الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات

ادارہ

(۱)

محترم المقام مدیر الشریعہ گوجرانوالہ 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

’ الشریعہ‘ کا انتہائی جامع ومبسوط خصوصی شمارہ موصول ہوا۔ کتابت، طباعت، ترتیب وتہذیب اور عناوین کے اعتبا ر سے یہ ایک مثالی کتاب ہے جس میں امام اہل سنت کی زندگی کے تقریباً ہر گوشے پر فاضل اہل قلم اور ارباب علم ودانش نے دل کی گہرائیوں سے مقالات سپر دقلم کیے ہیں۔ ام عمار کی تحریر خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ اس میں بے ساختگی ہے، تصنع سے کوسوں دور۔ جناب مولانا عبدالحق خان بشیر کا امام اہل سنت کی کتب کامفصل تعارف لاجواب ہے۔ا للہ تعالیٰ الشریعہ کو آسمان صحافت کا آفتاب عالم تاب بنائے، آمین۔ 

(قاضی محمد رویس خان ایوبی 

رئیس مجلس افتاء آزاد جموں وکشمیر)

(۲)

امام اہل سنت والجماعت، شیخ الحدیث، استاذ العلماء حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی دینی خدمات متنوع ہیں۔ آپ نے تعلیم وتدریس، تصنیف وتالیف، وعظ وتذکیر، دعوت وتبلیغ اور ملک میں نفاذ اسلام کے لیے سیاسی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حق تعالیٰ شانہ نے آپ کو بے شمار صلاحیتوں اور قابل رشک صفات وکمالات سے نوازا تھا۔ دار العلوم دیوبند کے جن فضلا کے علم وفضل سے اہل اسلام کو غیر معمولی نفع پہنچا اور ان کے فیوض وبرکات حدود وثغور سے ماورا ہو گئے، ان میں حضرت شیخ الحدیثؒ کا نام نامی نمایاں ہے۔ آپ کی دینی خدمات میں غیر معمولی برکت کی وجہ یہ بھی ہے کہ علم وفضل اور زہد وتقویٰ میں فائق الاقران ہونے کے باوجود آپ نے ہمیشہ اپنے اساتذہ کو عقیدت کی نظر سے دیکھا، ان سے تعلق رکھا اور ان کی دعائیں لیں۔

حضرت شیخ الحدیث اکابر دیوبند سے نہ صرف والہانہ محبت رکھتے تھے بلکہ ان کی تحقیقات پر کلی اعتماد کرتے تھے اور ان کے مقابلے میں اپنی رائے کی نفی فرماتے تھے۔ اپنے متعلقین سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’عزیزان گرامی قدر! میں کسی بھی مسئلہ میں اپنی کوئی رائے نہیں رکھتا، بلکہ قرآن وسنت اورفقہ وتاریخ کے تمام افکارومسائل میں اکابرین علماے دیوبند کی اجماعی تحقیق پر اعتماد کرتا ہوں اوران کی تمام اجماعی تعلیمات کو حق جانتے ہوئے ان پر عمل پیراہونے کو اپنے لیے ہدایت اور نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ لہٰذا میں اپنے تمام تلامذہ، مریدین اور متعلقین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اکابرعلماے دیوبند کے مسلک پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہیں اور ان کا دامن کسی صورت میں چھوڑنے نہ پائیں۔ جو اکابر علماے دیوبند کے اجماعی مسلک کو قرآن وسنت کے مطابق سمجھتے ہوئے اس پر پوری طرح قائم رہے، وہ میرے متعلقین میں شامل ہے اور جس کا اکابر کی اجماعی تحقیق پر اعتماد نہ ہو، میرااُس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ نے حضرت شیخ الحدیث کی رحلت کے بعد مختصر وقت میں ایک وقیع خصوصی نمبر شائع کر کے حضرت کے تلامذہ، مریدین اور متعلقین کے لیے مسرت انگیز حیرت کا سامان مہیا کیا ہے۔ اس نمبر میں حضرت شیخ الحدیثؒ سے عقیدت ومحبت یا تلمذ کا تعلق رکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور حضرت کے متعلق اپنے جذبات، خیالات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس خصوصی نمبر کے مطالعہ سے قدر مشترک، ایک ایسی ہستی کا تاثر ابھرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے میراث انبیاء علیہم السلام میں حصہ وافر عطا فرمایا ہو (فمن اخذہ اخذہ بحظ وافر، او کما قال)۔ ان کی کتاب زندگی کا جس پہلو سے بھی مطالعہ کیا جائے، کہیں حرف گیری کی نوبت نہیں آتی۔ بلاشبہ علماے ربانیین ایسی ہی صفات کے حامل ہوتے ہیں۔

’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر اورحضرت شیخ الحدیثؒ کے علمی ونسبی جانشین حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ، مدیر مولانا محمد عمار خان ناصر سلمہ اور ان کے اصحاب تمام ارکان مبارک بادکے مستحق ہیں کہ انھوں نے چار ماہ کی مختصر مدت میں محنت شاقہ کے ساتھ ایک وقیع وضخیم نمبر قارئین کو مہیا کر دیا ہے جو نہ صرف حضرت شیخ الحدیثؒ کے ایمان افروز وسبق آموز حالات زندگی کا مرقع ہے بلکہ اس کے آئینے میں علماے دیوبند کے حسن وجمال اور فضل وکمال کا عکس بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ علما، طلبا، خطبا اور اہل علم اس خصوصی نمبر کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔

(مولانا محمد ازہر۔ ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان)

(۳)

بخدمت جناب حضرت اقدس حضرت مولانا زاہدالراشدی مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی!

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا خصوصی نمبر بیاد حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ موصول ہوا۔ اول سے آخر تک خوب مطالعہ کیا۔ لکھنے والوں نے لکھا اور خوب لکھا۔ بہت ہی بہتر اور عمدہ لکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ چند مہینوں میں اتنے ضخیم نمبر کا تیار ہونا حضرت کی ایک زندہ کرامت ہے۔

بندہ ناچیز نے حضرت صفدرؒ کی زیارت نہیں کی تھی، لیکن تصنیفات کے حوالے سے حضرت سے غائبانہ تعارف خوب تھا۔ اس خصوصی نمبر کے مطالعہ سے حضرت کی شخصیت کو ذاتی لحاظ سے سمجھنے کاموقع ملا۔ آپ کی گھریلو زندگی کے متعلق بہت معلومات حاصل ہوئیں۔ خصوصی طور پر یہ کہ حضرت اپنی اولاد کے حق میں شخصی آزادی کے قائل تھے۔ اپنا موقف نہیں ٹھونستے تھے، بلکہ اپنی اولاد کے موقف کو بھی سنتے تھے، جیساکہ آ پ کے کالم میں چندفقہی مسائل کا تذکرہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اپنی اولاد پر خوب اعتماد تھا۔ شاید انہی باتوں سے حضرت کی اولاد کو بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا اور تمام بیٹے علیحدہ علیحدہ اپنی جگہ پر کماحقہ حضرت کے جانشین ہیں۔ جس صاحبزادے کو بھی دیکھاجائے، وہ علم کا پہاڑ نظر آتاہے۔ اپنی اولاد کی صحیح تربیت اور پھر ان پر اعتماد اولاد کو والدین کا جانشین بناتا ہے۔ حضرت کی زندگی جوایک مجاہدانہ زندگی تھی۔ آپ کی زندگی بھی قابل رشک، اولاد بھی قابل رشک اور موت بھی قابل رشک اور جنازہ بھی قابل رشک تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔ 

آپ نے حضرت کے شایان شان خصوصی نمبر کا اہتمام کر کے آنے والی نسل پر احسان عظیم کیا ہے کہ حضرت کی ذاتی شخصیت، علمی شخصیت اور مجاہدانہ وعالمانہ زندگی ہمیشہ زندہ وتابندہ رہے گی، کیوں کہ اس نمبر کے مطالعہ سے ہر آدمی سمجھ سکتاہے کہ حضر ت کیا تھے اور کیسے تھے؟ واقعی آپ نے بہت بڑاکام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کومنظور ومقبول فرمائے اوراس عظیم کام پر مدرسہ ہذا کے جملہ اراکین کی طر ف سے مبارکباد قبول فرمائیں۔ 

(مولانا) حفظ الرحمن اعوان 

نائب مہتمم مدرسہ تجوید القرآن رحمانیہ 

خانوخیل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان

(۴)

محترم المقام حضرت علامہ زاہد الراشدی مدظلہ 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی! 

ایک ذاتی مجبوری کی بنا پر امام اہل سنت ؒ نمبر کی تقریب رونمائی میں شریک نہ ہو سکنے کابے حد افسوس ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔ برادرم مولاناعمار خان ناصر کے حکم پر اپنے تاثرات لکھ کر بھیج رہا ہوں۔ 

اکابر علماء دیوبند ؒ کی خصوصیات کا جائزہ لیاجائے تو ان میں علوم دینیہ میں مہارت تامہ، عقلی علوم میں کامل دسترس، اخلاص، تقویٰ اور عاجزی وانکساری، باطنی کمالات بالفاظ دیگر شریعت وطریقت کی جامعیت، دنیا سے بے رغبتی ، سرکاری عہدوں سے نفرت، جمہورامت کے مسلک ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ کی پابندی، دینی مدارس ومکاتب کا بکثرت قیام، فرق باطلہ کا مقابلہ اور قرآن وحدیث کی اصلی تعلیمات کو نکھارنا اور پھیلانا نمایاں نظر آتے ہیں۔ حضرات شیخین یعنی حضرت امام اہل سنت اورحضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ اکابر علمائے دیوبند کی اس وراثت کے کامل امین تھے۔ دونوں حضرات نے اپنے اندر ان خصوصیات کو جذب کیا اور نسل در نسل ان کو منتقل کرنے کے لیے کوشاں رہے ۔ تقبل اللہ سعیہم۔

احقر کوچار پانچ دن پہلے حضرت امام اہل سنت نمبر موصول ہوا۔ میری حالت یہ ہے کہ جب گھر آتا ہوں تو سارے کام چھوڑکر اس خصوصی شمار ہ کو ہی پڑ ھتا رہتا ہوں۔ 

پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

علماء حق کی یہ علامت ہے کہ وہ مصائب وآلام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دین اسلام کی خدمت میں مصروف اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں اور اس سلسلے میں بے شمار انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اہل اللہ کے جنازوں سے ان کی غیر معمولی مقبولیت کابخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت امام اہل سنتؒ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھاکہ آپ نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی، بے بسی وبے کسی کے عالم میں تعلیمی مراحل مکمل کیے اور بے سروسامانی کی حالت میں دینی خدمات کا سلسلہ شروع کیا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا قبول ہوا کہ دینی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا اور حضرت شیخ الحدیث ؒ کے جنازہ میں علما وصلحا کی کثیر تعداد میں شرکت اور عوام الناس کا ازدحام آپ کی خدمات کامنہ بولتاثبوت اعتراف تھا۔ آپ جیسی شخصیت صدیوں بعد پید اہوتی ہے۔ 

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 

حضرت استاذ مکرم شیخ الحدیث کی زندگی کایہ پہلو بھی بیان کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ آپ دورحاضر کے سب سے بڑے مسلکی ترجمان تھے۔ آپ نے تدریس، تقریر اور تحریر ہر اعتبار سے اکابر علما ء دیوبند کی عظمت اور مسلک کو اجاگر کیااور ان پرکیے گئے اعتراضات کے مدلل جوابات دیے اور اپنے مسلک کے لوگوں کو خود اعتمادی دی۔ اس سلسلے میں آپ مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوریؒ اور مولانامحمد منظور نعمانیؒ کے بعد نمایاں نظر آتے ہیں۔ 

حضرت شیخ الحدیث ؒ دنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی حقیقی ومعنوی اولاد ان کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ آپ کامشن جاری ہے اور جاری رہے گا اور حضرت امام اہل سنت کے لیے ان کے چھوڑے ہوئے دینی کام مسلسل صدقہ جاریہ بنے رہیں گے۔ ان شاء اللہ 

ان کی یادوں کا دل سے طفیل! آج بھی
ربط ہے چاند اور چاندنی کی طرح

احقر اس خاص نمبر کی اشاعت پر حضرت مولانا زاہدالراشدی مدظلہ، مولانا عمار خان ناصر اوران کے رفقاے کار کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتاہے اور مزید ایسی خصوصی اشاعتوں کی توقع رکھتا ہے۔ واجرکم علی اللہ تعالیٰ ۔

(مولانا) مشتاق احمد 

استاذ جامعہ عربیہ ، چنیوٹ 


مشاہدات و تاثرات

(نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء)

نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۱۱ و ۱۲

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جوابات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی یونیورسٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی؟
محمد مشتاق احمد

آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت
ڈاکٹر عبد القدیر خان

جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار ۔ چند غلط فہمیاں
محمد عمار خان ناصر

موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج
مولانا مفتی محمد زاہد

معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات
محمد زاہد صدیق مغل

حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق
مولانا محمد وارث مظہری

مولانا فضل محمد کے جواب میں
حافظ محمد زبیر

مکاتیب
ادارہ

’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘
ادارہ

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی
ادارہ

الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات
ادارہ

’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینار
ادارہ

انا للہ وانا الیہ راجعون
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter