امن ایک نہایت مطلوب چیز ہے اور تشدد ایک قابل نفرت چیز۔ساری دنیا امن سے محبت کرتی ہے اور تشدد کو برا جانتی ہے، لیکن اگر کوئی مفکر امن سے محبت اور تشدد سے نفرت کے نام پر اقوام اور ریاستوں کی دفاعی قوت یعنی افواج کوختم کرنے کی دعوت دے اور یہ کہے کہ جدید دور میں فوج بنانے کا مطلب ہے تشدد کا حامی ہونا، لہٰذا کسی ملک کو اپنے پاس فوج نہیں رکھنی چاہیے تو اقوام عالم کی اکثریت من حیث المجموع اس غیر معقول فلسفہ کو ردکردے گی۔ اسی طرح ’’امن اور شانتی‘‘ کے نام پر اس حد تک غلو کا شکار ہونا کہ کمزوری، پستی، ذلت، رسوائی، بے حمیتی، بے حسی اور غلامی کی ہر پست سے پست صورت کو ’’امن و صبر‘‘ کا خوبصورت لبادہ اوڑھا کر قبول کرانے میں فکر و نظر کی تمام صلاحیتوں کو نچوڑکررکھ دیا جائے تویہ ایک قابل افسوس بات تو ہوسکتی ہے، قابل فخر قطعاً نہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ مولانا وحید الدین خان صاحب کی تصنیف ’’دین و شریعت‘‘ کا ہے جس میں ’’جہاد کا تصور اسلام میں‘‘ کے عنوان کے تحت جہاد فی سبیل اﷲ کی اعلیٰ ترین صورت ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کو پرتشدد طریق کار کا عنوان دینے کے بعد عصر حاضر میں اسے متروک اور منسوخ قرار دینے کی دعوت دی گئی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جناب وحیدالدین خان صاحب کی مساعی کے نتیجے میں اردو زبان میں نہایت اعلیٰ اور بے حد موثردعوتی اور تربیتی لٹریچرنہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو ملا ہے۔ ہم محترم خان صاحب کی ان مثبت مساعی کو ملت اسلامیہ کا مشترکہ اثاثہ سمجھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ محترم خان صاحب اپنے بعض نتائج فکر میں نہایت غلو اور افراط و تفریط کا مظاہرہ فرماتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر مختلف حلقوں کی طرف سے استعمار کا ایجنٹ ہونے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ بہرطورکسی محترم شخصیت کو اسلام کی خدمت کے نتیجے میں یہ حق قطعاً نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اسلام کے محکمات، بدیہیات اور قطعی امور میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو متروک اور منسوخ قرار دینے کا اعلان کر دے۔
ہمیں جناب خان صاحب کی فکر پر مفتیانہ بحث نہیں کرنی کہ یہ کام راسخون فی العلم علماء اور خاشع مفتیان کرام کا ہے۔ دین کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہم نے خان صاحب کے صرف ان دلائل کا تجزیہ کرنا ہے جو انہوں نے ’’جہاد کا تصور اسلام میں‘‘ قتال فی سبیل اﷲ کو پر تشدد طریق کار کا عنوان دینے کے بعداسے ترک کرنے اور منسوخ قرار دینے کے لیے پیش کیے ہیں۔
خانصاحب کے دلائل کا مطالعہ کرنے سے پہلے قاری کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جب خان صاحب ’’پرامن طریق کار‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہے اور جب ’’پرتشدد طریق کار‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی اصل مراد کیا ہے؟ خان صاحب کی تحریروں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والا بآسانی یہ بات معلوم کرلیتا ہے کہ ’’پرامن جدوجہد‘‘ سے ان کی مراد دعوت و تبلیغ،تعلیم ،صبر اور اعراض کے ذریعے دین کی اشاعت کرنا ہے، جبکہ ’’پرتشدد جدوجہد‘‘ سے ان کی مراد اعلیٰ ترین ہدف ’قتال فی سبیل اﷲ‘ ہے۔ یعنی خان صاحب جہاں جہاں ’’پرتشدد طریق کار‘‘ یا ’’پرتشدد جدوجہد‘‘ کے لفظ استعمال کریں گے تو قاری کو سمجھ جانا چاہیے کہ اس اصطلاح کا خاص نشانہ جنگ یعنی قرآنی اصطلاح کے مطابق قتال فی سبیل اﷲ ہے۔
مولانا وحید الدین خاں تحریر فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ دو میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ رہتا ہے۔۔۔۔۔۔پُرامن جدوجہد اور پُر تشدد جدوجہد۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اور ہر معاملہ میں یہی کیا کہ پرتشدد طریق کار کو چھوڑکر پرامن طریق کار کو اختیار فرمایا۔ آپ کی پوری زندگی اسی اصول کا ایک کامیاب عملی نمونہ ہے۔ یہاں اس نوعیت کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔‘‘
اس کے بعد خان صاحب نے جو پانچ مثالیں دی ہیں، ان میں یہی پیغام دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جنگ‘‘ (تشدد) سے اعراض کیا اور پرامن طریق کار اختیار کر کے تمام کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا، اسلام میں امن کی حیثیت حکم عام کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف مجبورانہ استثناء کی۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے اور پھر یہ دیکھئے کہ موجودہ زمانہ میں صورت حال کیا ہے۔ اس معاملہ میں جدید دور قدیم دور سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ قدیم زمانہ میں پرتشدد طریق کار ایک عام رواج کی حیثیت رکھتا تھا اور امن کا طریقہ اختیار کرنا بے حد مشکل کام تھا، مگر اب صورت حال یکسر طور پر بدل گئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں پرتشدد طریقِ کار آخری حد تک غیرمطلوب اور غیر محمود بن چکا ہے۔اس کے مقابلہ میں پرامن طریق کار کو واحد پسندیدہ طریق کار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ زمانہ میں پرامن طریق کار کو ایسی فکری اور عملی تائیدات حاصل ہوگئی ہیں جنہوں نے پرامن طریق کار کو بذات خود ایک انتہائی طاقتور طریق کار کی حیثیت دے دی ہے۔‘‘(دین و شریعت صفحہ نمبر 256-257 )
’’جیسا کہ عرض کیاگیا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جب پرامن طریق کار عملاً دستیاب ہو تو اسلامی جدوجہد میں صرف اسی کو اختیار کیاجائے گااور پر تشدد جدوجہد کو ترک کردیاجائے گا۔اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پرامن طریقِ کار نہ صرف مستقل طور پر دستیاب ہے، بلکہ مختلف تائیدی عوامل (supporting factors) کی بنا پر وہ بہت زیادہ مؤثر حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ کہنا بلامبالغہ درست ہوگا کہ موجودہ زمانہ میں پرتشدد طریق کار مشکل ہونے کے ساتھ عملاً بالکل غیر مفید ہے۔ اس کے مقابلے میں پرامن طریق کار آسان ہونے کے ساتھ انتہائی مؤثر اور نتیجہ خیز ہے۔ اب پر امن طریق کار کی حیثیت دو امکانی انتخابات (possible options) میں سے صرف ایک انتخاب کی نہیں ہے، بلکہ وہی واحد ممکن اور نتیجہ خیز انتخاب ہے۔ ایسی حالت میںیہ کہنا بالکل درست ہوگاکہ اب پرتشدد طریق کار عملاً متروک قرار پاچکا ہے یعنی وہی چیز جس کو شرعی زبان میں منسوخ کہاجاتا ہے۔ اب اہل اسلام کے لیے عملی طور پر ایک ہی طریق کار کا انتخاب باقی رہ گیا ہے اور وہ بلاشبہ پرامن طریق کار ہے۔۔۔۔۔۔۔
یہ صحیح ہے کہ پچھلے زمانہ میں بعض اوقات پرتشدد طریق کار کو اختیار کیا گیا مگر اس کی حیثیت زمانی اسباب کی بنا پر صرف ایک مجبورانہ انتخاب کی تھی۔ اب جب کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں یہ مجبوری باقی نہیں رہی تو پرتشددطریق کار کو اختیارکرنا بھی غیر ضروری اور غیر مسنون قرار پاگیا۔ اب نئے حالات میں صرف پرامن طریق کار کا انتخاب کیا جائے گا۔‘‘(دین و شریعت، صفحہ نمبر257-258)
’’فقہ کا یہ ایک عام اصول ہے کہ : تتغیر الاحکام بتغیر الزمان وللمکان (کہ زمان و مکان بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں)۔۔۔۔۔۔اس فقہی اصول کا تعلق جس طرح دوسرے معاملات سے ہے، اسی طرح یقینی طور پر اس کا تعلق جنگ کے معاملہ سے بھی ہے۔ اس اصول کا بھی یہ تقاضا ہے کہ پرتشدد طریق کار کو اب عملاً متروک قرار دیاجائے اور صرف پر امن طریق کار کو شرعی جواز کا درجہ دیاجائے۔‘‘ (دین و شریعت، صفحہ نمبر258)
معروضی نتائج:
خان صاحب کے ان اقتباسات سے درج ذیل معروضی نتائج حاصل ہوتے ہیں:
1 ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پرتشدد طریق کار کی نسبت پرامن طریق کار کو ترجیح دی۔
2 ۔ (i ) اسلام میں امن کی حیثیت حکم عام کی ہے اور جنگ(تشدد) کی حیثیت صرف مجبورانہ استثناء کی۔
(ii) قدیم زمانہ میں پرتشدد طریق کار کا عام رواج تھاجبکہ موجودہ زمانہ میں پرامن طریق کار انتہائی طاقتور مروج طریق کار کی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔
3 ۔ (i) پچھلے زمانے میں بعض اوقات جو پرتشدد (قتال فی سبیل اﷲکا) طریق کار اختیار کیاگیا تو اس کی حیثیت زمانی اسباب کی بنا پر ایک مجبورانہ انتخاب کی تھی۔
(ii) زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب یہ مجبوری باقی نہیں رہی تو پر تشدد طریق کار (قتال فی سبیل اﷲ) غیر ضروری اور غیر مسنون قرار پاتا ہے۔
4 ۔ فقہی اصول کی روشنی میں بھی پرتشدد طریق کار (قتال فی سبیل اﷲ) کو اب متروک اور منسوخ قرار دے دینا چاہیے۔ لہٰذا صرف پرامن طریق کار ہی شریعت میں جائز قرارپائے گا۔
یہ وہ نتائج ہیں جو خان صاحب کے درج بالا اقتباسات سے حاصل ہوتے ہیں۔
کیا دعوت اورقتال کی حیثیت دو امکانی آپشنز کی ہے؟
خان صاحب کے یہ منطقی مباحث جو سب سے بڑا پیغام قاری کے ذہن میں اتار رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اسلامی دعوت کے طریق کار میں (i) دعوت وتبلیغ اور (ii) قتال فی سبیل اﷲ دو امکانی یا متبادل حل possible options ہیں جن میں سے اول الذکر کو مطلوب و مسنون اور اصل طریق کارکی حیثیت حاصل ہے تو ثانی الذکر طریق کار سابقہ دورِ تشدد کی وجہ سے محض ایک وقتی و زمانی مجبورانہ استثنائی حل تھا۔ اب زمانے اور حالات کی تبدیلی کی وجہ سے یہ دوسرا آپشن غیر مسنون، ناجائز، متروک اور منسوخ قرار پائے گا۔
خان صاحب کے الفاظ ’’زمانی اسباب کی بنا پر صرف ایک مجبورانہ انتخاب‘‘سے کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پرامن طور پریعنی دلائل وعقلی براہین سے اپنی دعوت منوانا ناممکن ہوجاتا تھا تو پھر کیا معاذاللہ لوگوں پر تشدد کرکے انہیں اپنی جان مال اور عزت کے نقصان کے خوف کے ذریعے اسلامی دعوت کو قبول کرانے کی کوشش کی جاتی تھی؟ یا پھر محض اسلام کی دعوت کو قبول کرانے کے لیے لوگوں پر جنگ مسلط کردی جاتی تھی؟
معلوم نہیں، یہ محترم خان صاحب ایسے نہایت ذہین اور نکتہ رس ماہردینیات کی انتہائی سادگی ہے یاغلط فہمی کہ وہ (1) دعوت و تبلیغ اور (2) جنگ یعنی قتال فی سبیل اﷲ کو اسلام پھیلانے کے دو امکانی حل کے طور پر متعارف کراتے ہوئے اول الذکر کو پرامن اور ثانی الذکر کو پرتشدد طریق کار کا نام دیتے ہیں۔ یعنی خان صاحب کے (اور ان کے ’’مہذب‘‘ مخاطبین کے) نزدیک دورِنبوی چونکہ قبائلی، متشددانہ، غیر متمدن اور معاذاﷲ نہایت جانگلی اور پتھروں کا دور تھا، لہٰذا اس دور میں اسلام پھیلانے کے دو ممکن طریق کار ہو سکتے تھے: (1 ) دعوت و تبلیغ اور (2 ) قتال و جنگ۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی المقدور پہلے طریق کو ترجیح دی اور محض مجبورانہ اوقات میں دوسرے طریقے کو اختیار کیا۔
اس فکر کی یہ وہ بنیادی غلطی ہے جس پرخان صاحب نے اپنے فلسفے کی تمام عمارت قائم کرنے کوشش فرمائی ہے۔
اس سب سے بڑے دعویٰ پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کو ایمان، تقویٰ، آخرت اور اعمال صالحہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور ان کے ذہنوں اور دلوں میں حق بات بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا اسی طرح قتال فی سبیل اﷲ کی اصل حیثیت بھی یہ ہے کہ جب دعوت کا آپشن ممکن نہ ہو توپھر ان لوگوں کو تلوار کے ذریعے ڈرا کر زبردستی مسلمان کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ کہ اپنے دورِتشدد کی وجہ سے بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی (معاذاللہ)مجبورانہ ایسا ہی کیا تھا؟
ہمارے خیال میں دعوت اور قتال فی سبیل اﷲ کی یہ تعبیرقرآن،سیرت اور سنت کی کثیر نصوص کے مطابق نہایت اجنبی اور نامانوس قرار پاتی ہے۔ قرآن و سنت پرمعمولی سا بھی غور و تدبر کرنے سے قتال فی سبیل اﷲ کی جو حیثیت متعین ہوتی ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ قتال فی سبیل اﷲ دعوت اسلامی کے دو آپشنز میں سے ایک آپشن ہے بلکہ :
(1) قتال فی سبیل اﷲ کی حیثیت اسلام کی امن و سلامتی کی دعوت کے محافظ ونگہبان کی ہے۔ یعنی اسلام جو کہ امن، سلامتی اور عدل و انصاف کا داعی اور علمبردار ہے، امن و سلامتی کی دعوت کے دشمنوں کے خلاف قتال فی سبیل اﷲ اس دعوت کی حفاظت کے قرآنی، ربانی اور نبوی طریق کار کا نام ہے۔
(2) قتال فی سبیل اﷲ کی مشروعیت مظلوموں، ضعیفوں اور کمزوروں کی مدد اور انہیں ظالموں اور کافروں کے ظلم و ستم اور انہیں جانی، مالی اور مذہبی تشدد سے بچانے کے لیے ہے۔
(3) قتال فی سبیل اﷲ لوگوں کو اسلام کی امن و سلامتی کے پیغام سے بزور اور بقوت روکنے والوں کا زور اور قوت توڑنے کا نام ہے۔
(4) قتال فی سبیل اﷲکمزورافراد اور قوموں کے ایمان، آبرو اور جان و مال پر حملہ آور جابر وظالم اور کافر قوتوں کا مسلح مقابلہ کرنے کا نام ہے۔
(5) قتال فی سبیل اﷲ دعوت و تبلیغ اور انذار و تذکیر (امن و سلامتی ) کے عالمی مرکز یعنی خلافت اسلامیہ کے دفاع اور حفاظت کے لیے ہر دم تیار رہنے کا نام ہے۔
(6) قتال یا اسلامی جنگ پُرتشدد طریق کار کا نام نہیں ہے بلکہ ’’تشدد‘‘ کو قوت سے ختم کرنے کا نام ہے۔
جب تک دنیا میں ظلم،فتنہ،فساد،استحصال اور کمزوروں کی جان مال ایمان اور آبرو کے لٹیرے اور دشمن باقی ہیں، قتال فی سبیل اﷲ کی ضرورت و افادیت اس وقت تک باقی ہے۔ دنیا میں شدید ظلم وطغیانی دیکھنے کے باوجود،دنیا میں سخت فتنہ انگیزیوں اور اباحیت و دجالیت اور فحاشی و عریانی کوتہذیب کے نام پر بزورقوت منوانے کی کوششوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود، کمزور افراد اور کمزورقوموں کے جان، مال، ایمان اور آبرو پر آئے روز شدید ترین حملوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود قتال کو پرتشدد طریق کار کا نام دے کر اس کی منسوخی کا وہی عالم دین اعلان کرسکتا ہے جواس معاملہ میں قرآن، سنت اور مسلم اجتماعی عقل کے مقابلے میں اپنی ذاتی عقل، میلان طبع اور مغرب کی خوشنما اصطلاحات کا اسیرہوچکا ہو اور جوظالموں اور کافروں کی طاقت و قوت اور تمدن و ٹیکنالوجی سے بے حد مرعوب و دہشت زدہ ہوچکا ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ’’امن‘‘ زیادہ رہا یا ’’تشدد‘‘؟
آئیے جناب خان صاحب کی اصطلاح میں جائزہ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں امن زیادہ رہا یا تشدد؟ خان صاحب ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کو ’’پرتشدد طریق کار ‘‘ کا نام دے کر اسے متروک اور منسوخ قرار دینے کی غرض سے لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حد تک جنگ سے گریز کیااور پرامن طریق کار کو ترجیح دی۔ اس ضمن میں انہوں نے سیرت سے پانچ مثالیں دی ہیں، لیکن جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ:
1 ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 27 جنگیں لڑیں اور صحابہ کرام کو تقریباً 75 جنگو ں پر بھیجا۔ یعنی دس سالوں میں 100 سے زیادہ جنگیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت وسربراہی میں کفار سے لڑی گئیں۔
2 ۔ غزوۂ بدر میں مسلمان کفار کے جنگی قافلے کو چھوڑ کر پہلے تجارتی قافلے پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرسکتے تھے اور اس طرح اہل مکہ کی معاشی کمر توڑ کر بغیر خون خرابہ کیے تبدیلی لاسکتے تھے، مگر انہوں نے تجارتی قافلے کو چھوڑ کر جنگی قافلے سے مڈبھیڑ کا فیصلہ کیا۔ آخر کیوں؟ صرف اور صرف اس لیے کہ اسلام ،قرآن اور نبوت کے ذریعے سے عطا ہونے والی غیرت و حمیت یہ برداشت ہی نہیں کرسکتی کہ امن و سلامتی کے علمبرداروں کو محض اللہ و آخرت اور عدل و انصاف کا داعی ہونے کی وجہ سے دنیا سے مٹانے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت غیرت ،حمیت،حریت ،اسلام اور وحی الٰہی کا تقاضا یہی تھا کہ اسلامی دعوت وقافلے پر حملہ آور قوت کو نیست و نابود کردیا جائے۔
3 ۔ فتح مکہ میں بعض لوگوں کو معافی مانگنے کے باوجود انہیں معاف نہ کرنے اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیاگیا۔
4 ۔ مسلمانوں کو ابھی مکمل داخلی استحکام حاصل نہ ہوا تھا کہ انہوں نے رومیوں سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور تبوک کے مقام پر ان کی رومیوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔
5 ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند روز قبل ہی حضرت اسامہؓ کی سپہ سالاری میں ایک لشکرشرپسندوں کی سرکوبی کے لیے بھیجنے کی وصیت آپ نے فرمائی۔
اس فکری مغالطہ پر ایک اعتراض یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ اگر اس خود ساختہ متمدن ’’دورِامن‘‘کا مقصودِاعلیٰ ظالموں، جابروں، استحصالی طبقات،اور کمزوروں کے ایمان،آبرو،جان اور مال کے دشمنوں اور غاصبوں کو محبت اور دعوت کے ذریعے قائل کرنے کوشش کرنا اور قتال فی سبیل اﷲ کو منسوخ و متروک کرنا ہے تو جناب پھر تو اس کی اعلیٰ ترین اور کثیر ترین مثالیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں ملنی چاہیے تھیں۔ مگر اس کے برعکس اسلام کے اولین،اعلیٰ ترین، آئیڈیل اور ماڈل شخصیات(اسوہ محمدی اور اسوہ صحابہ کرام)کی زندگیوں میں قتال فی سبیل اﷲ کی اتنی شدید کثرت ہے کہ اس خودساختہ تمدن اور ’’امن‘‘ کا دھوکہ آمیز نعرہ لگانے والے مستشرقین نے اسلام پر سب سے زیادہ اعتراض ہی یہ کیا کہ ’’بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے‘‘۔ خان صاحب! حیرت کا مقام ہے کہ آپ جس چیز کو تشدد قرار دے کر منسوخ و متروک اور ناجائز قرار دینے کی سرتوڑ کوشش فرمارہے ہیں، اسلام کی آئیڈیل اور ماڈل شخصیات اسی چیز میں انتہائی حد تک ملوث ہیں۔
جدیدمتمدن دوراورپُرامن طریق کار کا مغالطہ:
خان صاحب فرماتے ہیں کہقدیم دور دورِتشدد تھا،جبکہ موجودہ دور نہایت مضبوط عوامل کی وجہ سے دورِ امن بن چکا ہے، لیکن ہم ان کے اس متمدن اور پرامن دور کے اصلی چہرہ سے ذرا نقاب اتار کے دیکھتے ہیں توہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔
1 ۔ کیا جدید متمدن دنیا کا انقلاب’’انقلاب فرانس‘‘ پرامن طریق کار سے آیا؟
2 ۔ روس کا مارکسی انقلاب کیا پرامن طریق کار سے آیا؟
3 ۔ کیا موجودہ پرامن دور میں جنگیں ختم ہوگئی ہیں؟
4 ۔ تہذیب و تمدن اور علم کے علمبردار اور اس کے ٹھیکیدار مغربی ممالک نے مشرق و مغرب سے جنگ کرنا چھوڑدیا ہے؟
5 ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد اٹھارویں اور انیسویں صدی میں تہذیب و تمدن کی حامل انہی مغربی اقوام نے ہندوستان،عرب،افریقی ممالک،ترکی،انڈونیشیا،غرض پوری دنیا کے کمزور ممالک پرقبضہ کیا،انہیں غلام بنایا؟
6 ۔ بیسویں صدی کی دنیا کی متمدن ترین اور مہذب ترین ترقی یافتہ اقوام کے مابین اسی ’’دورِ امن‘‘میں تاریخ عالم کی پہلی اور دوسری عالمی جنگ ہوئی جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔
7 ۔ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکنے کی نہایت وحشت ناک کارروائی بھی اسی متمدن اور پُرامن دور میں کی گئی اور اس خوفناک دہشت گردی کا ارتکاب بھی امن اور تمدن کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ نے کیا۔
8 ۔ دنیا کو ہزاروں دفعہ نیست و نابودکرنے کی صلاحیت رکھنے والا نہایت مہلک ایٹمی وجراثیمی اسلحہ بھی اسی متمدن اور پُرامن دور میں تیار کیا گیا اور یہ کوئی افریقی وحشی ممالک نے تیار نہیں کیا بلکہ انہی مغربی اقوام نے تیار کیا جن کی زبانیں تہذیب ،تمدن اور امن کا راگ الاپتے ہوئے تھکتی نہیں۔
9 ۔ روس کا افغانستان پر حملہ اور قبضہ بھی اسی دورِ ’’پرامن ‘‘ میں ہوا۔
10 ۔ امریکہ نے ویت نام اور دوسرے افریقی ممالک پر حملہ بھی اسی امن کے دور میں امن کے نام پر کیا۔
11 ۔ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ بھی اسی امن کے دور میں ہوا۔
12 ۔ بوسنیا میں مغربی تہذیب میں مکمل طور پر رنگے ہوئے مسلمانوں کی نسل کشی اور نہایت گھناؤنی قتل و غارت گری بھی انہی مغربی اقوام کے گوری چمڑی والے سربیا کے متمدن اور مہذب (غنڈوں )حکمرانوں کے ہاتھوں ہوئی جو تمدن اور امن کی دہائی دیتے ہوئے تھکتی نہیں۔ عقل دنگ اور اعصاب شل ہوجاتے ہیں کہ تاریخ کی یہ نہایت بھیانک خونریزی، نسل کشی اور حقوق انسانی کی پامالی کسی دورافتادہ افریقی یا پسماندہ ایشیائی جنگل میں جدید تہذیب سے ناآشنا غیر مہذب انسانوں کے ہاتھوں نہیں ہوئی بلکہ یورپ کے عین قلب اور وسط میں سائنس، ٹیکنالوجی، تہذیب اور تمدن کے انتہائی عروج کے دورمیں ہوئی۔
13 ۔ کشمیر کے مسلمانوں پر سات لاکھ افواج کے ذریعے سے غلام بنانے کی انتھک کوشش بھی اسی دورِ امن میں کی جاری ہے۔
14 ۔ حیدرآباد دکن میں مسلمانوں کی بدترین قتل و غارت گری بھی اسی تہذیب و امن کے دور میں کی گئی۔
15 ۔ دنیا میں امن ،تہذیب اور علم کی سب سے بڑی دعویدار اور علمبردار طاقت امریکہ نے بغیرکسی ثبوت اورمنصفانہ دلیل کے پہلے عراق اور پھر افغانستان پر حملہ آورہوکرتاریخ کی بدترین بمباری اوردہشت گردی اسی امن، تہذیب اور تمدن کے دور میں کی۔
اس نہایت بھیانک ،مکروہ اور وحشی کردار کے ساتھ اگر تہذیب و تمدن کے علمبردار اٹھتے بیٹھتے امن،آزادی،حریت اور مساوات کے گمراہ کن اور منافقانہ نعرے لگاتے ہیں تویہ ان کی بدترین منافقت ہے۔یہ امن،آزادی،حریت اور مساوات کو اپنے گھر کی لونڈی بناکر اور اسے محبت،انصاف اور رحم کی لوری سنا کرنہایت بے رحمی سے اس کے پیٹ میں چھرے گھونپنے کے مترادف ہے۔یہ تاریخ کی بدترین درندگی،وحشت اور سفاکی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں امن،آزادی،مساوات اور حریت کے نعرے لگانے کی آزادی تو کم از کم حاصل ہے۔ تو جناب عرض ہے کہ یہ نعرے بھی حقیقتاً انسانیت دوستی کے لیے نہیں ،بلکہ مغربی خدابیزارتہذیب کو جواز اوربیساکھی فراہم کرنے کے لیے یہ نعرے حقیقی اسلامی تہذیب وتمدن سے اغوا کیے گئے اور انہیں مغربی سیکولرزم میں ایسا فٹ کیاگیا کہ معلوم ہو کہ اصلاً یہ اسی سیکولرزم ہی کی عطا ہے۔ موجودہ دور میں امن، آزادی، مساوات، عدل اور حریت کے نعرے صرف اور صرف مغرب کی سیکولر اور جدید جاہلی تہذیب کو قبول عام حاصل کروانے کے لیے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیے گئے۔
ایک خاص مدت تک اسلام کا راستہ روکنے کے بعد اب جب مغرب کے حکمرانوں پر حاوی ابلیس اعظم نے دیکھا کہ ان کی تمام تر تلبیس کاریوں، دھوکہ آمیزیوں اور دجل و فریب کے باوجود اسلام کی دعوت کا دروازہ کھل رہا ہے اور اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بنتا جارہا ہے اور یہ کہ لوگ حقیقی اسلام اور حقیقی امن، انصاف اور حقیقی و ابدی مسرتوں سے آگاہ ہونے لگے ہیں تو انہوں نے ان ’’مثبت اقدار‘‘ کو جو کہ حقیقتاً انہوں نے اسلام سے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے مستعار (چرا ) لی تھیں، اب جب ان ’’مثبت قدروں‘‘ سے دھوکہ آمیزی اور تلبیس کاری کی تہیں جھڑنے لگیں اور تمام دنیا کے عوام الناس تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لیے یہی ’’مثبت اقدار‘‘ ایک سہارا، سپورٹ اور طاقتور ذریعہ بننے کا امکان اور موقع پیدا ہونے لگا تو مغرب کے اندروں کی چنگیزی اور وحشی پن ابھر کر اوپر آگیا۔ ابلیس اعظم نے مغربی حیا باختہ تہذیب کو جواز فراہم کرنے والی ان مرکزی مثبت اقدارکے حقیقی فوائد سے نوع انسانی کو ہر ممکن محروم رکھنا ہے، چاہے اس کے لیے ان ’’مثبت اقدار‘‘ کو ختم ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور چاہے اس کے لیے مغربی تہذیب کی بنیادیں کیوں نہ کھودنی پڑیں۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عصر حاضر کی سپریم طاقت یا اس کے آلہ کاراپنے مذموم اور مخصوص مقاصد کے تحت پہلے اپنے ملک میں تاریخ کی ہولناک ترین دہشت گردی کرواتی ہے (9/11) اور پھر اس کا الزام بلا ثبوت افغانستان کے ان مسلمانوں پرعائد کر کے چڑھ دوڑتی ہے جو روسی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے خانہ جنگی کا شکار تھے۔ پھر اس خانہ جنگی کے حامل ملک کے بھی ان مسلمانوں پر یہ الزام دھرا جاتا ہے جس نے بے سروسامانی اور ٹیکنالوجی سے محرومی کے باوجوداپنے زیرقبضہ علاقوں میں امن قائم کردیا اور لوگوں کو لوٹ ماراورقتل غارت گری سے نجات دلائی اور ان کے مقاصد میں اپنے ملک میں حقیقی اسلام نافذ کرنا تھا۔یہ وہ لوگ تھے جن کے امن اور انسان دوستی کی تعریف ان کی غیر مسلم رعایا اور غیر ملکی صحافیوں(جو ان کی قید میں رہے)نے بھی کی۔ دنیا بھر کے کروڑوں عوام،خود انہی مغربی ممالک کی عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اپنی حکومتوں کے اس اقدام کو امن، آزادی اور انصاف کا قتل قرار دیتے ہیں مگران حکومتوں کی ماں’’امریکہ‘‘صرف اور صرف اسلام کا راستہ روکنے کے لیے اپنی امتیازی شناخت کی حامل ان مثبت قدروں کو مٹانے پر تل گیا ہے جن کے سہارے ان کی اپنی تہذیب کھڑی تھی۔ آخر دنیا جھوٹ اور دھوکہ کو اور کتنے دن برداشت کرے گی؟ہاں، آپ یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے جدید مذہب سیکولرزم کا گلا گھونٹنے کے بعد اپنے قدیم مذہب مسیحیت (پالزم) کی طرف لوٹ جائیں(اور اب آپ یہی کچھ کر رہے ہیں)اور انسانیت کو بدترین مذہبی جنگوں میں جھونک دیں۔
