مشاہدات و تاثرات

مولانا زاہد الراشدی کی مجلس میں

حافظ زاہد حسین رشیدی

مخدوم و محترم حضرت علامہ زاہد الراشدی زید مجدہم کے ساتھ عقیدت و محبت کا تعلق تو ہے ہی، علاوہ ازیں باہم رشتہ داری کی ایک ڈوری بھی بندھی ہے جو میرے لیے استفادہ کے مواقع پیدا کرتی رہتی ہے۔ حضرت المخدوم مدظلہ کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر نقشبندی مدظلہ میرے ہم زلف ہیں۔ چنانچہ بعض مواقع پر اس واسطہ سے حضرت علامہ مدظلہ تک بے تکلف رسائی ممکن ہو جاتی ہے اور یہ طالب علم اظہار ما فی الضمیر کی جسارت کے ساتھ ساتھ آں محترم کی شفقتیں اور محبتیں بھی سمیٹتا ہے۔ ’’عشاقِ زلف زندہ جاوید کیوں نہ ہوں، ہاتھ آگیا ہے سلسلہ عمرِ دراز کا‘‘۔ ۲۲...

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹرصفدر محمود سے انٹرویو)

عرفان احمد

گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے ڈنگہ سے میراتعلق ہے، جو کھاریاں رسول روڈ پر صدیوں سے واقع ہے، سندر داس ایک بہت بڑابزنس مین تھا اُس نے ڈنگہ میں بہت ہی شاندار بلڈنگ ہائی سکول کے لیے بنوائی تھی، اب یہ ہائر سکینڈری سکول ہے آٹھویں تک میری تعلیم وہاں ہوئی جس تعمیر ملت سکول رحیم یار خان سے میں نے میٹرک کیا وہ سکول بنیادی طورپر جماعت اسلامی کے اراکین کی زیر نگرانی چلتا تھا، اس سکول میں فکری نشوونما اور کردار سازی پربڑی توجہ دی جاتی تھی۔ امتحان سے زیادہ کردار سازی پرتوجہ ہوتی تھی فکری نشوونما پرزیادہ زورتھا اُس کے بعدگورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور بی...

’’عافیہ‘‘ ۔ ایک تنقیدی جائزہ

محمد رشید

عالم اسلام کی بیٹی۔۔۔عافیہ صدیقی کی مظلومیت، بے بسی،لاچاری اور اذیت ناک قید پر جتنا بھی دکھ اور افسوس کیاجائے، کم ہے۔ عافیہ کے ساتھ انسانیت سوز سلوک انسانی سماج اورتہذیب کے منہ پر ابلیس کا ایک زوردار تھپڑ ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے بھیانک ترین انسانی المیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی قوم کی ایک نہایت ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظ قرآن بیٹی کے ساتھ امریکہ کے وحشیانہ اور حیوانی سلوک کا اصل محرک کون سی بات بنی؟ عافیہ صدیقی کی زندگی، نظریات اورموومنٹ کی تفصیلات کیا رہی ہیں؟ یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات ہر اس پڑھے لکھے انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں...

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر طاہر مسعود سے انٹرویو)

عرفان احمد

میں 1957ء میں سابق مشرقی پاکستان کے شہرراج شاہی میں پیداہوا۔ میرے والد صاحب کتابوں کے تاجر تھے۔ راج شاہی میں اُن کی کتابوں کی تقریباً تین دکانیں تھیں۔ میں نے جب سکول جانا شروع کیاتو میرے راستے میں ہی ہماری کتابوں کی دکان تھی۔ اُس کانام اُردو لابئریری تھا تو میں سکول کی واپسی پراُس دکان میں ٹھہرتا تھا۔ اُس کے پچھلے حصے میں ایک میز پر کتابیں رکھی ہوتی تھیں۔ اُس پربیٹھ جاتا تھا اورکتابیں نکال کے اُن کامطالعہ کرتارہتا تھا۔ تواُس زمانے میں وہاں رسائل بھی آتے تھے،اخبارات بھی آتے تھے۔ اردو ڈائجسٹ کی بڑی شہرت تھی۔ اُس کامطالعہ کرتا تھا۔ پھروہ ادبی...

میری علمی و مطالعاتی زندگی (پروفیسر عبد القدیر سلیم سے انٹرویو)

عرفان احمد

اﷲ کے فضل وکرم سے میری پیدائش ایک دین دار،علمی گھرانے میں ہوئی۔والد محمد سلیم عبداﷲؒ روایتی دین دار یا مولوی نہیں تھے۔ ان کاتعلق غازی پورسے تھا اوروہ میرے دادامرحوم کے ساتھ وہاں سے ہجرت کرکے غیر منقسم ہندوستان کے صوبے سی پی (Central province) کے شہرامراؤتی میں بس گئے تھے۔ یہاں اکثریت ہندؤوں کی تھی، مسلمانوں کی آبادی ۴فی صد کے لگ بھگ تھی۔ہندوستان کی زبان مراٹھی تھی،لیکن مسلمان جنوبی ہند/حیدرآباد دکن جیسی اُردو بولتے تھے۔تاہم ہمارے گھرانے پریوپی کی اُردو ہی کے اثرات رہے اور ہماری مقامی اُردو سے کچھ مختلف رہی۔ میرے ننھیال کے بزرگ قاضی تھے اوردہلی...

میری علمی و مطالعاتی زندگی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۔ کچھ ذاتی حالات زندگی کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ * ہمارا تعلق ضلع مانسہرہ، ہزارہ میںآباد سواتی خاندان سے ہے جس کے آبا و اجداد کسی زمانے میں سوات سے نقل مکانی کر کے ہزارہ میں آباد ہوگئے تھے۔ ہمارے دادا نور احمد خان مرحوم شنکیاری سے آگے کڑمنگ بالا کے قریب چیڑاں ڈھکی میں رہتے تھے اور زمینداری کرتے تھے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کی نو عمری میں ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ والدہ کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ یہ دونوں حضرات دینی تعلیم کی طرف آگئے۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ...

دینی حلقوں میں عدم برداشت ۔ مضمرات و نتائج

محمد اورنگ زیب اعوان

دینی حلقوں میں عدم برداشت کی موجودہ کیفیت نئی نسل کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بن رہی ہے۔بات بات پہ فتوے، تنقیدات ، الزامات اور تہمتوں کی اس روش نے ذہنی ارتداد کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ ہمارے سنجیدہ اہل علم کواس معاملہ میں باہم سوچ وبچار کے بعد ایسی مشترکہ پالیسی طے کرنی چاہیے جس کے باعث ایسے معاملات کی راہ روکی جاسکے ۔کوئی رائے دینے،کچھ کہنے اور لکھنے سے پہلے اس کے تمام مثبت ومنفی پہلوؤں پر نظر رکھنی چاہیے۔فوائد اور نقصانات اگر مدنظر ہوں تو امید ہے کہ اختلافات کی صورتیں کم ہی پیدا ہوں گی ۔محض شخصی اور ذاتی مقاصد ومفادات کے حصول کی خاطر کسی...

فکری و سیاسی اختلافات میں الزام تراشی کا رویہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حامد میر صاحب اس حد تک بھی جا سکتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کی یادداشتوں کا سہارا لے کر حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے درویش صفت بزرگ پر ایک سیاسی تحریک میں غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ ساز باز کا الزام عائد کر دیں گے۔ حامد میر صاحب سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، مطالعہ وتحقیق اور تجزیہ کی دنیا کے آدمی ہیں، البتہ مطالعہ وتحقیق کو کسی بھی موقع پر اپنے ڈھب پر ڈھال لینے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں، اسی لیے جب وہ کوئی بات خود سے کہنا چاہتے ہیں تو انھیں کوئی نہ کوئی حوالہ مل جاتا ہے اور وہ یہ تحقیق کیے بغیر...

کرکٹ اور گروہی نرگسیت

پروفیسر ابن حسن

کہا جاتا ہے کہ ادب میں المیہ اور رزمیہ سب سے ارفع اصناف سخن ہیں اور پھکڑ ڈرامہ farce اصناف کی درجہ بندی میں سب سے نیچے ہے۔ رزمیے کا آغاز تاریخی طور پر دو موثر اور وسیع قوتوں کے ٹکراؤ سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے شاعر اعلیٰ مضمون کے بیان کے لیے عام زندگی سے ارفع الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔اپنی جگہ یہ شاعرانہ کمال ہے۔ اس کو پڑھنا جمالیاتی حظ ہے، لیکن جب اسی قبیل کے ادبی حربوں کو کسی ایسے واقعے کے لیے مستعار لیا جائے جو عامیانہ، گھٹیا اور سطحی ہو تو اسے بیہودگی ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے میں الفاظ گویا سچائی کی بجائے منافقت کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ اس بے معنی ڈرامے...

گجرات کا ’’بیت الحکمت‘‘

پروفیسر شیخ عبد الرشید

لائبریریوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تہذیبِ انسانی۔اوراقِ تاریخ شاہد ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال میں کُتب خانوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ٹیکسلا میں قدیم ترین لائبریری کے آثار ملے ہیں۔ یونان میں سقراط یا ارسطو کے ذاتی کتب خانے ہوں یا قدیم مصر کی عبادت گاہوں میں کتب کی موجودگی، شور بنی پال کی نینوا کے مقام پر مٹی کے الواح پر مشتمل لائبریری ہو یا قبل مسیح کے اسکندریہ اور پر گامم کے عظیم کتب خانے یا پھر قرونِ وسطیٰ کے شاندار اسلامی کتب خانے سب علم کے روشن میناروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے عہد عروج میں مساجد و مدارس ہی نہیں...

حزب اللہ کے دیس میں (۲)

محمد عمار خان ناصر

امام اوزاعی نے جبل لبنان کے اہل ذمہ کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں جو ذمہ داری ادا کی، وہ اسلامی تاریخ کی کوئی نادر مثال نہیں ہے۔ اسی نوعیت کی ایک روشن مثال آٹھویں صدی کے عظیم مجدد اور مجاہد امام ابن تیمیہ کے ہاں بھی ملتی ہے۔ امام صاحب کے زمانے میں جب تاتاریوں نے دمشق پر حملہ کر کے بہت سے مسلمانوں اور ان کے ساتھ دمشق میں مقیم یہودیوں اور مسیحیوں کو قیدی بنا لیا تو امام صاحب علما کا ایک وفد لے کر تاتاریوں کے امیر لشکر سے ملے اور اس سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ تاتاری امیر نے ان کے مطالبے پر مسلمان قیدیوں کو تو چھوڑ دیا، لیکن یہودی اور مسیحی...

حزب اللہ کے دیس میں (۱)

محمد عمار خان ناصر

انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) ایک معروف بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا صدر دفتر سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے جبکہ سرگرمیوں کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک غیر جانب دار اور خود مختار ادارہ ہے جسے اقوام عالم کی طرف سے یہ مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ جنیوا کنونشنز (۱۹۴۹ء) اور اضافی پروٹوکولز (۱۹۷۷ء) کے مطابق مسلح نزاعات کے متاثرین کے تحفظ اور امداد کے لیے کام کرے۔ جنگ سے متعلق کسی بھی مجموعہ قانون کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک علۃ القتال (jus ad bellum) یعنی یہ بحث کہ اخلاقی طور پر جنگ کی وجہ جواز کیا ہے، اور دوسرے آداب القتال...

بنگلہ دیش کا ایک مطالعاتی سفر

محمد عمار خان ناصر

۱۰ جنوری سے ۱۴ جنوری ۲۰۱۰ء تک مجھے ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے Leaders of Influence (LOI) Exchange Program میں شرکت کے سلسلے میں بنگلہ دیش کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ یہ پروگرام US-AID یعنی یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ اور ایشیا فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہوا اور اس میں پاکستان، بھارت، نیپال، تھائی لینڈ اور افغانستان سے آئے ہوئے وفود نے شرکت کی۔ پاکستانی وفد میں راقم الحروف کے علاوہ شریعہ اکیڈمی، اسلام آبا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، بہاؤ الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان کے شعبہ اسلامیات کے صدر ڈاکٹر محمد اکرم رانا اور اسلام آباد سے سما ٹی...

حضرت شیخ الحدیثؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کی چند مجالس

سید مشتاق علی شاہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے احقر کی پہلی ملاقات چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہوئی۔ اس کے بعد مسلسل تعلق قائم رہا۔ میں کافی عرصہ تک حضرت کے ترجمہ وتفسیر کے درس اور بخاری شریف کے سبق کا سماع کرتا رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے شعبہ نشر واشاعت میں ملازمت اختیار کر لی جو ۱۳ سال تک جاری رہی۔ اس دوران حضرت شیخ الحدیث اور حضرت صوفی صاحب سے استفادہ کا مسلسل موقع ملتا رہا۔ یہاں اس دوران اپنے مشاہدے میں آنے والی چند باتیں اور تاثرات تحریر کیے جا رہے ہیں۔ (۱) ۱۔ جس دن میں نے ملازمت اختیار کی، اس سے اگلے دن حضرت شیخ نے مجھے بلا...

الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات

ادارہ

(۱) محترم المقام مدیر الشریعہ گوجرانوالہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ’ الشریعہ‘ کا انتہائی جامع ومبسوط خصوصی شمارہ موصول ہوا۔ کتابت، طباعت، ترتیب وتہذیب اور عناوین کے اعتبا ر سے یہ ایک مثالی کتاب ہے جس میں امام اہل سنت کی زندگی کے تقریباً ہر گوشے پر فاضل اہل قلم اور ارباب علم ودانش نے دل کی گہرائیوں سے مقالات سپر دقلم کیے ہیں۔ ام عمار کی تحریر خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ اس میں بے ساختگی ہے، تصنع سے کوسوں دور۔ جناب مولانا عبدالحق خان بشیر کا امام اہل سنت کی کتب کامفصل تعارف لاجواب ہے۔ا للہ تعالیٰ الشریعہ کو آسمان صحافت کا...

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ‘ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد۔ ’’ہمارے مخلص اور مہربان بزرگ جناب خان محمد خواص خان صاحب دام مجدہم اعوان مقام ہیڑاں ڈاکخانہ اہل تحصیل مانسہرہ ضلع ہزارہ نے بار بار بزرگانہ خطوط تحریر فرمائے کہ میں علماے ہزارہ کے بارے کتاب لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے تم اپنے اور برادرِ خورد صوفی عبد الحمید کے حالاتِ زندگی اور خصوصیت سے تحصیل علم سے متعلق معلومات ضبط تحریر میں لاکر بھیجو۔ موصوف سے وعدہ بھی تھا مگر ایک ضروری سفر اور بے حد مصروفیت اور اس پر مستزاد گوناگوں بیماریاں اور کچھ ایسے ہی دیگر متعدد عوارض دامن گیر ہوئے...

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

زمانہ طالب علمی کے واقعات۔ الحمد للہ میں نے آج تک سینما نہیں دیکھا اور آئندہ بھی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، کیونکہ ہمار ا یہ ذہن بنایا گیا تھا کہ تھیٹر نہیں دیکھنا، سینما نہیں دیکھنا۔ والد محترم کی ڈاڑھی سنت کے مطابق تھی، پکے نمازی او ربڑے مہمان نواز تھے، بالکل ان پڑھ۔ وہ ہمیں کہتے تھے بیٹے، تھیٹر نہیں دیکھنا، سینما نہیں دیکھنا۔ یہ ان کا دیا ہوا سبق مجھے آج تک یاد ہے، بھلایا نہیں ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۹۴)۔ ہمارے علاقہ میں جہاں میری پیدایش ہوئی ہے، لوگ بڑے جاہل تھے۔ اب الحمدللہ بڑے سمجھدار ہو گئے ہیں، تعلیم آگئی ہے۔ جہالت کے زما نے میں لوگ بزرگوں...

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ میرے والد گرامی تھے‘استاد محترم تھے‘ شیخ و مربی تھے اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ بھی موجود تھا جو ہر باپ اور اس کے بڑے بیٹے کے مابین ہوتا ہے۔ ۵ مئی کو رات ایک سوا ایک بجے کے لگ بھگ وہ کم و بیش ایک صدی اس دنیا میں گزار کر دارالقضاء کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں خود ہجری اعتبار سے ۶۳ سال کا ہو چکا ہوں۔ میرے جذبات و تاثرات کا وہی عالم ہے جو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کا اپنے والد گرامی حضرت مولانا سید محمد زکریا بنوریؒ کی وفات پر تھا۔ وہ مولانا سید یوسف بنوریؒ کی وفات...

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام

مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

والد محترم امام اہل سنت شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۵؍ مئی ۲۰۰۹ء بروز منگل رات ایک بج کر دس منٹ پر دارالفناء سے دار البقاء کی طرف کوچ فرما گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اور آج ان کو بچھڑے ہوئے کئی روز گزرگئے ہیں۔ یوں تو جدائی کے یہ لمحات ان کے لاکھوں شاگردوں اور عقیدت مندوں پر بھاری گزرے اور گزر رہے ہیں مگر ان کے سایۂ پدری میں ایام زیست گزرانے والوں خصوصاً ہمہ دم حاضر باش رہنے والوں پر ایک ایک لمحہ بار ہمالہ سے کم نہیں۔ گھر کے وہ درودیوار جو پچاس برس تک اپنی خوش نصیبی پر شادماں تھے، جنہوں نے ایک عرصہ تک ابو حنیفہؒ...

میرے بابا جان

ام عمران شہید

۵ مئی کی رات میرے لیے بہت ہی دکھوں بھری داستان چھوڑ گئی۔ تین چار دن پہلے چھوٹی بھابھی کا فون آیا کہ اباجان کی طبیعت خراب ہے اور وہ بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ لیکن ذہن نے یہ قبول نہیں کیا کہ میرے بابا جان ہم سب کو ایسے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ میں ملاقات کے لیے جانے کے پروگرام ہی بناتی رہی، لیکن مجبوریاں آڑے آ گئیں اور اصل تو یہ ہے کہ مقدر میں ملاقات تھی ہی نہیں۔ روزانہ فون کر کے پوچھتی تو جواب ملتا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف کمزوری ہے۔ اس شام کو جہلم میں چھوٹی ہمشیرہ سے بات ہوئی توا س نے بھی یہی کہا کہ بچے گئے تھے اور اباجان بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اس سے...

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ

اہلیہ قاری خبیب

انسان کی زندگی میں یہ کیسا عجیب امتزاج ہے کہ کبھی اس کا دل خوشیوں سے معمور ومسرور ہوتا ہے تو کبھی غموں کی آماج گاہ اور صدمات سے چور۔ تمام عمر انسان انہی کیفیات میں بسر کردیتا ہے، کبھی خوش تو کبھی رنجیدہ۔ دیکھا جائے تو انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ماں اور باپ کی محبت اور شفقت اور سب سے بڑا غم ان شفیق ہستیوں کی جدائی ہے۔ میں اور میرے بچے ان دنوں زندگی کے سب سے بڑے غم اور عظیم صدمہ کی حالت میں ہیں کہ یکم مارچ ۲۰۰۹ء کومیرے بچوں کے والد محترم اور د اس کے وماہ بعد میرے والد مکرم اس فانی دنیا کو چھوڑ کر عازم راہ جنت ہوئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔...

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں

ام عمار راشدی

یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے۔ ہمارے ابا جی ڈاکٹر محمد دین سرکاری ملازم تھے۔ ابا جی کی ٹرانسفر برنالی گاؤں میں ہوئی جو ایک نہایت پس ماندہ علاقہ تھا۔ وہاں حکومت کی طرف سے ابا جی کو جو ملازم ملا تھا، وہ پینے کے لیے پانی دوسرے گاؤں سے لایا کرتا تھا۔ یہ ایک بزرگ ملازم تھا جو ہماری فیملی کی خدمت پر مامور تھا۔ پانی ایک گدھی پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ پانی لا کر وہ باباجی گدھی کو باندھ کر اپنے کوارٹر میں جا کر سو جایا کرتے تھے۔ ایک دن ہم بہن بھائی کھیل رہے تھے کہ میری نظر گدھی پر پڑی۔ میں نے اس کی رسی کھولی اور ایسے ہی اس کے اوپر بیٹھ گئی۔ گدھی نے سمجھا کہ شاید اب...

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش

محمد عمار خان ناصر

میں چار سال کا تھا جب ہم گکھڑ سے گوجرانوالہ منتقل ہو گئے۔ اس کے بعد گکھڑ جانے کا موقع عام طور پر عید کے دنوں میں یا کسی دوسری خاص مناسبت سے پیدا ہوتا تھا۔ ابتدائی سالوں کی زیادہ باتیں یادداشت میں محفوظ نہیں ہیں، البتہ ایک آدھ واقعہ اب بھی ذہن کی اسکرین پر جھلملاتا ہے۔ دادا محترم، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو گھر میں عام طور پر ’’ابا جی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ہم بچے بھی انھیں اسی نام سے یاد کرتے تھے۔ ابا جی ہر جمعہ کے دن گھر کی چھت پر بیٹھ کر حجام سے سر منڈواتے اور اپنے اور گھر کے بچوں کے ناخن تراشتے تھے۔ انھوں نے اپنے...

قبولیت کا مقام

مولانا محمد عرباض خان سواتی

سترھویں صدی کے آغاز میں کچھ خاندان ریاست سوات کو چھوڑ کر ضلع ہزارہ میں آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ضلع ہزارہ پر ترکوں کا تسلط تھا۔ ترک وہاں پر ہر لحاظ سے مضبوط تھے۔ ان خاندانوں نے آہستہ آہستہ وہاں سے ترکوں کی عملداری کو ختم کردیا اور اپنا تسلط قائم کر لیا۔ انہی خاندانوں میں ایک خاندان ہمارے جد امجد حضرت گل داد خان سواتی ؒ کا تھا جو شنکیاری سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر شاہراہ ریشم کے کنارے ایک حسین وجمیل، سرسبز وشاداب ، درختوں سے ڈھکے ، بلند وبالا پہاڑ کی چھوٹی پر ایک گاؤں ’’چیڑاں ڈھکی‘‘ میں قیام پذیر ہوا۔ ہمارے جد امجد حضرت گل داد خان سواتی...

جامع الصفات شخصیت

مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

یوں تو ہر دور میں علماے امت نے دین کی تعلیم وتعلم کے شعبے میں مثالی خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن عالم اسلام اور بالخصوص برصغیر پاک وہند میں اللہ تعالیٰ نے دار العلوم دیوبند سے جو کام لیا، اس کی شان ہی نرالی ہے۔ بانی دار العلوم حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ سے لے کر دور حاضر کے اکابر علماے دیوبند تک ایسے علما کی ایک طویل فہرست ہے جو صحیح معنی میں حضرات انبیا کے وارث کہلانے کے مستحق ہیں۔ دار العلوم دیوبند کی کہکشاں کے انھی ستاروں میں درخشاں ستارہ امام اہل سنت، محدث العصر حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدر کی ذات گرامی بھی ہے جن کی شخصیت عالم اسلام اور...

ایک استاد کے دو شاگرد

حافظ ممتاز الحسن خدامی

شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی ذات علم وحکمت کا ایسا آفتاب تھی جس سے روشنی پانے والا ہر خوش نصیب دعوت وعزیمت کے افق پر ماہ تاباں بن کر چمکا۔ جسے آپ کے جام معرفت کا ایک گھونٹ بھی نصیب ہو گیا، اس کی باقی عمر قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں دیتے، زندانوں کے سناٹوں میں شور سلاسل برپا کرتے اور گلی گلی، کوچے کوچے میں حق کی آواز لگاتے گزری۔ انہی خوش نصیبوں میں سے دو خوش نصیب میرے دادا جان مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ اور میرے نانا جان مولانا قاضی مظہر حسینؒ تھے۔ دونوں حضرات علم ومعرفت کے اس دھواں دھار بادل سے سیراب ہوئے او ر خوب...

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں

حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

حضرت دادا جان رحمہ اللہ ایک مایہ ناز مدرس اور قابل فخر معلم تھے۔ ہزاروں تشنگانِ علم نے دور دور سے آکر آپ سے کسبِ فیض کیا۔ بالخصوص آپ کا شعبان رمضان کی سالانہ چھٹیوں میں منعقد ہونے والا چالیس روزہ دورۂ تفسیر تو ایسا مشہور ومقبول ہوا کہ اس کی مثال دیکھنے میں نہیںآتی۔ دارالعلوم دیوبند (ہندوستان)، بنگلہ دیش، ایران، سعودی عرب، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ، افغانستان اور برما سمیت دنیا بھر سے طلبہ جوق در جوق آپ کے دورۂ تفسیر میں شریک ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ آپ کے سینکڑوں شاگرد دنیا بھرمیں حدیث پاک کی خدمت میں مصروف ومشغول ہیں۔ کتب احادیث...

کچھ یادیں، کچھ باتیں

حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

دنیا کے شب روزمیں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ انسان کے پاس کسی کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ جانے والے کی باتیں، لب ولہجہ اور انداز شفقت ومحبت ہمیشہ کے لیے دل میں نقش بن کر رہ جاتی ہیں۔ کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان بھول جانے کی کوشش کرتاہے اور کچھ یادیں ایسی خوبصورت اور حسین وپرکشش کہ انسان انھیں ہمیشہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ ایسی ہی کچھ یادیں ہمارے دادا جی حضرت مولانا سرفرازخان صفدر ؒ کی ہیں جو اس دنیاے فانی کی فضاؤں کو توحید وسنت کی خوشبو سے معطر کر کے اپنے رب کریم کے دربار میں سرخرو ہو چکے ہیں۔ ہم سب گھروالے خوش نصیب...

اٹھا سائبان شفقت

حافظ شمس الدین خان طلحہ

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ وفات سے دوماہ پہلے ۲۴؍فروری ۲۰۰۹ ء بروز منگل آخری بار ہمارے گھر (متصل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) تشریف لائے اور پانچ دن ہمارے ہاں قیام کیا۔ ان ایام میں وقتاً فوقتاً مجھے ان سے سوال وجواب کرنے اور بعض اہم باتیں دریافت کرنے کا موقع ملا ۔ ان سوالات وجوابات کو ایک انٹرویو کی شکل میں پیش کرنا مناسب دکھائی دیتا ہے۔ طلحہ: آپ نے کتنے حج و عمرے کیے ہیں؟ حضرتؒ : پانچ حج اور دس عمرے۔ طلحہ: آپ نے کون کون سے ملک کا سفر کیا ہے؟ حضرتؒ : سعودی عرب، شام، برطانیہ، جنو بی افریقہ، بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش۔...

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ام عفان خان

دنیا میں آنے والا ہر انسان اللہ جل شانہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے اور ہر انسان، بالخصوص اہل ایمان کا حق ہے کہ ان نعمتوں کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں اور اس کے لیے خصوصی محنت کریں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے دنیا میں اپنی آمد کے مقصد: ’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘ کو پہچانا۔ انھی ہستیوں میں سے ایک ہستی ہمارے نانا جان حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تھی جنھیں آج دنیا امام اہل سنت کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ یوں تو ان کا ہر عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ تھا اور وہ ان ہستیوں میں سے...

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں

ام ریان ظہیر

محترم ناناجان کے بارے میں جملہ اقارب خاصی تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ میں صرف اپنے حوالے سے بعض یادداشتیں تحریر کرنا چاہوں گی۔ جب میری نسبت برطانیہ میں طے ہوئی تو میں یہ سوچ کر بہت آزردہ تھی کہ ملک چھوڑ کر اپنوں سے دور جانا پڑے گا۔ ناناجان کو معلوم ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ تم تو بہت خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تمھیں اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے اور تم کفار کے ملک میں جا کر دین کی خدمت کرو گی۔ جب برطانیہ روانگی کا وقت قریب آیا تو میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ نانا جان فرمانے لگے کہ وہاں مدرسہ میں جو بھی اسباق پڑھاؤ گی، خلوص دل سے پڑھانا اور دنیا کا لالچ...

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ

ام حذیفہ خان سواتی

’’ہمارے بعد اجالا نہ ہوگا محفل میں، بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے‘‘۔ میری پیدایش ۱۹۷۳ء میں گکھڑ میں دادا جی کے گھر میں ہوئی تھی۔ ہم انہیں ابا جی کہتے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تک انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے ابو اس وقت جمعیت علماے اسلام میں سرگرم تھے اور سیاسی دوروں میں مصروفیت کی وجہ سے ہفتہ دس دن بعد ہی گھر آتے تھے، اس لیے گھر میں ہمارا زیادہ تر معاملہ دادا جی ہی کے ساتھ ہوتا تھا۔ پھر ہم جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ منتقل ہوگئے تو اس کے بعد کبھی کبھار ملاقات ہوتی۔ ہم گکھڑ جاتے رہتے۔ وہ بھی ہمارے گھر کئی بار آئے۔ میں ان کی...

میرے شفیق نانا جان

ام عدی خان سواتی

۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء ہمارے خاندان پر بہت بھاری گزرا ہے ،اور ہمارا خاندا ن صحیح معنوں میں یتیم ہو گیا ہے۔ ۶؍اپریل ۲۰۰۸ء بروز اتوار میرے سُسر مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی کا انتقال ہوا، یکم مارچ ۲۰۰۹ء بروز اتوار والد محترم حضرت مولانا قاری خبیب احمد عمر جہلمی دنیا سے رخصت ہو گئے، اور ۵؍ مئی ۲۰۰۹ء بروز منگل محترم نانا جان امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ آج محترم نانا جان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ذہن میں بہت سی باتیں ابھر آئیں جو اب ہمارے لیے صرف یادیں بن کر رہ گئی...

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی

بنت قاری خبیب احمد عمر

یوں تو دنیا فانی ہے۔ اس میں رہنے والا ہر آدمی چاہے وہ غریب ہو یا امیر، نیک ہو یا بد، طویل العمر ہو یا جوان، ہر کسی نے مقررہ وقت پر اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔ دوام وبقا صرف اس ذات کریمی کے ہی لائق ہے جو سب کو زندگی بخشتا ہے، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود توا س فانی دنیا سے چلے جاتے ہیں مگر ایسی باقیات صالحات چھوڑ جاتے ہیں جو انھیں ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں اوران کو ان کی دینی خدمات کی وجہ سے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ ۵؍مئی ۲۰۰۹ ء کو ہمار ے مشفق ومحترم نانا ابا امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا وصال بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔ بچپن...

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا

بنت حافظ محمد شفیق (۱)

مشہور ادیب ٹالسٹائی نے کیا خوب کہا ہے کہ میں انتہائی کوشش اور طویل جستجو کے باوجود زندگی کے معمے کا عشر عشیر بھی نہیں جان پایا۔ حقیقت کی جستجو فضول ہے۔ آخر کار مرجانا ہے۔ انسان کسی مسئلے پر کتنا ہی غور کیوں نہ کرے، وہ درحقیقت موت پر غور کر رہا ہوتا ہے۔ جہاں موت ہے، وہاں حقیقت کی کیا حیثیت ۔ یہ تو ایک غیر مسلم نے موت کے بارے میں کہا ہے، جبکہ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا ایمان ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت۔ موت ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی بھی بشر زندگی کے کتنے ہی سا ل گزار لے، آخر موت اسے ہم سے چھین لیتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی یہ کسی کو کتنا پیار اہے اور دنیا...

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل

اخت داؤد نوید

’’واے گل چین اجل کیا خوب تھی تیری پسند، پھول وہ توڑا کہ ویراں کر دیا سارا چمن‘‘۔ آج ہمیں جس ہستی کے ذکر نے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے، وہ ہماری محبوب، سب سے عظیم اور پیاری ہستی ہمارے پیارے نانا جان ؒ کی ہے اور جنہیں آج رحمۃ اللہ علیہ لکھتے وقت ہاتھوں میں کپکپاہٹ جاری ہے اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور جن کی وفات کا یقین آج تک نہیں ہوا۔ ’’زمیں کے تاروں سے ایک تارا فلک کے تاروں کو جا چکا ہے، مگر تری مرگِ ناگہانی کا مجھ کو اب تک یقیں نہیں ہے‘‘۔ نانا جان ؒ حقیقتاً آسمان کا ایک تارا تھے جو ۹۵ برس تک اپنی روشنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس دنیا میں بکھیرتے...

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۔بعض شخصیات کو اللہ تبارک وتعالیٰ ایسی محبوبیت، قبول عام اور ہر دل عزیزی عطا فرماتے ہیں کہ ان کے تصور ہی سے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ ان سے ملاقات چاہے کم ہو، لیکن ان کا وجود ہی بذات خود تسلی اور ڈھارس کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ہمارے مخدوم بزرگ، استاذ الکل حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب قدس سرہ کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی جس سے محروم ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ عرصہ دراز سے صاحب فراش تھے اور عملی زندگی سے تقریباً کنارہ کش۔ ان کی زیارت وصحبت کے مواقع بھی ہم جیسے دور افتادگان کے لیے بہت کم رہ گئے...

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں

مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

حضرت مولانا زاہد الراشدی دام مجدہ نے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے متعلق کچھ لکھنے کی فرمایش کی اور کہا کہ حضرت سے آپ کا تعلق ہم سے بھی پہلے کا ہے، اس لیے کچھ نہ کچھ ضرور تحریر کریں۔ میں نے پچاس سال سے زائد طویل عرصہ پر نظر ڈالی اور جیسے جیسے کوئی چیز یاد آتی گئی، لکھتا گیا۔ عند ذکر الابرار تنزل الرحمۃ (نیک بندوں کے تذکرہ سے رحمت کا نزول ہوتا ہے)۔ نزول رحمت کا یہ فیضان بھی دیکھا ہے کہ جب ارادہ کیا، حیران تھا کہ کیا لکھوں، لیکن فضل الٰہی نے دستگیری کی اور یہ چند حروف معرض تحریر میں آ گئے۔ وباللہ التوفیق۔ علمی مقام اور علما کا آپ سے استفادہ۔ تفسیر،...

امام اہل سنت کی رحلت

مولانا محمد عیسٰی منصوری

میرے شیخ طریقت مرشد کامل حضرت شاہ نفیس الرقمؒ کی وفات کے صدمہ کا زخم ابھی تازہ تھا کہ امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات کی خبر نے دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ حضرت تقریباً ۸، ۹ سال سے صاحب فراش تھے۔ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم اور دیگر احباب کے ذریعے وقتاً فوقتاً حضرت کی صحت کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا تھا۔ ایک ایسے دورمیں جب علم، دین اور نسبتیں کاروبار اور نمود ونمایش بنتی جا رہی ہیں، حضرت امام اہل سنت جیسی ہستی کے وجود کا خیال واحساس ہی دل کی تقویت وحوصلہ کا باعث تھا۔ اس دور میں نگاہیں سلف...

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات

مولانا سعید احمد جلالپوری

دنیا میں جو بھی آیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن جانا ہے اور ضابطہ الٰہی : ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ (آلِ عمران:۱۸۵) (ہر جی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے) کے مصداق موت کا گھونٹ ہر ایک نے پینا ہے، اس لیے کہ: ’’کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘(رحمن:۲۷) (ہر ایک کو فنا ہے، بقا تو صرف تیرے رب کی ذات کو ہے جو بزرگی اور عظمت والی ہے) کے تحت دنیا سے ہر نیک و بد، مسلم و کافر، محبوب و مبغوض، عالم و جاہل کو ایک دن ضرور کوچ کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کی اس گھاٹی سے کون کامیاب ہوکر پار ہوا اور کون ناکام ہوکر؟ کیونکہ دنیا کی راحت، عافیت، عزت اور وجاہت...

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال

مولانا مفتی محمد زاہد

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ اپنے وقت کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جن میں پرانے زمانے کے علما اور بزرگانِ دین کی جھلک واضح طور پردیکھی جاسکتی تھی۔ ایسی کثیر الجہۃ شخصیات بہت کم وجود میں آتی ہیں۔ انہوں نے علماے سلف کی طرح حصولِ علم کے لیے نہ معلوم کہاں کہاں کی خاک چھاننے کے بعد آخر میں دارالعلوم دیوبند جیسے منبعِ صافی سے علمی پیاس بجھائی، بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں علم کی تشنگی بھڑکائی۔ درس وتدریس حضرت کی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے۔ حضرت ؒ کے پاس کچھ عرصہ بیٹھنے ہی سے آپ کے راسخ فی التدریس ہونے کا اندازہ ہو جاتا اور پتا چل جاتا...

علم و عمل کے سرفراز

مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

دیوبند ایک تحریک کا نام ہے اور تحریک اس وقت تک قائم رہے گی جب تک حق والے موجود ہیں ان شاء اللہ۔ کسی کے اٹھ جانے سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں اورنہ دم توڑتی ہیں۔ ہاں نشیب وفراز ضرور آتے ہیں ۔ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے صدمات ہی عطا فرمائے ہیں۔ یہ صدموں والی امت ہے۔سب سے پہلاصدمہ اس امت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اِس دنیا سے اُس دنیا میں منتقل ہونے سے ملا۔ اگر یہ حق کی تحریک اور یہ دین ختم ہونا ہوتا تو اُسی دن ختم ہو جاتا۔ صدمہ ضرور ہوا لیکن حق کا پیغام ختم نہیں ہوا۔اس پیغام کو سنبھالنے والے انبیاء علیہم الصلوۃ والتسلیمات...

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

مولانا محمد جمال فیض آبادی

۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ کو پاکستان کے مشہور عالم دین، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد رشید حضرت مولانا ابو زاہد محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شب وروز کے ہنگاموں میں نہ جانے کتنوں کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ وہ ہم سے رخصت ہو گئے، لیکن ایسے بہت کم ہوتے ہیں جن کی وفات کی خبر دلوں پر بجلی سی گرا دے، جن کا آفتاب زندگی مشرق میں غروب ہو تو مغرب والے اندھیرا محسوس کریں اور جن کی یاد ان لوگوں کے دل میں بھی ہوک پیدا کر دے جو ان سے رشتہ داری کا رسمی رابطہ بھی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ...

چند منتشر یادیں

مولانا محمد اسلم شیخوپوری

استاد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے تقریباً نصف صدی تک مسند درس کو رونق بخشی۔ درس نظامی کی کم و بیش ساری کتابیں خاص طور پر ترجمہ و تفسیر قرآن ‘ بخاری شریف اور ترمذی شریف انہیں بار بار پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر بھی دل میں حسرت ہی رہی کہ بعض کتابیں پڑھانے کا موقع نہ مل سکا۔ گزشتہ سال زیارت اور عبادت کے لیے حاضری ہوئی تو میں نے سوال کیا: حضرت کوئی ایسی حسرت جس کے ناتمام رہ جانے کا احساس ہوتا ہو؟ فرمایا: ’’بہت ساری ہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’ان میں سے کسی ایک کی نشاندی فرما دیجیے‘‘۔ فرمایا: ’’درس نظامی کی چھوٹی کتابیں نہیں پڑھا...

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

پروفیسر غلام رسول عدیم

’’لماذا تبکی الاعین یا حبیبی، لماذا صارت افئدۃ ھواء؟‘‘ جس چیز کا آغاز ہے، اس کا انجام بھی ہے۔ تین چیزوں کے بارے میں کسی دور میں کسی بھی جگہ کبھی دورائیں نہیں رہیں: ایک یہ کہ موت ایک اٹل، حتمی اور یقینی امر ہے۔ نہ اس سے راہ فرار، نہ گریز کی کوئی سبیل۔ حتی یاتیک الیقین کے جاندار اور شاندار الفاظ اسی حقیقت کے یقینی ہونے پر دلالت کررہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کا وقت متعین ہونے کے باوجود اسے پردۂ خفا میں رکھا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کون سی ہے جب موت کا فرشتہ روح قبض کرے گا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ایک لمحے کی نہ تقدیم ہوگی، نہ تاخیر۔ افراد کے لیے...

چند یادگار ملاقاتیں

پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

مورخہ ۵ مئی ۲۰۰۹ کو تقریباً ساڑھے گیارہ بجے حسب معمول جب میں دعوۃ اکیڈمی پہنچا تو کلاس میں داخل ہونے سے پہلے کلاس روم سے باہر طلبہ اور رفقاے دعوہ اکیڈمی کاایک ہجوم نظر آیا۔ یہ یہ لوگ آپس میں گفتگو کر ر ہے تھے اور پریشان نظر آرہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکے اوریہ افسوس ناک خبر سنائی کہ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر انتقال کر گئے۔ یہ اندوہناک خبر سنتے ہی طبیعت بوجھل ہو گئی اور مولانا کی صحبت میں بیتے ہوئے وہ سارے لمحات مستحضر ہو گئے جو اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مولانا سرفراز خا ن صفدر دارالعلوم دیوبند کے اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے...

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات

حافظ نثار احمد الحسینی

کچھ شخصیات ان منٹ نشانات اوراپنے کردارکاایساتأثرچھوڑجاتی ہیں کہ ان کی یادکی خوشبوپھیلتی رہتی ہے۔ حضرت امامِ اہل سنت رحمہ اللہ کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صفات ودیعت کررکھّی تھیں کہ وہ اپنے کارناموں سے ہمیشہ یادرہیں گے اورامت کی ہدایت کے لیے جوشمعیں انہوں نے جلارکھی تھیں وہ ہمیشہ طالبان حق کی راہنمارہیں گی۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کی شخصیت اپنے وقت میں نیکی کے ہرنکتہ کامَرجع تھی۔ ہردینی محاذپروہ وہ سینہ سپر رہے۔ وہ راہنمائے راہنمایاں بھی تھے اورخادمِ امت بھی، وہ طلبہ دین کے استاذجی تھے اوراپنے حلقہ تلامذہ کے شیخ، سالکانِ طریقت...

ایک عہد ساز شخصیت

پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا سے علم یوں اٹھایا جائے گا کہ اہل علم دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے۔‘‘ حضرت مولانا سرفراز خاں صفدرؒ مرحوم کی وفات اسی حدیث کی عملی شکل دکھائی دیتی ہے۔ حضرت مرحوم میں علم اور عمل دونوں کا حسین امتزاج موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر تاثیر رکھی ہوئی تھی کہ سننے والے کے دل میں اتر جاتی۔ آپ کے اندازِ تقریر میں سادگی اور برجستگی تھی۔ گفتگو مسجع مقفع خطیبانہ لفاظی اور غیرضروری جوش خطابت سے بالکل مبرّا ہوتی لیکن دل میں اتر جاتی۔ جب میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ...

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے

مولانا ظفر احمد قاسم

’’وہ کیا گئے کہ رونق بزم چمن گئی، رنگ بہار دید کے قابل نہیں رہا‘‘۔ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نوراللہ مرقدہ کی کمالات سے لبریز زندگی پر قلم اٹھانے کا اصل حق تو ان کے اصحاب علم و فضل معاصرین کا ہے یا پھر جلیل القدر تلامذہ کرام کا۔ ’’انما یعرف ذا الفضل من الناس ذووہ‘‘ کا قاعدہ مسلم ہے، تاہم کچھ مقبولان بارگاہ خداوندی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہر شخص کی محبت و مودت کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے یہ عاجز بھی یاد یاراں کی اس غم زدہ محفل میں شرکت کو اپنے لیے تحصیل سعادت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ’’ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے‘‘۔ کے نظارہ سے لطف...

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد

حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

۵ مئی ۲۰۰۹ء پیر اور منگل کی درمیانی شب رات کے تین بجے گوجرانوالہ سے بعض احباب نے موبائل فون پر اطلاع دی کہ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر انتقال فرماگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔صبح جامعہ ابوہریرہ کے ضروری اُمور نمٹانے کے بعدحضرت امام اہل سنّت کے جنازے میں شرکت کے لیے روانہ ہوا۔ گکھڑ کے ڈی سی ہائی سکول میں آپ کا جسدِ خاکی لایا جاچکا تھا۔ گراؤنڈ کو اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامنی کی شکایت تھی۔ ایک لاکھ سے زائد افراد پہنچ چکے تھے۔ باہر جی ٹی روڈ پر بھی عوام کا بے پناہ ہجوم تھا۔ وزیرآباد کے بعض بوڑھے ’’نوجوانوں‘‘ پروفیسر حافظ منیر...
< 51-100 (159) >

Flag Counter