ماہنامہ الشریعہ، شمارہ اکتوبر ۲۰۱۱ میں فاضل مصنف جناب اویس پاشا قرنی صاحب کا مضمون ’عصر حاضر میں غلبہ اسلام کے لیے جہاد‘ نظر سے گزرا۔ صاحب مضمون نے اپنے مضمون میں دو مقدمات پر بحث کی ہے۔ اولاً، موجودہ دور میں نصوص دعوت کو منسوخ ٹھہرانے والے حضرات کا رد (مضمون کے اس حصے سے ہمیں اتفاق ہے کہ دعوت و تبلیغ کی اہمیت کا انکار کرنا کسی طور درست نہیں)۔ ثانیاً، موجودہ دور میں جہادی جدوجہد کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ منہاج شریعت کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔ اس ضمن میں فاضل مصنف بنیادی طور پر دو دلائل پیش کرتے ہیں: (۱) جہادی جدوجہد ناکامی و نقصان سے عبارت ہے، لہٰذا اسے ترک کردینا چاہیے (گو کہ اس نکتے پر وہ تفصیلی دلیل قائم نہیں کرتے، البتہ اسے ایک حقیقت ثابتہ کے طور پر فرض کرکے اپنے دلائل کی عمارت قائم کرتے چلے جاتے ہیں)۔ (۲) موجودہ صورت حال میں جہادی حکمت عملی سنت نبوی کے منہاج کے خلاف ہے۔ اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد کا حکم مدینہ میں مشروع ہوا نہ کہ مکہ میں، جبکہ موجودہ حالات میں مسلمان مکی دور سے گزر رہے ہیں اور مکی دور کا تقاضا صرف اور صرف دعوت، تبلیغ و تنظیم سازی وغیرہ پر ساری توجہ مرکوز کردینا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم پاشا صاحب کا فکری تناظر و پس منظر کیا ہے (کسی دلیل کا تجزیہ کرنے کے لیے صاحب دلیل کے فکری حدود اربعہ معلوم ہونے سے بہت مدد مل جاتی ہے)، البتہ ان کے انداز استدلال سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ ان کا فکری تعلق شاید تنظیم اسلامی سے ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)۔ چونکہ ہمیں اس بابت کوئی حتمی علم نہیں، لہٰذا ہم یہاں تنظیم اسلامی کے طرز فکر کو بنیاد بنا کر کوئی تنقید نہیں کریں گے۔ جہاں تک ان کی پہلی دلیل کا تعلق ہے، اس کا تفصیلی جائزہ ہم نے اپنے مضمون ’’معاصر منکرین خروج کے استدلال کا جائزہ‘ ‘ میں پیش کیا ہے (جو ان شاء اللہ عنقریب منظر عام پر آئے گا)۔ یہاں بس اتنا اصولی جواب کافی ہے کہ :
- فائدوں اور نقصانات کا تعلق حکمت عملی کے باب سے ہے نہ کہ اصل دلائل شرعیہ سے، لہٰذا ان کی بنا پر کسی شے کی مخالفت ایک اجتہادی رائے سے زیادہ کچھ نہیں۔
- ’فائدے اور نقصان‘ کا تعین طرز فکر سے ہوتا ہے، یعنی ایک شے جو کسی ایک نقطہ نظر کے لحاظ سے فائدہ سمجھی جاتی ہے، عین ممکن ہے کسی دوسرے نقطہ نظر کے اعتبار سے نقصان قرار پائے۔ جس طرح منکرین معاصر جہاد کو اپنے نقطہ نظر سے فائدے اور نقصان کا تعین کرنے کا حق حاصل ہے، بالکل اسی طرح دوسروں کو بھی اس کا حق حاصل ہے۔
- نتائج کی بنیاد پر کسی شے کا حکم متعین کرنا اصول فقہ میں ’سد الذرائع‘ کہلاتا ہے اور یہ اصول فقہ کا ایک پیچیدہ باب ہے جہاں فیصلہ کرتے وقت کسی ایک نہیں، بلکہ تمام عوامل اور پہلووں کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا حکم لگاتے وقت کسی ایک پہلو پر ہی ساری توجہ مرکوز نہیں کی جاسکتی۔
- یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ ہر جدوجہد محتاط اندازے و تخمینے کے مطابق ہی کی جاتی ہے جس میں کامیابی و ناکامی کے امکانات ’جدوجہد کرنے والوں‘ کے خیال میں برابر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان امکانات کا تخمینہ لگانا ’جدوجہد سے باہر‘ کسی بیرونی ادارے، افراد یا تحریک کا نہیں بلکہ خود جدوجہد کرنے والوں کا کام ہوتا ہے اور اس ضمن میں انہی کا قول ’قول فیصل‘ سمجھا جانا چاہیے کیونکہ جہاد کرنے والا گروہ زیادہ بہتر طور پر جان سکتا ہے کہ اس کے پاس کتنی قوت ہے اور کب اس کو استعمال کیا جائے گا۔ پھر کامیابی و ناکامی کے امکانات طے کرنے کاکوئی سائنٹفک معیار و طریقہ کار موجودہ نہیں ہوتا اور نہ ہی جدوجہد سے پہلے اس کی عوامی مقبولیت کا کوئی معین اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب آغاز جدوجہد میں ناقدین اسے ناکامی کا سرٹیفیکیٹ دے چکے تھے، لیکن حالات و واقعات نے ایسی کروٹیں لیں کہ طاقتور ترین دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔
- پھر امت کو جہادی جدوجہد ترک کرکے جن طرق کی طرف دعوت دی جارہی ہے، بذات خود ان طریقوں کو بھی نتیجیت پسندی کے اصول پر پرکھ کر دیکھ لیا جانا چاہیے کہ ان کے نتیجے میں اسلامی ریاست کی تعمیر کے کام میں کس قدر ’خیر‘ جمع کیا جا سکا ہے؟ کیا نصف صدی سے لمبے عرصے پر محیط غیر جہادی جدوجہد نے آج سیاسی اسلامی تحریکات کو ایسی بند گلی میں لا کھڑا نہیں کیا جس سے آگے انہیں کوئی راہ نہیں سوجھتی ؟
- منکرین معاصر جہاد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ وہ موجودہ دور کے اصل چیلنج یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے جواب میں امت مسلمہ میں برپا جدوجہد کی ہمہ گیریت کا درست ادراک نہیں رکھتے، لہٰذا وہ معاصر جہادی جدوجہد کو اصلاحی جدوجہد کا متبادل و مد مقابل سمجھتے ہیں، جبکہ درحقیقت یہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ (ان نکات کی مزید تفصیل کے لیے راقم کا مضمون ملاحظہ فرمائیے گا)۔
اب ان کی دوسری دلیل پر تبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔
پاشا صاحب کی پیش کردہ یہ دلیل کوئی نئی نہیں، بلکہ ایک عرصے سے معاصر جہاد کے خلاف دہرائی جارہی ہے۔ (معاصر جہاد پر اس قبیل کے دیگر اعتراضات کے تجزیے کے لیے دیکھیے حامد کمال الدین صاحب کا مضمون ’معاصر جہاد اور کچھ عمومی اشکالات‘، ایقاظ، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۱)۔ چلیے ایک لمحے کے لیے قرآنی آیت الیوم اکملت لکم دینکم کے بارے میں علمائے مفسرین کی رائے سے صرف نظر کرتے ہوئے پاشا صاحب کی اس ترتیب احکام اور ’حکمت منہاج ‘ کے فلسفے کو مان لیتے ہیں، پھر بھی ذہنوں میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ’مکی و مدنی دور کے منہاج میں فرق کرنے والی شے آخر کیا تھی؟‘ ہماری دانست میں اس کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مدینہ میں ایک ریاست میسر آگئی تھی۔ ہم تاکید کے لیے پھر کہے دیتے ہیں کہ منہاج کا فرق کرنے والی شے مدینہ میں باقاعدہ ایک ریاست کا میسر آجانا ہی تھا نا؟ اگر ایسا ہی تھا جیسا کا امر واقعہ ہے اور یہ دلیل دینے والے حضرات کو بھی قبول ہے تو پھر دور حاضر میں مسلمانوں نے جو یہ درجنوں مسلم (یا جیسی تیسی اسلامی) ریاستیں قائم کر رکھی ہیں، کیا اتنی طویل المدت اور ڈھیر ساری ریاستوں کے قیام کے بعد بھی مدنی دور کا آغاز نہیں ہوا؟ سیرت نبوی میں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ’مدینہ میں ایک چھوٹی سی اور نہایت کمزور اسلامی ریاست قائم ہوتے ہی احکاما ت جہاد اور عملاً جہاد شروع ہوجاتا ہے‘، لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ کروڑوں کی آبادیوں اور وسائل والے علاقوں پر مسلم حکومتیں قائم ہوجانے کے بعد بھی جہاد منہاج سنت کے خلاف قرار دیا جارہا ہے؟ آخر اس مدنی دور کا آغاز کس طلوع آفتاب سے ہوگا؟ یہ دلیل دینے والے حضرات سے درخواست ہے کہ اپنے منہاجی فلسفے کی روشنی میں ان ’شرائط‘ (ہم یہ لفظ فقہی اصطلاح میں استعمال کررہے ہیں) کا ٹھیک ٹھیک تعین فرمادیں جو مدینہ میں تو جہادی حکمت عملی کا وجہ جواز بن سکتی تھیں، لیکن موجودہ حالات میں مانع ہیں۔ (اگر ہمیں یہ یقین ہوتا کہ پاشا صاحب کا تعلق تنظیم اسلامی سے ہے تو ہم ان کی فکر کو تنظیم کے فکری تناظر کے ساتھ ملا کر دکھاتے کہ اس میں مزید کتنے ابہامات ہیں)۔
عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس ’منہاجی فلسفے‘ کو بطور دلیل پیش کرنے والے حضرات کو تو موجودہ حالات میں نہ صرف یہ کہ جہاد کا سب سے بڑا حامی ہونا چاہیے، تھا بلکہ کم از کم پاکستان کو اس کا بیس کیمپ بنانے پر اصرارکرنا چاہیے تھا کہ پاکستانی ریاست تو (بقول ان کے) بنائی ہی اسلام کے لیے گئی تھی۔ چنانچہ جب ریاست بھی بن گئی تو اب مکی دور کی دہائی کا کیا مطلب؟
چونکہ اس منہاجی دلیل کے منطقی مضمرات انتہائی خطرناک ہیں (مثلاً اس دلیل کے اطلاق کی رو سے سود، صوم و حج وغیرہم جیسے بہت سے احکامات پر آج عمل کرنا منہاج دین کے خلاف ٹھہرے گا کیونکہ یہ بھی مدینہ میں مشروع ہوئے)، لہٰذا ان سے بچنے کے لیے اپنی دلیل میں موجود ضعف کو پیوندکاری کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ اپنی دلیل پر وارد ہونے والے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے پاشا صاحب فرماتے ہیں: ’’یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی نظیر یا مثال کا سوفیصد انطباق نہیں ہوتا بلکہ کسی نسبت سے اُس کا اطلاق ہوتا ہے اور کسی پہلو سے نہیں بھی ہوتا۔ اُسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کی رعایت کے ساتھ عمل کرنا مقصود ہوتا ہے اور یہ عقل عام کی بات ہے جس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں‘‘۔ بالکل جناب، یہ بات درست ہے کہ مقیس اور مقیس علیہ میں تعلق کسی مخصوص نسبت ہی سے قائم کیا جاتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی معاملات میں آخر ’آج‘ یہ فیصلہ ’ کون‘ اور ’کس پیمانے‘ کی بنیاد پر کرے گا کہ اس دلیل میں مقیس اور مقیس علیہ کی مماثلت و عدم مماثلت کن دینی معاملات میں معتبر اور کن میں غیر معتبر مانی جائے گی؟ پھر اگر کوئی شخص یا جماعت اپنے تئیں یہ فیصلہ کرلے تو سوال یہ ہے کہ امت کے حق میں اس فیصلے کی ’شرعی حیثیت‘ کیا ہوگی؟ ظاہر ہے اس کی دینی حیثیت ذاتی اجتہاد سے بڑھ کر کوئی اور تو ہو نہیں سکتی۔ تو پھر جس طرح ایک شخص یا جماعت کو اپنا ’حق اجتہاد ‘ استعمال کرکے امت یا اپنی جماعت سے حکم جہاد کو معطل کرنے کی اجازت مل جائے گی، کیا اسی طرح دوسرے گروہوں کو بھی اجتہاد کے ذریعے اپنے فلسفے و مطالعے کی بنیاد پر چند دیگر احکامات معطل کرلینے کا حق حاصل نہیں ہو جائے گا؟
مثلاً کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں جہاں استخلاف فی الارض کا مومنین سے وعدہ کیا گیا ہے، وہاں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جب بھی انھیں زمین میں اقتدار حاصل ہوگا تو وہ چار کام کریں گے: اقامت صلوٰ ۃ ،زکوٰۃ کا قیام اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر (الذین ان مکنہم فی الارض اقاموا الصلوۃ واتو الزکوۃ وامروا بالمعروف ونہوا عن المنکر)۔ اسلامی ریاست کے یہ چار بنیادی وظائف قرآن میں بیان کیے گئے ہیں، چنانچہ اس آیت سے منکرین جہاد کی طرح کوئی منکر صلوٰۃ و زکوٰۃ یہ استدلال کرسکتا ہے کہ جناب زکوٰۃ وصلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر اسلامی ریاست کا فریضہ اور وظیفہ ہیں، لہٰذا مسلمانوں پر یہ تمام کام بھی اسلامی ریاست کے قیام تک ترک کرنا لازم ہے۔ کیونکہ ہم مکی دور سے گزر رہے ہیں اور اسلامی ریاست موجود نہیں، لہٰذا مساجد تعمیر نہ کی جائیں نیزنظام صلوٰۃ کا اہتمام بند کیا جائے، کیونکہ زکوٰۃ وصول کرنے والی ریاست نہیں ہے، لہٰذا زکوٰۃ بھی ساقط ہے اور ساتھ ہی ’منہاجی فلسفے‘ اور ’حکمت دین‘ کی بنیاد پر یہ استدلال بھی پیش کردے کہ دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو مکہ میں مسجد کا کوئی اجتماعی بندوبست کیا اور نہ ہی کسی سے زکوٰۃ لی۔ اسی طرح اچھے کاموں کا حکم دینا اور برائی سے روکنے کا فریضہ بھی اسلامی ریاست کی سرپرستی اور موجودگی میں ہی اداکیا جاسکتا ہے، لہٰذا ان کاموں کو بھی ترک کردیا جائے۔ کیوں جی، کیسا رہا یہ اجتہاد اور منہاج دین کا فلسفہ؟
اگر کسی کا جواب یہ ہے کہ ’موجودہ حالات کی رعایت کے ساتھ عمل کرنا مقصود ہے‘ تو سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے آخر جہاد کرنا ہی کیوں مقصود نہیں؟ کیا کوئی صاحب علم یہ ثابت کرسکتا ہے کہ آج حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ جہاد ’عملاً ناممکن ‘ ہوچکا ہے؟ اگر یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ امر واقعہ ہے، تو اگر حالات کی رعایت کرتے ہوئے غلبہ دین کے دیگر طرق کے ذریعے جدوجہد کرنا جائز ہے تو جہاد ہی کیوں شجر ممنوعہ ہے؟ اگر مسئلہ ’موجودہ حالات کی رعایت کے ساتھ عمل کرنے‘ کا ہی ہے تو اس معاملے میں منکرین کا ’تجزیہ حالات‘ ہی کیوں حجت مانا جائے؟ کیا کسی دوسرے فرد یا گروہ کو حالات کے اپنے تجزیے کی بنیاد پر جہاد کرنے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا؟ پس جس طرح حالات کی رعایت کرتے ہوئے پاشا صاحب جیسے حضرات دیگر احکامات پر عمل ممکن سمجھتے ہیں، جہادی جدوجہد کرنے والے گروہ جہاد کو بھی ممکن سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے منہاجی فلسفے عام کرنے کا مطلب دین میں رخنہ اندازی کرنے کے راستے کھولنا ہے ، یہی وجہ ہے کہ روایت پسند علمائے کرام نے الیوم اکملت لکم دینکم کی روشنی میں فرمایاہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کسی شخص یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی فلسفے یا اجتہاد کی روشنی میں کسی دینی حکم کو عبوری طور پر ہی سہی منسوخ قرار دے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاشا صاحب جس ذہنیت (دین کے بعض احکامات کو مخصوص حالات میں منسوخ ٹھہرانے) کو اپنے مضمون میں رد کرنے نکلے تھے ، شعوری یا غیر شعوری طور پر بذات خود اسی ذہنیت کا شکار نظر آتے ہیں۔