راستہ کھولتے ہیں۔ 

درج بالا دعوے کی کمزوری یہ ہے کہ اس کی روشنی میں مغربی معاشرے کے ان تضادات کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے جو بڑی آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً عام طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مغرب احترام انسانیت کا بہت قائل ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغربی انسان نے ماں باپ کو اولڈ ہاوسز کے حوالے کیوں کردیا ہے۔ ظاہر ہے احترام انسانیت کا سب سے پہلا حق دار انسان کے ماں باپ ہیں تو مغرب میں یہ احترام کیوں نہیں پایا جاتا؟ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مغرب میں قانون کی پاسداری ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی مغربی انسان جونہی اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر قدم رکھ کر کمزور ملکوں کی سرحدوں میں داخل ہوتا ہے تو کیوں کر ہر طرح کی کرپشن، ناانصافی، قتل و غارت گری کو روا سمجھتا ہے؟ درحقیقت درج بالا تجزیہ پیش کرنے والے مفکرین مباحث اخلاقیات نیز morality اورethics کے فرق سے ناواقف ہیں اور اسی فکری خلجان کی بنا پر یہ لوگ ’سرمایہ دارانہ ڈسپلن‘ (capitalist disciplines) کو اخلاق کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا اجتماعی نظم اعلیٰ اخلاق کا نہیں بلکہ انتہائی رزیل انسانی احساسات پر مبنی عقلیت (حرص ، حسد، شہوت، غضب، طول امل، حب جاہ، دنیا و مال) اور اس پر قائم ہونے والی ادارتی صف بندی (مارکیٹ اور ریاست) کے قیام کے لیے مطلوب نظم کی پابندی کا غماز ہے جس میں اعلیٰ اخلاق (مثلاً للہیت، عشق رسول، شوق عبادت، خوف آخرت ،طہارت، تقوی، عفت ،حیا، ایثار، شوق شہادت، توکل، صبر، شکر، زہد، فقر، قناعت ، عزیمت وغیرہ) پنپنے کا کوئی امکان موجود نہیں رہتا۔ اس مضمون میں ہم مختصرا نہی حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ درج بالا مباحث کو سمجھنے کے لیے جن مقدمات کا پیش نظر ہونا ضروری ہے ہم انہیں ترتیب وار بیان کرتے ہیں، وما توفیقی الا باللہ 

نیکی کے بجائے لذت پرستی (Utility maximization / Happiness) 

مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی معاشرت و ریاست کا مقصد ایسی ادارتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں فرد کے لیے نیک زندگی (virtous life) گزارنا ممکن ہو سکے، یعنی اسے ثواب کمانے نیز گناہ سے بچنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں، تاکہ مرنے کے بعد وہ جنت کا حق دار بن سکے۔ دوسرے لفظوں میں مذہبی معاشرت و ریاست کی بنیاد یہ اصول ہوتا ہے کہ کس طرح ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جس میں زندگی گزارنے کے بعد ایک فرد کے لیے حق عبدیت ادا کرنا نیز جنت کا حصول آسان تر اور حصول جہنم مشکل سے مشکل تر بن جائے۔ پندرہویں صدی سے قبل یورپ میں جو عیسائی معاشرے قائم تھے ان کی بنیاد کے طور پر بھی یہی اصول تھا۔ البتہ عیسائیت کی داخلی کمزوریوں، یونانی فلسفے کے اثرات کے تحت ابھرنے والی تحاریک نشاۃ ثانیہ واصلاح مذہب ، سرمایہ دارانہ سیاسی انقلابات اور بالآخر تحریک تنویر و رومانویت (یعنی رد مذہب ) و سائنسی علمیت کے غلبے کے نتیجے میں یورپی معاشروں نے نیکی (عبدیت) کے بجائے حصول آزادی (happiness) کو مطمع نظر بنا لیا۔ اپنے گمراہ کن تصورات کو فروغ دینے کے لیے مغربی مفکرین نے یہ خوش کن عذر پیش کیا کہ نیکی ایک مبہم تصور ہے (کیونکہ خدا کیا چاہتا ہے اس میں اہل مذہب کا اختلاف ہے، اس لیے یہ کبھی معلوم نہیں کیا جا سکتا) لہٰذا اس قدر کی بنیاد پر قائم ہونے والے معاشرے اختلاف اور افتراق کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں انسانی عقل کا بدیہی تقاضا آزادی ( حصول لذت ) کو زندگی کا مقصد مان لینا ہے اور انسان آزاد کیسے ہوتا ہے اس کے لیے سائنسی طریقہ علم کو اپنانے کی ضرورت ہے نہ کہ خدا کی کتاب کی طرف رجوع کرنے کی۔ 

