مخدوم و محترم حضرت علامہ زاہد الراشدی زید مجدہم کے ساتھ عقیدت و محبت کا تعلق تو ہے ہی، علاوہ ازیں باہم رشتہ داری کی ایک ڈوری بھی بندھی ہے جو میرے لیے استفادہ کے مواقع پیدا کرتی رہتی ہے۔ حضرت المخدوم مدظلہ کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر نقشبندی مدظلہ میرے ہم زلف ہیں۔ چنانچہ بعض مواقع پر اس واسطہ سے حضرت علامہ مدظلہ تک بے تکلف رسائی ممکن ہو جاتی ہے اور یہ طالب علم اظہار ما فی الضمیر کی جسارت کے ساتھ ساتھ آں محترم کی شفقتیں اور محبتیں بھی سمیٹتا ہے۔
عشاقِ زلف زندہ جاوید کیوں نہ ہوں
ہاتھ آگیا ہے سلسلہ عمرِ دراز کا
(عزیز نواب عبد العزیز خان)
۲۲ اپریل ۲۰۱۲ء، حضرت مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر نقشبندی زید مجدہم کے بڑے فرزند، عزیز محترم مولانا احسن خدامی سلمہ کے ولیمہ اور دختر نیک اختر سلمہا کے نکاح و رخصتی کی تقریب میں حضرت علامہ راشدی حفظہ اللہ سے چند ایک پہلوؤں پر گفتگو ہوئی جو اس خیال سے قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے کہ شاید افادۂ عام کا باعث ثابت ہوں۔
(۱) رسمی علیک سلیک اور دریافت خیریت کے بعد حضرت مخدوم مدظلہ نے ہمارے دیرینہ دوست مولانا عبد الرحیم چاریاری مدظلہ کے بیٹے کی خیریت و دستیابی کے متعلق استفسار فرمایا جو گزشتہ چند ہفتوں سے لاپتہ ہے۔ (مولانا چاریاری صاحب کے اس بیٹے کا نام علی حیدر تھا جسے شہید بھی کر دیا گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون) حضرت علامہ کے لہجے میں ہمدردی، اپنائیت اور تشویش نمایاں تھی۔ اظہارِ افسوس بھی کر رہے تھے اور دعائیں بھی۔ یاد رہے کہ مولانا چاریاری مدظلہ نے حضرت علامہ پر تنقید کرتے ہوئے ایک کتاب تیار کی اور اسے اپنے ادارہ کی طرف سے شائع کرتے ہوئے مزید ’’نوازشات‘‘ کا عزم ظاہر کیا۔ اپنے مخالفین کی بابت یہ طرزِ عمل یقیناًدل گردے کا کام ہے جو سنت نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کا عملی نمونہ بھی ہے اور ہم چھوٹوں کے لیے بہترین سبق بھی ۔۔۔
(۲) حضرت مولانا راشدی مدظلہ الشریعہ اکادمی کے پلیٹ فارم سے تحمل و برداشت کے ساتھ مذہبی و ملکی ایشوز پر تبادلۂ خیال اور مباحثہ و مکالمہ کا جدید اسلوب متعارف کروا رہے ہیں جس کی افادیت بھی تسلیم ہے اور بعض منطقی نتائج پر تحفظات بھی ہیں۔ تاہم روایتی مذہبی حلقے میں اس کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
راقم نے حضرت علامہ سے گزارش کی:
’’الشریعہ‘‘ سے جو اسلوب آپ متعارف کروا رہے ہیں، اس سے روایتی مذہبی حلقے کو ایک خاص قسم کی ’’وحشت‘‘ کیوں ہے؟ اور اس کے تدارک کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘
حضرت علامہ نے مخصوص مسکراہٹ کی آمیزش کے ساتھ فرمایا:
’’میری عادت یہی ہے کہ تقاریب میں کسی خاص عنوان کے تحت ہی گفتگو کرتا ہوں۔ لہٰذا ’’الشریعہ‘‘ کا اسلوب کبھی زیر بحث نہیں لاتا، البتہ نجی مجالس میں علماء کرام سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اشکالات دور کرتا ہوں اور وہ مطمئن بھی ہوتے ہیں۔ تاہم اس کی بنیادی وجہ مطالعہ کی خوفناک حد تک کمی ہے۔ جب مطالعہ کا ذوق ہی نایاب ہے تو کہاں تقابلی مطالعہ اور کہاں سنجیدہ بحث و تمحیص؟‘‘
طالب علم نے رائے دی کہ آپ مختلف سیمینارز، کانفرنسز اور دستار فضیلت سمیت دیگر عوامی اور روایتی مذہبی حلقے کی تقاریب سے مخاطب ہوئے ہیں۔ آپ اپنی فکر کو یہاں زیر بحث لایا کریں تا کہ یہ ’’وحشت‘‘ دور ہو اور دلیل سے اختلاف رائے کا حوصلہ و جذبہ پروان چڑھ سکے۔
(۳) اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت کے مابین جملہ نزاعی مسائل میں ایک اہم اور اصولی مسئلہ ’’امامت و خلافت‘‘ کا ہے جس پر جانبین کی طرف سے بہت کچھ رقم ہے۔ تاہم اس میدان میں کام کرنے والے سنی نوجوان بھی اس سے کم اہمیت کے حامل مسائل میں مصروفِ عمل ہیں اور ’’امامت و خلافت‘‘ کے عنوان پر وہ توجہ نہیں دے پاتے جو اس کا حق ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید موجود لٹریچر کا قدرے مشکل اسلوبِ تحریر و استدلال ہے۔
حضرت علامہ راشدی مدظلہ نے جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کے فضلاء سے مسلسل تین روز ’’خلافت‘‘ کے عنوان پر خطاب کیا جس کی روئیداد روزنامہ اسلام ۳۰،۳۱ جنوری اور یکم فروری ۲۰۱۲ء میں ’’اسلامی خلافت ۔ دلیل و قانون کی حکمرانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ امامت و خلافت کے مسئلہ پر جس آسان اور عام فہم انداز میں یہ گفتگو کی گئی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہمیں پہلی دفعہ اس مسئلہ کی اہمیت کا بھی ادراک ہوا اور یہ بھی علم میں آیا کہ اس پر اہل تشیع سے گفتگو یا اس عنوان پر عوام سے خطاب انتہائی آسان ہے۔ البتہ تشنگی برقرار ہے۔
راقم نے حضرت علامہ سے درخواست کی کہ اس موضوع پر تفصیلی مقالہ تحریر فرمائیں، خدا کرے کہ انہیں فرصت دستیاب ہو اور یہ اہم کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے۔ اللّٰہم آمین۔
(۴) سنی، شیعہ کشمکش کے حوالہ سے مشرق وسطیٰ میں اہل تشیع کی سرگرمیوں اور پاکستان میں نصاب تعلیم میں تبدیلی سمیت دیگر معاملات میں اہل تشیع کی پیش قدمی اور اہل سنت کی زبوں حالی پر علامہ راشدی مدظلہ نے روزنامہ اسلام ۱۳؍ مارچ ۲۰۱۲ء میں ’’علیحدگی کے نتائج پر بھی غور کر لو‘‘ کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا تھا جس میں آں محترم نے انتہائی پتے کی بات تحریر فرمائی تھی:
’’اس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معروضی صورت حال اور مستقبل کے امکانات و خدشات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور عقائدِ اہل سنت کے تحفظ، ناموسِ صحابہ کرامؓ کے تحفظ و دفاع اور اہلِ سنت کے حقوق و مفادات کی پاسداری کے لیے جذباتیت و سطحیت سے ہٹ کر اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ارباب علم و دانش کو اعتماد میں لے کر جدوجہد کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت و اہمیت اس حوالہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی مختلف لہروں میں سنی شیعہ کشمکش کی لہریں اب نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘
راقم نے اس ملاقات سے قبل بھی اسی کالم کے تناظر میں حضرت مخدوم مدظلہ کی خدمت میں عریضہ کے ذریعے گزارش کی تھی کہ بہت بہتر ہوگا اور بڑی خدمت کہ آپ اس میدان میں کام کرنے والوں کے لیے ’’کوئی ٹھوس حکمت عملی‘‘ تحریر فرما دیں جو اس حوالے سے جدوجہد کرنے والوں کے لیے راہ نمائی کا کام دے سکے۔ حضرت علامہ کے خیال میں یہ معاملہ فردِ واحد کے بجائے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے مابین مشاورت سے حکمت عملی طے پانے کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت کے بقول میں نے بہت سے دوستوں سے بات کی ہے، میں معاونت اور مشاورت کے لیے تیار ہوں لیکن احباب کی طرف سے سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ آپ کوئی مجلس طے کر لیں اور اس موضوع سے لگاؤ رکھنے والے دوست بلا لیں، میں ہمہ وقت حاضر ہوں۔
راقم جو گھنٹی حضرت مخدوم کے گلے میں باندھنا چاہ رہا تھا، وہ میرے گلے باندھ دی گئی۔ کوشش ہوگی کہ آں محترم کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے اس حوالہ سے کوئی کردار ادا کر سکوں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور)