حزب اللہ کے دیس میں (۲)

محمد عمار خان ناصر

امام اوزاعی نے جبل لبنان کے اہل ذمہ کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں جو ذمہ داری ادا کی، وہ اسلامی تاریخ کی کوئی نادر مثال نہیں ہے۔ اسی نوعیت کی ایک روشن مثال آٹھویں صدی کے عظیم مجدد اور مجاہد امام ابن تیمیہ کے ہاں بھی ملتی ہے۔ امام صاحب کے زمانے میں جب تاتاریوں نے دمشق پر حملہ کر کے بہت سے مسلمانوں اور ان کے ساتھ دمشق میں مقیم یہودیوں اور مسیحیوں کو قیدی بنا لیا تو امام صاحب علما کا ایک وفد لے کر تاتاریوں کے امیر لشکر سے ملے اور اس سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ تاتاری امیر نے ان کے مطالبے پر مسلمان قیدیوں کو تو چھوڑ دیا، لیکن یہودی اور مسیحی قیدیوں کو رہا نہیں کیا۔ ا س پر امام صاحب نے اس سے کہا کہ :

’’تمھیں ان تمام یہودیوں اور مسیحیوں کو جو ہمارے اہل ذمہ ہیں اور تمھارے قبضے میں ہیں، چھوڑنا ہوگا۔ ہم تمہارے پاس اپنا کوئی قیدی نہیں چھوڑیں گے، خواہ وہ مسلمان ہو یا اہل ذمہ میں سے۔ اہل ذمہ کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان کے فرائض بھی وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ ۲۸/۶۱۷، ۶۱۸)

چنانچہ تاتاری امیر کو یہودی اور مسیحی قیدیوں کو بھی رہا کرنا پڑا۔

عارف حسین نے الشیخ طاہر سلیم کردی سے ہماری ملاقات کا اہتمام بھی کیا تھا جو لبنان کے نائب امین الفتویٰ ہیں۔ یہ ملاقات بیروت شہر کے عین وسط میں واقع بے حد خوب صورت جامع مسجد محمد خاتم النبیین کے ساتھ ان کے دفتر میں ہوئی۔ مسجد ایک چوک میں واقع ہے اور اس کے ارد گرد کا سارا علاقہ بیروت کا بلکہ شیخ کے بیان کے مطابق پورے شرق اوسط کا مہنگا ترین علاقہ ہے اور یہاں جائیداد کی قیمت دوبئی سے بھی زیادہ ہے۔ شیخ کے دفتر کی کھڑکی باہر کی طرف جس سڑک پر کھلتی ہے، شیخ نے بتایا کہ ۷۵ء سے ۹۰ء تک کی خانہ جنگی کے زمانے میں یہ سڑک متحارب فریقوں کے مابین حد فاصل کی حیثیت رکھتی تھی اور سڑک کے مغرب میں واقع علاقہ مسلمانوں کے جبکہ مشرق کی طرف کا علاقہ مسیحیوں کے زیر تصرف تھا۔ دونوں فریق مسلح تھے اور باقاعدہ منظم ہو کر ایک دوسرے کے علاقوں پر حملے کیا کرتے تھے۔ شیخ طاہر سلیم ماشاء اللہ نوجوان، وسیع المطالعہ اور صاحب علم وفضل شخصیت ہیں۔ علم حدیث سے خاص شغف رکھتے ہیں۔ انھوں نے مختلف مشائخ حدیث سے اپنی ملاقاتوں کے واقعات بھی سنائے۔ دوران گفتگو مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ کا ذکر ہوا تو انھوں نے بڑی محبت اور عقیدت سے بتایا کہ وہ ان کے شاگرد ہیں اور مدینہ منورہ میں ان کی صحبتوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے الشیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ کا ذکر بھی کیا اور بتایا کہ شیخ کے انتقال سے کچھ ہی عرصہ پہلے ان کی شیخ سے آخری اور تفصیلی ملاقات ہوئی جسے انھوں نے ویڈیو کیمرے کے ذریعے سے باقاعدہ محفوظ کر لیا۔ 

