قرآن / علوم القرآن

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۲) بل قالوا کا ترجمہ۔ بَلْ قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ فَلْیَأْتِنَا بِآیَۃٍ کَمَا أُرْسِلَ الأَوَّلُون۔(الانبیاء: 5)۔ اس آیت میں بَلْ کے بعد قَالُواْ آیا ہے، الفاظ کی ترتیب کے لحاظ سے ترجمہ ہوگا: بلکہ انہوں نے کہا۔ عام طور سے مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے، لیکن ایک ترجمہ اس سے مختلف بھی ملتا ہے،مثالیں ملاحظہ ہوں: ’’اتنا ہی نہیں بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ یہ قرآن پراگندہ خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شاعر ہے، ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے کہ اگلے پیغمبر بھیجے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۹) نظر المغشی علیہ من الموت کا ترجمہ۔ مندرجہ ذیل دو قرآنی مقامات کے بعض ترجمے توجہ طلب ہیں: (۱) رَأَیْْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْتِ۔ (محمد: 20)۔ ’’مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو ‘‘(سید مودودی، اس ترجمہ میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ اذا کے ہوتے ہوئے ترجمہ ماضی کا کیا گیا ہے، حالانکہ اذا فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اسے حال یا مستقبل کے مفہوم...

قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطی

ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسلام کے سیاسی غلبے کو دینی فریضہ قرار دینے کے حق میں یہ استدلال ایک بنیادی استدلال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے فتح و نصرت کے وعدے کیے تھے جو ان کے حق میں پورے ہوئے۔ یہی وعدے دیگر اہل ایمان کے لے بھی عام ہیں۔مسلمان اگر پورے جذبہ ایمانی سے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کریں گے تو یہ وعدے ان کے حق میں بھی اسی طرح پورے ہوں گے جیسے یہ صحابہ کے لیے پورے ہوئے تھے۔ اس استدلال کے بھروسے پر مسلم تاریخ میں بے شمار مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کی گئیں جن کا انجام تاریخ کے صفحات میں رقم ہے۔ زیر نظر مضمون...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۴) لأول الحشر کا ترجمہ۔ یہ لفظ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل ایک مقام پر آیا ہے: ہُوَ الَّذِیْ أَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مِن دِیَارِہِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۔(الحشر: 2)۔ مفسرین ومترجمین کو اس کا مفہوم متعین کرنے میں الجھن پیش آئی ہے، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل ترجمے دیکھ کر کیا جاسکتا ہے: ’’وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اْن کے گھروں سے نکال باہر کیا‘‘ (سید مودودی،’’پہلے ہی حملے‘‘ اس وقت درست ہوتا جب اول حشر یا الحشر الاول ہوتا، اس کی بجائے ’’حملہ کے آغاز ہی میں‘‘ درست ترجمہ ہوسکتا ہے)۔ ’’وہی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۱) یستعتبون کا ترجمہ۔ قرآن مجید میں لفظ یستعتبون تین مقامات پر آیا ہے، اور ایک مقام پر یستعتبوا آیا ہے۔ مختلف ترجموں کو سامنے رکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کو اس سلسلے میں کسی ایک مفہوم پر اطمینان نہیں تھا، اس لیے ایک ہی مترجم کے یہاں ایک ہی لفظ کے مختلف مقامات پر مختلف ترجمے ملتے ہیں۔ عربی لغات دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ استعتب کے لفظ میں وسعت ہے۔ اس لفظ کا مطلب فیروزآبادی یوں بیان کرتے ہیں: استَعتَبَہ: أعطاہ العُتبی،کأَعتَبہ، وطَلَبَ الیہ العُتبَی، ضِدٌّ. القاموس المحیط۔ اس لفظ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی سے کسی کی ناراضگی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۸) جنوب کا ترجمہ۔ جنوب، جنب کی جمع ہے، اس کے معنی پہلو کے ہیں، امام لغت فیروزآبادی لکھتے ہیں: الجَنْبُ والجانِبُ والجَنَبَۃُ، مُحَرَّکَۃً: شِقّْ الاِنْسانِ وغیرہِ، ج: جْنْوبٌ وجوانِبُ وجَنَائِبُ. القاموس المحیط۔ عربی میں پیٹھ کے لیے ظھر اور پہلو کے لیے جنب آتا ہے، مذکورہ ذیل آیت میں دونوں الفاظ ایک ساتھ ذکر کیے گئے ہیں: (۱) یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُواْ مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ۔ (التوبۃ: ۳۵)۔ ’’ایک دن آئے گا کہ اسی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۶) یولج کا ترجمہ۔ ایلاج کے معنی داخل کرنا ہوتا ہے، قرآن مجید میں رات اور دن کے حوالے سے یہ فعل پانچ آیتوں میں ذکر ہوا ہے۔ ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ ان پانچ آیتوں میں سے ایک آیت کا ترجمہ صاحب تفہیم القرآن نے داخل کرنے کے بجائے نکالنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ پہلی بات کہ یہ ترجمہ آیت کے الفاظ کے خلاف ہے، ایلاج کے معنی داخل کرنا ہے نکالنا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس مفہوم کی تائید میں کوئی اور نظیر بھی نہیں ہے، قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں آیا ہے کہ اللہ دن سے رات کو اور رات سے دن کو نکالتا ہے۔...

سورہ یونس اور سورہ ہود کے مضامین : ایک تقابل

ڈاکٹر عرفان شہزاد

علامہ حمید الدین فراہی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ قرآن مجید کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض سورتوں کے جوڑا جوڑا ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرہ اور سورہ آل عمران، اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے بارے میں جنھیں معوذتین بھی کہا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے جب قرآن کی سورتوں کا مطالعہ کیا گیا تو یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے۔ اس تناظر میں سورہ یونس اور سورہ ہود کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ مطالعہ کس حد تک درست ہے، اس میں مزید کیا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اور قرآن کی سورتوں...

قرآن مجید اور نفس انسانی کا تزکیہ

محمد عمار خان ناصر

(فہم قرآن کے اصول ومبادی سے متعلق ایک لیکچر سیریز میں کی گئی گفتگو۔)۔ قرآن کریم نے انسانی نفس کو اور اس کی پیچیدگیوں اور مسائل کو کیسے بیان کیا ہے؟ نفس انسانی کے میلانات کی صحیح رخ پر تشکیل ہو اور وہ غلط راستے سے محفوظ ہو کر راہ راست پر آسکے، اس کے لیے ہمیں قرآن پاک سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ یہ آج کی گفتگو کا عنوان ہے۔ اگر قرآن کریم کی ساری تعلیم کو نفس انسانی کے حوالے سے ہم ملخص کرنا چاہیں تو دو تین نکات کی صورت میں اس کوبیان کیا جا سکتا ہے۔ پورے قرآن کی تعلیم کا خلاصہ کیا ہے؟ ایک تو اس کائنات سے متعلق اور اس کائنات کے مالک سے متعلق اور بطور ایک...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۵) مُلک کا ترجمہ۔ عربی میں مُلک کا مشہور معنی بادشاہت، اقتدار اور حکمرانی ہے، امام لغت جوہری کے الفاظ میں: والاسم المُلکُ، والموضع مَمْلکَۃ۔ اردو میں ملک کا مشہور معنی دیس اور سلطنت ہے، عربی کے لفظ ملک کا اردو میں بھی ملک ترجمہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، بلکہ بادشاہت ، اقتدار اور حکمرانی جیسی تعبیر مناسب معلوم ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ملک کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے، اور اکثر وبیشتر مقامات پر اس کا ترجمہ بادشاہی اور حکمرانی کیا گیا ہے، لیکن بعض مقامات پر بہت سارے مترجمین نے ملک کا ترجمہ ملک کیا ہے۔ مشہور ومعروف استعمالات کا لحاظ کیا...

فہم قرآن کے چند اخلاقی اور لسانی اصول

محمد عمار خان ناصر

(فہم قرآن کے اصول ومبادی سے متعلق ایک لیکچر سیریز میں کی گئی گفتگو۔)۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے، اس کی آیات کی تفسیر وتوضیح کرتے ہوئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی منشا اور مدعا متعین کرتے ہوئے کچھ اصول ہیں جو قرآن مجید کے ہر طالب علم کے سامنے رہنے چاہییں اور ان کی پابندی اس بات کی ضمانت دے گی کہ انسان اللہ کی مراد کے زیادہ قریب پہنچنے کے قابل ہو جائے گا۔ ان میں سے کچھ اصول علمی نوعیت کے ہیں اور کچھ اخلاقی اصول ہیں۔ ان کو ملحوظ رکھنے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انسان ہر جگہ ہر معاملے میں کسی بھی قسم کی غلطی کا شکار نہیں ہوگا، ا س لیے کہ بہرحال...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۴) مِلَّۃَ إِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفاً کا ترجمہ۔ قرآن مجید میں حنیفا کا لفظ دس بار آیا ہے، اس کے علاوہ حنیف کی جمع حنفاء کا بھی دو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ پانچ مقامات پر مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً آیا ہے، ان پانچوں مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ حنیفا اگر نحوی ترکیب کے لحاظ سے حال ہے تو اس کا ذوالحال کیا ہے، یعنی وہ کس کا حال ہے؟، کیونکہ اس کی وجہ سے ترجمہ مختلف ہوسکتا ہے۔ ہم پہلے ان مقامات کے مختلف ترجمے پیش کریں گے، اور اس کے بعد ان ترجموں کے متعلق اپنا جائزہ پیش کریں گے۔ (۱) وَقَالُواْ کُونُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تَہْتَدُواْ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۲) تاب علی کا مفہوم۔ تاب کے معنی لوٹنے کے ہوتے ہیں، قرآن مجید میں بندوں کے لیے تاب کا فعل الی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف رجوع اور انابت کرنا، اس وسیع مفہوم میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا بھی شامل ہے، لیکن لفظ کا اصل مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ اللہ کے لیے تابکا فعل علی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے مہربان ہونا نظر کرم فرمانا۔ اس وسیع مفہوم میں توبہ کی توفیق دینا اور توبہ قبول کرلینا اور معاف کردینا بھی شامل ہے، لیکن اصل مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ فیروزآبادی کے الفاظ میں: وتابَ اللہ علیہ: وفَّقَہ للتَّوبۃِ،...

قرآنِ مجید اور اسیرانِ جنگ

عدنان اعجاز

سورہ محمد (۷۴) (۱) کی آیت ۴ میں اللہ تعالیٰ کے وہ جنگی احکامات مذکور ہیں جو ہجرتِ مدینہ کے مختصراً بعدکفار مکہ سے باقاعدہ آغازِ جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو دیے گئے۔ ان میں جنگی قیدیوں سے متعلق ایک اہم قانون بھی بیان ہوا ہے۔ آیت کے الفاظ چونکہ جنگ میں پکڑے جانے والے قیدیوں کے حوالے سے مسلمانوں کے اختیار کو دو ایسی صورتوں میں محصور کر دیتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طرزِ عمل سے بظاہر محصور دکھائی نہیں دیتے، اس لیے ہمارے فقہا کے لیے یہ آیت ہمیشہ 'مسئلے کا حصہ' (part of the problem) اور محل تاویلات رہی ہے۔ آیت کا وہ حصہ جو موضوع سے متعلق...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۱) علقۃ اور مضغۃ کا ترجمہ۔ قرآن مجید میں علق کا لفظ ایک بار اور علقۃ کا لفظ متعدد بار آیا ہے، دونوں کا مطلب ایک ہے، اور وہ ہے جما ہوا خون، راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والعَلَقُ: الدّم الجامد ومنہ: العَلَقَۃُ التی یکون منھا الولد.المفردات. علقہ کی اردو تعبیر کے لیے مترجمین نے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں، جیسے، جنین، لوتھڑا، خون کا لوتھڑا، خون کی پھٹک، خون کی پھٹکی، خون کا تھکا۔ علقہ کے لیے جنین کا لفظ کسی طرح مناسب نہیں ہے، کیونکہ جنین کا عمومی اطلاق عربی میں بھی اور اردو میں بھی پیٹ کے بچے پر ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مرحلے میں ہو، جبکہ اردو میں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۰) ولد اور ابن میں فرق کی رعایت۔ عربی زبان میں جب ولدکا لفظ آتا ہے تو اس میں بیٹا اور بیٹی دونوں اور ان کی اولاد شامل ہوتے ہیں، یہ مفرد کے لیے بھی آتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ جبکہ ابن کے مفہوم میں صرف نرینہ اولاد یعنی بیٹا ہوتا ہے، علامہ ابوھلال عسکری (چوتھی صدی ہجری) اپنی شہرہ آفاق کتاب الفروق اللغویۃ میں لکھتے ہیں: یقال الابن للذکر والولد للذکر والأنثی۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جہاں ولد استعمال ہوا ہے وہاں اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے اولاد ترجمہ کرنا چاہیے، اور جہاں ابن یا ابن کی جمع بنین یا أبناء استعمال کی گئی ہے، وہاں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۸) القا ء کا ترجمہ۔ القاء کا مطلب ڈالنا اور رکھنا ہوتا ہے، پھینکنا اس لفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا ہے، بعض لوگوں نے جگہ جگہ اس لفظ کا ترجمہ پھینکنا کیا ہے، کہیں کہیں اس سے مفہوم میں فرق نہیں پڑتا، لیکن کہیں تو اس ترجمہ سے مفہوم میں واضح طور پر خرابی آجاتی ہے۔ ہم پہلے وہ آیتیں ذکر کرتے ہیں جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا ہوہی نہیں سکتا ہے، اس لئے کسی نے یہ ترجمہ نہیں کیا ہے، خاص طور سے سید مودودی نے بھی نہیں، جو کہ اکثر جگہ القاء کا ترجمہ پھینکنا کرتے ہیں: (۱) وَأَلْقَی فِی الأَرْضِ رَوَاسِیَ۔ (النحل:۱۵)۔ ’’اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں‘‘...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۷) القول علی اللہ کا مفہوم۔ قرآن مجید میں قول علی اللہ کی تعبیر مختلف صیغوں میں استعمال ہوئی ہے، اس تعبیرکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی بات کو منسوب کرکے یہ کہنا کہ اللہ نے یہ بات کہی ہے ، جب کہ کہی نہ ہو، یا یہ کہنا کہ اللہ ایسا کرتا ہے یا کرے گا، جب کہ ایسا نہ ہو۔ بعض مترجمین نے بعض مقامات پر اس کا ترجمہ اللہ پر تہمت لگانا اور بہتان باندھنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس تعبیر کے اندر اللہ پر کسی طرح کی تہمت لگانے کا مفہوم نہیں پایا جاتا ہے۔ بعض مترجمین نے اللہ کی شان کے خلاف بات کہنے کا مفہوم بھی لیا ہے، وہ بھی اس لفظ کا اصل مفہوم...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۵) من نفس واحدۃ کا ترجمہ۔ من نفس واحدۃ کی تعبیر قرآن مجید میں چارآیتوں میں آئی ہے،ان میں سے تین آیتوں میں منھا زوجھا کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ عربی تفاسیر میں خلقکم من نفس واحدۃ کا عام طور سے ایک ہی مفہوم ملتا ہے، یعنی ’’ایک جان سے پیدا کیا‘‘ اور خلق منھا زوجھا کے دو مفہوم ملتے ہیں ’’اس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ اردو تراجم میں شاہ عبد القادر کے ترجمہ کو لوگوں نے عام طور سے اختیار کیا ہے جس میں ’’ایک جان سے پیدا کیا‘‘ اور ’’اس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ البتہ دوسرے جملے کے ترجمہ میں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۴) من ذنوبکم کا ترجمہ۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر من کے ساتھ یغفر لکم من ذنوبکم آیا ہے، اور تین ہی مقامات پر من کے بغیر یغفر لکم ذنوبکم آیا ہے۔ جہاں من نہیں ہے وہاں ترجمہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن جہاں من ہے وہاں ترجمہ میں اختلاف ہوگیا ہے، بعض لوگوں نے من کو زائد مان کرآیت کا ترجمہ کیا ہے، اور بعض لوگوں نے تبعیض کا مان کر ترجمہ کیا ہے، دلچسپ معاملہ ان لوگوں کا ہے جو کہیں زائد والا ترجمہ کرتے ہیں اور کہیں تبعیض والا ترجمہ کرتے ہیں۔ ذیل میں تینوں آیتوں کے کچھ ترجمے پیش کیے جارہے ہیں جن سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے۔ (۱) قَالَتْ رُسُلُہُمْ أَفِیْ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۲) علی حبہ کا ترجمہ۔ علی حبہ قرآن میں دو جگہ آیا ہے، اس کا ترجمہ کرتے ہوئے یہ طے کرنا ضروری ہوتا ہے کہ علی حبہ میں ضمیر کا مرجع کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مرجع اللہ کو قرار دیا ہے، اس بنا پر وہ ترجمہ کرتے ہیں اللہ کی محبت میں۔ یہ ترجمہ بعض وجوہ سے کمزور ہے، ایک تو یہ کہ اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے علی حبہ کے بجائے فی حبہ یا لحبہ آتا ہے، جبکہ یہاں دونوں مقام پر علی حبہ ہے۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں مقامات پر قریبی عبارت میں لفظا اللہ کا ذکر نہیں ہے کہ اس کی طرف ضمیر کو لوٹایا جائے۔ یہ درست ہے کہ ضمیر کے مرجع کے لیے عہد ذہنی کا اعتبار ہوسکتا ہے، یا کچھ دور...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۱) أنفسکم کا ترجمہ۔ قرآن مجید میں بعضکم بعضا کی تعبیر متعدد مقامات پر آئی ہے، اور حسب حال مختلف ترکیبوں کے ساتھ استعمال ہوئی ہے، بعضکم بعضا کا ترجمہ ہوتا ہے ’’ایک دوسرے کو‘‘ اور ’’آپس میں‘‘ اور ’’کوئی کسی کو‘‘ جیسے: ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضاً(العنکبوت:۲۵) کبھی فعل کے ثلاثی مجردکے بجائے باب تفاعل سے ثلاثی مزید میں استعمال ہونے سے بھی بعضکم بعضا کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے یقتل بعضھم بعضا کا مفہوم وہی ہے جو یتقاتلون کا ہے۔ اس کے علاوہ ایک تعبیر أنفسکم کی بھی آئی ہے، بہت...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۹۸) مدّہ اور مدّ لہ میں فرق۔ قرآن مجید میں فعل مد یمد براہ راست مفعول بہ کے ساتھ بھی آیا ہے اور حرف جر لام کے ساتھ بھی آیا ہے۔ ان دونوں اسلوبوں میں کیا فرق ہے؟ اس سلسلے میں عام طور سے علماء لغت اور مفسرین کے یہاں کوئی صراحت نہیں ملتی، بلکہ ان کے بیانات سے لگتا ہے کہ دونوں اسلوب ہم معنی ہیں، البتہ علامہ زمخشری نے اس فرق کوصراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، ان کے نزدیک مد اگر مفعول بہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی بڑھانے اور اضافہ کرنے کے ہیں، اور اگر حرف جر لام کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ڈھیل دینے اور مہلت دینے کے ہیں۔ سورہ بقرۃ آیت نمبر ۱۵؍ کی تفسیر میں...

قرآن مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث ۔ حافظ محمد زبیر صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر عرفان شہزاد

...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۹۷) افتری علی اللہ الکذب کا ترجمہ۔ افتری کے معنی گھڑنا ہوتے ہیں، افتری الکذب کا مطلب ہوتا ہے جھوٹ بات گھڑنا، اور افتری علی اللہ الکذب کا مطلب ہے اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا، اور اللہ کی طرف بے بنیاد بات منسوب کرنا۔ قرآن مجید میں یہ تعبیر بہت زیادہ مقامات پر آئی ہے،بہت سے مترجمین کے یہاں دیکھا جاتا ہے کہ اس کا ترجمہ کرتے وقت کبھی کبھی بہتان باندھنے یا تہمت لگانے کا ترجمہ کردیتے ہیں، لیکن یہ درست نہیں ہے، افتری علی اللہ الکذب میں اللہ پر بہتان لگانے یا تہمت لگانے کا مفہوم ہوتا ہی نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جو مترجم بعض جگہوں پر بہتان باندھنے کا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۹۱) ’’وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ‘‘ کا ترجمہ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَسْجُدُ لَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ۔(الحج: ۱۸)۔ اس آیت کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، بطور مثال ذیل میں ایک ترجمہ پیش کیا جاتا ہے: ’’تو نے نہ دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے، اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۸۷) ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالاَعْنَابِ کا ترجمہ۔ نخیل کا مطلب کھجور کا درخت ہوتا ہے، اور ثمرات النخیل کا مطلب کھجور ہوتا ہے، جبکہ اعناب کا اصل مطلب انگور ہوتا ہے، کبھی انگور کی بیلوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے، اس وضاحت کی روشنی میں ذیل میں مذکور آیت کے مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں: وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِیْلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْہُ سَکَراً وَرِزْقاً حَسَناً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون ۔ (النحل: ۶۷)۔ ’’اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے...

قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی بحث

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

یہ گفتگو ادارہ علم و تحقیق "المورد" کے سلسلہ وار آن لائن ماہانہ علمی لیکچرز کی سولہویں نشست میں کی گئی۔ اسے کچھ تہذیب و تنقیح کے بعد اشاعت کی غرض سے لیکچر سے تحریری صورت دی گئی ہے۔ قطعی الدلالہ کا معنی ومفہوم: سب سے پہلے ہم قطعی الدلالہ کا معنی واضح کر دیں۔ قطعی کا لفظ "قطع" سے ہے کہ جس کا معنی کاٹنا ہے۔ پس "قطعی الدلالہ" میں قطعی کا معنی یہ ہے کہ لفظ میں موجود ایک سے زائد معانی کے احتمالات کا ختم ہو جانااور محتمل معانی میں سے ایک ہی معنی کا متعین ہو جانا۔ یہاں "قطعی" کا لفظ خود اس بات کی دلیل ہے کہ لفظ میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہوتا ہے، ورنہ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۸۵) سقی اور اسقاء کے درمیان فرق۔ سقی یسقي ثلاثی مجرد فعل ہے، جس کا مصدسقي ہے، اور أسقی یسقي ثلاثی مزید فعل ہے جس کا مصدر اِسْقَاء ہے، قرآن مجید میں دونوں کا استعمال متعدد مرتبہ ہوا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے دونوں کے درمیان یہ فرق بتایا ہے کہ سقی میں محنت شامل نہیں ہوتی ہے، اور اِسْقَاء میں محنت شامل ہوتی ہے، بعض لوگوں نے بتایا کہ سقی منہ سے پانی پلانے کے لیے اور اسقاء کھیتیاں وغیرہ سیراب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔راغب اصفہانی نے قرآن مجید کے استعمالات کی روشنی میں دونوں کے درمیان بہت بلیغ فرق بیان کیا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۸۲) بأیمانھم کا مطلب۔ یمین کی جمع أیمان ہے۔ یمین کے معنی داہنے ہاتھ کے بھی ہیں اور داہنی جانب کے بھی ہیں۔ قرآن مجید میں یمین بھی آیا ہے اور أیمان بھی آیا ہے۔ یمین کا لفظ قرآن مجید میں دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اپنے افادات میں ایک قیمتی نکتہ ذکر کیا ہے کہ اگر یمین سے پہلے حرف (باء) ہو تو مطلب ہوگا داہنے ہاتھ میں اور اگر یمین سے پہلے حرف (عن) ہو تو مطلب ہوگا داہنی جانب۔ ذیل کی قرآنی مثالوں سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے: وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوسَی۔ (طہ: ۱۷)۔ ’’اور اے موسیٰ تمہارے داہنے ہاتھ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۸۰) تنازع کے دو مفہوم۔ قرآن مجید میں تنازع کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے، فیروزآبادی نے لکھا ہے کہ اس لفظ کے دو مفہوم ہیں، باہم جھگڑا کرنا اور ایک دوسرے کو کچھ پیش کرنا۔ والتَّنازُعُ: التَّخاصُمُ والتَّناوُل. (القاموس المحیط، ص: ۷۶۶)۔ زبیدی کا خیال ہے کہ حقیقی مفہوم جھگڑا کرنا اور مجازی مفہوم ایک دوسرے کو پیش کرنا ہے، زبیدی نے مثالیں دے کربتایا ہے کہ قرآن مجید میں دونوں مفہوم کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ والتَّنازُعُ فِی الأصلِ: التَّجاذُبُ، کالمُنَازَعَۃِ، ویُعَبَّرُ بِھِمَا عَن التَّخَاصُمِ والمُجَادَلَۃِ، ومِنہُ قَوْلُہُ عَزَّ...

قرآن مجید کے موجودہ نسخے اور ان کا رسم الخط

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر کی تھی اور اس وقت سے اس کا تسلسل چلا آرہا ہے۔ مگر بیت اللہ شریف کی موجودہ عمارت ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہے کیونکہ جب قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ان کی بعثت سے قبل بیت اللہ تعمیر کیا تھا تو ابراہیمی بنیادوں میں کچھ تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس تعمیر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصہ لیا تھا بلکہ تعمیر کے دوران جب حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا شرف حاصل کرنے پر قریش کے سرداروں میں اختلاف ہوا اور بات تنازعہ تک جا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۷۵) سعر کا مطلب۔ قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کے لیے لفظ سعیر متعدد مقامات پر آیا ہے، البتہ سورہ قمر میں دو جگہ لفظ سعر آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ یہ لفظ ضلال کے ساتھ آیا ہے۔ مترجمین ومفسرین میں اس پر اختلاف ہوگیا کہ ان دونوں مقامات پر سعر کا کیا مطلب لیا جائے، کیونکہ لغت کے لحاظ سے سعر سعیر کی جمع بھی ہوسکتا ہے، اور واحد کے صیغے میں بطور مصدر جنون کا ہم معنی بھی ہوتا ہے ہم ذیل کی سطور میں دونوں آیتوں کے مختلف ترجمے پیش کریں گے۔ (۱) کَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ۔ فَقَالُوا أَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُہُ إِنَّا إِذاً لَّفِیْ ضَلَالٍ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۷۴) امداد کا ترجمہ۔ عربی میں لفظ ’امداد‘ کا مطلب مدد بہم پہونچانا بھی ہوتا ہے، اور محض عطا ونوازش کے لیے بھی لفظ ’امداد‘ آتا ہے۔ فیروزآبادی لکھتا ہے: والاِمْدادُ: تأخیرُ الأجَلِ، وأَن تَنْصُرَ الأجْنادَ بِجَماعَۃٍ غیرَکَ، والاِعْطاءُ، والاِغاثَۃُ. (القاموس المحیط.)۔ فیروزآبادی کی اس بات پر یہ اضافہ مناسب ہوگا کہ تطویل وتوسیع کے معنی میں دراصل ’مدد‘ ثلاثی مجرد آتا ہے، اور ’امداد‘ ثلاثی مزید اس معنی میں ’فی‘ کے ساتھ آتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ دونوں معنوں میں آیا ہے، موقع ومحل سے مفہوم متعین ہوتا ہے، لیکن مترجمین سے اس لفظ کے مفہوم...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۷۱) تاثیم کا مطلب۔ لفظ تاثیم قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے، جبکہ لفظ اثم کئی جگہ آیا ہے۔ اثم کا مطلب گناہ ہے۔ اکثر ائمہ لغت نے تاثیم کو بھی اثم کا ہم معنی بتایا ہے۔ (والتَّأثِیمُ: الاثم) مزید برآں انہوں نے باب افعال سے ایثام کا مطلب کسی کو گناہ میں ڈالنا، اور باب تفعیل سے تاثیم کا مطلب کسی پر گناہ کو چسپاں کرنا بتایا ہے، (وآثمہ بالمد: أوقعہ فی الاثم. وأثمَہُ بالتشدید،أی قال لہ:أَثِمْتَ) جبکہ ایک جدید لغت معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں تاثیم کا مطلب لکھا ہے: ایسا کام جو گناہ کا موجب بنے (عمل یوجب اثمًا)۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۶۹) سَحَر کا مطلب۔ سحر رات کے آخری پہر کو کہتے ہیں، امام لغت ازہری کہتا ہے: سحر رات کا ایک ٹکڑا ہے، والسَّحَرُ قِطْعَۃٌ مِنَ الْلَّیْلِ۔ تہذیب اللغۃ۔جوہری لکھتا ہے: سحر صبح سے کچھ پہلے کا وقت ہے،والسَّحَرُ: قُبَیْلَ الصُّبحِ۔الصحاح۔ لسان العرب میں ہے:صبح سے پہلے رات کا آخری حصہ، ایک اور قول ہے کہ رات کے آخری تہائی سے طلوع فجر تک کا وقت۔والسَّحْرُ وَالسَّحَرُ: آخِرُ اللَّیْلِ قُبَیْلَ الصُّبْحِ، وَالْجَمْعُ أَسْحَارٌ۔۔۔ وَ قِیْلَ: ھُوَ مِنْ ثُلُثِ اللَّیْلِ الآخِرِ اِلیٰ طُلُوْعِ الْفَجْرِ۔ چونکہ سحر کا وقت طلوع فجر تک جاتا ہے، اس لئے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۶۸) مَقَام اور مُقَام میں فرق۔ مَقَام (میم پر زبر کے ساتھ) کی اصل قیام ہے، یہ فعل قام ثلاثی مجرد لازم سے اسم ظرف ہوتا ہے یا مصدر میمی ہوتا ہے۔ مُقَام (میم پر پیش کے ساتھ) کی اصل اقامۃ ہے، یہ فعل أَقَامَ کا ظرف ہوتا ہے یا مصدر میمی یا اسم مفعول ہوتا ہے۔ قیام کا صلہ اگر باء ہو تو اس کے معنی کسی کام کو کرنایا کسی سرگرمی کو انجام دینا ہوتاہے، جبکہ اقامۃ اگر فی کے صلے کے ساتھ لازم ہو تو اس کے معنی کسی جگہ رہائش اختیار کرنا ہے۔ اور اگر مفعول بہ مراد ہو تومتعدی ہوتا ہے جیسے أقام الدین اور فأقامہ۔ اس وضاحت کی روشنی میں لفظ مَقام اور لفظ مُقام کے مفہوم میں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۶۵) ترجمہ میں تفسیری اضافہ۔ قرآن مجید کے مختلف ترجموں کو پڑھتے ہوئے کہیں کہیں معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے ترجمہ کرتے ہوئے بعض ایسے اضافے کردئے جن کا محل ترجمہ نہیں بلکہ تفسیر ہے، ایسے اضافے اگر قوسین کے اندر کئے جاتے ہیں تو قابل اعتراض نہیں ہوتے ہیں کیونکہ قاری یہ سمجھتا ہے کہ قوسین کے اضافے دراصل تفسیری اور توضیحی نوعیت کے ہوتے ہیں، البتہ جب قوسین کے بغیر ایسے اضافے ہوں تو وہ قابل اعتراض ٹھہرتے ہیں، کیونکہ قاری ان کو عین الفاظ قرآنی کا ترجمہ سمجھتا ہے۔اس کو حسب ذیل مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔ ’’اور اے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۶۱) فعل ’’کاد‘‘ کا درست ترجمہ۔ جب کسی فعل سے پہلے کاد فعل آتا ہے تو مطلب ہوتا ہے کہ وہ کام ہونے کے قریب تو ہوگیا لیکن ہوا نہیں، کیونکہ ہوجانے کی صورت میں کاد نہیں لگتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے: وَأَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْْہِ لِبَداً۔(الجن :۱۹)۔ ’’اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)۔ ’’اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اُس کو پکارنے کے لئے کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو گئے‘‘۔(سید مودودی۔ اس ترجمے میں ’’تیار...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۵۹) جُندٌ مَّا ہُنَالِکَ کا ترجمہ۔ جُندٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَاب۔ (ص:۱۱)۔ اس آیت میں ایک لفظ (ہُنَالِکَ)ہے، جس کاترجمہ لوگوں نے ظرف مکان یا ظرف مکان سے کیا ہے، کسی نے اسی جگہ اور کسی نے اس وقت کا ترجمہ کیا۔ اس آیت میں ایک دوسرا لفظ ( مَا)ہے ، جس کا ترجمہ بعض لوگوں نے چھوٹا اور بعض لوگوں نے بڑا کیا ہے۔ ’’یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اِسی جگہ شکست کھانے والا ہے‘‘۔ (سید مودودی)۔ ’’یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے یہ بھی ایک لشکر ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)۔ ’’یہ بھی (بڑے بڑے) لشکروں میں سے شکست پایا ہوا (چھوٹا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۵۶) أَلَدُّ الْخِصَامِ کا مفہوم۔ لفظ خصومۃ کے معنی ہوتے ہیں بحث ومباحثہ کے، جس میں جھگڑے کی کیفیت بھی کبھی شامل ہوسکتی ہے۔ فیروزآبادی نے لکھا ہے، الخُصومَۃُ: الجَدَلُ۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے متعدد مشتقات استعمال ہوئے ہیں، جہاں مترجمین نے جھگڑنے کے لفظ سے ترجمہ کیا ہے، خود لفظ خصام کا ترجمہ بحث مباحثہ اور جھگڑے سے کیا ہے، جیسے: أَوَمَن یُنَشَّأُ فِیْ الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِیْ الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْنٍ۔ (الزخرف :۱۸)۔ ’’کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟‘‘۔...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۵۰) لفظ أمثال کے قرآنی استعمالات۔ لفظ أمثال قرآن مجید میں کئی جگہ آیا ہے اور مختلف معنوں میں آیا ہے، سیاق وسباق سے یہ طے ہوتا ہے کہ کس جگہ کیا مفہوم مراد ہے، جیسے: أمثال جب مَثَل کی جمع ہوتا ہے تو مثالوں کے معنی میں آتا ہے جیسے: کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَہُمْ۔ (محمد:۳)۔ ’’ اس طرح اللہ لوگوں کے لئے ان کی مثالیں بیان کررہا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)۔ ’’ اسی طرح خدا لوگوں سے ان کے حالات بیان فرماتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)۔ أمثال جب مِثل کی جمع ہوتا ہے تو ’’ اسی طرح‘‘کے معنی میں آتا ہے، جیسے: إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۴۶) حال کا ایک خاص استعمال۔ عربی زبان میں حال کا عام استعمال تو فعل کی انجام دہی کے وقت ذو الحال کی حالت بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے، جیسے جاء زید راکبا یعنی زید سوار ہوکر آیا۔ لیکن حال کا ایک استعمال اس وقت بھی ہوتا ہے جب ایک فعل کے فورا بعد دوسرا فعل شروع ہوتا ہے، ترجمہ میں اس کی رعایت سے ترجمہ کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ بعض مترجمین نے کچھ مقامات پر اس استعمال کے مطابق ترجمہ کیا ہے، جبکہ بعض دوسرے مقامات پر اس طرح ترجمہ نہیں کیا گیا، حالانکہ وہاں بھی اسی طریقہ پر ترجمہ کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے، مثالیں حسب ذیل ہیں: (۱) فَکَیْْفَ إِذَا أَصَابَتْہُم...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۴۱) ایقن اور استیقن کے درمیان فرق۔ ایقن کا مطلب ہے یقین کیا، یہ ایمان سے قریب لفظ ہے، اور قرآن مجید میں اس کا استعمال بھی اس طرح کے مقامات پر ہوتا ہے جہاں ایمان کا استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے استعمالات بتاتے ہیں کہ ایقان مومنوں کی ایک قابل تعریف صفت، بلکہ ایمان کا مترادف ہے، اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، جیسے: والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُون۔ (البقرۃ : ۴)۔ اور جو لوگ ایقان کی روش اختیار نہیں کرتے ہیں ان کی قرآن مجید میں مذمت کی گئی ہے، ذیل کی آیت اس کی ایک مثال ہے: فَاصْبِرْ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۳۴) تَبَیَّنَتِ الجِنُّ کا مطلب۔ تَبَیَّنَ کامطلب ہوتا ہے کسی چیز کا واضح ہوجانا۔ جو چیز واضح ہوتی ہے، وہ تَبَیَّنَ فعل کا فاعل بنتی ہے، اور جس شخص پر وہ چیز واضح ہوتی ہے، اس کے لیے لام کا صلہ آتا ہے۔ جیسے: وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۷)۔ ’’اور کھاؤ پیو، یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری (شب کی) سیاہ دھاری سے تمہارے لئے نمایاں ہوجائے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)۔ قرآن مجید میں تَبَیَّنَ زیادہ تر لام کے صلہ کے ساتھ آیا ہے، جو اس پر داخل ہوتا ہے جس پر کوئی بات...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۲۲) أَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ کا ترجمہ: قرآن مجید میں کئی مقامات پر اعمال کا بدلہ دینے کی بات بڑے زور اور تاکید کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے بعض مقامات پرقرآن مجید میں جو اسلوب اختیار کیا گیاہے، اسے سمجھنے میں بعض مترجمین سے غلطی ہوئی ہے۔ جزی کا فعل عربی زبان میں کسی چیز کا بدلہ دینے یا کسی کا بدل بننے اور کام آنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ اس فعل کے بعد وہ چیز ذکر ہوتی ہے جسے بطور بدلے کے دیا گیا اور وہ چیز بھی ذکر ہوتی ہے جس کا بدلہ دیا گیا۔ کبھی دونوں ساتھ ذکرہوتے ہیں اور کبھی کسی ایک پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ دونوں کے ذکر کی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

اس مضمون میں اس کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ قرآن مجید کے ترجمہ کا اہم اور عظیم کام کرنے والوں کی تحسین میں کچھ رقم کیا جائے کہ اتنی عظیم خدمت مختلف شخصیات کے ذریعہ جس قدر ہمت واہتمام سے انجام دی گئی، وہ محتاج بیان وستائش نہیں ہے۔ پیش نظر تحریر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کے ترجمہ کا کام بہت ضروری مگر نازک عمل ہے، اس میں غلطی کے امکانات کو کم سے کم کرتے رہنے کی مسلسل کوشش ضروری ہے، قرآن اللہ کا کلام ہے، تاہم اس کلام کا ترجمہ ایک انسانی کوشش ہوتی ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے، اسی لئے جو ترجمہ جتنا زیادہ مشہور ومتداول...

اعجازِ قرآن ۔ ایک مختصر جائزہ

محمد حسنین

علوم قرآن کے تمام مباحث پر قرن اول سے اب تک ہر پہلو اور ہر زاویہ سے بحث کی جاتی رہی ہے لیکن پھر بھی ان کا حق ادا نہ ہو سکا اور اب بھی وہ تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے مباحث کی طرح ’’اعجاز قرآن‘‘ کا موضوع بھی ابتدا ہی سے زیر بحث رہا ہے۔ اگرچہ ابتدائی صدیوں میں متکلمین کے کلامی مباحث یا مفسرین کی تفسیروں کے ضمن میں اس کا تذکرہ ہوتا تھا، لیکن بہت جلد اس موضوع پر مستقل تالیفات وجود میں آنے لگیں۔ چنانچہ کوئی صدی ایسی نہیں ملتی جس میں اعجاز قرآن کے موضوع پر پائے جانے والے علمی سرمایہ میں اضافہ نہ ہوا ہو۔ اعجاز قرآن کے مسئلہ کو شروع شروع میں مستقل بحث...

تدبر کائنات کے قرآنی فضائل ۔ روحانی تدبر مراد ہے یا سائنسی؟

مولانا محمد عبد اللہ شارق

بعض چیزیں اتنی واضح اور غیر مبہم ہوتی ہیں کہ ان کے لئے قلم اٹھاتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے، لیکن لوگوں میں ان کے حوالہ سے پائی جانے والی خواہ مخواہ کی غلط فہمیاں تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو بیان کیا جائے، ورنہ وہ بے سروپا غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے بہت تناور ہوجائیں گی اور پھر ان کا تدارک مشکل ہوگا۔ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں بے شمار جگہوں پر انسانوں کو کائنات میں تدبر کرنے کی ترغیب دی ہے، اس کے فضائل بیان کئے ہیں، اسے مومنین کی صٖفت بتایا ہے اور تدبرِ کائنات سے اعراض کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کائنات کے اس تدبر سے مراد...

عذابِ قبر اور قرآنِ کریم (۲)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

برزخ میں زندگی؟ عذابِ قبر اور قرآن میں تضاد دکھانے کے لیے منکرین نے جو سوال اٹھایا ہے کہ قرآن سے تو انسان کی صرف دو زندگیاں ثابت ہوتی ہیں جبکہ عذابِ قبر سے ایک تیسری زندگی کا اثبات ہوتا ہے ، آئیے اب ذرا ایک نظر اس کو دیکھتے ہیں۔ منکرینِ برزخ کی اس بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو صرف دو ہی زندگیاں عطا فرمائی ہیں جن کا ذکر سورۃ البقرۃ کی آیت۲۸ اور سورۃ المومن کی آیت ۱۱ میں ہے۔ اس سے بظاہر کسی تیسری زندگی کی نفی ہوتی ہے اور یہی بات درست ہے۔ اہلِ سنت جو منکرین کے مقابلہ میں ہمیشہ عذابِ قبر کے قائل رہے ہیں، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ...
< 101-150 (190) >

Flag Counter