کہا جاتا ہے کہ ادب میں المیہ اور رزمیہ سب سے ارفع اصناف سخن ہیں اور پھکڑ ڈرامہ farce اصناف کی درجہ بندی میں سب سے نیچے ہے۔ رزمیے کا آغاز تاریخی طور پر دو موثر اور وسیع قوتوں کے ٹکراؤ سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے شاعر اعلیٰ مضمون کے بیان کے لیے عام زندگی سے ارفع الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔اپنی جگہ یہ شاعرانہ کمال ہے۔ اس کو پڑھنا جمالیاتی حظ ہے، لیکن جب اسی قبیل کے ادبی حربوں کو کسی ایسے واقعے کے لیے مستعار لیا جائے جو عامیانہ، گھٹیا اور سطحی ہو تو اسے بیہودگی ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے میں الفاظ گویا سچائی کی بجائے منافقت کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ اس بے معنی ڈرامے کے کردار عظیم تاریخی ہستیوں کی بجائے مسخرے، جوکر، بازی گر، ٹھگ، اٹھائی گیرے، نوسر باز، سیہلے باز ہی ہو سکتے ہیں۔
اس طرح کا بے معنی ڈرامہ ہر روز ہمارے سامنے رچا یاجاتا ہے، لیکن جن دنوں کرکٹ میچ ہو رہا ہو، اس نوٹنکی کے رنگ ہی اور ہوتے ہیں۔ اخبارات اور ٹیلی وژن کے پروگراموں میں بے شمار ’ماہرین‘ شاندار ڈسکورس کے نمونے آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ آپ جی کڑا کر کے چند منٹ ان کی گفتگو سنیں تو اس سے ایک بات ضرور ثابت ہو گی کہ انسان کو ایسی قوتِ گفتار عطا ہوئی ہے کہ وہ بغیر کسی موضوع اور بغیر کسی مواد کے کئی کئی گھنٹے بول سکتا ہے۔ اس گفتگو میں استعمال ہونے والے چند الفاظ ملاحظہ ہوں: ’پنچہ آزمائی‘۔ ’دو قوتوں کا ٹکراؤ‘۔ ’ایشیا اور یورپ کی جنگ‘۔ ’کرکٹ کی حکمرانی کے لیے معرکہ‘۔’ فلاں ملک کے شیر‘۔ ’ فتح کا تاج‘۔
پھر اس عظیم رزمیے کے نتائج کے لیے کیا الفاظ استعمال ہوتے ہیں: ’شیروں کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا‘۔ ’انگریزباؤلروں کا بھرکس نکال دیا‘۔ فلاں کی پٹائی ‘۔’ریت کی دیوار‘۔ ’فیلڈنگ کا قلعہ‘۔ اس طرح کے الفاظ کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان’عظیم دانشوروں ‘نے اپنے کمالِِ تخیل سے پیدا کی ہے۔
اگر میچ میں کامیابی (اسے عام طور پر ’فتح‘ کہا جاتا ہے) ملی ہے تو رزمیے کا farce بننا اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا، لیکن اگر خدا نخواستہ ناکامی ہو تو رزمیہ المیے کی شکل اختیار کر جائے گا۔ جیسے کسی بھی ملک کی فوج کو کبھی بھی شکست نہیں ہوتی، بلکہ کچھ نا قابل فہم عوامل یا تقدیر کی ستم ظریفی سے ’فتح‘ میسر نہیں ہو پاتی۔ (یاد رہے کہ ایسا کبھی نہیں کہا جاتا کہ ہماری فوج کو ’شکست‘ ہوئی)۔ کرکٹ ٹیم اس لیے ’فتح‘ سے محروم رہتی ہے کہ کسی کلموہے امپائر نے بے ایمانی کی، یا شومئی قسمت سے کوئی کیچ چھوٹ گیا، دنیا کا عظیم ترین بیٹسمین آؤٹ آف فارم تھا، یا اس کا ناقابل یقین کیچ پکڑ لیا گیا وغیرہ، وغیرہ۔ اب دل کو تسلی دینے کے لیے بڑا عمدہ جملہ موجود ہے کہ ’میچ فکس تھا‘۔
یہ ثقافتی ارتقا کی تصدیق بھی ہے کہ آج کے دور میں اگر رزمیہ لکھا جائے تو یہ farce ہی ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو دھوکا دینے اور اپنے محدودات چھپانے کے لیے اپنے ماضی سے نعرے اور الفاظ دوبارہ زندہ کیے جائیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس طرح کھڑا کیا جانے والا رزمیہ بندروں کا تماشہ لگے گا۔
ایسا کیا ہے کہ کسی قوم کا سوادِ اعظم کرکٹ میچ میں کامیابی یا ناکامی کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنالے، ناکامی پر پہلے سے بے روح چہرے اور مکروہ شکل اختیار کر لیں، کامیابی پر ہلڑ بازی کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے، ڈھول بجائے جائیں اور دیگیں چولھوں پر چڑھ جائیں گویا بیت المقدس فتح ہو گیا ہو!
اس سماجی اور ثقافتی مظہر کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور یہ ہے کہ حکمران طبقے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے اس طرح کے تماشوں کو ہوا دیتے ہیں۔ لوگ اپنے مسائل بھول کر ہلے گلے کو کتھارسس کا ذریعہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ فلمی ستارے، کھیلوں کے ستارے، مشہور ہستیاں وغیرہ طبقات کے مابین تضاد کو کند کرنے کا بہت آسان اور مروج ذریعہ ہیں۔ اس طرح یہ ایک طرح کا مجہول انحصاری پن ہے جس میں فرد اپنی شخصیت کو کسی اور کے سہا رے کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسے نرگسیت میں میرا خاندان، میرا حسن و جمال، میری عقل، میرا گھر ، وغیرہ جیسے ہزاروں ہیولے جنم لے لیتے ہیں، اسی طرح میرا ہیرو، میرا فیورٹ سٹار، فرد کی اپنے آپ کی کسی اور میں projection ہے۔
ایرک فرام کا کہنا ہے کہ ’’جب گروہی نرگسیت کا مطمح نظر فرد نہیں بلکہ وہ گروہ ہو جس سے فرد کا تعلق ہے تویہ دعویٰ کہ میرا ملک، (یا میری قومیت، مذہب وغیرہ ) سب سے زیادہ زبردست اور عمدہ ہے، سب سے زیادہ مہذب، سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ امن پسند وغیرہ ہے تو یہ قطعاً احمقانہ پن نہیں لگتا۔ اس کے برعکس یہ حب الوطنی ، ایمان یا وفاداری کا اظہار لگتا ہے۔ [فرد کو ] لگتا ہے کہ یہ عقل پر مبنی رائے ہے کیونکہ اس گروہ کے بہت سے افراد اس پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ اتفاقِ رائے واہمے کو حقیقت کا روپ دے دیتا ہے کیونکہ اکثر کی رائے میں جس چیز پر بہت سے لوگ یقین رکھتے ہوں، لازماً درست ہو گی۔ درست ہونے کا معیار تعقل یا ناقدانہ جائزہ نہیں۔ (Anatomy of Human Destructiveness, p 203)
آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ ’’بیمار ذہن کا فرد اپنے جیسے دوسرے افراد کے ساتھ بڑا خوش رہتا ہے۔ تمام معاشرت اس سمت بھاگی چلی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عام فرد وہ اکلاپا اور تنہائی محسوس نہیں کرتا جو وہ شخص محسوس کرتا ہے جس کادماغی توازن مکمل طور پر بگڑ چکا ہو۔‘‘ (ایضاً)
کیا افراد، تنظیمیں، قومیتی اور نسلی گروہ، حتیٰ کہ پوری قوم کو نرگسیت کا شکار کہا جا سکتا ہے؟ (ہم اس کے لیے گروہی نرگسیت کی اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں)۔ گروہ کی بتدریج ارتقا پذیر ساخت اپنی معاشرتی اور ثقافتی زندگی میں بے شمار عوامل سے اثر پذیر ہو کر فرد کو اپنے میں گویا تحلیل کر لیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے کی خامی یہی ہے کہ یہ فرد سے خود اس کے وجود کا معنی تک چھین لیتا ہے اور گروہ پوری طرح سے اُسے اپنے تابع کر لیتا ہے۔ اس طرح کا اجتماعی شعور تعقل کا اظہار نہیں رہتا۔ حقیقی رویے یا خیالی دنیا fantasy میں تعریف و تحسین کی شدید خواہش، خوشامد پسندی یا انسانی ہمدردی کا فقدان اسی رویے کو فاشزم کی شکل دیتا ہے۔ گروہ یا اس کے افراد بطور گروہ یا بطور فرد اس تعلق کی بنا پر اپنی شان و شوکت اور اہمیت کو مبالغہ آمیز انداز سے دیکھتے ہیں۔یہی مبالغہ گروہ کی کامیابیوں کو جھوٹ کی حد تک چمک دمک دیتا ہے۔ اسی بنا پر افراد یہ چاہتے ہیں کہ بغیر کسی کامیابی کے بھی انہیں برتر جانا جائے۔ (حکمران اسی لیے کرکٹ ٹیم جیتے یا نہ جیتے، اس کے لیے بڑے بڑے انعامات کا اعلان کرتے ہیں)۔ افراد گروہ سے اجتماعی وابستگی کی بنا پر لامحدود کامیابی کے خواب خیال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔انہیں یہ سودا ہو جاتا ہے کہ وہ لامحدود اور مافوق الفطرت قوتوں کے مالک ہیں۔ اسی خواب وخیال کی دنیا میں وہ دنیا پر تسلط اور غلبے کے خواب دیکھتے ہیں۔ کرکٹ سے وابستہ مال و دولت کی بہتات نوجوانوں میں اس واہمے کو اور تقویت دیتی ہے۔ اجتماعی نرگسیت فرد کو اس واہمے کی طرف لے جاتی ہے کہ اسے اعلیٰ درجے کے گروہوں اور ارفع رتبے کے اشخاص سے جوڑا جائے۔ اس لیے انہیں چنیدہ لوگوں کی طرح تحسین و تعریف بھی دی جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کی یہ خواہش اور بھی بیمارانہ ہو جاتی ہے کہ دوسرے ان کے حوالے سے ڈر اور خوف محسوس کریں۔ تیز باولروں کے لیے اس طرح کی خوفناک امیجری اسی لیے استعمال ہوتی ہے۔
اس طرح کے افراد غیر معقول ترجیحی سلوک کی توقع رکھتے ہیں اور دوسروں کے لیے لازم سمجھتے ہیں کہ ان کی توقعات کی مکمل تابع فرمانی کریں۔ اسی لیے وہ اپنی غلطیوں اور جرائم کی کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتے۔ (alloplastic defenses)۔ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کرکٹرز سے کوئی جرم سرزد ہو جائے تو اسے کسی ناہنجار کی ’سازش‘ کہا جاتا ہے اور سارا میڈیا ان کا دفاع کرنے میں لگ جاتا ہے۔ ان کے جنسی اسکینڈل میں قصوروار ہمیشہ خاتون ہی ہوتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد دوسروں کے جذبات اور احساسات کی قطعاً پروا نہیں کرتے۔ اس لیے وسیع پیمانے پر منظم جرائم ان میں کسی قسم کی ضمیر کی خلش پیدا نہیں کر سکتے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کرکٹرز میں ’ملک کانام روشن‘ کرنے کا جذبہ میچ فکسنگ کے ذریعے پیسہ کمانے کی ہوس میں بدل جاتا ہے۔ اگر کبھی یہ قانون کے شکنجے میں آ بھی جائیں تو ان کا ردِ عمل غصے اور بدمزاجی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر کرکٹ کے شیدائی قطعاً نہیں پہچان سکتے کہ کہ وہ کرکٹ کے حسن پر فریفتہ ہو کر خود اپنی عقل اور شکل دونوں کو بگاڑ چکے ہیں۔ کرکٹ پر شور و غوغا کر کے آسمان سر پر اٹھا لینا جذبات کا اظہار نہیں بلکہ جذبات کو مسخ کرنا ہے۔ یہ قابلِ رحم ذہنی بانجھ پن اورثقافتی گھٹیا پن ہے جس میں خود مسرت، حظ، لطف کا حصول مجہولیت کے درجے تک آ جاتا ہے۔ شخصیت کا ارتقا اس کا زوال اور تذلیل ہے۔ وہ اس لیے کہ ثقافتی وجود فرد کی ذات کی تکمیل کی بجائے اسے بے رحمی سے خالی کر کے اس میں ہر وہ چیز بھر دیتا ہے جو خود اس کے وجود کی تردید ہے۔ پوری قوم علمی، اخلاقی اور ثقافتی اعتبار سے ا س قدر گر جاتی ہے کہ اچھائی اور برائی، اعلیٰ ذوق اور بیہودگی، پھکڑ پن اور سنجیدگی، جھوٹ اور سچ میں فرق مٹ جاتا ہے۔اسی لیے کرکٹ ثقافتی زوال کی بہت بڑی نشانی ہے۔