شیخ طاہر سلیم نے کہا کہ فرانسیسی حکمرانوں نے اپنے دور انتداب میں مسلمانوں کے ساتھ دو بڑی زیادیاتیاں کیں۔ ایک یہ کہ ان کے تعلیمی ومذہبی اداروں کے اوقاف ضبط کر لیے جو بعد میں مختلف مذہبی گروہوں اور سرکاری تحویل میں چلے گئے۔ مثال کے طورپر انھوں نے بتایا کہ ساحل سمندر کے ساتھ واقع وہ سارا علاقہ جہاں اس وقت بیروت کا ایئر پورٹ قائم ہے اور بلاشبہ اربوں روپے کی ماہانہ آمدن کا ذریعہ ہے، یہ مسلمانوں کے اوقاف میں شامل تھا۔ شیخ نے دوسری زیادتی یہ بتائی کہ فرانس نے جانے سے پہلے یہاں تقسیم اقتدار کا ایسا فارمولا بنایا جس کی رو سے لبنان کی صدارت مستقل طور پر مارونی مسیحیوں کا حق قرار پائی۔ اس کے علاوہ بھی اہم سرکاری مناصب انھی کے پاس ہیں۔ شیخ نے بتایا کہ اب اہل تشیع اقتدار میں اشتراک کے اس فارمولے پر مطمئن نہیں ہیں اور اس تناسب کو بدلنے کے لیے وقتاً فوقتاً آواز بلند کی جا رہی ہے۔ شیخ نے یہ بھی فرمایا کہ لبنان میں مذہبی اور نسلی حوالے سے ایک خاص تناؤ پایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو بہرحال بڑی احتیاط اور توازن سے کام لینا پڑتاہے، تاہم اس ماحول میں دعوت اسلام کے بھی بڑے امکانات ہیں اور ہم پر اس ضمن میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ شیخ نے لبنان کے اہل سنت کے زیر اہتمام قائم بعض جامعات اور دعوتی اداروں کے متعلق بھی بتایا اور فرمایا کہ اگر ہم وقت نکال سکیں تو وہ ہمیں ان اداروں کا وزٹ کرانے کا اہتمام کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے تربیتی کورس کا پہلے سے طے شدہ شیڈول اس میں بھی مانع رہا اور کوئی صورت نہ بن سکی۔ شیخ طاہر سلیم سے ملاقات جتنی مفید اور معلومات افزا تھی، افسوس ہے کہ اتنی ہی مختصر بھی رہی۔ وہ اپنی مصروفیات میں سے خاص طور پر وقت نکال کر ہماری ملاقات کے لیے مسجد محمد میں تشریف لائے تھے اور اس کے بعد بھی انھیں کہیں جانا تھا۔ چنانچہ ہم عشا کی نمازپڑھ کر ان سے رخصت ہوئے۔ 

بیروت کے بعض حصوں کو دیکھنے کی تقریب ایران سے آئے ہوئے شیعہ عالم الشیخ محمد ابراہیمی نے پیدا کی۔ ریڈ کراس کے زیر اہتمام بین الاقوامی انسانی قانون سے متعلق تربیتی کورس کے لیے ہمیں بیروت کے محلے حازمیہ کے ایک مشہور اور معیاری ہوٹل فندق روتانا میں ٹھہرایا گیا تھا۔ حازمیہ مسیحی آبادی کا علاقہ ہے۔ میں نے ۲۸؍ مارچ کو ہوٹل میں پہنچتے ہی استقبالیہ سے معلوم کیا کہ یہاں قریبی مسجد کون سی ہے تو جواب ملا کہ مسجد یہاں سے خاصے فاصلے پر ہے اور شاید ٹیکسی لے کر وہاں جانا پڑے گا۔ خیر میں عصر کی نماز کے بعد باہر نکلا اور خاصی دور تک سڑکوں پر گھوم پھر کر مسجد تلاش کرتا رہا، لیکن واقعتا قریب میں کوئی مسجد نہیں تھی، البتہ ایک آدھ گرجا ضرور دکھائی دیا۔ اگلے دن فجر کے وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہوٹل کے عقب میں دور سے کہیں اذان کی مدھم سی آواز آ رہی ہے۔ خیر میں نے ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کے کمرے میں ان کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ ایک دو روز کے بعد قاری محمد حنیف جالندھری بھی پہنچ گئے اور پھر باقی ایام کے لیے وہی ہمارے مستقل امام قرار پائے۔ ہمارے قیام کے دوران میں دو جمعے آئے اور اہل عرب کو خطبہ جمعہ سنانے اور نماز کی امامت کرانے کا اعزاز باری باری قاری محمد حنیف صاحب اور ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کو ملا۔ قاری محمد حنیف صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم پر مشتمل وہ جامع خطبہ پڑھا جو برصغیر میں عام طور پر جمعہ کے موقع پر پڑھا جاتا ہے جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے اور متعدد حضرات نے ایسا فصیح وبلیغ اور جامع خطبہ پڑھنے پر انھیں داد دی۔ جمعے کی نماز سے فارغ ہوتے ہی بیشتر حضرات نے وہیں جمع بین الصلاتین کرتے ہوئے عصر کی نماز بھی ادا کرنا چاہی۔ قاری محمد حنیف صاحب نے حنفی فقہ کے مطابق معذرت کر لی تو امامت کے لیے ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب کو آگے کر دیا گیا۔ بعد میں ایک موقع پر حالت سفر میں نماز قصر کرنے کا ذکر ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے ایک عرب دوست کو بتایا کہ ہم حنفی ہیں اور احناف کے نزدیک پندرہ دن سے کم مدت سفر میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ قاری حنیف صاحب تاک میں تھے۔ انھوں نے فوراً پھبتی کسی کہ ڈاکٹر صاحب مدت سفر کے معاملے میں تو حنفی ہیں لیکن جمع بین الصلاتین کے معاملے میں نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ان کی رائے میں جمع بین الصلاتین کے جواز پر احادیث میں مضبوط دلائل موجود ہیں، اس لیے وہ حنفی ہونے کے باوجود اس مسئلے میں دوسرے ائمہ کی راے کو زیادہ درست سمجھتے ہیں۔ راقم کی رائے میں بھی یہی موقف اقرب الی الصواب ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حنفی ہونے کے باوجود دوسرے بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی شوافع وغیرہ کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (ازالۃ الخفاء ۲/۹۵)

خیر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم جس علاقے میں ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ مسیحی آبادی کا ہے، چنانچہ تین چار روز تک ہم آپس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ یہاں کے مسلمان دین سے کس قدر لا تعلق ہیں کہ پورے محلے میں کہیں کوئی مسجد نہیں ہے۔ ادھر ایران سے آئے ہوئے الشیخ محمد ابراہیمی اپنے طور پر ہوٹل سے خاصے فاصلے پر اہل تشیع کی ایک دو مسجدیں تلاش کر چکے تھے۔ ایک دن باہمی گفتگو میں مسجد کا ذکر ہوا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں مسجد کا راستہ معلوم ہے اور وہ روزانہ ایک آدھ نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے وہیں جاتے ہیں۔ چنانچہ اس دن ہم عصر کے بعد اکٹھے نکلے اور شیخ کی راہ نمائی میں ایک مسجد جا پہنچے۔ ہماری خوش گمانی تھی کہ شاید یہ اہل سنت کی کوئی مسجد ہوگی۔ مسجد کے قریب پہنچے تو کوئی نوجوان لاؤڈ اسپیکر پر نہایت خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور ذرا فاصلے سے ہی اس کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، لیکن قریب جا کر دیکھا تو وہ اہل تشیع کی مسجد نکلی۔ اب شیخ ابراہیمی ساتھ تھے اور ہمارے لیے ’پاے رفتن نہ جاے ماندن‘ کی صورت حال تھی۔ بہرحال مغرب کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا۔ قاری محمد حنیف صاحب نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابھی خاصا وقت ہے، اس لیے آگے کسی اور مسجد کی طرف چلتے ہیں۔ شیخ ابراہیمی بھی سادہ پرکار تھے، ہمیں لے کر آگے چل دیے اور تھوڑی ہی دور واقع مسجد الحسنین میں لے گئے جو لبنان کے سب سے بڑے شیعہ عالم اور مرجع الشیخ حسین فضل اللہ کی مسجد ہے جنھیں ان کے علمی مقام ومرتبہ اور تصنیفی وتحقیقی خدمات کی وجہ سے پوری شیعی دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پتہ چلا کہ علامہ حسین فضل اللہ خود تو ان دونوں خاصے علیل ہیں اور نماز کی امامت اور خطبہ جمعہ وغیرہ کی ذمہ داری ان کے صاحبزادے کے سپرد ہے۔ (اخباری اطلاع کے مطابق گزشتہ دنوں ان کا انتقال ہو گیا ہے۔)

مسجد الحسنین ایران اور عراق کے مخصوص شیعہ طرز تعمیر کے مطابق بنائی گئی بے حد خوب صورت، شاندار اور وسیع مسجد ہے اور حسن انتظام، صفائی ستھرائی اور خوش سلیقگی کا بہت عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے۔ ہم نے یہاں زندگی میں پہلی مرتبہ کسی شیعہ عبادت گاہ میں شیعہ امام کے پیچھے نماز مغرب ادا کی۔ میں صف میں کھڑا ہوا تو محسوس ہوا کہ میرے اور دائیں اور بائیں کھڑے نمازیوں کے مابین خاصا فاصلہ ہے، چنانچہ میں نے ایک طرف کے نمازی کے قریب ہو کر دوسری طرف کھڑے صاحب کو اشارہ کیا کہ وہ ساتھ ہو جائیں، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس پر دوسری طرف کے صاحب نے مجھے کہا کہ آپ واپس اپنی جگہ پر چلے جائیں۔ میں نے ذرا توجہ سے دائیں بائیں دیکھا تو پوری صف کی صورت حال یہ تھی کہ ہر نمازی مصلے پر بنی ہوئی محراب کی جگہ پر کھڑا تھا اور ہر دو نمازیوں کے مابین اتنی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی کہ مجھ جیسا دبلا پتلا نمازی وہاں آسانی سے کھڑا ہو سکتا تھا۔ خیر نماز شروع ہوئی۔ طریقہ نماز یہ تھا کہ تکبیر تحریمہ لے کر سلام تک رکوع وسجود اور قومہ وجلسہ کی تسبیحات اور دعاؤں سمیت ساری نماز جہری تھی۔ امام صاحب نے اللہ اکبر کہتے ہی فوراً سورۂ فاتحہ کی تلاوت شروع کر دی۔ نماز کے ہر رکن میں ’’اللہم صل علی محمد وآل محمد‘‘ کا ورد کیا گیا، جبکہ دوسری یا تیسری رکعت میں دعاے قنوت بھی پڑھی گئی۔ آخر میں ایک سلام سے نماز ختم کی گئی اور شیعہ حضرات کے مخصوص طریقے کے مطابق بار بار ہاتھ اٹھا کر رفع یدین کیا گیا۔ سلام پھرنے کے بعد ہر آدمی نے دائیں بائیں نمازیوں سے مصافحہ کیا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جیسے ہی امام صاحب تیسری رکعت میں سجدے سے اٹھ کر تشہد کے لیے بیٹھے، میری بائیں جانب کھڑے صاحب، جو ابتدا سے نماز میں شریک تھے، امام صاحب کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک رکعت مزید شامل کر کے چار رکعتیں مکمل کر لیں۔ پھر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میں یہاں نووارد اور شیعہ طریقہ نماز سے ناواقف ہوں، انھوں نے میرے سامنے باقاعدہ وضاحت کی کہ میں مغرب کی نماز پہلے پڑھ چکا ہوں اور یہ میں نے عشا کی نماز ادا کی ہے۔

بہرحال یہ تجربہ دلچسپ رہا۔ میرے ذہن میں اس سے پہلے شیعہ اور سنی طریقہ نماز کا نمایاں فرق یہی تھا کہ اہل سنت عام طور پر ہاتھ باندھ کرنماز پڑھتے ہیں اور شیعہ ہاتھ کھلے چھوڑ کراور یہ کہ وہ سجدے کے لیے ٹھیکری یا لکڑی کا کوئی ٹکڑا سامنے رکھ لیتے ہیں۔ (مسجد الحسنین میں، میں نے بعض لوگوں کو ٹشو پیپر پر سجدہ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔) لیکن یہاں تو معاملہ وہ نکلا کہ:

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

شیعہ امام کے پیچھے نماز کا ارتکاب کرنے کے بعد ہم تینوں سنی اکٹھے ہوئے تو باہم مشورہ ہوا کہ نماز ہو گئی ہے یا نہیں؟ قاری محمد حنیف صاحب نے بتایا کہ انھوں نے نماز دہرا لی ہے، جبکہ ڈاکٹر عصمت اللہ نے کہا کہ وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ بعد میں الشیخ طاہر سلیم کردی سے ملاقات میں ہم نے ان سے مسجد الحسنین میں نماز مغرب کی ادائیگی کا ذکر کیا اور پوچھا کہ شیعہ کے پیچھے نماز ادا ہو جاتی ہے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہاں لبنان میں معمول یہی ہے کہ اہل سنت، شیعہ کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ ہم نے پوچھا کہ معمول سے ہٹ کر اصولی طور پر اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں شیخ نے مالابار کے ایک معروف شافعی فقیہ کی کتاب ’’فتح المعین‘‘ کی یہ عبارت سنائی کہ: ’وتجوز الصلاۃ خلف الرافضی اذا لم یصرح بما یکفر بہ وکانت ارکانہا توافق ارکاننا‘ یعنی اگررافضی اپنے کفریہ عقائد کا برملا اظہار نہ کرتا ہو اور اس کی نماز کے بنیادی ارکان ہماری نماز کے ارکان کے مطابق ہوں تو اس کے پیچھے نماز ادا ہو جائے گی۔ مجھے یاد آیا کہ امام ابن تیمیہ نے بھی، جو اسلامی تاریخ میں شیعہ سنی علمی نزاعات کے حوالے سے اہل سنت کے شاید سب سے ممتاز وکیل ہیں، اپنے فتاویٰ میں روافض کے گمراہ کن اور کافرانہ عقائد پر سخت ترین تبصرے کرنے کے باوجود رافضی امام کی اقتدا میں نماز کو جائز قرار دیا ہے، بلکہ اس بات کو اہل سنت کے مقابلے میں گمراہ فرقوں کی خصوصیت شمار کیا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ 

شیخ محمد ابراہیمی جامعہ شہید بہشتی قم میں استاذ اور متعدد علمی کتابوں کے مصنف ہیں۔ نہایت سادہ، نرم خو اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا جھکاؤ اہل تشیع کے طبقہ اصولیین کی طرف تھا، چنانچہ وہ بار بار قرآن اور اس کے بعد عقل کی اہمیت پر زور دیتے اور ان کے مقابلے میں اخبار وروایات کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر اصرار کرتے تھے، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ شیعہ اصول فقہ میں عقل کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ایک مجتہد اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے براہ راست نصوص سے استنباط کا اصولی طور پر اختیار رکھتا ہے، لیکن اہل تشیع کے مراجع بھی اب اس اصول سے عملاً کام نہیں لیتے اور تقلیدی منہج پر ہی فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔ شیخ ابراہیمی سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ خلافت وامامت کے موضوع پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ ایک اجتہادی اور سیاسی نوعیت کا اختلاف تھا۔ صحابہ کی اکثریت نے یہ سمجھا کہ حضرت ابوبکر اس منصب کے زیادہ حق دار ہیں اور انھوں نے انھیں خلیفہ منتخب کر لیا۔ جہاں تک روحانی فضیلت کا تعلق ہے تو تصوف کے زیادہ تر سلسلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ اپنی نسبت سیدنا علی کے واسطے سے جوڑتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں حضرت علی کی افضلیت کو اہل سنت بھی تسلیم کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مستند شیعہ اکابر کی تصریحات اس کے برعکس ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا علی کی بیعت نہیں کی، انھوں نے ارتداد کا ارتکاب کیا۔ شیخ نے اس کا دلچسپ جواب دیا اور کہا کہ ایسی عبارات میں ’ارتدوا‘ کا لفظ تردد اور اشتباہ کے معنی میں ہے، یعنی صحابہ کو اشتباہ لاحق ہو گیا اور وہ تردد میں پڑ گئے کہ اس معاملے میں کیا فیصلہ کریں۔ تحریف قرآن کے حوالے سے شیخ نے کہا کہ اہل تشیع اس کے قائل نہیں اور موجودہ قرآن کو ہی اصل اور مکمل قرآن مانتے ہیں، بلکہ انھوں نے ایک دلچسپ بات یہ کہی کہ عام طور پر علامہ نوری طبرسی کی کتاب ’’فصل الخطاب‘‘ کو اس بات کی دلیل کے طورپر پیش کیا جاتا ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں، جبکہ مصنف نے یہ کتاب اس کے برعکس یہ ثابت کرنے کے لیے لکھی ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔ (حالانکہ مصنف نے کتاب کی تمہید میں صراحتاً اپنا مقصد ’’اثبات تحریف‘‘ بیان کیا ہے۔)

ایک دن کھانے کی میز پر ان سے جمع بین الصلاتین کے مسئلے پر بات ہوئی۔ میں نے شیخ ابراہیمی سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز کے پانچ اوقات مقرر کیے ہیں اور عام معمول میں ہر نماز اپنے اپنے وقت میں ہی ادا کی ہے تو پھر شیعہ حضرات ظہرین اور مغربین کو جمع کیوں کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک حدیث میں حالت حضر میں کسی عذر کے بغیر بھی آپ کے جمع بین الصلاتین کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ ان کا اشارہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس مشہور حدیث کی طرف تھا جس میں من غیر خوف ولا مطر نمازیں جمع کیے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ نے کہا کہ: ولکن ہذا الحدیث لم یاخذ بہ احد من الفقہاء (اس حدیث کو فقہا میں سے کسی نے بھی اختیار نہیں کیا)۔ اس پر شیخ نے برجستہ جواب دیا: نحن اخذنا بہ  (ہم نے اختیار کیا ہے)۔ البتہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب ان سے نہ مل سکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر عذر کے ہی سہی، حضر میں جمع بین الصلاتین کرنے کا واقعہ ایک آدھ مرتبہ کا ہے تو پھر اہل تشیع کے ہاں اسے ایک مستقل معمول کی حیثیت سے کیوں اختیار کر لیا گیا ہے۔ بہرحال شیخ ابراہیمی کے حسن طبیعت کی وجہ سے ان سے بے تکلفی کا تعلق بن گیا اور عمر کے باہمی تفاوت کے باوصف ہم ان کے ساتھ مزاح بھی کرتے رہتے تھے جس کا انھوں نے بالکل برا نہیں منایا۔

بیروت میں دو ہفتے کے قیام کے دوران میں پہلی مرتبہ فصیح کتابی عربی سے ہٹ کر اس عامیانہ زبان سے واسطہ پڑا جس کے قصے اور لطائف اس سے پہلے بالواسطہ سننے میں آتے تھے۔ تربیتی کورس کے بیشتر محاضرات عربی زبان میں جبکہ چند ایک انگریزی زبان میں تھے جس کے لیے فوری عربی ترجمے کا انتظام کیا گیا تھا۔ زیادہ تر ماہرین نے فصیح عربی میں گفتگو کی اور ان کا مدعا سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، تاہم مصر اور لبنان کے بعض حضرات کی زبان پر عامی لہجہ اتنا پختہ ہو چکا تھا کہ ایک علمی موضوع پر بات کرتے ہوئے بھی انھیں فصیح لہجے میں گفتگو کرنے میں دقت پیش آتی تھی۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے تو سترہ اٹھارہ سال سعودی عرب میں گزارے ہیں، اس لیے انھیں عامی لہجے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، تاہم ہمارے لیے ان حضرات کی گفتگو میں اکثر ’’زبان یار من عامی ومن عامی نہ می دانم‘‘ کی صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔ ڈاکٹر عصمت اللہ نے مختلف مواقع پر دو تین مرتبہ فاضل محاضر کو روک کر درخواست کی کہ بعض حضرات عامی لہجہ نہیں سمجھ سکتے، اس لیے ازراہ کرم فصحی میں گفتگو کی جائے۔ فاضل محاضر نے کہا کہ اچھا، میں کوشش کرتا ہوں، لیکن چند منٹ کے بعد بے ساختہ ان کی پٹڑی بدل جاتی اور وہ عامی لہجہ بولنا شروع کر دیتے۔ اس پر مجھے زمانہ طالب علمی کا ایک لطیفہ یاد آ جاتا۔ ۱۹۸۹ء میں، میں مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں درجہ رابعہ کا طالب علم تھا۔ شرح جامی کے نصف اول کی تدریس مولانا قاضی حمید اللہ خان کرتے تھے جبکہ نصف ثانی مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب کے سپرد تھا۔ کلاس میں اکثریت پٹھان طلبہ کی تھی جبکہ ایک آدھ پنجابی طالب علم بھی تھا۔ سید عبد المالک شاہ صاحب ہماری رعایت سے اردو میں سبق پڑھانا شروع کرتے، لیکن تھوڑی دیر کے بعد انھیں محسوس بھی نہ ہوتا اور وہ پشتو بولنا شروع کر دیتے۔ کچھ وقت گزرنے پر انھیں تنبہ ہوتا تو وہ فرماتے، ’’او ہو، میں پشتو بول رہا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ اردو میں تقریر شروع کرتے، لیکن یہ سلسلہ جاری رہتا۔

میں نے یمن کے الدکتور احمد سے کہا کہ مجھے مصری اور سوری لہجے سمجھنے میں کافی دقت پیش آتی ہے اور بعض اوقات لگتا ہے کہ ہم کوئی بالکل نئی زبان سیکھ رہے ہیں (انہ بمثابۃ تعلم لغۃ جدیدۃ تماما)۔ اس پر وہ بہت ہنسے اور کہا کہ بعض اوقات خود ہمیں بھی یہ لہجے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ بہرحال دو ہفتے کی مدت میں اس عامی عربی کے جو موٹے موٹے صرفی ونحوی قاعدے یا بے قاعدگیاں میری سمجھ میں آ سکیں، وہ یہ ہیں:

مضارع کے صیغوں پر باے جر داخل کرنا معمول ہے، مثلا: تَتَکلمُ کو بِتتکلمُ اور تشتری کو بِتشتری پڑھتے ہیں۔

حرف جر کے معمول اور مضاف الیہ پر جر کے بجائے رفع یا نصب پڑھا جاتا ہے، مثلاً: فی حدُّ ذاتُہُ، علی زیادۃُ وزنُہُ۔

کُلُّہا‘ یا اس طرح کی تاکیدات میں متبوع کے اعراب کی موافقت کے بجائے ہر جگہ نصب پڑھتے ہیں۔ (الشیخ طاہر سلیم کردی نے گفتگو کرتے ہوئے اسی عادت کے مطابق دو تین دفعہ ’کُلَّہا‘ کہا لیکن پھر فوراً متنبہ ہو کر اعراب درست کیا اور مجلس میں موجود ایک نوجوان فاضل الاستاذ خلیل عجینہ کی طرف اشارہ کر کے، جو عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں، کہا کہ: ’ہو یحاسبنا علی ذالک‘ یعنی وہ اس طرح کی غلطیوں پر ہمارا محاسبہ کرتے ہیں)۔

نحن کو اِحنا بولا جاتا ہے اور کیف انت کو کیفک۔ اسی طرح إِنّہ اور أَنّہ کو مخفف کر کے إِنّو اور أَنّو پڑھا جاتا ہے اور الذی اور التی نے إِلِّی کی شکل اختیار کر لی ہے۔

مصری لہجے میں جیم مستقلاً گاف پڑھی جاتی ہے جبکہ ثاء کا تلفظ عامی زبان میں مستقلاً تا کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ قاف کو کبھی گاف سے اور کبھی ہمزہ سے بدل دیا جاتا ہے۔ مثلا یقول کو یگول یا یؤل پڑھا جائے گا۔ دلچسپ صورت حال ’دقائق‘ جیسے الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جب وہ اس کو ’دء ائی‘ پڑھتے ہیں۔

لام تعریف کے ہمزہ وصل کو ملا کر پڑھنے کا کوئی تصور نہیں اور ہر کلمے کو الگ الگ ادا کیا جاتا ہے۔ مثلاً الاعترافُ الاقلیمیُّ بشرعیۃِ المُقاومۃِ الاِسْلامیَّۃ کو یوں پڑھا جائے گا: أَلإِعترافْ أَلْإِقلیمی بِشرعیۃْ أَلمُقاومۃْ أَلِاسلامیَّۃْ۔ اس میں غالباً اس پہلو سے سہولت ہے کہ ہر کلمے کا اعراب ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ 

تائے مدورہ والے ہر کلمے میں تا سے پہلے والے حرف پر کسرہ پڑھا جاتا ہے، مثلاً اللَّجنَۃُ الدَّولیَّۃُ کو اللَّجنِۃْ الدَّولیِّۃْ پڑھا جائے گا۔

لِیْہ؟‘ یہ ’’کیوں‘‘ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ دراصل لام تعلیل، اس کے بعد یاے اشباع اور آخر میں ہاے سکتہ سے مرکب ہے۔ 

بس‘ کا لفظ بالکل اردو مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً: بس عشرۃ دقائق (بس دس منٹ)۔

الدکتور احمد ابو الوفا اپنی گفتگو میں بار بار ’خَدَّ لَکَ‘ کا لفظ بول رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر عصمت اللہ سے اس کا مطلب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ غالباً یہ ’خُذْ بَالَکَ‘ (ذرا دھیان کرو) کا مخفف ہے۔ 

عربوں کے پھیکے اور ابلے ہوئے کھانے چکھنے کا بھی زندگی میں پہلی مرتبہ موقع ملا۔ غالباً مولانا مودودی نے کسی مغربی ملک کے سفر سے واپسی پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ وہاں کی ہر چیز پھیکی ہے، یہاں تک کہ عورتیں بھی۔ بیروت میں یہ شکایت صرف کھانے کے بارے میں کی جا سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے کسی معروف ماخذ میں یہ واقعہ پڑھنا یاد ہے کہ جب مسلمانوں نے بلاد شام کو فتح کیا تو ان کے امیر لشکر کی طرف سے سیدنا عمر کے نام یہ درخواست بھیجی گئی کہ مجاہدین کو یہاں کی خواتین کے حسن نے متاثر کیا ہے اور وہ آپ سے ان کے ساتھ شادی کی اجازت کے متمنی ہیں۔ کیا بھلا زمانہ تھا! البتہ یہاں حسن زن کے تجارتی استعمال کا رنگ وہی ہے جو ایک جدید مغرب زدہ معاشرے میں ہو سکتا ہے اور یہاں کی سڑکوں اور تجارتی پلازوں میں گھومتے ہوئے جگہ جگہ ایسی بے ہودہ اور واہیات تصویروں پر مشتمل سائن بورڈ نظر آتے ہیں جو نگاہوں کو شرم سے بے اختیار جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آداب طعام سے متعلق ایک خاص بد مذاقی جس کا مشاہدہ اپنے ملک میں ہوتا رہتا ہے، یہاں بھی دکھائی دی۔ بے حد تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں کو بھی دیکھا کہ کھانے کی پلیٹ خوب اچھی طرح بھر کر لے آئے اور پھر تقریباً آدھا کھانا پلیٹ میں ضائع ہونے کے لیے چھوڑ کر کوئی اور چیز لینے کے لیے چلے گئے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے بتایا کہ یہ عربوں کا عام مزاج ہے اور عرب دنیا کے کھاتے پیتے لوگوں میں یہ منظر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ 

بیروت میں مجھے خاص طور پر یہ بات جاننے کا تجسس بھی رہا کہ یہاں کے اہل تشیع کا رویہ اہل سنت کے مذہبی احساسات وجذبات اور ان کی محترم مذہبی شخصیات کے بارے میں کیسا ہے۔ مسجد الحسنین کے باہر اہل تشیع کے ایک مکتبے پر میں کچھ دیر کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہا۔ ایک کتاب کسی شیعہ عالم نے اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین نزاعی مسائل کے بارے میں مناظرانہ اسلوب میں لکھی تھی۔ مناظرے کا مزاج اور نفسیات بھی عجیب ہوتی ہے۔ سیدنا عمر پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ صلح حدیبیہ تک ان کا ایمان پختہ نہیں ہوا تھا، کیونکہ اس موقع پر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی وجہ سے اسلام کی حقانیت کے حوالے سے سنگین شکوک وشبہات کا شکار ہو گئے تھے۔ اب اگر اس واقعے کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر سیدنا عمر کے تحفظات اور شبہات دراصل ان کے ایمان واسلام کی غیر پختگی نہیں بلکہ اس کے ساتھ شدید جذباتی تعلق کا نتیجہ تھے اور وہ مشرکین مکہ کے ساتھ کسی بھی درجے کی مصالحت کو دینی غیرت کے منافی سمجھتے تھے، چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ: ’لم نعطی الدنیۃ فی دیننا؟‘ یعنی ہم اپنے دین کے معاملے میں ایک کمزور پوزیشن کیوں قبول کر رہے ہیں۔ یہ مناظرانہ نفسیات کا کمال ہے کہ ان کے اس رد عمل کو وہ مفہوم پہنا لیا جائے جو مذکورہ شیعہ مصنف نے پہنایا ہے۔ بہرحال اس نوع کی مناظرانہ بحثوں سے قطع نظر، میں نے اس ضمن میں شام اور لبنان سے تعلق رکھنے والے جن مختلف حضرات سے صورت حال دریافت کی، ان سب کا جواب یہی تھا کہ یہاں اہل سنت کو شیعہ حضرات سے خلفاے ثلاثہ یا امہات المومنین کے بارے میں سب وشتم کے طرز عمل کی شکایت نہیں ہے۔ شیخ طاہر سلیم سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو انھوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ’’ماذا تعرف عن حزب اللہ‘‘ کے عنوان سے علی الصادق کی لکھی ہوئی ایک کتاب میں بھی جو انٹرنیٹ پر عام دست یاب ہے اور جس میں حزب اللہ کے شیعی تشخص کا پہلو دلائل وشواہد کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے، یہ کہا گیا ہے کہ :

’’وہ کسی ایسے امر کا اظہار نہیں کرتے جس سے اہل سنت کے جذبات کو ٹھیس پہنچے (اور ایسا وہ تقیہ کے طور پر کرتے ہیں)، بلکہ وہ صرف مسلمانوں کی وحدت اور قابض یہودیوں کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا لیڈر حسن نصر اللہ بھی اہل سنت اور شیعہ امامیہ کے مابین نزاعی مسائل میں الجھنے سے گریز کرتا ہے۔‘‘ (ص ۱۳۳)

بیروت سے میں نے جو مختلف کتابیں اور رسائل خریدے، ان میں ایک رسالہ مصر کے فاضل محقق الاستاذ محمد سلیم العوا کا ہے جو ’العلاقۃ بین السنۃ والشیعۃ‘ کے نام سے قاہرہ کے اشاعتی ادارے سفیر الدولیۃ للنشر نے شائع کیا ہے۔ مصنف نے اس کے صفحہ ۴۶، ۴۷ پر ڈاکٹر علی جمعہ کے حوالے سے، جو پہلے مصر کے مفتی عام تھے اور اب شیخ طنطاوی کی وفات کے بعد جامعہ الازہر کے سربراہ ہیں، بتایا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بیروت کے ایک شیعہ ناشر نے معروف شیعہ عالم علامہ مجلسی کی ضخیم کتاب ’’بحار الانوار‘‘ شائع کی تو اس میں سے پوری پانچ جلدیں (۲۹ تا ۳۳) حذف کر دیں اور ڈاکٹر علی جمعہ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ان جلدوں میں ایسا مواد موجود ہے جو صحابہ کرام پر سب اور قدح کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی اشاعت فتنے کا باعث بن سکتی ہے جس میں ناشر شریک نہیں ہونا چاہتا، البتہ اس نے دیانت داری کے تقاضے سے ۲۸ ویں جلد کے بعد ۳۴ ویں جلد میں روایات کے نمبر مسلسل درج نہیں کیے تاکہ قاری پر واضح رہے کہ درمیان سے کچھ جلدیں چھوڑ دی گئی ہیں۔ میرے نزدیک اس طرح کے مسائل میں یہی رویہ بہتر اور قابل تقلید ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے یہاں کے شیعہ مصنفین اور واعظین کو بھی اس طرز عمل سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

(جاری)

مشاہدات و تاثرات

(اگست ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter