ترجمہ: وارث مظہری
(قاری محمد طیبؒ کے افکار کی روشنی میں اسلامی شریعت کا مطالعہ)
’’ایک زمانہ وہ تھا جب ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم کون ہیں؟ لیکن اب ہم صرف ایک ایسے اداکار کی طرح ہیں جو صرف اپنے حصے کا مکالمہ دہرا دیتا ہے۔‘‘ (John M. Coetzee, Elizabeth Costello)
’’ ماضی بعید ان چیزوں میں سے ہے جو جہالت کو ثروت مند بنا سکتی ہے ۔ یہ مستقبل کے مقابلے میں اپنے اندر بے انتہا لچک رکھنے والی ہے او ر بہت زیادہ اہم ہے ۔ اس کے لیے ہمیں کم سے کم کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔یہی وہ معروف موسم ہے جسے تمام اساطیر کا تحفظ حاصل ہے۔‘‘ (Jorge Luis Borges,"I, a Jew": Selected New Fictions)
تعارف
کم و بیش دو صدیوں سے مسلم مفکرین اجتہاد کے نظریے کی وکالت و اشاعت کرتے رہے ہیں۔ (۱)اجتہاد کی کوئی سادہ تعریف آسان نہیں ہے اس لیے کہ اب اس کے معنی میں بہت کچھ فرق آگیا ہے۔ وہ اب اپنے لفظی معنوں میں مستعمل نہیں ہوتا(۲)۔ اس کی ایک تعریف علمی اور دانش ورانہ کد و کاوش (Intellectual effort) سے بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے تاریخی پہلوؤں کو سامنے رکھیں تو اس کے بہت سے معنی سامنے آتے ہیں۔ اسلامی فکرو قانون کی یہ اصطلاح مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعیہ کی سطح پر صدیوں پر پھیلی مسلمانوں کی سماجی و سیاسی جد و جہد کی عکاسی کرتی ہے۔ ابتدائے اسلام میں جبکہ یہ لفظ اصطلاح کے طورپر رائج نہیں ہوا تھا ، اس کا ایک معنی ’’ معلوم رائے‘‘(informed opinion) تھا۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ سے یمن روانہ ہوتے وقت پیغمبر اسلام(ﷺ) نے پوچھا تھااکہ اگر تم کو کتاب و سنت میں کوئی شرعی حکم نہ ملے تو تم کیا کروگے ؟تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ:’’ أجتہد براءي ولا آلو ( میں اپنی مقدور بھر کوشش کروں گا)۔(۳)‘‘ فقہی مذاہب کی تشکیل کے مرحلے میں فقہائے مجتہدین کی ایسی کوششوں کو اجتہاد سے تعبیر کیا گیا جو کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے کتاب و سنت کی واضح دلیل نہ ہونے کی بنیاد پر قیاس کا استعمال کرتے ہوئے کی جائیں۔(۴) آگے چل کر اہل سنت کے یہاں اجتہاد کو انہی فقہائے مجتہدین کے ساتھ خاص کر دیا گیا اور ان کی تقلید پر اتفاق کر لیا گیا۔ اصول فقہ کی روشنی میں مستند فقہی احکام متقدمین فقہا کی ابتدائی آرا کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گئے اور مختلف فقہا کی تقلید پر لوگوں نے اتفاق کر لیا(۵) مزید برآں چند مخصوص صورتوں میں ہی اجتہاد کی اجازت دی گئی اور اس کے لیے مجتہد کے اندر بہت سی مختلف شرطوں کے پائے جانے کو ضروری قرار دیا گیا۔(۶)
نئے مسلم مفکرین خواہ وہ روایت پسند ہوں یا جدت پسند، احیائیت پسند ہوں یا تکمیلیت پسند (maximalist)ان کی نظر میں اجتہاد کے مختلف معنی اور حیثیتیں ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد وہ بنیادی دوا ہے جس سے مسلمانوں کے تمام تر امراض کا کافی و شافی علاج ممکن ہے۔ اجتہاد کی وکالت کرنے والے ایک اسکالر یا نظریہ ساز زور دے کر یہ بات کہتے ہیں کہ اجتہاد کے باب میں ماضی کی روایت یا عمل سے چپک کر رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ حقیقت میں اجتہاد کی خشک اور بے لچک بحثوں میں دانش و معرفت کے مختلف نکتہائے نظر کا سراغ ملتا ہے۔ یہ نکتہائے نظر ایک طرف دانشورانہ اور تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے حامی اور روایت کا مکمل انکار نہ کرتے ہوئے حریت فکر و نظر کی بھی خواہش اپنے اندر پاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ فقہ و تشریع کے باب میں دانش ورانہ مساوات پسندی کی بھی وکالت کرتے ہیں۔ یہ بات بکثرت سامنے آتی ہے کہ جو لوگ اجتہاد کی موقوفیت کے شاکی ہیں وہ تاریخ کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ ایسی تاریخ جو مسلمانوں کے سیاسی و علمی اور فکری زوال سے عبارت ہے ۔ ان کے خیال میں اگر اجتہاد کا عمل جاری ہو جائے تو ان حوادث سے پہنچنے والے نقصانات کی بالکل معجزانہ انداز میں تلافی ہو سکتی ہے۔(۷)
اکثر اصلاح پسند ،مسلمانو ں کے افسوس ناک مسائل کے لیے بعض روایتی اصول و قانونی معیارات کو الزامات کی بنیاد بناتے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت اہم ہے کہ یہ مصلحین بھی اس تعلق سے کوئی بہت زیادہ نئی چیز کا اضافہ نہیں کر پاتے۔ اس تعلق سے سب سے قابل غور اور اہم بات یہ ہے کہ یہ اصلاح پسند بھی اپنی نظریاتی عمارت انہی روایتی اور علمیاتی بنیادوں پر کھڑی کرتے ہیں جن پر ان کے پیش رو عہد وسطیٰ کے مفکرین نے اپنے نظریات کی عمارت کھڑی کی تھی۔ اس علمی اثاثے کی تقدیس و احترام کے رویے کو انہوں نے اختیار کیا۔ ایسے اصلاح پسند بہت کم ہیں جنہوں نے ’’اجتہادی نشاۃ ثانیہ ‘‘کے تعلق سے دانشورانہ روایت کی صحیح تحقیق و دریافت اور نصوص کی تفہیم کے ضابطوں اور مسلم طرز فکر کی از سر نو تعمیر کی کوشش کی ہو۔ اس اعتبار سے ایک شخص یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ نئے علم کے حصول کے ایک مضبوط عہد اور تحقیق کے بغیر اس تعلق سے کی جانے والی کوششیں محض بے سود اور بے نتیجہ ہیں۔
’’ بروس لارینس‘‘(Bruce Lawrence)نے اسلام کے نئے مظاہر سے متعلق کیے گئے اپنے مطالعے میں اس نظریے کو بخوبی ثابت کر دکھایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جدید اسلامی مطالعات سے متعلق کام کرنے والوں میں سے بعض لوگوں نے بجائے اس کے کہ وہ اسلام کے فقہی اثاثے کی صحیح طورپر چھان پھٹک کریں، انہوں نے چاہا کہ اس کے ایک بڑے حصّے کو اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ انتہا پسندی کے شکاربعض لوگوں نے کوشش کی کہ و ہ شریعت کے ان پہلوؤں کو اس سے علاحدہ کر دینے میں کامیاب ہو جائیں جن سے عہد وسطیٰ کے فقہا نے شریعت کو گراں بار کر دیا تھا۔(۸) وہ مزید لکھتے ہیں کہ بعض مسلم احیائیت پسندوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ وہ ان شرعی احکامات میں وسعت لانے کی کوشش کریں جن میں اجتہاد کے ذریعہ وسعت کی گنجائش و اجازت نکل سکتی تھی۔ اس کے بجائے انہوں نے شرعی احکام کو اُسی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جو بالکل بے لچک تھی۔( ۹)ا بہت سے اصلاح پسندوں نے مقاصد شریعت کے نظریے کو بنیادی حل کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مطلب یہ بتایا گیا کہ اسلامی قانون یا شریعت کا مقصد پانچ چیزوں کے تحفظ کو یقینی بناناہے: حفظِ جان، حفظ عقل، حفظ نسل، حفظ مال اور حفظ دین۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اجتہاد یا ناکام اجتہاد کے حق میں یا تو اعتدال پسندوں کے مختلف گروپوں کی طرف سے آوازیں بلند ہوئیں جیسے مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمین اور جنوبی ایشیا میں جماعت اسلامی یا بعض ریڈیکل گروپ کی طرف سے جیسے القاعدہ۔
لارینس کی رائے میں، جنھوں نے سنّی روایت پسندوں کی قانون سے زیادہ تصوف پر لکھی گئی تحریروں کا تحقیقی مطالعہ کیا ہے، اجتہاد سے دامن کشی کے باوجود اس روایت پسند گروہ کی نظر میں وہ اپنی محدود شکل و صورت میں مطلوب تھا۔ اگر چہ ان کا نظریۂ اجتہاد ان اصلاح پسندوں کے اجتہاد مطلق کے نظریے سے بالکلیہ مختلف تھا ، جنہوں نے اسلامی قانون کی ایک رواں اور سیدھی سادی تعبیر پیش کی۔ قانون کی یہ شکل اپنی اساسیات کی تشکیل میں ایک پالیسی دستاویز کی مانند زیادہ تھی بہ نسبت دلیل و حجت پر مبنی معقول روایت کے۔ اجتہاد مطلق یا اجتہاد غیر مقید اور اسلامی قانون کی سیدھی سادی یہ تعبیر اپنے نتیجے کے اعتبار سے ہندوستان کے ان روایت پسندوں کی فکر کے مطابق نہیں تھی جو تصوف کے چشتیہ سلسلے سے منسلک تھے۔ کارل ارنسٹ(Carl Ernest)کے اشتراک سے لارینس نے ہندوسان میں چشتی فکر کے بنیادی ماخذ کی تلاش و تحقیق کا فریضہ انجام دیا(۱۰)۔ اگر چہ ان دونوں حضرات نے تفصیل اور دقت رسی کے ساتھ چشتیہ سلسلے کے روحانی نظریات کا جائزہ لینے کی کوشش کی تاہم انہوں نے تصوف کے ما بعد الطبیعاتی نظریات اور شریعت کے پیچیدہ مباحث کے درمیان موجود ربط کو اپنے غور و فکر کا مرکز نہیں بنایا۔ خاص طورپر ایک فقیہ کے اندر پائی جانے والی ایسی قابلیت اور روحانی بنیاد، جس پر وہ اجتہادی کوششوں کے ذریعہ شرعی حکم کا استنباط کرتا ہے۔ اس تعلق سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بر صغیر ہند کے چشتی صوفیوں کے ذریعہ اٹھائے گئے فقہ واجتہاد کے مباحث کو تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ تصوف سے متعلق انہی کے نظریات و خیالات کی تحسین کی جاتی ہے۔
میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک شاگرد مولانا قاری محمدطیبؒ صاحب کو اس موضوع (اجتہاد کے عمل میں روحانیت کا مرکزی کردار) تعلق سے بنیاد بنا کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس امید کے ساتھ کہ میرے اس مطالعہ سے موضوع کے دوسرے رخ پر روشنی پڑ سکے گی اور اس سے لارینس اور کارل ارنیسٹ کے فقہ سے متعلق مطالعے میں تصوف وروحانیت کی مرکزیت کا پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آسکے گا۔ قاری طیب صاحبؒ نے اسلامی قانون اور روحانیت سے تعلق رکھنے والے پیچیدہ مباحث پر اجتہاد و تقلید کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ ، اسلامی معاشرے میں پائے جانے والے ان روایت پسند ناقدین اور ان کے خیالات کو سمجھنے کے لیے تصوف اور اسلامی قانون کے فکری مباحث کے درمیان تداخل پرزور ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا کے بعض چشتی صوفیا کی نظر میں تصوف فقہ کے مقصد و معنی کو مزید گہرائی اور گیرائی عطا کرتا ہے۔ لیکن جہاں تک فقہ کی بات ہے تو وہ تصوف کے جوش وحیویت کو محدود کر دیتی ہے۔ میں اسی کے ساتھ یہ بات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اجتہاد کی حمایت یا مخالفت میں کی جانے والی بحثیں تاریخ کی مادی یا عارضی صورت حال اور فرداور اجتماع سے متعلق مخصوص نظریات پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔
قاری محمد طیب صاحب ( وفات: ۱۹۸۳)نے اپنے مقالے ’’ اجتہاد و تقلید‘‘ میں جو ۱۹۶۰کے اواخر یا۱۹۷۰کے اوائل میں لکھا گیا تھا، اجتہاد کے تعلق سے تجدد پسندوں، اصلاح پسندوں یا احیائیت کے علمبرداروں کی عام روش سے ہٹ کر نیا رخ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ قاری محمد طیب صاحبؒ کی عالمانہ اور مفکرانہ حیثیت سے ہندو پاک کے مدارس کی دنیا سے باہر کے کم ہی لوگ واقف ہیں، تاہم روایتی بزرگی اور حنفی دیوبندی مسلک کے تعلق سے ان کی شخصیت امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ وہ تقریباً پانچ دہائیوں تک دارالعلوم دیوبند کے مسند اہتمام پر متمکن رہے اور انہیں اپنے حلقے میں زبردست دینی عظمت حاصل رہی۔
اجتہاد اور تقلید
اسلامی قانون یا فقہ کے تعلق سے اجتہاد و تقلیدمیں قاری طیب صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہؒ (وفات:۱۷۶۲) کی پیروی کی۔ چنانچہ انھوں نے شاہ ولی اللہ کی طرح قانون اور ما بعد الطبیعات کی بحث کو تقریباً ایسی چیز کے ساتھملادیاجو قانون و اخلاقیات کے تاریخی و عمرانی فلسفے سے قریب تر ہے۔ اسلامی قانون ،جسے مذہب میں اخلاقی فلسفہ کا عنوان دیا جاتا ہے، کو موضوع بحث بناتے ہوئے ایسے غیر ایجابی عناصرپر کم ہی توجہ دی گئی ہے جن پر عموماً قانونیات سے متعلق تحریروں میں توجہ دی جاتی ہے۔ اکثر قانون یا فقہ سے متعلق تحریروں کو جن کی زبان ما بعد الطبیعات اور تصوف کی زبان سے ہم آہنگ ہوتی ہے، روحانیات کے مطالعے کے عنوان سے الگ حیثیت دیتے ہوئے انہیں مذہبی مطالعے کے خانے میں ڈال دیا جاتاہے۔ اس طرح اسلامی قانون کے ساتھ ان کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں، جیسا کہ بابر جوہانسن (Baber Johansen)نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، قانونی اثباتیت نے اسلامیفقہ کا مطالعہ کرنے والی اہم عرب مسلم شخصیات کے ذریعے ایک نئی قسم کی راسخ العقیدگی اور معیاریت کی اساس کی شکل اختیار کر لی ہے۔(۱۱)
اپنے مقالے میں قاری محمد طیب صاحب نے اجتہاد اور فقہ کی تشکیل کے بعد کے مرحلے میں اس کے استعمال پر روشنی ڈالی ہے۔ علاوہ ازیں اس بات سے بھی بحث کی ہے کہ تقلید کے ساتھ کس طرح تعامل کیا جائے؟(۱۲)
انہوں نے اس پہلو کو واضح کیا کہ بعض فقہابعض شخصی فقہی رایوں سے شدت کے ساتھ وابستہ رہے اور انہوں نے فقہا کی رایوں کی اس طرح پیروی کی جیسے وہ خدا کی طرف سے نازل کردہ قانون ہے۔(۱۳)
ان کی نظر میں فقہی مذاہب اجتہادی کوششو ں کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور اجتہاد سے متعلق قاری محمد طیب صاحب کے افکار و نظریات کو انیسویں اور بیسویں صدی میں مختلف اسلامی ممالک میں اجتہادکے بارے میں جاری بحثوں سے تقابل کی بنیاد پر زیادہ بہتر طورپر سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر مشرق وسطیٰ میں اجتہاد کو عمل میں لائے جانے کا پرزور مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ہندوستان میں قرآن کی حدیث سے مطابقت کی کوششوں میں اہل حدیث تحریک سب سے پیش پیش رہی ہے۔ اہل حدیث مستقل طورپر کتاب وسنت کے صحیح احکام تک رسائی کے لیے اجتہاد کو مسلمانوں پر فرض تصور کرتے ہیں۔ اس جماعت نے اصلاح پسندانہ ذہنیت کے تحت فقہی مکاتب فکر کی تشکیل کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا ، لیکن حقیقت میں اس کا اصلاحی نظریہ ملک و ملت کی تعمیر اور سماجی بدلاؤ کے بجائے قدامت پسندانہ انداز میں محض بعض مذہبی رسوم و اشکال کی اصلاح پر مرکوز رہا۔ ہندوستانی اہل حدیث رائج فقہی مکاتب کے بجائے زیادہ تر محمد بن علی الشوکانی ، احمد محمد شاکر اورسعودی عرب کے سلفی علما کے افکار و نظریات سے قریب رہے(۱۴)۔ ہندوستان کے متجددین بھی اجتہاد کے زبردست حامی تھے ۔ وہ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے بعد ڈاکٹر علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو اپنے تجدد پسندانہ مقاصد کے تعلق سے نمونہ اور مثال تصور کرتے تھے۔
بر صغیر ہند کے حنفی علما کی اس دوران اپنے مکتب فقہ سے وابستگی پوری طرح باقی رہی۔ انہوں نے اپنے مکتب فقہ کی معتبریت اور استناد کا کھل کر دفاع کیا۔ دیوبندی اور بریلوی علما باہم شدید مخاصمت کے باوجود یہ سمجھتے رہے کہ فقہ حنفی اسلامی شریعت کی رہنمائی کے تعلق سے ان کی ضروریات کی بخوبی تکمیل کرتی ہے۔ اسی طرح برطانوی حکومت کی طرف سے جو چیلنجز لوگوں کو در پیش ہیں وہ ان کا جواب دینے کی بھی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔(۱۵)
مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علما میں اصلاح و تجدد کے تعلق سے جو جوش و خروش پایا جاتا تھا، اس سے ہندوستان کے علما کیوں محروم رہے؟ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک اہم وجہ ان علما کا فقہ کے باب میں اجتہاد کی روش پر قدغن لگانا ہے۔ یہ صرف مغربی قانونی ضابطوں کے مقابلے میں حنفی فقہ کی برتری کا ان کا اعتقادہی نہیں بلکہ عرب ممالک میں اجتہاد کی تائید میں بلند ہونے والی آوازوں کے متوقع نتائج کو دیکھ کران کا یقین اجتہاد کی نفی میں پختہ ہو چلا تھا۔ ہندوستانی علما نے محسوس کیا کہ تدریجاً غیر شعوری طورپر اجتہاد کی وکالت کرنے والے عرب علما بھی جدید طرز حیات کی اخلاقیات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے سیکولر کاری کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔(۱۶) روایتی حنفی علما کی نظر میں عرب علما کی مذکورہ صورت حال اجتہاد پسند خیمے کا انتہائی خطرناک پہلو ہے۔ مزید برآں خطرے کی بات یہ تھی کہ یہ اجتہاد کا حامی گروہ اجتہاد کی بنیاد پر تہذیبی نشاۃ ثانیہ کا شدید خواہاں تھا۔طبعی طورپر نشاۃ ثانیہ کے بلند بانگ نعروں میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دینے والی وہ آوازیں بھی شامل تھیں جن پر نیشنلزم اور سوشلسٹ رجحانات کی چھاپ تھی۔ اگرچہ مشرق وسطیٰ کے بہت سے روایتی علما سیاست و تہذیب کے حوالے سے اجتہاد کی حمایت میں ہونے والی بحث و گفتگو میں شریک رہے تاہم جنوبی ایشیا کے علما نے اس سے اپنی دوری بنائے رکھی۔
جنوبی ایشیا کے حنفی علما نے اجتہادی کوششوں کی مزاحمت کیوں کی؟ اس کی شاید ایک نفسیاتی وجہ بھی تھی۔ اگر یہ علما اجتہاد کی راہ اختیار کرتے تو یہ ان کی طرف سے اپنی حریف جماعت ، جماعت اہل حدیث جو بہر حال جدیدیت سے خائف نہیں تھی، کے آگے گھٹنا ٹیک دینے اور یہ ان کے نکتۂ نظر کو قبول کر لینے کا اشاریہ ہوتا۔ دارالعلوم دیوبند کے وجود و بقا کے اسباب میں سے ایک سبب جماعت اہل حدیث کی طرف سے احناف کو لاحق چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا بھی تھا۔ علمائے اہل حدیث احناف کے اس تعلق سے شدید ناقد تھے کہ وہ کتاب و سنت سے تازہ کاری کی روح کے ساتھ براہ راست استفادے پر تقلید و روایت پسندی کے رجحان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے قاری محمد طیب صاحب روایتی طرز کے ایک تقلید پسند عالم تھے۔ وہ اس رجحان کے خلاف تھے کہ اجتہاد کی بنا پر خود سے فقہی احکام کا استنباط کیا جائے۔ انہوں نے جدیدیت پسندوں اور سلفی علما کے اس رویے کو ناپسند ٹھہرایا کہ وہ اس پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ استنباطِ قانون کا حق و اختیار کس کو حاصل ہے اور کس کو نہیں؟ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ انہوں نے روایتی علمی طریق کار کو نظر انداز کر کے نیا طریق کار اختیار کر لیا ہے،انھوں نے ان دونوں طبقے کے لوگوں کو اس پہلو سے شدید ترین تنقیدوں کا نشانہ بنا یا کہ وہ اجتہاد کے علم بردار تو ہیں لیکن اس کی صلاحیتوں سے قطعی بے بہرہ ہیں۔(۱۷) ان کی نظر میں کتاب و سنت کی بصیرت رکھنے والی علمائے دیوبند کی جماعت شریعت کے تعلق سے عقلی اور ما بعد الطبیعاتی پہلوؤں سے پوری طرح واقف و آگاہ تھی۔ قاری صاحب کی نظر میں کسی بھی مستنبط شرعی حکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ کلیت اور تعقل کے مفہوم سے مربوط ہو اور ان دونوں کے درمیان ما بعد الطبیعاتی رشتہ قائم ہو۔(۱۸)یہ نظریہ اس عام اور غالب مسلم علمیاتی فکر سے متغائرہے جواسلامی نصوص کی مربوط و منظم تشریح سے پہلو بچائے ہوئے عقل عام کے اصولوں کی بنیاد پر کتاب و سنت کے مطالعے کی روشنی میں اخذ کردہ خالص شرعی احکام کو ہی مکمل معتبریت اور استناد فراہم کرتا ہے۔ قاری محمد طیب صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ ہر علم جزئی میں ایک علم کلّی ہوتا ہے ۔ اور ہر علم کلی میں حکمت و مصلحت کلیہ پوشیدہ ہوتی ہے، پھر ہر مصلحت کا تعلق کسی نہ کسی شانِ کمال سے ہوتا ہے پھر ہر شانِ کمال کسی نہ کسی صفت الٰہی سے مربوط ہوتی ہے۔‘‘(۱۹)
قاری صاحب نے جو زبان اجتہاد سے متعلق اپنے نظریات کی وضاحت کے لیے استعمال کی ہے اس میں کلّیت اور عقل و حکمت کے الفاظ کا استعمال اور ان کو فقہ، اخلاقیات اور ’ مصلحت عامہ‘ سے مربوط کرکے قاری صاحب کی توجہ ما بعد الطبیعاتی امور کی طرف مبذول کی گئی ہے۔ اسی طرح انہوں نے احسان اور تقویٰ کے مفہوم کا مخصوص طورپر استعمال کرتے ہوئے صفات الٰہیہ کی کاملیت و اکملیت کے حوالے سے انسانی نفسیات کی تشریح کی گئی ہے۔
قانون سے متعلق اس پیچیدہ اومختلف سطح اور ابعاد رکھنے والے اس نکتۂ نظر کو جنوب ایشیائی اسلامی فکر کے بعض حلقوں میں اب بھی مقبولیت حاصل ہے۔ اس خطے میں روایتی حنفی علما اور اسکالرس کا گروہ بلا تامل کائناتی تناظر میں فقہی احکام و ضوابط کے متعلق گفتگو کرتا ہے۔ یہ رجحان دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتب فکر کے علما میں نظر آتا ہے۔ علم و دانش کے ان حلقوں میں قانون کے مباحث میں ما بعد الطبیعات ، کلام اور تصوف کی بھرپور آمیزش شامل ہوتی ہے۔(۲۰)
ماورائیت ، حکایت اور تاریخ
اجتہاد سے متعلق قاری طیب صاحبؒ کے بیانات میں تاریخ سے متعلق ان کا نظریہ غیر محسوس طورپر در آیا ہے ، جو ہماری توجہات کا زیادہ مستحق ہے۔ تاریخ سے متعلق ان کا نظریہ مختلف پہلوؤں سے قصہ. (historia)سے مشابہ ہے جس کے مطابق، ان کے تعبیری نمونوں سے متعلق ان کے بیانات سے نہایت اہم سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یہ تاریخ وار مرتب تاریخ کے بالمقابل ایک بیانیہ تاریخ کے مشابہ ہے۔ ہیڈن وہائٹ(Hayden White) کہتے ہیں:
’’ بیانیہ تاریخ ، تاریخی واقعات کو ڈرامائی اور تاریخی عمل کو نادر شکل میں ڈھال دیتی ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ بیانیہ تاریخ جن حقائق سے تعامل کرتی ہے ان کا نظم و اسلوب سماجی و سائنٹفک تاریخ کے حقائق سے کافی مختلف ہوتا ہے۔‘‘(۲۱)
بیان سے جو حقائق منکشف ہو کر سامنے آئے انہوں نے تاریخ کو کونیات بلکہ شاید مفروضات کے ساتھ وابستہ کرنے کا کام انجام دیا۔ چنانچہ موضوعیت سے مکمل وابستگی کے ساتھ حقائق کو واشگاف کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ، جیسا کہ ’’ ہرمن ہیس(Hermann Hess) Glass Bead Gameمیں لکھتے ہیں: ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخ سے متعلق تحریریں ادبیات کے ضمن میں ہی آتی ہیں۔(۲۲) وہ مزید بصیرت کے ساتھ کہتے ہیں:’’ تاریخ کا تیسرا بعد ہمیشہ مفروضات ہی ہوتے ہیں۔‘‘
قاری طیب صاحبؒ کی بیانیہ تاریخ کے شاعرانہ اور عاقلانہ(poetic and noetic) دونوں پہلو ان کے فلسفۂ فقہ کی خبر دیتے ہیں۔ ان کے مباحثے میں دو اصطلاحیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ مستعمل ہوتی ہیں: تکوین اور تشریع ۔تکوین سے مراد خلق کائنات اور تشریع سے قانون سازی مراد ہے۔ مسلم ماہرین دینیات یا فقہاء نے مادہ سے اشکال و صور کے پیدا ہونے کا نظریہ قائم کیاہے۔(۲۳) دوسرے لفظوں میں یہ بعض مادوں کی موجودگی تھی جو وجود کے لبادے میں ظاہر ہوئی یا ایک با اختیار ہستی کے منشا اور علم سے اس کا ظہور ہوا۔(۲۴) جس طرح تدریجی طورپرتکوین کا عمل مکمل ہوا۔ اسی طرح تشریع بھی ان کی صفات الٰہیہ سے وابستہ رہی جو ایک ماڈل کے طور پر تاریخ میں تدریجیت کے آغاز کا پیش خیمہ بنی۔
تدریجیت کے خد و خال’’ ربوبیت‘‘ کے اوصاف سے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ ربوبیت تدریجی طورپر پرورش اور دیکھ بھال کا نام ہے۔(۲۵) ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی قانون تاریخ کے مختلف مراحل میں تشکیل پذیر ہوا اور مادی اور انسانی کوششوں کے دائرے میں ظاہر ہوا۔ اس طرح کائناتی اور تشریعی دونوں نظاموں کا تعلق وقت سے ہے۔ کائنات کی تخلیق پر اس لیے زیادہ زور دیا گیا تاکہ ایک منظم کائنات کے ارتقا میں وقت کی اہمیت کی نشان دہی کی جا سکے نہ کہ تخلیق کے محدود نظریے کی۔
قاری صاحب نے اپنے افکار کی تشکیل مختلف مطابقتوں اور مشابہتوں(homologies)کو سامنے رکھ کر کی ہے۔’’ ریمونڈ ولیمس‘‘ (RaymondWilliams) کے خیا ل میں مشابہت کا تعلق اصل اور ارتقا سے ہے اور یہ قیاسanalogy) )سے مختلف ہے۔(۲۶) قاری طیب صاحب کے مطابق، تکوین اور تشریع کے عمل کے درمیان ایک مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ مطابقت تکوین اور تشریع سے ہٹ کر کائنات اورموجودات میں جو مماثلت پائی جاتی ہے، اس کے تعلق کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے بعد قاری صاحبؒ دوبارہ اس مماثلت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں فطری طورپر ایک شخص خدا کے کام اور کلام کا شاہد ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ خدا کے عمل کا ادراک کرکے انسان عمل تخلیق کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے اور خدا کے الفاظ کی تصدیق کر کے وہ وحی کے عمل کی حقیقت سے آشنا ہوتاہے۔ انھوں نے کتاب فطرت اور کتاب اللہ کے درمیان جو متوازی نسبت قائم کی ہے اس کی وضاحت کی مزید ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔(۲۷) قاری صاحب کے نزدیک فطرت پر مبنی کائنات اور وحی کی بنیاد پر تشریع ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور اپنے وجود میں ایک ہی کلیے کا حصہ ہیں۔
ایک طرف تکوین اور دوسری طرف تشریع کی شروعات ایک ہی وقت میں عمل میں آئی ہے، یہ دونوں دو کائناتی عوالم( عالم الخلق والامر) کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح قرآن سے لی گئی ہے جو ایک ایسے دائرے کی ضرورت پر زور دیتی ہے جہاں امور کائنات اور امور تشریع ایک دوسرے کے ساتھ گھلے ملے نظر آتے ہیں۔ قاری صاحب کی نظر میںآغاز کائنات پر ایک بیان سے روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے قرآن کے بیان سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ ایک کائناتی دن ایک ہزار زمینی دن کے برابر ہے۔ ابراہیمی مذاہب کے معروف مافوق الادراک تفصیل کے مطابق، کائنات کی تخلیق کل چھ دنوں میں عمل میں آئی ہے۔ اگرچہ مختلف مفسرین کے نظریے کے مطابق، تخلیق کا عمل ہمیشہ سے پُراسرار اور مبہم رہا ہے(۲۸)۔ قاری طیب صاحب کی ایک بڑی ناکامی اور کمزوری کی بات ان کی بھونڈی حرفیت پسندی ہے جو اسلامی نظریۂ ارتقا کا ایک دھندلا اور نہایت موہوم خاکہ پیش کرتی ہے۔ اس نظریے کے تحت یہ دعوا سامنے آتا ہے کہ ہماری یہ دنیا6000سالوں میں بن کر تیار ہوئی ہے(۲۹)۔ اس تعلق سے انہوں نے روایتی تفسیری تعبیرات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ روایتی مفسرین میں سے بعضوں نے وحی میں موجود کونیاتی اشاروں اور حوالوں کی تجربی نوعیت سے متعلق کچھ بھی تخمینہ لگانے یا کہنے سے گریز کیا(۳۰)۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں آفرینش پر مبنی تخلیق کائنات سے متعلق پیش کردہ وہ نظریات جواب نا قابل اعتبار ٹھہرائے جا چکے ہیں؛ کے قبیل کی بھی بعض چیزیں قاری طیب صاحب کے یہاں راہ پا گئیں۔ تقریباً دو صدی پیشتر بائبل کے علم توارث کی روشنی میں یہ بات کہی گئی کہ زمین کی عمر چھ ہزار سال ہے جبکہ قاری طیب صاحب کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام محمد(ﷺ) کی پیدائش بنی نوع انسان کے پہلے فرد ( حضرت آدم علیہ السلام) کے اس دنیا میں آنے کے ٹھیک چھ ہزار سال بعد ہوئی ہے(۳۱)۔ قاری طیب صاحب کی فکر میں پائی جانے والی اس طرح کی کمزوریوں کے باوجود میرے خیال میں ان کی فکر کا اکثر حصّہ قابل قبول ٹھہرتا ہے۔ جس طرح کونیاتی نظام کا ظہور تاریخی یا فطری وقت کے مطابق ہوا، اسی طرح تشریعی نظام بھی فطری زمانے کے مطابق رونما ہوا۔ اس طرح ان دونوں میں با ضابطہ مطابقت بالکل واضح تھی: کائنات کی تاریخ کے مختلف مراحل میں جس طرح کائنات کی پرتیں نکلیں، اس کے رازہائے سربستہ منکشف ہوئے، اسی طرح طویل انسانی اعمال و تجربات کے ذریعے بتدریج شریعت کی تشکیل ہوئی اور وہ محمد (ﷺ) کے توسط سے تکمیل کو پہنچی ہے۔ کونی اور ارضی زمانے کے درمیان بھی ایک رابطہ موجود تھا۔ مولانا قاری طیب صاحب لکھتے ہیں کہ چھ ہزار سال کے عرصے کے دوران تکوین کائنات اور تشریع سے تعلق رکھنے والے امور کمال کو پہنچ گئے۔ آگے جو کچھ انھوں نے لکھا ہے اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی نظر میں کائنات اور موجودات کائنات کے درمیان تعلق ایسا ہی ہے جیسے جسمانی اور معاشرتی ارتقا کے نمایاں خد و خال کے درمیان۔ اگرچہ ایک شخص ان کے اس عمل میں صرف ہونے والے زمانے کے تخمینے کو مسترد کر سکتا ہے (۳۲)۔
تکوینی اور تشریعی عمل میں جو اشتراک تھا وہ نہایت گہرائی کے ساتھ غیر متبدل اور کائناتی اصولوں اور ضابطوں سے تعلق رکھتا ہے۔ قاری طیب صاحب جس کو نیات کی بات کرتے ہیں وہ بہت سی کلیات سے مرکب ہے۔ ارسطو اور ابن سینا کے حوالے سے وہ عناصر اربعہ : آب، خاک، آتش اور ہوا کو کلیات قرار دیتے ہیں جن سے مزید دوسری کلیات پیدا ہوئیں جیسے: اپنے نظام مدارج کے اعتبار سے جمادات، حیوانات اور نباتات۔(۳۳)
اسی طرح سائنٹفک قانون سازی کے میدان میں مذہب کے مبادی اور کلیات بھی کچھ ضوابط،قوانین ، نظریات اور اقدار پر مبنی ہیں۔ قاری طیب صاحب کی تطبیق میں تکوینی اور تشریعی بیانات کس طرح فٹ بیٹھتے ہیں؟ حقیقت میں غیر متبدل اورمستحکم کلیات کے ذریعہ ان میں توافق پیدا کیا گیا ہے - قاری طیب صاحب کے مثبت فریم ورک میں عمومات پر تاکید محض کلیدی عنصر ہی نہیں بلکہ خصائص بھی عمومات کا اثر رکھتے ہیں جب انہیں مربوط طرز میں پیش کیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ آیات و احادیث میں جس قدر بھی جزئی احکام مذکور ہوئے ہیں، جو زید، عمر و بکر کی طرح پھیلے ہوئے ہیں ان کی تشکیل وہ اصول وکلیات اور علل و اسرار کرتے ہیں جوان جزئیات میں مستور ہوتے ہیں کہ ہر جزئی میں ایک علم کلی ہوتا ہے اور ہر علم کلی میں حکمت و مصلحتِ کلیہ پوشیدہ ہوتی ہے۔ پھر ہر مصلحت کا تعلق کسی نہ کسی شان کمال سے ہوتا ہے۔ پھر ہرشان کمال کسی نہ کسی صفتِ الٰہی سے مربوط ہوتی ہے۔‘‘(۳۴)
لیکن کلی کامطلب یہ نہیں کہ ایک جامد نظام غالب ہے۔قاری صاحب کہتے ہیں: جب کوئی فطرت اور نظام تکوین کاجائزہ لیتاہے، تو یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ نئے عجائب اور اسرار کا انکشاف ہو۔فطرت کے مخفی خزانوں کی تحقیق نے تہذیب کے لیے لا انتہا ایجادات پیش کر دی ہیں۔ تشریعی قانون کی معرفت آدمی کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ تکوین، اس کے قوانین، ضوابط اور اقدار کے پوشیدہ اسرار اور خفیہ معارف تک رسائی حاصل کر سکے۔ ان استدلالی آلات کو استعمال کرنے سے انسان - قاری صاحب کے خیال میں- نئے ثانوی خیالات ، لطافتیں، نکات، حقائق اور تدین کے نئے معانی پیدا کر سکتاہے۔(۳۵)
’’جیسے کہ سائنسی اکتشاف ہمارے تکوینی علم میں اضافہ کرتاہے ۔ ویسے ہی اجتہاد سے ہمیں تشریع کے دقائق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں:
’’ جس طرح تکوین کے ان منظم اور مرتب مادوں اور علوی و سفلی ذخیروں سے بواسطہ فکر و تدبر نئے نئے عجائبات کاانکشاف کیا جا سکتاہے اور ان کی چھپی ہوئی طاقتوں کا سراغ لگا کر تمدن کے نئے نئے کارنامے دنیا کو دکھائے جا سکتے ہیں جن کی کوئی حد نہیں کہ لاتنقضی غرائبہ۔ اسی طرح تشریع کے منظم احکام و مسائل اور قواعد وکلیات کے مخفی علوم و اسرار کا پتہ لگا کر ان سے تدین کے نئے فروعی مسائل ، لطائف و ظرائف اور حقائق و معارف پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ اس تکوینی انکشاف کانام ایجاد ہے اور تشریعی استخراج کا نام اجتہاد ہے، نہ ایجاد کی کوئی حد ہے نہ اجتہاد کی۔ یہ الگ بات ہے کہ جیسے ایجادات ہر زمانہ کی ذہنیت اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہیں اور فطرتا موجدوں کی طبیعتیں ان ہی ایجادوں کی طرف چلتی ہیں جن کی زمانہ کو ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو طبائع کی یہ دوڑ بھی ختم ہو جاتی ہے، آگے صرف ان ایجادات سے فائدہ اٹھانا رہ جاتا ہے، ایسے ہی اجتہادات کا رنگ بھی ہر دور کی علمی ذہنیت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے مجتہدوں کے قلوب فطرتا چلتے ہی اس استخراج کی طرف ہیں جس کی اس قرن کو ضرورت ہوتی ہے۔اس تکمیل ضرورت کے بعداجتہاد کا وہ دور نہیں لوٹتا جو آچکتاہے، اب صرف اس سے نفع اٹھانے کا موقع باقی رہ جاتا ہے۔‘‘(۳۶)
قاری محمدطیب کی اجتہا د کے جواز میں یہ بلند آہنگ گفتگو قانون اور اخلاقی فلسفہ پر مبنی ہے۔ ان کے خیال میں اجتہاد اور تقلید دونوں ہی شریعت میں مطلوب ہیں (۳۷) لہٰذا دونوں میں سے صرف کسی ایک پر زور دینا درست نہ ہوگا۔ صرف اجتہاد کو ہی مرکز توجہ بنانے سے تقلید کو نقصان پہنچے گا۔اس کے بجائے دونوں ہی کے مثبت پہلوؤں کو آگے بڑھا یاجائے۔اجتہاد و تقلید دونوں ہی اصطلاحات مجازی کے طورپر اقتدار اور تخلیق کے ایک پورے نظام سے متعلق ہیں اور دونوں جبھی مؤثرہوں گے جب دونوں پر مخصوص نظام میں عمل درآمد ہو۔ قطع نظراس سے کہ وہ نظام مذہبی ہو یا سیکولر۔ اس نظام کا کردار زیادہ اہم ہے نہ کہ اس کی شکل۔ یہ نہ جبری ہو اور نہ جامد۔ قاری محمد طیب کے خیال میں یہ نظام مجموعی طورپر مؤثر ہوگا ٹکڑوں میں نہیں۔
(جاری)
حواشی و حوالہ جات:
۱۔ اجتہاد متعدد المعنی اصطلاح ہے ۔اس لیے اس کا کئی طرح سے ترجمہ ہوسکتاہے۔اس مقالے میں اس کا ترجمہ ان معنوں میں کیا گیاہے:خود اختیار کردہ اور مستقل فکر،مستقل فقہی توجیہ،خود توثیق کردہ اصول اور فقہی صوابدید وغیرہ۔
۲۔ اس اصطلاح سے متعلق ایک بحث کے لیے دیکھیے:
Gayatri Chakravorty Spivak, A Critique of Postcolonial Reason (Cambridge, Mass & London: Harvard University Press, 1999), 331. Also see the Oxford English Dictionary, s.v. 145 catachresis.146
۳۔ ابوحامد محمد بن محمد الغزالی:المستصفی من علم الاصول،ترتیب:سلیمان الاشقر(بیروت مؤسسہ الرسالہ ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷)، ۲/۱۶۴۔
۴۔ محمد ابن ادریس الشافعی :الرسالہ ترتیب :احمد محمد شاکر(بیروت،المکتبہ العلمیہ ،تاریخ مذکور نہیں)، ص، ۷۰۵۔۴۱۵۔
۵۔ مجتہد مطلق اور مجتہد منتسب کی بحث کے لیے دیکھیے:
۶۔ دیکھیے:
Wael B. ed. Hallaq, Islamic Law and Society: Issues and Problems, Vol. 3, No. 2, vol. 3 (1996) Also Mohammad Fadel, "The Social Logic of Taqlid and the Rise of the Mukhatasar," Islamic Law and Society 3, no. 2 (1996), Sherman A. Jackson, "Taqlid, Legal Scaffolding and the Scope of Legal Injunctions in Post-Formative Theory Mutlaq and `amm in the Jurisprudence of Shihab Al-Din Al- Qarafi," Islamic Law and Society 3, no. 2 (1996).
۷۔ابوالحسن علی ندوی: Islam and the World( Lacknow,Islamic Research Academy) 1980 ۔اس طرح کے مختلف نظریات پر محمد عابد جابری نے تبصرہ کیا ہے۔نحن والتراث)بیروت االمرکزالثقافی العربی ۱۹۹۳ (خاص طور پر دیکھیے ص،۱۱۔۷۲
۸۔
Bruce B. Lawrence, Defenders of God: The Fundamentalist Revolt against the Modern Age (San Francisco: Harper & Row, 1989; reprint, Columbia: University of South Carolina Press, 1995),p. 214
۹۔ایضا ص:215
۱۰۔
Carl W. Ernst and Bruce B. Lawrence, Sufi Martyrs of Love: The Chishti Order in South Asia and Beyond (New York: Palgrave Macmillan, 2002), p.118-125
۱۱-
Johansen Baber:Contingency in a Sacred Law:Legal and Ethical Norms in the Muslim Fiqh,ed.Ruud Peters and Bernard Weiss,Studies in Islamic Law and Society,Vol.7(Leiden,Koln:Brill,1999
۱۲۔ میں اس بات سے واقف ہوں کہ بعض لوگ تقلید کاترجمہ’’نقل‘‘((imitation کرتے ہیں ۔میں نے اس کا ترجمہ اتباع یا کسی چیز پر کاربند ہونے کے معنی میں مجا زا کیا ہے۔
۱۳۔ قاری محمدطیب :اجتہاد اور تقلید (لاہو ر ادارہ اسلامیات ۸۷۹۱)ص،۶
۱۴۔ ایضا
۱۵۔ حنفی علما نے فقہ پر نظرثانی کی تحریک کا بہت زیادہ اثر قبول نہیں کیا ۔ہوسکتا ہے اس کی دوسری وجوہات بھی ہوں۔حنفی فقہی روایت کو دو واقعات سے بہت زیادہ تحریک اور تقویت ملی۔یہ دونوں واقعات نسبتا کم مدت کے اندر اندر پیش آئے اور ان کے حنفی فقہی روایت پر زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ایک ہندوستان میں اورنگ زیب عالم گیرکی سرپرستی میں فتاوی عالمگیری (جسے فتاوی ہندیہ سے بھی موسوم کیا جاتاہے)کی ترتیب دوسرے ترکی میں عثمانی حکومت کے تحت مجلۃ الاحکام العدلیہ کا مرتب کیا جانا۔اس کی ترتیب وزیر انصاف احمد جودت پاشا کی نگرانی اور سرپرستی میں عمل میں آئی۔حنفی فقہ میں کی جانے والی اس اصلاحی کوشش کے اثرات ہندوستان میں وسط ایشیا کے راستے سے اور عالم عربی میں عرب حنفی علما کے ترکوں سے تعامل کے ذریعے وہاں پہنچے۔مجلہ الاحکام العدلیہ کے کام کو آگے بڑھانے میں سب سے اہم کردار علاء الدین محمد بن محمد ابن عابدین(وفات:۶۰۳۱/۹۸۸۱ ( کا ہے۔علاء الدین مشہور عالم وفقیہ محمد امین عابدین(۲۵۲۱ھ/ ۶۳۸۱ء)کے بیٹے تھے۔جن کی لکھی ہوئی کتاب:رد المحتار علی درالمختار بیسیویں صدی کی حنفی فقہ کی اہم ترین کتاب شمار ہوتی ہے۔نوجوان علاء الدین نے اپنے والد کی انسائکلو پیڈیائی نوعیت کی مذکورہ کتاب کے بعض ادھورے حصے کی نہ صرف تکمیل کی بلکہ جودت پاشا نگرانی میں جو کمیٹی اسلامی قانون کی تدوین نو کر رہی تھی اس کے رکن کے طور پر انہوں نے استنبول میں تین سال قیام بھی کیا۔ہندو پاک کے روایتی حنفی علما کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ فقہ کوقانون کے بجائے اخلاق کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔یہ بات اس تناظرمیں مختلف اور اہم ہے کہ مشرق وسطی کے فقہی حلقوں میں کچھ عرصے تک علما فقہ کو قانون کا درجہ دیتے رہے ہیں۔
۱۶۔ منیر غلام فرید:
Legal Reform in Muslim World The Anatomy of a Scholarly Dispute in the 19th and Early 20th Centuries on the Usage of Ijtehad as a Legal Tool(SanFrancisco&and London:Austin & Winfield,1996
۱۷ ۔مثال کے طورپر دیکھیے کہ یٰسین اختر مصباحی ،جو بریلوی فرقے کے اہم عالم ہیں،کس شدت کے ساتھ تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے ترقی کے نام پر اسلامی احکام پر عمل آور ی کو رجعت پسندی کے خانے میں ڈا ل کر ہر اسلامی حکم کو پس پشت ڈالنا شروع کردیا ہے۔مایوسی کے ساتھ وہ اشتراکیت،سوشلزم اور عرب قومیت کے عربوں پر اثرات کا ذکر کرتے ہیں ۔ ا حمد رضا بریلوی کی کتاب :جد الممتار علی رد المحتار جلد ۱،ص:۶(طبع حیدر آباد ،المطبع العزیزیہ ۲۸۹۱) کا تعارف جو مولانا مصباحی نے کلمات المجمع اکیڈمی کے نوٹ کے طور پر تحریر کیاہے۔
۱۸۔ قاری طیب :۳۶
۱۹۔ ایضا ۹۳۔۴۴:
۲۰۔ ایضا:۸۱
۲۱۔ مولانا احمد رضا خان کی تحریر وں میں یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ ملتی ہے۔
۲۲ ۔
Hayden White, The Content of the Form, 44.
۲۳۔
Hermann Hesse,The Glass Bead Game(New York:Picador,1990 ,P,48-
۲۴۔ سمیح دوغائیم:موسوعۃ مصطلحات علم الکلام الاسلامی ،۲ جلدیں(بیروت ،مکتبہ لبنان، ۱/۷۹۳۔۷۷۹۱) ص،۴۳۲۔ التفتازانی۔تفتازانی کی کتاب ہندوپاک کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ قاری طیب صاحب کادارالعلوم دیوبند بھی اس میں شامل ہے۔تفتازانی تکوین کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ایسا نظریہ ہے جوفعل،خلق ،تخلیق،ایجاد ،احداث اور اختراع وغیرہ پر دلالت کرتاہے۔اور یہ سب خدا کی صفات ہیں۔دیکھیے :سعد الدین مسعود بن عمر التفتازانی: شرح العقائد النسفیہ فی اصول الدین وعلم الکلام،مرتب کلاؤڈی سلامہ(دمشق وزارۃ الثقافۃ والارشاد القومی۱۹۳۷)ص،۶۲ یا دوسرے لفظوں میں یہ اضافی نسبتیں ہیں جیسا کہ ایک شارح نے لکھا ہے۔دیکھیے:عبد العزیز پر ہاروی ،النبراس شرح شرح العقائد،)بندیال شریف ،سرگودھا ،شاہ عبد الحق اکیڈ می۷۹۳۱ / ۷۷۹۱)ص،۴۳۲۔
۲۵ ۔محمد اعلی تھانوی ، موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم ترتیب:رفیق العجم۲جلدیں(بیروت ،مکتبہ لبنان،۶۹۹۱)۱/۵۰۵ و۵۸
تھانوی کہتے ہیں کہ وسط ایشیا کا ماتریدی مکتب فکر یہ نظریہ رکھتا ہے کہ تکوین خداکی ازلی صفت ہے۔یعنی ایک ایسا وجود جو مستقل طور پر ماضی میں قائم ودائم رہا ہے۔پارتھوی اس کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ ماتریدی تکوین کو صفت مؤثرہ تصور کرتے ہیں اور اس کو کئی نام دیتے ہیں جس کا تعلق مختلف نوع کے افعال سے ہے،دیکھیے،پارتھوی:ص:۵۳۲
۲۶ ۔قاری طیب :ایضا ص۹
۲۷۔
( Oxford: Oxford University Raymond Willi a m s / Marxism and Literature, Press/1986) p.105
۲۸۔قاری طیب صاحب نے مختلف اعتبارات سے پاکستانی مصنف غلام جیلانی برق کے اس خیال کی شدت کے ساتھ تنقیدکی ہے کہ کتاب اللہ سے زیادہ اہمیت کتاب فطرت کو حاصل ہے۔دیکھیے،قاری طیب ،نظریہ دو قرآن پرایک نظر (دیوبند ،اعظمی بک ڈپو۲۰۰۶)
۲۹ ۔ کائنات کی تخلیق سے متعلق قرآنی حوالوں کی تشریح وتوضیح بارے میں پائے جانے والے مختلف قدیم و جدید نظریات اور اس سے متعلق معذرت خواہیوں کے لیے دیکھیے: محمد رشید رضا:تفسیر القرآن الحکیم الشہیر بتفسیرالمنار ،(بیروت ،دارالمعرفہ ،تاریخ مذکورنہیں)،: ص،۴۴۴۔۴۵۴
۳۰ ۔قاری محمد طیب اپنی بات کے ثبوت میں مسلم مؤرخین کا حوالہ دیتے ہیں،جن میں ابن جریر طبری بھی شامل ہیں۔طبری کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام محمد ﷺکے پاس وحی حضرت آدم کی تخلیق کے تقریبا چھ ہزار سال کے بعد آئی۔وہ قرآن(الاعراف:۵۴)کا حوالہ دیتے ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق سے متعلق ہے اور اس کو قرآن کی سورہ الحج :۴۷ سے متعلق کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ آخرت کا ایک سال زمین کے ایک ہزار سال کے برابرہے۔
۳۱۔ الحافظ امداد الدین ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر و محمد علی الصابونی (مرتب) مختصر تفسیر ابن کثیر،(بیروت، دارالقرآن الکریم ، ۲/۵۲(۲۰۴۱/ھ۱۸۹۱ء)
۳۲۔ دیکھیے
H.Allen Orr:AReligon for Darwinians? The New York Review of Books/16, Aug.2007,P.33
۳۳ ۔ قاری طیب ص،۲۱
۳۴۔ ایضا۔مزید دیکھیے :
Aristotle'' Metaphysics''in The Basic Works of Aristotle ed.Rechard McKeon(New York:The Modern Library,2001)697 Seyyed Hossein Nasr/An Introduction to Cosmological Doctrines(Bath:Thames & and Hudson/1978
۳۵۔ قاری طیب ،
۳۶۔ ایضاً،ص،۱۳
۳۷۔ ایضاً