قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطی

ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسلام کے سیاسی غلبے کو دینی فریضہ قرار دینے کے حق میں یہ استدلال ایک بنیادی استدلال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے فتح و نصرت کے وعدے کیے تھے جو ان کے حق میں پورے ہوئے۔ یہی وعدے دیگر اہل ایمان کے لے بھی عام ہیں۔مسلمان اگر پورے جذبہ ایمانی سے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کریں گے تو یہ وعدے ان کے حق میں بھی اسی طرح پورے ہوں گے جیسے یہ صحابہ کے لیے پورے ہوئے تھے۔ اس استدلال کے بھروسے پر مسلم تاریخ میں بے شمار مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کی گئیں جن کا انجام تاریخ کے صفحات میں رقم ہے۔ زیر نظر مضمون میں اس استدلال کا تجزیہ زبان و بیان کے معروف اسالیب کی روشنی میں ،تاریخی اور معروضی حقائق کے حوالے کیا گیا ہے۔

یہاں دو نکات قابل غور ہیں:

پہلا یہ کہ زبان کا معلوم و معروف اسلوب ہے کہ وعدہ، حکم نہیں ہوتا، یعنی جب کسی سے کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو یہ نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی حکم دیا جا رہا ہے۔ مثلاً میں اپنے بیٹے سے کہوں کہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے پر اسے کوئی انعام دوں گا تو اس کا مطلب بس یہی ہے کہ اس کی کارکردگی اچھی ہوئی تو میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔ اس سے یہ کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس انعام کا حصول میرے بیٹے کے لیے فرض ہو گیا ہے یا میرے لیے اپنا وعدہ ہر حال میں پورا کرنا فرض ہو گیا ہے۔ یہ ایک عام فہم بات ہے۔ کوئی صحیح الفہم شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

دوسرا یہ ہے کہ وعدہ اگر خاص کسی شخص یا اشخاص سے کیا جائے تو وہی اس کا مخاطب اور مصداق ہوتے ہیں، دیگر لوگ اس سے مراد نہیں ہوتے۔ جیسے مذکورہ بالا مثال میں میرے وعدے کا مخاطب میرا بیٹا ہے۔ اس وعدے کا مصداق بھی وہی ہے، کوئی دوسرا نہیں ہے، حتی کہ اس کے علاوہ میری دوسری اولاد بھی اس وعدے کا مصداق نہیں بن سکتی تاوقتیکہ ان کو بھی اس میں شامل کرنے کا اعلان میں خود نہ کروں، یا وعدے کی نوعیت ہی عام ہو جیسے میں اپنے بچوں سے کہوں کہ جو بھی اچھی کارکردگی دکھائے گا، اسے انعام ملے گا۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ سب اس میں شامل ہوں گے۔ لیکن وعدہ خاص الفاظ میں ہے تو عام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بھی ایک معروف بات ہے۔ اس کا انکار بھی ممکن نہیں۔

ان دونوں اصولوں کی روشنی میں قرآن مجید میں صحابہ سے متعلق خدا کے وعدوں کو دیکھتے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ خدا نے صحابہ کے ساتھ جو وعدے کیے، وہ صرف وعدے ہیں، حکم نہیں۔ اگر کوئی ان کو حکم سمجھتا ہے تو اس کے لیے دلیل درکار ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ خدا کے یہ وعدے صحابہ کے حق میں بعینہ پورے ہوئے کیونکہ وہی ان کے مخاطب تھے، لیکن یہ وعدے دیگر مسلمانوں کے لیے تھے نہ ان کے حق میں پورے ہوئے، کیونکہ وہ ان کے مخاطب ہی نہیں تھے۔ ان خاص وعدوں کو اگر کوئی عام سمجھتا ہے تو اس کے لیے بھی دلیل لانی پڑے گی۔

یہاں قرآن مجید سے خدا کے دو وعدے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہم ان کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا ان وعدوں کو حکم اور پھر اس حکم کو عام سمجھا جانا درست ہو سکتا ہے۔

خدا نے صحابہ سے بحیثیت جماعت وعدہ کیا کہ ان کے صالحین کو اس دنیا ہی میں غلبہ و حکومت عطا کرے گا:

وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (3:139)

’’اور (جو نقصان تمھیں پہنچا ہے، اْس سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہو گا۔‘‘

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون (24:55)

’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو وہ اِس سرزمین میں ضرور اسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اس نے عطا فرمایا تھا اور ان کے لیے ان کے دین کو پوری طرح قائم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ان کے اِس خوف کی حالت کے بعد اِسے ضرورامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھیرائیں گے۔ اور جو اِس کے بعد بھی منکر ہوں تو وہی نافرمان ہیں۔‘‘

خدا کا ایک وعدہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں ہجرت کریں گے تو خدا کی طرف سے بحیثیت جماعت اس دنیا ہی میں امن و خوش حالی پائیں گے۔ یہ وعدہ پہلے وعدے ہی کا ابتدائیہ ہے، تاہم یہ الگ سے بھی کیا گیا ہے، اس لیے بوجوہ اسے یہاں الگ وعدہ شمار کیا گیا ہے:

وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوا فِی اللّٰہِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَأَجْرُ الآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (16:41)

’’جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے، اِس کے بعد کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے ، ہم ان کو دنیا میں بھی لازماً اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو کہیں بڑھ کر ہے۔ اے کاش، یہ منکرین جانتے۔‘‘

وَمَن یُہَاجِرْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الأَرْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراً وَسَعَۃً (4:100)

’’(یہ لوگ گھروں سے نکلیں اور مطمئن رہیں کہ) جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ کے لیے بڑے ٹھکانے اور بڑی گنجایش پائے گا۔‘‘

ہم جانتے ہیں کہ صحابہ سے کیے گئے یہ دونوں وعدے صحابہ کے حق میں پورے ہوئے۔ انھوں نے ہجرت کے نتیجے میں امن و خوش حالی بھی پائی اور اپنے مخالفین کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں غلبہ و حکومت بھی۔

زبان و عقل کے عام اور معروف فہم کے مطابق، خدا کے یہ وعدے حکم نہیں ہو سکتے، دوسرے یہ کہ یہ وعدے عام نہیں ہو سکتے، لیکن مسلمانوں نے دونوں مغالطے اختیار کیے: انھوں نے ان وعدوں کو حکم بھی سمجھا اوراس مزعومہ حکم کو عام بھی سمجھا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے حصول غلبہ و حکومت کو اپنے لیے دینی فریضہ اور اس کے وقوع کو خدائی وعدہ قرار دے دیا۔ پھر اس بھروسے پر انھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں حصول اقتدار کے لیے مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحریکیں برپا کیں جو کم و بیش تمام کی تمام ناکامی سے دو چار ہوئیں۔ اس قسم کی تحریکوں اور ان کی ناکامیوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے یہ بیان آیا ہے کہ خدا اپنے اصول کبھی نہیں بدلتا۔ اگر یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے بھی ہوتے تو کامیابی ان کو بھی نصیب ہوتی۔ چونکہ یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے تھے ہی نہیں ، اس لیے ان کے لیے پورے بھی نہیں ہوئے۔ خدا نے اپنااصول نہیں بدلا۔

بالکل اسی طرح، جب کبھی مسلمانوں کی کسی جماعت کو کسی علاقے سے ہجرت کرنا پڑ جاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ساری زندگی مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کے عالم میں گزار دیتے ہیں، مگر بحیثیت جماعت امن و خوش حالی کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔ یہاں افراد کی انفرادی حیثیت نہیں، بلکہ جماعتی حیثیت مد نظر ہے۔ چنانچہ جس ملک میں بھی یہ جا کر رہ پاتے ہیں، دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے ہی رہ پاتے ہیں۔ ہجرت کے بعد امن و خوش حالی کے خدائی وعدے بھی اگر عام ہوتے تو ان کے حق میں بھی پورے ہوتے نظر آتے۔ چنانچہ تاریخی اور معروضی حقائق بھی اس فہم کے خلاف کھڑے ہیں کہ صحابہ سے کیے جانے والے لازمی فتح و نصرت اور لازمی امن و خوش حالی کے وعدے عام ہیں۔ 

یہاں تاویل کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ غلبہ و حکومت کے وعدے اعلی ایمان کے ساتھ مشروط ہیں۔ چونکہ صحابہ جیسا ایمان اب تک دستیاب نہ ہو سکا، اس لیے یہ وعدے عام مسلمانوں کے حق میں کبھی پورے ہو کر نہ دیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات ماضی و حال میں برپا ہونے والی تمام مسلح و غیر مسلح سیاسی تحاریک کے لیے علی الاطلاق کہی جا سکتی ہے، حالانکہ ان میں سے بعض بلکہ اکثر کے تذکرے ان کے رہنماؤں اور ان میں شامل افراد کے اعلیٰ کردار اور ایمان افروز واقعات سے بھرے پڑے ہیں؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنے جان و مال قربان کر دینے سے بڑھ کر ایمان و نیت کے خالص پن کا اور کیا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے اور مسلم عسکری تنظمیں یہ قربانیاں آج بھی پیش کر رہی ہیں؟ تاہم،حقیقت یہ ہے کہ غلبہ و حکومت انھیں میسر نہ آئے۔

بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ ان تمام لوگوں میں سے کوئی بھی پورے ایمان والے نہ ہو سکے تو ہجرت پر مجبور کر دیے جانے والے مسلمانوں کی مظلومیت میں تو عموماً کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہجرت کے بعد امن و خوش حالی کے وعدے اگر عام ہوتے تو بحیثیت جماعت عام مسلم مظلوم مہاجرین کے حق میں تو لازماً پورے ہونے چاہیے تھے، مگر وہ بھی نہیں ہوتے؟اور اگر ہجرت کے بعد کے وعدے عام نہیں ہیں، تو غلبہ و حکومت والے وعدے کیونکر عام ہو سکتے ہیں؟ 

ان سوالوں کا جواب اس کے سوا اور کیا ہے کہ غلبہ و حکومت اور امن و خوش حالی کے یہ وعدے عام نہیں تھے۔عام مسلمان ان وعدوں کا مخاطب ہیں نہ مصداق۔

بعض حضرات خدا کے ان وعدوں میں موجود غلبہ و حکومت کی بشارتوں کو اخلاقی فتح قرار دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ خدا کے ان وعدوں کی رو سے صحابہ کو کیا صرف اخلاقی فتح ملی تھی؟ان سے وعدہ دنیوی سیاسی غلبے و حکومت کا تھا، انھیں وہی ملا۔ اب دیگر لوگوں کے لیے یہ وعدہ اگر صرف اخلاقی فتح تک محدود ہو گیا ہے تو اس تخصیص کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر یہ تخصیص مان بھی لی جائے تو پھر مسلمانوں کو مسلح و غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کرنے کی بجائے اخلاق کے میدان میں ہی فتح حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ یا پھر یہ مان لیا جائے کہ اس اخلاقی فتح کا یہ فہم غلبہ و حکومت کے حصول میں کوشاں گزشتہ اور موجودہ تحاریک کے سربراہان کو بھی نہ تھا اور نہ ہے۔ وہ اسے سیاسی فتح ہی سمجھتے رہے، مگر ناکامی کے بعد قرآن کے وعدوں کا عمومی مصداق اور ان تحریکوں کی شکست دونوں کا محل درست کرنے کے لیے اسے اخلاقی فتح قرار دینے کی کوشش کی گئی۔

یہاں اس سوال کو بھی لے لینا چاہیے کہ صحابہ ہی کے ساتھ یہ وعدے کیوں کیے گئے اور انھی کے حق میں کیوں پورے ہوئے؟ یہ وعدے عام نہیں تھے تو قرآن میں قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ان کے تذکرے کا مقصد کیا ہے؟

اختصار سے بیان کیا جائے تو اس سب کا مقصد مسلمانوں کو وہ سرگزشت سنانا ہے جس میں خدائی مدد سے جزیرہ عرب میں ایک غیر معمولی واقعہ برپا کیا گیا تاکہ وہ ایک نشانِ حق بن کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے تذکیر اور دعوت ایمان کا سامان بن جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دیگر رسولوں کی سرگزشت ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں جن میں ہم خدا کی خاص نصرت کے واقعات عبرت اور تذکیر کے لیے پڑھتے ہیں، جیسے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ جس میں موسیٰ علیہ السلام خدا کی خاص مدد سے اپنے دشمنوں پر اپنے عصا، عبور بحر اور دیگر معجزات کے ذریعے غالب آئے۔ ان کو پڑھتے وقت ہم یہ نہیں سمجھتے کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہم بھی کسی فرعون سے جا ٹکرائیں تو خدا کی مدد اسی طرح نازل ہو گی جس طرح موسیٰ کے لیے اتری تھی۔ ہم اسے خدا کا ایک خاص نشانِ حق سمجھ کر پڑھتے ہیں۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے رسولوں کا اسی دنیا میں اپنے مخالفین پر غالب آ جانا خدا کا ایک خاص قانون ہے:

کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (58:21)

’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔‘‘

چنانچہ ہر رسول کے مخالفین خدائی عذاب کے نتیجے میں بالآخر مغلوب ہوئے۔ 

قرآن مجید کی درج ذیل آیت بھی اسی تناظر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبے کا خدائی فیصلہ سناتی ہے:

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (9:33)

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اس کو غالب کر دے، خواہ مشرکین اِسے کتنا ہی نا پسند کریں۔‘‘

یہ غلبہ خدا کے مذکورہ قانون کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ظاہر ہو کر رہا۔اس سے دیگر مسلمانوں کے لیے سیاسی غلبے کے حصول کی ہدایت یا حکم کا کوئی قرینہ نہیں نکلتا۔ آیت میں موجود الدین کلہ (تمام ادیان) کے الفاظ سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ’’تمام ادیان‘‘ وہ ادیان تھے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے غالب آنا تھا، یعنی جزیرہ عرب میں پائے جانے والے ادیان۔ یہ تخصیص اس لیے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دین کاغالب ہونا بیان کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ آیت میں موجود المشرکین کا الف لام عہد کا ہے جو تمام مشرکین نہیں بلکہ عرب کے مشرکین کو بیان کر رہا ہے۔ اس غلبے کے خاص ہونے کا یہ ایک مزید واضح قرینہ ہے۔

دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ذریت ابراہیم کو ان کے ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کی صورت میں اسی دنیا میں غلبے کا وعدہ اور ایمان و عمل میں غیر مطلوب طرز عمل اختیار کرنے پر اسی دنیا میں ذلت و رسوائی کی وعید سنائی ہے:

چنانچہ پہلے مرحلے میں ذریت ابراہیم کی ایک شاخ، بنی اسرائیل اس امتحان کے لیے چنے گئے تھے:

یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَوْفُوا بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ (سورۃ البقرہ، 2:40)

’’اے بنی اسرائیل، میری اْس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھی اور میرے عہد کو پورا کرو ، میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔‘‘

یہ وعدہ یہی تھا کہ خدا کے فضل و سرفرازی کی جو نعمت وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے گنوا چکے ہیں، انھیں دوبارہ مل سکتی ہے اگر وہ اپنی روش بدل کر دوبارہ خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار کر لیتے ہیں۔

دوسرے مرحلے میں ذریت ابراہیم کی دوسری شاخ، بنی اسماعیل چنے گئے:

أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْْنَا آلَ إِبْرَاہِیْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْْنَاہُم مُّلْکاً عَظِیْماً (4:54)

’’کیا یہ لوگوں سے اللہ کی اس عنایت پر حسد کر رہے ہیں جو اس نے ان پر کی ہے؟ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولاد ابراہیم (کی اِس شاخ یعنی بنی اسماعیل) کو اپنی شریعت اور اپنی حکمت بخش دی اور انھیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے۔‘‘

پھر انہی مسلمانوں سے گزشتہ سنت الٰہی کے مطابق وعدہ کیا گیا:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوَا إِن تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدُّوکُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (آل عمران، 3:149)

’’ایمان والو، اگر اِن منکروں کی بات مانو گے تو یہ تمھیں الٹا پھیر کر رہیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے۔‘‘

وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (3:139)

’’اور (جو نقصان تمھیں پہنچا ، اس سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہوگا۔‘‘

ان کی ہجرت کے بعد امن و خوش حالی بھی اسی وعدے کی فرع تھی۔ 

اس خصوصی اہتمام کی وجہ دین کے لیے انسانی محافظین کا چناؤ، ان کے ذریعے سے بعد از رسالت دنیا میں تبلیغِ دین اور عام لوگوں کے لیے خدا کی زندہ نشانی قائم کرنا تھا کہ کس طرح ذریت ابراہیم اپنے ایمان و عمل کی درستی اور بگاڑ کی بنیاد پر بار بار عروج و زوال کے ادوار سے گزرتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی ساڑھے تین ہزار سالہ تاریخ اور بنی اسماعیل کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں خدا کے اس فیصلے کی داستانیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ صحابہ نے دشمنان اسلام کے خلاف جو قتال کیا، وہ غلبہ و حکومت کے لیے نہیں، بلکہ خدا کے نافرمانوں کو اتمام حجت کے بعد خدا کے حکم سے آخری سزا دینے کے لیے اور مظلوم مسلمانوں کو ان کے پنجہ ظلم سے چھڑانے کے لیے کیا تھا:

قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ التوبہ 9:14)

’’ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دے گا اور اْنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں ان پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔‘‘

وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً (4:75)

’’(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے۔‘‘

مسلمانوں کے غلبہ و حکومت کا ذکر ان مہمات کے نتیجے اور خدا کی طرف سے انعام کے طور پر کیا گیا ہے۔ ذریت ابراہیم کے علاوہ، خدا نے اپنے ذمے یہ لیا ہے نہ اس پر لازم ہے کہ مسلمانوں کے دیگر گروہوں کے لیے بھی یہی قانون لاگو کرے۔ ان وعدوں کو حکم اور پھر حکم کو اپنے لیے عام سمجھنا مسلمانوں کی اپنی غلط فہمی ہے۔ خدا ان کی غلط فہمی کا ذمہ دار نہیں، اور نہ وہ ان کی غلط فہمی کی وجہ سے اپنے اصول بدلنے والا ہے۔

اپنے حقوق کے لیے اگر سیاسی جدوجہد کرنا مسلمانوں کے حالات کا تقاضا ہو تو وہ اسے انسانی سماج کی ایک ضرورت سمجھ کر اختیارکر سکتے ہیں، نہ کہ کوئی دینی فریضہ سمجھ کر۔ نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان کی کاوشوں کی وجہ سے خدا پر ان کی فتح و نصرت کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ خدا کی حکمت کا تقاضا ہوگا تو وہ مدد کر بھی سکتا ہے، مگر یہ نہ اس کا وعدہ ہے نہ کوئی عام قانون۔

سماجی حقیقت یہ ہے کہ آج کے کثیر القومی اور کثیر المذاہب جمہوری سماجوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی، وہاں ان کو اپنی حکومت تشکیل دینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آنی چاہیے جہاں وہ اسلام کے مسلم اجتماعیت سے متعلق احکامات مسلم کمیونٹی پر لاگو کریں۔ اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں، وہاں انھیں ایک مفید، صالح اور دوستانہ اقلیت بننے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم،ان کے صالح طرز عمل کے باجودبطور اقلیت انھیں اپنے سماج کے نظام یا سماجی رویوں کی وجہ سے کسی ناانصافی یا زیادتی سے پالا پڑتا ہے تو اس کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش، جس کی اجازت سماج اور قانون انھیں دیتا ہے،انھیں کرنی چاہیے۔ ناانصافی اور زیادتی کی ایسی صورت حال تو مسلم اکثریت کے سماج میں مسلمانوں کے مختلف مسلکی یا لسانی گروہوں کو بھی درپیش رہتی ہے۔جاننا چاہیے کہ یہ مذہبی سے زیادہ انسانی رویوں کا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہتھیار اٹھا لینا نہیں، سماجی رویوں کی اصلاح کی کوششیں کرنا ہے۔تاہم، معاملہ اگر مسلم کمیونٹی کی برداشت سے باہر ہو جائے تو انھیں وہاں سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ ہجرت بھی ممکن نہ ہو تو بیرونی ریاستی طاقتوں اور اداروں کو مدد کے لیے بلایا جانا چاہیے، نہ کہ خود ہتھیار اٹھا کر اپنے لیے مزید خرابی کے اسباب پیدا کرنا چاہئیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عہد رسالت میں مسلمانوں میں سے جو لوگ ہجرت نہ کر پائے تھے اور کفار کے ظلم کا شکار تھے تومدینہ کی اسلامی ریاست کو ان کی مدد کے لیے ابھارا گیا لیکن جہاد کے احکام نازل ہو جانے کے باوجود ان محکوم و مظلوم مسلمانوں کو ہتھیار اٹھا لینے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا بلکہ یہ ہدایت دی گئی کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ کسی طاقت کو ان کی مدد کے لیے بھیجے۔ (دیکھیے مذکورہ بالا آیت 4:75) نوبت البتہ اگر یہاں تک پہنچ جائے کہ مسلمانوں کی طرف سے پر امن رہتے ہوئے بھی ان کے مخالفین کی طرف سے ان کی جان، عزت اور آبرو بھی محفوظ نہ رہیں تو ذاتی دفاع کے فطری حق کے لیے لڑ پڑنا، ہتھیار اٹھا لینا ناگزیر تقاضا بن جاتا ہے۔

دور جدید میں دنیا کے کثیر القومی اور کثیر المذاہب سماجوں میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے پیچھے بڑی وجہ مسلمانوں کی اپنے دین کی بنیاد پر دیگر کمیونٹیز پر غالب آنے کی نفسیات ہے۔ مسلمان اگر اس نفسیات سے باہر آ جائیں توبقائے باہمی کے اصول پر دنیا کے ساتھ آگے بڑ ھ سکتے ہیں۔ دنیا بھی ان پر بھروسہ کرے گی اور جن مشکلات کا سامنا انھیں اب ہے، ان میں سے اکثر کا خاتمہ ہو جائے گا۔ المیہ مگر یہ ہے کہ مسلمانوں نے دین کے نام پر غلبے کے حصول کے لیے جن مشکلات کا راستہ اپنے لیے چنا ہے، وہ ان کے دین کا تقاضا ہی نہیں ہے۔ جن وعدوں کے بھروسے پر یہ سب کیا جا رہا ہے، وہ وعدے ان کے لیے ہیں ہی نہیں۔

دین کا اصل مقصد تزکیہ نفس ہے۔ مسلمانوں سے ان کے دین کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان جہاں بھی رہے، اپنی انفرادی اور سماجی حیثیت کے مطابق ایمان و عمل کے بہترین معیار کے حصول میں کوشاں رہے۔ پھر وہ چاہے باپ ہو یا بیٹا، معلم ہو یا شاگرد، حاکم ہو یا محکوم ہر حال میں خدا کے حکم کا پابند ہو کر رہے۔ مسلمان جتنا جلد ان حقائق کو باور کر لیں، اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہے تاکہ ان کی توانائیاں غیر ضروری ترک تازیوں میں ضائع ہونے کی بجائے مثبت مقاصد کے لیے استعمال ہو سکیں۔

قرآن / علوم القرآن

(جنوری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter