قرآن مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث ۔ حافظ محمد زبیر صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ماہنامہ الشریعہ کی جون 2016 کی اشاعت میں حافظ محمد زبیر صاحب کا مضمون ’’قران مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث‘‘ شائع ہوا۔ یہ مضمون ان کے 24اکتوبر، 2015 کو المورد کے زیر انتظام ویبینار (webinar) سے خطاب کی تحریری صورت تھی۔راقم کو اس ویبینار میں حافظ صاحب کے خطاب کو براہ راست سننے کا موقع بھی ملا تھا۔ ذیل میں ہم حافظ صاحب کے مضمون پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔ 

قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث نہایت اہم موضوع ہے۔ قرآن کی حیثیت پر یہ براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ 

قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ میزان اور فرقان ہے:

اَللّٰہُ الَّذِی اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ (42:17)
’’اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی ہے۔‘‘
تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہٖ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)
’’بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی کتاب اتاری تاکہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے!‘‘

میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ اسی کے ذریعے متنازع امور کے فیصلے کیے جائیں گے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآاَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَھُمْ عَمَّاجَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا ط وَلَوْشَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآاٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْن (5:48)
’’اور ہم نے، (اے پیغمبر) تمھاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے، قول فیصل کے ساتھ اور اْس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے اور اْس کی نگہبان بنا کر، اِس لیے تم اِن کا فیصلہ اْس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور جو حق تمھارے پاس آ چکا ہے، اْس سے ہٹ کر اب اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت یعنی ایک لائحہ عمل مقرر کیا ہے۔ اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا، مگر( اْس نے یہ نہیں کیا)، اِس لیے کہ جو کچھ اْس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اْس میں تمھاری آزمائش کرے۔ سو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘

یعنی دینی معاملات میں تمام نزاعات، اختلاف، احتمالات، اور مخمصات کے فیصلہ کے لیے آخری اور فیصلہ کن حیثیت قرآن کی ہے۔ لیکن اگر قرآن محتمل الوجوہ ہے، اس کی آیات کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوتے ہیں، جو باہم متخالف بلکہ متضاد بھی ہو سکتے ہیں، توقرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، ختم ہو جاتی ہے۔ بھلا ایک جج یا قاضی جس کی بات ہی قطعی نہ ہو، اس کی بات کے ایک سے زیادہ مفاہیم نکالے جا سکتے ہوں، وہ کیسے کسی بھی تنازع یا اختلاف کا فیصلہ کر سکتا ہے۔فریقین اس کے بیان کی اپنی اپنی توجیہات کر کے اپنے اپنے مطالب نکالیں گے اور کوئی فیصلہ ہو نہ پائے گا۔ 

حافظ صاحب کی ساری گفتگو کا مرکزی نکتہ ہمارے فہم کے مطابق یہ ہے :

قرآن کا کچھ حصہ ظنی الدلالۃ ہے اور وہ رہے گا۔ اس کی وجہ انسانی فہم کا حقیقتِ مطلقہ کے حصول کی نارسائی اور انسانی زبان کے ابلاغی نقائص ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے اور اس کے رسول کے نزدیک بعد از بیان قطعی الدلالۃ ہے۔

اگر قرآن کی کچھ آیات قطعی الدالالۃ ہیں اور کچھ ظنی الدلالۃ ہیں ،تو چونکہ یہ تعین کوئی حتمی طور پر کر نہیں سکتا کہ قرآن کی کون سی آیات قطعی ہیں اور کون سے ظنی، اس لیے جب بھی کسی مسئلے کے تصفیے کے لیے قرآن کی آیت پیش کی جائے گی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو ظنی الدلالۃ ہے۔ اس میں تو دیگر احتمالات پائے جاتے ہیں۔بھلا وہ بات جس کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوں وہ جج اور قاضی کیسے بن سکتی ہے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ حافظ صاحب کی ساری بحث محض اعتباری یا اضافی نوعیت کی بنیادوں پر استوار ہے۔قرآن اگر خدا کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے تو درحقیقت قطعی الدلالہ ہی ہوا۔ یہ تو مخاطبین کا نقصِ فہم اور زبان کے ابلاغی مسائل ہیں جس کی وجہ سے احتمالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ حافظ صاحب نے احتمالات کے پیدا ہونے کی وضاحت میں جن فلسفیانہ دلائل کا سہارا لیا ہے، ان کے مطابق تو کچھ بھی قطعی نہیں رہتا۔ تشکیکیت اور سوفسطائیت کے مطابق تو ہم جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، وہ بھی محض اعتباری ہوتا ہے۔ حقیقت میں وہ کیا ہے، اس کا ادراک بھی انسانی ذہن کے لیے ناقابلِ رسا ہے۔اس پہلو سے دیکھیے تو برٹرنڈ رسل کے مطابق ریاضی بھی قطعی نہیں،اعداد بھی قطعی نہیں۔ اسی طرح الفاظ اور معنی کے ربط میں بھی اتنے ابہام پیدا کر دیے گئے ہیں کہ زبان بذاتِ خود ظنی ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے پورے قرآن کو ظنی سمجھنا ہی درست نتیجہ ہو سکتا ہے۔ لیکن پورے قرآن کو ظنی ماننے والوں کوبھی حافظ صاحب راہ صواب پر نہیں مانتے ۔ اس بدیہی نتیجے سے بچنے کے لیے حافظ صاحب نے یہ حل نکالا ہے کہ جن آیات کے معنی اور مفہوم پر مفسرین کا اجماع ہے اور جن کے ایک ہی معانی اور مفاہیم سمجھے گئے ہیں، وہ تو قطعی ہیں اور جن مفاہیم کے تعین میں ان کے ہاں اختلاف ہوا ہے، وہ آیات ظنی ہیں۔ لیکن کیا سب مفسرین کا فہم بھی ایک احتمال ہی نہیں؟ مثلاً ساری انسانیت صدیوں تک یہ سمجھتی رہی کہ سورج کو جس جگہ وہ دیکھتے ہیں، وہ وہیں ہوتا ہے، لیکن سائنس نے بتایا کہ وہ وہاں تقریباً آٹھ منٹ پہلے ہوتا ہے جہاں ہم اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کیا سارے مفسرین کا فہم مل کر بھی غلطی کا احتمال نہیں رکھتا؟ اس احتمال کے ہوتے ہوئے خودحافظ صاحب کا مقدمہ بھی قطعی دلیل سے محروم ہو کر ظن پر مبنی ہو جاتا ہے۔ 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو ظنی الدلالۃ ثابت کرنے کے لیے اپنے مدعا کی بنیاد ان سوفسطائی نظریات پر رکھنا علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ انسانی عقل و فہم اعتباری سہی، لیکن یہ اعتباری فہم بھی معانی کی قطعیت کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔ الفاظ کے معانی کا مشترکہ فہم قطعیت کے لیے کفایت کرتا ہے۔ لفظ کے مختلف استعمالات میں انسانی عقل عموماً دھوکا نہیں کھاتی۔ جب کھاتی بھی ہے تو تنبیہ کرنے پر درست مفہوم سمجھ جاتی ہے۔ ’’شیر جنگل کا بادشاہ ہے‘‘ اور ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘‘ میں شیر کا مفہوم سمجھنے میں انسانی فہم دھوکا نہیں کھا سکتا۔ اور اگر کوئی شخص دھوکا کھا بھی جائے تو اس سے یہ کلام ظنی نہیں ہو جاتا بلکہ اس شخص پراس قطعی معنی تک رسائی کی علمی جدوجہدضروری ہو جاتی ہے۔اسے کلام کو ہی ظنی ثابت کرنے کی بجائیاپنیفہم اور علم کو درست بنیادوں پراستوار کر کے درست معنی تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

انسان کے اسی فہم پر بھروسہ کر کے ہی خدا نے اسے اپنا کلام عطا کیا ہے تا کہ وہ اس سے وہی مفہوم سمجھے گا جو متکلم کی مراد ہے۔ لیکن یہ انسان کی کوتاہی، قلت محنت، قلت تدبر، تعصب، ہوائے نفس وغیرہ کے حجابات ہیں جو احتمالات پیدا کر دیتے ہیں۔مگراس طرح کے احتمالات کے پیدا ہوجانے سے قرآن ظنی نہیں ہو جاتا جوکہ فی نفسہ قطعی ہے۔ 

اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ قرآن کے قطعی معانی تک پہنچ سکے تو ماننا ہو گا کہ خدا نے انسان کو تکلیف مالا یطاق دی ہے۔

اپنے فہم کے نقص، یا قلت علم و تدبرکو قرآن کا نقص قرار دینا قطعی طور پر غلط ہے۔ قرآن بہرحال، قطعی الدلالۃ ہے۔ ہمارا کام اس قطعیت تک رسائی حاصل کرنے کی علمی و فکری جدوجہد جاری رکھنا ہے۔

حافظ صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ محنت و تدبر کے بعد کچھ ظنی الدلالۃ آیات قطعی الدلالۃ ہو سکتی ہیں۔ تواس امکان کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کوئی شخص اپنی محنت اور تدبر سے قرآن کی تمام آیات کے قطعی مفاہیم تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ انسان معنی اور مفہوم کی قطعیت تک تو پہنچ سکتا ہے لیکن اس حقیقت کو جان نہیں سکتا ہے کہ آیا وہ اس قطعیت کو واقعتا پا بھی گیا ہے۔ اسی لیے کسی کو بھی اپنے فہمِ قرآن کو دوسروں پر مسلط کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ دوسروں کے لیے احتمال اور اختلاف کا حق تو تسلیم ہے، لیکن قرآن میں احتمالات کی گنجائش تسلیم نہیں ہے۔ چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا ایک مفسر اپنے اخذ کردہ معنی کو قطعی جان کر کسی دوسرے معنی کی نفی تو لازماً کرے گا، تاہم اپنے اخذ کردہ مفہوم کو دوسرے پر بہرحال مسلط نہیں کرے گا کیونکہ اس کا اپنا فہم تو بہرحال احتمالی ہی ہے۔ یہ ماننا کہ دوسرا شخص غلط سمجھا یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ قرآن بیک وقت ایک سے زیادہ احتمالات دے کر اپنے قاری کو کسی صریح اور قطعی نتیجے تک اصلاً پہنچنے نہیں دینا چاہتا۔

رہی بات آیاتِ متشابہات کی تو ان متشابہ آیات کے بارے میں بھی اللہ نے یہی فرمایا ہے کہ کوئی ان کی تاویل یعنی ان کی حتمی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتا، نہ یہ کہ ان کے قطعی معنی نہیں سمجھ سکتا۔ ہمارے نزدیک آیاتِ متشابہات سے مراد عالمِ غیب کے حالات و واقعات ہیں، جن کی حقیقت تو ہم جان نہیں سکتے لیکن ان کے بارے میں قرآ ن کے بیان کو قطعیت سے سمجھ ضرور سکتے ہیں۔ یعنی مثلاً جنت کے معنی سمجھنے میں ہمیں کوئی ابہام لاحق نہیں ہوتا البتہ اس کی حقیقت اور کیفیت ہم نہیں جان سکتے۔ اس لحاظ سے یہ متشابہ ہے نہ کہ اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے۔

حافظ صاحب کا یہ فرمانا کہ سنتِ ثابتہ جو کہ ایک خارجی دلیل ہے ، اس سے قرآن اور قرآن کی اصطلاحات کا درست مصداق متعین ہوتا ہے۔ اس وجہ قرآن خود سے قطعی نہیں، جیسے 'الصلوۃ' کا معنی دعا ہے، لیکن اس کا خاص اصطلاحی معنی یعنی نماز کے مصداق کا تعین سنت سے ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کے لفظ 'الصلوۃ' کی دلالت 'الصلوۃ' پر قطعی نہیں۔ اس کو قطعی سنت نے بنایا۔ حافظ صاحب کا یہ خیال ایک مغالطے پر مبنی ہے۔ الفاظ کے مدلول توہوتے ہی خارج میں ہیں۔ مثلاً لفظ قلم کا مدلول خارج میں ایک چیز ہے جو لکھنے کے کام آتی ہے۔ قلم کا لفظ بولتے ہی قلم کا مصداق مخاطب کے ذہن میں متعین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح 'الصلوۃ' کا مصداق بھی معلوم اور معروف تھا۔ یہ لفظ قرآن کے نزول سے پہلے سے اس معنی میں عرب میں موجود تھا۔ اس لیے مخاطب کو اس کی تعیین میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ قس علیٰ ہذا۔

رہا یہ مسئلہ کہ سنتِ متواترہ کے علاوہ حدیث یعنی اخبارِ احاد بھی اگر قطعی الثبوت ہوں تو قرآن کے ظنی کو قطعی میں بدل سکتی ہیں تو ہمارے نزدیک یہ ایک مغالطہ ہے۔ احادیث قطعی الثبوت بھی ہوں تو ان سے حاصل ہونے والا علم ظنی ہوتا ہے، الا یہ کہ کچھ اور قطعی قرائن اس کے ساتھ مل جائیں۔ روایت بالمعنی کا مطلب ہی روایات میں ظنیت کو تسلیم کر لینا ہے۔ چنانچہ اصولی طور پرظنی ذریعہ سے کسی ظنی مفہوم کو قطعی نہیں بنایا جا سکتا۔ تاہم، قرآن مجید کے فہم کے خارجی وسائل میں سے صحیح احادیث مبارکہ کی غیرمعمولی اہمیت کی نفی کسی طرح نہیں کی جا سکتی۔

قرآن / علوم القرآن

(ستمبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter