احکام شریعت بطور نعمت الٰہی
(کچھ عرصہ قبل ایک دینی مجلس میں شریعت کے ایک نعمت الٰہی ہونے کے عنوان سے گفتگو کی گئی تھی جسے ترتیب وتدوین کے بعد پیش کیا جا رہا ہے۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خاتم المرسلین محمد و آلہ وصحبہ اجمعین۔ اما بعد!
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی شریعت کے احکام بیان کرتے ہوئے اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جو ہدایات احکام کی صورت میں، شرائع کی صورت میں مسلمانوں کو دی جا رہی ہیں، یہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں اور جیسے جیسے شرائع اور احکام کا یہ سلسلہ نازل ہوتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی شریعت پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے، ویسے ویسے خدا کی نعمت بھی ان پر مکمل ہوتی جا رہی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ سارے احکام یک بارگی نازل نہیں ہوئے، بلکہ مدینہ منورہ آنے کے بعد جیسے جیسے مسلمانوں کا معاشرہ ایک خاص شکل اختیار کرتا چلا گیا، اسی کے لحاظ سے وقفے وقفے سے اللہ تعالیٰ اپنے احکام بھی ان کو عنایت فرماتے گئے۔ اپنے ان احکام کو اور قوانین کو اللہ نے اپنی نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں قبلے کے احکام کے بیان میں فرمایا ہے کہ وَلأُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (البقرہ ۲:۱۵۰)۔ سورۂ مائدہ میں جہاں وضو اور تیمم کے احکام بیان فرماتے ہیں، وہاں بھی یہ تعبیر اختیار فرمائی ہے: وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (المائدہ ۶:۶) اور وہ آیت جس کے بارے میں بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ وہ نزول کے لحاظ سے قرآن مجید کی آخری آیت ہے، اس میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے: الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً۔
بنی اسرائیل کے ذکر میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے احسانات جتلائے ہیں، وہاں اُذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ (البقرہ ۲: ۴۰) فرمایا ہے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں دوسری بہت سی نعمتیں بھی اس میں یقیناًشامل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا اشارہ خاص طور پر اس بات کی طرف دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کی دوسری قوموں کو چھوڑ کر میں نے تمھیں اس کے لیے منتخب کیا کہ تمھیں اپنے احکام اور اپنی پسند وناپسند کی تفصیل بیان کرنے والی شریعت عطا فرمائی جو تمھاری پوری زندگی کو، زندگی کے ہر ہر شعبے کو ان اعلیٰ اخلاقیات پر اور ان اعلیٰ اصولوں پر استوار کر دیتی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظر میں عدل کے لحاظ سے، انصاف کے لحاظ سے، روحانیت کے لحاظ سے زندگی کے پسندیدہ اصول اور ضابطے ہیں۔
شریعت کے نعمت الٰہی ہونے کا سب سے بنیادی اور اہم پہلو تو یہ ہے کہ یہ انسانی زندگی کے معاملات کو اللہ کی منشا اور اس کی مرضی کے مطابق منظم کرتی ہے۔ اللہ کی نظر میں انسانیت کا شرف کیا ہے؟ انسانیت کا اصل معیار کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو اخلاقی شعور دیا ہے اور اس کی فطرت میں اس کے بنیادی تصورات کو پیوست کر دیا ہے، انسان ان کے مطابق عمل کرے۔ فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (الشمس ۹۱:۸)۔ نیکی اور بدی کا، اچھائی اور برائی کا بنیادی شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے، البتہ اس اخلاقی احساس کا عملی ظہور کس شکل میں ہونا چاہیے؟ اس کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت انسان میں کامل نہیں ہے۔ شریعت اصل میں بنیادی اخلاقی شعور کے عملی تقاضوں کو معین کرنے میں اللہ کی طرف سے انسان کی مدد اور اس کی راہ نمائی ہے۔ ہر انسان یہ مانتا ہے، اپنے دل میں اس کا احساس رکھتا ہے کہ ظلم نہیں ہونا چاہیے، کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے، لیکن کون سا کام ہے جو حق تلفی پر مبنی ہے اور کون سا نہیں ہے؟ اس میں بعض دفعہ انسان صحیح فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ انسان پر خواہشات کا بھی غلبہ ہے، اس پر تعصبات کا بھی غلبہ ہے اور یہ چیزیں مل کر انسان کی عقل کو متاثر کر لیتی ہیں۔ بڑے بڑے فلسفیوں کو اس کا قائل کر لیتی ہیں کہ فلاں چیز ظلم نہیں ہے، حالانکہ حقیقت میں، اللہ کی نظر میں وہ ظلم ہوتی ہے۔ تو اخلاقیات کا بنیادی شعور انسان کو حاصل ہے، لیکن ان اخلاقی تصورات کو عملاً کیسے روبعمل کرنا ہے؟ اس کے تقاضے جب عمل کی صورت میں ڈھلیں گے تو کیا شکل اختیار کریں گے؟ اس کو معین کرنے میں انسان کی عقل بہت سے مقامات پر اس کی راہ نمائی نہیں کرتی اور وہ افراط وتفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔
خدا اپنی شریعت اسی لیے نازل کرتا ہے کہ زندگی کے جو بنیادی اور بڑے بڑے معاملات ہیں، کم سے کم ان میں انسان ٹھوکر نہ کھائے اور کسی اخلاقی اصول کا یا کسی اخلاقی تصور کا انسان کے عمل میں اور اس کے معاملات میں جو بالکل صحیح نتیجہ نکلنا چاہیے، وہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے۔ باقی جو ضمنی چیزیں اور فروعی تفصیلات ہیں، وہ چھوڑ دی جاتی ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ شریعت کے تمام احکام اس پہلو سے انسان کی غیر معمولی مدد کرتے ہیں کہ وہ اخلاقی اصولوں کو عمل کی اور عملی ضابطوں کی شکل جب دے تو صحیح نتیجے پر پہنچے اور ان پر عمل کر کے وہ اپنی زندگی کے ظاہری معاملات کو بھی پاکیزہ بنائے اور جو اس کی اخلاقی اور روحانی شخصیت ہے، اس کا بھی تزکیہ کرے اور اس طرح اللہ کا قرب حاصل کر لے۔ ساری شریعت اصل میں عمل صالح کی تفصیل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی خاص نعمت اور ایک خاص عنایت انسانیت پر کی گئی ہے۔
عمل صالح میں یہ جو روز مرہ زندگی کے معاملات ہیں، ان کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ شریعت کے جو قوانین ہیں، ان کا دائرہ زندگی کے کم وبیش تمام معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔ ان میں سے خاص طو رپر مرنے والے کے مال کی تقسیم سے متعلق جو احکامات ہیں، آج کی نشست میں ہم ان پر اس پہلو سے غور کرنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ نے یہ جو ہدایات ہمیں دی ہیں، ان میں نعمت کے کون کون سے نمایاں پہلو موجود ہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید جب نازل ہوا تو عرب معاشرے میں وراثت کی تقسیم کے معاملے میں جو عام قاعدہ چل رہا تھا اور جس کو عملاً مان بھی لیا گیا تھا، وہ یہ تھاکہ آدمی کے مرنے کے بعد اس کا مال اس کے اعزہ واقربا میں عام طو رپر تقسیم نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کے پس ماندگان میں اور اس کے خاندان میں جو آدمی بھی زیادہ با اثر ہوتا تھا، مختلف وجوہ سے جس کی بات زیادہ چلتی تھی، وہ مال سمیٹ کر بیٹھ جاتا تھا۔ جب طاقت ور لوگ اور با اثر لوگ ایک چیز کو سوسائٹی میں رواج دے دیتے ہیں تو وہ چاہے نا انصافی پر مبنی ہو، ظلم پر مبنی ہو، عملاً اس کو مان ہی لیا جاتا ہے اور ایک خاص طرح کا تحفظ اور جواز اس کو مل ہی جاتا ہے۔ تو جاہلی معاشرے کا جو عام منظر تھا، وہ یہی تھا۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت کے معاشرے کے اور مشرکین کی جو چوٹی کی قیادت ہے، اس کے جو اخلاقی جرائم قرآن میں بیان کیے ہیں اور خاص طور پر سورۂ فجر سے آگے جو تیسویں پارے کا نصف آخر ہے، اس میں یہ چیز نمایاں ہے۔ وراثت کے مال کو سمیٹ کر ہڑپ کر جانا اور مرنے والے کے چاہے یتیم بچے ہیں یا بچیاں ہوں جو اس مال کے زیادہ ضرورت مند ہیں اور اس مال پر زیادہ حق رکھتے ہیں، ان کو محروم کر دینا اور بجائے اس کے کہ یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھا جائے، الٹا ان کے مال کو سمیٹ کر ہضم کر جانا یہ عرب معاشرے کا عام منظر تھا اور اس میں ان کی اعلیٰ ترین قیادت بھی شامل تھی جو صرف سیاسی قیادت نہیں تھی، بلکہ مذہب کے بھی وہ ٹھیکے دار تھے۔ قریش کوئی سیکولر مذہبی گروہ نہیں تھا۔ وہ خدا کے گھر کے پروہت تھے اور ان کے بڑے بڑے سردار خانہ کعبہ کے متولیوں میں شمار ہوتے تھے۔ قرآن نے ان کی سیرت کا اور ان کے کردار کا یہ پہلو خاص طو رپر نمایاں کیا ہے۔
گویا منظر یہ تھا کہ جو خاندان میں صاحب اثر ہے، صاحب رسوخ ہے، سارا مال وہ سمیٹ کر بیٹھ جاتا تھا اور مال کی تقسیم حق داروں میں نہیں ہوتی تھی، اعزہ واقربا میں نہیں ہوتی تھی۔ بالخصوص خواتین کے بارے میں تو عرب معاشرے میں جو تصورات رائج تھے، وہ آپ جانتے ہیں۔ قرآن مجید نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ نہ صرف عرب معاشرہ بلکہ دنیا میں جتنے بھی ایسے معاشرے ہوئے ہیں جن کو خدا کی شریعت کی روشنی نہیں ملی اور جن کو خدا کی طرف سے احکام وہدایات کی نعمت نہیں ملی، ان سب کا یہی معاملہ رہا ہے۔ آپ دنیا بھر کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔ قدیم ترین تہذیبیں جو اپنے وقت کی بڑی متمدن اور ترقی یافتہ تہذیبیں سمجھی جاتی ہیں، ان میں بھی یہ بات بطور ایک قانون اور بطور ایک مسلمہ کے مانی جاتی تھی کہ یہ جو معاشرتی حقوق ہیں، معاشرے میں رہتے ہوئے کسی فرد کو مال پر اختیار کے لحاظ سے، مال پر تصرف کے لحاظ سے اور ملکیت کے لحاظ سے جو حقوق حاصل ہونے چاہییں، عورتیں اس کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور، ضعیف، محتاج اور کمتر مخلوق ہے جس کی زندگی سر تا سر مردوں کی احتیاج پر مبنی ہے۔ یہ ان کی دست نگر ہے اور خود بیچاری کچھ بھی نہیں کر سکتی۔
انسان میں جو طاقت کا ایک شعور ہے، ظاہر ہے کہ وہ ایک خاص نفسیاتی احساس پیدا کرتا ہے۔ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا گیا، اس وقت سے لے کر آج تک انسانی زندگی میں، انسانی معاشر ے کے قیام میں، معاشرے کی تشکیل میں اور معاشرے کو ترقی اور ارتقا کے ایک خاص نہج پر ڈھالنے میں اللہ نے جو مرد کو ایک جسمانی طاقت دی ہے، اس کا غیر معمولی کردار ہے۔ اگر خطروں سے نبرد آزما ہونے کی یہ طاقت جو اللہ نے مرد کو دی ہے اور یہ حوصلہ اور جرات نہ ہوتی تو معلوم نہیں یہ مخلوق اس زمین پر آباد بھی رہ سکتی یا نہیں۔ انسانی تمدن کے محققین بتاتے ہیں کہ ابتدا میں تو ساری زمین جنگلات سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں شیر، چیتے اور درندے گھومتے پھرتے تھے۔ اس ماحول میں انسان نے اپنی اور اپنی نسل کی بقا اور تحفظ کے لیے جو جدوجہد کی، اس میں ظاہر ہے کہ مرد کی جسمانی طاقت کا بنیادی کردار ہے۔ قرآن مجید نے بھی یہ بات بیان کی ہے کہ مرد کو اللہ نے بعض پہلوؤں سے عورت پر فضیلت دی ہے جس میں نمایاں چیز یہ ہے کہ مرد کو جسمانی طاقت دی ہے، حوصلہ دیا ہے اور وہ تمام بنیادی ذمہ داریاں جن سے انسانی معاشرہ بنتا ہے،کم وبیش ان سب کا انحصار مرد کی طاقت اور جسمانی قوت پر ہے۔
اب عورت کی یہ جو خلقی کمزوری ہے، وہ ہر شخص کو دکھائی دیتی ہے۔ اس خلقی کمزوری کی بنا پر آپ دنیا کی تاریخ کا، دنیا کی تہذیبوں میں عورت کے مقام کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بڑے بڑے فلسفی، افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفی باقاعدہ اس کو ایک فلسفے کے طو رپر بیان کرتے ہیں کہ عورت، مرد سے کم تر مخلوق ہے۔ وہ اس کو مرد کے ساتھ انسان ہونے میں تو شریک مانتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے اور اپنے مقام کے لحاظ سے اس کا مرد کے ساتھ کیا تقابل ہے اور اس کا یہ حق کیونکر بنتا ہے کہ وہ مرد کے ساتھ سماجی اور معاشرتی اور معاشی حقوق میں شریک ہونے کی بات کرے۔ یہ بات فلسفیانہ اور نظریاتی سطح پر دنیا میں کم وبیش ہر جگہ مانی جاتی تھی۔ قرآن جس عرب معاشرے میں نازل ہوا، اس میں بھی عورت کے لیے مال کاوارث بننے کا امکان تو دور کی بات ہے، وہ خود بطور وراثت کے آگے مرنے والے کے وارث کو منتقل ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ایک آدمی نے اگر شادی کی ہوئی ہے اور وہ مر گیا ہے تو اس کے بعد اس کا بیٹا جو اس کی کسی دوسری بیوی سے پیدا ہوا ہے، وہ اپنے باپ کی منکوحہ کو باپ کی وراثت کے طور پر اپنے نکاح میں لے لیتا تھا۔ اس ماحول میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت نازل کی۔ مکی دور میں تو ظاہر ہے کہ اخلاقی تذکیر پر توجہ مرکوز رکھی گئی، قریش کو تنبیہ کی گئی اور ان کو توجہ دلائی گئی۔ عورتوں کے بارے میں جو ان کے تصورات تھے، ان کی اصلاح کی گئی اور پھر جب مسلمان مدینہ میں منظم ہونے لگے تو ان کا اپنا ایک خاندانی نظم وجود میں آنا شروع ہوا۔ ابتدا میں مہاجرین وانصار کی مواخات بھی ہوئی۔ بہت سے افراد کا آپس میں موالات کا تعلق بھی تھا۔ عرب معاشرے میں اس کے علاوہ بھی بعض تعلق ایسے تھے جن کی بنیاد پر وراثت ایک دوسرے کو دی جا سکتی تھی۔ یہ ایک عرصہ تک قائم رہے، پھر قرآن نے رفتہ رفتہ ان قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے اور بتدریج ان کی اصلاح کرتے ہوئے سورۂ نساء میں وراثت سے متعلق اپنے قوانین کو وہ آخری شکل دی جو آج ہم قرآن مجید کی آیات میں اور احادیث اور فقہ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔
اب دیکھیں یہ اللہ کی نعمت ہے، اس لحاظ سے کہ یہ بات لوگوں سے منوانا کہ مرنے والے کے بعد اس کے مال میں اس کے سبھی اعزہ واقربا کا حق ہے جو اس کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں، میرا خیال ہے کہ اگر اس کو انسانوں پر چھوڑ دیا جاتا تو یہ تسلیم کروانا کم وبیش ناممکن بات ہوتی۔ انسانوں میں ظلم اور استحصال کا جو مادہ ہے، وہ اپنے جواز کے لیے کئی طرح کے استدلالات گھڑ لیتا ہے۔ یہ بات سمجھانا کہ مرنے والے کے مال میں حق صرف طاقت ور او ربا رسوخ اور سربرآوردہ شخص کا نہیں، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہیں، آسان کام نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے حق میں بڑے پریکٹیکل قسم کے استدلالات موجود تھے۔ دنیا میں عام طو رپر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد مال پر حق اصلاً مرنے والے کی اولاد کا ہے۔ ماں باپ بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کو خاص ضرورت نہیں۔ خواتین ویسے ہی معاشی ذمہ داری میں شریک نہیں۔ ان کی کفالت مردوں نے ہی کرنی ہے۔ بہن بھائیوں کا اپنا الگ خاندان ہے، گھر بار ہے۔ تو ان سب کا مال سے کیا واسطہ؟ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ باپ کے بعد گھر کی ذمہ داریاں اور معاملات بڑا بیٹا سنبھالتا ہے۔ چھوٹے بھائی بھی عام طور پر بڑے بھائی کے زیر سایہ ہی پرورش پاتے ہیں۔ یہ چیز بڑے بیٹے کو ایک خاص جگہ دے دیتی ہے اور دنیا کے معاشروں میں عملاً وراثت کا حق دار بڑا بیٹا ہی قرار پاتاہے۔ قرون وسطیٰ میں بہت سے مغربی ملکوں میں جب جاگیرداری کا نظام رائج تھا تو زمین کو تقسیم در تقسیم سے بچانے کے لیے اور بڑی بڑی جاگیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے قانوناً وراثت کا حق صرف سب سے بڑی اولاد کے لیے تسلیم کیا جاتا تھا۔ انگریزی میں اس کے لیے Primogeniture کی قانونی اصطلاح استعمال ہوتی تھی کہ جو پہلی اولاد ہے، وراثت اسی کا حق ہے۔
اب یہ بات شریعت نے لوگوں کو بتائی اور سمجھائی اور صرف بتائی اور سمجھائی نہیں، صر ف مشورہ نہیں دیا، بلکہ اس کو ایک واجب الاتباع حکم قرار دے کر، فریضۃ من اللہ قرار دے کر ابدی طور پر قانون کا حصہ بنا دیا کہ مرنے والے کے مال میں اس کے ان تمام اعزہ واقربا کا حق ہے جن کے ساتھ اس کا قریبی نسبی یا صہری رشتہ ہے، اس میں ماں باپ بھی شریک ہیں، اس میں میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے وارث ہیں، اس میں حالات کے لحاظ سے بہن بھائی بھی شریک ہیں اور اولاد میں صرف بیٹے نہیں، بلکہ بیٹیاں بھی وارث ہوں گی۔ اس تصریح سے قرآن نے سورۂ نساء کی آیت ۷ میں اس کو بیان کیا کہ لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ، کہ ترکے میں مردوں کا بھی حق ہے۔ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ، اور عورتوں کا بھی حق ہے اور اس میں اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں کہ چھوڑا ہوا مال زیادہ ہے یاکم ہے۔ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ۔ چار روپے ہیں، تب تقسیم ہوں گے اور چار کروڑ ہیں، تب تقسیم ہوں گے۔ اب دیکھیں، قرآن کے اس اصول میں اور جو عام طور پر دنیا میں رواج چلتا رہا ہے، اس میں اخلاقی لحاظ سے اور رشتہ داروں کے باہمی تعلقات کی بنیاد پرجو حقوق بنتے ہیں، ان کے لحاظ سے، روحانیت کے لحاظ سے کتنا فرق ہے۔ قرآن کا یہ قانون اعلیٰ اخلاقیات پر مبنی ہے، صلہ رحمی اور رشتہ داری کے جو حقوق ہیں، ان کی پاس داری پر مبنی ہے اور اس کا لحاظ نہ رکھنے سے رشتہ داروں میں جو منافرت اور حسد اور بغض کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، ان کا اس میں کس طرح مداوا ہے۔ اب شاید دنیا میں لوگ اس کی اہمیت محسوس نہیں کرتے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ قرآن نے جو بات کہی تھی، اس کے پھر دنیا کی تہذیبوں پر اثرات مرتب ہوئے اور حقوق کے حوالے سے انسانی تصورات میں دور رس تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی صورت میں دنیا کے سامنے جو یہ تصور رکھا، اس کے غیر معمولی اثرات ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اخلاقی لحاظ سے بھی اور عملی لحاظ ے بھی یہ خدا کی ایک نعمت ہے جو اس نے اپنی شریعت کی صورت میں انسانوں کو دی ہے۔
پھر ایک دوسرا پہلو ہے۔ مرنے والے کے مال میں یہ سارے رشتہ دار حق رکھتے ہیں، یہ بات تو واضح ہو گئی، سمجھ میں آ گئی، بتا دی گئی۔ اب اس سے آگے اس سے بھی اہم مسئلہ ہے۔ پہلی صورت میں ایک بد اخلاقی تو تھی، لیکن کم سے کم عملاً اس میں نزاع نہیں ہوتا تھا۔ یہ بات مانی ہوئی تھی کہ چلیں، جو بڑا بیٹا ہے یا جو خاندان کا بڑا ہے، وہی مال لے۔ جس کی لاٹھی ہے، اسی کی بھینس ہے۔ ٹھیک ہے، نزاع نہیں ہوتا تھا، جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔ عام طور پر ایسے ہی ہوتا ہے کہ جو مظلوم طبقہ ہوتا ہے، وہ کچھ عرصے کے بعد ویسے ہی اپنی اس حیثیت کو قبول کر لیتا ہے۔ وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے ہی نہیں۔ اس کے ذہن سے اپنے حق کا تصور ہی محو ہو جاتا ہے۔
مجھے میرے ایک استاذ نے یہ واقعہ سنایا۔ یہ ایک مثال ہے، ورنہ آپ کو ہر جگہ ایسے واقعات مل جائیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے تک رذیل اور شریف کا بہت شدید فرق ہوتا تھا۔ اب شاید کچھ فرق پڑ گیا ہو، لیکن بالکل ختم نہیں ہوا۔ میل ملاپ میں، اٹھنے بیٹھنے میں ہر اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا کہ کوئی ’’کمی‘‘ چارپائی پر میرے یا آپ کے ساتھ برابر بیٹھ سکے۔ میں ایک مرتبہ گاؤں گیا تو چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔ گاؤں کا ایک کمی آیا، اس نے سلام کیا اور نیچے بیٹھ گیا۔ میں نے اسے پکڑ کر زبردستی کہا کہ میرے ساتھ اوپر چارپائی پر بیٹھو۔ وہ منع کرتا رہا، لیکن میں نے کہا کہ نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اٹھو اور میرے ساتھ بیٹھو۔ وہ بے چارہ بیٹھ گیا۔ شاید اس نے بھی الامر فوق الادب سنا ہوگا۔ بعد میں اس نے تبصرہ کیا کہ دیکھو، یہ شہر سے پڑھ لکھ کر آ گیا ہے، اب میں اس کو کیا کہتا! تو جب آپ کسی آدمی کو، کسی طبقے کو عزت اور اکرام کے تصور سے محروم کر دیتے ہیں تو رفتہ رفتہ یہ چیز ان کے لاشعور میں داخل ہو جاتی ہے کہ ہاں، یہ ایسے ہی ہے اور ایسے ہی معاملات چلتے رہیں گے۔