آزادی کا معنی سرمایے میں اضافہ 

مغربی علمیت کے مطابق انسان اصولاً آزاد ہے، ان معنی میں کہ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ قائم بالذات بن جائے، لیکن عملاً وہ آزاد نہیں کیونکہ بالفعل اس کی آزادی کو مادی اور سماجی دونوں طرح کی قوتیں محدود کرتی ہیں (مثلاً آج وہ نظام شمسی سے باہر نہیں جا سکتا، زلزلے یا طوفان کو روک نہیں سکتا، ماں باپ کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا، یورپ و امریکہ میں دو شادیاں نہیں کر سکتا، کیوبا میں زمین نہیں خرید سکتا، ایران یا سعودی عرب میں سرے عام بدکاری نہیں کر سکتا وغیرہ)۔ سرمایہ داری ان مادی اور سماجی پابندیوں کے خلاف جدوجہد کا نظام ہے جو ارادہ انسانی کی متصور اصولی آزادی پر لگی ہوئی ہیں یا لگائی گئی ہیں۔ انسان کی اس اصولی مطلق العنان ربوبیت کی عملی تشریح کا وسیلہ سرمایہ کاری ہے کیونکہ آزادی کا معنی ذرائع (سرمایے) میں لامحدود اضافہ کرنا ہے، سرمایہ وہ شے ہے جو فرد کے لیے جو وہ چاہنا چاہتا ہے چاہنا اور پانا ممکن بناتا ہے۔ آزادی کا معنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو عقل کا تقاضا ماننا ہے اور اس جدوجہد پر قدغن لگانے والی شے سرمایہ ہے۔ چنانچہ حصول آزادی بطور قدر کا سرمایے کی چاہت کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب نہ کبھی تھا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ سرمایہ کارانہ عملیات (processes) میں حصہ لینے پر ہر وہ شخص مجبور ہوتا ہے جو آزادی پر ایمان لاتا ہے (انہی معنی میں آزادی کا متوالا عبد الدرہم و دینار ہوتا ہے)۔ سرمایہ دارانہ نظم کا بنیادی وظیفہ ایک ایسی معاشرتی و ریاستی ترتیب وجود میں لانا ہے جو فرد کے لیے حصول سرمایے کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنا سکے۔ مغربی علمیت کا مفروضہ ہے کہ چونکہ ہر انسان فطری (جائز) طور پر حریص ہے لہٰذا دنیا کا ہر انسان سرمایے کی چاہت کو دیگر تمام چاہتوں پر فطری طور پر ترجیح دینا چاہتا ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کررہا یا کرنے پر راضی نہیں تو یقیناًکافر ، بدعقیدہ، جاہل و گمراہ ہے۔ ایسے کافر و گمراہ انسان کی یا تو (بذریعہ تعلیم وترغیب، ماحول وجبر) اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور ناقابل اصلاح ہونے کی صورت میں اس کی سزا پہلے معاشرتی اخراج (social marginalization) اور پھر موت ہے۔ 

سرمایے کا مطلب مارکیٹ 

البتہ مغربی مفکرین کے درمیان اس امر پر سخت اختلاف ہے کہ انسان آزادی کا مکلف کس نظم معاشرت کے ذریعے ہوپاتا ہے۔ اس سوال پر ان لوگوں کے اختلافات درحقیقت انتہائی شدید اور بدنما نوعیت کے ہیں اور ان کے سبب جتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیااور جتنے لوگوں کا معاشی و سماجی استحصال کیا گیا، اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دور حاضر میں اس سوال کا جو جواب مقبول اور غالب ہے اسے مارکیٹ اکانومی کہتے ہیں، جو ایک معنی میں اس سوال کا تاریخی طور پر پہلا نظریہ بھی تھا۔ جن مفکرین کے خیال میں فرد کو سب زیادہ آزاد زندگی گزارنے (یعنی سرمایہ جمع کرنے) کے مواقع مارکیٹ اکانومی فراہم کرتی ہے انہیں لبرل سرمایہ دار (liberal capitalists) کہا جاتا ہے۔ لبرل مفکرین کے خیال میں جب ہر شخص اپنی اپنی ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشرہ خود بخود بحیثیت مجموعی تمام افراد کے لیے ویلفیئر کا باعث بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے خیال میں ذاتی اغراض اور لذت کا حصول سوشل ویلفیئر یا مجموعی لذت کی بڑھوتری کا بنیادی سبب و محرک ہے، معاشرے کی مجموعی لذت کا انحصار اس امر پر نہیں کہ لوگ ’مجموعی ‘ لذت یا مجموعی سرمایے کے لیے شعوری جدوجہد کریں، بلکہ اس امر پر ہے کہ لوگ حصول سرمایے کی جدوجہد اپنی ذاتی اغراض کی تسکین کے لیے کریں۔ چنانچہ لبرل مفکرین معاشرے کو مارکیٹ بنانے کے خواہاں ہیں۔ دھیان رہے کہ مارکیٹ سے مراد محض اشیاء کی لین دین نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مراد وہ تمام تعلقات ہیں جن کا مقصد ذاتی اغراض کا حصول ہوتا ہے یا جو ذاتی اغراض کی تکمیل کی عقلیت کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ ان معنی میں ہمارے جدید اسکول، یونیورسٹیاں، ہسپتال وغیرہ سب مارکیٹ بن چکے ہیں۔ انہی معنی میں ہمارے خاندان، بازار، مسجد، مدرسے ،مذہبی و صوفی حلقے مارکیٹ نہیں ہوتے کہ تعلقات کے یہ تانے بانے اغراض نہیں بلکہ محبت، صلہ رحمی واخوت کی عقلیت کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ لبرلز کی شدید خواہش ہے کہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ان اداروں کو بھی مارکیٹ نظم کے اندر سمو لیا جائے (جس طرح یورپ وغیرہ میں یہ دخول تقریبا مکمل ہونے کو ہے)۔ لذت پرستی کے حصول کے لیے دیگر نظریات بھی پیش کیے گئے البتہ اس مضمون میں تمام نظریات کا احاطہ کرنا ہمارا مقصد نہیں، لہٰذا ہم دور حاضر کے غالب نظریے پر ہی اکتفا کریں گے۔ 

مارکیٹ نظم کی ضروریات و مضمرات 

لبرل نظریات اور انڈسٹریل انقلاب کے تحت جب روایتی عیسائی مغربی معاشرے مارکیٹ میں تبدیل ہونا شروع ہوئے تو ایک طرف روایت پسند عیسائی اقدار پر مبنی معاشرت و ریاست (system of obedience) تحلیل ہونے لگی اور دوسری طرف ایک نئی طرز کی صف بندی وجود میں آنے لگی۔ مارکیٹ پر مبنی یہ نئی قسم کی سرمایہ دارانہ صف بندی لوگوں سے ایک نئے قسم کے نظم کی پابندی کا تقاضا کرتی تھی۔ اس نئے قسم کی پابندی نظم کو ہم سرمایہ دارانہ ڈسپلن (capitalist public discipline) کہتے ہیں، اور اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مارکیٹ کے پھیلاؤکے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں پر ذیل میں کچھ روشنی ڈالیں۔ 

نفع خوری پر مبنی عمل پیداوار (For-profit business enterprise) کا فروغ:

سرمایہ دارانہ پیداواری نظم کے نتیجے میں عمل پیداوار میں ایک بنیادی نوعیت کی تبدیلی رونما ہوئی اور وہ یہ کہ روایتی مذہبی معاشروں کے برعکس اب عمل پیداوار حصول جنت ، صلہ رحمی و اخوت نہیں بلکہ نفع خوری کی بنیاد پر استوار ہونے لگا۔ غیر سرمایہ دارانہ معاشروں میں اکثریت کے روزگار کا انحصار نفع خوری پر چلنے والے کاروبار اور سرمایہ کاری پر نہیں ہوتا تھا۔ اس نظام پیداوار کی چند بنیادی خصوصیات ہوتی تھیں: 

الف) پیداواری عمل کا بنیادی یونٹ فرم (firm) نہیں بلکہ خاندان، برادری یا قبیلے ہوتے اور پیداواری عمل سے حاصل شدہ پیداوار مشترکہ طور پر صرف (consume) کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غیر سرمایہ دارانہ نظام پیداوار میں غربت کی شرح اور آمدنیوں کا تفاوت انتہائی کم ہوتا تھا۔ پیداواری عمل کا مقصد efficiency (زیادہ سے زیادہ اضافی پیداوار کا حصول) نہیں بلکہ خاندان کی کفالت اور صلہ رحمی و محبت کو برقرار رکھنا ہوتا تھا، اسی لیے تنخواہ دار لیبر (wage-labor) کا وجود نہ ہونے کے برابر ہوتا، کسی دوسرے کے لیے کام کرنے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا اور لوگ اپنے خاندانی پیشوں سے منسلک ہونے کو بالعموم پسند کرتے تھے 

ب) معاشروں پر حرص و حسد کے بجائے قناعت اور شکر گزاری کی عقلیت غالب رہتی اور لوگ زیادہ سے زیادہ صرف کرنے کو زندگی کا مقصد نہ گردانتے۔ دنیاوی زندگی کو ضروریات کی حد تک محدود رکھا جاتا۔ عمل پیداوار کا مقصد خاندان یا قبیلے کی ضروریات کی تکمیل ہوتا نہ کہ اضافی (surplus) پیداوار کے حصول کے ذریعے مزید سرمایے کے حصول کا چکر بڑھاتے چلے جانا۔ دوسرے لفظوں میں ان معاشروں میں ترقی (سرمایے میں مسلسل اضافہ) کوئی پسندیدہ قدر نہ سمجھی جاتی، اشیاء بنیادی طور پر بیچنے کے لیے نہیں بلکہ صرف کرنے کے لیے پیدا کی جاتی تھیں 

ج) مسجد، مدرسہ، خانقاہ اور بازار لوگوں کی روز مرہ اجتماعی معاشرت کی تشکیل کے بنیادی ادارے ہوتے تھے جن میں شمولیت کے ذریعے لوگ خود کو سوشلائز کرتے۔ 

سرمایہ دارانہ ریاستی اور انڈسٹریل انقلابات (جس کی بنیاد ہی اضافی پیداوار کا مسلسل اور لا متناہی حصول تھا) کے نتیجے میں پیداواری عمل خاندانی کفالت و صلہ رحمی کے بجائے نفع خوری (حرص و حسد) کی عقلیت کے تابع ہونے لگا اور یوں دولت سرمایے میں تبدیل ہونے کی ابتداء ہوئی۔ سرمایہ دولت کا استحصال اور اس کانا جائز استعمال ہے، جب دولت کا مقصد بذات خود اس میں مسلسل اضافہ بن جائے تو دولت سرمایہ بن جاتی ہے۔ انہی معنی میں کارپوریشن سرمایے کی عملی تجسیم ہے کہ اس کامقصد وجود ہی سرمایے میں اضافہ ہے۔ اب پیداواری عمل کا مطمع نظر مزید اضافی پیداوار کے حصول کے لیے اضافی پیداوار (production of surplus for the sake of more surplus production) کا حصول بن گیااور کارپوریشنز وجود میں آنے لگیں۔ ریاستی جبر ، بڑی صنعتوں کو فروغ دینے والی پالیسیوں اورنظام بینکاری کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ذرائع کھنچ کھنچ کر کارپوریشنز کے قبضے میں آنے لگے، خاندان کی سطح پر موجود چھوٹے کاروبار کا وجود سکڑنے لگا، تنخواہ دار لیبر عام ہونا شروع ہوئی، لوگ آہستہ آہستہ زیادہ تنخواہ کی لالچ اور چھوٹے کاروبار کے خاتمے کے باعث خاندانوں سے دور شہری علاقوں میں آکربسنے لگے جہاں ان کے آپسی تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی و بھائی چارہ نہیں بلکہ اغراض ہوتی تھی۔ یوں معاشروں کی مارکیٹ سازی (marketization) کا عمل شروع ہوا۔ 

نئے نظام جبر (system of obedience)کی تشکیل:

 انڈسٹریل پیداوار ی عمل کا تقاضا یہ تھا کہ مسلسل کام کیا جائے تاکہ لاگت کم سے کم اور نفع زیادہ سے زیادہ ہو۔ بھاری لاگت سے تیار کردہ مشینوں کو بغیر کام چھوڑا نہیں جا سکتا تھا، لہٰذا ’کام کے اوقات ‘ میں غیر ضروری گفتگو ، چہل پہل، دیر سے کام پر پہنچنا یا آرام وغیرہ کرنا سرمایہ دارانہ منطق (efficiency) کے خلاف تھا۔ لہٰذا جو لوگ دوران کام ان باتوں کا خیال نہ رکھتے انہیں مختلف قسم کی سزائیں دی جاتیں (مثلاً جسمانی، تنخواہ میں کٹوتی، زیادہ کام کی ذمہ داری، کام کے اوقات میں اضافہ )، کون کب آتا اور جاتا ہے اور کام کے دوران کون کیا کرتا ہے اس پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ دھیان رہے غیر سرمایہ دارانہ پیداواری عمل اس قسم کی نگرانی (survelience) کا متقاضی نہ ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انڈسٹریلائزیشن کے ابتدائی دور میں کمپنی مالکان کو لیبر تلاش کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ لوگ اس قسم کی ’پابندیوں اور نگرانی ‘ کے عادی نہ تھے اور نہ ہی اسے اچھا سمجھتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مل مالکان نے مزدوروں کی پیداواری صلاحیت ماپنے اور survelience کے قدرے پیچیدہ طریقے ایجاد کرنا شروع کر دیے (موجودہ دور میں Annual Performance Report اسی کی ترقی یافتہ شکل ہے)۔ 

نیا سرمایہ دارانہ پیداواری عمل محض مسلسل کام نہیں بلکہ ’وقت‘ کی پابندی کا بھی سختی سے متقاضی تھا۔ صبح فلاں وقت پر ڈیوٹی شروع ہوگی، اس لیے مخصوص وقت پر اٹھنا ہے، فلاں وقت پر اتنی دیر کھانے کا وقفہ ہوگا۔ یہی وہ دور ہے جب گھڑیاں رکھنے کا رواج عام ہونا شروع ہوا کیونکہ روایتی معاشروں میں کوئی ’گھڑی کے اوقات‘ (clock time) کے بارے میں حساس نہ ہوتا (اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پہلے لوگ نماز کی جماعت بھی آج کی طرح گھڑی دیکھ کر ادا نہیں کرتے تھے)۔ مزدور باقاعدہ فیکٹری مالکان کی گھڑیاں چرا لیتے تھے تاکہ وہ لوگوں کے آنے جانے کے اوقات کا اندازہ نہ رکھ سکیں۔ جوں جوں معاشروں کی مارکیٹ سازی کا عمل آگے بڑھا، نئی قسم کی معاشرتی صف بندی کو ممکن بنانے والے جدید اداروں (مثلاً اسکول، ہسپتال) کی صف بندی بھی اسی ’فیکٹری ڈسپلن‘ پر استوار کی گئی (روایتی معاشرے کا حکیم ’مخصوص اوقات ‘ کے جبر کا پابند نہ ہوتاتھا) اور ان اداروں میں خود کو سمونے کے لیے لوگوں نے خود کو اس نئے نظام جبر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ جیسے جیسے معاشروں کی مارکیٹ سازی وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے افراد اسی قدر خود کو سرمایہ دارانہ یا مارکیٹ ڈسپلن کا عادی بنانے پر مجبور ہوتے چلے جاتے ہیں بصورت دیگر سرمایہ دارانہ نظام انہیں سزا دیتا ہے (جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں جگہ بنانا ان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے)۔ مشہور فلسفی Focault کی کتب (مثلاً Birth of Clinic, Discipline and Punish, Order of Things) میں سرمایہ دارانہ ڈسپلن کے ارتقا کی دلچسپ مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 

’ڈسپلن کے پابند ‘ سرمایہ دارانہ پیداواری نظام نے ’آرام کے اوقات ‘ (Leisure) کا ایک مخصوص احساس اور تصور بھی پیدا کیا۔ کڑی نگرانی، بڑھتی ہوئی تخصیص کاری (specialization) اور دوران کام دیگر تما م کاموں سے قطع تعلق کا نتیجہ کام سے اکتاہٹ اور بیزاری کی صورت میں نکلا، اور لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ کام سے چھٹی کے بعد زندگی کے وہ لمحات شروع ہوتے ہیں جہاں ہم بغیر کسی کی نگرانی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ ورک ڈسپلن دوران کام ان کی یہ آزادی مکمل طور پر سلب کرلیتا ہے۔ اس ڈسپلن ماحول کی وجہ سے مزدور کو کام سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ کام نہ کرکے خوشی محسوس کرتا ہے (اسی چیز کو مارکس Alienization سے تعبیر کرتا ہے، یعنی اس کے خیال میں انسان کی فطرت ’پیداواری عمل کا حصہ بننا ہی ہے چونکہ اسی کے ذریعے وہ اپنی انسانیت کا اظہار کرتا ہے‘ مگر سرمایہ دارانہ عمل مزدور کو اپنی فطرت سے متنفر کردیتا ہے)۔ انہی معنی میں سرمایہ داری نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کروائی جہاں ایک فرد اپنے زندگی کے بہترین اوقات، دن کا وقت، سرمایے کی غلامی میں صرف کرنے پر مجبور ہوتا ہے (ذہن نشین رہے کہ سرمایہ داری کے ابتدائی دور میں کام کے اوقات چودہ سے سولہ گھنٹے تک ہوتے) اور سرمایہ داری اس غلامی کو آفاقی بنا دیتی ہے (کہ اس کے علاوہ روز گار کمانے کے دیگر مواقع معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں)۔ عام طور پر لیژر (leisure) کی شکلیں شام کے اوقات ،ہفتہ وار اور سالانہ چھٹیاں وغیرہ ہوتیں اور لیژر کے یہ اوقات بذات خود ریاستی قانون سازی کا حصہ بننے لگے۔ 

سرمایہ داری چونکہ ایک نظام زندگی ہے (ان معنی میں کہ یہ زندگی کے ہر شعبے پر غلبہ پانا چاہتی ہے) لہٰذا سرمایے میں اضافے کے لیے لیژر کی کمرشلائزیشن (commercialization of leisure) عمل میں لائی گئی، یعنی بجائے اس سے کہ لوگ لیژر کے اوقات اپنی مرضی سے استعمال کریں ایسے کاموں کو فروغ دیا جانے لگا جن کے ذریعے لیژر کے اوقات کو نفع خوری اور سرمایے میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ خاندانی زندگی سے دور اور کام سے اکتاہٹ کے مارے مزدوروں کی لیے ریلوے کمپنیوں نے اپنے سرمایے میں اضافے کی خاطر سستے پکنک ٹرپس اور سیر سپاٹے کے مواقع اور سہولیا ت فراہم کرنا شروع کیں (چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے دادا کی نسل کے لوگ عموماً پکنک میں کوئی رغبت نہیں رکھتے کیونکہ وہ اس ڈسپلن ورک کے مارے ہوئے نہ تھے)، اسی کے زیر اثر کھیل تماشوں اور گانے بجانے کی انڈسٹریز کو فروغ ملنا شروع ہوا (جو اب ٹریلین ڈالر انڈسٹریز کی صورت اختیار کر چکی ہیں)۔ ایسے روایتی کھیل اور ثقافتی تہوار جو سرمایے میں اضافے کے ڈسپلن کا حصہ نہ بن سکے آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں زندگی گزارنے والی ننانوے فیصد اکثریت کی صبح اور شام سرمایہ دارانہ تعلقات سے گہری ہوئی ہے، چنانچہ دن کے وقت یہ لوگ کسی کارپوریشن وغیرہ کے لیے کام کرتے ہیں اور شام کے اوقات ٹی وی (جو بذات خود ایک سرمایہ دارانہ اداراہ ہے) دیکھ کر گزارتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارنہ پیداواری عمل نے پوری طرح انہیں جکڑ رکھا ہے (مگر پھر بھی وہ اس دھوکے کا شکار ہیں کہ وہ جو کرنا چاہیں کرنے کے لیے ’آزاد ‘ ہیں!)۔ 

خاندان کی تباہی اور اس کے نتائج:

 سرمایہ دارانہ پیداواری عمل سے نہ صرف لوگوں کی ذاتی عادات و اطوار متاثر ہوئیں، بلکہ تمام انسانی تہذیبوں کا مشترکہ و قدیم ترین معاشرتی ادارہ یعنی خاندان بھی اس کے اثرات بد سے محفوظ نہ رہا۔ انڈسٹریلائزیشن اور سرمایہ دارانہ مسابقتی عمل اس ادارے کی تباہی کے متقاضی تھے۔ چنانچہ ایک طرف بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت (production capacity) زیادہ مزدوروں کی متقاضی تھی مگر دوسری طرف مسابقتی عمل قیمتوں میں کمی کا باعث بن رہا تھا۔ اس کا ایک آسان حل سستی لیبر (عورتوں اور بچوں) کو پیداواری عمل میں شامل کرلینا تھا۔ عورت کی مارکیٹ کاری (marketization) کے اس عمل کو سہل بنانے میں ذیل عناصر نے بنیادی کردار ادا کیا: 

  • کمپنیاں عورتوں کو مارکیٹ میں شمولیت پر اکسانے کے لیے آسان شرائط پر نوکریوں کی پیش کش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتیں 
  • عورت کی مارکیٹ سازی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بچوں کی پیدائش اور اسکی تربیت سے متعلقہ ذمہ داریاں تھیں، اس کے حل کے لیے ضبط تولید اور خاندانی منصوبہ بندی جیسے نظریات کو فروغ دیا گیا (اس عمل کے لیے Malthus کے گمراہ کن نظریات نے فکری جواز فراہم کیا ) تاکہ خواتین طویل عرصے تک مارکیٹ کا حصہ رہ سکیں اور اس مارکیٹ سازی کے نتیجے میں خواتین کی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تربیت کی جاسکے 
  • تنویری فکر کے زیر اثر مساوات مرد و زن جیسے خوشنما نعروں نیز گھریلو ذمہ داریوں کو حقیر سمجھنے کی روش کا فروغ۔ خواتین کی مارکیٹ کاری کے عمل کو تیز تر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ ان کی گھریلوذمہ داریوں کابوجھ کم ہوجائے ، اس ضرورت کو سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کو مزید بڑھوتری دینے کے لیے استعمال کیا گیا جس کے زیر اثر فاسٹ فوڈ، بے بی نیپی، خشک دودھ، واشنگ مشین اور دیگر انڈسٹریز کو فروغ ملا۔
  • بڑھتی ہوئی خواہشات و معیار زندگی کو پورا کرنا اکیلے مرد کے بس کی بات نہ رہی اور عورتوں کو بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑا (درحقیقت انسانی تاریخ میں عورت پر ہونے والا یہ سب سے بڑا ظلم تھا) ۔

رہائشی لاگت کم رکھنے کے لیے مل مالکان فلیٹ بنانے کو ترجیح دیتے جس کے نتیجے میں پانی، گندگی اور اس جیسے دیگر مسائل کے حل کے لیے انتظامات کرنا بھی ضروری ٹھرے۔ خواتین کی مارکیٹ کاری کے نتیجے میں فواحش و بدکاری عام ہوئے، طلاق کی شرح میں اضافہ ہوااور بچوں کی تربیت کا خاندانی نظام درہم برہم ہوگیا۔ اپنے آبائی خاندانوں سے دور شہروں میں رہنے کے نتیجے میں نئی نسلوں میں اجتماعی زندگی کی اخلاقی قدریں (محبت، حفظ مراتب، صلہ رحمی، پڑوس وغیرہ) منتقل نہ ہوسکیں، اور خاندان کا تصور ’میاں، بیوی اور بچے‘ تک محدود ہوگیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسی شہری زندگی وجود میں آئی جہاں لوگ ایک دوسرے کو اپنی ذاتی اغراض کے سواء اور کسی بنیاد پر نہیں پہچانتے تھے۔ 

عورتوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے بے بی ڈے کئیر سینٹرز بھی وجود میں آئے۔ ظاہر بات ہے روایتی معاشروں کو ایسے کسی ادارے کی ضرورت نہ تھی، اگر وہاں عورت کام کرتی تب بھی اسے بچے کے حوالے سے کوئی پریشانی نہ ہوتی کیونکہ اس کی ساتھی کوئی نہ کوئی عورت (مثلاً ساس، نند، بھاوج وغیرہ ) ضرور اس کے بچے کی کفالت کرلیتی۔ درحقیقت قبائلی یا خاندانی معاشروں میں ایک فرد خود کو قبائلی و خاندانی تعلقات کے تانے بانے میں محفوظ پاتا ہے، اور اسے اپنی حفاظت اور ضروریات کے لیے ریاستی اداروں کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً بیمار ہونے کی صورت میں اسے کسی ایسے بیرونی ادارے کے معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں مریض کے پہنچنے کے بعد ہسپتال کا عملہ خود کار طریقے کے تحت اس کاخیا ل رکھے کیونکہ اس کی تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خود کار نظام موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں اسے کسی تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا، بلکہ اس کی یہ ضرورت خاندانی نظام پورا کرتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے خاندانی نظام درہم برہم ہوا، انفرادیت پسندانہ طرز زندگی عام ہوئی، فرد اپنی حفاظت اور ضروریات کی کفالت کے لیے نئے تعلقات کا محتاج ہوگیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے فرد کے یہ مسئلے مارکیٹ (یعنی ذاتی اغراض) پر مبنی تعلقات کی بنیادوں پر استوار کیے، جس کے تحت خود کار معالجاتی نظام (caring system) کی طرز پر ہسپتال اور ریسکیو سینٹرز وجود میں آئے جہاں عزیز و اقارب کے بجائے پروفیشنل لوگ فرد کی حفاظت پر معمور ہوتے، اسی طرح مردے کی کارپوریٹائزیشن کے لیے مرنے کے بعد میت کو ٹھکانے لگانے والے ادارے وجود میں آئے۔ 

(جاری)

آراء و افکار

(جون ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter