بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر کی تھی اور اس وقت سے اس کا تسلسل چلا آرہا ہے۔ مگر بیت اللہ شریف کی موجودہ عمارت ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہے کیونکہ جب قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ان کی بعثت سے قبل بیت اللہ تعمیر کیا تھا تو ابراہیمی بنیادوں میں کچھ تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس تعمیر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصہ لیا تھا بلکہ تعمیر کے دوران جب حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا شرف حاصل کرنے پر قریش کے سرداروں میں اختلاف ہوا اور بات تنازعہ تک جا پہنچی تو اس تنازعہ کو جناب حضورؐ نے ہی کمال حکمت عملی کے ساتھ نمٹایا تھا جس پر قریش کے مختلف خاندان باہمی جھگڑے سے بچ گئے تھے۔
قریش نے اس تعمیر میں تین تبدیلیاں کی تھیں۔ ایک یہ کہ اس کے آمنے سامنے دو دروازے تھے جس سے بیت اللہ شریف کی زیارت اور طواف کرنے والوں کو سہولت حاصل تھی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے باہر نکل جائیں اور انہیں بیت اللہ کے اندر جانے کی سعادت بھی مل جائے۔ مگر اس تعمیر کے دوران ایک دروازہ بند کر دیا گیا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے دونوں دروازے زمین کے ساتھ تھے اور آسانی کے ساتھ اندر جایا جا سکتا تھا مگر اس موقع پر ایک دروازہ بند کر کے دوسرے دروازے کو زمین کی سطح سے اتنا بلند کر دیا گیا کہ کوئی شخص آسانی کے ساتھ اندر نہ جا سکے۔ جبکہ تیسری تبدیلی یہ کی گئی کہ ایک حصہ کو چھت سے نکال دیا گیا جو اب حطیم کہلاتا ہے۔ اسے ایک چھوٹی دیوار سے گھیرا گیا ہے مگر وہ بیت اللہ شریف کا حصہ ہونے کے باوجود اس کی چھت کے نیچے نہیں ہے۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ام المومنین حضرت عائشہؓ کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیت اللہ کی قریش کی تعمیر کردہ بلڈنگ کو شہید کر کے اسے از سرِ نو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر دیا جائے، لیکن رسول اکرمؐ نے خواہش کے باوجود ایسا نہ کیا اور اسے اسی حالت میں یہ فرما کر چھوڑ دیا کہ قریشی قوم نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، وہ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ابھی چند سال قبل تو ہم نے بیت اللہ تعمیر کیا تھا، اب اسے دوبارہ تعمیر کیوں کیا جا رہا ہے؟
ام المومنین حضرت عائشہؓ نے حضورؐ کا یہ ارشاد روایت کیا تو وہ ان کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے علم میں بھی آیا۔ حضرت امام حسینؓ کی کربلا میں شہادت کے بعد جب مدینہ منورہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ کر اس کی اطاعت میں رہنے سے انکار کر دیا تو اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی حکومت کافی سالوں تک مکہ مکرمہ سمیت مختلف علاقوں پر قائم رہی۔ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ کے دور میں حجاج بن یوسفؒ کو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے خلاف جنگ پر مامور کیا گیا تو انہوں نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو اس وقت حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کا پایۂ تخت تھا۔ حجاج بن یوسفؒ نے مکہ مکرمہ کے محاصرہ کے دوران گولہ باری کی جس سے بیت اللہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے بیت اللہ شریف کو ازسرِنو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مذکورہ روایت کی دوبارہ تصدیق کر کے بیت اللہ شریف کو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر کے وہ تینوں تبدیلیاں ختم کر دیں جو قریشی تعمیر کے موقع پر کی گئی تھیں۔ اور جن تبدیلیوں کو ختم کر دینے کی خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش ظاہر کی تھی مگر مصلحتاً اس سے گریز کیا تھا۔
لیکن جب حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اس جنگ میں شہید ہوگئے اور مکہ مکرمہ کا کنٹرول حجاج بن یوسفؒ کے ہاتھ میں آگیا تو اس نے خلیفہ وقت عبد الملک بن مروانؒ کو یہ رپورٹ بھجوائی کہ عبدا اللہ بن زبیرؓ نے بیت اللہ کی عمارت بھی تبدیل کر دی ہے جس پر خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے گرا کر دوبارہ قریشی بنیادوں پر تعمیر کر دیا جائے۔ چنانچہ حجاج بن یوسفؒ نے بیت اللہ کو شہید کر کے قریشی بنیادوں پر از سرِنو تعمیر کر دیا جس سے وہ تینوں تبدیلیاں واپس لوٹ آئیں جنہیں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ختم کر دیا تھا۔ اور اس وقت سے آج تک وہ تعمیر اسی حال میں چلی آرہی ہے۔ اس کے بعد جب بنو امیہ کی حکومت ختم ہوگئی اور خلافت کی زمام کار ان کے سیاسی حریفوں بنو عباسؓ نے سنبھالی تو انہوں نے بیت اللہ کی اس عمارت کو امویوں کی تعمیر کردہ قرار دے کر اسے پھر سے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے طریقے پر تعمیر کرنے کے پروگرام بنا لیا جس پر اہل سنت کے امام حضرت امام مالکؒ نے فتویٰ جاری کیا کہ بیت اللہ کی تعمیر میں بار بار اس طرح کے ردوبدل سے کعبۃ اللہ سیاسی حریفوں کی باہمی محاذ آرائی کی آماجگاہ بن جائے گا جو بیت اللہ کے تقدس اور حرمت کے منافی ہوگا۔ اس لیے اب بیت اللہ کو شہید کر کے اسے ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس فتوے پر آج تک عمل ہو رہا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے باوجود امت مسلمہ کعبۃ اللہ کی بلڈنگ کو ابراہیمی بنیادوں کی بجائے قریش کی بنیادوں پر قائم رکھے ہوئے ہے، کیونکہ بیت اللہ کی حرمت و تقدس اور امت مسلمہ کی اجتماعیت و وحدت کا تقاضہ یہی ہے۔
یہ سارا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کے حوالہ سے ہم آج کل کم و بیش اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ مصحف عثمانی کے دو نمونے اس وقت عالم اسلام میں اشاعت پذیر ہو رہے ہیں جو قرأت میں تو ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں مگر رسوم و علامات کے حوالہ سے الگ الگ ہیں۔ عرب دنیا میں قرآن کریم کی طباعت ان رسوم و علامات کے ساتھ ہوتی ہے جو وہاں معروف ہیں، جبکہ جنوبی ایشیا یعنی بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت وغیرہ میں مطبوعہ قرآن کریم کی رسوم و علامات ان سے الگ ہیں جو اس قدر متعارف اور عام فہم ہو چکی ہیں کہ یہاں کے عام مسلمان کے لیے کسی دوسرے نسخہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حرمین شریفین میں دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لیے قرآن کریم کے جو نسخے تلاوت کی غرض سے سرکاری طور پر مہیا کیے جاتے ہیں، ان میں دونوں طرح کے نسخوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی مسلمان کو تلاوت میں دقت نہ ہو۔
مگر اب بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان وغیرہ میں چھاپے جانے والے قرآن کریم کے نسخوں میں بہت سی اغلاط موجود ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے جبکہ اس کے ساتھ ان کی رسوم و علامات کو بھی عرب نسخوں کے مطابق تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس پر بحث و مباحثہ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا ہے، حتیٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور پنجاب قرآن بورڈ میں بھی اس پر گفتگو جاری ہے اور اس پر علمی و فنی دلائل دیے جا رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مسئلہ علمی و فنی مکالمہ و مباحثہ کی حدود سے آگے نکل کر عرف و تعامل کے دائرہ میں آچکا ہے، اس لیے اسے علمی بحث و تمحیص کی بجائے عرف و تعامل کے حوالہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک قرأت کی ناقابل قبول غلطیوں کا تعلق ہے وہ جہاں بھی موجود ہوں، ان کی اصلاح بہرحال ضروری ہے۔ لیکن رسوم و علامات کا معاملہ منصوص نہیں بلکہ اجتہادی ہے۔ اس لیے جو رسوم و علامات متعارف ہو چکی ہیں اور صدیوں سے عوام ان سے مانوس ہو کر ان کے مطابق تلاوت کرتے آرہے ہیں، وہ اگر ’’خطائے اجتہادی‘‘ قرار دے دی جائیں، تب بھی امت کو کسی نئے مخمصے سے دوچار کرنے کی بجائے انہیں اسی حالت میں رہنے دینا چاہیے۔ اگر امت کو کسی فکری یا نفسیاتی خلفشار سے بچانے کے لیے بیت اللہ کی عمارت میں ابراہیمی بنیادوں سے ’’عدول‘‘ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے تو قرآن کریم کی طباعت و اشاعت میں بھی عجمی رسوم و علامات کو برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کی عمومی مصلحت کا تقاضا یہی ہے۔