میرے خیال میں اب وہ وقت آگیا ہے کہ میرے ایسے طالبِ علم کو توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ کے ضمن میں کچھ عرض کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے جناب مولانا زاہدالرشدی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے بہت طویل انتظارکے بعد ہی سہی، بہرحال اِس نازک اور حساس مسئلہ میں خاموشی پر اظہار کو ترجیح دی، بغیر کسی لگی لپٹی کے حنفی نکتۂ نظر کو وضاحت سے بیان کیا اور کسی کے طعن وملامت کی پروا کیے بغیر پڑھنے لکھنے والے بچوں کے اس کرب کا مداواکیا جو اِ س مسئلہ کی بابت پیدا ہونے والے سنجیدہ ابہامات اور ان پربڑوں کی لامتناہی خاموشی کو دیکھ کر مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس جرا تِ اظہار کی امید مولاناکی شخصیت سے ہی تھی جسے انہوں نے اپنے مخصوص طرزِمتانت اور اعتدال کے ساتھ خوب نبھایا۔
اِس مسئلے کے حوالہ سے میرے ایسے نو آموزوں کا کرب یہ نہیں تھا کہ ہمارے ہاں اس مسئلہ میں فقہِ حنفی کے نکتۂ نظر کونظر انداز کیا جارہا ہے یا امام ابوحنیفہ ؒ کے مقلدین اِ س مسئلہ میں ان کی تقلید سے انحراف کررہے ہیں یا پھر زیادہ قابل قبول لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ اِ س مسئلہ کے اندر حنفی نکتۂ نظر کی تشریح اور ترجمانی کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین شامی نے جو موقف اختیار کیا ہے، اس سے اختلاف کیا جار ہا ہے۔ نہیں، ہماری نظر میں یہ قطعاً کوئی تشویش اور اضطراب کی بات نہیں۔ علامہ شامی کی حیثیت فقہِ حنفی کے ایک محقق اور شارح کی ہے۔ اگر ہمارے ہاں اکثر وبیشتر مسائل میں ان کی تحقیق اور ترجیح پر اعتماد کیا جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ سب مسائل میں ان ہی کی رائے کو حرفِ آخر قرار دیا جائے۔ فتاویٰ شامی کے کتنے ہی مندرجات ایسے ہیں جن سے ہمارے ہاں کے جمہور علما اختلاف کرتے ہیں۔ اگر ان میں ایک مسئلہ توہین رسالت کی سزا کا بھی ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ ہرمسئلہ میں علامہ شامی کی تحقیق پر ہی عمل کرنا یقیناکوئی شرعی فریضہ نہیں۔ پھر اس مسئلہ کے اندر حنفی نکتۂ نظر کی تشریح وتعبیر کے ضمن میں بعض دیگر ایسے معتبرنام بھی موجود ہیں جن کی تحقیق علامہ شامی کی رائے کے برخلاف ہے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ کی طرف وہ موقف منسو ب کیا ہے جس کے قائل پاکستان کے جمہور اہل علم ہیں۔ ان میں سے بہت سے حضرات کے اسماے گرامی علامہ خلیل الرحمن قادری نے اپنے مضمون (مطبوعہ : محدث؍ شمارہ اگست ۲۰۱۱ء) میں بڑی جانفشانی سے ضبط کردیے ہیں۔ اگر ہمارے جمہور علما اس مسئلہ کی حنفی تنقیح میں علامہ شامی کی ترجمانی کی بجائے دیگر علما کی تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ کوئی پریشان کن صورتِ حال نہیں۔
نیز فرض کیجیے کہ اگر دلائل کو پر کھنے کے بعد یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اِ س مسئلہ کی حنفی تنقیح کا حق علامہ شامی نے ادا کیا ہے اور امام ابوحنیفہ کا اصل نکتۂ نظر وہی ہے جو علامہ شامی نے بڑی عرق ریزی اور شرح وبسط کے ساتھ بیان کردیا ہے تو بھی کوئی ضروری نہیں کہ ہمارے اہلِ علم کو اس مسئلہ میں کوئی مختلف نکتۂ نظراختیار کرنے کا حق حاصل نہ ہو۔ اصحابِ فتویٰ (جو حقیقتاً اصحابِ فتویٰ ہیں) اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کتنے ہی مسائل میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اما م کی بجائے صاحبین اور بعض مسائل میں یکسر کسی دوسری فقہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ قرآنِ مجید کی تعلیم پر اجرت لینے اور لاپتہ خاوند کی بیوی کے مدتِ انتظار سمیت کئی مسائل کی ایک فہرست ہے جو مرتب کی جاسکتی ہے ۔ ان مسائل میں فقہ حنفی کے ائمہ کی بجائے ہمارے علما کسی اور فقہ کے قول کو اختیار کرتے ہیں ۔ اگر مسئلہ ’’توہین رسالت کی سزا‘‘ کے ضمن میں بھی پاکستان کے حنفی علما اپنے امام کی بجائے کسی دوسری رائے کوترجیح دیں تو یہ کوئی انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفردمثال نہیں اور نہ ہی اس پر ہمیں سر پکڑ کر بیٹھ جانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے درد اور کرب کا سلسلہ تب شروع ہوا جب ’’تحریک ناموسِ رسالت ‘‘ کے بھر پور حرارت کے دنوں میں ’’توہین رسالت کی شرعی سزا‘‘ کے حوالہ سے مذہبی رسائل وجرائد کے اندر قطار اندر قطار مضامین لگنا شروع ہوئے اور ان کے اندر پاکستان کے جمہور علما کے موقف کو علامہ شامی کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ نہ صرف یہی ، بلکہ علامہ شامی مرحوم کے اِ س مسئلہ پر تحریر کیے گئے مستقل اور منفرد رسالہ ’’تنبیہ الولاۃ والحکام‘‘ اور فتاویٰ شامی کے ’’جلد نمبر‘‘ اور’’ صفحہ نمبر‘‘ کا حوالہ دے دے کر متواتر یہ دعویٰ دہرایا جاتا رہا کہ توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل اور ناقابل معافی ہے اور اس کی کسی ذیلی صورت اور کسی فرع میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے! فقہِ حنفی کا طالبِ علم جب تحقیق کے نام پر ڈھائے گئے اس ’’ظلم‘‘ کو دیکھتا تو سمجھ نہ پاتا کہ اِسے علمی افلاس کہنا چاہیے یا علمی خیانت؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے جبکہ اِس خطہ کے مسلمانوں میں اِس حوالہ سے خصوصی طور پر بہت زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے۔ اس حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں ’’قانون توہین رسالت‘‘ جیسا کوئی قانون ہی مطلوب تھاجس میں لاقانونیت کا دروازہ بند کرنے کے لیے توہین رسالت کے جرم کی انتہائی سے انتہائی سزا مقرر کی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شعوری کارکن کی حیثیت سے پورے خلوص کے ساتھ ، میں خود ذاتی طور پر تحریکِ ناموسِ رسالت کے مختلف اجتماعات میں شریک ہوتا رہا جس کا ایجنڈا ’’قانون توہین رسالت ‘‘ کو تعطیل اور ترمیم سے بچانا تھا۔ قائدِ اعظم جیسے آدمی کا اپنے دور میں گستاخِ رسول کے ایک قاتل کا مقدمہ لڑنا اور اب ایک سرکاری اہل کار کے ہاتھوں صوبائی گورنر کے قتل جیسے واقعات بتلاتے ہیں کہ یہ قانون اپنی سخت گیر شکل میں ہی خطہ کے مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی اور ترجمانی کرتا ہے اور اس کی فعالیت اور بغیر ترمیم کے برقرار رہنا ہی لوگوں کے جذبات کو قانونی دائرہ کا پابند رکھ سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر اِس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے قانونی راستہ اختیار کریں گے، بلکہ اِس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ ممتاز قادری کی طرح لوگ از خود ہی اپنے جذبات کی تشفی کے من پسند راستے تراشنا شروع کردیں گے۔ البتہ علماے کرام کے لیے ضروری ہے کہ اِس حوالہ سے غیر محسوس طریقہ پر عوامی جذبات کی نئی رخ سازی کا فریضہ انجام دیں اور انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت وعظمت پہ جان دینے کے ساتھ ساتھ دعوتِ دین کے حکیمانہ آداب وضروریات اور تقاضوں سے بھی آگاہ کریں تاکہ عوامی اعتماد کے ساتھ اِس قانون کی درست صورت گری ممکن ہوسکے، جیسا کہ مولانا مفتی محمد زاہد نے لکھا ہے :’’ اہل علم سے یہ درخواست ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں کو اور ملک کی معروضی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر سنجیدہ غور کا سلسلہ شروع کریں اور بجائے اس کے کہ کوئی موقع دیکھ کر حکومت کوئی لسٹم پسٹم ترمیم لے آئے اور دینی حلقوں کے ساتھ اسی طرح کا ہاتھ ہوجائے جیساکہ ۲۰۰۷ء میں حدود کے مسئلہ پر ہوا تھا، علماء کے لیے مناسب ہوگا کہ مختلف طبقات کے جائز تحفظات کو سامنے رکھ کر از خود قرآن وسنت کی روشنی میں کوئی قانونی پیکج پیش کردیں۔‘‘
تاہم جب تک یہ سب ممکن نہیں ہو پاتا، حالات کے معروضی تناظر، ریاست کے جمہور عوام کے جذبات واحساسات اور مفادِ عامہ کی روشنی میں قانونِ توہین رسالت کا جوں کا توں برقرار رہنا ہی حکمت ودانش کا تقاضا ہے اور اِس صورت میں علامہ شامی کی تحقیق اور توہین رسالت ایکٹ کے مابین بھی ماسوائے ایک نکتہ کے کوئی تصادم موجود نہیں ہے، جبکہ بعض حضرات کی طرف سے اِسے بہت بڑھاچڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ علامہ شامی کی تحقیق کے مطابق توہین رسالت کا مرتکب خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اپنے خون کی حرمت کھو کر ’’مباح الدم ‘‘ہوچکا ہے اور انہی کے مطابق اس میں کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ’’مباح الدم ‘‘ کی اصطلاح ایسے آدمی کے لیے استعمال ہوتی ہے جو واجب القتل ہو یا نہ، لیکن اسے قتل کرنا بہر حال جائز ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک گستاخِ رسول اگر مسلم ہو تو مباح الدم کے ساتھ ساتھ وہ واجب القتل بھی ہوچکا ہے، لیکن اگر غیرمسلم ہو تو وہ شرعاً واجب القتل نہیں، بلکہ اس کو قتل کرنا یا قتل سے کم تر سزا دینا قاضی کی تعزیری صواب دید پر منحصر ہے ۔ ’’تعزیراتِ پاکستان‘‘ نے اگر اپنے اسی صواب دیدی اختیار کو عوامی جذبات کے مطابق برمحل استعمال کرتے ہوئے صرف موت کی سزا متعین کردی ہے تو اِس میں فقہِ حنفی کی مخالفت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ البتہ اگر گستاخِ رسول توبہ کرلے تو اس کی معافی ہے یانہیں ؟یہ ایک صورت ہے جس میں فقہِ حنفی اور قانون توہینِ رسالت کے درمیان ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ علامہ شامی کے مطابق توبہ کرلینے سے گستاخِ رسول کے خون کی حرمت واپس لوٹ آئے گی اور اسے قتل کرنا درست نہیں۔
تحریکِ ناموسِ رسالت کی کامیابی کے لیے ا تنا ہی کافی تھا کہ پاکستان کے جمہور اہل علم اور تمام مسالک اس سلسلہ میں یک نکاتی ایجنڈے پر متفق تھے کہ قانون توہین رسالت میں کسی طور ترمیم نہیں ہونے دی جائے گی۔ اگر اِس سلسلہ میں علامہ شامی یا پاکستان کے کسی اور صاحبِ علم کی رائے استثنائی تھی تو اِس سے تحریک کو کیا نقصان تھا؟ ظاہر ہے کہ پاکستانی عوام جمہور اہلِ علم کی پشت پر کھڑے تھی اور جمہوری حکومت نے اگر فیصلہ جمہور کے حق میں کیا تو یہ جمہور کی قوت کی وجہ سے ممکن ہوا، علامہ شامی مرحوم کا غلط حوالہ استعمال کرنے کی وجہ سے نہیں۔علامہ شامی ہمارے حکمرانوں کے لیے کوئی بہت محترم شخصیت نہیں کہ ان کانام سن کر وہ چاروں شانے چت گر پڑتے اور اپنے ارادوں سے تائب ہوجاتے۔
علامہ شامی موصوف نے ہی اپنی کتاب ’’شرح عقود رسم المفتی ‘‘ میں ایک مستقل عنوان قائم کرکے بتایا ہے کہ بعض مسائل یوں مشہور ہوجاتے ہیں کہ جیسے یہ متفقہ امور ہیں ، حالانکہ اِس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ اِس ضمن میں بطورِمثال انہوں نے ’’ توہین رسالت کی سزا‘‘ کے مسئلہ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ان کی رائے میں ایک مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ فتویٰ دیتے ہوئے صرف متاخرین کی کتابوں کو نہ دیکھے ، بلکہ فقہ کے اصل مآخذ سے بھی رجوع کرے، کیونکہ بعض اوقات کسی مسئلہ کو نقل کرتے ہوئے یا اس کی تشریح کرتے ہوئے کسی عالم سے غلطی ہوجاتی ہے اور آنے والے اسی کو نقل درنقل کرتے چلے جاتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ کوئی اجماعی مسئلہ ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ مسئلہ سرے سے تعبیر اور تشریح کی اس غلطی کانتیجہ ہوتا ہے جو پہلے عالم سے ہوئی ۔ اصل ماخذ کے ساتھ مراجعت کرنے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ ایسے بے شمار مسائل ہیں جن میں تحقیق واختلاف کا باب وسیع ہے ، مگر ان میں کسی ایک قول کی مقبولیت اور شہرتِ عامہ نے عوام کی نظروں میں ہر قسم کی تجدید اور اختلافِ رائے کے دروازے کو مقفل کردیا ہے۔ اگر علماءِ کرام کا کام بھی یہی ہے کہ انہوں نے عوام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایسے مسائل میں مشہورات کوہی قطعیات کا درجہ دے کر سطحی اندازِ فکر اختیارکرنا ہے تو پھر ہمارے خیال میں انہیں اپنی عمر عزیز کے آٹھ دس سال مدرسہ کی چاردیواری میں خرچ کرنے کی بجائے کسی اور شعبہ میں کارآمد بنانے چاہئیں۔ اس طرزِ فکر کا اظہار کرنے کے لیے اتنے طویل دورانیہ کی ریاضت کا بوجھ اٹھانے کیا ضرورت ہے؟ اگر شہرتِ عامہ کو مسائل کی قطعیت کا سبب فرض کرلیا جائے تو بہت سی لاینحل پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ علما کافرض بنتا ہے کہ اختلافی مسائل کو اجماعی بنانے اور ان میں غیر ضروری شدت اختیار کرنے سے اجتناب کریں، بلکہ ایسے مسائل میں عوامی رویوں کو اعتدال پر قائم رکھنے کے لیے کوششیں بروے کار لائیں۔ یہ مقصود نہیں کہ ہر مسئلہ کے متعلقہ اختلافات کھول کھول کر عوام کے سامنے بیان کرنا شروع کردیں اور ان کے لیے خلفشار کا باعث بنیں۔ ہرگز نہیں، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ یہ اختلافات علما کی نظروں کے سامنے رہیں۔ وہ فقہی اور اجتہادی نوعیت کے مسائل کوان کے اصل تناظر میں دیکھیں اور بوقت ضرورت اس کا اظہار کرنے میں بھی جھجک محسوس نہ کریں۔