حزب اللہ کے دیس میں (۱)

محمد عمار خان ناصر

انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) ایک معروف بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا صدر دفتر سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے جبکہ سرگرمیوں کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک غیر جانب دار اور خود مختار ادارہ ہے جسے اقوام عالم کی طرف سے یہ مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ جنیوا کنونشنز (۱۹۴۹ء) اور اضافی پروٹوکولز (۱۹۷۷ء) کے مطابق مسلح نزاعات کے متاثرین کے تحفظ اور امداد کے لیے کام کرے۔ جنگ سے متعلق کسی بھی مجموعہ قانون کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک علۃ القتال (jus ad bellum) یعنی یہ بحث کہ اخلاقی طور پر جنگ کی وجہ جواز کیا ہے، اور دوسرے آداب القتال (jus in bello) یعنی وہ اخلاقی حدود وقیود اور قواعد وضوابط جن کی پاس داری جنگ کے دوران میں فریقین پر لازم ہے۔ جدید قانونی اصطلاح میں دوسری نوعیت کے قوانین کو بین الاقوامی انسان قانون (International Humanitarian Law) کا عنوان دیا گیا ہے اور اس کے تحت آنے والے قوانین دو بنیادی اصولوں پر مبنی ہیں: ایک یہ کہ جو اشخاص حالت جنگ میں براہ راست لڑائی میں شریک نہیں یا کسی وجہ سے لڑائی میں حصہ لینا چھوڑ چکے ہیں، انھیں جنگی کارروائی کی زد میں آنے سے محفوظ رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ دوران جنگ میں جو ہتھیار، اسالیب اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ ایسے ہونے چاہییں جن سے غیر متعلق افراد متاثر نہ ہوں اور جن سے جانی ومالی نقصان ناگزیر حد تک اور کم سے کم ہو۔ ریڈ کراس کا دائرۂ کار آداب القتال سے متعلق ہے اور یہ ادارہ جنگ اور آفت زدہ علاقوں میں متاثرین کی امداد، جنگی قیدیوں کی صورت حال کا جائزہ لینے، جنگوں، قدرتی حادثات یا اجتماعی نقل مکانی کے نتیجے میں گم شدہ افراد کی تلاش اور ان کے اہل خاندان کے ساتھ ان کا رابطہ بحال کرانے اور آفت زدہ علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں تک پانی، خوراک اور طبی امداد پہنچانے کی عملی سرگرمیوں کے علاوہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطالعہ وتحقیق اور اس کو بہتر سے بہتر بنانے اور عالمی قوانین کو نئے حالات سے ہم آہنگ بنانے کے ضمن میں اپنی تجاویز بھی پیش کرتا ہے۔

اس تنظیم کی بنیاد سوئٹزر لینڈ کے ایک تاجر ہنری دوناں (Henry Dunant) نے رکھی تھی۔ ا س کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ۱۸۵۹ء میں ہنری دوناں کو شمالی اٹلی کے ایک شہر سولفرینو میں آسٹریا اور فرانس کی فوجوں کے مابین ایک معرکے کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس نے دیکھا کہ چند گھنٹوں کے اندر میدان جنگ چار ہزار مقتولوں او رزخمیوں سے بھر گیا ہے۔ ہنری دوناں نے جذبہ انسانیت کے تحت مقامی آبادی سے تعاون کی اپیل کی اور جس حد تک ممکن ہوا، زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچائی گئی۔ اس واقعے کا ہنری دوناں پر اتنا گہر ا اثر ہوا کہ وطن واپس جا کر اس نے ’سولفرینو کی یادیں‘‘ (A Memory of Solferino) کے نام سے اپنے مشاہدات کو ایک باقاعدہ کتاب کی صورت میں شائع کیا اور اس میں یہ تجویز پیش کی کہ ایسی امدادی تنظیمیں قائم کی جانی چاہییں جو دوران جنگ میں زخمیوں کو طبی امداد پہنچانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں اور ایسی تنظیموں کو بین الاقوامی قانون میں تحفظ فراہم کرتے ہوئے دوران جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کی سہولت دی جائے۔ ہنری دوناں کی اپیل پر ۱۹۶۳ء میں زخمیوں کی امداد کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے بعد میں انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی شکل اختیار کر لی۔ 

بین الاقوامی انسانی قانون کے میدان میں انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی متنوع سرگرمیوں میں سے ایک اس قانون کے بارے میں عمومی آگاہی کو فروغ دینے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف سطحوں پر تربیتی کورسز اور ورک شاپ کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ اسی سلسلے کا ایک تربیتی کورس ۲۹؍ مارچ تا ۹؍ اپریل ۲۰۱۰ء لبنان کے دار الحکومت بیروت میں منعقد کیا گیا جو اصلاً عرب ممالک کے قانون دانوں، سفارت کاروں اور تعلیم وذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے تھا، تاہم اس میں پاکستان اور ایران سے بھی چند افراد کو دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان سے جانے والے وفد میں وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکرٹرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے شعبہ فقہ کے صدر ڈاکٹر عصمت عنایت اللہ اور راقم الحروف شامل تھے، جبکہ ایران سے جامعہ شہید بہشتی قم کے ایک فاضل استاذ الشیخ ابراہیمی کو مدعو کیا گیا تھا۔ کورس میں متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ کے قریب افراد شریک تھے جو سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اسی مناسبت سے تدریس کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے بھی مصر، تیونس، لبنان، مراکش اور سوئٹزر لینڈ سے بین الاقوامی انسانی قانون کے ممتاز ترین ماہرین کو دعوت دی گئی تھی۔ 

بین الاقوامی انسانی قانون، ریڈ کراس کی سرگرمیوں اور بیروت کے اس تربیتی کورس کی علمی بحثوں سے متعلق آئندہ نشستوں میں ذرا تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔ یہ نشست اس سفر کے ذرا عمومی پہلووں کے لیے خاص رہے گی۔ 

کورس کے انعقاد کے لیے لبنان کے دار الحکومت بیروت کا انتخاب کیا گیا تھا جو ایک قدیم تاریخی شہر ہے اور اس وقت شرق اوسط کے حساس ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ لبنان کے شمال اور مشرق میں سوریا، جنوب میں اسرائیل جبکہ مغرب میں بحیرۂ روم واقع ہے جسے انگریزی میں Mediterranean Sea اور عربی میں البحر الابیض المتوسط کا نام دیا جاتا ہے۔ ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو تاریخی طور پر بحیرہ روم کے دوسرے کناروں پر آباد تہذیبوں اور بلاد عرب کے مابین ایک نقطہ اتصال کی حیثیت حاصل رہی ہے اور یہاں کا نسلی، ثقافتی اور مذہبی تنوع اسی کی یادگار ہے۔ میسر تاریخی شواہد کے مطابق لبنان میں انسانی بود وباش اور تہذیب کا ثبوت سات ہزار قبل تک ملتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ فینیقی تہذیب کا مرکز رہا ہے جو ۳۰۰۰ قبل مسیح سے تقریباً ۵۰۰ قبل مسیح تک اس علاقے کی ایک متمدن اور ترقی یافتہ تہذیب رہی ہے۔ یونانی فاتح اسکندر اعظم کے حملوں میں فینیقی تہذیب کا نمایاں ترین مرکز ٹائر (Tyre) تباہ ہو گیا۔ اس کے بعد لبنان کی پوری تاریخ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے طالع آزماؤں اور فاتحوں کی یورش اور تسلط سے عبارت ہے اور یہاں ایرانی، اشوری، یونانی، رومی، عرب، سلجوقی، مملوک، صلیبی اور عثمانی فاتحین یکے بعد دیگرے حملہ آور ہوتے اور حکومت کرتے رہے ہیں۔ 

ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلامی سلطنت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی تو اس وقت جزیرۂ عرب کے شمال میں واقع یہ سارا علاقہ جو اب سوریا، فلسطین، اردن، لبنان اور اسرائیل جیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہے، مجموعی طور پر بلاد الشام کہلاتا تھا اور اس وقت رومی سلطنت کا حصہ تھا۔ سیدنا عمر کے عہد میں یہ سارا علاقہ اسلامی سلطنت کے زیرنگیں آ گیا اور اسے بے شمار صحابہ وتابعین اور اس کے بعد صدیوں تک اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے اکابر کا مولد ومسکن بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سیدنا علی کے دور میں اسلامی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور حجاز کے بالمقابل شام کا علاقہ سیدنا امیر معاویہ کی امارت میں اموی خلافت کا مرکز قرار پایا اور پھر سیدنا حسن اور سیدنا معاویہ کے مابین صلح کے بعد کم وبیش ایک صدی تک دمشق کو اموی سلطنت کے پایہ تخت کی حیثیت حاصل رہی۔ اموی خلافت کے خاتمے کے بعد یہاں عباسی سلطنت کا پرچم لہرایا گیا اور پھر عباسی سلطنت کے زوال واضمحلال کے زمانے میں مختلف عربی وعجمی خاندان وقتاً فوقتاً یہاں حکومت کرتے رہے۔ سولہویں صدی میں شام کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا اور کم وبیش چار صدیوں تک اسی کا حصہ رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا تسلط ختم ہونے پر یورپی طاقتوں نے شام کے علاقے کی آپس میں بندر بانٹ کی تو برطانیہ اور فرانس کے مابین باہمی معاہدے کے تحت فلسطین کو برطانیہ جبکہ سوریا کو فرانسیسی انتداب میں دے دیا گیا۔ فرانسیسیوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت ۱۹۲۶ء میں جبل لبنان اور اس سے متصل علاقے کو سیریا سے الگ ایک مستقل ملک کا درجہ دے دیا اور اس طرح موجودہ لبنان دنیا کے سیاسی نقشے پر نمودار ہوا۔

لبنان اپنے باشندوں کے مذہبی اور ثقافتی تنوع کے اعتبار سے خاصا منفرد ملک بھی ہے اور حساس بھی۔ یہاں چالیس فی صد کے قریب مسیحی، تیس فی صد کے قریب اہل تشیع اور اسی کے لگ بھگ اہل سنت بستے ہیں۔ مسیحیوں میں زیادہ تعداد مارونی کیتھولک مسیحیوں کی ہے جو پانچویں صدی عیسوی کے ایک شامی راہب مارون کی طرف منسوب ہیں اور مذہبی معاملات میں پاپاے روم کی اطاعت کو قبول کرتے ہیں۔ یونانی آرتھوڈوکس دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے مسیحی گروہ موجود ہیں۔ اہل سنت زیادہ تر شافعی المسلک ہیں، جبکہ اہل تشیع میں اثنا عشریہ کے علاوہ دروز اپنا الگ اور مخصوص مذہبی تشخص رکھتے ہیں اور شام، لبنان، اسرائیل اور اردن میں ایک مستقل مذہبی گروہ کی حیثیت سے منظم ہیں۔ دروز اپنے آپ کو اہل التوحید کہتے ہیں اور ذات باری کے لیے ذات سے الگ صفات کے مستقل اثبات کو توحید اور تنزیہ کے منافی سمجھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا کلامی عقیدہ معتزلہ کے بہت قریب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں باطنی تصوف کا بھی ایک گہرا عنصر موجود ہے ، چنانچہ وہ آیات واحادیث کے ظاہری اور لفظی معانی کے علاوہ ان کے ایک خاص باطنی مفہوم کے بھی قائل ہیں جس تک ان مخصوص افراد ہی کی رسائی ہو سکتی ہے جو معرفت اور عرفان کا ایک خاص مقام حاصل کر لیں۔ ایک داخلی تقسیم کی رو سے دروز کمیونٹی دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے۔ عوام الناس کو ’جہال‘ کہا جاتا ہے اور پڑھے لکھے افراد کو ’عقال‘۔ ان میں سے ’جہال‘ یعنی عوام کو ’عقال‘ یعنی خواص کے مذہبی لٹریچر تک رسائی کی اجازت نہیں اور نہ وہ ان کے مخصوص مذہبی اجتماعات میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ’عقال‘ میں سے بھی زیادہ ممتاز لوگوں پر مشتمل ایک خاص حلقہ ’اجاوید‘ کہلاتا ہے اور اسی حلقے کے لوگ دروز کی مذہبی راہ نمائی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ 

۱۹۴۳ء میں لبنان نے فرانس سے آزادی حاصل کی تو ایک غیر تحریری قومی معاہدے کے تحت یہاں کے سیاسی راہ نماؤں نے مختلف مذہبی گروہوں کے مابین اقتدار کے اشتراک پر مبنی ایک منفرد سیاسی نظام قائم کیا جس کی رو سے یہاں کا صدر مارونی کیتھولک، وزیر اعظم سنی، پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ جبکہ ڈپٹی اسپیکر یونانی آرتھوڈوکس ہوتا ہے۔ اس وقت میشال سلیمان صدر، سعد رفیق الحریری وزیر اعظم جبکہ نبیہ بری اسپیکر پارلیمنٹ ہیں۔ آزادی کے بعد ۱۹۷۵ء تک لبنان میں عمومی طور پر امن وامان اور خوش حالی کی کیفیت قائم رہی اور خاص طور پر سیاحت، زراعت اور بینکنگ کے شعبوں میں لبنان نے خاصی ترقی کی۔ اس دور میں اسے مشرق کا سوئٹزر لینڈ جبکہ سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے شرق اوسط کا پیرس کہا جاتا تھا۔ تاہم ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۰ء تک لبنان مسلم اور مسیحی گروہوں کے مابین شدید تصادم اور خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس پندرہ سالہ خانہ جنگی میں نہ صرف لبنان کی معیشت برباد ہو گئی بلکہ انسانی جانوں اور املاک کا بھی شدید نقصان ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ دو لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے اور نو لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے جو اس وقت لبنان کی آبادی کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں سعودی عرب کی کوششوں سے متحارب فریقوں کے مابین طائف کے مقام پر ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور امن وامان کی صورت حال بحال ہو گئی۔ تاہم امن وامان کی ظاہری بحالی کے باوجود مذہبی اور نسلی تفریق کا سوال انتہائی حساسیت کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ 

ہمیں صورت حال کی حساسیت کا اندازہ اس سے ہوا کہ ہمارے ساتھ تربیتی کورس میں لبنانی فوج کے ایک حاضر سروس عمید (کرنل) بھی شریک تھے۔ ایک دن چائے کے وقفے میں ڈاکٹر عصمت اللہ نے ان سے فوج میں مسلم مسیحی تناسب کے بارے میں سوال کیا تو وہ نہ صرف طرح دے گئے، بلکہ فوراً کوئی چیز لینے کے بہانے سے ہمارے پاس سے چلے گئے۔ لبنان کے نائب امین الفتویٰ الشیخ طاہر سلیم کردی سے ملاقات کے دوران میں، جس کا ذرا تفصیلی ذکر آگے آئے گا، شیعہ سنی اختلاف کی صورت حال پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ۲۰۰۶ میں لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد شیعہ سنی تعلقات میں ایک تناؤ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بعض حلقوں کی طرف سے رفیق الحریری کے قتل میں حزب اللہ کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کے خیال میں حزب اللہ ملوث ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے، بلکہ ہم عوامی سطح پر اس مسئلے پر گفتگو کرنا بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ اس سے تناؤ اور کشیدگی کو ہوا ملنے کا خدشہ ہے۔ 

یہاں کی ایک نہایت ذمہ دار شخصیت نے رازداری کی شرط پر ہمیں یہ بات بتائی کہ کچھ عرصہ قبل کچھ عرب شیوخ نے، جو ہر سال گرمی کے موسم میں سیاحت کی غرض سے لبنان آتے ہیں اور ایک ایسے علاقے میں ٹھہرتے ہیں جہاں مسیحی آبادی کی اکثریت ہے، اس بات کی کوشش کی کہ وہاں ایک مسجد تعمیر کر دی جائے۔ مقامی مسیحیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے یہ کہہ کر اس میں رکاوٹ ڈال دی کہ یہاں مسلمان سرے سے آباد ہی نہیں، اس لیے مسجد کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد ان عرب شیوخ نے لبنان کے مذہبی راہ نماؤں سے رابطہ کیا اور ہمیں یہ بات بتانے والی شخصیت نے کہا کہ وہ اس میٹنگ میں موجود تھے جس میں لبنان کے مفتی عام اور ان شیوخ کے مابین باقاعدہ یہ منصوبہ طے پایا کہ مسیحیوں کے اس علاقے میں مسلمانوں کے لیے ایک مکان خریدا جائے اور پھر مناسب موقع پر پوری تیاری کے ساتھ ساتھ راتوں رات وہاں مینار کھڑا کر کے اسے مسجد کی حیثیت دے دی جائے تاکہ اس کے بعد اگر مسیحی اسے گرانا چاہیں تو مسلمان اشتعال میں آ جائیں اور خانہ جنگی کی صورت دوبارہ لوٹ آئے۔ اس شخصیت نے کہا کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ ان عرب شیوخ کا یہاں آنا جانا بند ہو گیا اور یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، ورنہ کچھ خبر نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا۔ مجھے اس پر کسی بزرگ کا وہ تبصرہ ذہن میں آ گیا جو والد گرامی نے ایک موقع پر سنایا تھا کہ ’’تیل کا پیسہ ہے۔ جہاں جائے گا، آگ ہی لگائے گا۔‘‘ 

اس شدید فرقہ وارانہ کشیدگی کے اثرات یہاں کے تمام سیاسی معاملات پر بہت نمایاں ہیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جو ایک لاکھ کے قریب فلسطینی مسلمان ہجرت کر کے لبنان آ گئے تھے اور جنھیں جنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے واپس قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان کو اور ان کی اگلی نسل کو آج بھی لبنان کی شہریت حاصل نہیں ہے اور ادارہ جاتی سطح پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، چنانچہ ۲۰ شعبوں میں فلسطینیوں کے لیے ملازمت کرنا ممنوع ہے۔ اب ان فلسطینی مہاجروں اور ان کی اگلی نسل کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی ہے جن میں سے نصف کے قریب مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح یہاں کے قانون کے مطابق کوئی لبنانی خاتون جس نے کسی غیر لبنانی مرد سے شادی کی ہو، اپنے بچوں کو لبنانی شہریت منتقل نہیں کر سکتی اور لبنان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں بعض مقدمات میں اس قانون کی ازسرنو توثیق کی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ اگر غیر لبنانی شوہروں کے بچوں کو لبنانی شہریت دی گئی تو مذہبی اور نسلی اعتبار سے یہاں کی آبادی کا موجودہ تناسب بدل سکتا ہے جس کے اثرات مستقبل میں سیاسی سیٹ اپ پر بھی لازماً پڑیں گے۔


بیروت شہر دو اطراف سے بلند وبالا پہاڑوں اور ایک سے طرف سمندر کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ کسی بلند مقام سے شہر کا نظارہ کیا جائے تو ایک دل فریب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہاڑوں کے اوپر سے مکانات اور عمارتوں کی صورت میں انسانی آبادی ایک تسلسل کے ساتھ نیچے اترتی ہوئی ساحل سمندر کے ساتھ آکر مل جاتی ہے۔ ایئر پورٹ بھی بالکل ساحل کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے اور جب بیروت کی طرف آنے والا جہاز سمندر کے اوپر اڑتا ہوا نیچے اترنے کے لیے زمین کے قریب ہونا شروع ہوتا ہے تو آخر وقت تک یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید جہاز سمندر میں ہی اترنے والا ہے۔ لبنان اپنے خوب صورت سیاحتی مقامات کے لیے پوری دنیا میں معروف ہے اور خاص طور پر بیروت اور اس کے گرد ونواح میں عالمی شہرت کے حامل سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ تربیتی کورس کے منتظمین کی طرف سے ۴؍ اپریل اتوار کا دن سیاحت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس دن ہم نے مغارۃ جعیتا، مقدسہ مریم کا کنیسہ اور جبیل کے علاقے میں قدیم تاریخی شہرکے کھنڈر دیکھے۔ 

مغارۃ جعیتا (Jeita grottos) بیروت کے شمال میں ۱۸ کلو میٹر کے فاصلے پر تاریخی دریاے کلب کی وادی میں واقع ہے اور اسے بجا طور پر لولوۃ السیاحۃ اللبنانیۃ (Jewel of tourism in Lebanon) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا غار ہے جس میں لاکھوں سال کے کیمیاوی عمل سے پتھروں اور چٹانوں نے نہایت حیرت انگیز اور شان دار قدرتی آرٹ کے نمونوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ انسان انھیں دیکھ کر فی الواقع حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے اور قدرت کی صناعی اسے تبارک اللہ احسن الخالقین کا ورد کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مغارۃ جعیتا کو سیاحوں کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہاڑ کی بلندی پر واقع حصے میں غار کے بیچوں بیچ سلیقے سے ایک پختہ راستہ بنایا گیا ہے جو غار کے آخر تک چلا جاتا ہے اور سیاح اس راستے سے گزرتے ہوئے دائیں بائیں، اوپر اورنیچے قدرتی صناعی کے حیرت انگیز نمونوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ غار کے نچلے حصے میں دریاے کلب کا ایک حصہ بہتا ہے۔ اس حصے کی سیاحت کے لیے کشتیوں کا انتظام کیا گیا ہے اور سیاح ٹھنڈے اور شفاف پانی میں مختلف کھلی اور تنگ جگہوں سے گزرتے ہوئے قدرت کی کاری گری کے نمونوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۸۳۶ء میں تھامسن نامی ایک مسیحی مناد نے غار کے زیریں حصے کو دریافت کیا تھا جسے ۱۹۵۸ء میں عام لوگوں کی سیاحت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ پھر ۱۹۵۸ء میں ہی زیریں غار سے راستہ بناتے ہوئے غار کے بالائی حصے کو بھی دریافت کر لیا گیا اور ۱۹۶۹ء میں مناسب انتظامات کے بعد اسے بھی عام سیاحت کے لیے کھول دیا گیا۔ غار میں مصنوعی روشنی کا مناسب انتظام کیا گیا ہے۔ مختلف مقامات پر چھت اور دیواروں سے قدرتی طور پر پانی ٹپک رہا ہے اور غار کے اندر کا موسم مجموعی طور پر ٹھنڈا اور خوش گوار ہے۔ بالائی غار کا درجہ حرارت سارا سال ۲۲ سنٹی گریڈ جبکہ زیریں غار کا ۱۶ سنٹی گریڈ رہتا ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے غار کے اندر تصویر کشی ممنوع ہے اور سیاحوں کے موبائل یا کیمرے وغیرہ اندر داخل ہونے سے پہلے لے لیے جاتے ہیں، تاہم یاد پڑتا ہے کہ اکا دکا افراد نظر بچا کر موبائل اندر لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انٹر نیٹ کی بعض ویب سائٹس پر اس کی کچھ تصاویر جبکہ یو ٹیوب پر مختصر ویڈیو کلپس میسر ہیں۔ غار کے قریب جگہ جگہ ایسے سائن بورڈ آویزاں ہیں جن پر سیاحوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ انٹر نیٹ پر ان غاروں کو دنیا کے سر فہرست عجائب میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیں۔

مغارۃ جعیتا کے بعد ہمیں مقدسہ مریم کے کنیسہ میں لے جایا گیا جو سمندر کے کنارے ایک بلند وبالا پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہاں گرجے کی چھت پر سیدہ مریم کا ایک دیو ہیکل مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ مسیحی حضرات یہاں دعا ومناجات کے لیے آتے ہیں جبکہ عمومی طور پر اسے ایک سیاحتی مقام کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ یہ ایک وسیع کمپلیکس ہے جس میں گرجے کی عمارت کے علاوہ لائبریری، سیاحتی یادگاروں (souvenirs) اور مسیحی مذہبی کتب اور سی ڈیز کی دوکانیں بھی موجود ہیں۔ میں نے بھی یہاں سے کتاب مقدس سے متعلق بعض معلوماتی کتب اور سی ڈیز خریدیں۔ 

ہمارے سیاحتی دورے میں تیسرا اور آخری مقام جبیل کا علاقہ تھا جو آثار قدیمہ کی بعض تاریخی یادگاروں کے حوالے سے معروف ہے۔ جبیل، بیروت سے ۳۷ کلو میٹر کے فاصلے پر شمال میں بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع ہے اور پانچ ہزار قبل مسیح پرانا مانا جاتا ہے۔ یونانیوں نے اس کا نام Babylos یعنی کتابوں کا گھر رکھا تھا۔ یہاں قدیم شہر کی گلیوں بازاروں، محلات اور عبادت گاہوں کے کھنڈر موجود ہیں۔ یہاں قائم کیے گئے میوزیم میں اس شہر کے آخری بادشاہ احیرام کے دور کا ایک کتبہ محفوظ ہے جس پر فینیقی زبان کی عبارت کندہ ہے۔ اس کے علاوہ مختلف تختیوں پر ان کھدائیوں کی تفصیل درج ہے جو مختلف اوقات میں اس شہر میں ہوتی رہیں۔ یہاں وہ بندرگاہ بھی موجود ہے جسے دنیا کی قدیم ترین بندرگاہ مانا جاتا ہے اور جو دو ہزار قبل مسیح میں فینیقیوں اور مصر اور یونان کے شہروں کے مابین تجارت کا مرکز تھی۔ ازمنہ وسطیٰ میں یہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا۔ قلعے کے ساتھ ہی جبیل کا قدیم بازار آباد ہے جہاں ملبوسات، زیورات اور مختلف مجسموں کی صورت میں سیاحوں کے لیے یادگاری چیزیں میسر ہیں۔ اس علاقے میں مارونی مسیحی اکثریت میں ہیں، جبکہ دس گیارہ فیصد شیعہ آباد ہیں۔ لبنان کے موجودہ صدر العماد میشال سلیمان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ 

اس طرح ۴؍ اپریل کا یہ سارا دن کسی آرام کے بغیر مسلسل سفر کرتے گزرا اور ہم شام کو مغرب کے بعد ہوٹل واپس پہنچے، لیکن تھکن کا احساس بالکل نہیں ہوا بلکہ سب دوستوں کا تاثر یہ تھا کہ یہ سیاحت واقعتا بے حد پرلطف رہی۔ 

مذکورہ مقامات کی سیاحت کے علاوہ ہمیں خاص بیروت کے کچھ حصے دکھانے اور بعض اہم ملاقاتیں کروانے کا اہتمام یہاں کے ایک بے حد مہربان دوست نوجوان عارف حسین نے کیا جن سے سے رابطہ کر کے انھیں بلوانے کی خدمت قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے انجام دی۔ عارف حسین بیروت میں اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اور دعوتی سرگرمیوں میں بھی پوری طرح شریک رہتے ہیں۔ نہایت فصیح اور عمدہ عربی بولتے ہیں اور ان کا چہرہ مہرہ اور بالوں کا اسٹائل دیکھ کر سیدنا مسیح علیہ السلام کا وہ نقشہ ذہن میں آ جاتا ہے جو مسیحی حضرات کے ہاں تصویروں اور مجسموں میں دکھایا جاتا ہے۔ عارف حسین سب سے پہلے ہمیں جامع العمری الکبیر میں لے گئے جہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ یہ ایک عظیم الشان مسجد ہے اور تقریباً ایک ہزار سال قبل بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر کی گئی اس کی عمارت اصل حالت میں اب بھی قائم ہے۔ مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے اس کے تاریخی تعارف پر مبنی ایک مختصر کتابچہ ہمیں فراہم کیا گیا۔ اس کے مطابق ۱۴ ہجری (۶۳۵ عیسوی) میں جب سیدنا عمر کے زمانے میں بیروت فتح ہوا تو اس جگہ ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی جس کا نام تکریماً مسجد عمری رکھا گیا۔ صلیبی جنگوں کے دور میں جب یہ علاقہ مسیحیوں کے قبضے میں آیا تو انھوں نے اس مسجد کو گرجے میں تبدیل کر دیا۔ پھر ۵۸۳ھ (۱۱۸۷ عیسوی) میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیروت کو دوبارہ فتح کیا تو اس کو دوبارہ مسجد کی حیثیت سے بحال کر دیا گیا۔ اس کے دس سال بعد مسیحی دوبارہ بیروت پر قابض ہوئے تو یہ مسجد پھر گرجا بن گئی۔ اس کے بعد ممالیک کے عہد میں ۶۹۰ھ (۱۲۹۱ عیسوی) میں مسلمانوں نے اس شہر اور مسجد کو دوبارہ حاصل کیا، لیکن پوری عمارت کو ازسرنو تعمیر کرنے کے بجائے جزوی ترمیمات کے ساتھ گرجے ہی کی عمارت کو برقرار رکھا، چنانچہ آج بھی گرجے کی طرز پر بڑے بڑے ستونوں پر قائم ایک بڑا اور لمبا سال ہال ہے جس میں قالین نما مصلے بچھا کر نماز ادا کی جاتی ہے۔ 

اس مسجد کو جامع عمری کے علاوہ جامع التوبہ اور جامع النبی یحییٰ علیہ السلام بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے محراب کے ساتھ ایک بڑا سا آہنی دروازہ ہے جس کے پیچھے بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت یحییٰ علیہ السلام کے جسد مبارک کا ایک حصہ مدفون ہے۔ اس روایت کی صحت کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ حضرت یحییٰ کی ایک قبر دمشق میں بھی ہے۔ بہرحال ترکی کے سلطان عبد الحمید نے ۱۳۰۵ھ (۱۸۸۷ عیسوی) میں اس حصے کے آگے جہاں عام روایت کے مطابق حضرت یحییٰ کے جسد مبارک کا کوئی حصہ مدفون ہے، ایک مضبوط آہنی دروازہ نصب کروا دیا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ مسجد ہی سے متصل ہم نے وہ حجرہ بھی دیکھا جہاں تاریخی روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موے مبارک ایک صندوق میں محفوظ رکھے گئے تھے اور لوگ ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔ یہ صندوق ۱۹۷۵ء کی خانہ جنگی کے دوران یہاں سے گم ہو گیا۔ مسجد کے ساتھ ہی چند قدم کے فاصلے پر مسیحیوں کا ایک بہت بڑا گرجا قائم ہے اور ارد گرد خوب صورت اور عالی شان تجارتی عمارتیں موجود ہیں۔ عارف حسین نے بتایا کہ خانہ جنگی کے زمانے میں یہ پورا علاقہ مکمل طور پر تباہ وبرباد ہو کر کھنڈر کی صورت اختیار کر گیا تھا، لیکن موجودہ صورت میں اس علاقے کو دیکھ کر کوئی شخص اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ 

بیروت کے سفر میں دلچسپی کا ایک بہت بڑا باعث یہاں کے وہ اشاعتی ادارے بھی تھے جو عالم اسلام کے علمی حلقوں میں مشہور ومعروف ہیں۔ دار الفکر، دار العلم للملایین، دار احیاء التراث العربی، دار البشائر، دار ابن حزم وغیرہ بڑے بڑے اشاعتی اداروں کا مرکز یہیں پر ہے۔ ہمارا تاثر یہ تھا کہ ان اشاعتی اداروں کی جو شہرت اور تعارف پورے عالم اسلام میں ہے، بیروت میں تو یقیناًہوگی اور ہر پڑھا لکھا آدمی ان سے واقف ہوگا، لیکن یہ محض تاثر ہی تھا۔ ہم کافی دن تک ہوٹل کے کارکنوں اور تربیتی کورس کے شرکا سے مختلف مکتبوں کا نام لے کر معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ کہاں واقع ہیں اور وہاں تک جانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے، لیکن کوئی ہماری داد رسی نہ کر سکا۔ بہرحال عارف حسین سے رابطہ ہوا تو ہم نے ان سے خاص طور پر درخواست کی کہ وہ ہمیں یہاں کے چند مکتبے بھی دکھائیں، تاہم وقت کی قلت کی وجہ سے وہ ہمیں صرف دار البشائر کے گودام میں لے جا سکے۔ یہ گودام متوسط قسم کے علاقے کی ایک مناسب سی عمارت کے تہہ خانے میں قائم ہے۔ وقت کم تھا۔ ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ یہاں مختلف کتابیں دیکھتے ہوئے گزارا اور جیب جس قدر اجازت دیتی تھی، اس کے لحاظ سے اپنی دلچسپی کی کچھ کتابیں بھی منتخب کیں۔ بہت احتیاط سے انتخاب کرنے کے باوجود میرے پاس بیس پچیس کتابیں جمع ہو گئیں۔ ادھر ریڈ کراس نے بھی بین الاقوامی انسانی قانون سے متعلق آٹھ دس تعارفی اور دستاویزاتی کتب کا سیٹ کورس کے شرکا کو عنایت کیا تھا۔ ان سب کتابوں کو جمع کر کے ایک ڈبے میں ڈالا تو اچھا خاصا وزن بن گیا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ واپسی پر ایئر پورٹ پر کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور سامان کی چیکنگ کرنے والے عملے نے کتابوں سے بھرا ہوا کارٹن دیکھ کر احترام سے فوراً آگے جانے دیا۔

بیروت میں اسلامی تاریخ کے عظیم فقیہ امام اوزاعی کا مرقد بھی ہے جو ان کے نام پر قائم محلہ اوزاعی میں واقع ہے۔ ہماری بہت خواہش تھی کہ امام صاحب کی قبر پر ضرور حاضری دی جائے، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ عارف حسین نے بتایا کہ امام صاحب کی قبر ایک خاص احاطے میں واقع ہے جسے غالباً شام چار بجے کے بعد بند کر دیا جاتا ہے، اس لیے اگر قبر کی زیارت مقصود ہو تو دن کو کسی وقت جانا پڑے گا، لیکن ٹریننگ کورس کے سیشن دن بھر جاری رہنے کی وجہ سے ہمارا دن کو نکلنا ناممکن تھا، سو یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ امام اوزاعی کو اس خطے کے مسیحیوں کے ہاں خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ تاریخی طورپر یہ ہے کہ امام اوزاعی کے زمانے میں جبل لبنان میں مقیم مسیحیوں میں سے کچھ لوگوں نے بعبلبک کے افسر محصولات سے کسی شکایت کی بنا پر بغاوت کر دی۔ مسلمان حاکم صالح بن علی بن عبد اللہ نے ان میں سے شر پسند عناصر کی سرکوبی کے بعد آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہاں سے جلا وطن کر دیا۔ (بلاذری، فتح البلدان، ص ۱۶۹) اس پر امام اوزاعی نے اسے تفصیلی خط لکھا جس کا کچھ حصہ امام ابوعبید نے اپنی کتاب ’’الاموال‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے فرمایا:

’’جبل لبنان کے جن اہل ذمہ کو جلا وطن کیا گیاہے، ان کے بغاوت کرنے پر ساری جماعت متفق نہیں تھی، اس لیے ان میں سے ایک گروہ کو (جس نے بغاوت کی) قتل کرو اور باقی لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دو۔ کچھ افراد کے عمل کی پاداش میں سارے گروہ کو کیونکر پکڑا جا سکتا اور انھیں ان کے گھر بار اور اموال سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟ .... یہ لوگ غلام نہیں ہیں کہ تمھیں ان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ وہ آزاد اہل ذمہ ہیں (جو بہت سے قانونی حقوق اور ذمہ داریوں میں ہمارے برابر ہیں، مثلاً) ان میں سے کوئی شادی شدہ فرد زنا کرے تو اسے رجم کیا جاتا ہے اور ان کی جن عورتوں سے ہمارے مردوں نے نکاح کیا ہے، وہ دنوں کی تقسیم اور طلاق وعدت میں ہماری عورتوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہیں۔‘‘ (الاموال، ص ۲۶۳، ۲۶۴)

یہ واقعہ پڑھ کر میرے دل میں حسرت سی پیدا ہوئی کہ کاش ہمارے آج کے مذہبی راہ نما بھی محض سیاسی ضرورتوں کے لیے نہیں، بلکہ حقیقی اسلامی جذبے سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی آواز بلند کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھیں تو :

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

(جاری)

مشاہدات و تاثرات

(جولائی ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter