نکاح کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بالغ ہونے کے حق میں بعض اہل علم نے جو مختلف قرائن پیش کیے ہیں، ان میں سے زیادہ تر پر ہم اپنے اصل مضمون (الشریعہ، اپریل ۲۰۱۲ء) میں تبصرہ کر چکے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اور قرینہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ روایات کے مطابق سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہائی کے پیش نظر آپ کو نیا نکاح کرنے کی تجویز خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے دی تھی اور انھی نے اس ضمن میں سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہ عائشہ کے نام آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ام المومنین اس وقت عمر کے اس حصے میں تھیں کہ فوری طور پر ان کا نکاح کر کے رخصتی کی جا سکتی تھی، ورنہ خولہ بنت حکیم کا ذہن ان کی طرف کیوں متوجہ ہوتا!
یہ استدلال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ خولہ بنت حکیم نے سیدہ عائشہ سے نکاح کی تجویز علی الفور رخصتی کے ارادے سے دی تھی اور بظاہر اس مفروضے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ روایت کے مطابق اس تجویز کا محرک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محروم ہوجانا بنا تھا۔ تاہم روایت کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ مفروضہ زیادہ وزنی دکھائی نہیں دیتا۔ اگر تو یہ مانا جائے کہ خولہ بنت حکیم نے سیدہ عائشہ سے نکاح کی تجویز سودہ بنت زمعہ کے متبادل کے طور پر دی تھی اور ان کا منشا یہ تھا کہ آپ ان میں سے کسی ایک سے نکاح کر لیں تو پھر زیر بحث استدلال میں ایک وزن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن اگر اس کے برعکس یہ امکان مانا جائے کہ خولہ نے درحقیقت بیک وقت دو نکاحوں کی تجویز دی تھی تو پھر اس استدلال کا وزن ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس صورت میں یہ کہنا بالکل قرین قیاس ہے کہ خولہ کے ذہن میں یہ تجویز دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوری خانگی ضروریات بھی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی آئندہ کی خانگی زندگی کے مصالح کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر کے باہمی تعلقات کو ایک نئے رشتے کی شکل دینا بھی ان کے پیش نظر تھا، چنانچہ انھوں نے پہلے مقصد کے تحت سیدہ سودہ کے ساتھ جبکہ دوسرے مقصد کے تحت سیدہ عائشہ کے ساتھ نکاح کا مشورہ آپ کے سامنے پیش کیا۔ روایت میں بیان ہو ا ہے کہ خولہ بنت حکیم نے سیدہ عائشہ کا ذکر کرتے ہوئے ’بنت احب خلق اللہ الیک‘ یعنی ’’لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب شخص کی بیٹی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جس سے صاف واضح ہے کہ خولہ کی اس تجویز کے محرکات میں دونوں حضرات کے باہمی تعلقات میں مزید مضبوطی پیدا کرنا بھی تھا اور وہ اسی تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس تجویز کو قبول کرنے کی اپیل کر رہی تھیں۔
اگرچہ روایت میں خولہ بنت حکیم کی تجویز کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے کہ ’ان شئت بکرا وان شئت ثیبا‘ (مسند احمد، رقم ۲۵۸۱۰) یعنی آپ چاہیں تو کنواری سے نکاح کر لیں اور چاہیں تو شوہر دیدہ سے، لیکن دو واقعاتی قرینے یہ بتاتے ہیں کہ یہ تجویز دراصل بیک وقت دونوں سے نکاح کرنے کی تھی، جبکہ فوری رخصتی صرف سیدہ سودہ کی مطلوب تھی۔ پہلا قرینہ تو یہ ہے کہ اسی روایت کے مطابق خولہ بنت حکیم کی تجویز سننے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ یا عائشہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے بجائے خولہ سے کہا کہ جاؤ اور ان دونوں کے ساتھ میرے رشتے کی بات کرو: فاذہبی فاذکریہما علی (مسند احمد، ۲۵۹۱۰)۔ چنانچہ خولہ گئیں اور ان دونوں گھرانوں سے بات کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا جس کے نتیجے میں دونوں امہات المومنین کے ساتھ آپ کا نکاح ہو گیا۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ دونوں خواتین سے نکاح کے بعد سیدہ سودہ تو فوری طور پر رخصت ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آ گئیں، جبکہ سیدہ عائشہ کی رخصتی کو موخر کر دیا گیا اور ان کی رخصتی ہجرت مدینہ کے بعد عمل میں آئی۔
اس تفصیل کی روشنی میں اگر اس نکاح سے متعلق جملہ روایات کو پیش نظر رکھا جائے تو واقعات کی ترتیب یوں بنتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ عائشہ کے ساتھ نکاح کی اطلاع اور اس کے منشاے الٰہی ہونے کا اشارہ ایک خواب کی صورت میں پہلے سے کر دیا گیا تھا۔ سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے آپ کے مستقبل کے خانگی مصالح اور سیدنا ابوبکر کے ساتھ آپ کے نہایت قریبی تعلقات کے پیش نظر آپ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ سودہ بنت زمعہ کے ساتھ ساتھ سیدہ عائشہ سے بھی نکاح کر لیں۔ سابقہ خوابی اشارے اور تجویز میں مضمر متنوع مصالح کو دیکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو قبول فرما لیا۔ سیدنا ابوبکر کے ذہن میں اس وقت تک یہ خیال نہیں آیا تھا جس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ وہ سیدہ عائشہ کا رشتہ جبیر بن مطعم کے ساتھ طے کر چکے تھے اور دوسری یہ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے رشتہ اخوت کو حقیقی اور نسبی اخوت کا درجہ دیتے تھے اور ان کے خیال میں ان کی بیٹی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس خیال کی اصلاح فرما دی اور کہا کہ ہمارا رشتہ اسلام میں اخوت کا رشتہ ہے جو تمھاری بیٹی کے میرے نکاح میں آنے سے مانع نہیں۔ یوں یہ نکاح منشائے الٰہی کی تکمیل کے علاوہ عرب معاشرت کی سماجی روایات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خانگی ودینی مصالح کے لحاظ سے بھی پوری طرح قابل فہم ہے۔