خروج اور تکفیر کا مسئلہ ایک عرصہ سے دینی حلقوں میں زیر بحث ہے اور مختلف حوالوں سے اس پر بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مسئلہ نیا نہیں ہے، بلکہ خیر القرون میں بھی اس پر بحث ومباحثہ ہو چکا ہے اور مختلف حلقوں کا موقف تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ تکفیر کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا جب جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر سے خوارج نے علیحدگی اختیار کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر الزام لگا دیا کہ انھوں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ جنگ کے دوران جنگ کو فیصلہ کن نتیجے تک پہنچانے کی بجائے صلح کی پیش کش قبول کر کے اور حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو حکم تسلیم کر کے ان الحکم الا للہ کے قرآنی حکم سے (نعوذ باللہ) انحراف کیا ہے اور کفر کے مرتکب ہوئے ہیں، چنانچہ خوارج نے اس فتوے کی بنیاد پر نہ صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جنگ کی بلکہ اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار رہے، حتیٰ کہ بصرہ پر قبضے کے بعد ہزاروں مسلمانوں کو اسی پس منظر میں مرتد قرار دے کر تہہ تیغ کر ڈالا، البتہ کوفہ پر خوارج کے کمانڈر ضحاک کے قبضہ کے بعد عجیب صورت حال پیدا ہو گئی جس کا تذکرہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں کیا ہے کہ جب ضحاک خارجی نے کوفہ کے گورنر عبد اللہ بن عمر (بن عبد العزیز) کو شکست دے کر کوفے پر قبضہ کر لیا اور جامع مسجد میں ہزاروں مسلح افراد کے ساتھ آ بیٹھا، اس وقت اس نے اعلان کیا کہ کوفہ کی آبادی مرتد ہے، اس لیے سب لوگ اس کے ہاتھ پر کفر سے توبہ کریں، ورنہ قتل کر دیے جائیں گے۔
اس موقع پر امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ اس کا تاریخی مکالمہ ہوا جس کے نتیجے میں کوفہ کی آبادی کو اس متوقع قتل عام سے نجات حاصل ہوئی۔ امام ابوحنیفہ نے ضحاک خارجی سے سوال کیا کہ وہ کوفہ کی عام آبادی کو مرتد کس بنیاد پر قرار دے رہا ہے؟ ا س لیے کہ مرتد وہ ہوتا ہے جو اپنے دین سے انحراف کرے، جبکہ کوفہ کی عام آبادی تو جس دین پرپیدا ہوئی تھی، اسی پر قائم ہے۔ انھوں نے اپنے دین سے انحراف نہیں کیا۔ اس پر ضحاک خارجی سوچ میں پڑ گیا اور اس نے اپنی سونتی ہوئی تلوار کو جھکا کر کوفہ کے عام مسلمانوں کی جاں بخشی کا اعلان کر دیا۔ اسی وجہ سے حضرت ابو مطیع بلخیؒ نے یہ تاریخی جملہ فرمایا کہ ’’اہل الکوفۃ کلہم موالی ابی حنیفۃ‘‘ (کوفہ کی ساری آبادی ابوحنیفہؒ کے آزاد کردہ غلام ہیں، اس لیے کہ ان کی وجہ سے ان کی جان بچی ہے)۔
امام ابوحنیفہؒ اور ضحاک خارجی کا یہ مکالمہ بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے جس کا صرف ایک حصہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں مسلمانوں کی تکفیر کا عمومی رجحان کیا تھا اور ائمہ اہل سنت نے کس حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ امت کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا۔
اسی طرح خروج کا معاملہ بھی ہے۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ اور ان کے خانوادہ کی کربلا میں المناک شہادت کا باعث کیا تھا؟ اس پر مختلف قسم کے موقف پائے جاتے ہیں:
- یہ نظام حکومت میں مبینہ منفی تبدیلی کے خلاف حضرت امام حسین کا احتجاج اور عزیمت کااظہار تھا۔
- یہ حکومت وقت کے خلاف ان کا خروج تھا۔
- حضرت امام حسین کے احتجاج اور غصہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزید کی بیورو کریسی نے ایسی صورت حال پیدا کر دی تھی جو اس المناک نتیجہ تک جا پہنچی۔
ہمارا ذاتی نقطہ نظر اس کے بارے میں یہ ہے کہ حضرت امام حسین کے جائز احتجاج اور غصہ کے بجا اظہار سے کچھ عناصر نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایسے حالات پیدا کردیے کہ سیدنا حضرت امام حسینؓ کے لیے مصالحت کی رخصت اور شہادت کی عزیمت میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ضروری ہو گیا اور انھوں نے رخصت پر عزیمت کو ترجیح دی۔ مگر ہم اس مسئلہ کو موضوع بحث بنانے کی بجائے ’’واقعہ حرہ‘‘ کا حوالہ دینا چاہیں گے کہ سیدنا امام حسینؓ اور ان کے خانوادہ کی کربلا میں المناک شہادت کے بعد مدینہ منورہ کی آبادی نے یزید کی بیعت توڑنے کا اعلان کر دیا جس پر یزید کی فوجوں نے مدینہ منورہ پر اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے چڑھائی کی، مدینہ منورہ میں کئی روز تک قتل عام ہوتا رہا اور اسلامی تاریخ ایک اور المناک سانحہ کواپنے دامن میں سمیٹنے پر مجبور ہو گئی جس کی تلخ یادیں آج بھی اہل دل کے زخموں کو کریدنے لگتی ہیں۔
اس موقع پر بخاری شریف کی روایت کے مطابق ہمیں صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا یہ اسوہ بھی ملتا ہے کہ انھوں نے یزید کی بیعت توڑنے کو خروج قرار دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا بلکہ اپنے خاندان اور متعلقین کو جمع کر کے یہ اعلان بھی کیا کہ جس نے اس ’’خروج‘‘ کا ساتھ دیا، وہ اس سے براء ت اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔
اس کے بعد مختلف مواقع پر ’’خروج‘‘ کے اور بھی واقعات رونما ہوئے، حتیٰ کہ امام زیدؒ ، امام ابراہیمؒ اور نفس زکیہؒ جیسے پاک باز لوگوں نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت کی، ان کا ساتھ بھی بہت سے لوگوں نے دیا، حضرت امام ابوحنیفہؒ جیسے اکابر نے ان کی درپردہ مدد بھی کی، لیکن امت کا عمومی ماحول اور جمہور علماء امت اس سے اجتماعی طور پر الگ تھلگ رہے۔
یہ باتیں گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خروج اور تکفیر کے یہ مباحث نئے نہیں بلکہ خیر القرون میں بھی ہمیں ان سے واسطہ پڑ چکا ہے، اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ ان مسائل میں ازسرنو کوئی موقف طے کرنے کی بجائے خیر القرون کے اہل علم اور اہل سنت کے مسلمہ اماموں کے موقف اور طرز عمل کو ہی بنیاد بنایا جائے۔ ہمارا آج کے دور کا اصل المیہ یہ ہے کہ کوئی مسئلہ سامنے آنے پر ہم ائمہ اہل سنت، فقہاء کرام اور جمہور امت کے تاریخی تعامل کو سامنے رکھنے کے بجائے قرآن کریم یا حدیث نبوی سے ازسرنو اور ازخود کوئی موقف طے کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی مسلمہ علمی روایات کو نظر انداز کر کے پھر سے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ طرزعمل مسیحی راہ نما مارٹن لوتھر کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کا نمونہ تو ہو سکتا ہے، مگر امت مسلمہ کی علمی روایات اور اجماعی تعامل سے بہرحال جوڑ نہیں کھاتا۔
خروج اور تکفیر کے بارے میں مختلف ارباب دانش اور اصحاب قلم کی نگارشات ’’الشریعہ‘‘ کی اس اشاعت میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان سب سے اتفاق ضروری نہیں، لیکن اصولی طور پر جہاں ہم ایسے مسائل پر کھلے علمی مباحثہ کو ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی صحیح نتیجے تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے، وہاں ہمارے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ امت کی علمی روایات اور جمہور اہل علم کے تعامل کو سامنے رکھا جائے۔ موجودہ حالات کا تناظر ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماضی کے علمی تسلسل اور مسلمات کے دائروں کو ملحوظ رکھنا بھی ناگزیر ہے، اس لیے کہ حق کی گاڑی انھی دو پہیوں پر اور ان کے صحیح تناسب کے ساتھ چلنے پر آگے بڑھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ حق پر چلنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین