ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسسٹنٹ پروفیسر اسلامک اسٹڈیز ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان
تعارفی لنک
کل مضامین: 18

بچوں سے قرآن حفظ کرانا

عہدِ رسالت سے قرآن مجید حفظ و تحریر دونوں طریقوں سے محفوظ اور منتقل کیا گیا۔ صحابہ اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق قرآن مجید مکمل یا جزواً یاد کر لیتے تھے۔ لیکن رسمی حفظِ قرآن اور بچوں کو بالجبر قرآن یاد کرانے کا کوئی تصور نہ تھا۔ تاہم، مسلمانوں کو ایک طویل عرصے سے یہ باور کرایا گیا ہے حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کرنے کی بہترین عمر بچپن کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک حافظِ قرآن اپنے خاندان کے دس ایسے افراد کو جنت میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔ حافظِ قرآن کے والدین کو روزِ قیامت ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی روشنی...

تصوف ایک متوازی دین — محترم زاہد مغل صاحب کے جواب میں

قرآن مجید میں نبی اور رسول کی اصطلاح مخاطبہ الہی سے سرفراز اس شخص کے لیے استعمال ہوئی ہے جو ایک خاص منصبِ ہدایت پر فائز ہوتا اور خدا کی مرضیات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کی اطاعت اس کے مخاطبین پر فرض ہوتی ہے۔ اسی کا تقاضا سے اس کا انکار کفر قرار پاتا ہے۔ نبی اور رسول میں ان کی دعوت کے نتائج کے لحاظ سے ایک فرق البتہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ رسول کی دعوت کے ساتھ زمین ہی پر خدا کی عدالت کا ظہور بھی ہوتا ہے اور اتمام حجت کے بعد قوم کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ دعوت حق کے منکرین اور معاندین سزا یاب ہوتے ہیں اور مومنین نجات پاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا...

دعوت کی شریعت

ہمارے محترم دوست، جناب ڈاکٹر محی الدین غازی نے جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب، “میزان” میں بیان کردہ "قانون دعوت" پر نقد کیا ہے جو بعنوان، "قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟" ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کے شمارہ جولائی 2022 میں شائع ہوا ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصود غازی صاحب کے اس نقد کا تجزیہ کرنا ہے۔ غازی صاحب کے نقد کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین پوری امت کی ذمہ داری ہے جس پر تفقہ فی الدین یا کسی خاص نسل (ذریت ابراہیم) یا حکومت کی شرائط عائد کرنا، دعوت دین کی حصار بندی کرنا اور اسے عملاً معطل یا غیر مؤثر کرنے کے مترادف...

بچے کو گود دینا، مادہ تولید کی سپردگی اور کرایے کی کوکھ (Surrogacy)

اپنے والدین سے پرورش پانا، بچے کابنیادی اور فطری حق ہے۔ والدین کا اپنی اولاد کسی دوسرے کی گود بھرنے کے لیے اس کے سپرد کر دینا بچے کے بنیادی حقوق کے خلاف مجرمانہ اور سنگدلانہ اقدام ہے۔ انھیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ بچے کو اپنی ممتا اور شفقتِ پدری سے محروم کر دیں۔ بچہ اوّل و آخر اُنھیں کی ذمہ داری ہے۔ بچے کو دنیا میں لانے کا فیصلہ انھیں اسی وقت کرنا چاہیے جب وہ اس کی ذمہ داری کو خود نبھانے کا ارادہ اور استطاعت رکھتے ہوں۔بچے کو کسی دوسرے کے حوالے سوائے اس مجبوری کے نہیں کیا جا سکتا کہ والدین دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، یا وہ بچےکو پالنے کے قابل نہیں...

قرآن پر اجماع اور اس کا تواتر، ایمان بالغیب اور متشکک ذہن

اصطلاحات بعض اوقات بڑے بڑے حقائق کے لیے حجاب بن جاتی ہیں۔ خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کی نظر بیان حقائق کی بجائے الفاظ کی نامکمل تفہیم تک محدود رہ جاتی ہے۔ اجماع، تواتر اور ایمان بالغیب، مذہبی حلقوں میں استعمال ہونے والی یہ اصطلاحات محض مذہبی علم و عقائد کی ترسیل و تسلیم کے ذرائع نہیں ہیں جن کا دار و مدار تسلیمِ محض پر ہو۔ حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ انسانی ذرائع علم کا بیان ہوتا ہے۔ مذہب ، کسی بھی دوسرے علم کی طرح انسان کی انھیں فیکلٹیز سے مخاطب ہوکر ان حقائق کی طرف متوجہ کرتا ہے جو ان ذرائع علم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ ان اصطلاحات کو جدید علم پر منطبق...

خدا کی رحمت اور عدل: ایک حقیقت کے دو نام

فطرت الہی اور فطرت انسان کی مشترکہ اساسات اور احساسات: فطرت الہی کو جاننے اور سمجھنے کا راستہ فطرت انسانی ہے۔ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [الروم: 30] "تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔" اخلاقیات اور جمالیات کے باب میں انسانوں کی فطرت میں پائے جانے والے بنیادی اور مشترکہ احساسات اور ان کی اساسات فطرت الہی پر مبنی ہیں۔ انسان اسی چیز کو اچھا اور برا سمجھتا ہے جو فطر ت الہی سے اسے ودیعت ہوا ہے۔ اس کا برعکس کہنا بھی اسی وجہ...

غیر مسلموں کی نئی عبادت گاہوں کی تعمیر

حجاز کو اللہ تعالی نے توحید کا مرکز بنا کر مقدس کیا، کعبہ خدائے واحدت کے گھر اور قبلے کے حیثیت سے تعمیر ہوا۔ وہاں جب شرک نے قبضہ کر لیا تو یہ قبضہ واگزار کرایا گیا اور مشرکانہ عبادت گاہوں اور آثار کو مٹا ڈالا گیا۔ حجاز کی یہ خصوصی حیثیت ہے کہ وہاں کوئی مشرکانہ عبادت گاہ قائم رہ سکتی ہے اور نہ تعمیر کی جا سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کعبہ کو بیت اللہ ہونے کی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ نہ کعبہ کہیں اور تعمیر ہو سکتا ہے اور نہ حجاز جیسا تقدس کسی اور زمین کو دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے صحابہ نے حجاز سے باہر کسی بت خانہ، کسی آتش کدہ کو نہیں گرایا اور نہ ایسی عبادت...

قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلط مبحث اور سماج کی تقسیم کاری

قومی ریاستوں کی تشکیل کے دور میں پاکستان ایک قومی مذہبی ریاست کی صورت میں منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جغرافیہ میں شامل مختلف رنگ و نسل کے لوگ نظریے اور عقیدے کے فرق کے علی الرغم قومی ریاستوں کا حصہ بنے۔ پاکستانی ریاست کی تشکیل بھی اسی اصول پر عمل میں آئی لیکن سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہو گیا جو قومی شناخت کی اظہاریوں میں غلبہ پاتا چلا گیا۔ مذہبیت کے اس عنصر نے اس نومولود ریاست کی اکثریتی مسلم کمیونٹی کے احساس میں اس کی ملکیت کا تصور پیدا کر دیا۔...

قومیت بطور مذہب

زیر نظر مضمون کارلٹن جے ایچ ہیز (Carlton J H Hayes, 1882-1964) کے آرٹیکل، Nationalism as a Religion کے ماڈل کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔ کارلٹن ایک امریکی مورخ تھا۔ ایک وقت میں وہ تصورقومیت کا حامی رہا،پھر اس کے خیالات اس بارے میں مکمل طور پر تبدیل ہو گئے۔ اپنے دور میں قومیت کے نام پر برپا ہونے والی دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریاں بھی اس کے سامنے تھیں۔ اس نے قومیت کے تصور میں موجود منفیت اور مقامیت کا ادراک کیا اور اس کے نہایت شان دار تجزیے پیش کیے۔ اس نے قومیت کو تاریخِ انسانی کی بدترین برائیوں میں سے ایک شمار کیا۔ قومیت کا تعارف: اپنے خاندان اور قبیلے کے ساتھ تعلق...

’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘

ڈاکٹر محی الدین غازی انڈیا سے تعلق رکھنے والے، دینی علوم کے ماہر اور متوازن فکر کی حامل شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وحدتِ امت کے ایک متحرک داعی ہیں۔ غازی صاحب کی کتاب "نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل"، ایک نہایت ہی اہم موضوع پر ایک چشم کشا کتاب ہے جس سے دین کے اندر علم کا ایک پورا پیرا ڈائم بدل جاتا ہے۔ پیش لفظ میں غازی صاحب لکھتے ہیں: "راقم کے علم کی حد تک اس موضوع پر ایک مکمل کتاب کی صورت میں یہ ایک منفرد کوشش ہے۔" غازی صاحب نے ایک نہایت اہم علمی حقیقت کی طرف رہنمائی کی ہے جو بوجوہ امت کے ذہن سے اوجھل ہو گئی، تاہم اس کا ادراک کسی نہ کسی درجے میں بڑے...

قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطی

اسلام کے سیاسی غلبے کو دینی فریضہ قرار دینے کے حق میں یہ استدلال ایک بنیادی استدلال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے فتح و نصرت کے وعدے کیے تھے جو ان کے حق میں پورے ہوئے۔ یہی وعدے دیگر اہل ایمان کے لے بھی عام ہیں۔مسلمان اگر پورے جذبہ ایمانی سے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کریں گے تو یہ وعدے ان کے حق میں بھی اسی طرح پورے ہوں گے جیسے یہ صحابہ کے لیے پورے ہوئے تھے۔ اس استدلال کے بھروسے پر مسلم تاریخ میں بے شمار مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کی گئیں جن کا انجام تاریخ کے صفحات میں رقم ہے۔ زیر نظر مضمون...

سورہ یونس اور سورہ ہود کے مضامین : ایک تقابل

علامہ حمید الدین فراہی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ قرآن مجید کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض سورتوں کے جوڑا جوڑا ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرہ اور سورہ آل عمران، اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے بارے میں جنھیں معوذتین بھی کہا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے جب قرآن کی سورتوں کا مطالعہ کیا گیا تو یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے۔ اس تناظر میں سورہ یونس اور سورہ ہود کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ مطالعہ کس حد تک درست ہے، اس میں مزید کیا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اور قرآن کی سورتوں...

فطرت بطور معیار کی بحث

فطرت سے مراد انسانوں میں پائے جانے والے وہ عمومی پیدایشی رجحانات ہیں، جو انسانی شعور کو حق و باطل، خیر و شر، اور طیبات و خبائث میں تمیز کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ وحی کی عمارت انہیں بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ فطرتِ انسانی ان اقدار کے لیے معیار ہے یا نہیں، اس بحث کو ہم تین سطح پر دیکھتے ہیں: عقیدہ، اخلاق اور قانون۔ یہ واضح رہے کہ قانون کی بنیاد بھی پر اخلاق ہی پر ہوتی ہےِ، اس لیے اصلاً یہ بحث کہ فطرتِ انسانی اقدار کے لیے معیار ہے یا نہیں، عقیدہ اور اخلاق سے ہی متعلق ہے۔ فطرت میں پائی جانے والی یہ وہ بنیادی رہنمائی ہے جس کا تجربہ و مشاہدہ ہر انسان...

جہادی بیانیے کی تشکیل میں روایتی مذہبی فکر کا کردار

آج مذہبی عسکریت پسندی کے لا وارث بچے کو کوئی اپنے نام سے منسوب کرنے کو تیار نہیں، لیکن ایک ایسا بھی وقت گزرا ہے کہ جب اسے گود لینے کے لیے اہل مدارس میں مسابقت برپا تھی۔ یہ 80 اور 90 کی دہائی کی بات ہے جب صدر ضیاء الحق کے زیر سرپرستی جہادی بیانیہ قوم کا نصب العین بنایا جا رہا تھا۔ مساجد اورمدارس میں جہادی پروگرام منعقد کیے جاتے تھے، جہادی مقررین اپنی شعلہ بار تقاریر سے نوجوان طلبہ کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا کرتے تھے، طلبہ کومحاذ پر جانے کی بجائے مدرسے میں آرام سے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا خلافِ غیرت لگنے لگتا تھا،جہادیوں کے شانوں تک چھوڑے ہوئے...

قرآن مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث ۔ حافظ محمد زبیر صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

ماہنامہ الشریعہ کی جون 2016 کی اشاعت میں حافظ محمد زبیر صاحب کا مضمون قران مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث شائع ہوا۔ یہ مضمون ان کے 24اکتوبر 2015 کو المورد کے زیر انتظام ویبینار (webinar) سے خطاب کی تحریری صورت تھی۔راقم کو اس ویبینار میں حافظ صاحب کے خطاب کو براہ راست سننے کا موقع بھی ملا تھا۔ ذیل میں ہم حافظ صاحب کے مضمون پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔ قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث نہایت اہم موضوع ہے۔ قرآن کی حیثیت پر یہ براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ میزان اور فرقان...

ریٹائرڈ اساتذہ کی دوبارہ تعیناتیاں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری

یونیورسٹی کے مروجہ قوانین کے مطابق یونیورسٹی کے کسی استاد یا ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی دوبارہ تعیناتی کرنے کے لیے دو شرائط رکھی گئی ہیں: ایک یہ کہ اس کا متبادل میسر نہ ہو اور دوسرا یہ کہ ریٹائر ہونے والے استاد کی عمر 65 سال سے زائد نہ ہو۔ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ 80 سال سے زائدعمر کے اساتذہ اپنے ذاتی تعلقات کی بدولت، یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اپنے عہدوں پر مسلسل براجمان ہیں، اور ان کے متبادل نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ پنشن اور دیگر مراعات وصول کرنے کے باوجود بھی یہ بزرگ اگلے مستحق کے لیے عہدہ چھوڑنے کا...

توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟

انسانی رویے، مختلف سماجی، نفسیاتی ،جینیاتی اور عقلی عوامل کا نتیجہ اور رد عمل ہوتے ہیں۔ انسانی رویوں کے باقاعدہ مطالعے کی روایت ہمارے ہاں بوجوہ پنپ نہیں سکی، حالانکہ اس کے بغیر کسی بھی انسانی رویے کی درست تشخیص ہو سکتی ہے اور نہ اس کا علاج ممکن ہے۔ ہمارے ہاں محض علامات دیکھ کر فیصلہ صادر کرنے کا چلن ہے۔ کسی رویے کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ جاننے کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے۔ توہین مذہب یا توہین رسالت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ توہین رسالت کے ہزاروں مقدمات پاکستانی عدالتوں میں قائم ہیں، اگر یہ سارے مقدمات درست ہیں، جو کہ درحقیقت نہیں ہیں، تو کیا...

سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد: ایک مطالعہ

سید احمد شہید کی تحریک جہاد عملی طور پر 1826 سے شروع ہوئی اور 1831 میں آپ کی شہادت پر اختتام پذیر ہوئی۔ تاہم غیر منظم طور پر یہ 1857 کے بعد بھی مسلح جہاد کی صورت میں چلتی رہی۔ اس تحریک نے اور بھی بہت سے تحاریکِ جہاد کو جنم دیا جو اسی انجام کو پہنچیں جو اس تحریک کو پیش آیا، مثلاً بنگا ل میں تیتو میر کی تحریک، تحریک ریشمی رومال اور صادق پور پٹنہ کا مرکزِ جہاد، جہادِ شاملی وغیرہ۔ دورِ حاضر میں ابو الحسن ندوی، مولانا غلام رسول مہر وغیرہ کی تحقیقات اور تصنیفات نے اس تحریک کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ خصوصاً ابو الحسن ندوی کی سیرتِ سید احمد شہید پڑھ کر...
1-18 (18)