شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ (۹۷۱۔۱۰۳۴ھ / 1624-1563ء) نے ’’اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘ کے اصول کے مطابق جن سیاسی شخصیات کو خاص طور پر خطوط صادر فرمائے اور ان کی اصلاح کی راہ سے بادشاہ، امرا اوردیگر عمائدین حکومت کی اصلاح کا قصد فرمایا ،ان میں ایک بڑا نام میرزا عبدالرحیم خانِ خاناں کا ہے ۔ حضرت مجددؒ کے طرزِ عمل سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ داعی کا ایک اہم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے میں صاحبانِ اقتدار میں سے سلیم الفطرت انسانوں کی کھوج میں خصوصی محنت کرے ،کیونکہ ایسے لوگوں کو تھوڑی سی محنت سے جادۂ مستقیم پر گامزن کیا جاسکتا ہے ،اور پھر ان کی وساطت سے دیگر لوگوں کی اصلاح کچھ مشکل نہیں رہتی ۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ قدس سرہ العزیز نے میرزا عبدالرحیم خانخاناں ؒ کے نام تیرہ مکتوب ارسال فرمائے جن کی تفصیل یہ ہے: دفتراوّل میں مکتوب نمبر: ۲۳ - ۶۷ - ۶۸ - ۶۹ - ۷۰ - ۱۹۱ - ۱۹۸ - ۲۱۴ - ۲۳۲ - ۲۶۸ اور دفتر دوم میں مکتوب نمبر: ۸ - ۶۲ - ۶۶۔ زیر نظر سطور میں حضرت مجددؒ کے ان خطوط کے دعوت، معاشرتی اور سیاسی پہلووں پر قدرے روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
موضوع پر براہِ راست گفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ کا مختصر تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کردیا جائے ۔
میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کے والد کا نام میرزا بیرم خاں تھا جوشہنشاہ ہمایوں کا سپہ سالارِ اعظم ،سلطنت مغلیہ کا زبر دست وفادار اور بازوئے شمشیر زن تھا ۔میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ بیرم خان کے ہاں ۱۴ صفر المظفر ۹۶۴ھ بمطابق ۱۵۵۶ء بروز جمعرات لاہور میں امیر جمال خاں میواتی کی صاحبزادی کے بطن سے متولّد ہوئے ۔ ابھی چار برس کی عمر تھی کہ آپ کے والد کو گجرات کے قریب پٹن شہر میں ۹۶۸ھ میں قتل کردیا گیا۔ وارثوں نے آپ کو آگرہ منتقل کر دیا جہاں آپ شاہی ماحول میں پرورش پاتے رہے۔ ذرا ہوش سنبھالی تو تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا ۔ اپنے وقت کے نامور علما و فضلا، خاص کر علامہ فتح اللہ شیرازی، قاضی نظام الدّین بدخشی، مولانا محمد امین اندجانی، حکیم علی گیلانی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے علوم ظاہری و باطنی و فوائد کثیرہ حاصل کیے۔ گجرات کے معروف بزرگ شیخ وجیہ الدین ؒ بن شیخ نصر اللہ علوی ؒ سے روحانی طریقہ اخذ کیا۔
امیر کبیر محمد شمس الدین غزنویؒ کی صاحبزادی سے نکاح کیا۔ مغل بادشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ گجرات، سندھ اور دکن کے بعض علاقے آپ کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ اکبر نے آپ کو خا نِ خاناں (امیر الامرا) کا لقب دیا ۔اکبر نے اپنے بیٹے جہانگیر کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ کو ۹۷۲ھ میں اپنے پاس رکھ لیا ۔ ایک متبحراور قابلِ اعتماد عالم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور سندھی لغات کے بھی زبردست ماہر تھے۔ انھوں نے ۹۹۷ھ میں’’ تزک بابری ‘‘ کا ترکی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ اپنے دور میں صاحب القلم والسّیف کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے دور میں آپ جیسا متنوّع الصّفات اور جامع الفضائل شخص شاید ہی کوئی ہو۔ ۱۰۲۶ھ میں دہلی میں انتقال فرمایا اور مقبرہ ہمایوں کے برابر مدفون ہوئے۔(مآ ثر الاُ مراء، نزہۃالخواطر، ۵؍۳۰۴)
خطوط کی دعوتی اہمیت
دورِ حاضر میں جب اسلامی تحریکات کے مقاصد اور پس منظر پر بات کی جاتی ہے تو جوسوالات خاص طور پر اربابِ علم و دانش کے ہاں زیر بحث آتے ہیں، ان میں سے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تحریکات کا اصل ہدف معاشرتی اصلاح ہے یا اسلامی ریاست کا قیام؟حضرت مجدد ؒ کی دعوتی اور تحریکی زندگی کے مطالعے سے جو چیز نکھر کر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک داعی کا اصل ہدف اصلاحِ معاشرہ ہے۔ حصولِ اقتدار اورنظمِ اجتماعی اس کے دعوتی مشن کا ہدف نہیں بلکہ نتیجہ ہے ۔میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کے نام حضرت مجدد ؒ کے خطوط کو ان کے اسی وژن کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ذیل کی سطور میں ہم اپنے قارئین کی توجہ چند ایسے ہی نکات کی طرف مبذول کروائیں گے۔
سماجی تبدیلی کے لیے دعوت کا مرکزی ہدف طبقۂ عوام ہے یا اشرافیہ؟ یعنی تبدیلی اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتی ہے یا نیچے سے اوپر کی طرف ؟ یہ سوال جس قدر اہم ہے، اسی قدر سنجیدہ تجزیے کا متقاضی بھی ہے ۔ دورِ حاضر میں بہت سی اسلامی تحریکوں کی تگ و دو اور طرزِ عمل کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اوراسی پس منظر میں ان کے اثرات و نتائج کی وسعت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ حضرت مجددؒ کی تحریکِ دعوت کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپؒ نے ایک طرف تو طبقۂ عوام کی تعلیم و تربیت اور اصلاحِ احوال کی طرف بھر پور توجہ فرمائی اور دوسری طرف کرسئ اقتدار کی بجائے امرا اور اشرافیہ کو اپنی دعوت کا ہدف بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپؒ کی کوششوں کے نتیجے میں معاشرے کے سرکردہ لوگوں نے اپنی دینی دلچسپیوں کا اظہار کیا تو عوام نے اپنے دینی مزاج کی وجہ سے ان کے طرزِ عمل کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس پر اپنی مسرت اور شادمانی کا اظہار بھی کیا۔
دعوتِ دین میں مدعو کے لیے خیر خواہی اور دل سوزی شرطِ اوّل ہے۔داعی کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ مدعو کے دل پر دستک دے اور نہ صرف اس کی عزت نفس کا پوری طرح لحاظ رکھے، بلکہ اس کے ہر اچھے عمل پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کرے، اور پھر جہاں ضرورت ہو اس کی اخلاقی تربیت سے بھی صرفِ نظر نہ کرے۔
اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز اربابِ بست وکشاد خاص قسم کے پروٹوکول (Protocol) کے عادی ہوتے ہیں اور یہ پروٹوکول ان کی نفسیات میں رچ بس کر ان کی عادت سے بڑھ کر فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک داعی کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے مدعو اور مخاطَب کی نفسیات اور پس منظر (Back Ground)کا پوری طرح لحاظ رکھے۔ حضرت مجددؒ کے خطوط میں ہمیں اس اسلوب کی جھلکیاں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ مثلاً آ پؒ اپنے خطوط کا آغاز کسی نہ کسی دعائیہ جملہ سے فرماتے ہیں۔ ایک خط میں خانِ خاناںؒ کواپنی دعاوؤں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ان کے کمالات کا اعتراف ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں ایسی قیل و قال سے نجات دے جو حال سے خالی ہے اور اس علم سے نجات عطا فرمائے جو عمل سے محروم ہے۔ .......اے ظہورِ کمالات کے لائق برادرِ عزیز !اللہ تعالیٰ تمہیں قوت سے فعل کی طرف لائے، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ، تو اس شخص پر افسوس جس نے اس میں کچھ نہ بویا اور زمین استعداد کو خالی رکھا اور تخمِ اعمال کو ضائع کردیا۔‘‘ (مکتوبات: دفتر اول ،حصہ اوّل ،مکتوب نمبر:۲۳)
ایک مکتوب میں حضرت مجددؒ ،خانِ خاناں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسی کتب کے مطالعہ سے احتراز کرنا چاہیے جو صوفیا کے مکشوفات و الہامات پر مبنی ہوں، کیونکہ ہر قاری کے کیے اصل حقائق تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ۔اس کیے اربابِ اختیار کو فتوحاتِ مکیہ (ابن عربیؒ ) کی بجائے فتوحاتِ مدنیہ ( احادیثِ نبویہ) کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ آپ مکتوب الیہ کو دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فتوحاتِ مکیہ مفتاح فتوحاتِ مدنیہ باد‘‘۔( فتوحاتِ مکیہ، فتوحاتِ مدینہ کی کلید ہو۔)(مکتوبات: دفتر اول ،حصہ سوم ،مکتوب نمبر:۱۹۸)
سلاطین، امرا اور حکوتی عہدہ داروں کا احتساب اور ان کو نصیحت کرنا جان جوکھوں کا کام ہے ، لیکن یہ کام جس قدر مشکل ہے، اسی قدر ضروری بھی ہے، اس لیے کہ عوام الناس معاشرے کے سرکردہ افراداور ان کے طرزِ عمل سے نہ صرف براہِ راست متأثر ہوتے ہیں بلکہ ان کو نمونۂ عمل (Role Modle)بھی بنا لیتے ہیں ۔اس لیے ایک داعی کوہر طرح کے تحفظات سے بلند ہو کر بڑی حکمت کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینا چاہیے،کیونکہ اعلیٰ منصب پر فائزکسی ایک انسان کی اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے بہت سارے انسانوں کی اصلاح کا سامان کرلیا ہے۔ حضرت مجدد ؒ نے دعوت کے اس اسلوب کو جس حکمت کے ساتھ برتا ہے، وہ داعیانِ اسلام کے لیے خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ صاحبِ ثروت اور سلطنت مغلیہ کے رکنِ رکین ہونے کے باوصف اہل اللہ اور درویشوں کے خدمت گاروں میں تھے، مگر ان کے اندازِ تحریر سے تحکم اور تکبر کی بو آتی تھی ۔ حضرت مجدد ؒ ایک مکتوب میں ان کو تواضع اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے فقرا کی بہت خدمت کی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ہی فقرا کے آداب کا لحاظ بھی بہت ضروری ہے،تاکہ اس پر ثمرہ اور نتیجہ برآمد ہو۔اور اس کے بغیر تو خار دار درخت پر ہاتھ پھیرنے والی بات ہے ، یعنی کچھ فائدہ نہیں ہے۔ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متقی لوگ تکلف سے بری ہیں اور متکبروں کے ساتھ تکبر کرنا بھی ایک قسم کا صدقہ اور نیکی ہے ۔حضرت خواجہ نقشبند ؒ کو ایک شخص نے متکبر کہا تو انھوں نے فرمایا: میرا تکبر خدا کہ لیے ہے۔
اس گروہِ فقرا کو ذلیل خیال نہ کریں، کیونکہ حدیث نبوی ہے: ’’رُبَّ اَشْعَثَ مَدْفُوْعِِ بِالْاَبْوَابِ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَآبَرَّہٗ‘‘ (بہت سے پراگندہ بال،گردآ لود،دروازوں سے دھکیلے جانے والے (باطن میں ایسا بلند مقام رکھتے ہیں )کہ اگر اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی قسم پوری کرتا ہے ۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ یہ باتیں تلخی نما ہیں، لیکن آپ کی خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے بہت ہیں ،آپ اسی پر اکتفا کریں ۔فقرا سے آشنائی اور ملاقات سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے پوشیدہ عیوب اور مخفی کمینی حرکات سے واقف اور مطلع ہو ۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس طرح کی باتوں سے آزار اور تکلیف دینا مقصود نہیں ، بلکہ یہ باتیں خیر خواہی اور دلسوزی کے طور پر ہیں ۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۸)
تکبر در اصل ایک روحانی اور اخلاقی مرض ہے جس کا علاج تواضع اور انکسار ہی سے ممکن ہے ۔ تواضع، غربا کا اظہارِ حال اور امرا کے لیے باعثِ کمال ہے ۔شیخ سعدی فرماتے ہیں:
تواضع زگردن فرازاں نکو ست
گداگر تواضع کند خوئے اوست
حضرت مجددؒ کی پر سوز نصیحت کے جو اثرات مکتوب الیہ پر مرتب ہوئے، اس کی نشان دہی حضرت مجددؒ کے ایک دوسرے مکتوب سے ہوتی ہے۔ جب خانِ خاناں ؒ نے اس پرخلوص نصیحت کے نتیجے میں تواضع اختیار کرتے ہوئے اپنے رویے کو بالکل تبدیل کر لیا تو حضرت مجدد ؒ نے اپنے ایک خط میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’چونکہ آپ نے فقرا کے آداب کا لحاظ رکھا ہے اور باتوں میں تواضع اختیار کی ہے،۔اس کے مطابق: مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہٗ اللّٰہُ، (جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے ۔اللہ اسے بلندی اور رفعت اختیار کرتا ہے ۔) امید ہے آپ کا یہ عجز و تواضع آپ کی دینی و دنیوی رفعت کا سبب بنے۔‘‘ (مکتوبات: دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹)
شیطان کے بڑے جالوں میں سے ایک جال یہ ہے کہ وہ امورِ شرعیہ کے بارے میں انسان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی تو یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اسلامی احکام خلافِ عقل ہیں، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا ہر انسان کے بس کی با ت نہیں ہے ۔حضرت مجدد ؒ نے خانِ خاناں ؒ کے نام ایک تفصیلی خط اس مضمون کا صادر فرمایا کہ امور شرعیہ میں پوری آسانی اور سہولت کا لحاظ رکھا گیا ہے اور مقیم و مسافر ،مریض و تندرست اورمردو زن دونوں کے دائرہ کار اور نفسیات کے مطابق تعلیمات دی گئی ہیں ۔اب اس اہتمام کے بعد بھی جو شخص عمل نہ کرے وہ حقیقتِ ایمان سے محروم ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مکتوبات، دفتر اول ، حصہ سوم،مکتوب نمبر:۱۹۱)
اس میں کیا شک ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ دین عقل بھی ہے، لیکن کون سی عقل معیارِ حق ہوگی؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل ایک ایساکمزور اور بے بس راہنما ہے جس کو انسانی خواہشات اور جذبات نے ہمیشہ اپنا تابع مہمل بنا کر رکھا ہے اور عقل نے ہمیشہ انسانی جذبات و خواہشات کے حق میں دلائل تراشے ہیں اور خواہشاتِ نفس اور جذباتی رویوں کو عقلی رویے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عقل جج نہیں، وکیل ہے ۔ جیسا مقدمہ اسے دیا جائے گا، اسی کے مطابق وہ وکالت کرے گی ۔ یہ ایک ایسی دو دھاری تلوارہے جو دونوں طرف چلتی ہے۔ اس سے جس طرح دینی حقائق کو ثابت کیا جاسکتا ہے، اسی طرح باطل بھی کیا جاسکتاہے۔ یہ وکیل کی وکالت و ذہانت پر موقوف ہے کہ وہ مقدمہ کے کس پہلو کی تائید یاتردید کرنا چاہتاہے۔ اس لیے ہرشخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی عقل کا ترازو لے کر آگے بڑھے اور احکامِ شرعیہ کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائے۔معیارِ حق عقل نہیں بلکہ وحی ہے۔ اس لیے ایک مکتوب میں حضرت مجددؒ ، خانِ خاناں کے نام تحریر فرماتے ہیں:
’’ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ تمام احکامِ شرعیہ کو عقلی پیمانے پر ناپے اور دلائلِ عقلیہ کے مطابق کردے ، وہ شانِ نبوت کا منکر ہے اور اس کے ساتھ کلام کرنا کم عقلی و بے وقوفی ہے۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ، حصہ سوم ،مکتوب نمبر:۱۱۴)
عقل پرستی کا مرض ہر دور میں رہا ہے۔ مغربی فکر و فلسفے کے زیر اثر یہ دورِ حاضر کا بڑا فتنہ ہے۔ اسلام عقل کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور تفکر فی الخلق پر زور دیتاہے۔ اسلام کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ اگر کسی حکم کی حکمت وقتی طور پر انسان کی سمجھ میں نہ بھی آئے، تب بھی وہ اس پر پختہ ایمان اور یقین رکھے ۔ورنہ ایسے شخص کا ایمان اپنی عقل پر ہو گا نہ کہ نبوت و رسالت پر ۔ اسی پس منظر میں شیخ مجددؒ نے اسلامی حدود و تعزیرات اوراسلامی احکام کو عقل کے ترازو میں تولنے والے شخص کو شانِ نبوت کا منکر قرار دیاہے۔ گویا دین یہ ہے کہ:
عقل قربان کن پیشِ مصطفی
خطوط کی معاشرتی اہمیت
دورِ حاضر میں داعیانِ اسلام کی دعوت کے غیر مؤثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا افرادِ معاشرہ کے ساتھ براہِ راست تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں طبقۂ عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا اور پھر ان کے حل کی عملی کوشش، دعوتِ دین کے دائرہ سے قطعی باہر سمجھی جارہی ہے۔ یہ طرزِ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہاجِ دعوت سے بہت بڑا انحراف ہے۔سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقِ خدا سے محبت اور خدمتِ خلق دعوتِ دین کے سب سے کار گر ہتھیار ہیں۔ پہلی وحی کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ ؐ کے اضطراب کو دیکھتے ہوئے حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو ان الفاظ میں تسلی دی:
’’کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتُحْمِلُ الْکَلَّ وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ‘‘ (بخاری، باب بدء الوحی)
’’ہرگز نہیں! اللہ کی قسم، اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں،ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں اور مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘
حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ قبل از اعلانِ نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بڑا خوبصورت اور جامع بیان ہیں جس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ خدمتِ خلق پہلے ہے اور دعوتِ دین بعد میں ۔اس وقت عیسائی مبلغین اور مشنریز پوری دنیا میں خدمتِ خلق کے نام پر اپنے باطل نظریات کے پرچار میں مصروف ہیں ۔غور کیا جائے تو بر صغیر میں صوفیاء کرام ؒ نے بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ٹھہرے ۔خانقاہی نظام میں لنگر کا تصور اس اسلوبِ دعوت کی خوبصورت مثال ہے ۔
حضرت مجدد ؒ کے دعوتی منہج میں بھی اس اسلوب کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔نہ صرف ذاتی حیثیت میں آپ نے مخلوقِ خدا کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا بلکہ اصحابِ ثروت کو بھی اس طرف توجہ دلائی ۔ہم ان سطور میں صرف چند مثالیں پیش کرنے پر ہی اکتفا کریں گے جن سے واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف اگر شیخِ مجددؒ کی اپنے ارادت مندوں کی روحانی ترقی پر گہری نظرتھی تو دوسری طرف وہ ان کے روز مرہ زندگی کے مسائل سے بھی پوری آگہی رکھتے تھے ۔ حضرت مجددؒ ،خا نِ خاناں ؒ کے نام اپنے ایک مکتوب میں ایک ضرورت مند کی سفارش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’سیادت مآب سید ابراہیم آپ کے بلند آستانہ سے قدیمی تعلق و نسبت رکھتا ہے اور آپ کے دعاگووں میں شامل ہے۔ آپ کے ذمہ کرم پر لازم ہے کہ اس کی دستگیری فرمائیں تاکہ اس فقر اور بڑھاپے کے وقت اپنے اہل و عیال میں فراغت اور سکون سے اپنا وقت گزاریں اور آپ کے دونوں جہان کی سلامتی کی دعامیں مشغول رہیں۔ (مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹)
حضرت مجددؒ ایک دوسرے مکتوب میں رقمطراز ہیں:
’’میاں شیخ عبد المومن بزرگ زادہ ہیں اور تحصیل علم سے فارغ ہو کر طریقۂ صوفیا کا سلوک فرماتے ہیں اور سلوک کے ضمن میں عجیب و غریب احوال مشاہدہ کرتے ہیں ۔ضرورتِ انسانی از قسم اہل و عیال ان کو حیران وبے اختیار ناچار کردیتی ہے ۔اس فقیر نے ناچار گی اور پریشا نی کو دور کرنے کے لئے آپ کی جناب کی طرف ان کی رہنمائی کی ہے۔ ’’مَنْ دَقّ بَابَ الْکَرِیْمِ انْفَتَحَ‘‘ جس نے کریم کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ کشادہ حال ہو گیا ۔ (مکتوبات، دفتر اول،حصہ چہارم ،مکتوب نمبر:۲۳۲)
حضرت مجددؒ ایک اور مکتوب میں خانِ خاناں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرنے کے بعد ایک حاجت مند کی سفارش بایں الفاظ فرماتے ہیں:
’’دو ضروری اور اہم کام بے اختیار آپ کو تکلیف دینے کا باعث بنے ہیں ۔ایک رنج و آزار کاگمان رفع کرنے کا اظہار،بلکہ آپ سے اور اخلاص کا ہونا ۔اور دوسرا ایک محتاج آدمی کی طرف اشارہ جو فضیلت اور نیکی سے آراستہ ہے اورمعرفت اور شہود سے مزین ہے ،جو نسب کے لحاظ سے کریم اور حسب کے اعتبار سے شریف ہے ۔‘‘(مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۷)
خطوط کی سیاسی اہمیت
میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ سیاسی اعتبار سے معمولی آدمی نہ تھے۔ نہ صرف اپنی خاندانی خدمات کی وجہ سے بادشاہ پر ان کے گہرے اثرات تھے، بلکہ اپنی فطری بہادری، بلند فکری، علما و صوفیا سے محبت اور فقرا و مساکین کی دادرسی کی وجہ سے ہرطبقہ میں مقبولیت کی اس سطح پر تھے جس سے زیادہ کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، لیکن اس کے باوجود حضرت مجدد ؒ نے ان کی طرف جو خطوط صادر فرمائے، ان میں اس بات کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہو کہ آپ ؒ خانِ خاناں کی اس حیثیت سے اقتدار یا ذاتی منفعت کے خواہاں ہوں۔حضرت مجددؒ نے جس انداز میں اپنے ذاتی طرزِ عمل سے اقتدار سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا، اس نے حکمران طبقے، امرا اور اشرافیہ میں آپ کی دعوت کے نفوذمیں اہم کردار ادا کیا۔ غور کیا جائے تو شیخ مجدد ؒ کے خطوط کا مرکزی نقطہ مکتوب الیہ کی اصلاح اورپھر ان کی وساطت سے دربار ی امرا اور دیگرمتعلقین کی اصلاح ہی تھی ۔آپؒ نے اس مقصد کے لیے ایسا اسلوب اختیار فرمایا کہ مکتوب الیہ کی نظر میں دنیا کا حقیر ہو نا پوری طرح واضح ہو جائے اور اس کی وساطت سے دوسرے امرا کی اصلاح اور ان کے دلوں میں اسلامی احکام کی حرمت و عزت کے تصور کو پختہ کیا جائے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مجددؒ کی اخلاص و للہیت پر مبنی ان کوششوں کے نتیجے میں ایک موقع پر میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ گورنری کا عہدہ چھوڑنے پر تیار ہوگئے۔ خانِ خاناں ؒ کی شخصی وجاہت، مقام ومرتبہ اور عہدہ و اقتدار کے باوجود حضرت مجددؒ نے احقاقِ حق میں کبھی مداہنت، چشم پوشی یا مصلحت کوشی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ایک موقع پر خانِ خاناں ؒ کو واضح اور دو ٹوک انداز میں تحریر فرمایا:
’’نجات کا راستہ اہل سنت وجماعت کی متابعت ہے۔ (اللہ تعالیٰ اس گروہ کو اور زیادہ کرے ) اقوال میں بھی،افعال میں بھی اور احوال و فروع میں بھی،کیونکہ نجات پانے والا فرقہ صرف یہی ہے ۔باقی تمام فرقے زوال اور ہلاکت کے کنارے کھڑے ہیں ۔آج کسی کے علم میں یہ بات آئے یا نہ آئے، لیکن کل (قیامت ) کو ہر ایک جان لے گا،مگر اس وقت جاننا بے سود ہوگا۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ، حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹)
حضرت مجدد ؒ نے ہمیشہ یہ کوشش فرمائی کہ خانِ خاناں کی شخصی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر دربارِ شاہی سے وابستہ دیگر لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے ۔حضرت مجددؒ نے اپنے ایک مکتوب میں میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ کے ایک فاضل شاعر دوست کے بارے معلوم ہوا ہے کہ انھوں اپنا لقب ’’کفری‘‘ اختیار کر رکھا ہے جو کہ کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں ۔ پھر آپ ؒ نے خا نِ خاناں ؒ کو تحریر فرمایا کہ اس شاعر کو میری طرف سے پیغام پہنچادیں کہ اس طرح کا کافرانہ تخلص بدل کر کوئی ایسا اسلامی لقب اختیار کریں جو جامع برکات ہو ۔ (ملاحظہ ہو: مکتوبات، دفتر اول ، حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۲۳)
خلاصۂ کلام یہ کہ خانِ خاناں کے نام حضرت مجددؒ کے مکتوبات سے جو نکات نکھر کر سامنے آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ ایک داعی اپنے مشن میں اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کی کوششیں اخلاص پر مبنی ہوں اوریہ کہ دنیوی فوائد سے بے رغبتی داعی کے پیغام کو طبقۂ امرا میں مقبول بنادیتی ہے ۔نیز حضرت مجددؒ کے زیر مطالعہ خطوط سے یہ چیز بھی سامنے آتی ہے کہ ایک داعی کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ لوگوں کی روحانی ترقی پر نظر رکھے بلکہ اسے لوگوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہنا چاہیے کہ ان کے سماجی مسائل اس کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ اگر وہ لوگوں کی براہِ راست مدد کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اصحابِ خیرکو ان کے مسائل کی طرف متوجہ کرے۔ اس انداز سے وہ لوگوں کے دل میں جگہ بنا سکتا ہے اور آسانی کے ساتھ دلوں کی زمین کو دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے ہموار کر سکتا ہے ۔