کیا اسلام محض قدیم قبائلی دور کی راہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے؟
اگرہم یہ مان لیں کہ قبائلی سرداری نظام کی وجہ سے قدیم دور ’’دورِ تشدد‘‘ تھا اور جمہوریت،آزادی،حریت اورانصاف کے نعروں کی وجہ سے جدید دور ’’دورِ امن ‘‘ ہے توآئیے غور کریں کہ کیا اسلام ایک قدیم دور کا مذہب ہے اور جدید دور کی راہنمائی اور قیادت سے قاصر ہے؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ:
1۔ ’’دورِتشدد‘‘ (قبل از اسلام)کی مذہبی کتابوں اور آسمانی صحیفوں(انجیل اور تورات) میں تو ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کا ذکر یا تو بالکل نہیں ملتا یا پھر اس کا تذکرہ بہت قلیل طور پر ملتا ہے۔
2 ۔ ’’دورِتشدد‘‘کے انبیاء کرام میں نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام جیسے نہایت جلیل القدر رسول شامل ہیں، لیکن موسیٰ علیہ السلام کے سواقرآن کسی رسول کے تذکرے کے ساتھ ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کے فریضہ کا تذکرہ نہیں کرتا بلکہ اس دور کے تمام اولوالعزم رسولوں کے تذکرہ کے ساتھ صرف اور صرف دعوت و تبلیغ اور انذار و تذکیر کا ذکر کرتا ہے۔
3 ۔ جبکہ اس کے برعکس دورِ جدید اور ’’پرامن‘‘ دور کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیے جانے والے پیغمبر خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقیامت تک عطا کی جانے والی آسمانی کتاب قرآن حکیم میں ’’قتال فی سبیل ‘‘ کا تذکرہ نہایت کثرت سے اور شدومدسے کیاجاتا ہے۔
آخر یہ اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ہماری ناقص رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ:
1 ۔ تمام انبیاء کرام اور اسلام کی تو دعوت ہی از اول تا آخر ’’امن و سلامتی اور ایمان‘‘ کی دعوت ہے۔
2 ۔ لیکن تاریخ کا یہ ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ہر دور کے اعلیٰ ترین آئیڈیل مبلغین اور داعین(انبیا ء ورسل علیہم السلام)کی پُرامن دعوت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ہمیشہ سے ہر داعی امن اور داعی ایمان کو طرح طرح سے ستایا گیا۔
3 ۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ تمام انبیاء کرام کو(جو کہ دین رحمت کے اعلیٰ ترین داعی اور پیغامبر تھے) ان کی قوم نے جھٹلایا۔
4 ۔ کسی نبی کو قتل کردیاگیا اور کسی کو ملک بدر۔
5 ۔ سابقہ انبیاء کرام کی کتابیں اور مذاہب سخت ترین تحریفات کا شکار ہو کر اپنی اصلیت کھوچکے ہیں۔
6 ۔ جبکہ اسلام کی کتاب اور اس کی تعلیمات اپنی اصل شکل میں آج تک محفوظ اور موجود ہیں۔
یہ وہ زمینی حقائق ہیں جنھوں نے تجربۃً ثابت کردیا کہ نوع انسانی امن وسلامتی اور ایمان کی دعوت کو محض’’دلیل اور سچائی کی طاقت‘‘ کی بنیاد پر من حیث المجموعی اس وقت تک نہیں مانتی جب تک یہ ’’حق‘‘دلیل اور سچائی کی طاقت کے علاوہ اپنے ساتھ تلوار کی طاقت نہ رکھتا ہو۔لہٰذا:
(i) قرآن نے نہایت مدلل انداز سے اپنی کثیر آیات میں یہ بات سمجھادی ہے کہ اب قیامت تک ’’داعین حق اور پیرویان حق‘‘ کے دفاع اور ’’دعوتِ امن و ایمان‘‘ کی حفاظت کا ابدی خارجی ذریعہ ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ ہے۔
(ii) ’’حق(سلامتی اور امن) ، اس کی پیروی اور اس کی پکار‘‘ کو اگر اس دین میں مقصدی و محوری حیثیت حاصل ہے تو قتال فی سبیل اﷲ کو حفاظتی ودفاعی اور ’’رکاوٹوں کے سنگلاخ پہاڑ‘‘توڑنے کاابدی شرعی وسیلہ و ذریعہ کی حیثیت حاصل ہے۔
ہم اپنی اسی گفتگو کو ایک دوسرے انداز سے عرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
سابقہ اور موجودہ شریعتوں کا فرق:
یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سابقہ شریعتوں میں قتال کا شریعت میں کوئی خاص مقام نہ تھا اور سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کے اور کسی نبی کو قتال کا حکم شریعت کے جز کے طور پر نہیں دیاگیا۔ قرآن حکیم نے بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء کا ذکر فرمایا ہے، مگر قتال کی فرضیت کسی نبی اور رسول پر نہ ڈالی گئی۔ احادیث میں بھی یہی صورتحال ہے کہ پچھلی امتوں میں سوائے یہود کے قتال فی سبیل اﷲ کی فرضیت کسی پر نہیں ڈالی گئی۔ لیکن اس کے برعکس امت مسلمہ پر قتال کو واجب ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان عبادت قرار دیاگیا اور قرآن حکیم نے اس کا ذکر انتہائی تاکید اور شدومد سے کیا۔پورا قرآن قتال کی دعوت سے بھرا پڑا ہے۔قتال فی سبیل اﷲ کو مومن کی دائمی صفت کے طور پر پیش کیاگیا (الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اﷲ۔۔۔)(سورۃ النساء)،قتال کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے (ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ۔۔۔) (سورۃ الصف)، قتال کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ اللہ نے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں اور اس سودا بازی پر مومنین کو بڑے ہی دلربا انداز میں خوشخبری سنائی گئی(توبہ)، قتال کرنے والوں کو افضل مومن قرار دیا گیا (نساء)، تلاوت کتاب ، نمازاور انفاق فی سبیل اﷲ کی طرح قتال فی سبیل اﷲ میں مشغول مومنین کو بھی مومنین حقا کہا گیا (توبہ)، مسلمانوں کو ہر وقت دشمنوں سے ’’قتال‘‘ کے لیے گھوڑے اور قوت رہب تیار رکھنے کا حکم دیا گیا (انفال)، قتال سے غفلت اور اعراض کو ہلاکت اور وسیع فساد کا پیش خیمہ قرار دیاگیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کوفتنہ و فساد کے خاتمے اور دین کی دعوتِ امن کی رکاوٹیں تہس نہس ہونے تک قتال جاری رکھنے کا حکم دیا گیا۔ دوسری طرف سنت و احادیث کا یہ عالم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں(بخاری) جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ جنت میں جنتیوں کے پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ بتاؤ کوئی اور خواہش ہے تو میں تمہاری پوری کروں۔ وہ کہیں گے کہ یا رب، ہم نے سب کچھ پالیا، سوائے شہدا کے کہ وہ کہیں گے: یا اللہ، ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج اور ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔
حیرت ہے کہ جس آخری امت کو ایک سائنسی اور تحقیقی دور میں دعوت دین کا کام کرنا ہے اور دعوتِ دین کا کام ان حالات و ماحول میں کرنا ہے جن میں حیرت انگیز و تباہ کن سائنسی ایجادات ایٹم بم کی صورت میں موجود ہیں، اس دور میں دین کی دعوت کا کام کرنا ہے جس میں تمدنی تبدیلیوں کی وجہ سے(بقول بعض جدید مفکرین) دعوت دین اور غلبہ دین کا کام بغیر قتال کے بھی سر کیاجاسکتا ہے، اسی آخری امت پر جہاد و قتال کی فرضیت نہایت شدومد اور زوردار الفاظ میں عائد کی گئی ہے۔
یہ دو انتہائی اہم تبدیلیاں، ایٹم بم کی ایجاد اور تمدنی تبدیلیاں اتنے بڑے عوامل ہیں کہ ان کو سامنے رکھتے ہوئے قتال کو آج سے چودہ سو سال پہلے کم از کم انتہائی عظیم الشان عبادت (قیامت تک باقی رہنے والی آسمانی کتاب، قرآن حکیم، کی کثیر آیات صرف کرتے ہوئے)قرار دینا نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن حکیم کا بہت بڑا حصہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے ارشادات قتال فی سبیل اﷲکو ایک مقدس عبادت قرار دینے والے فرامین نہ ہوتے تو شاید آج کا ہر سوچنے سمجھنے والا دیندارمسلمان اس کا شدید مخالف ہوتا، اس کو حرام قرار دلوانے میں پیش پیش ہوتا، اور امت میں اس معاملے میں شدید سلبی سوچ پیدا ہوچکی ہوتی۔
شاید اسی وجہ سے کہ بعد میں آنے والے لوگ اپنے حالات سے متاثر ہو کر اس اہم فریضے کو ترک نہ کر بیٹھیں اور اپنی حفاظت و دفاع اور دعوت دین کی راہ کی مشکلات و رکاوٹوں کو صاف کرنے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں، قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس صورتحال کو پیش نظررکھتے ہوئے انتہائی شدت اور زوردار انداز سے قتال کی ترغیب و تشویق اورتفہیم پر اپنی سینکڑوں آیات صرف کیں اور صلوٰۃ کے بعد قرآن حکیم میں جس حکم کی سب سے زیادہ تکرار ملتی ہے، وہ یہی قتال فی سبیل اﷲ ہے۔یعنی قرآن حکیم نے اعلیٰ ترین عبادت’’صلوٰۃ‘‘ پر جس شدومد سے زوردیا، کم و بیش اس کے قریب قریب قتال فی سبیل کی افادیت، فرضیت، وجوب اور ترغیب و تشویق پر زورصرف کیا۔
ہم محترم خان صاحب کی خدمت میں عرض کریں گے کہ یہ نقشہ اور ڈھانچہ ہے اس دین کا جو دورِ جدید کے ’’دورِ امن‘‘ کی راہنمائی اور قیادت کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے صحابہ کرامؓ اور مسلمانوں کو دیا گیا جس کی اصل تصویر ظالموں، فاسقوں، لٹیروں، استحصالی طبقات، فسادیوں اور نوع انسانی کا خون چوسنے والے انسان نما درندوں کے لیے نہایت ’’ڈراؤنی ‘‘ہے۔ کیا ہم نوع انسانی کی عظیم اکثریت کی مظلومیت اور تباہی کے اصل ذمہ داروں اور نوع انسانی کے ان دشمنوں (ابلیس کے آلہ کاروں) کی محبت میں اسلام کی اس اصل تصویر کو بگاڑ لیں؟ اس کا فائدہ سوائے ابلیس اور ابلیسی ایجنٹوں کے اور کسے ہوگا؟ کیا یہ اسلام اور نوع انسانی کے عظیم ترین مظلوم طبقے کے ساتھ دشمنی نہیں ہوگی کہ نوع انسانی کے خالق نے نوع انسانی کے امن اور تحفظ کے لیے جو سب سے بڑا خارجی اور مادی ذریعہ (قتال فی سبیل اللہ یعنی مسلح جنگ) عطا کیا، ہم اُسے پرتشددطریق کا نام دے کر منسوخ قرار دے دیں؟
اگر محترم خان صاحب کا دعویٰ درست ہوتا توپھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سابقہ انبیاء کرام کا دور چونکہ تشدد کے عروج کا دور تھا، لہٰذا ان کی کتابوں اور صحیفوں میں قتال کی دعوت زیادہ شدومد سے ملتی جبکہ موجودہ آخری نبی کے دورکو چونکہ ایک امن کے دورکا افتتاح اور آغازکرنے کی امتیازی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا اس میں قتال کا تذکرہ بہت خفیف اور استثنائی انداز میں کیاجاتا۔ لیکن جیسا کہ سابقہ سطور میں ذکر کیاگیا ہے،اصل صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلح جہاد کا مسئلہ:
جناب خان صاحب اسلام کے تصورِ جہاد پر سیاہی پھیرنے کے بعد موجودہ دور میں مختلف خطوں میں مسلمانوں کے مسلح جہاد کو فساد قرار دینے میں نہایت جذباتی انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی دوسری تصانیف میں اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں جہاد و قتال فی سبیل اﷲ کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کا نہایت بے دردی سے مذاق اڑایا ہے ۔اپنی زیرِ بحث تصنیف میں فرماتے ہیں:
’’موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر مسلمان جہاد کے نام پر حکومتوں سے پرتشدد ٹکراؤ چھیڑے ہوئے ہیں، مگر تقریباً بلا استثناء ان میں سے ہر ایک کی حیثیت فساد کی ہے نہ کہ اسلامی جہاد کی۔‘‘
اب اپنے اس موقف کے حق میں وہ دلیلیں یہ دیتے ہیں کہ:(1) یہ جہاد کسی حکومت کی طرف سے نہیں، (2) یہ گوریلا جنگیں ہیں اور گوریلا جنگیں اسلام میں ناجائز ہیں، (3) یہ جنگیں غیر اعلانیہ ہیں اور اسلام میں غیر اعلانیہ جنگیں ناجائز ہیں۔
مولانا وحیدالدین صاحب بغیر نام لیے کشمیر، فلسطین، افغانستان اور چیچنیا وغیرہ کے پسے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے جارح کافر حکومت کے خلاف جوابی کارروائی کو درج بالا ’’دندان شکن‘‘ دلیلوں سے فساد قرار دیتے ہیں۔ اپنے تئیں ان دلیلوں کو وہ ’’جہاد‘‘ کی پیٹھ میں آخری کیل کے طور پر ٹھونک دیتے ہیں۔
اس طرز استدلال پر کیاہم یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ فقہ و شریعت سے بے پروا ہوکر آپ قرآن و سیرت کے ’’حکم قتال‘‘ کی شکل جس بری طرح مسخ و منسوخ کرنے کوشش کرچکے ہیں، اس کے بعد اب اچانک یہ فقہ اور شریعت سے استدلال کے کیا معنی؟ جب آپ نے قرآن کی نص قطعی پر مبنی منصوص حکم (قتال) میں اجتہاد فرماکر اسے متروک و منسوخ کرنے کی تجویز پیش فرمائی تو کیا آپ نے فقہ یا اصول فقہ سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ایسا اجتہاد کرنے کی قرآن وسنت اجازت دیتے بھی ہیں؟اس موقع پر آپ نے فقہ کا یہ اصول کیوں کوڑے دان میں پھینک دیا کہ قرآن حکیم کی نص قطعی میں اجتہادکرنا ایک فاسد عمل ہے۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کو فقہ اور شریعت کا صرف وہی استعمال پسند ہے جو جہاد وقتال کی صورت کو مسخ کرنے میں ان کا مددگار اور معاون بن سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’جہاد‘‘ کو فساد ثابت کرنے کے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے خانصاحب فقہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
’’حدیث میں آیا ہے: انما الامام جنۃ یقاتل من وراۂ و یتقی بہ (صحیح البخاری)‘‘
اور پھر فقہ کا متفق علیہ مسئلہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’الرحیل للامام (جنگ کا اعلان کرنا صرف حاکم وقت کا کام ہے)‘‘(ایضاً)۔ اس دلیل کی بنا پر مسلمانوں کی تمام جہادی سرگرمیوں کے بارے میں فتویٰ جاری فرماتے ہیں کہ ’’مگر تقریباً بلا استثناء ان میں سے ہر ایک کی حیثیت فساد کی ہے نہ کہ اسلامی جہاد کی‘‘(دین و شریعت صفحہ 260)۔
دلیل کا تجزیہ:
اس منفی فکر کی یہ دلیل کہ یہ جہاد جہاد نہیں بلکہ فساد ہے کیونکہ یہ کسی حکومت کی طرف سے نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے کسی خطے میں ’’اسلامی حکومت‘‘ قائم بھی ہے؟۔۔۔ جب پوری دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت قائم ہی نہیں رہی تو پھر فقہ کا ایک ایسا حکم جو ’’اسلامی حکومت‘‘ کے دور کے لیے ہے، وہ ایسے دور پر کیسے نافذ ہو سکتا ہے جو اسلامی حکومت کے خاتمے اور غیر اسلامی اور جاہلی طرز کی حکومتوں کا دور ہے؟ اب اہل ایمان کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو وہ جہاد و قتال کو منسوخ و متروک قراردے کر قرآن کے ایک بڑے حصے کی منسوخی کا اعلان کردیں یا پھرفقہ ہی کے اصول کے تحت ’’تغیر الاحکام بتغیر الزمان‘‘ کی روشنی میں نئے بدلے ہوئے حالات میں قرآنی احکام کے انطباق کی صورت واضح کریں اور خوفِ خدا رکھنے والے ،علمِ دین میں رسوخ رکھنے والے دنیا کے تقریباً تمام علمائے حق نے کشمیر، فلسطین، چیچنیا، افغانستان حتیٰ کہ بوسنیا تک کے جہاد کی حمایت کی ہے اور اسے فساد قرار نہیں دیا بلکہ ان علاقوں میں جہاد میں حصہ لینے کو آخرت میں بے پناہ اجرکا ذریعہ قرار دیا ہے۔ گویا امتِ محمدیہ کے اجتماعی ذہن نے بدلے ہوئے حالات میں قرآن حکیم کے ایک نہایت اہم حکم کے اطلاق کی نئی صورت پر اتفاق کرلیا۔
پھر سوال صرف جہاد و قتال ہی کا نہیں، بلکہ فقہ میں تو صلوٰۃ و جمعہ کا قیام اور زکوٰۃ کی وصولی ایسے نہایت بنیادی ترین ارکانِ اسلام کی ادائیگی بھی حکومت اور امام کے اولین فرائض کے طور پر بیان ہوئے ہیں تو جب اسلامی حکومت نہ رہی تو کیا صلوٰۃ و جمعہ اور ادائیگی زکواۃ کا فریضہ بھی ساقط ہوجائے گا یا ہوگیا؟
عجیب بات ہے کہ اگر مسلمان ذلت و غلامی اور بے حمیتی کی زندگی گزارتے چلے جائیں تو پھر تو خان صاحب کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن غلامی میں پسے ہوئے اور پھنسے ہوئے یہی گناہگار مسلمان اگر اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے شوقِ شہادت کا زبردست جذبہ لیے غلامی و ذلت کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کریں تو خان صاحب کو یہ ’’فساد‘‘ نظر آتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ الفتنۃ اشد من القتل (البقرہ) کہ فتنہ قتل سے بد تر ہے۔ پھر اسی سورت میں قرآن میں ہے کہ مسجد حرام میں قتال منع ہے، مگر اگر جارح کافر(مشرک) تم سے اس میں بھی قتال کریں تو پھر ان کی گردنیں کاٹو۔ واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ ایک طاقتور کافر قوم یا گروہ کا ایک کمزور مسلمان گروہ یا قوم کی عزت، آبرو، جان ،مال اور دین کا استحصال کرنا قتل سے بدتر ہے۔اسلام کی بنا پر، کلمہ کی وجہ سے، اللہ و رسول سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں پر ظلم ،استحصال اور اس کی آبرو اور جان و مال پامال کرنے کی کوشش کرنا قتل سے بڑھ کر ہے۔
سوا ل یہ بھی ہے کہ دین مکمل ہوچکا، قرآن مکمل نازل ہوچکا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکمل اسلامی خلافت و حکومت مسلمانوں کو دے کر گئے، اب جبکہ تمام دنیا میں اسلامی حکومت ختم ہوچکی ہے اور مسلمانوں کو اس ’’فتنہ‘‘ والی کیفیت سے بچانے والی کوئی بھی ’’اسلامی حکومت‘‘ نہیں تو اب یہ پسے ہوئے مسلمان کیا کریں؟اپنے سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور کافر قوتوں کے استحصال و فتنہ سے بچاؤ کیسے کریں؟اب شریعت از سر نو نازل ہونے سے تو رہی۔ اب تو امن والے حالات میں مسلمان قرآن حکیم کے امن والے احکامات پر عمل پیرا ہوں گے اور جنگ و فتنہ والے حالات میں قرآن حکیم کے جنگ و فتنہ والے احکام سے راہنمائی لینی ہوگی۔اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
اب جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے ان خطوں (کشمیر،فلسطین ،افغانستان،چیچنیا اور عراق وغیرہ) میں مسلمانوں پر فتنہ و استحصال اور جنگ کی کیفیت مسلط کی گئی تو ان کا اس مسلح فتنہ و فساد کے خلاف مسلح تصاد م کرنا نہ صرف عین فطرت کے تقاضوں کی پکار تھی بلکہ قرآن حکیم کے احکامات بھی اسی روش کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ایسے مسلمانوں کا اللہ سے تعلق اور جذبہ شہادت جتنا جتنا زیادہ بڑھتا جائے گا، ان کا جہاد اتنا زیادہ مقدس اور اعلیٰ ہوتا چلا جائے گا،اور اتنا زیادہ اجر کا باعث بنتا چلا جائے گا۔
خان صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے بغیر اور چھاپہ مار (گوریلا) جنگ اسلام میں جائز نہیں اور یہ محض فساد ہے، لیکن جب ہم سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس قسم کی چھاپہ مار لڑائیاں نظر آتی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فساد قرار نہیں دیتے۔
مثلاً صلح حدیبیہ کے بعد ایک صحابی حضرت ابوجندلؓ زنجیروں میں جکڑے ہوئے مکہ سے بھاگ کر مدینہ آتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ طلب کرتے ہیں، مگر حضور معاہدے کی پابندی کی خاطر انہیں کفار کو واپس کردیتے ہیں۔ اسی طرح ابوبصیرؓ کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور وہ واپس لے کر جانے والے مشرکوں کو قتل کرکے مکہ کے تجارتی راستے ایک پہاڑی پر چلے جاتے ہیں اور مرکز قائم کرلیتے ہیں جہاں آہستہ آہستہ دوسرے لوگ بھی مسلمان ہونے کے بعد مکہ سے بھاگ کر آنا شروع کردیتے ہیں اور ان کی تعداد تقریباً 70 تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ لوگ مکہ کے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے ہیں اور اہل مکہ کا ناطقہ بند کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بالآخر اہل مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کرتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو وہاں سے اپنے پاس بلالیجیے اور صلح حدیبیہ کی اس شرط کو کہ مکہ سے مدینہ بھاگ جانے والے واپس کیے جائیں گے، خود ہی منسوخ قرار دلوادیتے ہیں۔ یہ واقعہ سیرت اور تاریخ کی تقریباً تمام کتابوں میں لکھا ہوا، مگر کسی بھی مستند کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو فسادی نہیں کہا گیا،اور نہ ہی ان کے ’’فساد‘‘ کی انہیں کوئی سزا دی گئی۔ عہدِ رسالت مآب اس واقعہ سے تو یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ اگر بالفرض اسلامی حکومت قائم بھی ہو، لیکن اس کے باوجود کچھ مسلمان کفار کے قبضہ میں آجائیں یا کچھ مسلمانوں پر کفار ظلم و ستم ڈھارہے ہوں اور اسلامی حکومت کسی خاص مجبوری یا کفار کے ساتھ کسی معاہدے کی وجہ سے ان مظلوم مسلمانوں کی مدد نہ کرسکتی ہوتو ان مجبور و مظلوم مسلمانوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کفار کے ظلم اور غلامی کے خلاف اپنا مسلح دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کبھی اسلامی حکومت کسی خطے کے مظلوم مسلمانو ں کی مدد کرنے سے قاصر ہو یا ساری دنیا سے اسلامی حکومت مٹ چکی ہو تو اب جس خطہ کے مسلمانوں کو بھی ظلم،استحصال اور فتنہ کا شکار کرنے کی مسلح کوشش کی جائے گی، اس ظالم قوت کے خلاف مسلمانوں کا اٹھ کھڑے ہونا اور منظم گروہ کی شکل میں چھاپہ مار کارروائیاں کرنا عین فطرت کے اصولوں کے مطابق ہے اور اسلام فطرت کے ان اصولوں کی قطعاً مخالفت نہیں کرتابلکہ اسلام تو فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتا ہے۔
اس تناظر میں ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر افغانستان کا مسلمان روسی کمیونزم کے خلاف نہ اٹھ کھڑا ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ افغانستان کے مسلمانوں کو حکومت و امام کی سرپرستی حاصل نہ تھی اور یہ کہ یہ جنگ ایک گوریلا جنگ تھی، مگر اس کے باوجود تمام دنیا کے علماء ومفتیان کرام نے اس جنگ کو اسلامی جہاد تسلیم کیا۔ اسی طرح کشمیر، فلسطین اور چیچنیا کے مسلح جہاد کو بھی تمام دنیا کے علمائے راسخین ’’جہاد‘‘ ہی کی صالح نوع اور قسم شمار کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی محترم مسلم مفکراور داعی اسلام اسے فساد قرار دے تو اس معاملہ میں اس میں اور دنیا کے ان تمام ملحدین، مستشرقین، ظالم وجابر قوتوں اور یہود وہنودمیں کیا فرق رہ جاتا ہے جوجہاد کوفسادکہتے ہیں؟یہ تو ہم بھول ہی گئے کہ قادیانی بھی توجہاد کو حرام اور منسوخ ہی کہتے ہیں۔ ہماری رائے میں اگرجناب خان صاحب کے اس فکر میں معمولی سا بھی انصاف اور فطرت سے ہم آہنگی باقی ہوتی تو پھردنیا بھر کے ان کروڑوں مظلوم مسلمانوں کی حمایت ضرور کی جاتی جو محض مسلمان ہونے کے ناطے یہود و ہنود اور عالمی استعمار کے ظلم و ستم اور استحصال اور نسل کشی کے فتنے کا شکار ہیں۔
پھر اس وقت پوری دنیا میں جس بُری طرح ظلم و جوراوراستحصال کا بازار گرم ہے تو ان نہایت تاریک ترین حالات میں اس نہایت بھیانک ظلم و جور اور استحصال کے خلاف ’’کوہستانی مردوں‘‘ اور ’’صحرائی بندوں‘‘کا ناقابل شکست مزاحمت کرنا پوری دنیا کے مظلوم اور پسے ہوئے انسانوں کے لئے امید کی ایک روشن کرن ہے۔ یہ اس دجالی و استحصالی دور میں حریت فکر و عمل کی ایک نہایت روشن و عمدہ مثال ہے۔ اس دور کے حکیم نے اس صورتحال کو نہایت عمدہ الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے:
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا ہے
ان حالات میں نوع انسانی کے لیے امید کی اس کرن کو فساد قراردینے والوں کو حکیم عصر نے یوں خطاب فرمایا ہے:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسمِ شاہبازی
ہم ایک مثال کے ذریعہ اپنے مدعا کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ کسی منزل تک پہنچنے کے لیے سفر کے دو راستے ہیں۔ ایک نسبتاً محفوظ اور ایک غیر محفوظ۔ دوسری بات یہ ہے کہ محفوظ اور غیر محفوظ دونوں راستوں میں ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں سے پالا ضرور پڑتا ہے۔ ’’محفوظ راستہ‘‘ کا اصلی اور اضافی فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات (1) راستے کی قدرتی پناہ گاہیں ’’حملہ آور ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ (2 ) بعض اوقات ’’قافلہ‘‘ کی زبردست تیاری اور مضبوط دفاعی قوت کو دیکھ کر ’’ڈاکوؤں اور کتوں‘‘ پر رعب اور دہشت طاری ہوجاتی ہے اور وہ حملہ سے بعض رہتے ہیں۔ (3 ) اور اگر بعض اوقات حملہ کرتے بھی ہیں تو ’’قافلہ‘‘ کی داخلی و خارجی دفاعی قوت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ آخرکار ’’ان ڈاکوؤں اور کتوں‘‘ کو ماربھگاتے یا قابو پالیتے ہیں۔ اس کے برعکس کوئی قافلہ بھول کر ’’غیر محفوظ‘‘ راہ پر نکل پڑے تو اس راہ میں اسے درج بالا تینوں حصار حاصل نہ ہوں گے، بلکہ اپنی غفلت اور بے خبری کی وجہ سے ،اس غیر محفوظ راستے پر چل نکلنے کی وجہ سے قافلہ نے اپنی زندگی اور بقا کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
اب غور کا مقام ہے کہ قافلہ اپنی بے خبری، کم علمی یا غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے ایک غلطی تو کر بیٹھا کہ وہ ’’غیر محفوظ‘‘ راہ پر چل پڑا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس راہ میں اچانک ’’ڈاکو اور خونخوار کتے‘‘ حملہ آور ہوجائیں تو اس ’’بھٹکے ہوئے قافلے‘‘ کے لیے بچاؤ کی کیا راہ ہے؟ (1) کیا اپنے آپ کو ’’ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ کے رحم و کرم پہ چھوڑدینا چاہیے اور اپنی جان ،مال اور آبرو ان ڈاکوؤں اور درندوں کے حوالے کردینا چاہیے؟ (جبکہ معلوم ہوکہ ڈاکو اور کتے نہ ہی جان کی رعایت کریں گے اور نہ ہی مال اور آبرو کی) یا کہ (2) اپنی غلطی کا ادراک ہونے پر فورا چوکنا ہوجانا چاہیے اور خون کے آخری قطرے تک ان ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے؟
صاف ظاہر ہے کہ ان میں سے پہلا راستہ بزدلوں، نامردوں، غلاموں اور پست حوصلہ لوگوں کا راستہ ہے، جبکہ دوسرا راستہ عین فطرت کا راستہ ہے۔ یہ بہادروں، جوانمردوں اور آزاد بندوں کا راستہ ہے۔
اس مثال سے ہم امت مسلمہ کے ان بچھڑے ہوئے اور راہ گم کردہ قافلوں کے حالات کو سمجھ سکتے ہیں کہ : (1 ) ایمان و اطاعت اور دعوت و انذار کی محفوظ راہ اپنی غفلت، لاپرواہی کی وجہ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔ (2 ) اب نافرمانی، معصیت، فحاشی وعریانی اور خیانت وجھوٹ کی جس راہ پر امت کے یہ بچھڑے ہوئے قافلے چل رہے تھے تو ان میں سے بعض قافلوں پرکشمیر، چیچنیا،افغانستان، فلسطین اورعراق وغیرہ میں جان ،مال،عزت اور ایمان کے ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ نے حملہ کردیا،تو اب ان میں سے دو گروہ بن گئے ۔ایک بزدلوں اور نامردوں کا گروہ جس نے اپنی جان مال، عزت اور ایمان سب کچھ حملہ آور کے تصرف میں دے دینے میں ہی عافیت سمجھی، مگر حملہ آور نے ان بزدلوں اور پست ہمتوں کی سوائے ’’حقیر اور ذلیل جان‘‘ کے اور کوئی چیز بھی محفوظ نہ چھوڑی اور مال،آبرو اور ایمان حتیٰ کہ جان میں بھی جس جس چیز میں سے جتنا جتنا چاہا، لوٹ مار کی اور اسے اپنا حق سمجھا۔ جبکہ اس کے برعکس امت کے اسی بھٹکے ہوئے گروہ میں سے ایک گروہ ان لوگوں کا بن گیا جنہیں اس اچانک طوفان نے اپنی راہ گم کردگی اور غلطی کا احساس دلادیا۔ انہوں نے اللہ کے حضور توبہ کی، آئندہ ایمان و اطاعت پر چلنے کا عہد کیا او رپھر حملہ آور ’’ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ پربہادر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے۔
اب سوچنے کا مقام ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا گروہ فطرت کی راہ پر ہے؟ غیرت وحمیت اور مردانگی کی راہ پر ہے؟ اگر پوری انسانی تاریخ میں نوعِ انسانی کی ڈکشنری میں بزدلی، پست ہمتی، نامردی اور غلامی بھی کسی مثبت قدر کی ذیل میں آنے کے قابل سمجھے گئے ہیں اور آج تک نوع انسانی نے ان ملعون رویوں کو ایک لمحے کے لیے بھی ’’اعلیٰ قدر اور رویے‘‘ کے طور پر قبول کیا ہو تو پھر واقعتاً پست ہمت، ذلیل، بے حمیت، بزدل اور غلام انسانوں کا سا طرزِ عمل اپنانے والے بھی درست راہ پر ہیں۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناًایسا نہیں ہے تو پھر آزادی، خودداری ،جوانمردی، عزت و آبرو کی حفاظت کی راہ اپنانے والا وہ گروہ ہی عین فطرت اور ہدایت کی راہ پر ہے جو اپنی کم سامانی اور قلت و سائل کے باوجود اپنے سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور حملہ آور ’’ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ سے ٹکرا گیا۔ اپنی مسلسل ، پیہم کوششوں اور ناقابل شکست جذبہ جہاد اور شوق شہادت کے بل بوتے پر جس نے غیر ملکی استعمار اور جارح شیطانی قوتوں کے جبڑے ہلا کررکھ دیے ہیں اور دنیا بھر کے فرعون اور ظالم و جابر قوتیں ان جہاد اور شہادت کے متوالوں سے شدید خوفزدہ ہیں اور ان اسلام پسند مجاہدین کی موجودگی میں دنیا بھر کی ظالم و جابر قوتوں کو اپنے ظلم، استحصال، انسانیت کشی اور عریانیت و فحاشی کے ملعون پروگرام کے بقا و استحکام میں شدید خطرہ محسوس ہورہاہے، بے پناہ تباہ کن جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی، دنیا جہاں کے وسائل پر قابض ہونے کے باوجود ان کی مہیب اندھی طاقت کے سامنے یہی گناہگار مجاہدین، عزت اور آزادی کے متوالے اور شہادت سے عشق کرنے والے ایک ناقابل شکست پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں اور نوعِ انسانی کے تمام پسے ہوئے مظلوم طبقات کے لیے عزت ، آزادی اور امید کی ایک نہایت طاقتور روشن کرن بن چکے ہیں۔
خلاصہ بحث
ہم اپنی اس ساری بحث کو درج ذیل نکات میں سمیٹنا چاہیں گے۔
۱۔ابلیس، اولادِآدم کا ازلی دشمن:
اقوام عالم اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اس اصول پر اتفاق کرچکی ہیں کہ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی آزادی اور خود مختاری پر حملہ آور ہوتو جارحیت کی شکارقوم کو اپنے مسلح دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن اس دنیا میں کیا صرف مسلمان ممالک اور مسلمان قوم ایسی ہے کہ کوئی بھی طاقتور ملک ان کے علاقوں پربغیر کسی ثبوت کے جعلی،جھوٹے اور دجالی الزامات لگا کر حملہ آور ہو، آبادیوں کو تہہ تیغ کرتا پھرے، کھیتوں اور بستیوں کو اجاڑتارہے، لیکن چونکہ ان مظلوم و مقہور انسانوں کے ساتھ لفظ مسلمان لگا ہوا ہے یا یہ کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے والی قوم ہے، لہٰذا انہیں اپنے دفاع کا کوئی حق حاصل نہیں؟یہ وہ thesis ہے جو ساری دنیا کی ابلیسی و دجالی قوتیں عالمی سپرطاقتوں کی میڈیاکی طاقت، دولت کی طاقت اور ٹیکنالوجی و فوجی قوت پر حاوی ہونے کی وجہ سے شدومد سے منوانے میں عملاً مصروف ہیں، کیونکہ آدم و ابلیس کی جنگ اپنے آخری راؤنڈ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور انسانیت کے دشمن نہیں چاہتے کہ انسانیت کی کوئی باریک سے باریک دفاعی لائن بھی باقی رہے۔قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ابلیس اعظم انسانوں میں انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ’’دجال اعظم‘‘ کو میدان میں لانے کا فیصلہ کرچکا ہے، مگر اسے اگر کوئی ڈر ہے تو امتِ محمد سے۔حکیم مشرق ابلیس اعظم کے اس خوف کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
ہے اگر مجھ کو خطر تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحرگاہی سے جو ظالم وضو
اور پھر ابلیس اعظم کے خوف کو زیادہ واشگاف الفاظ میں یوں بیان کیاگیا:
الحذر! آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
۲۔جہاد بمعنی فساد۔۔۔فکر کی خرابی کا نتیجہ:
ابلیس اور ابلیسی دجالی قوتوں کا چونکہ مشن ہی انسانیت کی مکمل تباہی اور بربادی ہے، لہٰذا یہ قوتیں اگر انسانیت کے تحفظ کی مضبوط ترین علامت یعنی امت مسلمہ کی دفاعی قوت کو تہس نہس کرنا چاہتی ہیں تو یہ بات کسی حد تک قابل فہم ہے۔اسی طرح امت مسلمہ کی منافق سیاسی و فکری قیادت بھی عالمی دجالی قوتوں کی آلہ کار ہے تو یہ بات بھی ناقابل فہم نہیں ہے کیونکہ منافق کا تو ہر دور میں کا م ہی نفس اور پیسہ (شیطان) کی پوجا کرنا اور ملت فروشی ہوا کرتا ہے۔ لیکن ہماری حیرت اور استعجاب کی اس وقت کوئی انتہائی نہیں رہتی جب ہم بعض دینی و مذہبی مفکرین کی اس سوچ کا مطالعہ کرتے ہیں جو عالم اسلام کی اس عظیم غیر مرئی دفاعی قوت کی (بقول مرزا اسلم بیگ ،سابق آرمی چیف پاکستان) جو کہ افغانستان، فلسطین، عراق، چیچنیا اور کشمیر میں استعماری، دجالی و استحصالی قوتوں سے برسرپیکار ہے، شدید طور سے حوصلہ شکنی اور نفی کرتے ہوئے اس مدافعانہ جہاد کو فساد قرار دے دیتی ہے۔
یہ بات عقل و دل کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک کافر اور مشرک اگر اپنے وطن اور اپنی آزادی و خودمختاری کے دفاع کے لیے حملہ آور غیر ملکی قوتوں سے لڑے تو وہ ’’آزادی کا ہیرو‘‘ لیکن ایک گناہ گار مسلمان اپنی قوم کی آزادی و خودمختاری کے دفاع کے لیے جب حملہ آورجارح قوتوں سے برسرپیکار ہوتا ہے تو اسے فسادی اور دہشت گرد کہا جائے۔ آخر کیوں؟ کیا اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے، لہٰذا اسے اپنے دفاع کا کوئی حق حاصل نہیں؟
۳۔فقہ اور عقل کا فتویٰ:
ہر شخص کو اس چیز کا تو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے دینی جدوجہد کا کوئی بھی میدان منتخب کرکے اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو اس پر مرکوز کردے، جیسا کہ مولانا وحید الدین صاحب نے ’’دعوت‘‘ کے میدان میں اپنی صلاحیتیں آخری حد تک جھونکنے کی کوشش فرمائی ہے۔اسی طرح آپ کی وہ تمام مساعی بھی قابل مبارکباد ہیں جو مسلمانوں کی غفلت، سستی، کاہلی، بے مقصدیت، بے عملی، استعداد کار اور صلاحیت کی بجائے نعروں، شکایتوں اور شور شرابے پر انحصار کی مذمت کرتے ہوئے بیداری اور عمل پر ابھارتی ہیں۔ لیکن صبر، اعراض اوردرگذرکی تعلیمات کا قطعاً یہ تقاضانہیں ہے کہ افراد اور قوموں کی باہمی آویزش سے آنکھیں بند کرلی جائیں اور انصاف کی بات ہی نہ کی جائے۔ ظالموں کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے آپ سارا غصہ مظلوموں پر نکالنا شروع کردیں کہ وہ ظالم حملہ آور قوت سے اپنی جان مال اور آبرو بچانے کی کوشش ہی کیوں کررہے ہیں۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ یہ ’’خودروفکر‘‘ طاقتور ملکوں کی کمزورقوموں پر جارحیت اور ان کی جان،مال اور آبروپر حملہ کو تو فساد کہنے میں انتہائی بخل سے کام لیتی ہے ،لیکن کمزورکا اپنی جان مال اور آبرو کی دفاع میں اٹھنے والا قدم اس ’’فکر‘‘کے نزدیک فساد قرار پاتا ہے۔
ایک پرامن اور مذہبی آزادی پر مبنی معاشرے میں مسلمانوں کا کام یقیناًصبر و اعراض کے ساتھ ’’ایمان و سلامتی‘‘ کا پیغام نوع انسانی کو پہنچانا ہے اور اس راہ میں آنے والی تکلیفوں کو صبر و درگذر کے ساتھ برداشت کرنا ہے، لیکن جنگی حالات میں جبکہ دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی بہانے سے ایک مسلمان ملک کو محض کمزور سمجھتے ہوئے اس پر حملہ آور ہوتو فقہ اسلامی کی روسے بھی اور انسانی فطرت کی رو سے بھی اس کمزور ملک کے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حملہ آور کافر ملک کے مقابلے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔
فطرت کا، عقل کا، اسلام کا اور قرآن کا سبق اور مطالبہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں اپنی آزادی سے غفلت برتنے والے بزدلوں اور بے عملوں کو بہادری اور عمل پر ابھارا جائے اور انہیں اپنی آزادی و خودمختاری کی خاطر کٹ مرنے پر آمادہ کیاجائے۔ ایسے حالات میں دفاع(جہاد) کو منسوخ اور فساد کہنا قرآنی فقہ کے نزدیک گمراہی ہے تو فطرت اور عقل ایسی فکری خرابی پرحماقت کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔
۴۔مسلح برائی اور تشدد کو قوت سے روکنے کا نام جہاد ہے:
چاہیے تو یہ تھا کہ امت محمدیہ کے ہمدرد اور خیرخواہ اس امت کے قافلوں کے بھٹکنے اور راہ گم کرنے کی وجوہات کا تجزیہ کرتے اور حل کے طور پر ایمان، توبہ، اطاعت،دعوت و انذار اور تزکیہ و تذکیر کی راہ تجویز کرتے۔اس صراط مستقیم پر یکسو ہوکر چلنے کی بجائے مسلم داعین میں سے بعض ’’ہمدردوں اور خیرخواہوں‘‘ نے امت مسلمہ کے بھٹکے ہوئے قافلوں میں سے ان چند گنے چنے قافلوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جو عزت، آزادی،خودی اور خودداری کے دفاع کی جنگ لڑرہاتھا۔ یہ ’’مفکرین‘‘ ان عزت و آزادی اور خودداری کی جنگ لڑنے والے احرار کو ’’ایمان و اطاعت‘‘ کی راہ کی ضد ثابت کرنے پر لگ گئے۔ان ’’مفکرین‘‘ کی یہ وہ منفی وسلبی سوچ ہے جس نے ان کی ’’ایمان و اطاعت اور دعوت و انذار‘‘ پر مبنی ان کی خوش نما دعوت کو بھی شدید طور سے مجروح اور غیر معتبر بنادیا ہے۔ ان کے اس طرز عمل سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ ان کا مقصد ’’ایمان و اطاعت اور دعوت و انذار‘‘ کی اسلامی و قرآنی راہ کو زندہ کرنا نہیں بلکہ نوع انسانی کی بچی کھچی آزدی و حریت اور عزت و خودی کو بھی کچلنا اور اسے مسخ کرنا ہے۔
اسی طرح اسلام کو بدنام کرنے کی نیت سے یاناقص و غلط فہم کی وجہ سے اگرعصر حاضر کے لادین مفکرین ’’جہادوقتال فی سبیل اللہ‘‘ کی مقدس قرآنی اصطلاح کو ’’پُرتشددطریق کار‘‘ کانفرت آمیز نام دیں تویہ ان کی مجبوری ہے، لیکن حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ہمارے محترم وحید الدین خان صاحب کی کیا مجبوری ہے کہ وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی اسلامی جنگ (جہاد وقتال فی سبیل اللہ) کو ’’پرتشددطریق کار‘‘ کا عنوان دے کر اسے متروک اور منسوخ کرانا چاہتے ہیں؟ کیا انہیں بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ’’قتال وجہاد‘‘ تشدد پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ دنیا سے تشددکی لعنت کو ختم کرنے اور نوع انسانی کو امن و تحفظ فراہم کرنے کے لیے مسلح برائی کی طاقت کا مسلح اچھائی کی زبان میں طاقت سے جواب دینے کے لیے کی جانے والی پاکیزہ جدوجہد کا نام ہے؟
۵۔امن کے محافظ ۔۔۔ ایمان اور جہاد:
امن انسان کی تمام تر دینی و دنیاوی ترقیوں اور کامیابیوں کی بنیادبھی اورمقصود بھی۔ امن فطرت انسانی کی ازلی پکار اور آرزوہے۔امن وہ شاہ کلید ہے جس میں دعوتِ دین کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ امن ہی اس محفوظ ترین ماحول کا ضامن ہے جس میں نوع انسانی کو اس کی اصل منزل(نجات اخروی اور لقاء رب) اور اس تک پہنچنے کے لیے بہترین راستے(دین اسلام) سے ہمکنار ہونے کے وسیع مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ انسان اور اس کائنات کے خالق نے امن کامنبع و سرچشمہ اوراندرونی (داخلی) محافظ اگر ’’ایمان‘‘(بندگی رب) کو بنایا ہے تو اس کا بیرونی (خارجی) محافظ ’’جہاد و قتال‘‘ کو بنایا ہے۔ قرآن،سیرت نبوی اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ امن کی شدید خواہش کے باوجود انسان کے لیے اس کا حصول صرف اسی وقت عملاً ممکن ہوتا ہے جب وہ ہمہ وقت ’’امن‘‘ کے دشمنوں سے ہوشیار اور ان سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا ہے۔امن کے دشمنوں سے ہروقت ہوشیاررہنے کا قرآنی نام ’’ایمان‘‘ اور امن کے دشمنوں سے ہمہ وقت لڑنے کے لیے تیار رہنے کاقرآنی نام ’’جہاد‘‘ ہے۔
۶۔دو سو سالوں سے مسلم ممالک فساد کی آماجگاہ کیوں؟
’’بہترین فوجی تیاری اور بھرپور دفاع‘‘ یہ وہ طریق کار ہے جس کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کے قلیل عرصے میں 100جنگیں لڑنے کے باوجودحیران کن طور پرتاریخ انسانی کا کم ترین انسانی خون بہا کر امن ،انسانیت اور ہدایت ربانی کے بدترین دشمنوں پر قابو پا لیا۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منفرد ترین روحانی انقلاب کے نتیجے میں تاریخ انسانی کا دھارا موڑ دیا۔
’’جہاد‘‘ ہر وقت لڑنے کا نام نہیں ہے، بلکہ امن اور ایمان کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ہروقت تیاررہنے کا نام ہے۔ بہتر تحفظ یہ نہیں ہے کہ آپ ’’دفاع‘‘ کو منسوح و ممنوع قرار دے کر امن و انسانیت کے دشمنوں کو تباہی پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دیں، بلکہ بہترین تحفظ یہ ہے کہ آپ اعلیٰ سے اعلیٰ دفاعی(جنگی) صلاحیت پر عبورحاصل کریں تاکہ امن کے دشمنوں کو آپ کی دفاعی(جہادکی) تیاری دیکھ کر فساد پھیلانے کی ہمت ہی نہ ہو۔جہاد کے لیے تیار رہنا دراصل فساد کوبیخ و بن سے اکھاڑدینے کا نام ہے، جبکہ جہاد کو متروک ومنسوخ کروانے کی کوشش درحقیقت ’’فساد‘‘کا چوپٹ دروازہ کھولنا ہے۔ جب مسلمان ’’ایمان کی آبیاری‘‘ (ایمانی زندگی) سے غافل اور لاپروا ہوجاتے ہیں تو مسلم معاشرے داخلی سطح پر فساد کا گھر بن جاتے ہیں اور جب مسلمان ’’جہاد کی تیاری‘‘(دفاع) سے بھی غافل ہوجاتے ہیں تو تمام دنیا فساد کا گھر بن جاتی ہے۔
قرآن اور سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امن کی مستقل حالت کو وہی اہل ایمان حاصل کرسکتے ہیں جو جہاد کی ہنگامی حالت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔مسلمان ممالک پچھلے دو سوسالوں سے فساد اور بدامنی کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔اس کی وجہ اس کے سوااور کوئی نہیں ہے کہ ان مسلم ممالک نے امن کے منبع و سرچشمہ اور سب سے بڑے داخلی محافظ ’’ایمان کی آبیاری‘‘کو اپنی اجتماعی مقاصد سے خارج کردیااور امن کے واحد خارجی محافظ ’’جہاد‘‘ (دفاع) سے بدترین غفلت اور چشم پوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی اپنے اجتماعی پروگرام سے خارج کر دیا۔