خیر، میں عرض یہ کر رہا تھا کہ پہلے وراثت کے معاملے میں تنازع نہیں ہوتا تھا، لیکن جب قرآن نے یہ سمجھا دیا، بتا دیا کہ دوسرے رشتہ داروں کا بھی حق ہے تو اب اس کے بعد تو جھگڑا پڑے گا۔ اب جھگڑا یہ پڑے گاکہ کس کا کتنا حق ہے؟ یہ خدا کا بڑا فضل ہے کہ اس نے جھگڑے کا یہ راستہ کھولنے کے بعد اس کا حل بھی بتایا ہے اور قرآن میں اس نے خود اس سارے معاملے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس نے اصول بھی واضح کیا ہے کہ مرنے والے کے مال میں سب کو حصہ کیوں ملنا چاہیے اور پھر تناسب بھی بتا دیا ہے کس رشتہ دار کو کس صورت میں کتنا ملنا چاہیے۔ اصول یہ بتایا کہ کسی کے مرنے کے بعد رشتہ داروں کو اس کا مال ملنے کی جو اخلاقی اساس ہے یا یہ سمجھیں کہ اس کی جو قانونی بنیاد ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنے مختلف قریبی رشتہ داروں سے فائدہ ملتا ہے۔ رشتہ داری کی ایک خاص منفعت ہوتی ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ مالی فائدہ ہی ہو۔ ماں باپ یا اولاد یا میاں بیوی یا بہن بھائی، یہ سب آپس میں رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور معاشرے میں رہتے ہوئے، زندگی میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ان کو ایک دوسرے سے نفع حاصل ہوتا ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ جو رشتہ داروں کے مابین منفعت کا تعلق ہے، یہ اس کی بنیاد ہے کہ مرنے کے بعد اس کے مال میں ان سب کو حصہ ملے۔ اب کس رشتہ دار سے کتنی منفعت انسان کو ملتی ہے، اس کا فیصلہ کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں اوریہ بات اگر اجتہاد پر چھوڑ دی جاتی تو مستقل طور پرنزاعات کا ایک باب کھلا رہتا۔ قرآن نے یہ فیصلہ کر دیا کہ لاَ تَدْرُونَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعاً (النساء ۴:۱۱)۔ تم یہ طے نہیں کر سکتے کہ کون سا رشتہ دار دوسروں کے مقابلے میں زیادہ منفعت کا باعث ہے اور اس کو تمھارا مال زیادہ ملنا چاہیے۔ اللہ نے تمھاری اس کم علمی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور جھگڑوں کاباب بند کرنے کے لیے یہ حصے بھی طے کر دیے ہیں۔ اب اس باب میں کوئی نزاع ممکن نہیں۔ بعض چھوٹی موٹی اجتہادی شکلوں میں اس نے اختلاف کی گنجائش چھوڑ دی ہے، لیکن جو نہایت قریبی رشتہ دار ہیں اور ان کے وراثت میں شریک ہونے کی جو بنیادی صورتیں ہیں جو دنیا میں عام طو رپر پیش آتی ہیں، وہ ایسی ہیں کہ ان میں قرآن کی بیان کردہ تقسیم کافی ہوتی ہے۔
اب آپ دیکھیں کہ اللہ نے شریعت کی صورت میں اپنی جو نعمت عطا کی ہے، اس کے متعلق ہمارا رویہ کیا ہے۔ ہم سے پہلے اللہ کی اس نعمت کی ناشکری یہود نے بھی کی تھی اور بدقسمتی سے آج ہم مسلمان بھی کر رہے ہیں۔ یہود نے بھی یہی رویہ اختیار کیا تھا کہ خداکی نعمت کے موجود ہوتے ہوئے، اللہ کی کتاب کے اپنے پاس موجود ہوتے ہوئے وہ فیصلے اپنی خواہشات اور سطحی مفادات کے تحت کرتے تھے۔ سورۂ مائدہ میں دیکھیں ،اللہ تعالیٰ نے شریعت موسوی کی شان کیسے بیان فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ہم نے جو تورات نازل کی تھی، اس میں نور بھی تھا، اس میں ہدایت بھی تھی اور اللہ کے انبیاء اس کے مطابق فیصلہ کرتے رہے، بنی اسرائیل کے نیک لوگ اور علماء اس کے مطابق فیصلہ کرتے رہے، لیکن ان یہودی احبار ورہبان نے کیا وتیرہ اپنا رکھا ہے؟ یہ اپنے مفادات، دنیوی خواہشات اور سفلی اغراض کے تحت شریعت کے ہوتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے، اس سے گریز کرتے ہیں۔
آج بدقسمتی سے ہم مسلمان بھی اس معاملے میں انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ آج ہمارے ہاں خدا کی شریعت کے معاملے میں عجیب وغریب رویے پیدا ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسے طبقات پیدا ہو گئے ہیں جو شریعت سے صاف منحرف اور باغی ہیں اور وہ کھلم کھلا اس کو چیلنج کرتے ہیں کہ یہ تو ایک دقیانوسی دور کی تقسیم ہے جب عورتوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وراثت میں عورتوں کے حصے کم کیوں ہیں؟ ان کو بھی پورا حصہ ملنا چاہیے۔ یہ ایک باغیانہ رویہ ہمارے بعض طبقات کے ہاں شریعت کے حوالے سے پیدا ہو چکا ہے۔ اس محدود طبقے کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو ہمارے ہاں بیشتر لوگ، خاص طو رپر جو عام مسلمان ہیں، وہ شریعت کا انکار تو نہیں کرتے، اس کے مقابلے میں کھڑے ہو کر چیلنج تو نہیں کرتے، لیکن آپ دیکھ لیں کہ شریعت کے قوانین پر عمل کے معاملے میں صورت حال کیا ہے۔ وراثت کے معاملے میں ہی دیکھ لیں۔ اس معاملے میں تو میرا خیال ہے کہ دین داروں اور غیر داروں میں بھی کوئی خاص فرق ڈھونڈنا مشکل ہے۔ خواتین کے معاملے میں عملاً یہ مان لیا گیا ہے اور بہت سے جذباتی ہتھکنڈے اور دباؤ استعمال کر کے خواتین کو بھی اس پر قائل کر لیا گیا ہے کہ وہ باپ یا ماں کے مرنے کے بعد وراثت میں اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں۔ کوئی بہن اگر حصہ مانگ لے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے کہ وہ بھائیوں سے حصہ مانگتی ہے۔ دین دار لوگ ہیں تو انھوں نے بھی اس کے جواز کے لیے یہ راستہ نکالا ہوا ہے کہ بہنوں سے معاف کروا لیتے ہیں۔ بہت سے دین دار ہیں جو ایسا کروا لیتے ہیں تاکہ یہ کہہ سکیں کہ ہم نے بہنوں کی حق تلفی نہیں کی۔ بھئی، اگر بہن کو یہ منظر نظر آ رہا ہو کہ آج میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے لے لوں گی اور اس کے بعد باقی ساری زندگی کے لیے میرے ساتھ تعلق ختم ہوجائے گا اور اگر رہے گا بھی تو بس برائے نام رہے گا تو اس نے تو معاف کرنا ہی ہے۔
ہمارے استاذ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایسی زبانی کلامی معافی کا کوئی اعتبار نہیں، چاہے بہن دس دفعہ منہ سے کہہ دے یا لکھ کر دے دے کہ میں نے اپنا حق معاف کیا، کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ یہ حقیقت میں طیب خاطر سے معاف نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ معافی وہ معتبر ہے کہ آپ بہن کو اس کا جو حصہ بنتا ہے، وہ الگ کر کے اس کے سپرد کریں۔ وہ بالفعل اس کی مالک بن جائے، اس کو اس میں تصرف کا حق حاصل ہو جائے اور پھر اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے، کسی دباؤ کے بغیر اور کسی طعن وتشنیع یا قطع تعلق کے خوف کے بغیر یہ کہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں، میں اپنے بھائی کو دیتی ہوں تو وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن جہاں کسی قسم کا کوئی دباؤ، کوئی خوف یا قطع تعلق کا کوئی اندیشہ شامل ہوگا تو اس معافی کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں، بلکہ بعض اکابر صحابہ وتابعین کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اگر عورت شادی ہونے اور بچے کو جنم دینے سے پہلے اس طرح کا کوئی فیصلہ کرے تو وہ اسے قانوناً نافذ ہی نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جلیل القدر تابعی عامر شعبی کہتے ہیں کہ قریش کی ایک لڑکی سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اپنے شوہر کے پاس جانے سے پہلے اپنی وہ میراث جو تمھیں اپنے والد کی طرف سے ملی ہے، مجھے ہبہ کر دو۔ لڑکی نے اس کی بات مان لی، لیکن پھر شادی ہو جانے کے بعد اس نے اپنی میراث دوبارہ مانگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اسے واپس دلوا دی اور قاضی شریح کو تاکید کی کہ جب تک عورت اپنے شوہر کے گھر میں جا کر ایک سال نہ گزار لے یا ایک بچے کو جنم نہ دے دے، اس وقت تک اس کی طرف سے ہبہ کے فیصلے کو نافذ نہ مانا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۲۱۹۱۴، ۲۱۹۱۶) اس فیصلے کے پیچھے بھی یہی حکمت دکھائی دیتی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی اپنے مال کے متعلق بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی اور مال کی اہمیت کا احساس اسے دراصل شوہر اور بچوں والی زندگی سے واسطہ پیش آنے کے بعد ہی ہوتا ہے، اس لیے وراثت میں اپنا حق معاف کرنے یا نہ کرنے کے ضمن میں اس کا فیصلہ بھی وہی معتبر ہوگا جو وہ اس صورت حال سے سابقہ پیش آنے کے بعد کرے گی۔
بہرحال ہمارے معاشرے میں عملاً یہی ہو رہا ہے اور خواتین کو ان کا حق نہیں ملتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنی اس نعمت کی قدر کرنے، اس کے جو فوائد اور حکمتیں ہیں، ان کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی توفیق اور ان سے جو اخلاقی، روحانی، معاشرتی فوائد وبرکات حاصل ہو سکتے ہیں، ان سے بہرہ ور ہونے کی سعادت ہمیں نصیب فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
احتجاج وانتقام اور اسلامی اخلاقیات
غصہ، نفرت اور انتقام کے جذبات دوسرے تمام جذبات کی طرح انسانی فطرت میں پیوست ہیں اور ان کا اظہار انسانی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ خدا کے پیغمبر جب انسان کو اپنے پیغام کا مخاطب بناتے اور انسانی شخصیت کی تعمیر وتہذیب کی بات کرتے ہیں تو ان فطری جذبات کی نفی نہیں کرتے اور نہ انھیں غیر فطری طو رپر دبا دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ انسان کو یہ بتاتے ہیں کہ ان جذبات کے اظہار کے جائز اور مشروع مواقع کون سے ہیں اور ان کا اظہار کرتے ہوئے انسان کو کون سے اخلاقی حدود کا پابند رہنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرۂ عرب میں مبعوث کیا گیا تو عرب معاشرہ غصے اور انتقام کے جذبات کے اظہار کے حوالے سے سنگین قسم کی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کا شکار تھا۔ مثال کے طو رپر حریف قبائل کے مابین لڑائی او رکشمکش کی فضا میں یہ بات عام تھی کہ اگر ایک قبیلے کے آدمی نے دوسرے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کر دیا ہو تو مقتول کے ورثا کا یہ حق سمجھا جاتا تھا کہ وہ براہ راست قاتل تک رسائی حاصل نہ کر سکے تو وہ اس کے کسی قریبی عزیز اور یا پھر اس کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو جہاں موقع ملے، قتل کر دے۔ یہ قصاص اور بدلے کا ایک مسلمہ قاعدہ تھا جس پر پورے عرب معاشرے میں عمل جاری تھا۔ یہ طریقہ نفسیاتی طو رپر اگرچہ باعث تسکین تھا اور اس سے مقتول کے ورثا کے جذبات بھی بڑی حد تک ٹھنڈے ہو جاتے تھے، لیکن ظاہر ہے کہ اخلاقی لحاظ سے اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ چنانچہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو انتقام اور بدلے کے اس جاہلانہ ضابطے کو قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا اور حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب معاشرت کی اصلاح کے حوالے سے جہاں دوسرے بہت سے امور کا ذکر کیا، وہاں یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ :
لا یؤخذ الرجل بجریرۃ أخیہ ولا بجریرۃ أبیہ (طبرانی، المعجم الاوسط، ۴۱۶۶)
’’کسی شخص کو اس کے بھائی یا باپ کے جرم میں نہ پکڑا جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے یہ بھی واضح فرمایا کہ عدل وانصاف اور معاشرتی اخلاقیات کی پاس داری صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات میں نہیں، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات میں بھی ضروری ہے، یہاں تک کہ اگر کسی گروہ کا اجتماعی رویہ واضح طو رپر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عناد، دشمنی اور مخاصمت کا مظہر ہو، تب بھی مسلمانوں کی طرف سے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہمیشہ شریعت کے بیان کردہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے گی۔ سورۂ مائدہ کی آیت ۲ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدہ۵: ۸)
’’ ایمان والو، اللہ کی خاطر عدل وانصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ، اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی تمھیں برانگیختہ کر کے ناانصافی پر آمادہ کردے۔ عدل پر قائم رہو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمھارے اعمال کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
سیرت نبوی اور سیرت صحابہ میں ہمیں اس اخلاقی ہدایت کی پاس داری کی نہایت روشن مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ دیکھیے، عہد نبوی کے یہودیوں کے متعلق قرآن مجید نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ ۔اہل ایمان کے ساتھ سب سے بڑھ کر دشمنی رکھنے والا گروہ ہیں۔ (سورۂ مائدہ، آیت ۸۲) اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی طرف سے ان کے ساتھ جس اعلیٰ درجے کا اخلاقی معاملہ کیا گیا، اس کا اندازہ درج ذیل دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے:
فتح خیبر کے بعد ایک موقع پر دو انصاری صحابی عبد اللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر کی طرف گئے اور اپنے اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد محیصہ نے عبد اللہ بن سہل کو اس حالت میں پایا کہ انھیں قتل کر دیا گیا تھا اور وہ خون میں لت پت ایک جگہ پڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ عبد اللہ بن سہل کے ورثا اپنا مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور یہود سے قصاص لینے کا مطالبہ کیا۔ آپ نے ان سے کہا کہ تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھالیں (کہ یہ قتل فلاں یہودی نے کیاہے) تو میں ملزم کو تمھارے حوالے کر دو ں گا۔ انصار نے کہا کہ ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ قاتل کو دیکھے بغیر قسم اٹھالیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر یہودیوں سے کہتے ہیں کہ وہ تمھیں قسمیں دے دیں کہ وہ اس جرم سے لا تعلق ہیں، لیکن مقتول کے ورثا نے کہا کہ ہم ان کی قسموں پر کیونکر اعتبار کر سکتے ہیں؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدمے کو نمٹانے کے لیے اس انصاری کی دیت بیت المال سے ادا کردی تاکہ اس کا خون رائیگاں نہ جائے۔ (بخاری، رقم ۳۰۰۲)
خیبر کا یہ سارا علاقہ یہودیوں کا تھا اور بدیہی طو رپر یہ کام انھی میں سے کسی کا تھا، بلکہ بعض روایات کے مطابق یہودیوں نے اس قضیے میں اس بات کی قسمیں دینے سے بھی انکار کر دیا تھا کہ ہمارا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ان قرائن اور یہود کے سابقہ کردار کی روشنی میں اس کی ذمہ داری ان پر ڈال سکتے تھے، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور وہی طریقہ اختیار فرمایا جس کی شریعت اور قانون اجازت دیتے تھے۔
خیبر کی فتح کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے یہودیوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ زمین مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیت ہوگی، لیکن عملاً یہود کے تصرف میں رہے گی اور وہ اس کی فصل یہودیوں اور مسلمانوں کے کے مابین تقسیم ہوگی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن رواحہ کو وہاں بھیجا جنھوں نے وہاں کی فصل کا جائزہ لے کر مقدار کا اندازہ کیا اور پھر یہود سے کہا کہ:
’’اے قوم یہود، تم اللہ کی مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ مبغوض ہو۔ تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور اللہ کے خلاف جھوٹ کی نسبت کی۔ لیکن تمہارے ساتھ یہ نفرت مجھے اس پر آمادہ نہیں کرتی کہ میں تم پر کوئی زیادتی کروں۔ میں نے کھجوروں کا اندازہ بیس ہزار وسق لگایا ہے۔ اگر تمھیں منظور ہو تو ٹھیک ورنہ یہ محض میرا اندازہ ہے۔ یہود نے کہا: اسی انصاف کے سہارے تو زمین وآسمان قائم ہیں۔‘‘ (مسند احمد، رقم ۱۴۴۲۵)
یہی طرز عمل مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ بھی اختیار کیا۔ امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی خبیب انصاری اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بعض مشرک کے قبائل کے ہاتھوں گرفتار ہو کر قریش مکہ کی قید میں پہنچ گئے جنھوں نے انھیں غزوۂ بدر میں حار ث بن عامر کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب مقررہ دن خبیب کو قتل کرنے کے لیے لوگ جمع ہوئے اور خبیب کو بھی اس کی اطلاع دے دی گئی تو انھوں نے شہادت پانے سے پہلے اپنے جسم کی صفائی کے لیے ان سے استرا مانگا۔ حارث بن عامر کی بیٹی بتاتی ہیں کہ میری بے دھیانی میں میرا ایک بچہ کھیلتا کھیلتا خبیب کے پاس جا پہنچا اور جب میری نظر پڑی تو استرا خبیب کے ہاتھ میں تھا اور میرا بچہ ان کی گود میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں یہ منظر دیکھ کر گھبرا گئی جسے خبیب نے بھی بھانپ لیا اور مجھ سے کہا کہ کیا تم ڈر رہی ہو کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ نہیں، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ (بخاری، رقم ۲۸۸۰)
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ زمانہ مسلمانوں اور قریش کے مابین تعلقات کے تناؤ کے عروج کا زمانہ تھا اور جنگ بدر ابھی حال ہی میں رونما ہوئی تھی۔ مشرکین عرب، جیسا کہ معلوم ہے، اخلاقیات کی پاس داری کرنے والا کوئی گروہ نہیں تھے۔ وہ اسلام دشمنی میں توہین رسالت، بے گناہ لوگوں کی قتل وغارت اور خواتین کی بے حرمتی سمیت ان تمام شنیع جرائم کا بالفعل مرتکب تھے جو کوئی بھی گروہ کسی گروہ کے خلاف کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود خبیب کی اخلاقیات نے اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے ان جرائم اور خاص طو رپر اپنے قتل کا انتقام ایک معصوم بچے سے لیں اور اپنے جذبہ انتقام کو اس گھٹیا اور سفلی طریقے سے تسکین پہنچانے کا سامان کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قوم کا نمائندہ بن کر آنے والے سفیروں کے بارے میں اس مسلمہ عالمی عرف کی بھی تائید وتصدیق فرمائی کہ انھیں جان کا تحفظ حاصل ہوتا ہے اور وہ جس قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس کے ساتھ کیسا ہی تنازع اور اختلاف کیوں نہ ہو، اس کے بھیجے ہوئے سفیروں پر کوئی دست درازی نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ مسیلمہ کے بھیجے ہوئے سفیروں نے جب مسیلمہ کے نبی ہونے پر اپنے ایمان کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ ضابطہ نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ (ابو داود، ۲۷۶۱)
اس ضمن میں کسریٰ کے بھیجے ہوئے قاصدوں کا واقعہ زیادہ قابل توجہ اور سبق آموز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد جزیرۂ عرب کے گرد ونواح میں مختلف سلطنتوں کے سربراہوں کو اسلام قبول کرنے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر اطاعت خم کر دینے کے پیغام پر مشتمل خطوط لکھے تو فارس کے بادشاہ یزدگرد نے آپ کے لیے سخت توہین آمیز کلمات استعمال کرتے ہوئے نہایت تحقیر کے ساتھ آپ کے خط کو پھاڑ دیا اور یمن میں اپنے گورنر باذان کو حکم بھیجا کہ حجاز میں جو مدعی نبوت پیدا ہوا ہے، اس کو گرفتار رکر کے میرے پاس بھیج دو۔ باذان نے کسریٰ کا یہ حکم تحریری طور پر اپنے دو قاصدوں کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا۔ یہ قاصد کسریٰ کا حکم نامہ لے کر رسول اللہ کے پا س آئے تو آپ نے ان کے خلاف کوئی دار وگیر نہیں فرمائی اور صرف یہ کہہ کر ان کو واپس بھیج دیا کہ جا کر باذان کو بتا دو کہ گزشتہ رات اللہ نے کسریٰ کو قتل کر وا دیا ہے۔ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ ۲/۱۸۰)
آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم مغربی حکومتوں کی مسلم کش سیاسی پالیسیوں کا انتقام لینے کے لیے ان کے عام اور بے گناہ شہریوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس پر یہ شرعی جواز بھی گھڑ رہے ہیں کہ چونکہ ان ممالک کے عوام اپنی حکومتوں کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس لیے وہاں کے تمام شہری ’’مقاتلین‘‘ میں شمار ہوتے ہیں اور ان کو قتل کرنا جائز ہے۔یہی معاملہ امریکہ میں بننے والی کسی فلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مختلف مسلم ممالک میں امریکی سفارت خانوں کو جلانے اور سفارتی عملے کو قتل کرنے کے حالیہ واقعات کا ہے اور فقہ وشریعت کے کسی بھی طالب علم کے لیے یہ بات بالکل ناقابل فہم ہے کہ بے لگام غصے اور اشتعال کی کیفیت میں اس طرح کے اقدامات کا کیا شرعی یا اخلاقی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہماری قیادت میں کوئی ایسا نہیں ہے جو غصے اور نفرت کے اس اظہار کو، جو حدود سے قطعی طور پر متجاوز ہے، غیرت کا خوب صورت عنوان دے کر اپنی عوامی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے بجائے اس نازک موقع پر حق کی گواہی دیتے ہوئے مسلمانوں کو شرعی اخلاقیات کی یاد دہانی کرائے اور سیرت نبوی وسیرت صحابہ کی روشن مثالوں کا حوالہ دے کر ان کے دلوں میں اس احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کرے کہ:
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